بیدارئ شعور ورکرز کنونشن سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب٭
مرتّب : محمد یوسف منہاجین
معاون : اظہر الطاف عباسی
زیر نظر مضمون شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بیدارئ شعور کنونشن (cd # 1462 مورخہ 09-04-2011) کے موقع پر کارکنان تحریک سے کیا گیا خطاب ہے۔ اس خطاب کے پہلے حصہ (شائع شدہ مجلہ ماہ ستمبر2011ء) میں آپ نے بیدارئ شعور کو قرآن پاک کی متعدد آیات کی روشنی میں بیان فرماتے ہوئے انقلاب کا حقیقی راستہ، صبر و استقامت، تحریک کی حکمت عملی و غلط فہمیوں کا ازالہ اور بیدارئ شعور تحریک کی چار جہات کو تفصیلاً بیان فرمایا۔ اسی خطاب کا دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
اخلاص و للہیت سنتِ انبیاء ہے، تمام انبیاء نے مشقتیں اٹھائیں، ساری کائنات کے لوگوں کی دین کے لئے کی جانے والی محنتوں کو اگر جمع کر لیا جائے تو بھی ایک نبی کی محنت کے ذرہ کے بھی برابر نہیں۔ یعنی اتنی تکالیف اٹھائیں مگر اخلاص و للہیت ہی ان کا نعرہ، مشن اور مقصود تھا۔ اخلاص و للہیت اور استقامت کے جو مظاہر ہمیں جملہ انبیاء کرام بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اسوۂ صحابہ میں نظر آتے ہیں، آج انہی نقوش کی اتباع میں کامیابی ممکن ہوگی۔
حضرت نوح علیہ السلام نے 900 سال تک اللہ کے دین کی تبلیغ کی اور اسے غالب کرنے کی کوششیں کیں مگر قوم نے قبول نہ کیا۔ قوم کے اس رویہ کے باوجود فرمایا :
فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ o
(يونس، 10 : 72)
سو اگر تم نے (میری نصیحت سے) منہ پھیر لیا ہے تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا۔ میرا اجر تو صرف اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔
جدوجہد کا اصل پیمانہ یہ ہے، اس میں دو راز ہیں :
- طویل مدت بعد بھی قوم نے منہ پھیرے رکھا مگر آپ دل برداشتہ نہیں ہوئے، دل شکستہ نہیں ہوئے، حوصلہ نہیں ہارا، بلکہ استقامت، صبر، توکل پر قائم رہے۔
- للہیت پر قائم رہے کہ میرا اجر میرے اللہ کے پاس ہے۔ قوم کے اس منفی رد عمل کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ پھر بھی کامیاب ہوں، کیونکہ اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے جو محنت و مشقت میں نے کی وہ اللہ کے حضور قبول ہوگئی۔
کارکنانِ تحریک! ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو نتائج بھی دے گا، مگر کوشش اخلاص و للہیت کی نیت کے ساتھ ہونی چاہئے۔ آگے نگاہ نہ رکھیں کہ سویرا کب طلوع ہوگا؟ وہ اللہ کا امر ہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سوئے ہوئے ہوں، صبح اٹھیں تو یکایک حالات بدل چکے ہوں۔ جس طرح پانی زیر زمین چلتا رہتا ہے اور کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہاں نیچے پانی چل رہا ہے، کچی و پکی زمین ہوتی ہے مگر جہاں زمین ہموار اور کچی نظر آتی ہے، یک لخت پانی زور مارتا ہے اور چشمہ بن کر پھوٹ پڑتا ہے، اسی طرح کسی بھی وقت انقلاب کا چشمہ پھوٹ سکتا ہے مگر آپ اپنا تسلسل کے ساتھ عمل حوصلہ ہارے بغیر جاری رکھیں، نگاہ اللہ کے فضل پر رکھیں۔
ھود علیہ السلام بھی للہیت کا یہ سبق دیتے ہیں :
يَا قَوْمِ لاَ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي
(هود، 11 : 51)
اے میری قوم! میں اس (دعوت و تبلیغ) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر فقط اس (کے ذمۂِ کرم) پر ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے،
لوگوں کے کسی صلے پر نگاہ نہیں، ہجرت بھی کرگئے، وطن چھوڑ گئے، معاشرے بدل گئے، اگلی جگہ پر جا کر انقلاب آیا۔ مقصد بات کا یہ ہے کہ حالات اتنے نامساعد تھے، ناموافق تھے، مگر حوصلے نہیں ہارے۔
صالح علیہ السلام نے کہا :
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ o
(الشعراء، 26 : 145)
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کچھ معاوضہ طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف سارے جہانوں کے پروردگار کے ذمہ ہےo
حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا :
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ o
(الشعراء، 26 : 164)
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہےo
حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا :
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ o
(الشعراء، 26 : 180)
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہےo
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی بات فرمائی :
قل لا اسئلکم عليه اجرا ان اجری الا علی الله.
اجر صرف اللہ سے لینا، اس کو اخلاص اور للہیت کہتے ہیں۔ لہذا کارکنان اس سبق کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ آپ جو کر رہے ہیں یہ خدمت دین ہے، کسی شخص کی آپ نوکری نہیں کر رہے، کسی کے لئے کام نہیں کر رہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں اور وہ ہمارے مالک ہیں۔ وہ اللہ جس کے ہم بندے ہیں، وہ ہمارا خالق ہے۔ پس خدمت دین کریں تو لوجہ اللہ۔۔۔ تحریک سے تعلق رکھیں تو لوجہ اللہ۔۔۔ جدوجہد کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ ہر قسم کی ایثار و قربانی، لوجہ اللہ۔۔۔ دعوت و تربیت پر محنت کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ تنظیم سازی پر محنت کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ بذریعہ کیسٹ گھر گھر اور فرد فرد تک دعوت پہنچائیں تو لوجہ اللہ۔۔۔ مال و دولت کی قربانی کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ وقت قربان کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ اپنی ساری توانائیاں صرف کریں، لوجہ اللہ۔۔۔ جوانیاں لگا دیں، لوجہ اللہ۔۔۔
اگر آپ آج سے نیت یہ کریں کہ ہر کام لوجہ اللہ کرنا ہے اور اجر اللہ سے لینا ہے تواس سے مایوسی آپ کی زندگی سے ختم ہو جائے گی۔ مایوسی سے خود نکلنے اور قوم کو نکالنے کے لئے کارکنان کے لئے لازم ہے کہ اس فکر اور سوچ کو پختہ کریں اور عامۃ الناس تک اس پیغام کو لے کر جائیں۔
غلامی سے وفا تک کا سفر، سیرت صحابہ کی روشنی میں
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو نسبت اور غلامی کا تعلق ہے اس کو وفا تک پہنچائیں اور یہ وفا صحابہ کرام کے طرز عمل سے سیکھیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے، لوگ آپ کی دعوت پر قربان ہوتے، کوڑے کھاتے، آگ میں جلایا جاتا، پتھروں کے نیچے ان کو زد و کوب کیا جاتا، ان کو مشقتیں و اذیتیں دی جاتیں مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وفا نبھاتے۔
٭ ایک وقت ایسا آیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو فرمایا کہ حبشہ ہجرت کر جاؤ، وہ لوگ وطن چھوڑ کے چلے گئے، کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خود ادھر بیٹھے ہیں اور ہمیں فرما رہے ہیں کہ حبشہ چلے جائیں۔ یہ وفاء ہے کہ وہ ایک حکم پر سب کچھ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے۔ حکم ہوا کہ واپس آ جاؤ تو واپس آگئے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی آپ وطن سے نکال دیتے ہیں اور کبھی واپس بلا لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، (استغفراللہ العظیم) کسی نے یہ نہیں کہا۔
اس بات کو سمجھیں کہ غلامی سے وفا کا سفر کس طرح ہے۔۔۔؟ غلامی، وفاء تک کیسے پہنچے۔۔۔؟ نسبت، وفاء تک کیسے پہنچے۔۔۔؟ تعلق وفاء تک کیسے پہنچے۔۔۔؟ کارکنو! استقامت و وفا کے یہ سبق اسوۂ صحابہ سے سیکھو۔
صحابہ کرام مشقتیں اور اذیتیں اٹھاتے ہیں مگر کسی نے نہیں کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی دعوت کی خاطر مارے جا رہے ہیں، ذبح ہو رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں، تباہ ہو رہے ہیں، عجیب کام میں آپ نے ڈال دیا، کسی نے ایسا نہیں کہا کیونکہ یہی تو وفاء ہے۔
٭ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کا پورا خاندان شعب ابی طالب کی گھاٹی میں 3 سال محصور رہا۔ گویا تین سال جیل کا زمانہ رہا، مگر حوصلہ نہیں ہارے، وفا پر قائم رہے۔
٭ اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 13 سال مکہ میں گزارے۔ اس دوران 400 کے قریب لوگ مسلمان ہوئے، گویا وہ تحریک اسلام کے ابتدائی کارکن تھے۔ اس وقت مکہ کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ تھی۔ میٹروپولیٹن سٹی تھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آج سے پندرہ سو سال پہلے اس دور میں دس لاکھ سے زیادہ آبادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں تیرہ سال محنت، تگ و دو اور جدوجہد کی، اس دوران معجزات بھی دکھائے۔۔۔ پتھروں سے کلمے بھی پڑھائے۔۔۔ درختوں سے سجدے بھی کروائے۔۔۔ چاند کو دو ٹکڑے کیا۔۔۔ معراج کر کے آئے۔۔۔ مکہ میں کھڑے ہو کر بیت المقدس کے احوال بتائے۔۔۔ سب کچھ کفار کی آنکھوں کے سامنے تھا، اس کے باوجود 350 سے 400 کے قریب افراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم و غلام بنے اور مسلمان ہوئے مگر حوصلہ نہ ہارا۔
اس دوران بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی تحریک کی رفتار ہی کوئی نہیں، بڑی Slow progress ہے۔ 13 سال کے دوران اگر 10 لاکھ آبادی میں سے صرف 400 بندے کارکن بنے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 53 برس ہوگئی ہے تو یہ تحریک کب کامیاب ہوگی؟ کسی لب پر یہ سوال نہ تھا۔
کارکن انقلاب کب آئے گا؟ کیسے آئے گا؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لئے اس بات کو اچھی طرح سمجھیں کہ جب کامیابی کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے صرف 2 سال پہلے مکہ فتح ہوگیا۔ آخری دو سالوں کے دوران یک لخت حالات پلٹ گئے۔ اس سے پہلے دفاع پر ہی رہے۔ Advancement نہیں ہوئی، 23 برس کی جدوجہد میں 21 برس Defence کرتے رہے۔ یہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد ہے۔
ڈوبا سورج بھی پلٹا رہے ہیں۔۔۔ چاند کے بھی ٹکڑے ہو رہے ہیں۔۔۔ انگلیوں سے پانی کے چشمے بھی رواں ہو رہے ہیں۔۔۔ پیالے کے تھوڑے سے دودھ سے کبھی 80 اور کبھی 400 لوگوں کو سیراب بھی کر رہے ہیں۔۔۔ کبھی ایک لوٹے میں ہاتھ ڈال کے 1500 لوگوں کے وضو کے لئے اسباب بھی پیدا فرما رہے ہیں۔۔۔ مردے زندے کر رہے ہیں۔۔۔ ذبح ہوئی بکریاں دوبارہ زندہ ہو رہی ہیں۔۔۔ بھیڑیئے بول رہے ہیں۔۔۔ پرندے اور جانور بول رہے ہیں۔۔۔ ستارے گواہی دے رہے ہیں۔۔۔ درخت زمین کو چیر کے سلام کرنے آ رہے ہیں۔۔۔ کنکریاں مارتے ہیں تو دشمن اندھے ہو جاتے ہیں۔۔۔ صبح و شام جبرائیل اور ملائکہ کا نزول ہو رہا ہے ۔۔۔ وحی آ رہی ہے۔۔۔ آپ اندازہ کریں کہ اتنے عظیم معجزات کو دنیا دیکھ رہی ہے مگر 23 برس کی کوشش (Struggle) ہے اور 21 برس صرف Defence پر رہے۔
پس کارکنان اسوۂ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو سے استقامت کا سبق سیکھیں اور اسوۂ صحابہ سے کارکن بننے کا سبق سیکھیں۔ ان باتوں کو چھوڑ دیں کہ یہ کب ہوگا؟ کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ جو شخص آپ کو ان چکروں میں ڈالتا ہے وہ شخص کچا اور ناپختہ ہے، وہ نہ کارکن بنا ہے اور نہ اس کے پاس Clearty of thoughts ہے وہ صرف Confused آدمی ہے۔ اس کو پتہ ہی نہیں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک طویل سفر ہے۔ صرف اسی ایک بات کی طرف توجہ کریں تو ایسے سوالات و خدشات ختم ہو جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 61 برس ہوگئی تھی اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف Defence پر ہی رہے۔ان آخری دو سالوں میں تبدیلی کیسے ہوئی؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
صلح حدیبیہ، فتح مکہ کا پیش خیمہ
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ میں 6 ھجری کو دس سال تک کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے آئے تھے کہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔ ایک سال بعد کفار مکہ نے خود ہی اس معاہدہ حدیبیہ کو توڑ دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں پر اس معاہدہ کی پاسداری کی کوئی ذمہ داری نہ رہی اور سورۃ برات نازل ہوئی کہ
براة من الله و رسوله
کہ کفار نے معاہدہ توڑ دیا اب اس کی پاسداری کی پابندی اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت پر نہ رہی۔
آپ ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ بالفرض اگر قریش مکہ 7 ھجری میں معاہدہ نہ توڑتے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عہد پر قائم رہتے ہوئے معاہدہ حدیبیہ کے تحت دس سال تک مکہ پر حملہ نہیں کر سکتے تھے اور نہ ایک دوسرے کے حلیف پر حملہ اور ایک دوسرے کے مخالف کی مدد کر سکتے تھے۔ گویا مکمل طور پر جنگ بندی کا معاہدہ تھا، جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قریش کے وعدہ توڑنے کے ٹھیک تین سال بعد وصال ہوگیا۔ اگر قریش نے وعدہ توڑا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے سات سال بعد بھی ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم حملہ نہ کرنے کے پابند تھے۔ ایسی صورت حال میں فتح مکہ کہاں سے ہوتی؟ گویا فتوحات کے پہلے قدم (فتح مکہ) کا آغاز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں نہ ہو سکتا۔
یہ ایک Eventual development ہے۔اس بات سے میں آپ کو انقلاب سمجھا رہا ہوں کہ ایک پالیسی، ایک نظم، استقامت اور ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی و سرپرستی میں صحابہ کرام چلتے رہے مگر انقلاب Eventual Development کی وجہ سے آیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر فتح کر کے واپس پلٹے تو علم ہوا کہ کفار نے معاہدۂ حدیبیہ توڑ دیا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صورت حال میں پیش قدمی کی اور مکہ فتح کرتے ہوئے انقلاب اور فتوحات کی شروعات کا پہلا جھنڈا بلند فرمایا۔ یہ جدوجہد اور کاوشوں کا مصطفوی طریق ہے۔
صحابہ کرام نے آخر وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انقلاب اور فتح مکہ کا نہیں پوچھا بلکہ حدیبیہ کے دن تو صحابہ کرام وعدہ امن کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھے، وہ تو اس وقت لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے جب کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ صحابہ کرام تو احرام کھولنے اور قربانی کرنے کو تیار نہ تھے۔ کئی صحابہ نے جذبات میں آ کر سوالات بھی کئے مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر و استقامت کی تلقین فرمائی۔
کارکنو! اسی جذبہ، محنت اور استقامت کی آج ضرورت ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی استقامت کے ساتھ مدد کرتے رہو اور یہ نہ پوچھو کہ
متی نصر الله
اللہ کی مدد کب آئے گی؟
یہ مدد بھیجنے والے کا فیصلہ ہے، جب چاہے گا، بھیج دے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے کتنی استقامت کے ساتھ میرے دین کے لئے محنت کر رہے ہیں۔
٭ پھر اسی طرح ہجرت کی رات پہ نگاہ ڈالیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 400 کارکنوں کی جماعت میں سے خاموشی کے ساتھ ایک شخص سیدنا صدیق اکبر کو ساتھ لیا اور مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ کسی ایک کو کان و کان خبر نہیں ہوئی، صبح اٹھے تو سب کو پتہ چلا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مکہ چھوڑ کے مدینہ تشریف لے گئے ہیں۔ ان حالات میں بھی ایک شخص بھی بد دل نہیں ہوا۔۔۔ معاذ اللہ مرتد نہیں ہوا، الٹے پاؤں کفر کی طرف نہیں لوٹا۔۔۔ ایک شخص تک نے بھی وفا و تعلق نہیں توڑا۔۔۔ کسی نے سوال تک نہ کیا کہ یہ کیا ہوا؟ قربانیاں ہم دیتے رہے، کوڑے ہم کھاتے رہے، پتھروں کے نیچے ہمیں زد و کوب کیا جاتا رہا۔۔۔ وطن چھوڑ کے ہم جاتے رہے۔۔۔ ماریں ہم نے کھائیں، اذیتیں ہم نے اٹھائیں۔۔۔ اور ملک چھوڑ کے راتوں رات اچانک صرف حضرت ابوبکر صدیق کو لے کر چلے گئے۔ ہمیں بتایا تک بھی نہیں، پالیسی بناتے ہوئے ہم سے مشورہ تک بھی نہیں کیا۔ کارکن چونکہ پالیسی ساز ہوتے ہیں، کارکنوں کی پالیسیوں پر بڑی نگاہ ہوتی ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھا جائے گا مگر صحابہ کرام نے اس حوالے سے بھی کوئی سوال نہ کیا۔
تاریخِ اسلام کے سب سے پہلے کارکن وہ مکی صحابہ کرام تھے، ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ پالیسی کس نے بنائی؟ کہاں بنی؟ اور کس نے مشورہ دیا؟ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا؟ایسا کوئی سوال بھی کسی صحابی کے ذہن میں نہیں آیا۔
اس لئے کہ جب ایک بار اعتماد قائم ہو جائے تو وہ اعتماد قائم رہتا ہے، ٹوٹتا نہیں۔ آپ کا اعتماد میرے اوپر نہیں ہے بلکہ اعتماد رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر ہے، تعلق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے، عبدیت خدا پر ہے، نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے، یہ ان کا مشن ہے، آپ نے ان کا جھنڈا اٹھایا ہے، آپ اسوۂ صحابہ کی طرح آخر وقت تک لڑتے رہیں، ان شاء اللہ جب رب نے فیصلہ کیا تو مدد اتر آئے گی، یہی انقلاب کا طریق ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت فکر کو لوگ جھٹلاتے تھے۔ اس موقع پراللہ پاک نے بڑی کام کی بات سمجھائی۔ سیدنا علی شیر خدا روایت کرتے ہیں کہ ابوجہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ
إنا لا نکذبک ولکن نکذب ما جئت به
(الشفا، 1 : 71)
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا احترام کرتے ہیں آپ کو صادق و امین مانتے ہیں، ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے مگر جو پیغام، دعوت اور تعلیم آپ لے کر آئے ہیں ہم اس کو جھٹلاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدم ہیں، محترم ہیں، مکرم ہیں، صادق و امین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باعث احترام ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام کرتے ہیں مگر جو دعوت، پیغام اور نظام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں، جس نظام کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں ہم اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
جنگ بدر کے دوران ایک صحابی کا اکیلے ابوجہل سے ٹکراؤ ہوگیا، اس صحابی نے ابوجہل سے کہا کہ ابوجہل! اس وقت کوئی تیسرا بندہ سننے والا نہیں، تم اور میں ہوں، آج مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بتاؤ کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندگی میں کیسا پایا؟ اس نے کہا : مجھے رب کی عزت کی قسم! میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ صادق پایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کبھی جھوٹ نہیں نکلا۔
یہی بات قرآن پاک میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ
فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ o
(الانعام 6 : 33)
سو یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کر رہے ہیں۔
یہی نفسیات آج بھی ہے۔ وہ تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ تھا، کہاں وہ عالم پاک اور کہاں ہم جیسے خاک سے بھی بدتر لوگ۔۔۔ ہم تو کسی کام کے نہیں لیکن تجدید دین و احیائے اسلام کی کوششوں اور مصطفوی مشن کے حصول کے دوران آج بھی لوگوں کی اسی قسم کی نفسیات سے پالا پڑ رہا ہے کہ اگر آپ کسی کو اس مصطفوی مشن میں شمولیت کی دعوت دیں تو وہ کہتے ہیں ہم آپ کے قائد کا بڑا احترام کرتے ہیں مگر جس فکر، دعوت اور نظام کی بات وہ کرتے ہیں، ہم اس کے پیچھے نہیں چل سکتے۔ ان کا یہ جواب اس لئے ہے کہ وہاں ان کے مفادات آڑے آ جاتے ہیں۔
کارکنو! آپ کی تحریک پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت کا فیض ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض آج بھی چودہ سو سال بعد آپ کی تحریک اور آپ کی قیادت پر ہے۔ لوگ آج بھی آپ کی قیادت کی شخصیت و اہلیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر دعوت قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ نفسیات ابوجہل و ابولہب کی بھی تھیں، دور جہالیت کی سوسائٹی کی بھی تھیں اور یہی نفسیات آج بھی اسی طرح چل رہی ہیں۔ یہ رعونت فکر ہے، مفادات کے اندر لوگ قید ہیں، حرص و لالچ ہے۔ وہ ایک ہی سوچ آج بھی کار فرما ہے، شخصیت کا احترام مگر جو دعوت ہے اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں، اس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ زمانہ جتنا بدل جائے مگر قرآن کے بیان کردہ حقائق کبھی نہیں بدلتے۔ میں قرآن پاک کی آیات اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ایک چیز کا اطلاق کر کے آپ کو مصطفوی مشن کے خدوخال اور انقلاب سمجھا رہا ہوں۔
صحابہ کرام آخر وقت تک اسی وفاء پر رہے اور اسی وفاء کا عہد منٰی کے میدان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے پہلے لے لیا تھا۔ سیرت ابن ہشام میں آتا ہے کہ بیعت عقبیٰ ثانیہ کے موقع پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے آئے ہوئے قبیلہ خزرج کے لوگوں سے فرمایا :
میرے ساتھ چلنا ہے تو میری دعوت کا اس طرح دفاع کرنا ہے کہ جس طرح اپنی فیملی اور اولاد کا دفاع کرتے ہو۔
الغرض صحابہ کرام کی قربانیوں کا کیا کیا تذکرہ کریں۔ پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے، مقصد بات کا یہ ہے کہ قائد کی ذات سے محبت و عقیدت کو وفاء تک لے جاؤ اور وفاء کا مطلب یہ ہے اپنے قائد کی ذات سے محبت سے آگے نکل کر اس کے پیغام اور اس کی دعوت کے ساتھ محبت کرو اور قربانی دو، اس پر محنت کرو، یہ اصل وفاداری ہے۔ اگر آپ نے اپنی محبت و وفا میری ذات تک رکھی تو وہ عقیدت رہ گئی، میں نے پیر بننے کے شوق میں یہ تحریک قائم نہیں کی تھی۔ خالی پیر بننے کے شوق میں اور آپ کی عقیدتیں لینے اور ان کا مرجع بننے کے لئے اس مشن کو قائم نہیں کیا تھا۔میں نے اپنی پوری زندگی اس کام میں اس لئے صرف کی کہ اگر آپ میرے ساتھ منسلک ہوئے ہیں تو میری محبت سے راہ پکڑتے ہوئے میری دعوت تک پہنچو جس طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو اپنی دعوت تک پہنچایا، اسی سنت کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں۔ یہ وہی سنت ہے کہ جب غزوہ احد میں آقا علیہ السلام کی شہادت کی افواہ پھیل گئی تھی تو اس وقت سورہ آل عمران کی آیت 144، نازل ہوئی :
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ
(آل عمران، 3 : 144)
کیا تمہاری محبتیں، تمہاری عقیدتیں، تمہارے عشق، تمہاری قربانیاں صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تک تھیں؟ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو جائے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو جائیں تو ان کی راہ کو چھوڑ کے پیچھے ہٹ جاؤ گے؟ ان کی دعوت کا جھنڈا بلند نہیں کرو گے؟ قربانیاں نہیں دو گے؟ تگ و دو نہیں کرو گے؟ آگے نہیں بڑھو گے؟ ان کے مشن کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاؤ گے؟ کیا حوصلے ہار جاؤ گے؟ کہ بس ان کے لئے تھے، ان کے لئے قربانیاں دیتے تھے، اب وہ نہیں رہے تو ہم نے کیا کرنا ہے؟ ایسا نہیں، قرآن نے اس تصور کو توڑ دیا ہے۔
فرمایا : ہر ایک نے بالآخر دنیا سے چلے جانا ہے رسول آئے، دنیا سے رخصت ہوئے، اسی طرح اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت اور وفات بھی ہو جائے تو جو دعوت اور مشن تمہیں دے کر گئے اسے لے کے چلتے رہو اور شمع روشن کرتے رہو اور اسے منزل مقصود تک پہنچاؤ۔ یہ طریقہ ہے ذات سے تعلیمات تک۔۔۔ ذات کی محبت سے دعوت تک پہنچنا۔۔۔ اور دعوت وفا کر کے منزل مقصود تک جانا۔۔۔ اس چیز کو لے کر آگے بڑھیں، اسی صورت آپ حقیقی معنی میں کارکن بنیں گے۔
پاکستان کا موروثی جمہوری نظام
موجودہ ملکی حالات اور یہاں موجود نظام سے کبھی توقع نہ کریں کہ اس سے کوئی آپ کو انقلاب کا راستہ ملے گا۔ انتخاب سے کبھی انقلاب نہیں آئے گا۔ یہ تو نظام وراثت ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، غنڈہ گردوں، دہشت گردوں اور ساز باز کرنے والوں کا ایک نظام اور جال ہے۔ اس جال میں چھوٹی بڑی مچھلیاں پکڑنے کے طریقے ہیں۔ سارے شکاری ہیں اور شکار کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس پاکستان میں اس موجودہ نظام انتخاب سے کبھی انقلاب نہیں آئے گا۔ اس چکر میں اپنے آپ کو پریشان مت کریں۔
یہاں تو ہمیشہ سے وہی پرانے لوگ چلے آ رہے ہیں، حتی کہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں جو سوسائٹی میں اثر و رسوخ کے مالک تھے اور بڑے تھے وہی آج بھی بڑے ہیں۔ جن کو رنجیت سنگھ نے جاگیریں دے کر بڑا بنایا، وہ اور ان کی اولادیں ہی ہمیشہ منتخب ہوتے آئے ہیں اور انہی کے سر پر پگڑی رہی ہے۔
انگریزوں نے جنہیں خان بہادر، نواب بنایا تھا انہی کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں 2008ء کے الیکشنز تک کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ یہ ایک تسلسل ہے۔ ان علاقوں میں آپ جو مرضی کر لیں، الٹے لٹک جائیں، وہاں’’جمہوریت‘‘ کسی اور کے پاس جا ہی نہیں سکتی۔
شاہ نواز بھٹو انڈیا کے زمانہ میں حکومت بمبئی کے وزیر تھے، ان کو سر کا لقب ملا تھا۔ 1934ء میں انہوں نے سندھ پیپلز پارٹی بنائی تھی، پھر ان کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو تھے، 1958ء میں وزیر تجارت بنے۔ 1963ء میں ایوب خان کے ساتھ وزیر خارجہ بنے، پھر پیپلز پارٹی بنی اور اگلی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔
اسی طرح بہاولپور کے حلقے میں 1906ء میں مشتاق گورمانی وزیراعلیٰ تھے۔ پھر آگے ان کی اولاد بیٹے، پوتے، پڑپوتے آج تک ان حلقوں میں کامیاب چلے آ رہے ہیں اور ان کے حمایت یافتہ لوگوں کے اثرات ہیں۔
اسی طرح ملتان اور اس کے گرد و نواح میں قریشی، گیلانی اور مخادیم خانوادے ہیں۔۔۔ ڈیرہ غازی خان میں مزاری، لغاری اور کھوسہ خاندان کی ایک تاریخ ہے جو 1930ء سے مسندِ اقتدار پر ہیں۔ ہر دور کے الیکشنز میں وہی اور اسی گروپ کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں، جن کے سر پہ ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بڑے نواب اور لارڈ کے نیچے چھوٹے بڑے زمیندار امیدوار ہوتے ہیں، عرصہ دراز سے یہی طریقہ چلتا آ رہا ہے۔
پھر ایک نیا دور آگیا جس میں شہر Involve ہوگئے۔ پرانے زمانے میں جاگیردار اور فیوڈل لارڈ تھے، اب سرمایہ دار آگئے، بڑے بڑے بزنس مین آگئے۔ اب آپ لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، راولپنڈی کی طرف چلے جائیں، الغرض کہیں چلے جائیں 25 , 20 حلقوں کے بعد کہیں ایک آدھی ایسی سیٹ ملے گی جہاں ایک وقت گزرنے کے بعد کسی ایک ایسے نے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا ہو جو پرانے جاگیرداروں میں سے نہیں تھا۔
اسی طرح اگر خیبر پختونخواہ، سندھ، بلوچستان چلے جائیں تو وہاں کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ جس حلقے میں آپ نگاہ دوڑائیں دو یا تین خاندانوں کے پاس سیاسی قیادت رہی ہے۔ انہی خاندانوں سے امیدوار آتے ہیں، خواہ وہ اِدھر کا ٹکٹ لے لیں یا اُدھر سے ٹکٹ لے لیں یا آزاد ہو جائیں انہوں نے ہی کامیاب ہونا ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟
شہروں کے اندر سرمایہ دار اور مالدار ہیں۔ اب ان میں غنڈہ گردی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ بدمعاشی اور سرمایہ کا اضافہ ہوگیا، پھر ساتھ ایجنسیاں اور Establishment شامل ہوگئی، اس کے ساتھ بیرونی طاقتوں کی establishment بھی شامل ہوگئی۔
الغرض ان تمام عوامل کے ساتھ یہاں انتخاب ہوتے ہیں، یہی پاکستان کا الیکشن ہے۔ کون بے وقوف اس پورے نظام کو جمہوریت کا نظام کہے گا؟ جبکہ چوبیس گھنٹے TV پر اسی کو جمہوریت کہا جا رہا ہے، اسی کو نظام کہا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ یہ سارے اس نظام سے کھاتے پیتے ہیں، یہ اس پورے نظام کے ستون ہیں، انہی کے ساتھ اس نظام کی چھت قائم ہے۔ چھت، ستونوں کے ساتھ اور ستونوں کی رونق چھت کے ساتھ ہے۔ یہ پوری گیم کا جزو ہیں اور 17 کروڑ عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے اور شعور سے محروم کر رکھا ہے۔
مغربی جمہوری نظام کی کامیابی کا راز
مغربی طریق پر ہمارے ملک میں جو الیکشنز ہوتے ہیں، یہ جمہوریت اور انتخابات ان ہی ملکوں کے لئے مناسب ہے جن کے پیچھے دو سو سال کی Education کا تسلسل ہے۔ تعلیم ہے، شعور کی بیداری ہے۔ معاشرتی بیداری ہے۔ گویا یہ دو سو سال کا ایک سفر ہے۔ ان تمام مغربی ممالک کے تمام شہری حتی کہ school going بچے بھی جماعتوں کے characters، ان کی پالیسیوں، ان کے منشوروں اور ان کی تمام ترجیحات سے واقف ہیں کہ کس پارٹی کی کیا پالیسی ہے؟ یہ پارٹی گورنمنٹ میں آئی تو اس کی مختلف حکومتی معاملات پر پالیسیاں کیا ہوں گی؟
ایک ایک ووٹر امریکہ، کینیڈا، یورپ، انگلینڈ، ویسٹرن ورلڈ میں جو ووٹ دیتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں ووٹ جس پارٹی کو دے رہا ہوں، اگر یہ پارٹی اقتدار پر آئی تو ان کی helth پالیسی کیا ہوگی؟ امیگریشن پالیسی میں کیا تبدیلی آئے گی؟ Jobs اور بزنس میں کیا فرق آئے گا؟ inland security Terrorism پر کیا پالیسی ہوگی؟ Income Sport ،Social awareness، سوشل اکنامک فوائد کیا ہوں گے؟ ٹیکسز اور Revenew کیا ہوگا؟ ایک ایک ووٹر کو یہ سب کچھ پتہ ہوتا ہے کہ میرے اس ووٹ سے ملک کے ان معاملات میں یہ تبدیلیاں آئیں گی۔ اس کو مغربی جمہوریت کہتے ہیں کہ ہر ووٹر کو شعور ہے۔ بعد ازاں وہ پارٹیاں سو فیصد کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر ان کی Struggle انہی خطوط پر چلتی رہتی ہے اور وہ کچھ نہ کچھ حاصل کرتی رہتی ہیں۔
ایک شخص گھر کے اندر موجود دوسرے شخص پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ شوہر کو پتہ نہیں کہ اس کی بیوی کس کو ووٹ دے کر آئی ہے، بیوی کو معلوم نہیں کہ اس کے شوہر نے کس کو ووٹ دیا ہے، بچوں کو معلوم نہیں کہ ان کے والدین نے کہاں ووٹ دیا ہے؟ یہ جمہوریت اور آزادی رائے ہے کہ ہر ایک کی رائے خفیہ اور آزاد ہے، کوئی دوسرا اثر انداز نہیں ہوتا اور نہ کوئی دباؤ ہوتا ہے۔ اس طرح جمہوریت، جمہوری ادارے، جمہوری حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور جمہوری نظام وجود میں آتا ہے۔
یہ سب کچھ ہمارے ہاں نہیں صرف نام کی جمہوریت ہے۔ یہاں رائج نظام انتخابات اور جمہوریت سب کچھ فراڈ ہے، پوری قوم کو دھوکہ دینا ہے، پوری قوم کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیلنا ہے اور بڑے بڑے لوگوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے ساز باز کرنا ہے۔
(جاری ہے)