مِرا سہارا وہی میرا آسرا بھی وہی
کہ ابتدا بھی وہی اور انتہا بھی وہی
بدلتا رہتا ہے عسرت کو وہ فراخی میں
کرے جو مشکلیں آساں مِرا خدا بھی وہی
گرے ہوؤں کا وہی دستگیر و مولا ہے
سُجھا رہا ہے اندھیرے میں راستا بھی وہی
رہِ طلب میں وہ سب کا ہے آخری مطلوب
وہی ہے منزلِ مقصود، رہنما بھی وہی
حریمِ ناز میں وہ آشنا و محرم راز
وہی دعا ہے مِری اور التجا بھی وہی
کبھی جو سایہ بھی ہوتا ہے تیرگی میں جدا
تو اس گھڑی مِرے ہمراہ دوسرا بھی وہی
وہ بے ٹھکانوں کا نیّر ہے ملجا و ماویٰ
گدائے بے نوا کی آخری نوا بھی وہی
(ضیاء نیّر)
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ملاؤں کیا میں کسی سے نظر مدینے میں
جھکا ہے بارِ ندامت سے سر مدینے میں
میں صبح و شام زیارت کو جاؤں روضے کی
الہٰی! کاش ہو میرا بھی گھر مدینے میں
سوائے ’’لا‘‘ کے سبھی کچھ جہاں سے ملتا ہے
کھلا ہوا ہے کرم کا وہ در مدینے میں
میں دیکھتا تھا مناظر حریم طیبہ کے
تھی ساتھ ساتھ مری چشم تر مدینے میں
جمالِ نورِ مجسم کو دیکھنے کے لئے
اتر کے آگئے شمس و قمر مدینے میں
بہشت آپ ہے مشتاق جن کے جلوؤں کی
چھپے ہوئے ہیں وہ لعل و گہر مدینے میں
چمک اٹھے سبھی دیوار و در بقول انس
جب آئے خیر سے خیر البشر مدینے میں
جو جا رہی ہے گلستانِ خلد کو سیدھی
ہے اُس کمال کی اِک راہ گزر مدینے میں
بفیضِ کیف مسلسل کبھی یہ لگتا ہے
تمام عمر ہوئی ہے بسر مدینے میں
دعائیں ہم نے جو شہزاد رب سے مانگی تھیں
وہ ہوگئیں ہیں سبھی بارور مدینے میں
(محمد شہزاد مجددی)