القرآن: زوال پذیر معاشرتی اقدار اور قرآنی احکامات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ.

(القلم، 68: 4)4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

قرآن مجیداور سنت نبوی ﷺ کی تعلیمات کا عمیق نظری سے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا دیا ہوا تصورِ روحانیت خُلقِ حسن پر قائم ہے۔ یعنی اسلامی تعلیمات میں مذکور روحانیات کی اساس اور بنیاد اخلاقیات پر ہے۔ اِسی طرح قرآن وحدیث میں جہاں اخلاقیات یا خُلق حسن کو بیان کیا گیا ہے، اُ س کی روح اور مغز روحانیت ہے۔ گویا روحانیت؛ اخلاقیات سے جدا نہیں ہے اور اخلاقیات، روحانیت سے جدا نہیں ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دینِ اسلام میں عبادت کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں جس کے اندر اخلاقیات نہ ہوں اور دین کے اندر کوئی ایک خُلق ایسا نہیں جو روحانیت کے ساتھ معمور نہ ہو۔ مگر ہم اِن چیزوں کو اِس لیےنہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے تصورات درست نہیں ہیں۔ ہمیں درست اور غلط کی حدود معلوم نہیں، وہ شرائط و آداب اور قواعد و ضوابط جو کسی عمل کو نیکی، عبادت اور مقبول بناتے ہیں، ہمیں اُن شرائط وآداب اور قواعد و ضوابط کی خبر نہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کون سے اعمال، افعال اور نیات ایسی ہیں کہ جن کے داخل ہوجانے سے وہ عمل عبادت نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات گناہ میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ان امور کے متعلق علم نہیں ہے یا ہم اس حوالے سے تعلیم وتربیت کے لیے وقت صرف نہیں کرتے یا ان تصورات کو واضح کرنے کے حوالے سے جن کی ذمہ داری تھی، وہ ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں یا نبھا نہیں سکتے یا نبھانا چاہتے نہیں۔ اس کے الگ الگ اسباب ہیں جس کی وجہ سے ہم نے اُمت مسلمہ اور آنے والی نسلوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سوئے ہوئے ہیں، ہماری آنکھیں بیدار ہیں مگر دل غفلت میں ہیں۔ نجات اسی صورت ممکن ہے کہ ہم بیدار ہوں۔ آج بیدار ہونا ہمارے اختیار میں ہے۔ اگر ہم آج بیدار نہ ہوئے تو جلد ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب ہمیں اختیار اور خواہش کے بغیر بیدار کر دیا جائے گا مگر اُس وقت کی بیداری کسی کام نہیں آئے گی۔ اُس بیداری میں ہم بے بس ہوں گے اور اس وقت بیداری کا فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ وہ بیداری موت کے بعد یومِ حشر کی بیداری ہے کیونکہ اس بیداری کے بعد پھر پلٹ کر آنا نہیں ہوگا۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم ابھی بیدار ہوں اور عقلمند اور دانش مند بنیں۔

ہم نے اپنی زندگی میں عقل مندی اور دانش مندی کا غلط معیار قائم کر لیا ہے۔ ہم دنیاوی معیارات کے حساب سے عقل مندی اور دانشمندی کو ماپتے ہیں جبکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ہاں دانش مند اور عقل مند صرف وہ ہے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے فرمان کی اطاعت کرتا ہے اور نادان وہ ہے جو نافرمان ہے۔۔۔ جسے اپنے حقیقی نفع و نقصان میں تمیز نہ رہے۔۔۔ جسے خیر اورشر کی تمیز نہ رہے۔۔۔ جس میں اچھائی اور بھلائی کا امتیاز نہ رہے۔۔۔ جسے حق اور باطل کی پہچان نہ رہے۔۔۔ جسے اِس چیز کا شعور نہ رہے کہ میرے کون سے اعمال میرے نفع میں ہیں اورکون سے اعمال مجھے نقصان پہنچائیں گے۔۔۔ کون سے اعمال مجھے فلاح اور کامیابی کی منزل تک لے جائیں گے اور کون سے اعمال مجھے ہمیشہ کے لیے دائمی ہلاکت میں پھینک دیں گے۔ جسے یہ سمجھ نہ رہے اُسی کو نادان کہتے ہیں اور جسے یہ سب کچھ سمجھ آجائے، وہ عقلمند اور دانش مند ہے۔

جو عبادت اخلاص سے خالی ہوجائےاُس کا نام ریا ہےاور ریا کار کے صرف کپڑے صاف ہوتے ہیں، اُس کا قلب اور دل نجس ہوتا ہے۔ ریا کار اپنے ظاہر کو آباد کرتا ہے مگر اُسے معلوم نہیں کہ اُس کا باطن ویران ہو چکا ہے

اس حد تک لاعلمی اور نادانی کے باوجود پھر ہم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہمیں علم ہے۔ یاد رکھیں! جاننے کا دعویٰ کرنا بھی ہمارا مغالطہ ہے، اس لیے کہ علم کسی ایسی چیز کا نام نہیں جو صرف زبان یا قلم سے ادا ہوبلکہ جو علم ہماری زندگی میں عمل کی صورت میں منتقل ہو، وہی علم؛ علمِ نافع ہے۔ جو علم نافع نہیں ہے اسے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ہاں علم کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اللہ رب العزت کے ہاں عالم کی تعریف یہ ہے کہ:

إِنَّمَا يَخۡشَى ٱللهَ مِنۡ عِبَادِهِ ٱلۡعُلَمَٰٓؤُا.

(فاطر، 35: 28)

’’بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔‘‘

گویا عالم صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں اللہ رب العزت کی خشیت مل جاتی ہے یا حاملینِ خشیت ہی صاحبانِ علم ہوتے ہیں۔ عمل اور خشیت کے بغیر علم کا جس قدر بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیں، ایک قدم بھی اللہ کی طرف راہِ حق پر آگے نہیں چل سکتے۔ اس لیے کہ اس کی بارگاہ کی طرف جانے کے لیے ہماری رفتار ہمارے دل کے احوال سے متعین ہوتی ہے، زبان اور کلام سے متعین نہیں ہوتی۔ لہذا سوال یہ نہیں ہے کہ اللہ ہم سے کتنا قریب یا کتنا دور ہے، اس لیے کہ اللہ تو ہر ایک کے قریب ہے، لہذا دیکھنا یہ ہے کہ ہم اللہ کے کتنے قریب ہیں۔۔۔؟ ہمارا اُس کے قریب یا دور ہونے کا تعین ہماری ظاہری زندگی، ظاہری لباس، ظاہری باتوں اور ظاہری مذہبی رنگ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلہ ہمارے باطن سے ہوتا ہے کہ ہمارا دل اللہ کے کتنا قریب ہے۔۔۔ دل اللہ کی ذات کے لیے کتنا مراقب اور کتنا مشاہد ہے۔۔۔ کیا ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ اللہ کو دیکھ رہے ہیں، اگریہ کیفیت نہیں تو کیا یہ تصور ہے کہ ہر لمحہ اور ہر قد م پر اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس حضوری کے تصور پر ہم کتنی نظر رکھے ہوئے ہیں؟ یہ کیفیت ہمارے قرب اور بُعد کا تعین کرتی ہے کہ ہم اللہ کے کتنا قریب ہیں اور کتنا دور ہیں۔ اللہ کے ہاں قرب وبُعد مسافتوں کے نہیں بلکہ دل کی حالتوں کے ہوتے ہیں۔ قرب کا تعین دل کرتا ہے مگر اعضاء پابند ہیں کہ وہ شریعت کی حدود میں رہیں۔ ہمارے اعمال، احکامِ شریعت کے خلاف نہ ہوں، پھر وہ دل کو راہ دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے قرب کی راہ پر چلے۔

جو اللہ کے قریب ہونا چاہے، اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس سے دور ہوجائے۔ نفس کبھی ہمیں اللہ کے قریب نہیں ہونے دے گا، نفس کبھی قلب وباطن میں اللہ کے قرب کا احساس اور شعور بیدار نہیں ہونے دے گا کیونکہ نفس کا گٹھ جوڑ شیطان کے ساتھ ہےاورشیطان نے بندوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور راہِ ہدایت سے ہٹانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے اس امر میں بے بسی کا اظہار بھی کررکھا ہے کہ

إِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ ٱلۡمُخۡلَصِينَ.

(الحجر، 15: 40)

’’سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔‘‘

یعنی تیرے وہ بندے جو نفس کے چُنگل اور نفس کی قید سے آزاد ہوں گےوہ میرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ معلوم ہوا کہ اِس بات کا ادراک شیطان کو بھی ہے کہ جو نفس سے دور ہو گئے ہیں، اُن پر میں حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ شیطان نے ہم پر حملہ نفس کے ذریعے کرنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم نفس کو خود سے دور کریں۔

باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شیطان نے لوگوں کو بہکانے کا ہتھکنڈا اور طریقہ بھی بتادیا کہ میں تیرے بندوں کو ایسا بنا دوں گا کہ جو کسی نہ کسی طور پر ہر وقت شکوہ کرنےوالے ہوں گے۔

وَ لَاتَجِدُ اَکْثَرَهُمْ شٰکِرِیْنَ.

(الاعراف: 17)

’’اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘

یعنی ہر وقت اُن کے اندر کوئی شکایت ہوگی، مثلاً: ’’مال کی کمی ہے، بے روزگار ہوگیا ہوں، پیسے کم ہیں، خرچے زیادہ ہیں، رشتے دار اچھے نہیں ہیں، دوست زیادتی کرتے ہیں، مجھ سے حسد کرتے ہیں، مجھے عزت اور قدر ومنزلت نہیں دیتے، میرے کام کی تعریف نہیں کی جاتی، میرا درجہ اوپر نہیں کیا جاتا، میں بیمار ہوں، خدا جانے میں ہی بیماری کے لیے کیوں ہوں۔ صحت نہیں، اولاد خیال نہیں رکھتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘ گویا اگر گنتے چلے جائیں تو ناشکری کی کوئی حد نہیں ہے۔ یاد رکھیں! ناشکر گزاری شیطان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے وہ بندے کو اللہ سے دور کرتا ہے۔ بندہ جونہی ناشکر گزار ہوتا ہے تو پھر اُس کی دعا بھی بے کار ہو جاتی ہے اور اس کے اعمال بھی بے کار ہوجاتے ہیں اور اس کے اندر سے توحید کا نور بجھ جاتا ہے۔

پس ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس کو قدر و منزلت دینے کا اہتمام نہ کریں۔ ہماری ساری فکر اپنے وجو د اور اپنی ذات کو عزت دینے کی طرف مرکوز ہے، جس سے ہمارے اندر عجب اور خود پسندی جنم لیتی ہے جبکہ اللہ کے ہاں قدر ومنزلت کی جگہ نفس نہیں بلکہ قلب و روح ہے۔ کسی شخص نے اگر کوئی عمل مخلوق کے لیے کیاکہ مخلوق کی نگاہ میں اُس کو قدر ومنزلت اور منفعت ملےتو جان لیں کہ اُس کا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں بلکہ مردود ہوجاتا ہے۔ فرائض اور واجبات کےعلاوہ وہ اعمال جن کی قدر اللہ کی بارگاہ میں ہوتی ہے، وہ تمام اعمال خلوتوں میں ہوتے ہیں اور شریعت کے مقرر کردہ اعمال، احکام، فرائض و واجبات، یہ جلوت میں لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ نماز باجماعت پڑھنی ہےتو جلوت میں ہوگی۔۔۔ حج کرنا ہے تو جلوت میں ہوگا۔۔۔ اعتکاف بیٹھنا ہے، وہ بھی جلوت میں ہوگا۔۔۔ مگر اعمال کی اصل اور روح خلوت میں ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں خلوت میں ملتا بھی ہے اور ہماری خلوتوں کو دیکھتا بھی ہے اس لیے کہ ہمارے وجود کی خلوت گاہ ہمارا دل ہے۔

اللہ کے ہاں قرب وبُعد مسافتوں کے نہیں بلکہ دل کی حالتوں کے ہوتے ہیں۔ قرب کا تعین دل کرتا ہے مگر اعضاء پابند ہیں کہ وہ شریعت کی حدود میں رہیں۔ ہمارے اعمال، احکامِ شریعت کے خلاف نہ ہوں، پھر وہ دل کو راہ دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے قرب کی راہ پر چلے

سلف صالحین میں سے کسی نے کہا کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کے دل پر ایک دن میں ستر مرتبہ نگاہ ڈالتا ہے۔ اس لیے کہ اُسے اپنے بندے کی خلوت گاہ اِتنی محبوب ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ اِس کی خلوت گاہ میں صرف میں ہوں یا کوئی اور ہے۔ جب ہم دل کا حال سنوارنے پر محنت نہیں کریں گے اور ظاہر کو بنانے اور سنوارنے پر تمام کوشش صرف ہوں گی تو اعمالِ صالحہ یا قربِ الہی کی طرف بڑھنے کی تمام کاوشوں کی بنیاد ہی خراب ہوجائے گی۔ اِسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إنما الأعمال بالنیات.

’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘

(صحيح البخاري، باب بدء الوحي، 3: 1، الرقم: 1)

یاد رکھیں! نیت کوئی مادی وجود نہیں ہے۔ نیت کا تعلق ظاہری اعضاء کے ساتھ نہیں بلکہ دل سے ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہ سوچ کسی کو نظر نہیں آتی۔ نیت کو چھوا جاسکتا ہے اور نہ دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ یہ محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہمارے قلب اور دماغ کے اندر موجود ایک خیال اور خواہش ہے جو چھپی ہوئی ہے۔ آقا علیہ السلام نے واضح فرمادیا کہ وہ سارے اعمال جو دکھائی دیتے ہیں، جن کا ہم ارتکاب کرتے ہیں، اُن کی قبولیت کا مدار اُس نیت پر ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔ معلوم ہوا کہ جو باطن میں ہے اُسی کی اصلاح خشتِ اوّل ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی نیتوں، قلبی تصورات و خیالات کی اصلاح کرنا ہوگی۔ وہ سارے اعمال بے وجود ہوجائیں گےجن کے پیچھے ہماری نیات نور کے ساتھ مضبوط نہیں ہیں۔ اگر بنیاد خراب ہو تو اوپر جتنی تعمیر کر لیں، وہ عمارت مضبوط نہیں ہوگی، کسی بھی وقت وہ چھت گر جائے گی۔ اگر بنیاد مضبوط ہو ا ور بعد میں تعمیر میں کوئی نقص بھی آجائے تو اُس کی تلافی اور ازالہ ہوسکتا ہے، مگر بنیاد غلط ہو جائےاور اُ س پر عماری کھڑی کر دیں تو اُس کا ازالہ اور تلافی نہیں ہوسکتی۔ پس اسی طرح اعمال، سیرت وکردار، نیکیاں، طاعات، اِن سب کی بنیاد اور خشتِ اول نیت، قلب کی کیفیت اور باطن کا حال ہے۔ اِ س لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے تمام تر اعمال کی بنیاد خالصتاً اللہ کے اخلاص پر رکھیں۔ اخلاص کے بغیر عمل کی جتنی بڑی عمارت بھی تعمیر کریں گے، وہ کام نہیں آئے گی۔ جس عمل میں نیت کے اندر اخلاص اور للہیت نہ رہی اور مخلوق کا خیال آگیا تو اُس کا نام ریا کاری رکھ دیا جاتا ہے۔

جو لوگ دنیا کے حرص وہو س اور نفس کا لباس اُتار پھینکتے ہیں اور آخرت کا لباس پہن لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ حسنِ آخرت کا معاملہ اِسی دنیا میں کر دیتا ہے اور آخرت کے اچھے احوال کی برکات اِسی دنیا میں اُن کی زندگی میں شروع ہوجاتی ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آخرت میں ریاکار کے انجام کے بارے خبر دی گئی ہے کہ

قیامت کے دن اللہ رب العزت ایک عالم، ایک امیر تاجر اور ایک شہید کو کھڑا کریں گے۔ عالم سے پوچھیں گے کہ تونے میرے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گاکہ باری تعالیٰ میں نے تیرے لیے علم حاصل کیا اور عالم دین بنا۔ میں نے تیرے دین کے علم کو پھیلایا، پوری عمر دین کی خدمت کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تونے جھوٹ بولا ہے، تو نے میرے دین کا علم اِس لیے پھیلایا اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے محنت اور کوشش کی کہ لوگ تجھے عالم جانیں اور تیری عزت کریں، یہ سب کچھ تو نے اپنی تکریم اور اپنے نفس کے لیے کیا۔ جو تو چاہتا تھا، وہ تجھے مل گیا۔ تیرے لیے آخرت میں کچھ نہیں بچا۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اِس ریا کار کو جہنم میں ڈال دو۔

پھر تاجر کو بلائیں گے اور کہیں گے کہ تونے میرے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گا کہ باری تعالیٰ میں نے مال کما کر غریبوں، یتیموں، اعزاء واقارب کو دیا، معاشرےکی فلاح کے لیے صرف کیا، مدارس اور مساجد بنائیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تو نے سار اکچھ اِس لیے کیا کہ لوگ تجھے سخی جانیں اور پورے معاشر ے میں تیری عزت وتکریم ہو۔ یعنی تو نے اپنے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ سو جو جو تو چاہتا تھاتجھے مل گیا، آج کےلیے تیرا کچھ نہیں بچا۔ حکم ہوگا کہ اس ریاکار کو جہنم میں پھینک دو۔

پھر شہید کو بلایا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے میرے لیے کیا کیا؟وہ کہے گا کہ باری تعالیٰ میں نے تیرے دین کا نام بلند کرنے کےلیے اور وطن کی حفاظت کے لیے جنگ لڑی، حتی کہ میں نے جان دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیری نیت یہ تھی کہ میدان جنگ سے بچ کر آگیا تو غازی بنوں گا، میڈل اور تمغے ملیں گے، زمینیں ملیں گی اور بڑی عزت و شہرت ہوگی، ترقی ہوگی، لیکن تیر ی موت واقع ہو گئی۔ سو تو بھی جو کچھ چاہتا تھا، وہ مل گیا، اب آخرت میں تیرے لیے کچھ نہیں بچا۔ فرمایا جائے گاکہ اِس ریا کار کو جہنم میں پھینک دو۔

(صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، 3: 1513، الرقم: 1905)

معلوم ہوا کہ وہ عمل جو دیکھنے میں تو نیک دکھائی دیتا ہے لیکن نہ نظر آنے والی نیت نے اُس عمل کی ماہیت کو تبدیل کردیا، ہم لوگ عمل کے اعتبار سے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہیں:

1۔ کچھ لوگ خالص مخلوق کے لیے عمل کرتے ہیں۔

2۔ کچھ لوگ خالص اللہ کے لیے عمل کرتے ہیں۔

3۔ کچھ لوگ اللہ اور مخلوق دونوں کےلیے عمل کر تے ہیں۔

ہماری اکثریت تیسرے درجہ والی ہے کہ نیت میں اللہ اور مخلوق کو ساتھ ملا رکھا ہے۔ عمل کرتے وقت ہماری کیفیت ملی جلی ہوتی ہے، عبادت اور نیکی اللہ کے لیے بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کچھ اور چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اگر اِس حوالے سے اپنا ٹیسٹ کرنا ہوتو آسان ٹیسٹ ہے کہ جب کوئی بندہ ہماری تکریم نہ کرے تو محسوس کریں کہ ہمیں دکھ ہو اہے کہ نہیں؟ اگر دکھ ہوتاہے تو سمجھ لیں کہ خالق کے ساتھ مخلوق كو اپنی نیت کے تخت پر بٹھایا ہوا تھااور اگر کوئی تکریم نہ کرے اور ہمیں محسوس ہی کچھ نہ ہو تو سمجھ لیں کہ ہم ریا سے پاک ہیں۔ اِس لیے کہ ہم نے تو وہ عمل مخلوق کے لیے کیا ہی نہیں ہے بلکہ وہ تومولیٰ کو راضی کرنے کےلیے کیا۔ پس ہمارا نفس ہمیں بتاتا ہے کہ یہ عمل ہم کس کےلیے کررہے ہیں۔ لہذا اِس کیفیت سے نکلیں اور نکلنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جہاں خالق اور مخلوق دونوں یکجا ہیں، وہاں سے مخلوق کو نکال دیں اور مخلوق کو نکالنے کا آسان طریقہ نفس کے خلاف جنگ ہے۔

جس کو مطلوب ومحبوب بنالیا جائے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طلب اور محبت کی گنجائش نہ رہے۔ اگر باقی خواہشات بھی رہیں تو جان لیں کہ محبت کا دعویٰ باطل ہے

جو عبادت اخلاص سے خالی ہوجائےاُس کا نام ریا ہےاور ریا کار کے صرف کپڑے صاف ہوتے ہیں، اُس کا قلب اور دل نجس ہوتا ہے۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص یہ ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا کہ میں ریا کاری کر رہا ہوں یا دکھلاوے کےلیے کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ اُس کا شعور اِتنی گہرائی تک گیا ہی نہیں ہے حالانکہ اُس کے اندر ہی سارا کچھ چھپا ہوا ہے۔ شیطان اورنفس نے اس پر اِتنے پردے ڈال دیئے کہ اُس کو اپنی نیت کی حقیقت بھی سمجھ میں نہیں آتی یا وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اُس کا سارا زہد، ورع، پرہیزگاری اوردینداری ظاہر کی اطاعت ہوتی ہے۔ ریا کار اپنے ظاہر کو آباد کرتا ہے مگر اُسے معلوم نہیں کہ اُس کا باطن ویران ہو چکا ہے۔ ہمیں اس ظاہر پرستی کے لباس کو اتارنا ہوگا اور ایک ایسے لباس کو پہننا ہوگا جو اِس سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس ظاہر پرستی کے لباس نے ہمیں دھوکے میں مبتلا رکھا ہے، جب یہ اُتر جائے گا تو اللہ رب العزت اپنی قدرت، نعمت اور رحمت کے ہاتھ سے اخلاص اور رضا کا نیا لباس پہنائے گا۔ وہ لباس حقیقی زہد وورع، اخلاص، اللہ کی رضا، حقیقی طاعت اور آخرت کا لباس ہوگا۔ جب آخرت کا لباس پہنیں گے تو اللہ کے حضور جانے کے قابل ہوں گے۔ اس کے برعکس ہوس پرستی کا لباس پہن لیا تو سوچیں کہ اللہ کے حضور کس حال میں جائیں گے۔۔۔؟ کیا کیفیت ہوگی۔۔۔؟ کس طرح اس کے سامنے کھڑے ہوں گے۔۔۔؟

جب ہم اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونے کی تیاری کریں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہمیں لباس بھی دے گا، حسن وخوبصورتی بھی دے گا، طاقت و قدرت بھی دے گا، نعمت بھی دے گا، احسان بھی کرے گا اور ہماری ساری ہمتیں یکجا کرکے ہمیں مضبوط ومستحکم کردے گا۔ پھر سارا جہاں ہمیں نقصان پہنچانا چاہے بھی تو کوئی ہمارا نقصان نہیں کر سکتا۔ نقصان اُسی کا ہوتا ہے جو لوگوں سے فائدے کی امید رکھتا ہے۔ جب لوگوں سے فائدے کی ہماری امید ہی ختم ہو گئی تو ہم اللہ کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔

سلف صالحین اور اولیاءاللہ کی حقیقت کیا ہے؟وہ اِسی دنیا میں رہتے ہیں مگر دنیاوی زندگی کے اندر اللہ تعالیٰ اُن کو حسنِ آخرت کی شان عطا کر دیتا ہے۔ حُسنِ آخرت کی شانوں میں سے ایک شان یہ ہے کہ اولیاء وہاں شفاعت کریں گےتو اُن کی شفاعت مانی جائے گی، اُن کی شفاعت سے بخشش ہوگی، اُن کی تکریم ہوگی، ملائکہ گروہ در گروہ انھیں لے کر آئیں گے، انھیں تختوں پر بٹھائیں گے، یہ عزت اور شان وشوکت حُسنِ آخرت ہے۔ جو لوگ دنیا کے حرص وہو س اور نفس کا لباس اُتار پھینکتے ہیں اور آخرت کا لباس پہن لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ حسنِ آخرت کا معاملہ اِسی دنیا میں کر دیتا ہے۔ آخرت کے اچھے احوال کی برکات اِسی دنیا میں اُن کی زندگی میں شروع ہوجاتی ہیں۔

اولیاء کرام میں سے ایک طبقہ کو ابدال کہتے ہیں۔ اِس کی مختلف وجوہِ تسمیہ ہیں۔ اُن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابدال کو اِس لیے ابدال کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے کو اللہ کے ارادے سے بدل دیتے ہیں، یعنی یہ لوگ اپنے ارادے کا اختیار اپنی زندگی میں ختم کر دیتے ہیں اور اللہ کے ارادے کو اپنے اوپر نافذ کر دیتے ہیں۔ اگر ہم اِس طرح اپنے ارادے کا اختیار یعنی نفس کا کنڑول اور نفس کا اقتدار ختم کر دیں اوراللہ کا اقتدار قائم کر دیں تو اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس کے لیے ہماری طلب صحیح ہو جائے گی۔ ہماری تو ابھی اللہ کے لیے طلب اور ارادت ہی صحیح نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم سچے طالب ہیں اور اللہ ہمارا مطلوب اور محبوب ہے تو جس کو مطلوب ومحبوب بنالیا جائے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طلب اور محبت کی گنجائش نہیں رہتی۔ اگر باقی خواہشات بھی رہیں تو دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ ہم دنیا کی کثرت، عزت اور ناموری اور شہرت کی طلب بھی رکھتے ہیں اور ہر حرص وہوا ہمارا مطلوب ہے جبکہ طالبِ صادق کی طلب اللہ کی ذات ہوتی ہے۔

ایمان، احسان، توحید، رسول ﷺ کے تعلق اور روحانی اخلاقیات کے باب میں اصل دولت مندی یہ ہے کہ دولت مند بننے کی ہوس نہ رہے۔ حقیقی دولت مند وہ ہے جسے دولت مند بننے کی خواہش نہیں رہی۔ قلب کی یہ بے نیازی تمام امراض کا علاج کر دیتی ہے اورمشکلات کو ختم کردیتی ہے۔

اولیاءکاملین اور عرفاء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کچھ لوگ طالبانِ دنیا ہوتے ہیں، یعنی دنیا کو طلب کرنے والے ہوتے ہیں، کچھ طالبانِ آخرت ہوتے ہیں، جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ لوگ طالبانِ مولیٰ ہوتے ہیں، جنہیں آخرت کا بھی لالچ نہیں رہتا صرف اللہ کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔

بعض عرفا تو اس سے بھی زیادہ لطیف بات کرتے ہیں اور وہ بات ہر ایک کو سمجھ میں آنے والی بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ کے حاملین کا مقام ہے۔ عرفا و اولیاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی یہ خواہش کرے کہ میں واصل باللہ ہوجاؤں، ولی اللہ بن جاؤں، قطب بن جاؤں، عارف باللہ بن جاؤں تو یہ خواہش کرنا بھی اللہ کی بارگاہ میں غیر کی خواہش کرنا ہے۔ اُنہیں اللہ کا وصال نصیب ہی نہیں ہوتا جو واصل باللہ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گویا خدا سے واصل وہی ہوتا ہے جو وصال کا خیال بھی چھوڑ دیتا ہے اور صرف موصول إلیہ یعنی مولیٰ کا خیال رکھتا ہے۔ الغرض جب سوائے مولیٰ کے کسی اور چیزکی طلب اور ہوس نہ رہے تو وہ واصل باللہ ہوجاتا ہے اور یہ مقام تب ملتا ہے جب نیت میں خالصیت پیدا ہوجائے۔ یہ معاملہ اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے جو اپنے دل و جان میں اللہ کو ایک جانتا ہو۔ اس کو ایک ہر کوئی مانتا ہے مگر سوال اسے ’’ماننے‘‘ کا نہیں بلکہ اسے ’’جاننے‘‘ کا ہے کہ کیا ہمارا دل اس کو ایک جانتا ہے؟ اگر دل اس کو ایک جانے تو پھر ہر شے سے بے خطر ہوجاتا ہے اور اسے کسی کا خطرہ نہیں رہتا اور نہ ہی اس کے دل میں کوئی ہوس و لالچ پیدا ہوتی ہے۔

یاد رکھیں! توحید، اللہ کی محبت، زہد، ورع، اُس کی رضا، یہ سب کچھ صرف بدن اور زبان سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ حالتِ قلب سے ہوتا ہے، کیونکہ تقویٰ، محبت اور قرب یہ سارے معاملات قلب کے ہیں اورہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے تمام افکار و نظریات کا محور ہی مخلوق ہے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ جتنے قدم ہم مخلوق کی طلب، حرص اور اس سے عزت کی تمنا کے لیے چلیں گے، مخلوق اسی قدر ہمارے آگے آگے چلے گی۔

أَرَءَيۡتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ.(الفرقان، 25: 43)

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ ‘‘

جو ہوائے نفس اور مخلوق کو اپنا معبود بنا لے تووہ جتنے قدم مخلوق کی طرف چلے گا، اُتنے قدم اس کا دل اللہ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔

قربِ الہٰیہ کا حصول صحبتِ صالحہ سے ممکن ہے

قربِ الہٰیہ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی صحبتوں اور ہم نشینی کا جائزہ لیں کہ ہماری صبح و شام کن لوگوں کے ساتھ اور کن مقاصد کے تحت گزرتی ہے۔ ذیل میں چند ایسی صحبتوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے، جنھیں اپنانے سے ہم اللہ رب العزت کی قربت کی دولت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں:

1۔ سب سے بہترین اور آسان صحبت قرآن مجید کی ہے۔ اگر قرآن مجید کی صحبت میں جم جائیں اور گہرائی میں چلے جائیں تو قرآن کی صحبت اللہ کی صحبت تک پہنچا دیتی ہے۔

2۔ دوسری صحبت حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث، سنت طیبہ او رسیرت مبارکہ کی صحبت ہے۔ یعنی ہمارا ہر عمل آقا علیہ السلام کی سیر ت کے مطابق ہونا چاہیے۔ حضور علیہ السلام کی سیرت وسنت کی صحبت اختیار کریں گے تو وہ آقا علیہ السلام کی صحبت عطا کرے۔ اِ س لیے کہ اللہ کی توجہ ہر وقت اپنے بندوں پر اور آقا علیہ السلام کی توجہ اپنے غلاموں پر قائم رہتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ نے ارشاد فرمایا:

يَتۡلُواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِهِ وَيُزَكِّيهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ.(الجمعة، 62: 2)

’’ وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘

آیت میں مذکور چاروں چیزیں صحابہ کرامl پر ختم نہیں ہو گئیں بلکہ ان کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔ صحابہ کرامl اس کے سب سے اولین مخاطب تھے اور اِن نعمتوں کے سب سے پہلے فیضیاب ہونے والے تھےمگر یہی چشمے قیامت تک پوری اُمت کے لیے جاری ہیں۔ سلف صالحین سے لے کر آج تک اور قیامت تک ہر امتی جب قرآن میں غورو فکر کرتا ہے، اس کی تلاوت کرتا ہے تو انوارِ قرآن اس پر نازل ہو تے ہیں۔ اسی طرح آقا ﷺ آج تک بطریقِ سنت، بطریق ِ سیرت، بطریق ِ توجہ، بطریقِ فیض اور بطریق ِ رحمت پوری اُمت کا تزکیہ فرما رہے ہیں۔

کتاب یعنی قرآن مجید کا علم آج تک آقا علیہ السلام عطا فرمارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی ایک ایک آیت کے معانی، مطالب، معارف اور اسرار و حکم نئے سے نئے امت کو عطا ہوتے جارہے ہیں۔ اب ہم پر منحصر ہے کہ اپنے باطن کو کتنا صاف کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی جسمانی صحبت تو آج اُمت کو میسر نہیں ہےلیکن اب امت کو حضور علیہ السلام کی سنت، سیرت، متابعت، محبت، تعظیم، تکریم اور پیروی کی شکل میں صحبت میسر ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ ہم جتنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی صحبت میں بڑھتے جاتے ہیں، اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ اُسی قدر اپنا کرم کرتے چلے جاتے ہیں۔

3۔ تیسری صحبت اولیاء و صالحین اورنیک دوستوں کی صحبت ہے۔ یہ صحبت قلبی، روحانی، فکری اور ان کی تعلیمات پر عمل پیراہونے کی صحبت ہے۔ ضروری نہیں کہ اولیاء و صالحین کی صحبت صرف جسمانی شکل میں ہو، روحانی تعلق کی صورت میں بھی صحبت ہوسکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جسمانی صحبت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ کی ذات جسم سے پاک ہے مگرپھر بھی وہ کہتا ہے :

أنا جلیس من ذکرنی.

(ابن أبی شيبة، المصنف، 1: 108، الرقم: 1224)

’’جو میرا ذکر کرتا ہے میں اُس کا ہم مجلس ہوتا ہوں۔‘‘

گویا اللہ بھی اپنے بندے کے ساتھ ہم نشینی فرماتا ہے۔ اِ س سے یہ اُصول ثابت ہوا کہ صحبت میں جسمانیت کاہونا ضروری نہیں ہے۔ صحبت روحانیت کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے اپنے دل کو کتنا کسی کے قریب کیا ہے۔۔۔ اور اپنے عمل کو کتنا اس کی متابعت و پیروی میں لائے ہیں۔۔۔ پس جس قدر ہم متابعت، محبت، اتباع، پڑھنے اور سننے کی طرف متوجہ ہوتے چلے جائیں گے، اسی قدر ہمیں صحبت ملنا شروع ہوجائے گی۔ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تو اُن کی صحبت میں ہیں۔۔۔ حضرت غوث الاعظمؒ کی تعلیمات کو پڑھتے، سمجھتے اور عمل کرتے ہیں تو اُن کی صحبت میں ہیں، ۔۔۔ خواجہ غریب نواز، بابا فرید الدین، حضرت جنید بغدادی رحمھم اللہ الغرض جن جن اولیاء و صالحین کی تعلیمات کو پڑھتے، سمجھتے اور عمل کرتے ہیں تو ہم متابعت کے طریق سے اُن کی مصاحبت میں ہیں۔ کیونکہ متابعت مصاحبت عطا کرتی ہے۔ یہ ایک راز ہے مگر افسوس کہ ہم اِس راز کوبھول گئے۔

ہمیں جو نجاست نظر آتی ہے، اس پر فکر مند ہوتے ہیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے دلوں کی نجاستوں کو دیکھتے اور ان کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے انھیں پاک کرنے کی فکر کرتے ہیں

لہذا ضروری ہے کہ دل کو صاف کیا جائے۔ ہم زمین پاک دیکھنا چاہتے ہیں، کپڑے پاک پہننا چاہتے ہیں، اس لیے کہ ہمیں زمین اور کپڑوں کی نجاست نظر آتی ہے اور جو نجاست نظر آتی ہے، اس پر فکر مند ہوتے ہیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے دلوں کی نجاستوں کو دیکھتے اور ان کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے انھیں پاک کرنے کی فکر کرتے ہیں۔

حضرت بایزید بسطامی کی مجلس میں ایک شخص آیا اور کھڑا ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ آپ نے پوچھا کہ دائیں بائیں کیا دیکھ رہے ہیں؟ اُس نے کہا کہ میں کوئی پاک وصاف جگہ دیکھنا چاہتا ہوں جہاں میں نماز پڑھوں۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹے دل کو پاک کر لو ہر جگہ صاف نظر آئے گی۔ صرف جہاں نجاست نظر آرہی ہو، اس کے علاوہ باقی ساری زمین صاف ہے، اس لیے دل کی پاکی اور صفائی کی طرف زیادہ متوجہ ہوا کرو۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دل، نیت اور باطن کے علاوہ باقی ہر شے کو پاک صاف دیکھنا چاہتے ہیں اور سب سے بڑی پلیدی اور نجاست ریاکاری، حرص، ہوس اور ناشکری کی صورت میں ہمارے اندر موجود ہے۔ ان سے باطن کو صاف کریں گے تو تب ہی ہم اس کے قریب ہوسکیں گے۔

جو لوگ دین اور ایمان میں کمزوری کا باعث بنتے ہیں اُن سے دور رہنا اور جو لوگ دین اورایمان میں مضبوطی کا باعث بنتے ہیں، اُن کے قریب ہونا، اللہ کے قرب کے حصول کا سبب ہے

امام حسن بصریؒ اور سلف صالحین کہتے ہیں کہ جس کسی سے دوستی کرنے کا ارادہ ہوتو پہلے سوچا کر وکہ یہ دوستی آخرت میں اور قیامت کے دن میرے کام آئے گی یا نہیں۔۔۔؟ جو آخرت میں کام کی نہیں ہے اُس کو یہیں چھوڑ دو۔ کسی کو دوست بنانے لگو تو دیکھو کہ کیا یہ دوستی مجھے اللہ کے قریب کرے گی۔۔۔؟ یہ دوستی میرے دین کو مضبوط کرے گی۔۔۔؟یہ دوستی میری زندگی میں نیکی کا اضافہ کرے گی۔۔۔؟ یہ دوستی میرے علم میں اضافہ کرے گی۔۔۔؟ یہ دوستی مجھے آخر ت میں اچھا کرے گی۔۔۔؟ یہ دوستی مجھے دنیا سےدور کرے گی۔۔۔؟ میرے اندر گناہ کم کرے گی۔۔۔؟میری زندگی میں امن و محبت کو غالب کرے گی۔۔۔؟ یہ دوستی کا پیمانہ ہے، جب یہ سوچ کر دوستی کریں گے تو وہ دوستی اللہ کے لیے ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في والمتزاورين في والمتباذلين في.

(مالک، الموطأ، 2: 953، الرقم: 1711)

’’میری خاطر آپس میں محبت کرنے والوں اور ایک دوسرے کی ہم نشینی اختیار کرنے والوں اور ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں پر میری محبت واجب ہوگئی۔‘‘

گویا دوستی کا معیار یہ بنائیں کہ وہ دنیا کا نفع نہ دے بلکہ آخرت کا نفع دے۔ اپنی دنیاوی ضرورتوں کے تحت تعلق جیسے کاروبار، روزگار، دوکان، گاہک وغیرہ یہ دنیاوی واجبات میں ہیں۔ اِن چیزوں کے علاوہ جب ہم سکون اور راحت چاہتے ہیں اور تھوڑا وقت کسی کے ساتھ گزارتے ہیں تو اس وقت کے لیے ہم نشین اور جلیس کا انتخاب کرنا، اللہ کے لیے اور دین کے حوالے سے ہونا چاہیے تاکہ اُس کے ذریعے آخرت میں حشر اچھا ہو، نیکی میں اضافہ ہو اور گناہ میں کمی ہو۔ اگر ابرار، اخیار، اہلِ علم، اہلِ تقویٰ، اہلِ معرفت اور نیکی کے کام کرنے والوں کی صحبت مل جائے تو وہ سب سے اعلیٰ ہے لیکن اگر بُرے دوست بنانے ہیں تو بُری دوستی سے تنہائی بہتر ہے، یعنی صحبتِ اشرار سے بچنا بہتر ہے۔ صحبت کا انتخاب دین کے اہم ترین اُمور میں سے ہے۔

امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ جس کی دوستی سے دین کو نقصان ہو۔۔۔ عبادت میں کمی یا غفلت آجائے۔۔۔ ایمان، دین اور یقین میں کمی اور کمزوری آجائے، تساہل آجائے تو ایسے لوگوں سے دور رہنا اللہ کے قریب کر دیتا ہے۔ یعنی جو لوگ دین اور ایمان میں کمزوری کا باعث بنتے ہیں اُن سے دور رہنا اور جو لوگ دین اورایمان میں مضبوط کرتے ہیں اُن کے قریب ہونا، اللہ کے قرب کے حصول کا سبب ہے۔

اولیاء و صلحاء ہمیشہ کہتے ہیں کہ طبیعتیں ایک دوسرے کو چوری کرتی ہیں۔ یعنی دوست دوست کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے، طرزِ تکلم، گفتگو کا انداز، لب ولہجہ اور بولی میں اثر آجاتا ہے۔ بندہ بولی سے پہچاناجاتا ہے کہ اِس کا اُٹھنا، بیٹھنا کس کے ساتھ ہے، اس کی صحبت اور معاشرت کس کے ساتھ ہے، الغرض اخلاقیات بدل جاتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ:

المرء علی دین خلیلہٖ.

(احمد بن حنبل، المسند، 2: 334، الرقم: 8398)

بندہ اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔

جو دوستوں کی چیزیں ہوتی ہیں وہی لاشعوری طور پر ہم اپناتے چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ ہم اس کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ نیک صحبت ہوگی تو نیکی آتی چلی جائے گی، بری صحبت ہو گی تو بُرائی آتی چلی جائے گی۔

ایمان، احسان، توحید، رسول ﷺ کے تعلق اور روحانی اخلاقیات کے باب میں اصل دولت مندی یہ ہے کہ دولت مند بننے کی ہوس نہ رہے۔ قلب کی یہ بے نیازی تمام امراض کا علاج کر دیتی ہے اورمشکلات کو ختم کردیتی ہے

آقا ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

مثل الجليس الصالح والسوء كحامل المسك ونافخ الكير فحامل المسك إما أن يحذيك وإما أن تبتاع منه وإما أن تجد منه ريحا طيبة ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك وإما أن تجد ريحا خبيثة.

(الصحیح البخاری، 5: 2104، الرقم: 5213)

یعنی نیک لوگوں کی صحبت ایسے ہے جیسے عطارکی دوکان میں جانا۔ خرید لیں تو عطر لے آئے، نہ بھی خریدیں تو تب بھی خوشبو لے کر آتے ہیں۔ اور بُری صحبت وسنگت اور دوستی ایسے ہے جیسے لوہار کی بھٹی کے پاس جانا، جس میں آگ جل رہی ہے۔ کچھ خریدیں یا نہ خریدیں، کوئی نہ کوئی چنگاری لباس کو جلادے گی یا بھٹی کی سیاہی اور بدبو ہمارے لباس میں سرایت کرجائے گی۔ یعنی ہم کسی بھی طور اس کے اثرات سے نہیں بچ سکتے۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ ا گر کسی نے دوست بنانا ہو تو ایسی صورت میں پانچ چیزیں دیکھیں:

1۔ پہلے یہ دیکھیں کہ اُس کی سوچ اور فکر کی سمت کیا ہے؟ اُس کی سوچ میں مادیت اور دنیا کا حر ص ولالچ غالب ہے یا دین و آخرت اور اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ کے احکام غالب ہیں؟

2۔ اُس کا اخلاق دیکھیں کہ اچھا اخلاق ہے یا بُرا اخلاق ہے؟

3۔ اس کے عمل میں اُ س کی نیکی دیکھیں کہ نیکی غالب ہے یا بدی غالب ہے؟

4۔ یہ دنیا کا حریص ہے، چوبیس گھنٹے مال، دولت اور پیسہ کی بات کرتا ہے یا آخرت کی بھی بات کرتا ہے؟

5۔ یہ جھوٹ تو نہیں بولتا۔ جس میں جھوٹ نظر آئے اسے دوست نہ بنائیں۔

(الغزالی، إحیاء علوم الدین، 2: 171)

مذکورہ بالا پانچ اعمال و اخلاق دیکھ کر فیصلہ کریں کہ اِس کے ساتھ دوستی کرنی ہے یا نہیں۔ جب دوستی کرلیں تو ہمیشہ جو اپنے لیے چاہیں، وہ دوست کے لیے چاہیں۔۔۔ جو اپنے لیے ناپسند کریں وہی دوست کے لیے ناپسند کریں۔۔۔ اچھے اور نیک معاملات میں اُس کی مدد کریں اور اس کے حقوق ادا کریں۔۔۔ اُس کی کوئی بُرائی، کمزور ی نظر آجائے تو اس پر پردہ ڈالیں۔۔۔ پریشانی اور مشکل ہو تو پریشانی کودور کریں اور اس کی مدد کریں۔۔۔ حاجت ہو تو حاجت روائی کریں۔ اُ س کی تعظیم و توقیر کریں۔۔۔ چھوٹا ہے تواُس پر شفقت کریں۔۔۔ اس کو حقیر نہ جانیں۔۔۔ اور س کو ذلیل نہ کریں اور اس کے بارے میں بدگمانی نہ رکھیں۔

مذکورہ نصیحتوں کو اپنانے سے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ہمیں طالب بننے، سلوک کی راہ پر گامزن ہونے اور محسنین کے مرتبہ و درجہ تک پہنچنے کی توفیق میسر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال و احوال پر خصوصی نظر و کرم فرمائے اور اپنی قربت سے ہمیں بہرہ یاب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ