مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال:علمِ لدّنی کیا ہے اور کیا اس کا حصول ممکن ہے؟

جواب: علم بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:

ایک وہ علم ہے جو بندہ اپنی کوشش، محنت اور استاد سے سیکھتا ہے، اسے کسبی علم کہتے ہیں۔

دوسرا علم وہ ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے مِن جانب اللہ خود بخود قلب پر اترتا ہے، اسے علمِ لدُنّی یا علمِ وہبی، عطائی اور علمِ ربانی کہا جاتا ہے۔ امام القاشانی لکھتے ہیں:

یُرَادُ بِهِ الْعِلْمُ الْحَاصِلُ مِنْ غَیْرِ کَسْبٍ، وَلَا تَعَمُّلَ لِلْعَبْدِ فِیْهِ. سُمِّیَ لَدُنِّیًّا لِکَوْنِهٖ إِنَّمَا یُحْصَلُ مِنْ لَدُنْ رَبِّنَا، لَا مِنْ کَسْبِنَا.

(القاشانی، لطائف الإعلام فی إشارات أهل الأعلام: 323)

اِس سے مراد وہ علم ہے جو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو اور انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدّنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور ہماری محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

امام غزالیؒ نے علمِ لدُنّی کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ:

وہ علم جس کا ظہور کسی خارجی سبب کے بغیر دل پر ہوتا ہے۔

(غزالی، احیاء العلوم، 3: 30)

علمِ لدّنی کو علم الحقیقتہ اور علم الباطن بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید سے علمِ لدّنی کے اثبات کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام  اور حضرت خضر علیہ السلام  کے واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.

(الکهف، 18: 65)

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔

علماء کے نزدیک یہ آیت علمِ لدّنی کے اثبات میں اصل ہے۔ علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں ، جیسے؛ وحی، الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست وغیرہ۔ وحی تو انبیاءکرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، الہام اور کشف صلحاء و اولیاءاللہ کیلئے ساتھ خاص ہے جبکہ فراست ہر بندۂ مومن کو بقدرِ ایمان ملتی ہے۔ انبیاءکرام علیہم السلام کی وحی غلطی سے مبرا ہوتی ہے، اس میں کسی نقص کا گمان کرنا یا اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست کا اعتبار مشروط ہوتا ہے، یہ تب ہی معتبر ہیں جب خلافِ شرع نہ ہوں، اگر خلافِ شرع ہوں غیرمعتبر ہوں گے۔

علمِ لدّنی وہ علم ہے جو بغیر ذرائع اور وسائط کے براہِ راست اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں القاء کرتا ہے۔ علمِ لدّنی بغیر واسطے کے براہِ راست مردِ عارف، مردِ مومن کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وہبِ خالص ہوتا ہے اور اس میں فرشتہ بھی دخیل (involve) نہیں ہوتا یعنی اللہ اور بندے کے قلب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علمِ لدنی کا اِجراء جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا.

(الإسراء، 17: 20)

ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے۔اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔

یعنی آپ ﷺ کے ربّ کی جانب سے نبوت کے سوا بقیہ تمام عطاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ صرف نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کے منصب پر فائز فرمایا گیا ہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.

(الاحزاب، 33: 40)

محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جس اَمر کے لیے حکم فرمایا کہ یہ دروازہ بند کر دیا، پس وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کی عطا جاری رکھی ہے اور اُس کے بند ہو جانے کا واضح حکم نہیں آیا، علم اور معارف کے یہ سارے راستے اُسی طرح کھلے رہیں گے، جیسا کہ پہلے کھلے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس زمانے کے جس بندے کو چاہے گا، وہ عطا فرمائے گا۔ عین اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی زمانے کے لوگوں پر حواسِ خمسہ بند نہیں کیے۔ جیسے کل قوتِ سامعہ، باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ تھی، یہ سب آج بھی بدستور موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے دماغ کی حسِ مشترک، حسِ خیال، حسِ واہمہ، حسِ حافظہ، حسِ متصرفہ دی تھی اور دماغ کے جو قویٰ دیے تھے، وہ آج بھی لوگوں کو ملتے ہیں۔ اِسی طرح روحانی ذرائع اور نفس پر ورود و کیفیات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اِسی طرح جن چیزوں سے مکاشفہ ہوتا تھا، وہ اب بھی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ مالکِ ارض و سماوات اپنے بندوں کو علمِ لدّنی عطا کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کے بند ہونے پر قرآن کی نص نہیں آئی۔ اُس کا مطلب ہے کہ وہ سب وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا کے کلیہ کے تحت آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور نعمت بند نہیں ہوئی۔ یہ جیسے جاری تھی، ویسے ہی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔

(علمِ لدُنی کی مزید ابحاث پڑھنے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’علم اور مصادر علم‘ کا مطالعہ کریں۔)

سوال: کیا مہنگے داموں فروخت ہونے والے سافٹ ویئر غیر قانونی طریقے سے مفت ڈاؤن لوڈ کرکے بیچنا کیسا ہے؟ کسی موجد کی ایجاد کا فارمولا چرا کر اس کی مرضی کے بغیر وہ شے بنا کر فروخت کرنا کیسا ہے؟ کسی مصنف کی اجازت کے بغیر کسی پبلشر کا اس کی کتاب کو شائع کرکے کمائی کرنا کیسا ہے؟

جواب: اسلامی ضابطہ حیات ہر قسم کی چوری، خیانت اور دھوکہ دہی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جس طرح کسی کا مال چوری کرنا منع ہے اسی طرح کسی کی محنت چوری کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ اس لیے کسی کا ایجاد کردہ سافٹ ویئر، فارمولا یا شائع کردہ کتاب سے مواد چوری کر کے بیچنا اور اپنے نام سے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق دوسرے کی محنت کو اپنے نام کرنا یعنی credit لینا جرم اور باعثِ عذاب گناہ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.

(آل عمران، 3: 188)

’’آپ ایسے لوگوں کو ہرگز (نجات پانے والا) خیال نہ کریں جو اپنی کارستانیوں پر خوش ہو رہے ہیں اور ناکردہ اعمال پر بھی اپنی تعریف کے خواہش مند ہیں، (دوبارہ تاکید کے لیے فرمایا:) پس آپ انہیں ہرگز عذاب سے نجات پانے والا نہ سمجھیں، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ چوری صرف مال کی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے کی محنت کو خریدے بغیر یا اس اجازت لیے بغیر استعمال کرنے کی بھی چوری ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے کہ چوری صرف مال کی نہیں ہوتی بلکہ حقوق کی بھی چوری ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدریg سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَسْوَأَ النَّاسِ سَرِقَةً، الَّذِي يَسْرِقُ صَلَاتَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَكَيْفَ يَسْرِقُهَا؟ قَالَ: لَا يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا.

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 56، الرقم: 11549)

’’سب سے بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! نماز کی وہ کیسے چوری کرتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنی نماز کے رکوع کو مکمل نہیں ادا کرتا ہے اور نہ سجدہ صحیح ادا کرتا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں مذکورہ سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ مہنگے داموں فروخت ہونے والے سافٹ ویئر غیر قانونی طریقے سے مفت ڈاؤن لوڈ کرکے بیچنا ممنوع اور ناجائز عمل ہے۔

2۔ اسی طرح کسی موجد کی ایجاد کا فارمولا جسے اُس نے پبلک نہ کیا ہو، چرا کر اُس کی مرضی کے بغیر کوئی شے بنا کر فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔ کسی مصنف کی اجازت کے بغیر کسی پبلشر کا اس کی کتاب کو شائع کرکے کمائی کرنا بھی ناجائز ہے اور کسی کی کتاب سے مواد چوری کر کے اپنے نام سے شائع کرنا بھی ممنوع امور میں سے ہے۔

سوال: کیا موبائل پر قرآنِ پاک پڑھنے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے؟

جواب: موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چُھونا جائز ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین پر جو آیات نظر آتی ہیں، وہ ’’سافٹ وئیر‘‘ ہیں۔ یعنی وہ ایسے نقوش ہیں جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا۔ یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ’’ریم‘‘ پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے ’’غلافِ منفصل‘‘ پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ غلافِ منفصل سے مراد ایسا غلاف ہے جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو۔ ایسے غلاف میں موجود قرآنِ کریم کو بلا وضو چُھونے کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے۔

مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنه کالخريطة والجلد الغير المشرز لابما هو متصل به.

(هنديه، 1: 39)

حیض ونفاس والی عورت، جنبی اور بےوضو کے لئے مصحف کو ایسے غلاف کے ساتھ چھونا جائز ہے جو اس سے الگ ہو، جیسے جزدان اور وہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو۔ جو غلاف مصحف سے جُڑا ہوا ہو، اس کے ساتھ چھُونا جائز نہیں۔

سکرین پر نظر آنے والی آیات کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے بکس میں پیک ہو، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ غلافِ منفصل کی طرح یہ شیشہ اس جگہ سے جُدا ہے جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر صندوق کے اندر مصحف موجود ہو تو اس صندوق کوجنبی (جس پر غسل فرض ہو) شخص کے لیے اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے۔ جیساکہ امام شامی نے فرمایا ہے:

لَوْ كَانَ الْمُصْحَفُ فِي صُنْدُوقٍ فَلَا بَأْسَ لِلْجُنُبِ أَنْ يَحْمِلَهُ.

اگر قرآنِ کریم کسی بکس کے اندر ہو تو جنبی کے لیے اس بکس کو چھونے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

(ابن عابدين، رد المحتار على الدر المختار، 1: 293)

لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چُھونا اور پکڑنا جائز ہے۔ بے وضو شخص کے لیے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے، تاہم جنبی کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت ناجائز ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔