صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی
مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل
بلاشبہ ’’اللہ‘‘ اور ’’مخلوق‘‘ کا باہمی تعلق ’’محبت‘‘ سے ہے‘ محبت سے عبادت کا شعور پیدا ہوتا ہے، اسی لیے ساری مخلوقات؛ نوری‘ ناری‘ خاکی‘ حیوانی‘ جماداتی‘ نباتاتی‘ آبی اور ہوائی‘ ہر ایک کو شرف عبادت سے نوازا گیا‘ جو خالق کے ساتھ اظہار محبت ہے۔ معبود کا رشتہ عبد کے ساتھ اور عبد کا رشتہ معبود کے ساتھ محبت اور عبادت سے قائم ہے۔ اسی لیے کائنات کی ہر شئے ہر وقت مصروف عبادت ہے‘ محبت میں گم مصروف گیان ہے‘ امن میں اور خوش ہے۔ گیان اور دھیان کے لیے امن شرط ہے جو ایمان سے نصیب ہوتا ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب مخلوقات سے بڑھ کر اپنے خالق سے محبت کرے‘ ٹوٹ کر اس کی عبادت کرے کیونکہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اسے محبت اور عبادت کا زیادہ علم دیا گیا، اس کو صاحب ارادہ بنایا گیا ہے۔ جہاں ایمان اور علم زیادہ ہوگا، وہاں خالق کی معرفت اتنی ہی زیادہ ہوگی‘ مالک کا خوف ہوگا‘ یہ خوف انتہائے محبت سے ہوتا ہے کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ تخلیق انسانی میں انس کا مادہ وافر ہے‘ مومن کو تمام انسانوں میں زیادہ فضیلت سے نوازا گیا‘ اسے ایمان کی سند عطا کی گئی‘ اس کے سر کو خالق نے صرف اپنے سامنے خم ہونے کا اعزاز بخشا اور اسے سر تسلیم خم کرنے کی ادا دلنواز بخشی‘ اسے اپنی مرضی کے مطابق عمل کی توفیق سے نوازا اور مسلمان کا لقب عطا فرمایا تا کہ اس کے ہاتھوں سب مخلوقات کو سلامتی اور امن نصیب ہو، مخلوقات عالم کی تمام عبادات کو ملا کر اسے ارکان اسلام کی ایسی حسین دلنشین اور دلربا عبادات سے نوازا‘ کہ جب عبد‘ عبادت کرے تو اس کے اعضاء و جوارح اور قلب و ذہن ایک لاہوتی وجدانی کیفیت سے سر شار ہو کر حسن و احسان کی دنیا میں صرف معبود حقیقی کو اپنے سامنے پائے اور معبود؛ ایسا محسن بن جائے کہ اپنے احسان سے محبّ کو حسین سے حسین تر بناتا چلا جائے۔
اللہ عزّوجلّ کی حسین ترین عبادات میں سے ایک حسین عبادت ’’حج‘‘ہے‘ ارکان اسلام کا پانچواں رکن‘ مجموعہ عبادات‘ حج ایک ایسی عالمگیر اور ہمہ گیر عبادت ہے کہ جس میں توحید کے وجد آفرین نعرے‘ شہادت کے ترانے‘ نماز کی طہارت‘ روزہ کا تقویٰ‘ زکوٰۃ کا تزکیہ‘ باطن کا تصفیہ‘ جہاد کی مشقت‘ ریاضت‘ جدو جہد اور سرشاری‘ صدقہ خیرات کی آسودگی‘ اور تلاش نقوش پائے جاناں کی بے تابیاں شامل ہوتی ہیں۔
سفر حج؛ ہزاروں اسفار کا مجموعہ‘ تہذیب‘ سلیقہ، شائستگی‘ احترام انسانیت‘ سفر دعوت و تربیت‘ حکمت، تعلیم و تعلم‘ درس و تدریس‘ سفر روح‘ قلب ماہیت‘ جذب و شوق‘ سفر نجات، توبہ و استغفار‘ اصلاح جسم و نفس‘ تدارک امرض خبیثہ‘ سفر خوش بختی‘ اخلاص‘ مروت و ایثار‘ سفر وادیِ حسنِ جمال و جلال‘ سفر معیشت و اقتصادیات‘ سیاست‘ وحدت ملی‘ اجتماع مسلمین عالم‘ نصرت رسول‘ اتباع و اطاعت نبی‘ سفر دعائے رسول‘ حاضری در محبوب‘ قبولیت توبہ و مغفرت‘ سفر ملاقات دوست‘ راز و نیاز بین عبد و معبود‘ سفر خدا پرستی‘ تدارک تفرقہ و فرقہ پرستی‘ تقویت عقیدہ‘ تدارک خوف و غم جہالت‘ سفر خدمت خلق‘ محبت اخوت‘ ترانہ شوق‘ نعرہ مستانہ‘ سفر اقبال و سعادت مندی‘ رسوائی ابلیس‘ اجتماع لاہوتی‘ سفر سکون و قرار و نشاط مرکز کوثر رحمت۔ سفر حج بلاشبہ سفر جسم و قلب و روح ہے ہزاروں اسفار حیات و رحمت کو اللہ تعالی جل شانہ نے ایک سفر استحسان میں سمو دیا ہے۔
خوش بخت‘ خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں وہ مسلمان؛ وہ غلامان نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جنہیں ربِّ محمد عزّوجلَّ کی جانب سے اپنے در پہ حاضر ہونے کا بلاوا آتا ہے۔
این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
قاعدہ یہ ہے کہ اعلیٰ مقامات کے حصول کے لیے اسی حساب سے زیادہ محنت‘ سعی اور جدو جہد کرنی لازم ہوتی ہے‘ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے اسی قدر زیادہ تعلیم‘ علم‘ سمجھ‘ اخلاص اور عمل کی ضرورت ہوتی ہے‘ باشعور لوگ اپنا کام سمجھ بوجھ سے کرتے ہیں‘ اہداف (targets) کا تعین کرتے ہیں، اہداف کے حصول کے لیے‘ با قاعدہ پروگرام بناتے ہیں‘ منصوبہ سازی (planning) کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے فرمان اور ارشادات نبوی کے مطابق اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں‘ ذرائع و وسائل اور اسباب کا موثر اور مفید استعمال (effective and efficient utilisation of resources) اپنی بہترین صلاحیتوں سے کرتے ہیں‘ بہترین کارکردگی(best performance) کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس عملی امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی جدوجہدکرتے ہیں تا کہ ’’مالک‘‘ اپنے غلام کے کام (work) سے خوش ہو اور اسے انعام (award) سے نوازے۔
بفضل رب جلیل اور بہ تصدق و توسل نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے پاس اس حکمت و اسرار (management) کی بہترین کتاب’’قرآن حکیم‘‘ اسوہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت اصحاب نبی موجود ہے۔ جس کے مطالعہ، سمجھ اور ان میں درج احکامات پر عمل کرنے سے ہدف یعنی ’’رضائے الہی کا حصول‘‘ آسان ہو جاتا ہے۔ ہدف کے حصول کے لیے حج بھی ایک بہترین عمل اور عبادت ہے۔
آئیے! اس حسین و جمیل عبادت؛ ’’فریضہ حج‘‘ کی ادائیگی کا تاریخ وار پروگرام اور حکمت عملی بنانے کے لیے اللہ تعالی سے طلب توفیق کریں اور اس کی بارگاہ میں سرخروئی کی التجا کریں۔
معزز عازمین حج! ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے، کہ ہر اعلیٰ کام کی جتنی جزا‘ صلہ‘ ثواب اور انعام ہوتا ہے اس کو انجام دینے کے لیے اسی قدر شوق‘ لگن‘ علم‘ محنت اور توجہ (concentration) کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے مختلف کاموں (programs) کی قدم قدم اور لمحہ لمحہ نگرانی (monitoring) ضروری ہوتی ہے۔ ’’اللہ‘‘ کا کام ویسے بھی طلب ’’احسان‘‘ کا متقاضی ہوتا ہے۔ ہر وقت احتیاط اور یہ فکر کہ ’’محبوب کہیں ناراض نہ ہو جائے‘‘ طلب احسان کا سب سے ضروری تقاضا ہوتا ہے۔
سفر پر روانہ ہونے سے قبل تمام متعلقہ اعزہ و اقارب‘ ہمسایوں، دوستوں اور کاروباری ساتھیوں سے لین دین کے معاملات طے کر لیں۔ اُن افراد سے کہ جن سے آپ کی طرف سے کسی قسم کی زیادتی ہوئی ہو، اپنی زیادتیوں کی معافی طلب کریں، کیونکہ حج سے قبل یہ تزکیہ باطن کا پہلا ضروری درس ہے۔
اخلاقیات‘ عبادات اور روحانیات پر اچھی کتابوں اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی مختصر تاریخ اور مقامات زیارات کے بارے میں مطالعہ کریں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی درج ذیل تصانیف کا مطالعہ سفر حج سے پہلے مفید اور سود مند رہے گا :
- فلسفہ و احکام حج
- تذکرے اور صحبتیں
- حسن اعمال
- حسن اخلاق
- حسن احوال
- صفائے قلب و باطن
- فساد قلب اور اس کا علاج
- ہر شخص اپنے نشہ عمل میں گرفتار ہے
- طبقات العباد
- جرم‘ توبہ اور اصلاح احوال
- تاریخ مولد النبی
- حسن سراپائے رسول
- نورالابصار
- اسیران جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭ گھر سے روانگی یا ائیر پورٹ پر احرام باندھ لیں اور عمرہ کی نیت کر لیں۔ یہ احتیاط اس واسطے ضروری ہے کہ مقام میقات‘ یلملم‘ جدّہ سے تقریباً ستر کلو میٹر پہلے آتا ہے‘ یہ وہ مقام ہے جہاں حاجی پر احرام کی پابندی واجب ہوتی ہے، بعض اوقات ہوائی سفر کے دوران حاجی کو پتہ نہیں چلتا‘ اور غالب امکان ہوتا ہے کہ ہوائی سفر میں احرام باندھنے اور نیت کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
حدودِ حرم میں داخل ہونے سے لے کر طواف وداع اور زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب اور مناسک ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔ جنہیں امسال حج کی سعادت حاصل ہو رہی ہے وہ ان اماکن کی زیارت اور مناسک کو ادا کریں گے۔ آئیے! ہم بھی چشمِ تصور میں ان اماکن کی زیارت اور مناسک کی ادائیگی سے فیض یاب ہوتے ہیں :
حدود حرم میں داخل ہونا
مکہ معظمہ سے تقریباً 25 کلومیٹر پہلے ایک پولیس چیک پوسٹ آتی ہے‘ یہاں سے حرم شریف کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ اب آپ اپنی منزل کے قریب آ رہے ہیں‘ یہاں دل اور دماغ کی کیفیات بدل جاتی ہیں‘ شوق و اشتیاق‘ جذبات و احساسات کی دنیا ہی بدل جاتی ہے‘ آنکھوں سے اشک کا سیل رواں جاری ہو جاتا ہے‘ تلبیہ پڑھنے میں ایک عجیب وارفتگی آ جاتی ہے‘ حتیٰ کہ منزل شوق نظروں کے سامنے آ جاتی ہے‘ عظیم شہر مکہ معظمہ شریفہ؛ مسلمانوں کے ایمان، یقین اور عقیدت کا محور و مرکز؛ یہاں بیت اللہ کی نسبت سے بارگاہ الہی میں دعائیں کی جاتی ہیں۔ عمرہ کے لیے حرم شریف میں تلبیہ پڑھتے ہوئے داخل ہوں‘ پہلے دایاں پاؤں اندر رکھیں‘ بیت اللہ شریف پر پہلی نظر؛ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت عظمیٰ ہے‘ قبولیت دعا کی انوکھی ساعت آپ کے ہاتھ میں ہے‘ اس ساعت مانگی ہوئیں تمام دعاؤں کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے‘ یہاں آپ نے ’’عمرہ‘‘ کرنا ہے۔
عمرہ کے شرائط اور طریقہ کار
- احرام ۔۔۔۔ عمرہ کی شرط اول ہے‘ عمرہ کی نیت آپ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
- طواف کعبہ ۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کے گرد سات چکروں کا طواف خاص عمل ہے۔
- سعی ۔۔۔۔۔۔ صفاء و مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات پھیرے لگانے ہیں۔
- حلق ۔۔۔۔ (سرمنڈانا) یا پھر قصر ( سر کے بال کم کرانا) ضروری عمل ہے۔
طواف شروع کرنے سے پہلے کعبۃ اللہ کے اس سمت آ جائیں‘ جہاں حجر اسود نصب ہے‘ اسے بوسہ دیں یا چھو کر یہیں سے طواف شروع کریں۔ تلبیہ ختم کریں‘ سیدھا شانہ کھلا رکھیں‘ اس طرح کہ سیدھے ہاتھ کی بغل سے احرام کا کپڑا نکال کر بائیں ہاتھ کے کندھے پر ڈال لیں، اس کو ’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مردوں کے لیے ہوتا ہے عورتوں کے لیے نہیں‘ حجر اسود کے سامنے اس طرح کھڑے ہوں کہ پورا حجر اسود آپ کے دائیں جانب ہو جائے‘ پھر طواف کی نیت کریں۔ اگر حجر اسود کو بوسہ یا چھوا نہ جا سکے تو ہاتھ سے اشارہ کریں‘ اسے استلام کہتے ہیں اور زیادہ رش میں یہی کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ہاتھوں کو کان تک (تکبیر تحریمہ کے انداز میں) اٹھائیں اور
بِسْمِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ الْحَمْد
پڑھ کر ہاتھ نیچے کر لیں اور طواف شروع کریں‘ یعنی کعبۃ اللہ کے دروازے کے دائیں جانب ایسا چلیں کہ کعبۃ اللہ آپ کے بائیں ہاتھ کی طرف ہو‘ پہلے تین چکر ’’ رمل‘‘ کریں‘ یعنی اکڑ اکڑ کر تیز قدموں سے چلیں (مگر دوڑیں نہیں) یہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت عالیہ ہے‘ طواف کی یا دوسری جو دعائیں بھی یاد ہوں‘ خوب گڑ گڑا کر پڑھیں‘ دعاؤں کا یاد کرنا بہت ہی باعث برکت ہوتا ہے۔ اگر کچھ بھی یاد نہ ہو‘ تو
سُبْحَانَ اللّٰهِ‘ اَلْحَمْدُ لِلّٰهُ‘ اَللّٰهُ اَکْبَر
کا ورد زبان پر رکھیں۔
آپ کے طواف کا ساتواں چکر حجر اسود پر ہی ختم ہو گا‘ کعبۃ اللہ کے تین کونوں سے گزر کر جب چوتھے کونے پہنچیں جسے رکن یمانی کہتے ہیں‘ تو رکن یمانی کو دائیں ہاتھ یا دونوں ہاتھوں سے چھونا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے‘ اگر یہ آسانی سے کر سکیں تو کر لیں‘ ورنہ چھوڑ دیں‘ دھکم پیل سے اپنے آپ کو بچائیں اور دوسروں کو محفوظ رکھیں‘ یہ بھی افضل عبادت ہے۔ سات چکر پورے کرنے کے بعد حجر اسود کا استلام کریں‘ یہ استلام ’’سنت موکدہ‘‘ ہے‘ آپ کا ایک طواف مکمل ہو گیا۔
اب ملتزم کی جانب آئیں اور اس سے خوب چمٹ لیں اگر ہجوم کی وجہ سے موقع نہ ملے تو ملتزم کی طرف منہ کر کے دعا مانگ لیں‘ دعا کے بعد مقام ابراہیم کے پاس یا ہجوم کی صورت میں مسجد الحرام میں کہیں بھی دو رکعت نماز واجب الطّواف ادا کریں‘ بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو اورخوب دعائیں مانگیں‘ دعا سے فارغ ہو کر پیٹ بھر کر زمزم پئیں اور بیماریوں سے شفا کی دعا مانگیں۔ پھر صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر آئیں اور کوہ صفا پر کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کے ’’سعی‘‘ کی نیت کریں اور
بِسْمِ اللّٰهِ اللّٰهُ اَکْبَر و لِلّٰه الُحَمُد
پڑھ کر صفا سے سعی کا آغاز کریں اور کلمہ چہارم کا ورد کرتے ہوئے کوہ مروَہ کی جانب چلیں‘ صفا سے مروہ کی طرف جاتے ہوئے سعی کے راستے میں دو سبز ستون ہیں جنہیں ’’مِیْلَیْن اَخْضَرَیْن‘‘ کہتے ہیں‘ یہاں بی بی حاجرہ نے پانی کی تلاش میں دوڑ لگائی تھی‘ انہیں نقوش پا کی تلاش و اتباع میں آپ بھی دوڑ کر چلیں اور وہ وقت یاد کریں‘ جب ایک برگزیدہ نبی سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں اپنی اہلیہ محترمہ حضرت حاجرہ اور شیر خوار اکلوتے فرزند حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی اور لق و دق صحرا میں اللہ تعالی کے سہارے چھوڑ کر ایک عظیم قربانی دی تھی۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر پورے کرنے ہوتے ہیں اور ہر چکر پر صفا اور مروہ پر پہنچ کر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر جیسے طواف کے ہر چکر میں ہاتھ اٹھائے تھے‘ یہ دعا پڑھیں :
بِسْمِ اللّٰهِ اللّٰهُ اَکْبَر و لِلّٰه الُحَمُد
ساتویں چکر پر مروہ پر آپ کی سعی مکمل ہو گئی‘ اب آپ سر منڈوا لیں یا قصر کر لیں‘ لیکن حلق یعنی سر منڈوانا افضل ہے۔ خواتین نے دوران سعی سبز ستونوں کے درمیان دوڑ نہیں لگانی ہوتی ہے‘ عورتوں کے لیے صرف انگلی کے ایک برابر بال کٹوانے ہوتے ہیں۔ مبارک ہو آپ کا عمرہ مکمل ہوا‘ اب آپ عام کپڑے پہن سکتے ہیں۔ آٹھویں ذی الحجہ کو مکہ معظمہ سے منیٰ شریف روانگی کے وقت آپ کو دوبارہ احرام باندھنا ہوگا۔
مناسک و ارکان حج
8 ذی الحجہ تک مکہ معظمہ میں مقامات مقدسہ کی زیارت‘ عمرے‘ بیت الحرام میں حاضری‘ طواف‘ تلاوت قرآن حکیم اور دیگر عبادت میں وقت گزارنا بڑی سعادت ہوتی ہے۔ خانہ کعبہ پر نگاہ ڈالنا بھی بہت بڑی سعادت ہے‘ لیکن دوران طواف بیت اللہ کی جانب نہ دیکھیں‘ کیونکہ آپ کا سینہ بحالت طواف سیدھا رہنا چاہیے۔
آٹھویں ذی الحجہ :
حج کا پہلا دن یوم ترویہ ہے۔ نماز فجر کے بعد غسل کریں‘ اگر غسل نہ کر سکیں تو وضو کر لیں‘ احرام باندھیں‘ بیت اللہ شریف میں دوگانہ نفل احرام سر ڈھانپ کر پڑھیں‘ سلام پھیرنے کے بعد سر کھول کر حج کی نیت کریں۔ تین دفعہ تلبیہ پڑھیں :
لَبَّيْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْکَ‘ لَبَّيْکَ لَا شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ‘ اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَکَ وَ الْمُلْک لَا شَرِيکَ لَکَ
تلبیہ کے بعد جو جی چاہے دعا کریں‘ نیت اور تلبیہ کے بعد آپ ’’محرم‘‘ ہو گئے اور احرام کی سب پابندیاں آپ پر عائد ہو گئیں۔ ہو سکے تو طواف قدوم کریں ورنہ ضروری نہیں۔
نویں ذی الحجہ :
حج کا دوسرا دن یوم عرفہ ہے۔ سورج نکلنے کے بعد منیٰ کی جانب روانگی ( بذریعہ سواری یا پیدل‘ فاصلہ تقریبا پانچ / چھ کلو میٹر) اور عرفات میں وقوف کی نیت کرنا‘ دوپہر کا کھانا‘ مسجد نمرہ میں خطبہ حج سننا اور امام کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھنا‘ (جمع بین الصلاتین) ورنہ اپنے خیمہ میں رہنا اور ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اوقات میں الگ الگ پڑھنا‘ اگر بہ آسانی جبل رحمت کی زیارت کا موقع مل سکے تو کر لیں ورنہ اپنے خیمہ سے نظارہ کافی ہوگا‘ یہ دن اللہ تعالیٰ سے طلب مغفرت کا ہے، لہذا سارا دن توبہ استغفار‘ تسبیح و تہلیل اور گریہ و زاری میں گزارا جائے‘ اور جس قسم کی دعا یاد ہو‘ اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں۔
غروب آفتاب کے وقت‘ امام کے میدان عرفات سے نکلنے کے بعد اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالی جل مجدہ نے یقیناً مجھ بیچارے مسکین طالب دعا کی ساری دعائیں قبول فرما لی ہیں‘ میدان عرفات سے جانب مزدلفہ روانہ ہو جائیں‘ نماز مغرب کا وقت ہو جانے کے باوجود‘ میدان عرفات میں نماز مغرب ادا کرنے کی اجازت نہیں‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں ملا کر پڑھے۔
عرفات سے مزدلفہ بذریعہ سواری یا قافلہ عشاق کے ساتھ پیدل آیا جا سکتا ہے، (فاصلہ تقریبا 6 کلومیٹر) سارا راستہ‘ درود شریف‘ ذکر و استغفار‘ بہ آواز بلند تلبیہ اور تکبیر تشریق ذوق و شوق سے پڑھیں اور سفر شوق میں شامل دوسرے لوگوں کے ساتھ جتنا ہو سکے، پیار، محبت، مودت اور ہمدردی سے پیش آئیں۔ حدود مزدلفہ میں ایک پہاڑی ’’مشعر حرام‘‘ کے قریب یا جہاں بھی جگہ ملے‘ وقوف و قیام کریں۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے نماز کی تیاری ضروری ہے‘ مغرب اور عشا کی نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔
طریقہ یہ ہوگا کہ کچھ ساتھی اکٹھے ہو جائیں‘ ایک شخص اذان و اقامت کہے‘ امام کے پیچھے تین رکعت مغرب کی پڑھے‘ سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق کہیں‘ پھر تلبیہ پڑھیں‘ اس کے بعد فوراً کھڑے ہو کر امام کے پیچھے عشاء کے فرض ادا کریں‘ سلام کے بعد تکبیر تشریق کہیں اور تلبیہ پڑھیں، پھر مغرب کی سنتیں اور بعد عشاء کی سنتیں اور وتر ادا کریں اور ہو سکے توساری رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر و فکر میں گزاریں، ورنہ کچھ دیر آرام کر لیں اور تازہ دم ہو کر مصروف عبادات ہو جائیں‘ عازمین حج ذہن میں رکھیں کہ یہ عید کی رات ہوتی ہے‘ ایک وہ عید کی رات ہوتی ہے جو اپنے گھر ماں باپ بیوی بچوں کے ساتھ گزاری جاتی ہے اور یہ وہ ’’عید کی رات‘‘ ہوتی ہے جو ایک لق و دق صحرا میں اللہ کے ساتھ گزاری جاتی ہے‘ کیا خبر زندگی میں ایسی عید کی رات پھر نصیب ہوتی ہے یا نہیں‘ کئی اعتبار سے یہ رات بے مثال اور شب قدر سے بھی زیادہ افضل ہوتی ہے‘ سمجھنے والے ہی اسے سمجھ پاتے ہیں‘ یہاں رات کو کچھ دیر کے لیے آرام کرنا اور تازہ دم ہونا بھی سنت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
دسویں ذی الحجہ :
یہ یوم النحر ہے۔ مزدلفہ میں شاندار اور نادرالمثال عید کی رات گزرانے کے بعد فجر کی نماز پڑھیں‘ اور بہت اہم کام’’نیت وقوف مزدلفہ‘‘ کریں‘ اللہ کی بارگاہ میں اس وقوف کی قبولیت کی دعا کریں‘ یہ نیت واجب ہے‘ اس کا معینہ وقت طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے تک ہے‘ لہذا احتیاط ضروری ہے۔
اس روز یعنی عید کے دن کا میدان مزدلفہ کا اہم کام، 70 کے قریب‘ درمیانے سائز کے سنگریزوں (کنکروں) کا چننا اوراچھی طرح دھو کر اپنے پاس محفوظ رکھنا ہے۔ یہ جمرات پر تین شیطانوں کو مارنے کے کام آتے ہیں‘ پچاس سنگریزے مارنے کے لیے اور بیس فالتو بوقت ضرورت استعمال کے لیے‘ مزدلفہ کی عظیم الشان اور حسین عبادات ختم، اب حاجی منیٰ شریف کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ (فاصلہ مزدلفہ تا منیٰ شریف تقریباً 6 کلومیٹر) بذریعہ سواری یا پیدل‘ چلنے والوں کا زبردست ہجوم‘ تکبیرات تشریق اور تلبیہ کی روح پرور صدائیں‘ مزدلفہ سے منیٰ شریف جاتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرت ہوتی ہے‘ کمزور اور ناتواں افراد‘ خواتین اور بچوں کو سڑک کے کنارے اور بڑی احتیاط سے چلنا چاہیے‘ انسانی جان کی حفاظت اللہ کی عظیم عبادت ہے اور کسی دوسرے انسان کو اپنے کسی عمل یا زور آزمائی سے ایذا دینا‘ زخمی کرنا یا دھکم پیل سے اذیت دینا، پاؤں تلے کچل دینا نہ صرف ایک عظیم گناہ بلکہ موجب عذاب الٰہی ہوتا ہے‘ لہذا حاجیوں کو اپنے سے زیادہ دوسروں کی حفاظت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ یہی روح عبادت ہے‘ جاہل اور ہٹے کٹے لوگ جب دھکے دے دے کر اپنا راستہ بناتے ہیں، کمزور لوگوں کو گراتے ہیں اور ان کا دل اس ظلم پر نہیں پسیجتا تو بوڑھے ناتواں مرد، بچوں اور خواتین کی بے بسی پر قہر الہی جوش میں آتا ہے اور اس مغفرت اور نجات والے دن بھی ایسے منہ زور‘ اکھڑ اور بیدرد لوگوں پر اللہ غضب نازل فرماتا ہے‘ ایسے لوگ سوچیں کہ وہ حج سے کیا کماتے ہیں اور کیا کھودیتے ہیں؟
مزدلفہ سے منیٰ شریف اور رمی جمار کے موقع پر ہجوم کیونکہ بہت ہی زیادہ ہوتا ہے، اس لئے اپنے طور پر احتیاط کرنا بہت ضروری ہے۔
مزدلفہ سے منیٰ شریف آتے ہوئے ’’وادی مَحْسَر‘‘ میں سے گزرنا ہوتا ہے‘ یہاں اصحاب فیل پر ابابیلوں نے حکم الہی سے سنگباری کی تھی‘ یہاں اللہ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے تیزی سے گزرا جائے کہ یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
مزدلفہ سے منیٰ شریف پہنچ کر حاجی نے عید کا دن یعنی 10 ذی الحجہ اور گیارہ اور بارہ ذی الحجہ یہاں حسب ذیل طریقے سے گزارنے ہیں‘ عید کا دن یعنی دسویں تاریخ‘ انتہائی چوکسی‘ پھرتی‘ چستی‘ ہوش مندی‘ حاضر دماغی اور انتظام کا دن ہے۔ اس مقدس اور اہم ترین دن میں چار کام کرنے لازم ہوتے ہیں :
- رمی جمرات
- قربانی
- مردوں کا سر منڈانا اور عورتوں کا اپنے بالوں سے بقدر ایک پور بال کاٹنا
- طواف زیارت
1۔ رمی جمرات
جمرات ان مقامات کو کہتے ہیں‘ جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو پتھر مارے تھے‘ منیٰ سے مکہ مکرمہ کی جانب جاتے ہوئے تین جمرات راستے میں پڑتے ہیں‘ پہلا’’الجمرۃ الاولیٰ‘‘ یعنی پہلا جمرہ‘ اس کے بعد ’’الجمرۃ الوسطیٰ‘‘ یعنی درمیانی جمرہ اور آخری عقبہ گھاٹی کے قریب ’’الجمرۃ العقبہ‘‘ ہے۔ ہر حاجی پر واجب ہے کہ وہ سنت ابراہیمی کی اتباع میں جمرات پر جا کر شیطان کو کنکریاں ماریں اسے رمی کرنا کہتے ہیں۔ ہر ستون کو سات کنکر مارنا ہوتے ہیں‘ یہاں بہت رش ہوتا ہے لہذا انتہائی احتیاط اور حاضر دماغی کی ضرورت ہوتی ہے۔
عید کے دن صرف ’’جمرہ عقبہ‘‘ کو رمی کرنا ہوتی ہے۔ منیٰ شریف کی طرف سے جائیں تو یہ جمرہ سب سے آخر میں آتا ہے‘ لہذا اس دن حاجی صرف سات کنکر ساتھ لے (احتیاطاً دو تین اضافی کنکر جیب میں رکھ لیں) جمرہ الاولیٰ اور جمرہ وسطیٰ کو چھوڑ دیں اور ان سے تقریباً ایک فرلانگ آگے ’’جمرہ عقبہ‘‘ یعنی بڑے شیطان کی طرف بڑھیں اور پیالے کے قریب کھڑے ہو کر چٹکی میں ایک کنکر لے کر ہاتھ بلند کر کے اطمینان سے ’’بسم اللہ‘ اللہ اکبر‘‘ کی تکبیر کہیں اور پوری قوت سے ستون کو نشانہ بنا کر کنکر ماریں۔ اگر کنکر ستون کو لگ جائے یا اُس کے قریب گر جائے تو صحیح رمی ہو جائے گی۔ لیکن اگر کنکر بقدر تین ہاتھ دور گریں تو رمی معتبر نہیں ہوگی‘ اس کی جگہ ایک اور کنکر مارنا پڑے گا‘ اس جگہ آپ کے لائے ہوئے اضافی کنکر کام آئیں گے یا وہ دوسرے حجاج کو بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ فالتو کنکر خوش باش لوگ خوشی سے بانٹتے ہیں‘ نیچے گرے ہوئے پتھر اٹھانا ممنوع ہے کیونکہ وہ مردود ہو جاتے ہیں‘ فرشتے صرف مقبول کنکروں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ جمرات پر لاکھوں کروڑوں پتھروں سے پہاڑ بن گئے ہوتے لیکن اسلام کی صداقت کا زندہ نشان‘ وہاں کنکروں کا جمع نہ ہونا بھی ہے‘ بس تھوڑے سے پتھر معمولی ڈھیریوں کی صورت میں پڑے نظر آتے ہیں۔
ایک پتھر نشانے پر مارنے کے بعد دوسرا پتھر‘ اسی طرح صدائے تکبیر اور باری باری سات پتھر نشانے پر مارنے ہوتے ہیں‘ ہجوم کی وجہ سے یا گھبراہٹ سے سات پتھر ایک ساتھ مارنا منع ہے۔ اگر ایسا کیا تو وہ سب ایک ہی پتھر کا مارنا شمار ہوگا۔ (بعض جہلاء جوش میں آ کر جمرات کو جوتے مارنا شروع ہو جاتے ہیں جو ایک شاندار عبادت کے ساتھ مذاق ہوتا ہے‘ مسلمان کی شان‘ نظم و ضبط سے ظاہر ہوتی ہے)
دسویں تاریخ کو طلوع فجر سے زوال آفتاب تک رمی کرنا مسنون اور افضل ہے‘ زوال سے غروب آفتاب تک جائز اور مباح اور سورج ڈھلنے سے لے کر صبح صادق تک مکروہ ہے۔ بیمار‘ معذور اور کمزور اشخاص کسی کو نائب بنا کر رمی کرائیں تو جائز ہے‘ عورتوں کو ہجوم کم ہونے اور رات کے وقت رمی کرنا افضل ہے‘ ہجوم کے ڈر کی وجہ سے اگر بعض توڑ دلے نازک مزاج یا صاحب ثروت افراد‘ کسی کو نائب بن کر رمی کرائیں تو یہ ناجائز ہوگا۔
2۔ قربانی
حج تمتع اور حج قران کرنے والوں پر قربانی کرنا واجب ہے۔ حج افراد والوں کے لیے مستحب ہے اور ثواب ہوگا۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا افضل ہے‘ اگر طریقہ نہ آتا ہو تومقام ذبح پر موجود رہے اور دعائے مسنونہ پڑھے۔
سعودی حکومت نے مزدلفہ کی حدود میں ایک سرکاری ’’منحر‘‘ یعنی ذبح گاہ بنایا ہے‘ جہاں حاجی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے خریدے قربانی کے جانور کو ذبح ہوتے دیکھ سکے‘ بہر حال یہ وہاں کا قانون ہے اور حاجی کو بادل نخواستہ ان کے بتائے ہوئے طریقہ کار اور وقت ذبح جو رسید پر درج ہوتا ہے‘ پر یقین و اعتماد کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ لہذا بحیثیت مضطرین شرعاً ان کی قربانی ہو جاتی ہے‘ حج تمتع یا قران والوں پرقربانی کرنا واجب ہے‘ لیکن اگر کسی ایسے حاجی کے پاس قربانی کرنے کے لیے رقم کی گنجائش نہ ہو، تو بطور کفارہ وہ دس روزے رکھے‘ تین روزے (ایک ساتھ یا جدا جدا کر کے) وہیں حج کے مہینے میں اور سات روزے گھر آ کر رکھے۔ ہر حاجی دسویں کو قربانی دے گا‘ اگر نہ دے سکے تو گیارہ اور بارہ تاریخ کو بھی دے سکتا ہے لیکن بارہ تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد قربانی کاوقت ختم ہو جاتا ہے۔
3۔ سر منڈوانا
منیٰ شریف میں دسویں تاریخ کا تیسرا اہم کام رمی اور قربانی کے بعد حلق یا قصر ہے‘ حلق استرے سے سر منڈانے اور قصر بال کاٹنے کو کہتے ہیں۔ حلق نہ کرنے کی صورت میں لازماً سارے سر یا کم از کم سر کے چوتھے حصے کے بال ایک پورے سے زیادہ کٹوانے پڑتے ہیں‘ اگر کوئی کم بال کٹوائے گا اور احرام اتار کر سلے کپڑے پہن لے گا تو اسے جرمانہ (دم) کی صورت میں ایک بکری ذبح کرنی ہوگی۔ اگر کسی حاجی کے سر پر ایک پورے جتنے بال نہ ہو تو اس کے لیے قصر نہیں وہ حلق کرائے گا اور اگر کسی شخص کے سر پر بال ہیں ہی نہیں‘ تواس پر لازم ہے کہ وہ خالی استرا سر پر پھیر لے۔ حلق کرتے وقت قبلہ رخ بیٹھا جائے اور تکبیر تشریق اور دیگر دعائے مسنونہ پڑھیں۔ حلق سے فارغ ہونے پر دوبارہ تکبیر تشریق پڑھیں۔ حلق حدود حرم میں واجب ہے‘ حدود حرم سے باہر حلق کرنے پر دم دینا پڑے گا‘ قصر سے حلق افضل ہے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محلّقین کے لیے دعا فرمائی ہے۔
4۔ طواف زیارت
عید کے دن یعنی دسویں تاریخ کا چوتھا اہم کام ’’طواف زیارت‘‘ ہے، حرم شریف میں کسی بھی دروازے سے داخل ہونا جائز ہے اور پورے طریقہ کار‘ نظم و ضبط اور قواعد و ضوابط سے طواف کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ طواف زیارت حج کا رکن ہے‘ اس کے بغیر حج نامکمل رہ جاتا ہے‘ طواف‘ مقام ابراہیم پر دو نفل، ملتزم کے ساتھ چمٹنا، آب زم زم پینا اور صفا مروہ کی سعی کے بعد غروب آفتاب سے پہلے منیٰ شریف میں واپس آنا ضروری ہوتا ہے‘ رات کہیں اور بسر کرنا مکروہ ہے۔
گیارہویں ذی الحجہ :
گیارہویں تاریخ کو آپ نے منیٰ شریف میں صر ف ایک کام یعنی رمی جمرات؛ کرنا ہے۔ زوال آفتاب یعنی ظہر کے بعد‘ تینوں جمرات کو کنکر مارنے ہیں، بہتر ہے کہ نماز ظہر‘ مسجد خیف میں جو جمرات کے قریب ہے‘ ادا کی جائے، پھر جمرہ اولیٰ کے پاس آ کر اسے باری باری سات کنکر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ماریں‘ پھر بائیں طرف ہٹ کر دیر تک مناجات الہی‘ ذکر‘ دعا اور استغفار کریں اور سلامتی کے لیے مسنونہ دعائیں مانگیں۔ جمرہ اولیٰ کے بعد اسی طرح جمرہ وسطیٰ اور پھر جمرہ عقبہ پر آئیں اور عمل رمی جمرات کا یہی عمل دہراہیں‘ استغفار اور دعاؤں کے بعد منیٰ شریف میں اپنے خیمہ میں واپس آ کر مصروف عبادات ہو جائیں‘ اگر کسی حاجی سے دس تاریخ کو طواف زیارت رہ گیا ہو تو وہ آج گیارھویں کو کر لے اور پھر واپس منیٰ شریف میں آ کر رات گزارے‘ ایام تشریق کی اعلیٰ ترین عبادت ہر نماز کے بعد تکبیرات تشریق ہوتی ہیں۔
بارہویں ذی الحجہ :
بارہویں تاریخ کو بھی زوال آفتاب کے بعد غروب آفتاب تک تینوں جمرات کی رمی لازمی ہے‘ مردوں کے لیے رات کو رمی کرنا مکروہ اور خواتین کے لیے افضل ہے‘ کمزور‘ بوڑھے اور بچے رات کو بھی رمی کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کا طواف زیارت رہ گیا ہو تو بارہویں تاریخ غروب آفتاب تک کر سکتا ہے۔
بارہویں تاریخ کی رمی کے بعد مصروفیات حج اختتام کو پہنچ جاتی ہیں‘ ان پانچ دنوں میں متعینہ مقامات مقدسہ پر وقوف و قیام‘ قواعد و ضوابط کے ساتھ ارکان اور مناسک حج کی ادائیگی، اتباع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پیروی صحابہ میں نقوش پائے اولیاء و اتقیاء کی تلاش اور ان کی یاد کو قائم رکھنے کا نام حج ہے۔ بارہویں تاریخ کو حاجی مکہ مکرمہ جا سکتا ہے لیکن اگر وہ منیٰ شریف میں قیام کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے‘ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق عمل کرے۔
تیرہویں ذی الحجہ :
اگر حاجی نے بارہویں کی شب منیٰ شریف میں گزاری اور تیرہ تاریخ کی فجر بھی وہیں پائی تو زوال کے بعد اسے جمرات کی رمی واجب ہوگی‘ عورتوں اور کمزور افراد کو زوال سے پہلے رمی کی اجازت ہے۔
مکہ مکرمہ آنے کے بعد متفرقہ عبادات میں وقت گزارا جائے‘ نفلی طواف اور عمرہ ایسی عبادات ہیں جو صرف کعبۃ اللہ ہی کے لیے خاص ہیں، لہذا خوش قسمت لوگ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عموماً حج کے بعد لوگ ایک طرح کی آزادی محسوس کرتے ہیں‘ وہ حدود حرم‘ مکہ مکرمہ، غار حرا‘ غار ثور اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت میں بیباکی اختیار کرتے ہیں‘ خاص کر بعض پاکستانی خواتین پردے کے لباس کو ترک کر کے بے پردہ رنگین اور باریک لباس پہننا شروع کر دیتی ہیں اور بے حجاب ہو کر بیباکی سے بازاروں اور حرم پاک میں گھومتی پھرتی ہیں‘ اسے بد بختی کی ابتدا سمجھ لیں۔ زندگی میں ایک بار سخت ترین مشقت سے جو خواتین پانچ روزہ امتحان پاس کر کے آتی ہیں اور جس کا صلہ ان کودائمی حجاب‘ پردہ کی پابندی گمراہی اور بیباکی سے نجات کی صورت میں ملنا ہو تا ہے‘ اس پر وہیں لات مار دیتی ہیں اور عقل علم اور خیر و شر میں امتیاز کی کمی کی وجہ سے شیطان کا شکار ہو جاتی ہیں‘ وہی شیطان‘ جس کو تین دن مسلسل دھتکارا‘ پتھر مارے اور اللہ سے اس کے شر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگیں‘ اسی کے تیرنادیدہ کا شکار ہو جاتی ہیں‘ بعض مرد حضرات بھی خواتین سے کم نہیں ہوتے ہیں‘ وہ بھی سب کچھ بھول بھال جاتے ہیں اور ایسے اعمال میں مشغول ہو جاتے ہیں، کہ توبہ ہی بھلی۔ اللہ تعالی شیطان کے غلبہ اور حربوں سے سب حجاج کرام کو محفوظ و مامون رکھے۔
حجاج کرام‘ جب تمام مناسک و ارکان حج سے فارغ ہو کر وطن واپس ہونے لگیں تو واجب ہے کہ وہ طواف وداع یا طواف رخصت کریں‘ وہ حرم شریف میں بڑے حسرت و یاس کے جذبات سے داخل ہوں‘ رمل اور اضطباع کے بغیر بڑے دل گیر انداز میں طواف کریں‘ ملتزم کے ساتھ چمٹ کر روئیں‘ جدائی کے احساس سے خوب روئیں‘ آہیں بھریں‘ گڑ گڑائیں‘ دیوار کعبہ پر دایاں رخسار رکھیں اور سوز و گداز کی کیفیت میں بلک بلک کر بیت اللہ سے جدائی پر روئیں‘ اللہ کی بارگاہ میں خوب فریاد کریں اور رخصت کے وقت انتہائی حسرت و یاس سے کعبۃ اللہ کو بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھیں اور انتہائی لجاجت سے حرم پاک سے باہر نکلیں اور بیت اللہ سے جدائی کے تصور سے حسرت بھرے دِل سے مدینہ شریف کا سفر شروع کریں۔
دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ افراد کہ جنہیں بار گاہ رسالت مآب سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کا شرف نصیب ہو جائے۔
٭ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے :
’’ جس نے میری قبر (روضہ پاک) کی زیارت کی‘ اس کے لیے میرے شفاعت لازمی ہو گئی‘‘۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی‘ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی‘‘ ۔
٭ پھر ارشاد فرمایا :
’’جس کو مدینے تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری زیارت کو نہ آئے (یعنی صرف حج کر کے چلا جائے) اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی‘‘
مکہ معظمہ سے مدینہ پاک کا سفر بذریعہ بس تقریباً سات آٹھ گھنٹوں کا ہے‘ فاصلہ تقریبا 450 کلو میٹر ہے۔ یہ دیارِ نبی کا سفر اشتیاق ہے اور عجیب تر ہے‘ ایک عجیب کیفیت کا عالم ہوتا ہے‘ عشاّقانِ نبی کا پرواز تخیل چودہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے‘ ایک عالم استغراق ہوتا ہے‘ خواہش ہوتی ہے پر لگیں اور دیار نبی کی خاک چوم لیں۔ راستے میں بعض قسمت والوں کو’’شہداء بدر‘‘ کی زیارات کی حاضری اور’’بئر علی‘‘ پر نفل کی سعادت مل جاتی ہے، جب مدینہ منورہ کے مضافات میں پہنچتے ہیں تو دیدہ و دل کی ایک عجب کیفیت ہوتی ہے‘ دونوں مصروف گریہ ہوتے ہیں۔ آنکھ بھی رو رہی ہوتی ہے اور دِل بھی رو رہا ہوتا ہے۔
مسجد نبوی کے گنبد خضراء پر جب پہلی نظر پڑتی ہے اور زبان پر درود شریف کے زمزمے کھل جاتے ہیں تو ایک عجیب سماں ہوتا ہے۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونا زندگی کی بہت بڑی سعادت ہے، یہیں سے دعائے شوق کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس بہت ہی بڑے دربار میں حاضری سے پہلے غسل‘ مسواک‘ صاف ستھرے کپڑوں اور خوشبو کا خاص اہتمام کرنا لازم ہوتا ہے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ مے آید جنید و با یزید ایں جا
کوشش کریں کہ آپ کا داخلہ مسجد نبوی میں باب جبریل سے ہو‘ ریاض الجنتہ میں دو رکعت تحیتہ المسجد انتہائی خضوع و خشوع سے ادا کریں۔ سجدہ شکر بجا لائیں کہ کہاں ہم اور کہاں دربار نبوی کی حاضری!
ایں سعادت بزور بازو نیست‘
انتہائی ادب سے آہستہ سے سلام پڑھتے ہوئے مزار مبارک کے سامنے حاضر ہوں۔ بارگاہ رسالت ہے‘ عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا مقام ہے‘ احترام میں معمولی فرو گزاشت بہت بڑا گناہ ہے‘ ایسا گناہ کبیرہ کہ ساری عمر کی کمائی لمحہ بھر میں غارت ہو جائے۔
نہایت ادب سے ہاتھ باندھ کر جھکی نگاہوں سے بارگاہ رسالت میں ہدیہ درود و سلام پیش کریں‘ مواجہ شریفہ کی طرف چہرہ ہو، پشت قبلہ کی طرف رکھیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں اور باعث حیات المسلین‘ غلاموں کی معروضات پوری توجہ سے سنتے ہیں اور نگاہ کرم سے نوازتے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین پر سلام انتہائی ادب و احترام سے پیش کریں۔ مواجہ شریفہ‘ مقصورہ شریفہ اورمسجد نبوی کا چپہ چپہ نور فشاں ہے‘ ریاض الجنتہ اور اس کے سات ستون‘ چبوترہ تہجد، مقام صفہ اور گنبد خضرا مقامات نور و برکت ہیں۔ مدینہ منورہ کے تمام مقامات مقدسہ کی زیارت عین عبادت ہے۔
مقام التجا و فریاد ہے‘ آقائے نامدار کے سامنے قلب کی سب آرزوئیں اور التجائیں رکھ دیں‘ دین اسلام کی بھلائی ترقی و کامرانی ملک عزیز میں نظام مصطفےٰ کے قیام اور امن کے لیے دعائیں‘ سلامتی ایمان کی دعائیں‘ والدین‘ اعزہ و اقارب، احباب اور امت مسلمہ کے لیے دعائیں‘ مقام ادب ہے‘ نگاہیں نور سے خیرہ ہو جاتی ہیں لیکن نظم و ضبط برقرار رکھنے کا درجہ ادب، جذبہ اشتیاق سے بالا ہے‘ بے جا اظہار وارفتگی اور بے حالی سے مکمل پر ہیز کرنا لازم ہے۔