ممبر پارلیمنٹ مصر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد سے خصوصی گفتگو

نوراللہ صدیقی

جامعہ الازہر مصر یونیورسٹی کے سابق چانسلر، ممبر پارلیمنٹ و مذہبی امور کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد اور جامعہ الازہر میں استاد الحدیث پروفیسر ڈاکٹر محمد نصر اللبان منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی 40 ویں عالمی میلاد کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی دعوت پر شرکت کے لئے پاکستان تشریف لائے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد جامعہ الازہر مصر یونیورسٹی کے چانسلر رہنے کے ساتھ ساتھ مسلسل 25 سال تک اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے آئینی عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ بطور چانسلر الازہر یونیورسٹی میں اُن کا انتظامی کردار بہت سارے حوالوں سے مصر میں یادگار تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی چانسلر شپ کے عرصہ کے دوران الازہر یونیورسٹی اسلامی دنیا کے طلبہ کے لئے خاص توجہ کا مرکز بنی اور زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ جامعہ الازہر مصر میں 7 لاکھ مصری طلبہ اور 6 لاکھ غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہیں اور طلبہ کی اکثریت سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرتی ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے تدریسی و انتظامی سٹاف کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے۔ ان کی تنخواہیں اور مراعات جامعہ الازہر مصر اپنے وسائل سے مہیا کرتی ہے۔

جامعہ الازہر مصری طلبہ کو تقریباً مفت تعلیم فراہم کرتی ہے اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے حکومت کی طرف نہیں دیکھتی بلکہ یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مصر کی حکومت کو جب کبھی کسی سنگین مالی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو الازہر یونیورسٹی حکومت کی مالی مدد کرتی ہے۔ الازہر یونیورسٹی کا تعلیمی انفراسٹرکچر پورے مصر میں پھیلا ہوا ہے۔ گلی محلہ کی سطح تک کا تعلیمی نظام الازہر یونیورسٹی کے زیر انتظام چلتا ہے۔ الازہر یونیورسٹی بین الاقوامی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرگرمیوں میں بھی فعال رہتی ہے جس کی الگ سے ایک پوری تفصیل ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد اور پروفیسر ڈاکٹر محمد نصر اللبان کے ساتھ ایک عشائیہ میں خصوصی ملاقات میں ہونے والی گفتگو کا تذکرہ مقصود ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری جو ریاستِ مدینہ کے آئین کے تقابلی جائزہ کے موضوع پر جامع الازہر مصر سے پی ایچ ڈی ہیں، انہوں نے زمانہ طالب علمی کا ایک طویل عرصہ مصر میں گزارا ہے اور مصر کے سیاسی اتار چڑھاؤ کو بڑے قریب سے دیکھ رکھا ہے۔ وہ عشائیہ کے میزبان تھے اور مصر میں طویل عرصہ قیام کی وجہ سے اُنہیں عربی بول چال میں مہارت حاصل ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے عشائیہ کے دوران شرکائے عشائیہ کو معزز مہمانوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کی دعوت دی اور مترجم کے طور پر سوال و جواب کی نشست کو انتہائی مفید اور معلومات افزاء بنا دیا۔

1۔ پہلا سوال کرنے کی اجازت مجھے ملی،میں نے محترم پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد جو مصر کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں سے سوال کیا کہ مصر کا جوڈیشل اور ایجوکیشن سسٹم کس حد تک حکومتی اثر و رسوخ قبول کرتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ مصر کی حکومت جب اپوزیشن کی تنقید کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے تو تنقید کرنے والوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جاتا ہے؟ کیا اُنہیں قومی مفاد کے خلاف بیان بازی کرنے پر عدالتوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کوئی سبق سکھایا جاتا ہے؟

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے میرے سوال کا عربی زبان میں ترجمہ کر کے معزز مہمان کے گوش گزار کیا تو سوال سن کر پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد زیرِ لب مسکرائے اور پھر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ گویا ہوئے کہ حکومت جوڈیشل سسٹم کے اندر دخل دینے کی جرأت ہی نہیں کر سکتی۔ جوڈیشری سمیت ہمارے تمام ادارے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ ادارے صرف حکومت کی پالیسی کو فالو کرتے ہیں۔ پالیسی کے مطابق فرائض انجام دینا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ میں خود 25 سال تک اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے منصب پر فائز رہا ہوں اس عرصہ کے دوران کسی ایک موقع پر بھی میں اپنے آئینی و قانونی امور سے ہٹ کر عدالت کے فلور پر گویا نہیں ہوا، انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ مصر نے بھی ایک موقع پر اپنی تاریخ کے ایک سنگین سیاسی بحران کا سامنا کیا مگر اس بحران کے دوران بھی ہمارا جوڈیشل سسٹم آزادانہ کام کرتا رہا بلکہ ہمیں اس بحران سے ہمارے آزاد اور فعال عدالتی نظام نے بچایا۔

2۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ آپ ایک ماہرِ تعلیم ہیں اور جامعہ الازہر مصر میں کلیدی عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے، آپ سیاست کی طرف کس طرح آئے؟

پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد نے انتہائی متانت کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ایک ایسی سوچ اقتدار میں آگئی تھی(اخوان المسلمین) جو انتہائی رویوں پر یقین رکھتی تھی اور ان کے اقتدار کے دوران مصر کی مروجہ سیاسی، اخلاقی، دینی، سماجی، اقتصادی و معاشرتی روایات کے برعکس معاملات چلائے جانے کی شعوری کوششیں ہونے لگیں۔ در آنے والے متشدد رویے کی وجہ سے ہماری اعتدال پسند سوسائٹی کا توازن بگڑنے لگا اور نوجوان نسل متشدد رجحانات کا اثر لینے لگ گئی۔ ان حالات میں میرے سمیت بہت سارے تعلیم یافتہ افراد نے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی قومی ذمہ داری بھی پوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو متشدد رویوں سے بچائیں اور اعتدال پرمبنی روایات کا تحفظ کریں۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک تجزیہ بھی پیش کیا کہ جب ملک اور قومیں بحرانوں سے دوچار ہوتی ہیں تو سوسائٹی کے باشعور، تعلیم یافتہ اور تجربہ کار محب وطن افراد کو مرکزی دھارے سے الگ نہیں رہنا چاہیے۔ ذہین لوگ جب کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو اس کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔

3۔ میں نے فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دو مزید سوال کیے، ایک سوال مصر کی اکانومی سے متعلق تھا کہ مصر اقتصادی اعتبار سے کس چیز پر زیادہ انحصار کرتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد نے اس کا تفصیل سے جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا چونکہ مصر اپنی آغوش میں ہزاروں سال کی ثقافت کو سموئے ہوئے ہے اور ہم نے اپنے آثارِ قدیمہ کی حفاظت کی ہے۔ سیاحت کا اقتصادی سرگرمیوں میں بڑا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ نہر سوئز کی تجارتی سرگرمیاں ہماری نیشنل اکانومی کو بڑا سپورٹ کرتی ہیں، ہمارے گیس کے نیچرل ریسورسز بھی مصر کی اکانومی کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے زرعی شعبے کا بھی ذکر کیا کہ ہمارا زرعی شعبہ بھی بہتر پرفارم کررہا ہے۔ مصر کی کاٹن پوری دنیا میں اپنا ایک مقام اور پہچان رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم معدنیات کی تلاش پر بھاری انویسٹمنٹ کررہے ہیں۔

4۔ اسی جواب کے ساتھ میں نے ایک ضمنی سوال بھی کیا کہ مصر والوں کو پاکستان کی کون سی چیز بہت زیادہ پسند ہے؟۔ انہوں نے بلاتوقف جواب دیا کہ پاکستان کے لوگ بڑے پسند ہیں۔ مصر کے عوام پاکستان کے عوام سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں، ہم مصر میں غیر مصری عربی کو دیکھ کر اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا پاکستانی شہری کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بڑی جرأت اور ہمت والے ہیں۔

شرکاء میں سے بھی متعدد احباب نے سوال و جواب کی نشست میں حصہ لیا۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر اسامہ محمد حسن العبد نے کہا کہ مصر اور پاکستان کے درمیان فعال سفارتی تعلقات ہیں۔ ہم افہام و تفہیم کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی امور کو دیکھتے ہیں اور متوازن فکر اپناتے ہیں۔معزز مہمان پاکستان کے حالات کے حوالے سے بڑے متفکر تھے، اگرچہ انہوں نے محتاط لب و لہجہ اختیار کیا مگر ان کا موقف تھا کہ اپنے وطن سے محبت کریں، اتحاد ویکجہتی اور مثبت فکر قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہے۔