سنی سنائی بات پر یقین کرنا اور اُسے آگے پھیلانا ہماری قومی عادت ہے، حالانکہ ہم جس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلمہ گو ہیں، اُن کا فرمان ہے کہ ’’کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیان کرنے لگے۔‘‘
من حیث القوم ہم ایسے قالب میں ڈھل چکے ہیں کہ ایک طرف تو ہم محض سنی سنائی بات پر ہی بلاتحقیق ساری زندگی یقین کئے رکھتے ہیں اور دُوسری طرف ہم کسی کی شخصیت میں موجود تمام تر خوبیوں سے عمداً صرفِ نظر کرتے ہوئے ساری زندگی ا س کی محض کسی ایک آدھ خامی کو ہی کوستے رہتے ہیں۔ یوں بہت سی عظیم شخصیات ہمارے درمیان موجود ہوتی ہیں اور ہم اُن کی زندگی میں اُن سے قومی سطح پر کوئی فائدہ حاصل نہیں کر پاتے، البتہ اُن کے دنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد ہم اُن کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اِعزاز کے ساتھ
یہ ایک حقیقت ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت، صلاحیت اور قیادت بارے حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے اگر کوئی مخالف بھی غیرجانبداری کے ساتھ براہِ راست ذرائع سے اُن کے کام کا جائزہ لے تو وہ کم از کم اِتنا ضرور مانے گا کہ
شیخ الاسلام نے حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکومتوں سے زیادہ مؤثر اور منظم انداز میں قوم کی خدمت کی ہے۔
شیخ الاسلام نہ صرف پاکستان کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے اور دہشت گردی و ظلم سے معمور دُنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کا عزم و صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ عملی طور پر اُس طرف گامزن بھی ہیں۔
شیخ الاسلام نے ایسی سائنسی بنیادوں پر اِسلام کا پیغام مغربی دُنیا کو پیش کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے لوگوں کو یہ کہنا پڑا کہ ’’جب ڈاکٹر طاہرالقادری جیسی شخصیت اِسلام کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر دُنیا کے سامنے رکھتی ہے تو مجھے اطمینان، خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلام جیسے آفاقی مذہب کے پیروکار ہیں۔‘‘ شیخ الاسلام کی تجدیدی حکمتوں کے نتائج دیکھ کر اِسلام دشمن طاقتیں فکر میں مبتلا ہو چکی ہیں اور وہ بکاؤ مال قسم کے لالچی لوگوں کو خرید کر شیخ الاسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر کے اِحیائے ملتِ اسلامیہ کے عظیم مشن کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہیں۔
مذہبی و سیاسی ہر دو قسم کی رکاوٹوں کے باوجود تحریکِ منہاج القرآن کی عالمگیر پذیرائی اور فروغ سے حسد کرنے والوں کی طرف سے بھی شیخ الاسلام کی ذات پر ملکی و بین الاقوامی سطح پر مخالفانہ پروپیگنڈا کی کمی نہیں۔ بقول جسٹس نسیم حسن شاہ : ’’ہمارے ملک کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ یہاں پڑھے لکھے اور مشنری جذبے سے کام کرنے والے انسانوں کی قدر نہیں ہوتی۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری جیسا کوئی شخص باہر کی دُنیامیں موجود ہو تو اُس کا شمار صدی کے عظیم ترین لوگوں میں ضرور ہوتا، لیکن ہمارے یہاں پر جب انسان گزر جاتا ہے تو اُس کی قدر ہوتی ہے۔‘‘
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کی تباہ شدہ حالت کو بدلنے اور اُسے بامِ عروج پر لے جانے کیلئے اللہ ربّ العزت نے کسی کو بھیجا، اُس معاشرے کے نام نہاد قائدین اور مالی لحاظ سے ممتاز حیثیت والے لوگوں نے ہمیشہ اُس کی مخالفت کی، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ قوم اُن کی گرفت سے آزاد ہوسکے۔ ماضی میں ایسا سب کچھ انبیاء کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی قوم نے معاذاللہ دیوانہ، مجنون اور جادوگر تک کہا اور سرورِ کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قسم کے مخالفانہ پروپیگنڈا کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے اور تاریخ نے کامیابی کا وہ دن دیکھا جب اُسی قوم نے نہ صرف اِسلام قبول کر لیا بلکہ وہ فاتح عالم بنی۔ ختم نبوت کے بعد سے مصلحین اور مجددین کے ساتھ بھی معاشروں کے سرکردہ لوگوں کی وہی روِش جاری ہے۔ اپنی زندگی میں مصلحین اور مجددین کو اِس قدر شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ زندگی اجیرن ہو گئی، مگر بعد از وفات اُنہیں اِمام کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں تاجدارِ کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
اِنّ اﷲَ يَبْعَثُ عَلَی رَاْسِ کُلِّ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدْ لَهَا دِيْنَهَا
ترجمہ : ’’بیشک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر کسی کو اِس اُمت کیلئے دین کی تجدید کا فریضہ دے کر بھیجے گا۔‘‘(سنن ابوداؤد)
چنانچہ جس صدی میں جس سطح کا زوال تھا، اللہ ربّ العزت نے اُس زوال کے خاتمے کیلئے اُسی سطح کی تجدیدی ذمہ داری کے ساتھ مجدد کو بھیجا۔ رواں صدی میں مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کے پیش نظر تجدید کی ذمہ داری بھی ہمہ جہتی نوعیت کی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
لَايَقُوْمُ بِدِيْنِ اﷲِ اِلا مَنْ اَحَاطَه مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه
ترجمہ : ’’(ہمہ جہتی زوال کے بعد) اللہ کے دین کو صرف وُہی قائم کر سکے گا جو اُسکے تمام پہلوؤں کا اِحاطہ کرے گا۔‘‘
پچھلی صدی میں فرقہ پرستی کے چنگل میں پھنسی اُمتِ مسلمہ کے ہاں دین کا تصورِ جامعیت پارہ پارہ ہوچکا تھا اور ہر فرقہ اپنے حسبِ ذوق دین کا کوئی ایک جزو لئے ہوئے خوش تھا۔ ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
فَتَقَطَّعْوا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ.
(المؤمنون، 23 : 53)
ترجمہ : ’’پس اُنہوں نے اپنے (دین کے) امر کو آپس میں اِختلاف کرکے فرقہ فرقہ کر ڈالا، ہر فرقہ والے اُسی قدر (دین کے حصہ) سے جو اُن کے پاس ہے خوش ہیں۔‘‘
آج ایسے وقت میں جب دین اور دُنیا کی ثنوِیت (duality) کا فتنہ عروج پر تھا اور اسلام جیسے عظیم معاشرتی دین کے تصورِ اِجتماعت کو پارہ پارہ کرکے اُسے عیسائیت کی طرح ایک ناکام مذہب ثابت کرنے کیلئے مسجدوں میں بند کرنے کی سازشیں زور پکڑ رہی تھیں، تاکہ معاشرے اُس کے فیوضات سے محروم ہو سکیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دین کے ہمہ جہتی زوال کو عروج میں بدلنے کیلئے عالمگیر تجدید کا کام شروع کیا، جن کی ولادت 12جمادی الاوّل 1370 ہجری (19فروری 1951ء) کو ہوئی۔ حدیث مبارکہ کے عین مطابق اگلی صدی کے سرے پر یعنی 8ذوالحجہ1400 ہجری بمطابق (17اکتوبر1981ء) کو اِدارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر شیخ الاسلام نے اپنی تجدیدی کاوشوں کا آغاز کر دیا اور صرف 30 سال کے قلیل عرصہ میں علمی و فکری، تحقیقی و تعلیمی اور عملی میدانوں میں ایسے ہمہ جہت کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ (سردست ہمارا موضوع آپ کی خدمات کی اِحاطہ کرنا نہیں ہے۔ آپ کی خدمات سیکڑوں تصانیف، ہزاروں خطابات اور بے شمار اِداروں کی شکل میں کھلی کتاب کی مانند زمین پر موجود ہے، جن تک ہر خاص و عام کو رسائی حاصل ہے، بشرطیکہ وہ کھلے دل کے ساتھ آگہی کا خواہشمند ہو۔)
شیخ الاسلام کی مخالفت کے اسباب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈا کے بالعموم تین اَسباب ہیں :
- ناسمجھی : روایتی مذہبی ذہن کا آپ کی تجدیدی حکمتیں نہ سمجھ سکنے کی بناء پر مخالفت کرنا
- حسد : حاسدین کا اپنے مفاد کا نقصان دیکھ کر حسد اور بغض کی بناء پر مخالفت کرنا
- لالچ : کاروباری ملاؤں کا اِسلام دُشمن طاقتوں کے اِیماء پر اُن کی طرف سے ملنے والی مالی اِمداد کے لالچ میں آ کر مخالفت کرنا
اب ہم باری باری ان تینوں اَسباب کا جائزہ پیش کرتے ہیں:
مخالفتوں کا پہلا سبب : ناسمجھی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مخالفتوں کا ایک بڑا سبب روایتی مذہبی ذہن کے لوگوں کا آپ کی ’تجدیدی حکمتوں‘ کو سمجھ نہ سکنا ہے۔ آپ کی جملہ تجدیدی خدمات کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اِسلام کے نام لیواؤں کے طرزِعمل سے متنفر ہو کر دین سے بیزار ہو جانے والے مسلمانوں کو گمراہی کی زندگی سے واپس دین کی طرف بلایا۔ آپ نے پہلے سے دین پر قائم لوگوں سے کئی گنا زیادہ محنت مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اُن لوگوں پر کی جو دین سے برگشتہ ہو چکے تھے۔
نئے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کے لئے آپ نے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں دین کا اِنتہائی لچکدار رویہ اُن کے سامنے رکھا، جس کے نتیجے میں اُنہیں دین کی تعلیمات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کے اِس لچکدار رویہ کو اِنتہا پسندوں اور روایتی مذہبی ذہن کے حاملین نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور آپ کے خلاف فتویٰ بازی شروع کر دی۔ عورت کی پوری دیت کا معاملہ ہو یا سر پر عمامہ کی بجائے ٹوپی رکھنے کا معمول، اپنے پیروکاروں پر لمبی داڑھی رکھنے کی پابندی نہ لگانا ہو یا موسیقی، فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی وغیرہ کو ایک حد تک مشروع رکھنا، ان سب میں ایسی بے شمار حکمتیں کارفرما ہیں جنہیں روایتی مذہبی ذہن سمجھ نہیں پایا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تجدیدی حکمتیں اپنے نتائج کے ساتھ لوگوں کو سمجھ آنے لگ جائیں گی، جیسے دینی تعلیمی اِداروں میں دُنیوی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی حکمت بہت سوں کو سمجھ آنے لگ گئی ہے۔ اِسی طرح ایک وقت تھا جب شیخ الاسلام پر تصویر بنانے اور خطابات کی ویڈیو ریکارڈنگ کروانے کی بناء پر فتوے لگائے جاتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُس تجدیدی حکمت کی سمجھ آنے لگ گئی، حتیٰ کہ فتوے لگانے والی بعض جماعتوں نے اب اپنے ٹی وی چینل بنا رکھے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہی قوم آپ کی تجدیدی حکمتوں کے نتائج دیکھ کر آپ کی گروِیدا ہو جائے گی، مگر تب ایسے ناسمجھوں کے لئے صرف حسرتیں باقی رہ جائیں گی۔ (ان شاء اللہ اگلے شمارے میں ’’شیخ الاسلام کی تجدیدی حکمتیں اور اُن کے نتائج‘‘ پر مبنی تفصیلی مضمون شائع ہو رہا ہے۔)
مخالفتوں کا دُوسرا سبب : حسد
آج کل کے دور میں قیادت ہمیشہ قوم کے بل پر تصور ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ کسی لیڈر کے ساتھ ہوں وہ اُتنا بڑا لیڈر کہلاتا ہے، اِسی طرح جتنے زیادہ لوگ کسی عالم کے پیروکار ہوں وہ اُتنا بڑا علامہ کہلاتا ہے۔ جب ہمہ جہتی زوال کے خاتمہ کیلئے شیخ الاسلام نے ہمہ جہتی اِصلاحات کا آغاز کیا تو جب جس پہلو میں اِصلاحی خدمات کا آغاز ہوا تب اُس پہلو کے ٹھیکیداروں نے اپنے تحفظات کے پیشِ نظر شور مچانا شروع کردیا۔ ان اِصلاحی خدمات کے دوران جب جس فرقہ اور گروہ کی تعلیمات کو حقیقی اِسلامی تعلیمات کے ساتھ موازنہ کرکے پرکھا جانے لگا اور حق و باطل میں فرق صاف نظر آنے لگا تو اُس فرقے کے عمائدین (لیڈر) اپنے عقیدت مندوں کی تعداد کم ہوتی دیکھ کر چیخنے لگے۔ جس گروہ کے پاس اپنے حسبِ ذوق دین کا جو جزو جس بھی حالت میں تھا، وہ اُسی کے حوالے سے پریشان ہوا۔
ہر بات کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے دعویداروں نے جب شیخ الاسلام کے قلم اور زبان سے عقائدِ اہلسنت کی تائید میں قرآن و سنت کے دلائل کا اَنبار دیکھا تو وہ گھبرا گئے اور بلاجواز و بلادلیلِ شرعی بات بات پر شرک اور بدعت کی تہمتیں لگانے لگے۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کو معاذاللہ حدیثِ رسول کا مخالف قرار دینے اور گزشتہ کئی نسلوں سے فقہ حنفی کے خلاف زہر اُگلنے والوں کو شیخ الاسلام کی تحقیق سے اِمام اعظم رضی اللہ عنہ کا ’’امام الائمہ فی الحدیث‘‘ ثابت ہونا کیونکر قبول ہو سکتا تھا! اِسی طرح دورۂ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے دوران اِمام بخاری رضی اللہ عنہ و اِمام مسلم رضی اللہ عنہ کے عقائد کا بیان خود کو حدیثِ نبوی کا اکلوتا وارث سمجھنے والوں کو ذرا نہ بھایا اور وہ شیخ الاسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو ہر ممکن حد تک تیز سے تیزتر کرنے لگے۔
خارجی عقائد سے مزین ہونے کے باوجود اہل سنت کا ٹائٹل اِختیار کر کے خود کو دین کا اصل وارث سمجھنے والا گروہ شیخ الاسلام کی تصانیف اور خطابات میں جابجا اہلسنت والجماعت کے حقیقی عقائد کی تائید میں قرآن و سنت کے دلائل کا اَنبار دیکھ کر پشیمان ہوا۔ شیخ الاسلام کے دلائل کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی اور وہ اہل سنت کا ٹائٹل واپس سوادِ اعظم کی طرف پلٹتا دیکھ کر گھبرا گئے اور مختلف حیلوں بہانوں سے کبھی شیخ الاسلام کے دروسِ تصوف و رُوحانیت کے خلاف بیان بازی اور کبھی میلاد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدعت ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ دفاعِ شانِ علی رضی اللہ عنہ پر شیخ الاسلام کے خطابات سے اُن کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوا تو وہ مزید اوچھی حرکتوں پر اُتر آئے۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر اپنے من گھڑت نظریات کی دکان چلانے والے اہلِ بیتِ اَطہار رضوان اللہ علیہم کی شان سن کر پریشان ہوئے۔ شیعہ کو واجب القتل قرار دے کر قوم کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے والوں کیلئے یہ منظر ناقابلِ قبول تھا کہ سنیوں کی زبان سے اہلِ بیتِ اطہار کے حق میں اور شیعوں کی زبان سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں نعرے بلند ہوں۔ اُلٹا شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے سن کر اُنہیں اپنی دکانداری خطرے میں نظر آئی تو اُنہوں نے شیخ الاسلام کی ہر ممکن انداز میں کردارکشی کی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ شیخ الاسلام نے جواب میں کبھی اُن جیسی زبان اِستعمال نہ کی اور وہ اپنی موت آپ مر گئے۔
اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبانِ طعن دراز کرنے والوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاذاللہ منافق قرار دینے والوں کو شیخ الاسلام کی زبانِ حق ترجمان سے دفاعِ شانِ صحابہ پر 48 گھنٹے طویل دلائل کا اَنبار قطعی پسند نہ آیا۔ شیخ الاسلام نے اہلِ تشیع ہی کی کتب سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں اِس قدر دلائل دیئے کہ کوئی ذِی شعور اُنہیں سن لینے کے بعد ماننے سے اِنکار نہیں کر سکتا، مگر جن کی دکانداری کو خطرہ ہو وہ کیسے مانیں! چنانچہ جو پہلے اہل بیت اطہار کی شان میں شیخ الاسلام کے خطابات سن کر سر دھنتے تھے اب اُنہیں شانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا علمی دفاع قطعی پسند نہ آیا اور وہ صدیوں پر محیط اِعتدال و توازن سے ہٹی روِش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے بلکہ اُلٹا مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کی کردارکشی میں مصروف ہوگئے۔
سوادِ اعظم کے زعم میں مبتلا ہو کر اپنے سوا باقی تمام فرقوں کو کافر قرار دینے والوں نے ’’اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسرے کا عقیدہ چھیڑو مت‘‘ کی حکمت نہ سمجھ سکنے اور ادب و گستاخی کے معاملے کو اِنفرادی عمل قرار دیتے ہوئے پورے فرقے کو کافر قرار نہ دینے کے جرم کی پاداش میں شیخ الاسلام پر ’’صلح کلیت‘‘ کا ٹائٹل لگا کر اُنہیں دائرۂ اِسلام سے نکال باہر کرنے کا اِعلان کر دیا۔ خود کو بریلویت کے دائرے میں محدود کر لینے والوں کو اِس ٹائٹل کے بغیر ہر شخص غیرمسلم دکھائی دینے لگا۔ اُن کی سادہ لوحی پر کیا کہیئے کہ اُنہیں ساری زندگی اِتنی بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ یہ خودساختہ ٹائٹل تو محض برصغیر میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لفظ ’’بریلویت‘‘ کی بجائے ’’اہلِ سنت‘‘ کے ٹائٹل کی بحالی دیکھ کر گھبرانے لگے اور صرف مسلمان کہلانا اُنہیں ناگوار گزرا۔
تقلیدِ محض کے حاملین اِجتہاد کے لفظ سے خوف کھا کر مخالفت پر اُتر آئے۔ اُنہیں عورت کی دیت جیسے معمولی فقہی مسائل پر شیخ الاسلام کا اِجتہادی مؤقف جان کر یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں اِس سے دین کی اصل روح نہ غائب ہو جائے۔ وہ دیت جیسے فقہی مسئلے کو توحید و رسالت جیسے اِسلام کے بنیادی ستونوں کی طرح اہم قرار دینے لگے۔ اُن کے نزدیک اِمام اعظم رضی اللہ عنہ کے فتویٰ سے اِختلاف ایمان سے خالی ہونے کے مترادف ٹھہرا اور وہ یہ بھول گئے کہ فقہ حنفی کی ہر کتاب میں جابجا امام اعظم رضی اللہ عنہ سے اُن کے شاگردوں کا اُسی دور میں اِختلاف موجود ہے، جبکہ شیخ الاسلام کا زمانہ تو امام اعظم رضی اللہ عنہ سے صدیوں بعد کا زمانہ ہے، جب مرورِ زمانہ سے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اِجتہاد سے خائف علماء اِس پر بھی قائل نہ ہو سکے کہ اِسلام کو جدید دور کے بین الاقوامی اِشاعتی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنا کیوں ضروری ہے!
شیخ الاسلام نے جب برصغیر میں تصوف میں در آنے والے بگاڑ کی اِصلاح کی طرف توجہ دلائی تو نام نہاد صوفی اپنی دکانداری بند ہوتی دیکھ کر چیخے چلائے اور شیخ الاسلام کو خارج از اہلِ سنت حتیٰ کہ یہودیوں کا ایجنٹ تک قرار دینے لگے، مگر اُن کا کاروبار بحال نہ ہوسکا۔
شیخ الاسلام نے جب ’’آمدِ اِمام مہدی علیہ السلام‘‘ کے حوالے سے اُٹھنے والے فتنے کا سدِباب کیا تو لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز بننے کے شوق میں خود کو اِمام مہدی قرار دینے کی تیاری میں مصروف فتنہ گروں کی جڑیں کٹ گئیں اور وہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا میں اپنا حصہ ڈالنے لگے۔
شیخ الاسلام کی زبانِ حق ترجمان سے ختم نبوت کی علمی و قانونی حیثیت جاننے کے بعد جھوٹے نبی کے اُمتیوں کا مقصدِ وُجود خطرے میں پڑ گیا اور وہ خود کو بچانے کے لئے شیخ الاسلام کے خلاف ہر ممکن پروپیگنڈا کا سہارا لینے لگے۔ کبھی وہ مغربی دُنیا کو آپ کا خطرناک حد تک بنیادپرست اور اِنتہاپسند ہونا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی شیخ الاسلام کے خطابات کی قطع و برید کرکے اپنے جھوٹے نبی کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اُن کی ساری کوششیں رائیگاں ہی جائیں گی اور اللہ ربّ العزت کا فیصلہ ثابت ہو کر رہے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حسد میں تمام فرقوں کا یوں متفق ہو کر تنقید کرنا، ایک دُوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگانے والوں کا آپ کے خلاف منفی پروپیگنڈا میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرنا، حتیٰ کہ مرتدین کا بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر شریک ہونا، آپ کی سرپرستی میں جاری عظیم مصطفوی مشن کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بقول اقبال
یہ اِتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
مخالفتوں کا تیسرا سبب : لالچ
شیخ الاسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کا تیسرا بڑا سبب لالچ ہے۔ زوال کی اِنتہاؤں کو چھونے والے اِس دور میں جن علمائے سُوء نے اپنا دین و ایمان فقط دولتِ دُنیا کو بنا رکھا ہے، اُنہوں نے آپ کی سیاسی و اِنقلابی جدوجہد کے دَور میں دُنیادار سیاستدانوں کے اِشاروں پر کئی بار فتویٰ زنی کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار جب بھی شیخ الاسلام نے مصطفوی اِنقلاب کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مغربی ایجنڈا نافذ کرنے والے حکمرانوں کے خلاف ٹکر لی، الیکشن کے دن قریب آئے تو عوام الناس کو بدظن کرنے کے لئے تنخواہ دار فتویٰ بازوں کی فوج میدان میں اُتر آئی اور اُنہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں، اَخبارات اور رسالوں میں، ہر طرف کردارکشی کا ماحول گرم کرنا شروع کر دیا۔
سال 2002ء میں پاکستانی نظامِ اِنتخابات سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد لالچی فتویٰ بازوں کے فتووں کا سیلاب تھم گیا تھا۔ مگر مارچ 2010ء کے بعد اچانک اُس سیلاب میں سونامی کا منظر دکھائی دیکھنے لگا۔ فرق صرف اِتنا تھا کہ ماضی میں بعض مفادپرست سیاسی جماعتیں اُنہیں اپنے مقصد کے لئے خریدتی تھیں جبکہ اِس بار اُن کے غیرملکی آقاؤں نے اُنہیں کافی مہنگے داموں خریدا ہے۔
مارچ 2010ء میں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کرکے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالم اسلام کو اِسلام دُشمن طاقتوں اور خارجیوں کی مشترکہ تباہ کن چال سے بچا لیا۔ اس فتویٰ کے ذریعہ آپ نے دُہرا کام کیا، ایک طرف خارجیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے اُنہیں بے نقاب کیا تو دُوسری طرف مغربی دُنیا میں اِسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کے عمل کا سدِباب بھی کیا۔
دہشت گردی کے خلاف فتویٰ سے لفظِ ’’جہاد‘‘ کے مثبت معنی کی بحالی ممکن ہوئی، جبکہ اُس سے قبل مغربی دُنیا میں غیرمسلموں کے قتل کو جائز قرار دینے کو بطورِ جہاد متعارف کروایا گیا تھا۔
دہشت گردی کے خلاف فتویٰ سے لفظِ ’’فتویٰ‘‘ کے مثبت معنی سے مغربی دُنیا روشناس ہوئی، جبکہ اُس سے قبل فتویٰ کا لفظ مغربی دُنیا میں قتل و غارت گری کے جواز کے طور پر مشہور تھا۔
یوں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ کے ذریعہ سے شیخ الاسلام نے اُن کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ دراصل وہ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ عالمی سطح پر اَمن قائم ہو اور مغربی دُنیا کیلئے اِسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے، چنانچہ وہ کسی نہ کسی بہانے اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھتی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر اِسلام کا حقیقی چہرہ مغربی دُنیا کی نوجوان نسلوں کے سامنے آ گیا تو یورپ اور امریکہ میں قبولیتِ اسلام کی شرح کئی گنا بڑھ جائے گی۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد سے اِسلام اور دہشت گردی کو جوڑتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جاری پروپیگنڈا جب اپنے عروج پر پہنچا تو ضربِ یداللّٰہی نے اُسے پارہ پارہ کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے یہ عظیم کام لیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اِسلام کو مقید کرنے کیلئے بُنے گئے جال میں سوراخ ہوتا دیکھ کر وہ طاقتیں بوکھلا گئیں اور اُنہوں نے کئی مختلف محاذوں پر بیک وقت وار کرنے کی ٹھانی۔
پہلا محاذ:بین المذاہب رواداری کے خلاف پروپیگنڈا
پاکستان بیرونی دُنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک کے طور پر مشہور ہے۔ علاوہ ازیں عالمی میڈیا پاکستان کو مزید بدنام کرنے کیلئے مغربی دُنیا کو ہمیشہ مسلم کرسچین فسادات کی خبریں نمایاں کرکے دکھاتا ہے۔ چنانچہ مغربی دُنیا کے تھنک ٹینکس اِس بات کو نہ سمجھ پائے کہ پاکستان جیسے ملک میں (جہاں سے ہمیشہ مسلمانوں کے عیسائیوں کو مارنے کی خبریں ریلیز ہوتی ہوں) وہیں سے ایک نامور مسلمان عالم دین کا مسیحیوں کے ساتھ مل کر اَمن کی شمع روشن کرنا، بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لئے علامتی طور پر اُنہیں اپنے مرکز پر مدعو کر کے کرسمس کے کیک کاٹنا، سنتِ نبوی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِتباع میں اُنہیں اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اِجازت دینا اورقرآن مجید اور بائبل کا ایکسچینج کرنا، ان اُمور پر انہیں شدید تعجب ہوا۔ چنانچہ اُنہوں نے سوچا کہ بین المذاہب رواداری کو شیخ الاسلام کا کمزور پہلو بنا کر خوب پروپیگنڈا کیا جائے تو سادہ لوح مسلمانوں کو اُن کے خلاف اُبھارا جا سکتا ہے۔ اِس پہلو پر وار کرنے کیلئے اُنہوں نے اِنتہائی پلاننگ کے ساتھ کچھ ایسے لالچی فتویٰ باز خریدنے کا فیصلہ کیا جن کا تعلق بالخصوص سوادِ اعظم سے تھا، تاکہ لوگ اُن کے فتووں کو مسلکی مخالفت والی فتویٰ بازی سمجھ کر معمولی نہ لیں اور اُس مخالفت میں زیادہ سے زیادہ جان ڈالی جا سکے۔
وہ یہ بات جانتے ہیں کہ تحریکِ منہاج القرآن کی کوششوں سے گرجوں میں میلادِ مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانفرنس کے اِنعقاد کے خلاف سوادِ اعظم سے وابستہ فتویٰ باز علماء نہیں بول پائیں گے، چنانچہ اُس کا جواب دینے کیلئے اُنہوں نے میلادِ مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدعت قرار دینے والوں کو آگے کرنے کا پلان بنایا۔ یعنی باقی ساری فتویٰ بازی تو سوادِ اعظم سے وابستہ لوگ کریں مگر چرچ میں میلاد کی اِفادیت کی نفی کرنے کی ذمہ داری میلاد کو بدعت کہنے والوں کو سونپی گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِنٹرنیٹ پر جاری بحثوں میں جب کسی کو چرچ میں ہونے والی محفلِ قراءت و نعت اور محفلِ میلاد کا بتایا جائے تو اُس کے لاجواب ہونے پر میلاد کو بدعت قرار دینے والے فرقے کے لوگ مدد کو آن ٹپکتے ہیں۔ یوں ایک دُوسرے کو کافر و مشرک قرار دینے والے فرقے بھی شیخ الاسلام کے خلاف مہم میں ایک دُوسرے کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں، جس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اُن کے پیچھے کوئی منظم ہاتھ کارفرما ہے۔ وہ محض ناسمجھی یا بغض و حسد کی وجہ سے مخالفت نہیں کر رہے بلکہ کوئی خارجی ہاتھ اُنہیں کٹھ پتلی کے طور پر اِستعمال کر رہا ہے۔
(بین المذاہب رواداری کے فروغ کے حوالے سے شرعی دلائل کیلئے ’’العلماء‘‘ جولائی 2011ء ملاحظہ فرمائیں)
دُوسرا محاذ : نام نہاد بدعات کا واویلا
دُوسرے پہلو پر وار کرنے کیلئے اُن تھنک ٹینکس نے ایسے لوگ خریدے جو شیخ الاسلام کی طرف بدعات منسوب کرکے اُنہیں بدنام کرسکیں تاکہ اُن کے مشن کے ساتھ تیزی سے منسلک ہونے والے لوگوں کی شرح کو کم کیا جا سکے اور قوم آپ کی تعلیمات کو مسترد کر دے۔ بدعات کے ٹائٹل پر مبنی یہ کام چونکہ سوادِ اعظم سے منسلک کوئی عالم نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ اِس کام کیلئے بیرون ملکی خرچے پر پلنے والے خارجیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اُنہیں اُن کی منہ مانگی رقم کے عوض شیخ الاسلام کی شخصیت کو داغدار کرنے کیلئے قرآن و سنت کی تعلیمات کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کا منصب سونپا گیا، چنانچہ اُنہوں نے ہر اُس مسئلہ کو ہاتھ ڈالا جس میں ذرا بھی گنجائش تھی اور منفی پروپیگنڈا کے لئے صرف اِنٹرنیٹ پر اِکتفاء نہیں کیا بلکہ CDs بنا کر مفت تقسیم کروائیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ہر اُس عالم دین سے رابطہ کیا جو شیخ الاسلام سے متعلق معمولی سا بھی نرم گوشہ رکھتا ہو، اور اُسے کسی نہ کسی طرح شیخ الاسلام کے خلاف بیان دینے پر آمادہ کیا۔ اِس سلسلہ میں مولانا زبیر احمد ظہیر کے گھر جا کر ’عرفان القرآن‘ کے خلاف بیان ریکارڈ کروا کر انٹرنیٹ پر پھیلایا، اِسی طرح مولانا محمد اسحاق جیسے معتدل مزاج اہلحدیث عالم سے خفیہ طورپر آڈیو بیان ریکارڈ کرکے پھیلایا۔ ایسی اوچھی حرکتوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اِس سب کچھ کے پیچھے ایک منظم گروہ موجود ہے، جو شیخ الاسلام کو ناکام کرنے کیلئے آئے روز نت نئے حربے آزماتا ہے۔ کبھی یہ گروہ ’قدم بوسی‘ کو معاذاللہ سجدہ کے نام سے مشہور کرتا ہے تو کبھی ’تلقینِ میت‘ کے مسنون عمل کو بدعت قرار دے کر انٹرنیٹ پر اور CDs بنا کر اُچھالتا ہے۔ الغرض بے شمار اِلزامات کی بوچھاڑ کے باوجود شیخ الاسلام کا مشن روزبروز آگے سے آگے نکلتا چلا جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام کی راہ میں روڑے اَٹکانے کے فریضہ پر کاربند مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے نام نہاد علماء آپس میں ایک دُوسرے کو بھی کافر اور مشرک ہی قرار دیتے ہیں، مگر مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے ایک دُوسرے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون بھی فرما رہے ہیں۔
ایسے میں پریشان ہو کر مخالفین مل بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بدنام اور ناکام کرنے کی کون سی کوشش نہیں کی، مگر اُس کے باوجود سب بے کار ہے۔ ہم نے ہر حربہ آزمایا مگر ہماری ہر کوشش رائیگاں گئی اور اُن کے پیروکاروں کی تعداد میں آئے روز اِضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی اثناء میں ایک ذہین شخص رائے دیتا ہے کہ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مخالفین میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے غیرسنجیدہ پن، شاید یہی وجہ ہے کہ بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ حتیٰ کہ قادیانیوں تک کی آپ کے خلاف تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ طے کرتے ہیں کہ اب شیخ الاسلام کی علمی کاوِشوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لئے ان کا اِنتہائی سنجیدہ انداز میں ناقدانہ جائزہ پیش کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ’’تحقیق‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلی اینٹ کے طور پر ایک صاحب نے شیخ الاسلام کی تصانیف سے کیڑے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور اسے انٹرنیٹ پر شائع کرتے ہوئے اپنے حواریوں کو یہ سبق دیا ہے کہ اُن میں سے ہر کوئی شیخ الاسلام کی کم از کم ایک کتاب پر اسی سطح کی ’’تحقیق‘‘ کرے۔ چنانچہ محققین کی فوج عنقریب حرکت میں آ رہی ہے اور یوں اللہ ربّ العزت شیخ الاسلام کے مخالفین کے ذریعے سے بھی آپ کے مشن کو فائدہ ہی دے گا۔ ان شاء اللہ
تیسرا محاذ : میڈیا کی کڑی نگرانی
میڈیا پر تحریک کی پذیرائی کی کڑی نگرانی کیلئے بکاؤمال قسم کے نام نہاد دانشوروں کی ایک سپیشل ٹیم تحریکِ منہاج القرآن کی ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبروں کے علاوہ عالمی میڈیا میں ’دہشت گردی کے خلاف فتویٰ‘ کی پذیرائی اور عالمی امن کیلئے کی جانے والی کوششوں سے متعلقہ خبروں کے تعاقب میںبٹھائی گئی ہے، جو شیخ الاسلام کی عالمی کامیابیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ انٹرنیٹ پر مختلف کمیونٹی ویب سائٹس پر ڈسکشن کے دوران اور دیگر ویب سائٹس میں آرٹیکلز لکھ لکھ کر اُن خبروں کی اہمیت کم کرنے کا فریضہ نبھا رہی ہے، تاکہ تحریکی کارکنوں کا مورال پست کیا جا سکے اور شیخ الاسلام کو عالمی سطح پر محنت اور لگن کے ساتھ مسلم دُنیا کا مقدمہ لڑنے میں جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں قوم کو اُن سے بے خبر رکھا جا سکے، نیز پاکستانی میڈیا کو اُن تاریخی کامیابیوں کی کوریج سے باز رکھا جا سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مارچ 2010ء کے بعد سے شیخ الاسلام کی طرف سے عالمی قیامِ امن کی کاوشوں کے حوالے سے انٹرنیشنل نیوزچینلوں پر بھرپور کوریج کے علاوہ اَخبارات اور انٹرنیٹ پر لاکھوں ویب صفحات شائع ہو چکے ہیں، مگر پاکستانی قوم کو اُس کے اَثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے نہ صرف ملکی میڈیا ایسی خبروں کو ریلیز کرنے سے ہچکچاتا ہے بلکہ انٹرنیٹ پر پاکستانی کمیونٹی کی ویب سائٹس میں اُن خبروں کی اہمیت کم کرکے پیش کرنے کی مہم بھی جاری ہے تاکہ پاکستانی قوم کو آپ کی عالمی کاوِشوں کے ثمرات سے محروم رکھا جا سکے۔
رفقاء و وابستگان کیلئے پیغام
تاجدارِ کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرزِعمل ہی ایک مسلمان کی زندگی میں بہترین قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر، آپ کی اَزواجِ مطہرات پر طرح طرح کے نازیبا اِلزامات لگے مگر آپ نے قطعی طور پر کوئی جوابی گالی نہیں دی، کبھی بددعا نہیں دی، آپ کی سیرتِ طیبہ سے منور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی نے جذبات میں آ کر دشمنانِ اِسلام کا گریبان نہیں پکڑا۔ حتیٰ کہ طائف کے بازاروں میں قوم نے جب آپ کو لہولہان کر دیا اور فرشتوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا، جبرئیل امین طائف کے مکینوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دینے کے اِرادے سے حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، مگر آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِجازت نہ دی۔ اِس سطح کی بدسلوکی کے جواب میں بھی رحمت للعالمین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اُن کے حق میں فقط دعا ہی کی اور جبرئیل امین کو یہ فرما کر روک دیا کہ یہ نہ سہی شاید ان کی اگلی نسلیں ایمان لے آئیں۔
چنانچہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مصطفوی کارکنوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی گالی کے جواب میں اُسے گالی دیں۔ ہمارا مقابلہ کردار کا مقابلہ ہے۔ مخالف اپنی بدکرداری میں جتنا بھی نیچے اُتر جائے ہمیں اپنے مصطفوی کردار کے ساتھ اُس کے سامنے سینہ سپر رہنا ہے۔ اگر ہم مصطفوی کارکن ہیں اور مصطفی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں مصطفوی سیرت کو اپنانا ہوگا۔
یادرکھیں! گالی کے جواب میں گالی دینے سے ہم بھی ویسے بن جاتے ہیں اور یہی مخالفین چاہتے ہیں۔ اس لئے جب بھی کوئی علمی نوعیت کا اِعتراض کرے تو اُس کا علمی جواب دیں، مگر ہماری زبان سے ہمارا مصطفوی کارکن ہونا نظر آئے اور جب کوئی جاہلانہ روِش کے ساتھ گالی دے یا برابھلا کہے تو اُس کیلئے صرف سلامتی کی دعا کریں۔
یاد رکھیں! حق کے خلاف پروپیگنڈا وقتی طور پر نقصان دِہ دکھائی دیتا ہے مگر بعد ازاں اُس میںاہلِ حق کا ہی بے شمار فائدہ ہوتا ہے، جو وقتی طور پر سمجھ میں نہیں آتا۔ ’’حاسد کو اگر پتہ چل جائے کہ اُس کے حسد سے اہلِ حق کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے تو وہ حسد میں آ کر حسد کرنا چھوڑ دے۔‘‘
سیرتِ طیبہ میں اس کی ایک بہترین مثال موجود ہے۔ مشرکینِ مکہ کے پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر ایک بڑھیا شہر مکہ چھوڑ کر جا رہی تھی۔ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس کی مدد کرنے کو اُس کا سامان اُٹھا کر ساتھ چل دیئے۔ کچھ دُور تک چلنے کے بعد وہ عورت بولی : تم بھلے آدمی معلوم ہوتے ہو، بہتر ہوگا کہ تم بھی یہ شہر چھوڑ دو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وجہ دریافت فرمائی تو وہ کہنے لگی کہ یہاں ایک جادوگر رہتا ہے، جو اُس کی بات سن لیتا ہے وہ اُسی کا ہو جاتا ہے، اُس کا نام محمد ہے، اُس سے بچ کر رہنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محمد تو میں ہی ہوں۔ چند لمحے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل کر وہ آپ کے اَخلاق و کردار سے اِتنا متاثر ہوچکی تھی کہ فوری اِسلام قبول کر لیا۔
اِس واقعہ میں دیگر بہت سی حکمتوں کے علاوہ ایک سبق منفی پروپیگنڈا کا اہلِ حق کیلئے فائدہ مند ہونا بھی ہے۔ اگر مشرکینِ مکہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اِتنا پروپیگنڈا نہ کرتے تو وہ بڑھیا یوں حقیقت کو قریب سے نہ دیکھ پاتی جتنا اُسے اس صورت میں موقع ملا۔ یہ مشرکینِ مکہ کا پروپیگنڈا ہی تھا، جس نے اُس بڑھیا کو تاجدارِ کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام براہِ راست سننے کا موقع دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اﷲُ وَاﷲُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ.
(آل عمران، 3 : 54)
ترجمہ : ’’پھر اُنہوں نے خفیہ سازش کی اور اﷲ نے مخفی تدبیر فرمائی، اور اﷲ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔‘‘
یوں اللہ ربّ العزت دین دُشمن طاقتوں کی تدبیروں کو بھی اِسلام کے مفاد میں اِستعمال کرتا ہے۔ پس اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے نئے لوگوں تک تحریک کا اچھا یا برا پیغام پہنچ رہا ہے تو ہمیں اِس موقع کو ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیئے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر شکست خوردگی کا مظاہرہ کرنے یا گالی گلوچ بکنے والوں کو جواباً گالی دینے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ’’بیداری شعور‘‘ کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا پیغام براہِ راست ذرائع (آپ کی تصانیف و خطابات) کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں کیونکہ یہی اس دور میں اصل جہاد ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کارکن ’’بیداری شعور‘‘ کے لئے شیخ الاسلام کے پیغام کو اُنہی کی زبان میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچانے میں اپنے دن رات صرف نہیں کر سکتا تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم منفی پروپیگنڈا سے پریشان ہوں یا مخالفین کو جوابی گالیوں سے نوازنے لگیں۔
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لئے