شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علوم الحدیث پر 8جلدوں پر مشتمل الموسوعۃ القادریہ فی علوم الحدیثیہ (Encyclopedia of Hadith Studies) کی عظیم الشان تقریب رونمائی یکم اکتوبر2023ء ایوانِ اقبال لاہور میں ہوئی، جس میں ممتاز علمی شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ تقریب کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا۔ اس تقریب میں نقابت کے فرائض علامہ حافظ سعید رضا بغدادی، علامہ ڈاکٹر میر آصف اکبر اور نظامت تربیت کے ناظمین نے سرانجام دیئے۔ ناظم اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم خرم نواز گنڈا پور نے خطبہ استقبالیہ میں جملہ مہمانانِ گرامی کا اس پروقار تقریب میں شرکت پر شکریہ ادا کیا اور خوش آمدید کہا۔ ڈائریکٹر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ محترم محمد فاروق رانا نے الموسوعۃ القادریہ کا تعارف، اسلوب اور اس تالیف کی غرض و غایت کو بیان کیا۔
اظہارِ خیال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری:
الموسوعۃ القادریہ کی تقریب رونمائی سے اظہار خیال کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا کہ اسی ایوان اقبال میں قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی تقریب رونمائی تھی تو اس موقع پر میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس کے بعد انسائیکلو پیڈیا آف سنہ آئے گا اور اس وقت میرا اندازہ یہ تھا کہ یہ 40 جلدوں پر مشتمل ہوگا لیکن یہ 40 جلدوں کی بجائے 60 جلدوں پر چلا گیا ہے اور تمام جلدیں میری طرف سے مکمل ہوکر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے حوالے کردی گئی ہیں۔ الموسوعۃ القادریہ کی آٹھ جلدیں دراصل انسائیکلو پیڈیا آف سنہ کی 60 جلدوں کا مقدمہ ہے۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل مقدمہ میں احادیث نبوی ﷺ کا ذخیرہ جمع نہیں کیا گیا بلکہ اس میں علم الحدیث کی مباحث کو جمع کیا گیا ہے۔ مثلاً: حجیت حدیث کی ابحاث تاکہ منکرین کی طرف سے حجیت حدیث کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کا رد کیا جاسکے اور حدیث و سنت نبویہ کی حجیت کو قرآنی دلائل کے ذریعے ثابت کیا جاسکے۔ اس لیے کہ احکامِ شرعیہ کو جاننے، ماننے اور ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید کی طرح سنت نبوی بھی اسی طرح لازم و واجب ہے۔
اس موسوعۃ میں حدیث کی انواع و اقسام پر ابحاث جمع کی گئی ہیں۔ مصطلح الحدیث، روایت حدیث کے قواعد، جرح و تعدیل کے قواعد ہیں جو کہ 72 کی تعداد پر مشتمل ہیں تاکہ راوی کے ہر ہر احوال پر جرح و تعدیل کی جاسکے کہ اس کی روایت قبول کرنے کے قابل ہے یا نہیں اور اس کی روایت کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
پھر حدیث کے حوالے سے بہت بڑا اعتراض ہوتا ہے کہ اس کی تدوین تو حضور ﷺ کے زمانہ اقدس کے اڑھائی سو سال بعد میں ہوئی ہے یعنی ائمہ صحاح ستہ کے زمانہ کو لے لیا جاتا ہے اور منکرین حدیث کی طرف سے غلط فہمی کی وجہ سے یا کم علمی اور لاعلمی کی وجہ سے حدیث کے پہلے مرتب اورمدون ہی ائمہ صحاح ستہ کو قرار دیا جاتا ہے، یہ غلط فہمی ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے کتب موجود تھیں لیکن اڑھائی سو سال کے خلا کا تصور دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس خلا کی بنا پر ہم حجیتِ حدیث کو کیسے قبول کرلیں، کیا پیمانہ ہے کہ یہ حدیث صحیح طور پر روایت ہوئی؟ تو اس مغالطے کا رد اس انسائیکلوپیڈیا میں موجود ہے۔ ایک مکمل جلد تدوینِ حدیث کی تاریخ پر لکھی گئی ہے۔ عہد نبوی سے لے کر امام بخاری و مسلم کے زمانے تک کا جو درمیانہ وقفہ ہے، عہد رسالتمآب ﷺ ، عہد صحابہؓ، عہد تابعین، اتباع التابعین اور سلف الصالحین حتی کہ امام بخاری و مسلم کے آنے سے پہلے کا جو دور ہے اس کے حوالے سے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حدیث نبوی عہدِ نبوی سے لے کر آج تک کسی زمانہ میں بھی غیر محفوظ نہیں رہی۔ یاد رکھیں کہ امام بخاری و مسلم کا contribution حدیث جمع کرنے یا مرتب کرنے کا نہیں بلکہ حدیث صحیح کے معیارات قائم کرکے غیر صحیح سے جدا کرکے ایک مختصر جامع وضع کرنے کا ہے۔
موسوعہ کی آخری جلدوں میں اسماء و رجال کا تذکرہ ہے۔ ان میں ان ائمہ حدیث کا ذکر کیا ہے جو جرح و تعدیل کے فن میں ماہر تھے۔ ایک ہزار کے قریب ایسے افراد کو منتخب کر کے فہرست مرتب کی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان تمام صدیوں میں حدیث کی روایت کی ثقاہت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک پہرے دار کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی طرح کے اور بہت سی مباحث ان آٹھ جلدوں میں جمع کی گئی ہیں۔
60 جلدوں پر مشتمل اس انسائیکلو پیڈیا آف سنہ میں 4 جلدوں میں حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ بیان کیے گئے ہیں۔ ۔ ۔ مختصر جامع الکبیر کی صورت میں صرف حدیث صحیحہ لے کر امام جلال الدین سیوطی کی الجامع الکبیر کا اختصار کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح جامع السنہ بھی اس موسوعہ کا حصہ ہے۔ ۔ ۔ جامع الاحکام فی حدیث خیرالانام بھی اس موسوعہ کا حصہ ہے۔ ۔ ۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی روایت کردہ احادیث پر مبنی مسند امام علی جو 15 ہزار احادیث کا مجموعہ ہے، وہ بھی اس انسائیکلو پیڈیا آف سنہ کا حصہ ہیں۔
اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس کی توفیق اور حضور نبی اکرم ﷺ کی توجہات کے باعث یہ سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ خدمتِ دین کے باب میں ہماری اس نوکری کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
اظہارِ خیال مہمانانِ گرامی قدر
تقریب میں شریک مہمانان گرامی نے اظہار خیال کیا اور انسائیکلو پیڈیا آف علوم الحدیث کی اشاعت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و فکری کاوشوں کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا۔ ذیل میں مہمانانِ گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ نذرِ قارئین ہیں:
1۔ محترم شیخ الدکتور محمد نصرالدسوقی اللبان
استاذ علوم الحدیث جامعۃ الازہر مصر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ جب تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہو تو اس پر خوشی منایا کرو۔ شیخ الاسلام بھی آج کے دور میں صرف اہل پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے اللہ رب العزت کا فضل اور رحمت ہیں۔ شیخ الاسلام جامعۃ الازھر کے کئی اساتذہ کے بھی استاذ ہیں اور مجھ سمیت جامعۃ الازہر کے کئی اساتذہ اور مصر کی علمی شخصیات نے حدیث کی روایات کی ان سے اجازات لے رکھی ہیں۔ شیخ الاسلام کی صورت میں آپ کے پاس ایسے عظیم فقیہ اور محدث موجود ہیں کہ ہم اہل عرب ان کی وجہ سے پاکستانیوں پر رشک کرتے ہیں۔ میں جامعۃ الازھر میں حدیث کا استاذ ہوں لیکن میں نے اپنی زندگی میں فن حدیث کے اوپر حدیث کی اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ اللہ رب العزت نےشیخ الاسلام کے وقت میں برکت ڈال دی ہے اور انہیں اپنی مخلوق کی خدمتِ خاص کے لیے منتخب فرمالیا ہے۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی د عوت کے فروغ کے لیے خاص طور پر چن لیے گئے ہیں۔ آج شیخ الاسلام جو لکھ رہے ہیں وہ دستور کی حیثیت اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ پوری اسلامی دنیا کے دینی اسلامی علمی حلقے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحقیق و تدوین سے استفادہ کر رہے ہیں،ان کا علمی وقار اور تحقیقی معیار قابل ستائش ہے۔
2۔ محترم علامہ شہزاد مجددی (نامور عالم دین)
8 جلدوں پر مشتمل یہ موسوعہ علوم الحدیث اس انسائیکلوپیڈیا آف سنہ کا مقدمہ اور تمہید ہے جو 60 جلدوں پر مشتمل ہوگا۔ جس گلستان کا یہ مقدمہ ہے تو سوچو اس کی بہار کیا ہوگی۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس عہد میں اللہ نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری پیدا کر دیا۔ میں شیخ الاسلام کی تصویر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اس حدیث کے خادم کے لیے صاحب ِ حدیث ﷺ نے فرمایا: اللہ اس کے چہرے کو ترو تازہ رکھے گا جو میری حدیث کا کام کرے گا۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے صاحبِ حدیث نے خادمِ حدیث کے لیے جو ٹائٹل دے دیا، وہ اس کے چہرے سے ترو تازگی رونق اور بشاشت کی صورت میں ہر وقت چھلکتا رہتا ہے۔ جتنے بھی ائمہ حدیث گزرے ہیں ان تمام کے نام اب بھی تروتازہ ہیں کیونکہ وہ حدیث سے جڑے ہیں۔ امام بخاری کا قول ہے کہ جو جس کے بارے میں کتاب لکھے گا، اللہ تعالیٰ اسے یہ انعام دے گا کہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ کھڑا کردے گا۔ اب بتایئے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کیا اس سے بھی کوئی بڑا اعزاز مل سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو روز قیامت معیتِ مصطفی ﷺ مل جائے بلکہ آپ کے کام کی وصف، تنوع اور و رائٹی ایسی ہے کہ قیامت کے دن فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو کس کے ساتھ کھڑا کرنا ہے لیکن اگر خود ڈاکٹر طاہرالقادری سے پوچھا جائے تو آپ کہیں گے
مر کے پہنچا ہوں اس دلربا کے واسطے
میں تو وہیں کھڑا ہوں گا جس کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ موسوعہ علوم الحدیث کی دنیا میں ایک ایسا معرکہ ہے جو تجدیدی بھی ہے اور تحقیقی بھی ہے۔ اب میرا یہ خیال ہے کہ کوئی اختلاف رکھنے والا شخص بھی ڈاکٹر صاحب کو مجدد کہہ دے تو وہ جھجکے گا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ علم کی دنیا میں شخصیت نہیں دیکھی جاتی بلکہ کام دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی شخصیت کے رعب سے خود کو منوانا چاہتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے زعم کا یہ بت بھی توڑ کر دکھایا اور اپنے کام کے زور پر خود کو منوایا۔ اس میں اپنوں اور غیروں کے لیے بھی بہت بڑا پیغام ہے کہ اس دنیا میں اگر کوئی چیز آپ کو زندہ رکھتی ہے تو وہ علم ہے۔
3۔ محترم علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی (مہتم جامعہ نعیمیہ)
الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ جو 60 جلدوں پر مشتمل ہوگا، اس وقت اس کا ابتدائی حصہ منظر عام پر آیا ہے جو کہ اس موسوعہ کا مقدمہ ہے۔ جیسے ابن خلدون نے تاریخ سے پہلے مقدمہ لکھا جو اصول تاریخ کے اندر ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، بالکل اسی طرح احادیث کے مجموعے سے پہلے 8 جلدوں پر مشتمل یہ موسوعہ اصول حدیث و مصطلحات حدیث میں ایک انتہائی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موسوعہ کا بہت بڑا حصہ اصول روایت پر بھی مشتمل ہے جس کا آغاز نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی حجیت سے کیا جارہا ہے۔ ابھی علمِ درایت کا کام ہونا باقی ہے۔
شیخ الاسلام نے جو دوسرا بڑا کام کردیا ہے وہ یہ کہ اس کتاب میں حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے اور اس پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے 71 آرٹیکلز پیش کیے ہیں، جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حدیث پر اس کے صحیح اور ضعیف ہونے کا حکم لگانا ہے تو ان 71 آرٹیکلز کو سامنے رکھیں گے اور ایک ایک کرکے حدیث پر منطبق کرتے چلے جائیں گے تو اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے یا اس حدیث سے ہم کس درجے کا حکم اخذ کرسکتے ہیں؟
جب کوئی بندہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب کو سامنے رکھ لے گا تو پھر امام ابن حجر عسقلانی کی نخبۃ الفکر، ابن الصلاح کے مقدمہ اور محمود الطحان کی مصطلحات الحدیث کو دیکھنے سے بے پرواہ ہوجائے گا اور یہ کتاب ان تمام کتب کو replace کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انسائیکلوپیڈیا آف علوم الحدیث کا جو کام کر دیا ہے یہ باعثِ خیر بھی ہے اور رکاوٹ بھی۔ رکاوٹ بایں طور کہ اب اس دور کا محقق ڈاکٹر طاہر القادری کے اس کام کے بعد مزید کیا کام کرے گا، انھوں نے اتنا جامع کام کر دیا ہے کہ یہ کام ایک مثال بنا رہے گا۔ کیونکہ شیخ الاسلام نے حدیث کے میدان کے اندر نہایت اعلیٰ درجہ قائم کردیا ہے کہ شاید اس کے بعد کوئی شخصیت پیدا نہیں ہوگی جو اس سے بڑھ کر کام کرسکے۔
4۔ محترم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (رہنما جماعت اسلامی)
انسائیکلوپیڈیا پیڈیا آف قرآن کے بعد ،شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا تالیف کردہ 60 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا آف سنہ ایک بہت بڑی علمی کاوش ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ہمہ جہت اور ہمہ پہلو شخصیت ہیں جنھوں نے ادارہ جاتی کام کیا اور وہ اپنی ذات کے اندر ایک انجمن ہیں۔ ان کی عام صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حیران کرتے ہیں اور آج بھی حیران کیا ہے کہ پہلے اسی مقام پر علوم القرآن سے متعلق انسائیکلو پیڈیا پر تقریب ہوئی تھی اور آج علوم الحدیث پر تقریب رونمائی ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کا فریضہ اپنے ذمہ لیا ہے، اسی طرح حدیث مبارکہ کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے۔ آج کے دور میں علوم الحدیث کی خاص طور پر ضرورت ہے، جس کا فریضہ ڈاکٹر صاحب نے سرانجام دیا ہے اور حدیث کی تہذیب کی حفاظت کے لیے علوم الحدیث کو مرتب کیا ہے۔
5۔ محترم علامہ طارق جمیل (نامور عالم دین)
اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے لوگ پیدا فرمائے جو قرآن و حدیث کو اگلی نسلوں تک پہنچاتے رہے۔ ہمارے سامنے ڈاکٹر طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے انسائیکلوپیڈیا آف حدیث کی صورت میں ایک کارنامہ انجام دیا ہے اس پر میں ان کے لیے اور ان کے صاحبزادگان کی خیرو سلامتی کے لیے دعا گو ہوں۔
6۔ مجیب الرحمن شامی (نامور صحافی و اینکر پرسن)
مجھے اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انسائیکلوپیڈیا آف علوم الحدیث میں حدیث کے علم،مقام، حجیت اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات واشکالات اور اس حوالے سے جتنے بھی موضوعات زیر بحث آتے ہیں، ان سب کو اس میں یکجا کردیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک معرکے کا کام ہے جو میرے خیال میں کئی صدیوں میں نہیں ہوا۔ شیخ الاسلام نے اس کام پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ شیخ الاسلام اس مملکت خداداد اور ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے اور علمی فتوحات کو جاری رکھنے کی سعادت عطا فرمائے۔
7۔ محترم اوریا مقبول جان (ممتاز صحافی و اینکر پرسن)
اللہ رب العزت کچھ لوگوں کو اپنے دین کی ترویج و اشاعت اور خدمت کے لئے منتخب کرتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انہی چنیدہ شخصیات میں سے ہیں۔ منکرینِ حدیث نے امت کو تشکیک و ابہام سے دوچار کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ انسائیکلو پیڈیا ترتیب دیا۔ مختلف ادوار میں علوم الحدیث کے علم و فن پر بڑا کام ہوا، فی زمانہ یہ عظیم خدمت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ادا کر رہے ہیں۔ اسماء الرجال کا علم اور فن مسلم محققین کا کارنامہ ہے یہ علم سچ کو جھوٹ سے جدا کرتا ہے۔ شیخ الاسلام نے اس انسائیکلوپیڈیا میں اسماء الرجال پر بھی شاندار کام کیا ہے۔
8۔ محترم ارشاد عارف (دانشور صحافی کالم نویس)
دنیا بھر میں انسائیکلوپیڈیا جیسے کام پر محققین کا بورڈ قائم کیا جاتا ہے جس میں بہت سارے لوگ کام کررہے ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب تن تنہا وہ کام کررہے ہیں جو اداروں اور جو بہت زیادہ محققین کے کرنے کا ہے، اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو یہ صلاحیت عطا کی ہے۔ میں ان کی توفیقات میں اضافہ کے لئے دعا گو ہوں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ جب قرآن موجود ہے تو پھر حدیث کی کیا ضرورت ہے۔ اس سوال کا جواب بھی ڈاکٹر صاحب نے حدیث کے اس انسائیکلو پیڈیا کی صورت میں دے دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ انسائیکلوپیڈیا مرتب کرکے امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا پیش کرنے پر ڈاکٹر صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنھوں نے آسان الفاظ میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق حدیث کے مجموعے کو مرتب کیا۔
9۔ محترم جسٹس (ر) نذیر احمد غازی (اینکر پرسن)
دنیا میں حسنِ اتفاق کا کوئی وجود نہیں بلکہ اللہ کے ہاں حسنِ انتظام ہوتا ہے، جو چاہتا ہے وہی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حسنِ انتخاب ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا حضرت حلیمہ سعدیہj کے پاس جانا بھی حسنِ انتخاب تھا۔ کسی شخصیت کی عظمت کو ماپنے کے دو پیمانے ہوتے ہیں یا تو اس کے ہمعصر سے اس کے بارے میں پوچھا جائے یا اس کی اولاد کو دیکھا جائے کیونکہ اولاد اپنے والدین کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ان دونوں حوالوں سے ڈاکٹر صاحب کی عظمت نکھر کر سامنے آچکی ہے۔
حدیث کے میدان میں پہلی مرتبہ حدیث ضعیف کی اہمیت سے شیخ الاسلام نے پردہ اٹھایا ہے جبکہ لوگ حدیث ضعیف کو حدیث مانتے ہی نہیں تھے۔ آپ نے جس خوبصورتی کے ساتھ حدیث ضعیف پر وضاحت پیش کردی ہے کہ اس جیسی بحث کسی اور کتاب میں نہیں ملتی۔ اس وقت جب نوجوان نسل محراب و منبر کی زبان سن کر دین سے بھاگ رہی ہے، ایسے ماحول میں ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام کے سب سے بڑا وکیل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
10۔ محترم علامہ سید سبطین حیدر سبزواری
مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علوم القرآن اور علوم الحدیث کے حوالے سے جو کام کیا ہے، یہ اپنی مثال آپ ہے، صاحبانِ علم ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت انہیں طولِ عمر عطا کرے۔ دنیا سے جانا حقیقت ہے لیکن اپنے علمی و تحقیقی کاموں کی وجہ سے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ تاقیامت زندہ رہیں گے۔
11۔ محترم علامہ زبیر احمد ظہیر
سربراہ مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے دین کی سربلندی کے لیے چنا ہے۔ تحریک منہاج القرآن مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اللہ رب العزت کی توفیق خاص سے اس کے محبوب مکرم ﷺ کی حدیث پر خوبصورت اور احسن انداز میں کام کیا ہے۔ حدیث کا یہ کام تاقیامت زندہ رہے گا۔
12۔ محترم ڈاکٹر عبد الغفور راشد
علوم الحدیث کے باب میں تشنگی تھی جو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الموسوعۃ القادریہ تالیف کرکے دور فرمادی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے علم، عمل اور ان کے اس علمی و تحقیقی کام میں برکت عطا فرمائے۔
13۔ محترمہ صوفیہ بیدار (معروف ادیبہ)
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پہلے قرآنک انسائیکلو پیڈیا اور اب انسائیکلو پیڈیا آف علوم الحدیث لکھ کر یقیناً ایک معجزاتی کام سرانجام دیا ہے۔ اس وقت ان کی عالمِ اسلام میں بطور پاکستانی شناخت ہمارے لیے قابلِ رشک ہے۔ میں ان کی درازیِ عمر کے لیے دعا گو ہوں۔
اظہار خیال محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ کی تقریب رونمائی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے امام احمدبن حنبلؒ کے مشہور قول سے گفتگو کا آغاز کیا جس میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
ان اللہ یقید للناس فی رأسی کل مائۃ من یعلمهم السنن وینفی عن رسول اللہ الکذب. (خطیب بغدادی)
اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر پر لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک ایسی شخصیت کو بھیجتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے منسوب جھوٹ کی نفی کا کام کررہی ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ ہستیاں اپنی زندگی کے ہر سانس کو آقا علیہ السلام کی حدیث مبارک اور احیائے سنت مصطفی ﷺ کے لیے وقف کرچکی ہوتی ہیں اور احیائے سنت مصطفی ﷺ میں زندگی کا ہر ہر سانس لے رہی ہوتی ہیں۔ سانس کے حوالے سے امام غزالی کا قول ہے:
فکل نفس من انفاس کجوهرة لاقیمة لھا اذا لا بدل له فاذا مات فلا عود له. (بدایة الھدایه)
سانسوں میں سے ہر سانس ایک ایسا انمول جوہر ہے کہ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ہر سانس کا بدل نہیں ہوتا اور اگر ایک سانس فوت ہوجائے تو وہ کبھی واپس نہیں آسکتی۔
حضرت ابن عطاء اللہ السکندری المصری نے ایک خوبصورت بات کی اور فرمایا:
لاتنفق انفاسک فی غیر طاعۃ اللہ.
اے بندے اپنی سانس کو کبھی خدا کی اطاعت کے علاوہ خرچ نہ کرنا۔ کبھی اپنی سانس کے حقیر اور کم تر ہونے کی طرف نہ دیکھا کرو بلکہ سانس کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے بندے کو کچھ عطا کررہا ہوتا ہے، پس اس نکلتی ہوئی سانس میں خدا کی عطا کو دیکھا کرو۔
سانس ہر کوئی لیتا ہے، آج کے دور میں بھی ہر کوئی لے رہا ہے، قرون اولیٰ کے زمانے میں بھی لینے والوں نے لیا لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ کسی کی سانس سے ظلم جنم لے رہا ہے اور کسی کی سانس سے اسلام کا احیاء ہورہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے شریعت محمدی مسخ ہورہی ہے اور کسی کی سانس سے شریعتِ محمدی کو استحکام مل رہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے حق پامال ہورہا ہے اور کسی کی سانس سے باطل سرنگوں اور حق کا بول بالا ہورہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے سنتِ نبویہ پر تشکیک اور ابہام کے رکیک حملے ہورہے ہیں اور کسی کی سانس سے سنتِ مصطفی ﷺ کا احیاء ہورہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے حجیتِ حدیث و سنت کا انکار ہورہا ہے اورکسی کی سانس سے حضور ﷺ کی سنتوں کا احیاء ہورہا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم حدیث کے باب میں سلف صالحین کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ نے سانس لی تو الصحیفۃ الصادقہ کا وجود عمل میں آیا۔ ۔ ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سانس لی تو حدیث مبارکہ کے کثیر صحائف وجود میں آگئے۔ ۔ ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سانس لی تو الصحیفہ الصحیحہ اور صحیفہ ہمام بن منبہ وجود میں آیا۔ ۔ ۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سانس لیں تو سرکاری سطح پر تدوین حدیث کا فریضہ سرانجام پائے۔ ۔ ۔ ابن شہاب الزہریؒ سانس لیں تو حدیث کی تدوین کے میدان میں باب رقم ہوجائے۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبلؒ سانس لیں تو مسند احمد بن حنبل جاری کردیں۔ ۔ ۔ امام مالکؒ سانس لیں تو موطا امام مالک جاری کردیں۔ ۔ ۔ امام اعظمؒ سانس لیں تو امام الائمہ فی الحدیث کہلائیں۔ ۔ ۔ کسی کی سانس پر مقدمہ ابن صلاح وجود میں آرہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے اسماء الرجال پر سیراعلام النبلا (امام ذہبی) منظر عام پر آئے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے تہذیب الکمال (امام مزی) مرتب ہوجائے۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے لسان المیزان (امام عسقلانی) مرتب ہوجائے۔ ۔ ۔ ۔ کسی کی سانس سے طبقات الحفاظ (امام سیوطی) مرتب ہوجائے۔
اگر آج کے دور کی بات کریں تو ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے کہ جن کے ہر ہر سانس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان سے دینِ اسلام کی نصرت کا کام لے رہا ہے۔ شیخ الاسلام نے طلبِ حدیث میں سانس لی تو عون المغیث فی طلب و حفظ الحدیث جاری ہوگئی۔ ۔ ۔ روایت حدیث اور اہمیت اسناد کے باب میں سانس لی تو الترغیب العباد فی فضل روایت الحدیث و مکانۃ الاسناد جاری کردی۔ ۔ ۔ حدیث کی اقسام کے باب میں سانس لی تو حسن النظر فی اقسام الخبر جاری کردی۔ ۔ ۔ حدیثِ حسن کے باب میں سانس لی تو القول الاتقن فی حدیث الحسن جاری کردی۔ ۔ ۔ حدیثِ صحیح کے میدان میں سانس لی تو البیان الصریح فی حدیث الصحیح جاری کردی۔ ۔ ۔ حدیثِ ضعیف کے میدان میں سانس لی تو القول الطیف فی حدیث الضعیف جاری کردی۔ ۔ ۔ تحمل حدیث کے میدان میں سانس لی تو الاجتباع فی شروط روایۃ الحدیث والتحمل والاداء جاری کردی۔ ۔ ۔ جرح و تعدیل کے میدان میں سانس لی تو حکم السماع عن اھل البدع والاھواء جاری کردی۔ ۔ ۔ اصول الحدیث اور فروعاتِ عقیدہ میں سانس لی تو الخطبۃ السدیدہ فی اصول الحدیثہ و فروع العقیدہ پر جاری کردی۔ ۔ ۔ تدوین حدیث کے باب میں جب سانس لی تو اعلام القاری عن تدوین الحدیث قبل البخاری مدون کردی۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام نے نقدو رجال کے باب میں سانس لی تو الاجمال فی ذکر من الشتھر فی معرفۃ الحدیث ونقد الرجال جاری کردی۔
اس دور میں شیخ الاسلام نے جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی مودت کے حوالے سے سانس لی تو النجابۃ فی مناقب الصحابہ والقرابۃ جاری کردی۔ ۔ ۔ جب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دفاع کی بات آئی تو القول السوی فی الردالشمس لعلی جاری کردی۔ ۔ ۔ جب سیدہ کائناتd کی بارگاہ میں محبت و عقیدت کی سانس لی تو الدرۃ البیضاء فی مناقب الفاطمۃ الزہراء جاری کردی۔ ۔ ۔ اولیاء و صالحین کے عقیدے کے بارے میں سانس لی تو روضۃ السالکین فی مناقب الاولیاء والصالحین جاری کردی۔ ۔ ۔ الغرض شیخ الاسلام سانس لیں تو مختصر الجامع الکبیر آجائے۔ ۔ ۔ کبھی سانس لیں تو جامع السنۃ آجائے۔ ۔ ۔ کبھی سانس لیں تو المنہاج السوی آجائے۔ ۔ ۔ کبھی سانس لیں تو ہدایۃ الامۃ آجائے۔ ۔ ۔ کبھی سانس لیں تو معارج السننن آجائے۔ ۔ ۔ اور کبھی ان سانسوں کی مالا بنانا چاہیں تو پھر الموسوعۃ القادریہ فی علوم الحدیثیہ آجائے۔
انسائیکلو پیڈیا آف حدیث کی صورت میں شیخ الاسلام نے ایک ایسا تحفہ امت کو دیا کہ حدیث پر حملہ آور ہونے والی ساری سعی لاحاصل ہوگئی اور یوں جمیع امت اور جمیع ائمہ کی فکر کو جمع کرکے ایک خوبصورت گلدستہ بناکر آنے والی نسلوں کو منتقل کردیا۔
اسلام آباد میں تقریب رونمائی الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ
تحریک منہاج القرآن راولپنڈی و اسلام آباد، منہاج القرآن علماء کونسل اور نظام المدارس پاکستان کے زیر اہتمام پاک چائنہ سنٹر اسلام آباد میں الموسوعۃ القادریہ فی علوم الحدیثیہ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں جید علماء و مشائخ، علمی و فکری شخصیات اور ہر طبقہ زندگی کی نمایاں شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ پروگرام میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا اور تحریک کی اعلیٰ قیادت نے بنفسِ نفیس شرکت کی۔ خطبہ استقبالیہ نظام المدارس پاکستان شمالی زون کے صدر محترم علامہ صاحبزادہ نفیس القادری نے پیش کیا اور جملہ مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا۔ تقریب کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے موسوعہ کے حوالے سے ابتدائی گفتگو فرمائی اور اس کی غرض و غایت، مشتملات اور امتیاز و انفرادیت کو بیان کیا۔
اظہارِ خیال محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ اس دور کے مجدد عصر حجۃ الاسلام والمسلمین حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خوبصورت کارہائے نمایاں میں سے ایک کارنامہ جو علوم الحدیث اور فن حدیث کے باب میں ہے، اس کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے والے خوش قسمت اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس حقیقت کے بیان کرنے میں کوئی شک اور ہچکچاہٹ نہیں کہ اللہ رب العزت نے آپ کے ہاتھوں سے الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ رقم کرواکر ایک تجدیدی کام لیا ہے۔ جس کی مثال سابقہ چار صدیوں میں بھی اس شکل میں نہیں ملتی۔ انسائیکلو پیڈیا کی جامعیت اور اس کے مضامین کو جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم پچھلے چار سو سال کی ان ہستیوں کے کارہائے نمایاں کو سامنے رکھ کر ان کا مطالعہ کریں کہ جن کے قلم نے جو لکھا، تاریخ ان کی احسان مند ہے اور رہے گی اور معرفت علوم الحدیث میں اگر ان ہستیوں کے کام کا مطالعہ نہ کیا جائے تو شیخ الاسلام کا الموسوعۃ القادریہ بھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اس موسوعہ کے اندر امام ابن الصلاح کے المقدمہ، المحدث الفاصل بین الراوی والواعی، امام حاکم کی معرفۃ علوم الحدیث، امام ابونعیم اصبہانی کی المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث، خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایہ، قاضی عیاض کی الإلماع إلى معرفة أصول الرواية وتقييد السماعاور علوم الحدیث پر ائمہ حدیث کی جملہ کاوشوں کو ایک نظم، نئی ابواب بندی اور دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نہایت خوبصورتی سے سمو دیا گیا ہے۔
جب ہم فی زمانہ بڑے بڑے محدثین، علماء، محققین کو چھوڑ کر عام مدرسین و معلمین اور طلبہ کے احوال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے ہاں جامعات میں متداول نظام علوم الحدیث پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے فارغ التحصیل طلبہ علوم الحدیث، فن حدیث اور رواۃ حدیث کے احوال پر کتنی دسترس اور واقفیت رکھتے ہیں۔ مدرسین و اساتذہ میں سے کتنے ایسے ہیں جو حدیث او ر رواۃ رجال کی معرفت رکھتے ہوں۔ کتنے ایسے ہیں جن کا علم مصطلحات سے بڑھ کر فنون حدیث کا احاطہ بھی کرتا ہو۔ کتنے ایسے ہیں جو طبقات محدثین کا مطالعہ بھی رکھتے ہوں۔ کتنے ایسے ہیں جو حدیث کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کتنے ہیں جو جرح و تعدیل کے عمومی قواعد کی معرفت تامہ رکھتے ہیں؟ اس موسوعہ کو منظر عام پر لانے کے پیچھے شیخ الاسلام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس موسوعہ کے مطالعہ سے مدرسین، معلمین اور طلبہ میں علوم الحدیث کے حوالے سے نہ صرف واقفیت پیدا ہو بلکہ وہ ان علوم میں کماحقہ دسترس کے بھی حامل ہوں۔ ہمارےمدرسین، معلمین اور طلبہ کی علوم الحدیث کے حوالے سے کماحقہ دسترس نہ ہونے کی وجہ اس علم سے بے اعتنائی یا وسائل کی عدم دستیابی ہوسکتی ہے مگر اس امر کا بغور جائزہ لیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس ضمن میں مدرسینِ علوم حدیث کی اکثریت کا بھروسہ اس علم کے حوالے سے صرف چند ابتدائی کتب پر ہے۔ ان کا مطالعہ تیسیر مصطلح الحدیث، نخبۃ الفکر، نزہۃ النظر، تدریب الراوی اور مقدمہ ابن صلاح تک محدود ہے۔ ان حالات میں علوم الحدیث کی مباحث سے متعلق جو اعتراضات، اشکالات اور حملے ہورہے ہیں، کیا ہم صرف ان کتب سے استفادہ کرتے ہوئے ان حملوں کا تدارک کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔
شیخ الاسلام نے ضرورت محسوس کی کہ امت میں علوم الحدیث کی معرفت کا احیاء ہو اور موجودہ دور میں ائمہ و متقدمین کی تحقیقات سے نئے شواہد اور دلائل کا اضافہ کرتے ہوئے علوم الحدیث پر وارد اشکالات کا رد کیا جائے۔ آپ نے چاہا کہ اہلسنت اور دیگر علماء، معلمین اور مدرسین کے لیے علوم الحدیث کی معرفت کو دوبارہ زندہ کیا جائے، ان کے بے جان کمزور علمی اجسام میں نئی روح پھونکی جائے اور ایک جامع موسوعہ ترتیب دیا جائے تاکہ اہل سنت میں بھی علوم الحدیث کی طرف اس دور میں رغبت پیدا ہوسکے۔
چنانچہ آپ نے حدیث کے موضوع پر جملہ ضروری مباحث اورجملہ امہات الکتب اور ان پر میسر شروحات اور سیکڑوں کتابوں کی عرق ریزی کرکے مفید ابحاث کو اس موسوعہ میں شامل کرکے ایک گلدستہ امت مصطفی ﷺ کو دیا۔
مہمانانِ گرامی کا اظہارِ خیال
تقریب میں شریک جید علماء و مشائخ اور علمی و فکری شخصیات میں سے چند احباب نے الموسوعۃ القادریہ اور شیخ الاسلام کی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ذیل میں ان شخصیات کے تاثرات کا خلاصہ درج کیا جارہا ہے:
1۔ محترم پیر محمد شمس العارفین صدیقی
پیر طریقت آستانہ عالیہ نیروی شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس پرفتن دور میں جہاں ہر طرف سے عقائد، اسلامی تعلیمات، اسلامی اقدار پر مختلف طریقوں سے حملے ہورہے ہیں، کچھ اپنے ہمدرد بن کر عقائد لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ اغیار کی سازشیں ہیں جو اسلامی قوتوں کو کمزورکرنے کے درپے ہیں۔ جب عالمی مناظر اور اندرونی خلفشار کی طرف نظر جاتی ہے تو بڑے ہی اداسیوں اور مایوسیوں کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ بڑا اضطراب اور ہیجان قلب و روح کومضطرب کردیتا ہے۔ ایسے میں اللہ رب العزت کا انعام ہوتا ہے کہ وہ ایسی شخصیات پیدا کردیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کا علَم لے کر اپنی علمی استعداد، اپنی روحانی قوت اور اپنے فہم و فراست اور سب سے بڑھ کر عشق رسول ﷺ کی قوت سے میدانِ عمل میں آتے ہیں تو اضطراب کے بادل چھٹنا شرع ہوجاتے ہیں اور قلب و روح کو سکون و قرار محسوس ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ ہر دور میں اللہ رب العزت نے دین کو بچانے کے لیے کچھ شخصیات کا انتخاب فرمایا۔ میں بڑے فخرو ناز سے کہتا ہوں کہ اسی دور میں جہاں اللہ رب العزت نے بہت ساری شخصیات کا انتخاب فرمایا، ان میں ایک نابغہ روزگار ہستی عالم اسلام کا فخر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا وجود بھی ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاہین جن کی پرواز کو اقبال دیکھنا چاہتا تھا اور جنہیں دیکھ کر غزالی و جنید کی یاد تازہ ہو، ایسے یادگار اسلاف شخصیات میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات بابرکات ہے۔ عالم اسلام کے تمام مکاتب فکر پر اگر غور کریں اور درسگاہوں و خانقانوں کے ذمہ داران پر توجہ دیں تو یقین جانیے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آج عالم اسلام کا وہ حقیقی اثاثہ ہیں کہ جو اپنوں سے بھی بات کرتا ہے اور غیروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بھی بات کرتا ہے۔ جو میدانِ عمل کا شاہسوار بھی ہے اور میدانِ علم کا روشن چراغ بھی ہے۔
آج کے دور میں احادیث پر طرح طرح کے حملے ہورہے ہیں۔ اس ماحول میں امتِ مسلمہ کے اس مسیحا نے اس انسائیکلو پیڈیا آف علوم الحدیث کی صورت میں قوم کو تحفہ دیا اور تمام مسائل کا ایسا حل نکالا ہے کہ اس سے بہت سارے جھگڑے بھی مٹ جائیں گے، عقیدے بھی محفوظ ہوجائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہوتا نظر آئے گا۔
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ تروتازہ رکھے، خوش و خرم اور شاداب فرمائے جو میری بات کو سنے اور اسے یاد کرے اور دوسرے تک پہنچائے۔ اس حدیث کی روشنی میں غور کریں کہ الموسوعۃ القادریہ کا جو خوبصورت تحفہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امت کو دے کر آقا کریمe کی دعا اپنے دامن میں سمیٹ لی ہے، اس کے سبب مجھے امید ہے کہ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کے وجود کو تادم حیات اور ان کے نام کو تاقیام قیامت ترو تازہ رکھے گا۔ آج کے دور میں عالمی سطح پر معتبر اور معروف زبان میں اسلام اور عقائدِ صحیحہ کی اگر کوئی وجود ترجمانی کرسکتا ہے تو وہ وجود ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہے۔
2۔ محترم ڈاکٹر ثناءاللہ الازہری
پروفیسر بحریہ یونیورسٹی اور ترجمان دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ربیع الاول میں میلاد رسول ﷺ منانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی شان و عظمت پر کوئی تحقیقی کام کرکے میلاد رسول ﷺ منالیں۔ اس حوالے سے میں حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی پوری ٹیم کو خراج تحسین اور ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ اس موسوعہ کے موضوعات اور عرب شیوخ کی اس پر تقاریظ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ ربع صدی پر محیط علمی تحقیقی جہد کا نتیجہ ہے۔ ایسے موضوع کی گزشتہ چار صدیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ علوم الحدیث کی اہم ترین ابحاث کو مدلل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ گزشتہ آٹھ سو سال کے ائمہ حدیث کی تصانیف کے مطالعے کا نچوڑ ہے۔ یہ جدید استشھادات اور نئے شواہد کے اضافہ جات سے مزین ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس انسائیکلو پیڈیا کا ایک ایک صفحہ علم کے موتیوں کا بحر ذخار ہے اور علم و فن کے لیے ایک نادر و نایاب اور بے نظیر وبے مثال تحفہ ہے۔
3۔ محترم ڈاکٹر علامہ تنویر علوی
ڈاکٹر طاہرالقادری عصر حاضر کی نابغہ روزگار اور عبقری شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی وسعتِ علم اور معلومات ہمہ جہت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 600 سے زیادہ تصانیف مختلف فنون میں مختلف موضوعات پر لکھ کر دادِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔ جیسا کہ پہلے انھوں نے قرآنی انسائیکلو پیڈیا لکھا پھر 8جلدوں پر علوم الحدیث پر انسائیکلو پیڈیا تصنیف کیا ہے۔ انھوں نے اپنا نام بھی ان نفوس قدسیہ کی فہرست میں شامل کروالیا ہے جو جناب رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کا مصداق بن رہے ہیں، جس میں احادیث کی حفاظت کرنے والے کے لیے حضورeنے چہروں کی شادابی اور رونق برقرار رہنے کی دعا فرمائی ہے۔ یقیناً جو لوگ اپنی زندگی کا مشغلہ نبی رحمت ﷺ کی احادیث مبارکہ کو بناتے ہیں، اللہ ان کے چہروں کو دنیا میں بھی شادابی نصیب فرماتے ہیں، پھر قبر کی زندگی اور اس کے بعد کی زندگی میں شادابیاں نصیب فرمائیں گے۔
4۔ محترم ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق (پروفیسر اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)
اللہ تعالیٰ کا لاکھ احسان کہ اس نے امت محمدیہ ﷺ کو کبھی بھی اور کسی بھی زمانے میں ان مفید افراد کے وجودِ مسعود سے خالی نہیں رکھا جو ہر دور کے فتنوں کے سامنے دینِ اسلام کے تحفظ کے لیے سینہ سپر بن کر کھڑے رہے۔ ایسے مبارک لوگ یقینا امتِ محمدیہ پر اللہ کا فضل اور اللہ کا احسان ہیں۔ علوم الحدیث وہ فن ہے کہ اس میں جس جس نے جس انداز میں بھی کوئی کام کیا، اس نے اپنی حد تک ایک موتی پرویا۔ وہ تمام کام امت محمدیہ کے لیے قابلِ تحسین ہیں مگر حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الموسوعۃ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ کی صورت میں آٹھ جلدوں میں مقدمہ پیش کرکے کمال کردیا۔ محقق وہی ہے جو اپنے زمانے میں وہ کام کرے جس کام کی گنجائش بھی ہو اور ضرورت بھی ہو۔ شیخ الاسلام نے 8 جلدوں کے وسیع و وقیع مقدمہ کی صورت میں انکار حدیث و سنت کے تمام فتنوں کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ امت مسلمہ کو بالعموم اور تحریک منہاج القرآن کو بالخصوص اور خاص الخاص ان کے صاحبزادے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔
5۔ محترم پیر سید عظمت حسین شاہ (مہتمم جامعہ انوارالقرآن راولپنڈی)
ڈاکٹر صاحب کے کام کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو برکات کا ذخیرہ دیا اور ان کے وقت میں برکت ڈال کر ان سے بہت بڑا کام لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ کسی شخصیت سے چند لمحوں میں اتنا کام لے لے، جتنا صدیوں میں نہ ہوسکا ہو۔ ڈاکٹر صاحب پر اللہ کی عنایت ہے کہ نوجوان ساتھی دیئے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کے لیے افراد پید اکردیتا ہے اور مخلص ساتھی دیتا ہے۔
6۔ محترم علامہ عارف الواحدی (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل)
ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت اللہ کی عطا ہے۔ علم و ہ نہیں ہے کہ ہم اصطلاحات کو رٹہ لگاکر یاد کرلیں بلکہ علم ایک نور ہے جس سے ہم کسبِ فیض کرتے ہیں اور دنیا فیض پاتی ہے۔ میں جب ڈاکٹر صاحب کو سن رہا تھا تو محسوس ہوا کہ ان کے اندر جو علم کا خزانہ اور روحانیت و معنویت ہے، وہ ان کے اخلاص کا نتیجہ ہے جس کے بارے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص چالیس دن کے لیے اللہ کے لیے مخلص ہوجائے اور اس کا ہر قدم اللہ کے لیے ہو تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل کے اندر علم و حکمت کا خزانہ پیدا کرتا ہے۔
جو اخلاص کے ساتھ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کو لے کر آگے چلے گا، دنیا میں کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی۔ جس انداز میں ڈاکٹر صاحب نے کام کیا، وہ پاکستان اور عالمِ اسلام کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ شیخ الاسلام مسالک سے بالاتر ہوکر امت کے لیے کام کررہے ہیں۔ دین اسلام کے لیے کام کررہے ہیں، ہم سب آپ پر فخر کرتے ہیں۔ مسلک پرستی اور فرقہ واریت کی آڑ میں ہم ان شخصیات سے وہ استفادہ نہیں کرسکے جو کماحقہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کو اپنا سرمایہ اور نابغہ روزگار سمجھ کر ان کی قدر کریں۔
7۔ محترم سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ جمیعت اہلحدیث پاکستان)
شیخ الاسلام کو میرے رب نے یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے 8جلدوں پر علوم الحدیث پر الموسوعہ تالیف فرمایا ہے۔ اتنا بڑا کام کرنے کے باوجود شیخ الاسلام کی عاجزی و انکساری دیکھ کر مجھے دعاءِ نبوی یاد آرہی ہے کہ یااللہ مجھے میری اپنی نگاہوں میں ہمیشہ صغیر بناکر رکھنا، کبیر نہ بننے دینا لیکن اپنی مخلوق کی نگاہوں میں میرے وقار اور رتبے کو ہمیشہ بلند و بالا ہی رکھنا۔ مجھے آقا کریم ﷺ کا ایک اور فرمان یاد آرہا ہے کہ جو رب کے لیے انکساری دکھاتا ہے اللہ اس کی عزت میں اور اضافہ فرمادیتا ہے۔
شیخ الاسلام نبی پاک ﷺ کی حدیث مبارک کا مصداق بنے کہ جو میری حدیث کو یاد رکھتا ہے اور آگے بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو ترو تازہ رکھتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام اگرچہ بڑھاپے میں ہیں مگر علم حدیث کی خدمت سے ترو تازہ ہیں۔ تمام ائمہ و محدثین کی کتب کو سمجھنے کے لیے شیخ الاسلام کے الموسوعہ کو پڑھ لیں، پھر اس موضوع پر کسی کتاب کی حاجت نہیں رہے گی۔
8۔ محترم علامہ امین شہیدی (چیئرمین امت واحدہ پاکستان)
شیخ الاسلام نے گزشتہ عرصے میں امت کو جوڑنے کے لیے اور امت کے مشترکات کے فروغ کے لیے جو کوششیں کی ہیں ان میں جہاں اجتماعی سیاسی اور سماجی کوششیں یا تعلیمی و تربیتی کوششیں شامل ہیں، وہیں پر یہ علمی کاوش بہت بڑی خدمت ہے جو انھوں نے امتِ مسلمہ کے لیے انجام دی ہے۔ شیخ الاسلام کا موسوعہ القادریہ فی العلوم الحدیثیہ کی کاوش کو دیکھا اور پرکھا جائے تو ایسا کام وہی شخصیت سرانجام دے سکتی ہے جس کا ذہن فرقہ وارانہ فضا سے بھی پاک ہو اور امت کی مجموعی صلاح و فلاح کا علمبردار بھی ہو اور وہ نفرت کے بتوں کو توڑ کر امت کو رسول اللہ ﷺ تک بھی پہنچاناچاہتا ہو۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ شیخ الاسلام کے اس عظیم کام سے امت بہترین استفادہ کرسکے۔
9۔ محترم ڈاکٹر سید انور شاہ (جسٹس وفاقی شرعی عدالت پاکستان):
شیخ الاسلام کے اس موسوعۃ الحدیث کا ہماری اجتماعی قومی زندگی سے بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ یہ موسوعہ علمی اعتبار سے نہیں بلکہ فکری اعتبار سے بھی ایک بہت اہم کتاب ہے کیونکہ جب بھی مسلمان معاشرے میں کوئی مذہبی لبادے میں فتنہ انگیزی ہوتی ہے تو اس کا پہلا وار یہ ہوتا ہے کہ قرآن سے سنت کو دور کیا جائے، جس کا ابتدائی اظہار خوارج کی صورت میں ہوا اور خوارج کے فتنے کو جس صحیح طریقے سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے طویل فتوے میں اجاگر کیا، وہ ہمارے لیے رہنمائی ہے اور اس کا دوسرا عملی پہلو موسوعۃ القادریہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ کام اتنا دقیق، وسیع اور وقیع ہے کہ تاحال علامہ کی علمی کاوشوں کی معراج ہے۔
10۔ محترم پروفیسر ڈاکٹر ساجدالرحمن
سابق صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل اور سیرۃ چیئر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شیخ الاسلام کے علمی قدرو منزلت کا اسیر ہوئے کم و بیش چالیس سال گزر چکے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ ہستی ہیں جنہیں الازہر کے شیوخ نے شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب کیا۔ یہ ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک فکر کا نام ہے، یہ ایک فلسفے کا نام ہے، یہ ایک پوری تحریک کا نام ہے۔ یقین کیجئے طاہرالقادری عصرِ رواں کی علمی تاریخ کا نام ہے۔ دنیا کے جس ملک میں بھی جانے کا موقع ملا، وہاں طاہرالقادری کے چاہنے والوں کے ہجوم کو دیکھا پھر ان کی جذب و کیف اور وارفتگیوں کو دیکھا۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مجھے یہ کہنے میں قطعاً تامل اور ہچکچاہٹ نہیں کہ میرا بھی ان لوگوں میں شمار ہے جو پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے خوشہ چین ہیں۔ اس شخص کو عالم کہلانے کا حق نہیں جس کا وقت کی نبض پر ہاتھ نہ ہو۔ اس تاریخ کی روشنی میں جب دیکھتا ہوں تو ڈاکٹر طاہرالقادری آج کے زمانے کا نباضِ وقت ہے۔ انھوں نے جب اور جس وقت ضرورت محسوس کی، عصرِ حاضر کے تقاضے کے مطابق امتِ مسلمہ کی رہبری اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ فریضہ انہوں نے قلم و قرطاس کی صورت میں بھی ادا کیا اور سر پر کفن باندھ کر بھی ادا کیا۔
انکار حدیث کا فتنہ خوارج سے چلا اور معتزلہ سے ہوتا ہوا رکا نہیں ہے۔ جس ملک اور خطے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جنم لیا، اس خطے کی فتنہ انگیزوں نے بھی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے آج کی اس ضرورت اور وقت کی پکار کو سنا اور اس فتنے کو بھانپ کر انتہائی موثر جواب دیا اور پچھلے 6 سو سالوں کی محنت اور کاوش کو یکجا کرکے فتنہ انگیزوں کی ہر شر پسندی کا راستہ روک دیا۔ جو لوگ وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے نہیں بڑھتے وہ اپنی روایت سے کٹ جاتے ہیں، وہ اپنے ماضی سے کٹ جاتے ہیں، وہ اپنے اسلام سے کٹ جاتے ہیں۔ طاہرالقادری وہ شخصیت ہیں جنھوں نے زمانے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی لیکن اپنی روایت سے ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ روایت اور اسلاف کی صف میں کھڑا ہونے والا بندہ ہے۔ طاہرالقادری ان شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے لکھا بھی، پڑھا بھی اور رات کو سرسجدے میں رکھ کر آنسو بھی بہائے۔
طاہرالقادری وہ شخصیت ہے جس نے کتابیں لکھ کر مدرسوں اور مکتبوں کے حوالے نہیں کی ہیں بلکہ لوگوں کے قلوب پر کندہ کردی ہیں اور علم سے ہی نہیں تربیت کے زیور سے منہاج القرآن سے وابستہ لوگوں کو مزین کردیا ہے۔ آپ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ پروفیسر طاہرالقادری کو جو محبو بیت اور مقبولیت ملی وہ انہی کا نصیب تھی۔ اس قدر چاہنے اور محبت کرنے والے شاید ہی آج کی دنیا میں کسی اور کو نصیب ہوتے ہوں گے۔ منہاج القرآن سے وابستہ لوگوں کو میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھیں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت نصیب ہوئی ہے۔
آج اس بات کی ضرورت ہے کہ فکر راست کے حصول کے لیے طاہرالقادری کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ آج جو منہاج القرآن کے سٹیج پر مختلف ممالک کے علماء کی کہکشاں نظر آتی ہے، یہ آج کے دور کا وہ کارنامہ ہے جسے آنے والا مورخ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے گا۔ بین المسالک ہم آہنگی کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اس کا عملی نمونہ طاہرالقادری کے سٹیج پر نظر آتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایک جملہ سنا جو میری سماعتوں میں رس گھول کر چلا گیا کہ ’’میرے وہ طلبہ جو میرا احترام کرتے ہیں لیکن دوسروں کے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے، وہ علم سے مزین نہیں ہیں۔‘‘ یہ ہے وہ سوچ اور فکر جو آج کے اس دست و گریباں معاشرے میں لوگوں کو صحیح سمت دکھا رہی ہے۔
الحمدللہ ہم ایک ایسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، فی الواقع جسے آج کے دور کا امام کہا جاتا ہے۔ علوم اسلامیہ میں درک اور گہرائی و گیرائی آج زمانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ امام چاہیے جو مغرب میں کھڑے ہوکر ان کی زبان میں بات کرے، مشرق میں کھڑے ہوکر ان کی زبان میں بات کرے، اہل عرب کی مجلس میں کھڑے ہوکر ان کی زبان میں بات کرے۔ فلاسفہ کے سامنے آج کے فلسفے کو سامنے رکھ کر بات کرے، ایسا بندہ ہی امام کہلانے کا حقدار ہے۔ اس معیار کو دیکھیں تو اللہ رب العزت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے سر پر یہ تاج رکھ دیا ہے۔ میں شیخ الاسلام کی صحت و سلامتی اور درازی عمر کی دعا اور آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
11۔ محترم مفتی زبیر فہیم (صدر اتحاد المدارس العربیہ پاکستان)
الموسوعہ اس دور کی ضرورت تھی اس اعتبار سے کہ فتنے دن بدن سر اٹھارہے ہیں۔ بالخصوص سوشل میڈیا خود ایک بہت بڑا فتنہ ہے، اگر مثبت استعمال نہ ہو تو انکار حدیث کا فتنہ بھی اس سوشل میڈیا کے ذریعے سر اٹھا رہا ہے۔ اللہ رب العزت امت مسلمہ کو اس موسوعہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم نے تاریخ میں بھی پڑھا ہے اور بڑے لوگوں کو دیکھا بھی ہے کہ جب وہ بڑے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو بالخصوص اپنی اولاد کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ اولاد نکمی اور ناخلف ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جیسے اپنے کام پر پوری گرفت رکھی، اسی طرح اپنی اولاد کی تربیت میں بھی کسر نہیں چھوڑی۔ عالمی میلاد کانفرنس میں عرب شیوخ کو عربی زبان میں خطبہ استقبالیہ پیش کرنے پر ان کی علمیت نکھر کر سامنے آئی۔ اللہ رب العزت اس موسوعہ کو بھی ہمارے لیے نافع بنائے اور امتِ مسلمہ اور تحریک منہاج القرآن سے وابستہ جملہ لوگوں کو پورا پورا نفع نصیب فرمائے۔
12۔ محترم پیر مجتبیٰ فاروق (آستانہ عالیہ موہڑہ شریف)
میں سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث انسائیکلو پیڈیا آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا علمی کام ہے کہ کئی صدیوں تک جو لوگ اسلام، قرآن اور حدیث سے کماحقہ آگاہ ہونا چاہیں گے وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو یاد رکھیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری وہ شخصیت ہیں جنھوں نے لوگوں کے دلوں میں محبت مصطفی ﷺ کو زندہ کیا اور پوری دنیا میں یہ پیغام دیا کہ اسلام امن، بھائی چارے اور احترام انسانیت کا دین ہے۔
13۔ محترم پیر سید اجمل شاہ ہمدانی (آستانہ عالیہ موہرہ شریف)
علمِ نبی کے دیپ، جلائے ہیں آپ نے
دینِ نبی کے جھنڈے، اٹھائے ہیں آپ نے
تن من لگا کے اپنا، کیا دین سربلند
بیڑے نبی کے دین کے، اٹھائے آپ نے
ڈاکٹر طاہرالقادری موجودہ دور کے مجدد ہیں۔ جنھوں نے اللہ کی وحدانیت کی بات کی تو حق ادا کیا۔ نبی ﷺ کی شان کی عظمت بیان کی تو حق ادا کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی عزت و ناموس کی بات کی تو حق ادا کیا۔ اولیاء اللہ کی شان بیان کی تو حق ادا کیا۔ خداکی قسم! جس موضوع کو دیکھو اور سنو، محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ حاصل کررہے ہیں۔ یقین جانیے ایسی شخصیات صدیوں میں نہیں بلکہ ہزاروں سال میں بھی کوئی کوئی پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ ڈاکٹر صاحب اُدھر بیٹھ گئے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ وہ اُدھر کیوں ہیں۔ ایک دفعہ میں نے حضرت پیر کرم شاہ الازہریؒ کو دعوت دی کہ میرے گھر تشریف لائیں، کوئی بیان ہوجائے تو فرمایا: جو کام میں کررہا ہوں، وہ بیان سے بہت بڑا ہے۔ اس وقت وہ ضیاء النبی ﷺ کی تصنیف میں مصروف تھے۔ یہی کام ڈاکٹر صاحب کررہے ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو صرف تقریروں تک محدود نہیں رکھا۔ تقریریں تو تیز بارش کی طرح ہوتی ہیں لیکن یہ جو کام کرگئے ہیں، ان کے سواء کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اہل سنت والجماعت علماء کو اس چیز کا اعتراف کرنا چاہیے کہ خدا کی قسم وہ ایسا ماہتاب ہیں کہ جس کی روشنی نے اہل سنت و جماعت کو جگمگا دیا۔