تجدید دین و احیائے اسلام کی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کو یہ سعادت و اعزاز حاصل ہے کہ حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف "شہر اعتکاف" کے نام سے سجایا جاتا ہے۔ یہ اعتکاف سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کی روحانی قربت و معیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی صحبت و انداز تعلیم و تربیت کی بناء پر منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ یہ اعتکاف قرآن، حدیث، فقہ و تصوف اور احیائے اسلام کے لئے افراد کی تیاری سے متعلق تعلیم و تربیت کا حسین امتزاج ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام اس شہر اعتکاف میں تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور وظائف ایک خاص شیڈول کے مطابق معتکفین کے ذوقِ عبادت کو بڑھانے کی غرض سے منظم انداز میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کی فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی اور تنظیمی و انتظامی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اخلاص و للہیت سے معمور ہو کر مزید بہتر انداز میں تجدید دین کے اس مصطفوی مشن کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ یہ اجتماعی اعتکاف نہ صرف اللہ رب العزت کے حضور اجتماعی توبہ اور گریہ و زاری کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آقا سے وفا تک لے جانے کا باعث بھی بنتا ہے۔
گذشتہ سال ملک پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی بناء پر ’’شہر اعتکاف‘‘ کا انعقاد نہیں ہوا، بلکہ شیخ الاسلام کی ہدایات پر اعتکاف کا ارادہ کرنے والے ہزاروں معتکفین اور جملہ مالی وسائل کو متاثرہ علاقوں میں عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا گیا۔
امسال تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 20 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف کا انعقاد کیا گیا، جس میں اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔
ہر روز شیخ الاسلام کے کینیڈا سے لائیو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے براہ راست خطابات نشر کئے گئے۔ منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج پروڈکشنز کے باہمی تعاون سے شیخ الاسلام کے خطابات سمیت شہر اعتکاف کی جملہ سرگرمیاں www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کی گئیں۔ ناظم اعلی ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلی شیخ زاہد فیاض (سربراہ اعتکاف کمیٹی)، جواد حامد (سیکرٹری اعتکاف کمیٹی) اور 58 انتظامی کمیٹیوں کے سربراہان و ممبران نے اس شہر اعتکاف کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
٭ شہر اعتکاف میں مختلف مواقع پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیا ت، مشائخ عظام، علماء کرام، وکلاء، صحافی حضرات اور تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں کے ناظمین اور مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی۔
٭ معتکفین کے لئے اس اعتکاف کا ماحصل شیخ الاسلام کے خطابات ہوتے ہیں۔ جن کے ذریعے وہ اپنے علمی، روحانی، تربیتی، تنظیمی امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ امسال شیخ الاسلام نے معتکفین کی علمی و روحانی آبیاری کے لئے ’’حقائق تصوف اور طرائق معرفت‘‘ اور دیگر اہم تربیتی موضوعات پر اظہار خیال فرمایا۔ (خطابات کے خلاصہ جات اس رپورٹ کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔)
٭ معتکفین کی علمی و فکری آبیاری اور فہم دین بھی تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام منعقدہ اس اجتماعی اعتکاف کا اہم خاصہ ہے۔ شہر اعتکاف میں معتکفین کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد کو مزید اجاگر کرنے کے لئے تحریک منہاج القرآن کی مختلف نظامتوں کے زیراہتمام تنظیمی و تربیتی نشستوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں درج ذیل موضوعات پر مختلف احباب نے خصوصی لیکچرز دیئے :
- مقصود حیات، رضائے الہی (صاحبزادہ ظہیر احمد نقشبندی)
- آئیں دین سیکھیں اور عرفان القرآن کورسز کی اہمیت اور فروغ (غلام مرتضی علوی)
- تحریک کے فورمز کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن کیسے؟ ( ڈاکٹر رحیق احمد عباسی)
- حلقات درود و فکر سے نتائج کے حصول کا لائحہ عمل (احمد نواز انجم)
- دعوت بذریعہ کیسٹ کے ذرائع اور اس کا فروغ (غلام مرتضی علوی)
- تحریک منہاج القرآن کی رفاقت و سنگت کی اہمیت (رانا محمد ادریس)
- ’’اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں‘‘ (ڈاکٹر طاہر حمید تنولی)
٭۔ تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں اور فورمز منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن ویمن لیگ، نظامت دعوت و تربیت اور منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام بھی تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔
٭ شہر اعتکاف میں احباب کی علمی و فکری اور روحانی تربیت کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ یہ احباب اپنے انفرادی معمولات و معاملات کو بھی دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بحسن و خوبی انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں نظامت تربیت کے زیراہتمام قرآن مجید، عبادات و عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل باقاعدہ اسلامی تربیتی نصاب مرتب کیا گیا۔ ان تربیتی حلقہ جات میں نظامت دعوت کے ناظمین، منہاجینز اور کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ نے معتکفین کو خلوت، خاموشی، ذکر الہٰی، توبہ و استغفار، عقیدہ توحید اور تصور شرک، عقیدہ استعانت و شفاعت، فضائل و برکات درود و سلام، اخلاق حسنہ اور تکریم انسانیت، خدمت خلق، حقوق العباد، نماز، ر وزہ اور دیگر عبادات کے فقہی مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔
٭ معتکفین کے لئے آئیں دین سیکھیں کورس اور حلقہ درود و فکر کا روزانہ کی بنیاد پر خصوصی اہتمام کیا گیا۔
٭ تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام منعقدہ اس شہر اعتکاف میں عامہ الناس کو درپیش فقہی مسائل کا بھی دور حاضر کی ضروریات و تقاضوں کے مطابق ایک جامع اور مکمل حل پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر روز باقاعدہ فقہی مسائل کی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔
٭ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کا خصوصی اہتمام بھی ایمان کے نور کو جِلا بخشتا ہے۔ ان راتوں میں منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن ویمن لیگ اور مختلف نظامتوں کے زیراہتمام محافل کا انعقاد ہوا۔ ان محافل میں ملک کے نامور قراء، ثناء خوانان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایرانی قراء کے وفود نے خصوصی شرکت کی۔ یہ جملہ محافل www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کی گئیں۔
٭ شیخ الاسلام کی اعتکاف کے موقع پر آنے والی نئی کتب
اعتکاف کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سلسلۂ اربعینات کی کتب اور دیگرموضوعات پر درج ذیل نئی کتب منظر عام پر آئیں۔ ان کتب کا تفصیلی تعارف بھی شرکاء اعتکاف کے لئے پیش کیا گیا۔
(1) سلسله اَربعينات : اَطْيبُ الطِّيب فِي حُبِّ النَّبِيِّ الْحَبِيب
(محبتِ رسول میں صحابہ کرام کی وارفتگی)(2) نُوْرُ الْعَينَين فِي طَاعَة سَيدِ الثَّقَلَين
(اِطاعتِ مصطفی میں صحابہ کرام کے اِیمان اَفروز اقعات)
(3) تُحْفَة الأنَام في فَضْلِ الصَّلَاة وَالسَّلَام
(فضیلتِ درود و سلام)
(4) هدَايَة الطَّالِبِين فِي فَضَائِلِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِين
(خلفاء راشدین کے فضائل و مناقب)
(5) اَلْقَوْلُ الْمَقْبُوْل فِي ذِکْرِ أَصْحَابِ الرَّسُوْل
(صحابہ کرام کا ذِکرِ جمیل)
(6) حُسْنُ الْمَآب فِي ذِکْرِ أَبِي تُرَاب کرم اﷲ وجهه الکريم
(سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ الکریم کا ذکرِ جمیل)
(7) زُبْدَة الْعِرْفَان فِي فَضَائِل الْقُرْآن
(فضائلِ قرآن)
(8) اَلرَّحَمَات فِي إِيصَالِ الثَّوَابِ إِلَي الاَمْوَات
(اِیصالِ ثواب)
(9) جَلَائُ الصُّدُوْر فِي زِيارَة الْقُبُوْر
(فضیلتِ زیارتِ قبور)
(10) سلسلہ تعلیماتِ اِسلام 7 : حج اور عمرہ
(11) تحریکی زندگی میں نظم و ضبط اَز حسن محی الدین قادری
(12) اِسلام اور تحفظِ ماحولیات اَز حسین محی الدین قادری
خطابات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 20 ویں سالانہ اجتماعی اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تصوف کی حقیقت پر ’’حقائق تصوف اور طرائق معرفت‘‘ اور اصلاح احوال کے متعدد موضوعات پر خطابات فرمائے۔ شیخ الاسلام کے یہ خطابات www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کئے گئے۔ ان خطابات کا خلاصہ نذر قارئین ہے :
٭ 21 رمضان المبارک : تصوف کیا ہے۔۔۔؟
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :
انک لعلیٰ خلق عظيم
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
والذين جا هدوا فينا لنهدينهم سبلنا
یہ آیت کریمہ تصوف کا خلاصہ ہے اور تمام ائمہ تصوف نے اس کو تصوف کا نچوڑ قرار دیا۔ پہلی آیت سے حقائق تصوف آشکار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح دوسری آیت میں سبلنا (راستوں) کے لفظ سے طرائق معرفت واضح ہوئے اور اس سے معلوم ہوا کہ مولا کی رسائی تک پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ نہیں بلکہ بہت سے راستے ہیں۔ انک لعلیٰ خلق عظیم کے ضمن میں سب سے بڑا چشمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے پھوٹ رہا ہے مگر آج کے دور میں تصوف کے اصل concepts نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ تصوف کا دعوٰی صرف اور صرف پیری مریدی رہ گیا ہے اور حقیقت تصوفت کو فراموش کر دیا گیا۔
تصوف اخلاق کا نام ہے اور دین کے اعتبار سے سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے زیادہ اچھا ہے۔ جس کے اخلاق بہترین وہ تصوف میں بہتر ہے، وہی کامل صوفی ہے۔ اچھے اخلاق بہتر بنانے کا نام تصوف ہے۔ سلوک کا تعلق اخلاق کی بہتری ہے۔ تصوف مخلوق کے اخلاق کی درستگی ہے۔ بیوی بچوں، والدین، اعزاء و اقارب، دوست احباب، پڑوسیوں، دشمنوں، کافروں کے ساتھ بہتر معاملات اور اخلاق سے پیش آنا ہے۔ گویا تصوف تہذیب اخلاق اور تحسین اخلاق ہے۔ یہی اولیاء کرام کی سند معرفت ہے، اگر کسی کا اس سند کے قول و فعل میں تضاد ہو تو سمجھ لو وہ جعلساز ہے اس کے حوالے سے آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔
روز مرہ زندگی میں زرخیز زمین پر مختلف پھل، پودے اگائیں تو ساتھ گھاس پھوس، جڑی بوٹیاں، کانٹے اور جھاڑیاں اگ آتی ہیں، اسی طرح نفس و قلب کی زرخیز زمین پر اچھے پودے (اخلاق حسنہ) کے ساتھ ساتھ زہریلے پودے (اخلاق رزیلہ) بھی اُگ آتے ہیں، تو ان کو اکھاڑنا پڑتا ہے۔ لہذا سلوک و تصوف میں اخلاق کو اسی طرح سنوارا جائے کہ اخلاق رذیلہ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ جب اخلاق رذیلہ کو ہٹا کراخلاق حسنہ اور حمیدہ، بخل کی جگہ سخاء نفس، رعونت کی جگہ عاجزی، خود پسندی کی جگہ انکساری، کذب کی جگہ صدق، بے وفائی کی جگہ وفا شعاری، وعدہ خلافی کی جگہ ایفائے عہد، چہرے کی سختی چہرے کی ملائمت و ملاطفت آئے تو اس مسافر کیلئے وصول الی اللہ (اللہ سے ملنے کی صلاحیت) کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جب طبیعت اس طرح مزین ہو جائے، ظاہر و باطن میں نور روشن ہو جائے تو اس کیلئے وصال اور قرب کا راستہ کھول دیا جاتا ہے اور ساکن منازل طے کرنے لگ جاتا ہے۔ صرف وظیفے کرنے، چلّے کاٹنے سے دل کی آنکھ نہیں کھلتی، یہ تصور آج، جعلی پیروں اور عاملوں نے قائم کیا ہے۔ تعویز گنڈہ کرنے، قمیضوں کو ناپنا یہ تصوف نہیں بلکہ شعبدہ بازیاں ہیں۔ تصوف تو ہدایت کا راستہ ہے۔ اچھے کام کیلئے تعویز کرنا جائز مگر یہ عمل اصل تصوف اور اصل معرفت نہیں۔
ان گمراہ کن تصورات کی بناء پر مسلک اہلسنت و الجماعت بدنام ہوا۔ تصوف کا پہلا دروازہ طریقہ شریعت ہے۔ شریعت، طریقت کا ماحصل ہے۔ اس میں صوم و صلوۃ کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی، حرام و حلام کی تمیز لازمی ہے۔ پیغمبران کرام پر بھی شریعت کی پابندی لازمی تھی۔ جس طریقت کی اساس شریعت پر نہیں، وہ طریقت و لایت اور تصوف نہیں۔ تابع بن کر اللہ کے کاموں میں لگ جانا شریعت ہے اور اللہ کی رضا کا طلبگار رہنا طریقت کہلاتا ہے۔ جو شخص تصوف کی اس اصل اور شریعت کے اصولوں کو چھوڑ کر نہایت یعنی طریقت تک پہنچنا چاہے، وہ صوفی نہیں ہے بلکہ وہ تصوف کی تعلیمات سے عاری ہے۔
٭ (22 رمضان المبارک) : سلوک الی اللہ میں احوال، مقامات اور کیفیات
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :
فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون
سیر الی اللہ اور سلوک الی اللہ میں احوال، مقامات اور کیفیات کی منازل آتی ہیں۔ ان میں کیفیت سب سے زیادہ ناپائیدار چیز ہوتی ہے۔ جیسے جگنو کی چمک۔ سالک میں بھی ابتداء میں جگنو کی طرح رنگ و کیفیات بدلتے رہتے ہیں۔ پہلے اس کے لیے ذوق کا دوازہ بند تھا، بعض اوقات ذوق پیدا ہوتا ہے۔ ذوق ایک قلبی روحانی کیفیت ہوتی ہے۔ جیسے حدیث کی روشنی میں ایمان کا ذائقہ کہا گیا۔ یہ کیفیت پیدا ہو تو عبادات میں ذوق آتا ہے۔ یہ کیفیات زیادہ دیر قائم رہیں تو تصور کی اصطلاح میں وہ صاحب حال ہے۔ اس میں تغیرات اور اونچ نیچ ہوتا ہے۔ اس کے بعد مقام ہے۔ سلوک کی راہ میں مقام حال کی طرح تغیر پذیر نہیں اور نہ ہی کیفیات کی طرح کم وقت کے لیے آتا ہے۔ جیسے انسان کی شخصیت میں پانی کی ٹھنڈک اثر دکھاتی ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بندہ راضی ہو جائے تو رضا کے اثرات حلاوت و لذت کے طور پر انسان کو ملتے ہیں، جس سے کیفیت بنتی ہے۔ پھر جب وہ عبادت کرتا ہے اور کلام الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو کیفیات نصیب ہوتی ہیں۔
جب انسان پر کیفیت وارد ہوتی ہے تو پھر اس پر نور ٹپکتا ہے۔ کئی ایسے ہوتے ہیں، جن پر انوار کا ایک ایک قطرہ ٹپکتا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر نور برستا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے خوش نصیب ہیں، جن کا دل نور کی وجہ سے مالاء اعلیٰ بن جاتا ہے۔ یہ انسان کی کیفیات ہیں، کیونکہ جب انسان میں صرف صحبت کا اثر ہو اور اپنی ریاضت نہ ہو تو پھر اس کی شخصیت میں انوار و کیفیات کا اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ جب انسان اللہ کے تعلق میں مست رہے تو اس کو کوئی برا بھلا بھی کہتا رہے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو لطف اس کو لوگوں کی تعریف اور مدحت سے ملنا تھا، اس سے کروڑہا درجے بہتر اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے ان کو لوگوں کی پرواہ نہیں ہوتی۔
حضور غوث الاعظم، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیھم نے فرمایا کہ شریعت کے بغیر عمل کا دعویٰ باطل ہے ۔ شریعت کے بغیر دعویٰ طریقت کرنے والا شیطان اور دجال ہے۔ بغیر عمل کے پیری کا دعویٰ کرنے والے دھوکے باز ہیں۔ اعمال صالح کے بغیر صرف نسبت سے بیڑا پار کرنے کا تصور اولیائے کرام کے ہاں نہیں تھا، یہ تصور جاہلوں اور دنیا پرستوں کا ہے۔ تصوف حسن اعمال، حسن احوال اور حسن اخلاق کا نام ہے، جبکہ ہمارا معاشرہ حقیقت تصوف کو سمجھنے کے حوالے سے دو انتہاؤں پر کھڑا ہے، ایک طرف تصوف کا کلیتاً انکار ہے، جبکہ دوسری طرف اس کے نام پر کاروبار کیا جا رہا ہے۔
صاحب حال وہ ہے جس پر کیفیت زیادہ دیر کیلئے رہے اور صاحب مقام کو اللہ کے انوار و تجلیات کی کیفیت میں دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ صاحب مقام ہونے سے پہلے سالک پر شیطان، نفس اور دنیا کا حملہ شدید تر ہو جاتا ہے۔
علم نافع صاحب مقام کی حفاظت کرتا ہے۔ آنے والے وقت میں علم نافع کے بغیر برتری کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لئے جاہل ملاؤں اور دنیا دار پیروں سے دامن بچا کر اہل علم اور حقیقی اللہ والوں کی صحبت اختیار کی جانی چاہیے تاکہ ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا عمل جاری رہ سکے۔
٭ (23رمضان المبارک) : مرید اور ارادت کیا ہے۔۔۔؟
تصوف کی اصطلاحات میں اصل حیثیت اور مقام شیخ کو حاصل ہے۔ "شیخ" ہونا نہ کاروبار اور نہ ہی وراثت ہے بلکہ تصوف میں احسان، ایمان اور ایقان کے تقاضے پورے کرنے والا کوئی بھی شخص یہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک سادہ آدمی تعلیم حاصل کرتے کرتے ڈاکٹر بن گیا۔ اسکالر اور سائنسدان بن گیا۔ محنت کرتے کرتے وہ بہت بڑا تاجر بن گیا۔ تصوف میں جو شخص بھی محنت سے ولایت کے تقاضے پورے کرے گا، وہ اس کو حاصل کر لے گا۔ شیخ ہونے کے لیے گدی نشین ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ جس نے بھی شریعت و حقیقت اور طریقت کے تقاضے پورے کر لیے، وہ شیخ بن گیا۔
مرید اور ارادت کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب سا تصور رائج ہو گیا ہے۔ مرید کا معنی ارادہ کرنے والا، تصوف کی اصطلاح میں مرید اس کو کہتے ہیں، جو اللہ کا ارادہ کرے اور جس کو اللہ چاہتا ہے وہ مراد ہوتا ہے۔ تصوف میں جو شخص دنیا کی ساری غلاظتوں کو نکال کر صرف اللہ کا ارادہ کر لے تو اس کو مرید کہتے ہیں۔ جب بندہ آخرت اور جنت کا دھیان بھی خیال سے نکال دے تو پھر وہ مرید بنتا ہے۔ یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔
حضور غوث الاعظم نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں لکھا ہے کہ میں نے لفظ "مرید" قرآن پاک سے اخذ کیا ہے۔ شیخ کا مرید ہونا اس لیے مرید کہلاتا ہے کہ جو بندے کو دنیا کی مریدی سے نکال کر مولا کی مریدی کی طرف لے جائے۔ جب تک بندہ اللہ کی محبت کا اس طرح ارادہ نہ کرے تو اس وقت تک وہ مرید نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب ہمارے ہاں یہ امتیاز بالکل ختم ہو گیا ہے کہ شیخ، اللہ کی طرف جانے والا وسیلہ ہے، مراد نہیں۔
یہ تصور بھی غلط ہے کہ بیعت میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہے۔ تصوف میں ہر قدم اور ہر شے اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ بیعت ایک معاہدہ اور عہد ہے، جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جسمانی طور پر یہ لازمی نہیں ہے۔ یہ رائج رسوم میں ایک رسم ہے جو جائز ہے، لیکن ایسی کوئی بات شریعت میں نہیں۔ صحابہ کرام کے دور میں عرب میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ایک کلچر تھا۔ جس طرح صحابہ نے بیعت رضوان کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی ذکر کیا۔ اس طرح منیٰ کے میدان میں بیعت عقبیٰ ثانیہ، ثالثہ ہوئیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام کی مختلف بیعتیں ہیں۔ اس طرح سات، آٹھ قسموں کی بیعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہیں۔ ان میں سے ہر بیعت مریدی اختیار کرنے کے لیے نہیں تھی، لیکن یہ ایک عہد ہوتا تھا۔ لہذا اگر کوئی ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے، یعنی ہاتھ میں ہاتھ نہ بھی دے تو وہ غلط نہیں ہے۔
شیخ کے لیے اجازت نہیں کہ وہ چل کر لوگوں کے پاس جائے اور لوگوں کو مرید بناتا پھرے۔ شیخ وہ ہے جس کے پاس مرید خود چل کر آئیں اور دس میں سے کسی ایک کو مرید بنائے اور باقی نو کو چھوڑ دے۔ انہیں اپنی مجلس میں فیض لینے کا کہے۔ جو زہد نہیں سکھاتا، وہ کون سا شیخ ہے؟ آج ہم نے ٹونے ٹوٹکے کا نام تصوف بنا لیا ہے۔ اس شیخ کی صحبت اور مجلس جائز ہے، جو عالم ہو، زاہد ہو، ظاہر اور باطن میں کامل ہو۔ کیونکہ یہ شیخ کی ذمہ داری ہے، جب مرید اس کی ارادت میں آ جائے تو اس کو سنتیں بھی سکھائے اور فرائض بھی سکھائے۔ الا ماشاء اللہ آج کے نام نہاد شیوخ کو تو نماز کی سنتیں، واجبات اور فرائض کا بھی علم نہیں رہا۔ مریدوں کی تلاش میں ملک ملک مارا مارا پھرنا، ایسے کسی تصوف کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔
٭ (24 رمضان المبارک) : سلوک الی اللہ میں علم اور احکام شریعت کی اہمیت
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
قل هل يستوی الذين يعلمون والذين لا يعلمون
اللہ رب العزت کا قرب اور اس کا سالک بننے کا راستہ بڑا کٹھن ہے۔ طریقت کی منازل اور تصوف کی راہ کے خصائص حمیدہ علم، تمسک بالشر عیہ اور تمسک باللہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔ سلوک الی اللہ کا سفر مسلسل ہوتا ہے، اگر ریاضت و محنت اور مجاہدہ کے بعد حال نہ بدلے تو سفرنہ ہوگا۔ اس لیے اہل سلوک روزانہ اپنے حال پر غور و خوض کرتے ہیں۔ حال کے لیے ضروری ہے کہ حال میں تنزل نہ ہو۔ سالک، سلوک الی اللہ کے سفر کے لیے اپنے حال کی نگرانی رکھے۔ اہل اللہ ہر لمحہ اپنے حال کی بہتری کا انتظام کرتے ہیں۔ یاد رکھ لیں کہ تصوف میں سلوک کا سفر اس وقت شروع نہیں ہوتا جب تک انسان اپنے حال سے باخبر نہ ہو۔ بیداری، روشنی ہے اور غفلت کی نیند اندھیرا ہے۔ جن لوگوں کے من میں اندھیرے کا راج رہتا ہے تو انہیں خبر ہی نہیں ان کے من میں کیا کیا غلاظتیں اور خرابیاں ہیں، جنہوں نے انسان کو اندھیرے میں گھیرا ہوا ہے۔ ہجرت الی اللہ کے دس مراحل بیان کیے جاتے ہیں :
- جہل و غفلت سے علم و انتباہ کی طرف ہجرت
- علم و انتباہ سے توبہ کی طرف ہجرت
- توبہ سے طہارت کی طرف ہجرت
- طہارت سے اطاعت کی طرف ہجرت
- طہارت سے استقامت کی طرف ہجرت
- استقامت سے ریاضت کی ہجرت
- ریاضت سے معرفت کی طرف ہجرت
- معرفت سے محبت کی طرف ہجرت
- محبت سے قربت کی طرف ہجرت
- قربت سے وصال کی طرف ہجرت
تصوف میں ان لوگوں کو کذاب کہا گیا ہے، جو سلوک کا تصوف بغیر علم کے طے کرنے کا کہتے ہیں۔ جو لوگ طریقت میں علم کو پس پشت ڈال کر محض طریقت اور تصوف کی بات کرتے ہیں تو وہ جھوٹ بولتے اور دین کو جھٹلاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے دین میں فہم حاصل کرنے کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے ایک ہزار عابد اور عبادت گزار ہوں مگر علم سے خالی ہوں تو ان سے ایک فقیہ، جس کو اللہ نے علم دیا تو وہ ان ہزار عابدین سے افضل ہے۔ کیونکہ بغیر علم کے شیطان ان عبادت گزاروں کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔
آج جن لوگوں کے پاس نہ علم ہے اور نہ عمل، وہ نہ سالک، نہ فقیر اور نہ پیر ہیں، ان کا تصوف سے دور کا بھی واسطہ نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنا ہلاکت اور بربادی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم تصوف کو علم سے بالکل جدا سمجھنے لگ گئے ہیں۔ تصوف کو بدعت کہنا بدبختی ہے، کیونکہ تصوف تو روح قرآن ہے، روح سنت رسول ہے، یہ روح صحابہ ہے۔ تصوف وہ نور ہے جو پردے اٹھا دیتا ہے، اس نور کا نام تصوف و طریقت ہے۔ جو نور انسان کو تاریکی سے نکال کر روشنی دیتا ہے، اس کا نام تصوف ہے۔ یہ انسان کے اندر گندگی کو ختم کر کے نور کی روشنی پیدا کرتا ہے۔ سب ائمہ نے تصوف کے ذریعے ہی لوگوں کو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق خدا کے جام پلائے۔ اس لیے تصوف کو خارجی چیز، ہندوستانی یا ایرانی پودا سمجھنا بذاتِ خود بدعت ہے۔
٭ (26رمضان المبارک) : خلق عظیم
تصوف اخلاص نیت، علم نافع، عمل صالح اور حسن اخلاق کا مجموعہ ہے۔ تصوف میں مختلف مقامات ہیں۔ احوال سے اعمال جنم لیتے ہیں، اعمال سے علم صحیح ملتا ہے، اور اگر علم لوجہ اللہ ہو تو یہ علم نافع بنتا ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم نے تصوف کے نام کو رسوم اور اصطلاحات کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ لوگ بھول گئے کہ تصوف کی روح کیا ہے؟ روح اور دل کو روحانی لذت سے آشنا کرنا اصل تصوف ہے۔ تصوف میں صوفی وہ ہے جو اخلاق اور رحمت کا منبع ہو۔ جس کا دل نرم ہو، جس کا کلام نرم ہو اور جس کی شخصیت نرم ہو۔
تصوف میں صوفیاء کی تواضع کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مجلس میں کبھی بھی کسی غیر مسلم کو نہیں نکالتے۔ صوفی پانی کی مانند ہوتا ہے، جو بھی اسے پیے، وہ ہر ایک کو سیراب کرتا ہے اور ٹھنڈک بھی پہنچاتا ہے۔ حضرت جنید بغدادی کا قول ہے کہ تصوف اللہ کے اعلیٰ اخلاق کا نام ہے۔ جس شخص میں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق پائے جائیں، اسے صوفی کہتے ہیں۔ جس شخص کا دل ہر قسم کی کدورت سے پاک ہو جائے اور وہ اللہ کی مخلوق سے اخلاق حسنہ سے پیش آئے، صوفی ہے۔ بندہ کا ہر اچھے خلق میں داخل ہو جانا اور برے خلق سے نکل جانا تصوف ہے۔
سلوک الی اللہ کی طرف بڑھنے کے لیے اللہ کی قربت اور معرفت کو حاصل کرنا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ بہت سے ابدال اور اولیاء کو جنت میں اونچے مقامات اور درجات ملیں گے، وہ انہیں نماز، روزہ اور عبادات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے جود و سخا کی وجہ سے یہ مقام عطا کیے جائیں گے۔ ایسے لوگ کسی کے لیے باعث اذیت نہیں ہوتے بلکہ یہ مخلوق کے لیے رحمت بن جاتے ہیں، بس ایسے لوگوں پر اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
سلوک و تصوف کی راہ میں انسان اس وقت تک پختہ نہیں ہوتا، جب تک اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو۔ سلوک و تصوف کی راہ میں بنیادیں جتنی مضبوط ہوں گی اوپر کی منزلیں بھی اتنی ہی مضبوط بنتی چلی جائیں گی۔ ورنہ وہ آگے جا کر دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ مضبوط بنیاد ہونے پر انسان کو پتہ چلتا ہے کہ کیفیات کے بعد حال تک کیسے جانا ہے؟ پھر نفس کے حملوں سے کیسے بچنا ہے؟ نفس امارہ کے حملوں سے کیسے بچنا ہے؟ نفس کی پہچان ہوگی تو حملے کی پہچان ہوگی۔
اس پورے سفر کو طے کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ’’علم‘‘ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں جہالت کے ساتھ ان کا کام چل جائے گا تو وہ بہکاوے، گمراہی اور مغالطے میں ہیں۔ علم صحیح اور علم نافع کے بغیر کوئی تصوف نہیں ہے۔ روحانی علم کے بغیر نہ مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور نہ علاج۔
سالانہ عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر) 2011ء
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوا۔ روحانی اجتماع میں شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات کے علاوہ لاکھوں عشاقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد و خواتین نے شرکت کی۔
پروگرام میں امیر تحریک منہاج القرآن صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف حضرت صاحبزادہ امین الحسنات شاہ سمیت دیگر علماء و مشائخ نے خصوصی شرکت کی۔ علاوہ ازیں تحریک کے تمام مرکزی قائدین بھی پروگرام میں موجود تھے۔
پروگرام میں تلاوت قرآن پاک کی سعادت قاری اللہ بخش نقشبندی نے حاصل کی۔ نعت خواں حضرات میں حسانِ منہاج محمد افضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل ظہیر بلالی برادران اور امجد بلالی برادران، قاری عنصر علی قادری اور شہزاد برادران کے علاوہ دیگر ثناء خواں حضرات نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ علامہ غلام مرتضی علوی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نئی کتب کا تعارف پیش کیا۔ صاحبزادہ علامہ ظہیر احمد نقشبندی نے منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے تحریک منہاج القرآن کی فلاحی خدمات اور بالخصوص "آغوش" کا تعارف پیش کیا۔
ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اعتکاف میں روایتی رسم ادا کرنے نہیں آئے بلکہ یہ اعتکاف پاکستان میں سلامتی و ترقی کے لیے ہے۔ جس میں ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئے ہیں، ملک پاکستان اور عالم اسلام کی ترقی و سلامتی کی دعائیں مانگنے آئے ہیں۔ شہر اعتکاف دور پُرفتن میں امن کا پیغام ہے۔ جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مرد قلندر بن کر امت کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جام پلا رہے ہیں۔ جو اعتکاف کے روحانی ماحول میں دنیا کو بیداری شعور کا پیغام دے رہے ہیں۔ جو اپنے خطابات سے دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے ساری دنیا کو بتایا کہ اسلام دہشت گردی، تنگ نظری اور انتہاء پسندی کا نام نہیں بلکہ یہ امن کا دین ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی 30 سالہ جدوجہد تاریخ ساز ہے۔ جس کو مزید تاریخی بنانا ہے۔ آج اس روحانی اجتماع میں ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم جہاں جائیں گے، لوگوں کے لیے امن کا پیغام، نفع کا پیغام اور سہولت کا پیغام لے کر جائیں گے۔
سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف حضرت صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ نے عالمی روحانی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہر اعتکاف وہ بستی ہے، جس کے ذریعے روحوں کا گدلا پن دور کیا جا رہا ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی محبت ہے کہ مجھے اس مبارک اجتماع میں شرکت اور شیخ الاسلام کے کلمات سننے کا خصوصی موقع ملتا ہے۔ آج لیلۃ القدر ہے، جس میں قرآن نازل ہوا۔ اس مبارک رات کے صدقے ہم شہر اعتکاف میں اللہ کی رحمتوں کا نزول دیکھ رہے ہیں۔ جس سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ آج کی رات ہمیں اپنی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو سجانے ہیں۔ ہمیں اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے۔ میں تحریک منہاج القرآن اور اس مصطفوی مشن کی ترقی کے لیے دعا گو ہوں۔
خطاب شیخ الاسلام : تصوف اخلاق حسنہ کا نام ہے
تمام صوفیاء کا تصوف کی تعریف کے باب میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تصوف درج ذیل بنیادی خصلتوں کو اپنے اندر جمع کر لینے کا نام ہے۔ جو شخص ان خصلتوں کو جمع کر لے وہ باکمال صوفی کہلانے کا حقدار ہے۔
- سخاوت
- رضاء الٰہی
- صبر
- خاموشی
- بے رغبتی
- ہجرت
- فقر
اس دنیا میں حسد، غیبت، عناد، دنیا کا حرص، لالچ، بغض، عداوت اور دنیا جمع کرنے کی آگ لگی ہے۔ تصوف نفس اور حرص و ہوس کو توڑ کر آزاد ہو جانے کا نام ہے۔ اوائل دور میں جب لوگوں میں روحانیت تھی، اس وقت تصوف کا نام کم تھا، لیکن تصوف کی حقیقت بہت عروج پر تھی۔ آج تصوف کا نام رہ گیا لیکن حقیقت غائب ہو گئی۔ اس وقت جس اہل اللہ کو دیکھتے تو اس کے ظاہر و باطن کے احوال تصوف کے ساتھ ہوتے، اب حالت یہ ہے کہ تصوف صرف موضوع رہ گیا، باقی تفصیل چلی گئی۔
آج ہم ظلم کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ اہل کو نااہل اور نااہل کو اہل بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہو رہا ہے۔ اسلام کی قدروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ آج حکمرانوں کو دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے صرف اپنی کرسی کی فکر ہے۔ اس میں قصور وار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نااہل لوگوں کو اپنا حکمران بنا لیا ہے۔
تصوف 8 اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے درج ذیل 4 اصولوں کو اپنانا ضروری ہے :
- صبر
- عفت
- شجاعت
- عدل
جبکہ ان 4 چیزوں کو ترک کرنے کا حکم ہے :
- جہالت
- ظلم
- شہوت
- کبر
حسن خلق کے تین درجات ہیں :
- مخلوق کے مقام اور حقوق کو پہچاننا
- اللہ کے ساتھ حسن ادب سے پیش آنا
- لوگوں کی زیادتیوں اور برے سلوک کو فراموش کر دینا
آج کا المیہ ہے کہ قوم نے شر پسند، کرپٹ اور گمراہوں کو عزت کے مناصب پر بٹھا دیا ہے ۔ عدل کرنے کی ذمہ داری پر فائز ظالم بن چکے اور دوسروں کے حق کو کھا جانا، ان کی عزت کو کھلونا بنانا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ افسوس جن کے ذمہ ملک و ملت کی جان، مال اور عزت کی ذمہ داری تھی وہ لٹیرے بن چکے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے ۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کا عمل روز کا معمول بن چکا، خدا کا خوف دلوں سے ہجرت کرگیا۔
تصوف رسوم اور علوم کا نہیں حسن خلق کا نام ہے اور سر تا پا سراپا اخلاق ہونے کا نام ہے۔ تصوف حسن عبادات کا نہیں حسن معاملات کا نام ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات درست کر لیے جائیں تو اللہ عبادات کی توفیق بھی دے دیتا ہے۔ تصوف علم صحیح کے ساتھ ہو تو زاویہ نگاہ بدل دیتا ہے مگر افسوس! آج تصوف کا دعویٰ تو ہے مگر عمل نہیں۔ تصوف اپنے حقوق قربان کر کے دوسروں کو حقوق دلانے کا نام ہے۔ تصوف صبر، محنت، شجاعت اور عدل کے رویوں کو اپنانے اور جہالت، ظلم، شہوت اور غضب کے رویوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔
آج جہالت کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علم نافع حاصل کرنا ہوگا، علم کے حصول کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہ ہوگا، خود احتسابی کے رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا تاکہ مثبت قدریں پروان چڑھیں اور ہمارا معاشرہ منفی رویوں سے پاک ہو سکے۔
خطاب کے بعد شیخ الاسلام نے ملکی سلامتی، استحکام اور امت مسلمہ کے احوال کی درستگی کے لیے رقت آمیز دعا کرائی۔ پروگرام کی تمام کارروائی اے آر وائی کیو ٹی وی Qtv اور www.Minhaj.tv نے شہر اعتکاف سے براہ راست نشر کی، جبکہ اس شب کی خصوصی دعا Geo TV، دنیا ٹی وی، City 42، سماء ٹی وی اور دیگر ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئی۔
٭ (28رمضان المبارک) : حسنِ ادب
تصوف سارا حسن ادب ہے۔ ادب حسن معاملہ کا نام ہے۔ ہر ایک کے ساتھ بندے کا کوئی نہ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بندے کا اللہ سے عبدیت کا تعلق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امتی کا تعلق ہے۔ صحابہ کرام سے ہمارا ایک پیروکار کا تعلق ہے۔ اولیاء کرام، مشائخ عظام سے ہمارا ایک تعلق ہے۔ الغرض خالق سے لے کر مخلوق تک جس سے بھی ہمارا تعلق ہے، اس کو اگر جملہ حقوق کے ساتھ بطریق احسن ادا کیا جائے تو یہ ادب کہلاتا ہے۔ الغرض جو بھی شخص ہو، اس کے دوسرے پر حقوق ہیں، ان حقوق کو بطریق احسن ادا کرنا تصوف میں ادب کہلاتا ہے۔ اب وہ ادب حسین و جمیل ہو جائے تو یہ تعلق تصوف کہلاتا ہے۔
جن علوم سے اعمال و احوال سنور سکیں اور اللہ کی معرفت مل سکے، ان علوم کو پڑھنا ہمارے زمانے میں جہالت تصور ہونے لگا۔ اس لیے کہ جو آدمی جتنا باتونی ہے، وہی عالم تصور ہونے لگا ہے۔ جسے بات کو سنوار کے کرنے کا طریقہ آ گیا، وہ عالم سمجھا جانے لگا۔ ایسے باتونی اور نام نہاد عالم لوگوں سے فتنہ و فساد پیدا ہوا۔ کیونکہ عوام کو یہ خبر ہی نہیں رہی کہ علم کیا ہے؟ آج لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے، بدی کو نیکی سمجھنے، گھٹیا کو اعلیٰ سمجھنے اور ناقص کو اعلیٰ سمجھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ علم سے تعلق توڑنے کی وجہ سے ہے ۔ اس کے تدارک کے لئے لوگوں کو علم کے حوالے سے آج بارہ، چودہ سو سال پیچھے لے جانا پڑے گا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کو عالم سمجھا جائے جو سلف صالحین کے طریق اور اسوہ پر ہیں۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم اصلاح چاہو گے تو تم کو پھر میرے زمانے کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ان کیف و سرور اور احوال کی طرف پھر لوٹنا ہوگا۔
ادب اور حسن ادب میں فرق ہے۔ ادب ہر ایک کے ساتھ ہے، اس کے حقوق سمجھ کر ادا کرنا ادب ہے۔ لیکن ان حقوق کو احسن طریقے سے ادا کرنا حسن ادب ہے۔ حسن سلوک کے حوالے سے ہمارے تصور انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنا، کفرانہ زندگی ہے۔ عید کے روز اور بقیہ ایام میں بیوی بچوں کو جو خرچ کرنے کو دیتے ہو، تو وہ بھی صدقہ ہے۔ یہ ہمارا تصور ہی نہیں ہے۔ ہمارا تصور ہے کہ اگر خرچہ زیادہ دیں تو یہ بگڑ جائیں گی۔ ہمارا تصور رسوم و رواج پر ہے، دین پر تصور رہا ہی نہیں۔
حدیث مبارکہ کے مطابق حسن ادب یہ ہے کہ اگر اغنیاء، مالداروں سے ملو تو اکڑ کر ملو۔ ان سے اکڑ کے ملنا عبادت ہے۔ غریبوں کے ساتھ ملو تو عاجزی سے ملو۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہمارا طریقہ کار الٹ ہو چکا ہے۔ ہم غریبوں کو دھتکارتے اور امراء کے در پر جا کر جھکتے ہیں۔
اگر بندہ پوری زندگی اطاعت و عبادت اختیار کر لے تو یہ بندے کو جنت تک لے جاتی ہے۔ لیکن اگر بندہ عبادت اور اطاعت میں ادب کو داخل کر لے تو یہ اسے جنت والے تک لے جاتی ہے۔
لوگو! آج ہمیں زندگی میں ادب پیدا کر کے اسے حسن ادب میں تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہم دین کی گرتی قدروں کو پھر سے بحال کرنے میں اپنا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ کیونکہ بازار اصلاح بند ہو رہا ہے، تھوڑا وقت رہ گیا ہے، جس نے نیکی کی خریداری کرنی ہے تو وہ جلدی کر لے تاکہ کل قیامت کو وہ اس کے کام آئے۔
٭ (29رمضان المبارک) : الادب مع الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے ) اُنْظُرْناَ (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے ) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
اس آیت میں ادب رسول کی پہلی شرط رکھی گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ایسے لفظ بھی استعمال نہ کریں جس معنی میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے گوارا نہ کیا کہ کوئی ایسا لفظ بھی بولو، جس سے ادب رسالت میں کوئی گستاخی کا پہلو نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ کمال ادب سکھایا۔ اسی طرح قرآن پاک میں بعض مقامات ایسے بھی آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب کفار و مشرکین کو اپنا مخاطب بنایا تو انہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سکھایا۔ صحابہ کرام سے پیار بھی ادب مع الرسول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے محبت کرنا بھی ادب مع الرسول ہے۔ طبرانی شریف میں حدیث ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ
جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس کو میرا قرب نصیب نہیں ہوگا اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آ سکے گا۔
امام مالک نے فتویٰ دیا کہ جو شخص مدینہ کی مٹی کو بے کار کہے تو اس کو 30 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔
متفق علیہ حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا کہ باری تعالیٰ مدینہ کی محبت کو مکہ کی محبت سے دوگنا کر دے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : جب قیامت کا دن قریب آئے گا تو ایمان سمٹتا سمٹتا مدینہ آ جائے گا۔
آقا علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی خواہشات میرے تابع نہ ہو جائیں۔
میری بندگی بھی عجیب ہے، میری زندگی بھی عجیب ہے
جہاں مل گیا تیرا نقش پاء، وہاں
میں نے کعبہ بنا لیا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب دین میں فساد کا زمانہ آ جائے تو اس وقت جو میری سنت سے چمٹ جائے گا تو اس کو 100 شہداء کا درجہ ملے گا۔
آج کا دور فساد اور فتنہ کا دور ہے۔ آج اپنی خواہشات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر دینا ہی اصل دین ہے۔ وہ کیسے عاشق ہیں کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن آقا علیہ السلام کی سنت پر عمل نہیں کرتے۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص عملی طور پر میری سنت کے ساتھ وابستگی اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کر دے گا۔
جب میرے دین کی قدرو منزلت کم ہونے لگے، جب میرا دین نظر انداز ہونے لگے تو اس زمانے میں جس نے اپنے علم و عمل سے میری سنت کو زندہ کیا، گویا اس نے مجھے زندہ کیا۔ جس نے مجھے زندہ کیا تو وہ جنت میں میرے ساتھ ٹھہرے گا۔
جب کسی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے ساتھ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ جب تعلق عشق کا پیدا ہو جاتا ہے تو پھر کوئی شے محبوب سے بالا نہیں لگتی۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کو وحی کی کہ مجھ سے محبت کیا کر۔ اور میرے محبوب بندوں سے محبت کیا کرو، اور میرے بندوں کے دلوں میں میری محبت ڈالا کر اور میرے عام بندوں کو میری محبت سکھا۔ سیدنا داؤد علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ میں تو تجھ سے محبت کرتا ہوں، جو تیرے بندے ہیں، ان سے بھی محبت کرتا ہوں لیکن باری تعالیٰ تیرے بندوں کو تیرا عاشق کیسے بناؤں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری پیاری باتیں ان سے کیا کر۔ محبت بھرے انداز میں میرا ذکر ان سے کیا کر، محبت بھری باتیں سنتے سنتے وہ محبت کرنے لگ جائیں گے۔
ادب کا سب سے پہلا تقاضا محبت سے شروع ہوتا ہے۔ لوگو! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ڈھل جاؤ، اسی میں نجات ہے۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔