ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا.
(البقرة، 2: 269)
’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔‘‘
سوال یہ ہے کہ حکمت کیا ہےجس کو قرآن نے خیرا کثیرا قرار دیا ہے؟ حکمت درحقیقت عقل وقلب کی اس فراست اور راہنمائی کا نام ہے جس کی مدد سے قانونِ اسلامی کی تشکیل آسان ہو جاتی ہے، جس کے سبب تفہیمِ دین اور ابلاغِ اسلام کاعمل مؤثر ہو جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خیر کثیر حفاظتِ دین پر منتج ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی جانب متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
من یرد الله به خیرا یفقهه فی الدین. (متفق علیہ)
’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اُسے دین میں تفقہ و بصیرت عطا کرتا ہے۔‘‘
لفظِ حکمت متعد د معانی میں استعمال ہوتا ہے:
1۔ ’’اہم ترین حقائق کو اہم ترین علوم سے دریافت کرنا حکمت کہلاتا ہے۔‘‘
(اردو دائرة معارف اسلامیة، ج: 8، ص: 667)
2۔ امام راغب اصفہانی حکمت کا معنی بیان کرتے ہیں:
الحکمۃ اصابۃ الحق بالعلم والعقل.
(مفردات القرآن، ص: 126)
’’علم اور عقل کے ذریعے سے حق اور سچ کو پہچان لینے کو حکمت کہتے ہیں۔‘‘
3۔ صاحب لسان العرب یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’افضل اور بہترین چیز کو بہترین علم کے ذریعے جاننا حکمت کہلاتا ہے۔‘‘
(لسان العرب، ج 5، لفظ مادہ ح )
4۔ لفظ حکمت متعدد مطالب اور مفاہیم رکھتا ہے۔حکمت کی بات عقل کی راہنمائی کرتی ہے، قلب کو بصیرت دیتی ہے اور اشیاء کی حقیقتوں سے متعارف کراتی ہے۔ حکمت ہر شے کو اس کے مناسب اور موزوں محل میں رکھتی ہے۔ حکمت کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن بات کی قوت ملتی ہے۔ برائیوں کی صحیح نشاندہی ہوتی ہے اور ان کا صحیح علاج میسر آتا ہے۔ حکمت سے انسانی ذہن کو اعلیٰ ترین تدبیر کا تصور ملتاہے۔ حکمت کے ذریعے اللہ کے احکام اور معارف سے انسان آگاہ ہوتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ حکمت سراسر فراست کا نام ہے۔
(عرائس البیان فی حقائق القرآن، ص: 6)
انسان میں ذکاوت و ذہانت کا ہونا اور تعقل اور سرعتِ فہم کا ہونا حکمت کی استعداد کو بڑھانے کا موجب ہے۔ اسی طرح ذہن کی طہارت اور صفائی کا ہونا بھی انسان کی حکمت میں اضافہ کرتا ہے۔امام مالکؒ حکمت کو نور قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
الحکمۃ نور یھدی بہ اللہ من یشاء.
حکمت ایک نور کا نام ہے اللہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے ہدایت عطا کرتا ہے۔
درحقیقت علم میں سب سے بڑے اور بلند مقام کو حکمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان علم میں جب حکمت کے مقام پر پہنچتا ہے تو یہ کسی شے کو بڑی گہرائی کے ساتھ جانتا ہے اور پھر اس کےسارے پہلوؤں کو سامنے رکھ کر حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔اسی بنا پر حکیم اُس ذات کو کہتے ہیں، جو مخلوقات اور،تخلیقات کی باریکیوں تک باکمال طریق سے پہنچ جائے اور اُن میں اتقان ومضبوطی پیدا کردے۔
قرآن مجید میں بھی متعدد پیرائے میں حکمت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتَیْنٰـہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا.
(مریم، 19: 16)
’’ اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی۔‘‘
یہاں الحکم کا معنی العلم والفقہ ہے یعنی ہم نے اُن کو علم اور فہم وفراست کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اس اعتبار سے صاحبِ حکمت محض جاننے والا نہیں بلکہ کسی بھی چیز کو اس کے تمام پہلوؤں کے تنا ظر میں گہرائی کے ساتھ جاننے والا ہوتا ہے۔
حضرت لقمان کے لئے فرمایا:
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰـنَ الْحِکْمَۃَ.
(لقمان، 31: 12)
’’اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت و دانائی عطا کی۔‘‘
یہاں حکمت کا لفظ علم و عقل کے ذریعے بات کو اس کی حقیقت کے ساتھ دریافت کر لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
حکمت میں کسی چیز کو علی وجہ البصیرت و علی وجہ الکمال جانا جاتا ہے۔ احکامِ شرعیہ میں کسی حکمِ شرعی کو اُس کے علم اور اُس کے عمل کے اسرار کے ساتھ جاننے کا نام حکمت ہے۔ کسی شے کے فقط حلال اور حرام کو جاننا حکمت نہیں بلکہ اُن کی حلت وحرمت کے پوشیدہ رازوں کو بھی جاننا حکمت کہلاتا ہے۔ اہل سلوک کے ہاں حکمت کا لفظ معرفتِ آفات کا نام ہے اور پھر نفوس و شیاطین کی آفات کو دورکرنے کے لیے ریاضت و مجاہدہ کے طریقوں کو جاننے کا نام ہے۔
حکمت درحقیقت عقل وقلب کی اس فراست اور راہنمائی کا نام ہے جس کی مدد سے قانونِ اسلامی کی تشکیل آسان ہو جاتی ہے، جس کے سبب تفہیمِ دین اور ابلاغِ اسلام کاعمل مؤثر ہو جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خیر کثیر حفاظتِ دین پر منتج ہوتی ہے
حکمت کسی چیز کو اُس کے تمام تر فوائد اور مصالح کے ساتھ جاننا ہے۔ جو انسان موجودات کے احوال کا کامل علم حاصل کر لے۔۔۔ اپنی ذات میں تہذیب الاخلاق کو پالے۔۔۔ اپنی اندرونی معاشرت میں تد بیر منزل کی حقیقت پالے۔۔۔ اور اپنی خارجی معاشرت میں سیاستِ مدن کے رازوں کو جان لے، وہ صاحبِ حکمت ہے۔
(اردو دائرۃ معارف اسلامیہ، ج: 8، ص: 468-469)
ابن سینا کےنزدیک حکمت کا اطلاق تمام علوم اور اُن کی شاخوں پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر جملہ دنیاوی و دینی علوم کو ان کی حقیقت و ماہیت کے ساتھ جاننا حکمت کہلاتا ہے۔
چودہ سو سال قبل رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس نے اُمت کو قیامت تک تخلیق و تشکیل ہونے والے تمام علوم کا سب سے زیادہ وارث، طالب، امین، حقدار اور مستحق ٹھہرایا ہے اور زمانے کے ہرعلم کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اُمت مسلمہ کو قیامت تک تمام علوم وحکم کا وارث بناتے ہوئے ان کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے یوں فرمایا:
الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن حیث ما جدھا فھو احق بھا.
(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4169)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں اُمت مسلمہ کی وراثت کا قیامت تک کے لیے تعین کردیاہے کہ علم وحکمت کی بات ہی اس کی گمشدہ میراث ہے، اور یہی اُمت علم و حکمت کی وارث ہے۔ اس دنیا میں ہمارے دوسرے حقوق بعد میں ہیں، سب سے پہلا ہمارا حق اور فرض علم و حکمت کا حصول ہے۔ ہمیں اس حکمت سے اپنے وجود کو بھی روشن کرنا ہے اور سارے جہاں کو بھی روشن و تاباں کرنا ہے۔
زعمائے امت اور اقوالِ حکمت
انسانوں کی سیرت اور شخصیت بنانے میں ان کی سوچ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اگر سوچ اعلیٰ ہوجائے تو انسان اپنے عمل میں ارفع ہوجاتا ہے۔ سوچ کا بلند تر ہونا عمل کی عظمت کی شہادت دیتا ہے۔ ذیل میں امتِ مسلمہ کے چند اکابرین کے اقوالِ حکمت و دانش کا مطالعہ کرکے زندگی کی کامیابیوں کے رازوں کو معلوم کرتے ہیں:
1۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
1۔ آٹھ چیزیں زینت بنتی ہیں: فقر کی زینت پرہیزگاری بنتی ہے۔ دولتمندی کی زینت شکر ہے۔ بلاء کی زینت صبر ہے۔ شرف و بزرگی کی زینت تواضع ہے۔ عالم کی زینت حلم ہے۔ حقیقی طالب علم کی زینت عاجزی و فروتنی ہے۔ احسان کی زینت احسان نہ جتلانا ہے اور نماز کی زینت خشوع و خضوع ہے۔
2۔ بڑائی؛ تقویٰ میں ہے۔ دولت؛ توکل میں ہے اور عظمت؛ تواضع میں ہے۔
3۔ بدبخت وہ ہے جو خود تو مرجائے مگر اس کا جاری کردہ گناہ نہ مرے بلکہ جاری و ساری رہے۔
4۔ سحر خیزی میں پرندوں کا تم پر سبقت لے جانا تمہارے لیے باعثِ شرم ہے۔
5۔ علم پیغمبروں کی میراث ہے جبکہ مال و دولت قارون اور فرعون کی میراث ہے۔ تم پیغمبروں کی میراث کے طالب بنو۔
6۔ اس بات کو یاد رکھو کہ جس کام میں نیک نیتی شامل نہ ہو، وہ کام بخوبی مکمل نہیں ہوتا ہے۔
7۔ ماں باپ کی خوشنودی دنیا میں موجبِ دولت اور عاقبت میں باعثِ نجات ہے۔
8۔ مصیبت کی جڑ اور بنیاد انسان کی گفتگو ہے۔
9۔ انسان کی ذمہ داری خیر کی تدبیر کرنا ہے جبکہ غیب کا علم تو اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے۔
10۔ دل مردہ ہے، اس دل کی زندگی علم سے ہے۔
11۔ زبان ہی انسان کو اکثر مصیبت کا شکار کرتی ہے اور زبان سے شکوہ نہ کرنے سے ہی دل کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
12۔ اللہ سے بندے کا تعلق صرف اور صرف اطاعت سے قائم ہوتا ہے اور اس کے حکم کی پیروی سے یہ تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اس بات کو بخوبی جان لو کہ تمہارے اعمالِ اطاعت کا بدلہ ضرور ملے گا اور اللہ کی ہر نعمت اطاعت سے ہی میسر آتی ہے۔
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
1۔ اپنا بوجھ اللہ کی مخلوق میں سے کسی پر نہ رکھو خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ہو۔ یعنی اپنی وجہ سے کسی کو پریشانی میں مبتلا نہ کرو۔
2۔ اگر صبر اور شکر دو اونٹ ہوتے تو مجھے ان پر سوار ہونے کے لیے کسی ایک پر ترجیح کی ضرورت نہ پڑتی۔
3۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب مجھے تحفے میں بھیجتا ہے یعنی مجھے عیوب پر مطلع کرتا ہے۔
4۔ اپنے راز کو اپنی ذات تک محدود رکھنے والا اپنے ہی اختیار کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔
5۔ ایسی غلطیوں سے بچو جن سے چشم پوشی نہ ہوسکے اور ایسی لغزشوں سے بچو جو معاف نہ کی جاسکیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں جلد بازی نہ دکھاؤ اور نہ کوتاہی کرو، ورنہ دنیا کا آرام و سکون غارت ہوجائے گا اور آخرت میں بھی ناکامی ہوگی۔
6۔ پہلے اپنی اصلاح کرو، پھر دوسرے لوگوں کی اصلاح کرو۔
7۔ فتح صرف امید سے نہیں ملتی بلکہ علم، عمل اور اللہ کی ذات پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔
8۔ اے اللہ! مجھے ایسا کردے کہ میں علم کے ساتھ بولوں اور علم کے ساتھ ہی خاموش رہوں۔
9۔ جو شرارت اور سازش سے غالب آتا ہے وہ حقیقت میں غالب نہیں ہے بلکہ مغلوب ہے۔ جو ناجائز طریقے سے کامیاب ہوا ہے، وہ کامیاب نہیں بلکہ ناکام شخص ہے۔
10۔ جس شخص میں تکبر دیکھو تو اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے۔
11۔ جو شخص اپنے فکرو عمل، شجاعت و بہادری، تحمل و صبر، عدل و انصاف کے اوصاف میں نمایاں دکھائی نہ دے، اسے ہرگز اپنا حاکم نہ بناؤ۔
12۔ اپنا محاسبہ خود کیا کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
13۔ انسان کو چاہیے اپنے اہل و عیال میں بچے کی طرح رہے لیکن جب ان کو کوئی ضرورت پیش آجائے تو پھر مرد بن جائے۔
14۔ کسی بھی منصب پر فائز ہونے سے قبل اس کا علم حاصل کرو اور ہمیشہ سادہ زندگی اختیار کرو۔
15۔ کسی بھی شخص کے اخلاق پر بھروسہ اس وقت تک نہ کرو جب تک اس کا غصہ نہ دیکھ لو۔
16۔ لوگوں سے اچھی طرح پیش آنا عقل کی نشانی ہے اور نصف عقل ہے اور کسی چیز کو احسن انداز میں دریافت کرنا آدھا علم ہے۔
17۔ ندامت چار طرح کی ہے: ایک دن کی ندامت یہ ہے کہ کوئی مہمان گھر سے کھائے بغیر چلا جائے۔ سال بھر کی ندامت یہ ہے کہ جب زراعت اور کاشتکاری کا وقت ہو تو وہ وقت غفلت میں گذر جائے۔ عمر بھر کی ندامت یہ ہے کہ جب شریک حیات سے موافقت نہ ہو۔ ابدی اور ہمیشہ کی ندامت یہ ہے کہ تیرا رب تجھ سے راضی نہ ہو۔
18۔ کوئی مقصود و مطلوب؛ خوف کے بغیر نہیں ملتا۔ اچھی خصلت؛ ادب کے بغیر نہیں ملتی۔ خوشی؛ امن کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ دولت؛ سخاوت کے بغیر نہیں ملتی۔ فقیری؛ قناعت کے بغیر میسر نہیں آتی۔ رفعت کا گوہر تواضع کے بغیر نہیں ملتا۔ جہاد فی سبیل اللہ کی سعادت توفیق الہٰی کے بغیر میسر نہیں آتی۔
19۔ تین چیزوں کے اختیار کرنے سے لوگوں کی باہم محبت بڑھتی ہے: ایک دوسرے کو ملتے وقت سلام کریں۔ دوسرے لوگوں کے لیے مجلس میں جگہ خالی کریں اور اپنے مخاطب کو بہترین اور باعزت نام کے ساتھ پکاریں۔
20۔ لوگوں کے معاملات وہی سنوار سکتے ہیں جو اپنے ارادے کے پکے ہوں اور کسی دھوکے میں نہ آنے والے ہوں۔
3۔ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
1۔ اے انسان اگر تو گناہ کا ارادہ کرنا چاہتا ہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں خدا نہ ہو۔
2۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا پیٹ ہے۔
3۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کو چاہیے وہ اللہ کے سوا کسی اور کا نہ بنے۔
4۔ اللہ کے ساتھ محبت کرنے والوں کو تنہائی و خلوت محبوب ہوتی ہے۔ یعنی وہ بے جا میل جول سے پرہیز کرتے ہیں۔
5۔ اے انسان تجھ پر افسوس ہے کہ ایک جانور تو اپنے مالک کو پہچانتا ہے مگر تو اپنے مالک کو نہیں پہچانتا ہے۔
6۔ وہ علم بے سود ہے جس پر عمل نہ کیا جائے۔۔۔ وہ مال بے سود ہے جو خرچ نہ کیا جائے۔۔۔ وہ پرہیزگاری بے سود ہے جس کی آڑ میں دنیا طلب کی جائے۔۔۔ وہ لمبی عمر بے سود ہے جس میں آخرت کے لیے کچھ سامان نہ کیا جائے۔۔۔ وہ اچھی رائے بے سود ہے جس کو قبول نہ کیا جائے۔
7۔ اس شخص پر تعجب ہے جو موت کو حق جانتا ہے پھر بھی آخرت سے غفلت اختیار کرتا ہے۔۔۔ اس شخص پر بھی تعجب ہے جو دنیا کو فانی جانتا ہے اور پھر بھی اس کی رغبت رکھتا ہے۔۔۔ اس شخص پر بھی تعجب ہے جو تقدیر کو حق جانتا ہے اور پھر جانے والی چیز پر غم بھی کرتا ہے۔
8۔ جو بات اللہ نے نازل نہیں کی ہے اس میں غلو اور تشدد سے کام نہ لو۔ یعنی اپنے اندر تحمل و برداشت پیدا کرو۔
9۔ حد سے زیادہ تواضع نفاق کی نشانی ہے اور عداوت کا پیش خیمہ ہے۔
10۔ تو اپنی ذات و شخصیت میں کتنا ہی مفلوک الحال اور کم حیثیت ہوجائے، اس کے باوجود کبھی بھی مغلوب الحال نہ بنو۔
11۔ تلوار کے زخم سے جسم درست ہوجاتا ہے جبکہ بری گفتار کا زخم روح کو بھی متاثر کرتا ہے۔
12۔ تعجب اس شخص پر جو خدا کا رزق کھاتا ہے مگر کام شیطان کے کرتا ہے۔
13۔ غصے کا بہترین علاج خاموشی میں ہے۔
14۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں ایک سرائے کی ہے۔ آخرت کے مسافروں کو کچھ دیر ٹھہر کر یہاں سے اپنا توشہ آخرت لینا ہے۔ سرائے میں موجود سب چیزوں کا لالچ نہیں کرنا ہے۔
15۔ زندگی کا ایک مقصد بنالو پھر ساری قوت و طاقت اس مقصد کے حصول کے لیے لگادو، یقیناً اس طرز عمل سے کامیاب ہوجاؤ گے۔
16۔ علم دولت سے بہتر ہے، اس لیے کہ تم دولت کی حفاظت کرتے ہو اور علم تمہاری حفاظت کرتا ہے۔
17۔ ذلت اٹھانے سے بہتر ہے کہ کچھ تکلیف اٹھالو۔
18۔ معصیت کی وجہ سے عبادت میں سستی پیدا ہوتی ہے اور معاشی تنگی آتی ہے۔
19۔ نعمت کا غلط جگہ پر خرچ کرنا نعمت کی ناشکری ہے۔
4۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
1۔ آدمی کا ایمان احکامِ شریعت کو تسلیم کرنے اور اطاعت پر کاربند رہنے سے معلوم ہوتا ہے۔
2۔ کسی بھی آدمی کی جہالت کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے عیوب پر نظر نہ کرے اور لوگوں پر ایسی باتوں پر طعن نہ کرے جنھیں وہ خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔
3۔ آرزوئیں انسان کو فریب دیتی ہیں اور حقائق سے دور لے جاتی ہیں۔
4۔ اپنی باہمی آراء کو اسی طرح ملا لو جیسے پانی اور دودھ مشک میں مل جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ایک صحیح اور درست رائے پیدا ہوجائے گی۔
5۔ آداب انسان کے لیے اس کا خوبصورت لباس ہیں۔
6۔ احسان شرفاء کے ساتھ کیا جائے تو وہ احسان مند رہتے ہیں۔
7۔ ہر شخص کی سواری دن اور رات ہے۔ گھر میں مقیم شخص یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے حالانکہ وہ ہر لحظہ سفر کررہا ہے۔ وہ اپنے سفرِ حیات کی مسافت کاٹ رہا ہے۔
8۔ حق ایک نہایت روشن راستہ ہے، حق کو لازم پکڑو، حق کی موافقت کرو، حق اور اہل حق کا دامن مت چھوڑو، حق میں بحث و تکرار نہ کرو۔ حق بات کہنے سے بعض لوگ حجتیں نکالتے ہیں جبکہ باطل ایسی تیز چال رکھتا ہے کہ اکثر لوگ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ حق تمہاری مرضی کے خلاف بھی ہو تو اس کو نہ چھوڑو۔
9۔ آدمی کی قدر اس کے دو چھوٹے اعضا زبان و دل سے متعین ہوتی ہے۔ اگر بات کرے تو زبان کی پرزور دلیل کے ساتھ کرے اور اگر میدان میں آئے تو پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ آئے۔
5۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
1۔زبان کی حفاظت کرو کیونکہ عزت و ذلت کی یہی ذمہ دار ہے۔
2۔ حق پر قائم رہنے والوں کو کبھی ذلت نہیں اٹھانا پڑتی، خواہ سارا زمانہ ان کے خلاف ہوجائے۔
3۔مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے کرو نعمتوں کی حفاظت شکر سے کرو۔
4۔ سچائی کی مشعل سے استفادہ کرو، یہ نہ دیکھو کہ مشعل بردار کون ہے۔
5۔ عظمت صرف ایک حصہ ودیعت ہوتی ہے، ننانوے حصے عظمت؛ محنت اور ریاضت سے حاصل ہوتی ہے۔
6۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
1۔ لوگوں کی ضرورتوں کا تم سے وابستہ ہونا تم پر خدا کی عنایت و رحمت ہے، اس لیے نعمت سے ملول نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ وہ عداوت سے بدل جائے۔
2۔ سرداری مسلسل جدوجہد سے ملتی ہے۔ اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کو تم سمجھ نہیں سکتے یا حاصل نہیں کرسکتے۔
3۔ سب سے اچھی زندگی اس کی ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غیروں پر بھروسہ نہ کرے۔
4۔ جس طرح شبنم کے قطرے مرجھائے ہوئے پھولوں کو تازگی بخشتے ہیں، اسی طرح اچھے الفاظ مایوس دلوں کو جلا بخشتے ہیں۔
خلاصۂ کلام
آیئے ہم اپنے زمانے کی ساری حکمتوں کے وارث بنیں۔ ہم اعلیٰ افکار کو اپنی میراث بنائیں اور ارفع کردار کو اپنی حیات کا شعار بنائیں، ہم دین کی حکمتوں کو سیکھیں۔ قرآن اور حدیث کے معارف و اسرار کوجانیں۔ زندگی میں کامیابی اور سرخروئی کے رازوں کو پائیں۔ اسلام کی تعلیمات کو اپنائیں۔ تحقیق علم کو اپنی شناخت بنائیں۔ ہمارے قومی اور ملی زوال نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے،ہم اپنی کھوئی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کریں۔
باری تعالیٰ ہمیں خود کو بدلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایک مسلمان کو عامل بالقرآن والسنہ، صاحب کردار اور اہل زمانہ کے لیے قابل تقلید نمونہ بنائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
(اس مضمون کے اگلے حصہ میں ائمہ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام اور اکابرین کے اقوالِ حکمت پیش کیے جائیں گے۔)
(جاری ہے)