عصرِ حاضر کا اَخلاقی اِنحطاط

ڈاکٹر شفاقت علی شیخ

گذشتہ سے پیوستہ

قرآن و حدیث میں جابجا لوگوں کو دنیوی زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے اس دنیا کے عارضی اور فانی ہونے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان فرامین کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ دنیا کو بالکل ترک کردیا جائے بلکہ ضرورت کے مطابق دنیا کے حصول کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

اس لیے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی بقاء، ارتقاء اور نشوونما کے لیے وسائلِ حیات کا ہونا اشد ضروری ہے اور ان کے بغیر زندگی کی گاڑی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید کہیں تو مال و دولت کو زندگی کے قیام اور بقا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اُس کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے اور کہیں اُسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اُس کے حصول کی تلقین کرتا ہے۔

1۔ ارشاد فرمایا:

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللهُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.

(النساء، 4: 5)

’’اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو۔‘‘

2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

(الجمعة، 62: 10)

’’پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

یہاں اللہ کے فضل سے مراد مال کمانا ہے جو کہ وسائلِ رزق اور لوازماتِ حیات کے حصول کا ذریعہ ہے۔

حضور علیہ السلام نے بھی مال و دولت کی اہمیت کو مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے:

1. اليد العليا خير من اليد السفلى.

(بخاری، کتاب الزکاۃ، 2: 518، رقم: 1361)

’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘

2۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

نعم المال الصالح مع الرجل الصالح.

(صحیح ابن حبان، کتاب الزکوٰۃ، رقم: 3210)

’’نیک آدمی کے پاس پاکیزہ مال بہترین چیز ہے۔‘‘

3۔ ارشاد فرمایا:

لابأس بالغني لمن اتقى.

(مسند احمد، 5: 380، رقم: 23276)

’’پرہیز گار شخص کو مال نقصان نہیں دیتا‘‘۔

4۔ دوسری طرف مال و دولت کی بہت زیادہ قلت کو بہت بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

كاد الفقر أن يكون كفراّ.

(کنزالعمال، 6: 210، رقم: 16682)

’’قریب ہے کہ محتاجی انسان کو کفر تک پہنچا د ے۔‘‘

گویا ایک طرف دنیا کی وہ چیزیں جن کے بغیر گزارہ نہیں ہے،ان لوازماتِ حیات کا ذکر بھی کردیا۔ اور دوسری طرف ان سب چیزوں کا ذکر کر کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ یہ دنیوی زندگی کا ہی سازو سامان ہے اور چونکہ دنیا خود فنا ہونے والی ہے، لہٰذا یہ چیزیں بھی عارضی، فانی، نا پائیدار اور وقتی ہیں۔ لہٰذا ان میں غرق ہونے کی بجائے اپنی توجہ اور دھیان بعد میں آنے والی اُس ابدی زندگی کی طرف لگاؤ جہاں کی لذتیں اور راحتیں حقیقی، اصلی، پائدار اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ گویا اسلام لذائذِ دنیا سے متمتع ہونے کی ممانعت نہیں کرتا ہے۔

تاہم اس کی چند شرائط ہیں کہ ان کا استعمال حدودِشرع کے اندر رہتے ہوئے اسراف و تبذیرسے بچ کر ہونا چاہئے۔ رشتہ دار اور مسکین لوگوں کو اس میں سے حصہ دینا چاہیے۔ مزید یہ کہ ان میں اتنا انہماک نہ ہو کہ انسان اپنے خالق و مالک کو بھول جائے اور اُخروی انجام سے بے پرواہ ہو جائے۔ ارشاد فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ.

(المنافقون، 63: 9)

’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کردیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘

چنانچہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی دنیا اور اُس کے سازو سامان کی مذمت کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی دنیا قابلِ نفرت اور ترک کر دینے والی چیز ہے۔ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:

لارهبانیة فی الاسلام.

(عسقلانی، فتح الباری، 9:101)

’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔‘‘

بلکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیا کے اند رہتے ہوئے اور اس کے لوازمات کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کو نہیں بھولنا ہے۔

اسی حوالے سے ارشاد فرمایا گیا:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ لا یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ.

(النور، 24: 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘

دنیا قابلِ مذمت بنتی ہی اُس وقت ہے جب یہ خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے اور انسان کو اللہ کی یا د اور اطاعت سے ہٹا دیتی ہے مولا نا رومؒ نے اس نکتے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ مثنوی کے ایک شعر میں یوں بیان کیا

چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن

یعنی ہر وہ چیز جو انسان کو اللہ سے غافل کر دے، وہ دنیا ہے، سونا چاندی، مال و دولت اور بیوی بچوں میں سے کوئی بھی چیز بذاتِ خود دنیا نہیں ہے کہ اُسے قابلِ نفرت سمجھتے ہوئے ترک کر دیا جائے۔

دنیا کے متعلق دو زاویہ ہائے نگاہ اور اصل حقیقت

تاریخ کے ہر دور میں بالعموم دنیا اور اس کے سازو سامان کے متعلق دو زاویہ ہائے نگا ہ رہے ہیں:

1۔ لوگوں کے ایک گروہ (جوکہ بہت اقلیت میں ہے) کا خیال یہ بنا کہ دنیا اور اُس کی رونقیں ہی تمام مصائب کا سبب ہیں، یہی انسان اور خدا کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، لہٰذا ان کو چھوڑ ہی دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ چنانچہ یہ لوگ دنیوی سازو سامان سے کنارہ کشی کرتے ہوئے رہبانیت کی طرف چلے گئے جس کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے۔

2۔ دوسرا گروہ (جو بہت بڑی اکثریت میں ہے) دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک سے اس قدر مرعوب ہوا کہ وہ اسی کو مقصدِ زندگی سمجھ کر دیوانہ وار اس کی طرف لپک پڑا۔ اِسے پانے کے لیے ہر جائزو ناجائز تمام حدود کو پھلانگتا چلا گیا۔

یہ دونوں انتہائیں ہیں، جو انسان کو سیدھی راہ سے ہٹادیتی ہیں۔ ان دونوں قسم کی غلط فہمی کا بنیادی سبب دنیا اور آخرت کے درمیان صحیح تعلق کو نہ سمجھ سکنا ہے جس کی بنا پر ایک طبقہ افراط کی طرف اور دوسر ا تفریط کی طر ف چلا گیا۔ اگر دنیا اور آخرت کے درمیان رشتے کی صحیح نوعیت کو سمجھ لیا جائے توپھر انسان کے لیے گمراہی سے بچتے ہوئے صحیح نقطۂ نظر کو اپنانا آسان ہو جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس تعلق کو دو مثالوں کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے:

1۔ پہلی مثال یہ ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے اور آخرت اس امتحان کے نتیجے کا اعلان ہے۔ جس طرح کی کار کردگی کا مظاہرہ کوئی شخص دورانِ امتحان کرے گا، اُسی طرح کا نتیجہ وہ پالے گا۔ قرآن مجید میں جا بجا دنیوی زندگی کی اس حیثیت کوواضح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ زندگی اور اس میں پیش آنے والے جملہ حالات بطورِ امتحان ہیں جن کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کون شخص کس قسم کے طرزِ عمل کو اختیار کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ.

(الملک، 67: 2)

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘

ایک اچھا طالب علم نہ تو امتحان سے فرار اختیار کرتا ہے اور نہ ہی وہ کمرہ امتحان میں موجود سہولتوں میں منہمک ہو کر وقت کو ضائع کرنے کامتحمل ہو سکتا ہے بلکہ وہ اپنی تمام تر توجہ اچھے نتائج کے حصول پر مرکوز کرتے ہوئے دستیاب وقت کا ایک ایک لمحہ بہترین انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اسی طرح جو شخص جان لیتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو میرے لیے ایک امتحان گاہ بنا یا ہے۔ جہاں مجھے ایک خاص مدت تک کے لیے مہلت ملی ہوئی ہے اورآخرت میں دل پسند اور خوشگوار زندگی کا تمام تر دارومدار اس زندگی میں کیے جانے والے اچھے اعمال پر ہےتو وہ نہ تو زندگی سے راہِ فرار اختیار کرے گا اور نہ ہی دنیا کی زندگی میں منہمک ہو کر اعمالِ صالحہ سے غافل ہو گا۔ بلکہ اُ س کی کوشش ہو گی کہ ہر لمحے میں بہترین عمل سرانجام دے کر اپنے خالق و مالک کی خوشنودی اور آخرت کی ابدی سعادت کو حاصل کرلے۔

2۔ اس سلسلے کی دوسری مثال وہ ہے جس میں حضور علیہ السلام نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

ان الدنيا مزرعة الآخرة وفيها التجارة التي يظهر ربحها في الآخرة.

(عسقلانی، فتح الباری، كتاب الرقاق 11: 230، رقم: 6049)

ہر شخص جانتا ہے کہ کھیتی باڑی میں بیج بونے اور پھر اُس کی نگہداشت کا وقت ہوتا ہے اور دوسراوہ وقت ہوتا ہے جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ اوّل الذکر وقت میں زیادہ تر محنت و مشقت ہوتی ہے اور راحت و آسانی کم ہوتی ہے لیکن جب انسان اس مشقت والے وقت سے گزر جاتا ہے تو پھر اُس کے نتیجے میں آسانیاں اور راحتیں ملتی ہیں۔ یہی حال دنیا اورآخرت کا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے مصائب، شدائد اور تکالیف سے گزرنا ہوتا ہے۔

ارشاد فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ.

(البلد، 90: 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ.

(البقرة، 2: 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔‘‘

جب انسان ہر قسم کے حالات میں ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو راست روی اور اعمالِ صالحہ پر قائم رکھتا ہے تو پھر اُس کا نتیجہ ابدی راحتوں کی صورت میں میسر آتا ہے۔ جس طرح کوئی عقلمند کسان نہ تو یہ گوار کر سکتا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے بچنے کے لیے کھیتی باڑی ہی ترک کر دے اور نہ ہی خراب یا غلط بیج ڈال کر پسندیدہ فصل سے محروم ہونا چاہتا ہے، ایسے ہی ایک باشعور انسان عضوِمعطل بن کر بھی نہیں بیٹھ سکتا اور بُرے اعمال کا مرتکب ہو کر ہمیشہ کی ذلت و رسوائی کو بھی گوارہ نہیں کر سکتا۔

حقیقتِ دنیا اور عقل کا کردار

اللہ تعالیٰ نے ایک طرف وحی کے ذریعے دنیا کی حقیقت، اصلیت اور انجام ہمارے سامنے واضح فرمادیا ہے اور دوسری طرف انسان کو عقل جیسی نعمت عطافرمائی ہے جس کی مدد سے غور و فکر کر کے وہ حقائق کی تہہ تک پہنچ کر اپنے لیے درست راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ لیکن عقل کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات یہ جذبات کی خادمہ بن کر اُن کے لیے جو از تلاش کرنا شروع کر دیتی ہے۔ دنیا کی رونقیں انسان کی آنکھوں کے سامنے ہیں جب کہ آخرت کی نعمتیں نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ دنیا کے فوائد نقد ہیں جب کہ آخرت ادھار ہے۔ مزید برآں انسان کی طبعیت اور مزاج میں بھی دنیوی لذتوں اور راحتوں کے لیے امتحان کی مصلحت کے تحت ایک خاص قسم کی کشش رکھ دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے نفع و نقصان کے حوالے سے انسان کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ اب عقل اگر عقلِ سلیم ہو تو وہ وقتی جذبات سے اُوپر اُٹھ کر درست نتیجے پر پہنچتی ہے اور ہر چیز کو اُس کے مقام پر رکھتی ہے لیکن اگر عقل کی تربیت نہ ہوئی ہو تو وہ جذبات سے مغلوب اور متاثر ہو جاتی ہے اور اُن کی تکمیل کے لیے راستے ڈھونڈ نا شروع کر دیتی ہے۔ اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ عقل کی دو قسمیں ہیں:

1۔ عقلِ معاش

2۔ عقلِ معاد

عقلِ معاش وہ ہے جو صرف سامنے کے نفع و نقصان کو ہی دیکھتی ہے۔ چنانچہ وہ دنیوی زندگی کے سود و زیان کو ہی سب کچھ سمجھ کر اسی کو اپنی ترجیحِ اول بنا لیتی ہے۔ جب کہ عقلِ معاد وہ ہے جو اس فرق کو سمجھ لیتی ہے اور آخرت کو اپنی ترجیح اوّل بنا لیتی ہے۔ قرآن مجید (الانفال، 8: 67) میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.

’’ تم لوگ دنیا کا مال و اَسباب چاہتے ہو، اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے، اور اللہ خوب غالب حکمت والا ہے۔‘‘

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا. وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی.

(الاعلیٰ، 87: 16-17)

’’بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقل معاد دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اُس کی توجہ فقط اس دنیا پر مرکوز نہیں رہتی بلکہ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے دنیا کے فوائد و لذائذ کو استعمال میں لاتے ہوئے مقصود و مطلوب آخرت کو بنا لیتی ہے۔ قرآنِ مجید میں سوچ کے ان دونوں زاویوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ. اُولـٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.

(البقرة، 2: 200۔ 202)

’’پھر لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں (ہی) عطا کردے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کی (نیک) کمائی میں سے حصہ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔‘‘

جب انسان ہر قسم کے حالات میں ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو راست روی اور اعمالِ صالحہ پر قائم رکھتا ہے تو پھر اُس کا نتیجہ ابدی راحتوں کی صورت میں میسر آتا ہے۔

گویا کافر یا کا فرانہ سوچ کے حامل مسلمان کا منتہائے مقصود فقط دنیا کی چیزیں ہوتی ہیں لیکن ایک سچاِ مومن دنیا کی خیر اور بھلائی کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے مگراُس کا آخری اور انتہائی مقصود آخرت ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی معلوم ہو رہاہے کہ مقصود آخرت کو بنا لیا جائے تو دنیا ضمناً بھی مل سکتی ہے لیکن آخرت اتنی سستی نہیں ہے کہ دنیا کو مطلوب و مقصود بنا لینے کی صورت میں وہ خود بخود مل جائے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ دنیا اور آخرت میں سے انسان جس کو بھی اپنی ترجیح اوّل بنائے گا تواس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اُس کی کوششوں اور کاوشوں کا رُخ اُس طرف مڑ جائے گا، جس کی بنا پر دوسری سے توجہ ہٹ جائے گی یا کم ہوجائے گئی تو اُس میں کچھ نہ کچھ نقصان بھی برداشت کرنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

من احب دنیاه اضربا خرته ومن احب اخرته اضر بدنیاه فاثر وا مایبقیٰ علی مایفنیٰ.

(المستدرک علی الصحیحین، 4: 343، رقم: 7853)

’’جو شخص دنیا سے محبت کرے گا(یعنی دنیا کو آخرت پر ترجیح دے گا) وہ آخرت کا نقصان کر لے گا اور جو شخص آخرت سے محبت کرے گا (یعنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے گا) وہ اپنی دنیا کا نقصان کر لے گا۔ پس تم باقی رہنے والی چیز (یعنی آخرت) کو فنا ہو جانے والی چیز(یعنی دنیا) پر ترجیح دو۔‘‘

جب صورتِ حال یہ ہے تووہ انسان جس کے اندر ایک زندہ اور شعوری ایمان موجود ہو وہ دنیا کا نقصان تو گوارا کر سکتا ہے لیکن آخرت کا نقصان کسی بھی قیمت پربرداشت نہیں کر سکتا۔

اُوپر والی گفتگو سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو دنیوی سرگرمیوں میں پُر جوش انداز میں حصہ لینے سے منع کرتا ہے۔ اسلام کا کہنا تو یہ ہے کہ یہ ساری کائنات انسان کے لیے مسخر کر دی گئی ہے۔ تاکہ انسان اُنہیں اپنے قابو میں لا کر حسبِ منشاء اُن سے کام لے سکے۔ اب یہ انسان کی ہمت، طلب، جستجو اور حوصلے پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک وسائلِ حیات اور مظاہر کائنات پر قابو پا کر اُنہیں اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ سب کچھ مطلوب اور مقصود ہے صرف اس شرط کے ساتھ کہ یہ چیزیں کسی بھی درجے میں بذاتِ خود مطلوب و مقصود نہ بن جائیں بلکہ مقصودِ حیات بہر حال اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہونا چاہیے۔

قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا:

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.

(التغابن، 64: 15)

’’ تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہی ہیں، اور اللہ کی بارگاہ میں بہت بڑا اجر ہے۔‘‘

گویا مال و اولاد جو دنیوی زندگی میں ایک طرف اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں دوسری طرف یہ انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش اور امتحان بھی ہیں جن کے حوالے سے صحیح طرزِ عمل اپنا کر وہ آخرت میں سرخرو بھی ہوسکتا ہے جب کہ غلط طرزِ عمل اپنانے کی وجہ سے ناکا م و نامراد ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے حضورe نے فرمایا:

ان لکل امة فتنة وفتنة امتی المال.

(حاکم، المستدرک، علی الصحیحین، 4: 354، رقم: 7896)

’’بے شک ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہوتا ہے اورمیری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘

اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر امت میں امتحان اور آزمائش کی کوئی ایک صورت بطورِ خاص رہی ہے اور اس امت کے لیے یہ مخصوص صورت دنیا کا مال و دولت اور اسبابِ دنیا ہے۔ چنانچہ ہر دور میں دنیا کی رونقیں انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش رہی ہیں اور بہت سارے فساد جرائم اور قتل و غارت گری کا نمایاں سبب رہی ہیں لیکن اس دور میں یہ فتنہ ماضی کے تمام ادوار کی نسبت کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے زندگی کے دامن میں لذتوں، راحتوں آسائشوں اور زیب و زینت کے ان گنت سامان ڈال دیے ہیں جن کی بنا پر دنیا پہلے سے کہیں زیادہ رنگین اور دلکش ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے لوگوں کے لیے اس کی سحرانگیزی سے دامن بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ آج کا انسان مادی لوازمات کے حصول کو ہی زندگی کا اوّل و آخر مقصد سمجھ کر دیوانہ وار اُن کے پیچھے پھاگ رہا ہے اور اس سفر میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اخلاقی اقدار پامال ہو رہی ہیں اور اُصولوں اور ضابطوں کو ماضی کی فرسودہ اور دقیانوسی باتیں سمجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مادیت پرستی کی دوڑ میں انسان اتنا آگے نکل گیا ہے کہ رشتوں کا تقدس ختم ہو رہا ہے۔ خلوص، محبت، مروت، حیا، وفا اور ہمدردی و خیر خواہی جیسے الفاظ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ اُن کی جگہ لالچ، طمع، خودغرضی، بے مروتی، بے وفائی، بے حیائی، بے حسی اور سرد مہری جیسی قدریں رواج پارہی ہیں۔ انسانوں کا معاشرہ جنگل کا نمونہ پیش کر رہا ہے جہا ں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس صورتِ حال کو بدلنا ہو گا ورنہ تیزی سے زوال اور پستی کی طرف جانے والے اس سفر کا آخری انجام تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔