عنوانِ زیرِ بحث وسعت پذیر مگر قرآنی اور شرعی اعتبار سے خاص وجدانی حیثیت کا حامل ہے اور متقاضی ہے کہ نتیجہ خیز مطلوبہ اہداف کی روشنی میں تحریک منہاج القرآن کی علمی اور عملی اصلاحی کاوشوں پر مبنی گوشوں کا تعین کرنے سے پہلے عنوان کی فنی اور قرآنی حیثیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور خصوصی پس منظر کا احاطہ کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے۔ پس منظر درج ذیل ہیں:
1۔ تصورِ اصلاحِ معاشرہ اور قرآنی تعلیمات
2۔اصلاحِ امت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نظریاتی اثر انگیزی
1۔ تصورِ اصلاحِ معاشرہ اور قرآنی تعلیمات
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ اصلاحِ معاشرہ کے قرآنی تصور کی بنیاد امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر ہے۔ یہ سب ہمہ جہت تبلیغی اور اصلاحی عملِ پیہم کے باعث ہی ممکن ہے۔
قارئین محتشم! اسی اصلاحی تبلیغی بنیادی تصور کو قرآن مجید نے سورہ آل عمران: 110، سورہ توبہ : 67، سورہ الحج: 41 میں بھی واضح فرمایا ہے۔ انسان کے لیے تطہیرِ معاشرہ اور اصلاحِ معاشرہ قرآن کا بنیادی حکم اور خاص موضوع ہے۔ قرآن نے ذاتی اصلاحِ احوال کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح پر خاص توجہ مبذول کروائی ہے۔ بے عمل داعیِ اصلاحِ معاشرہ کے قول و فعل میں تضاد معاشرتی اصلاح کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ داعی اور دعوتِ عمل میں مطابقت کا ہونا قرآن کا اساسی تقاضا ہے۔ قرآن عظیم نے اصلاحِ معاشرہ کے عنوانِ جلی میں تبلیغ کے سنہرے اصول یوں ارشاد فرمائے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
(النحل، 16: 125)
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو ۔‘‘
2۔ اصلاحِ احوالِ امت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نظریاتی اثر انگیزی
معلمِ انسانیت، حضور نبی اکرم ﷺ کا حقیقی مقصد تبلیغِ حق اور اصلاحِ احوال ہی ہے۔ ارشاد دفرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه.
(المائدة، 5: 67)
’’اے (برگزیدہ) رسول ﷺ ! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں۔‘‘
یاد رہے کہ تبلیغِ نبوی ﷺ الوہی حکم کے تحت قرآنی نزول حکم کے تابع ہوتی ہے اور سراسر نتیجہ خیز اور یقینی ہوتی ہے کیونکہ یہ امر حق تعالیٰ کے حکم کے تحت ہوتا ہے۔
بطورِ مصلحِ امت امتیازاتِ مصطفی ﷺ
حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک کا ایک ایک گوشہ ہمہ جہت اصلاحِ احوالِ امت کو سموئے ہوئے ہے۔ آقائے دو جہاں کی زندگی میں بحیثیتِ مصلحِ امت اور بحیثیتِ مبلغِ دینِ اسلام مندرجہ ذیل امتیازات ہیں جو سراسر قرآنی اور ہدایتی حیثیت کے حامل ہیں اور یہ امتیازات بحیثیتِ امتی ہماری عملی زندگی کا ماحصل اور مقصدِ ایمان اور مقصدِ حیات ہیں۔
گوشہ نمبر1: تعلیمِ توحید اور جملہ تعلیماتِ اسلام جو امت کو دیں، سب سے پہلے خود اس پر ایمان لائے کیونکہ قول و فعل کا تضاد ہی نتیجہ خیزی میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
گوشہ نمبر2: تعلیمِ اصلاح فقط زبانی حد تک نہیں سونپی بلکہ خود عمل پیرا ہوئے اور امت کو ہدایتِ ربانی سے آگاہ فرمایا اور اہمیت اجاگر کرتے رہے۔
گوشہ نمبر3: آقائے دو جہاں ﷺ نے زندگی کے صرف مخصوص پہلوئوں کی نشاندہی اور اصلاح نہیں فرمائی بلکہ پوری انسانیت کی ہمہ جہت عملی زندگی کی اصلاح اور تربیت فرمائی۔
گوشہ نمبر4: رسالتِ مآب ﷺ نے پوری طرح پوری زندگی تبلیغ و اصلاح میں وقف کردی اور مزاج میں غصہ نہیں آیا بلکہ نرمی غالب رہی۔
گوشہ نمبر5: حضور اقدس ﷺ اصلاحِ احوالِ معاشرہ و امت میں پوری طرح کامیابی کے لیے پوری طرح بااعتماد رہے۔ وقتی طور پر حالات سے گھبرائے نہیں۔ واقعہ طائف اس کی روشن مثال ہے۔ یہی استقامت بہت بڑی فتح اور کامیابی کی ضمانت بنی کیونکہ نتیجہ خیزی سے رسول اللہ ﷺ پوری طرح آگاہ تھے، اس لیے کہ پوری محنت اور صداقت سے اصلاحِ عمل میں مصروف تھے۔
گوشہ نمبر6: حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت میں جاذبیت، روحانیت، صداقت اور نورانیت ایسی نمایاں تھیں کہ آپ ﷺ کے روبرو انکار نا ممکن ہوجاتا اور دعوت کا عمل مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا۔ ثابت ہوا کہ دلکش شخصیت اصلاحِ احوال میں مدِ مقابل کو خاص طور اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
الغرض کلیتاً یہ امر ایک حقیقت ہے کہ حضور اقدس ﷺ ہی عالمگیر حیثیت سے حق کی طرف سے اتارے گئے مصلحِ امت ہیں کیونکہ بلاشبہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ٹھہرا گئے ہیں۔
تبلیغی ذمہ داری میں رکاوٹ: حسنِ معاشرت کا عدم توازن
حضور اقدس ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ حسنِ اخلاق سے متصل، مثالی، منفرد، نمایاں اور حسنِ معاشرت پر مبنی ہے۔ حسنِ معاشرت سے مراد آقائے دو جہاں ﷺ کا معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ باہمی سلوک کا اتنا مثالی اور عظیم ہونا ہے کہ صحیح معنوں میں رحمۃ للعالمینی کاملاً ظاہر ہوتی ہے۔
اس کے برعکس یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ بحیثیتِ قوم اور بحیثیتِ امتِ مسلمہ ہماری تبلیغ اور اصلاحِ معاشرت بدقسمتی سے افراط و تفریط کے باعث عدمِ توازن کا شکار ہے جس وجہ سے ہماری تبلیغ اثر انگیزی سے محروم ہے۔ یہ وہ شعوری عمق ہے جو ہم فوری سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنی بے اثر جدوجہد کا رونا روتے ہیں۔
ہر دور میں ہر نبی کا اصلاحی اور تبلیغی دائرہ کار اس کی امت تک محدود ہوتا تھا، اس کا حُسنِ معاشرت وہیں تک محدود ہوا کرتا تھا، لیکن تاریخِ انسانی میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ ﷺ تمام بنی آدم کے لیے خصوصی رحمت اور شفقت کی عدیم المثل نظیر ہیں۔ قربان جائوں خالقِ کائنات کی ربوبیت پر کہ اپنے محبوب کو قرآن میں ارشاد فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِک.
(آل عمران، 3: 159)
’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘
قرآن حسنِ معاشرت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اصلاحی اور تبلیغی زندگی کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق مقرر کررہا ہے۔ خواہ معاشرتی اصلاح اجتماعی ہو یا انفرادی، حسنِ معاشرت کا توازن بہت ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو اچھے اخلاق اور تبلیغِ اصلاحِ معاشرت کا سلیقہ وار اسلوب نہ اپنانا ہماری انفرادی جدوجہد اور تحریکی (اجتماعی) جدوجہد دونوں کو اثر انگیزی سے دور کردیتا ہے اور ہم ناکامی کے اسباب دیگر ذرائع میں تلاش کرکے معاملہ فہمی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
آقائے دو جہاں ﷺ نے بحیثیتِ مبلغ اور مصلح امتِ محمدیہ کو پوری طرح متاثر کیا۔ قرآن نے آپ ﷺ کی صفتِ معاشرت کو کامیابی اور ہر دلعزیزی کا سبب قرار دیا ہے۔
حسنِ معاشرتِ مصطفی ﷺ کے چند نمایاں خصائص
ذیل میں حسنِ معاشرتِ مصطفوی کے ان خصائص کو بیان کیا جارہا ہے، جنہیں اپنانا امت کے لیے نتیجہ خیزی کی ہر صورت ضمانت اور اصلاحِ احوالِ امت میں کامیابی و کامرانی کی دلیلِ سمجھا جاتا ہے:
1۔ عزتِ نفس کا لحاظ رکھتے ہوئے دوسروں کی خیر خواہی کا دامن تھامے رکھنا
کل عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجے جانے والے عظیم الفطرت، عظیم المرتبت، کریم الصفات نبی ﷺ پوری کائنات اور جمیع مخلوقات کے لیے خیر خواہی سے سرشار رہے۔ محمدالرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ میرے سامنے اپنے دوسرے بھائیوں کی ایسی چھپی ہوئی مخفی باتیں ہر گز ہرگز نہ کرو، جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہوجائے یا محفل میں بیٹھے ہوئے شخص کا دل اس کے بارے میں رنجیدہ ہوجائے۔ فرماتے: چاہتا ہوں کہ میں سب سے ہمیشہ صاف دل سے ملوں۔
2۔ اخلاقِ حسنہ
آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلند اخلاق ہی اوصافِ حمیدہ ہوتے ہیں جو عوام اور خواص کا امتیاز کرتے ہیں اور اچھے اور برے کی پہچان دیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ اوصافِ حمیدہ یہ نہیں کہ تم اس سے نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی سے پیش آئو جو تمہارے ساتھ برائی کرے بلکہ صحیح اخلاقِ عظیم وہی ہیں کہ بلاتمیز ہر شخص کے ساتھ یکساں نیکی اور خیر خواہی کا سلوک روا رکھو، خواہ وہ تمہارے ساتھ برے طریقے سے پیش آیا ہو یا اس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہو۔
3۔ مساوات اور رواداری کا ثبوت دینا
ارشادِ آقائے دوجہاں ﷺ ہے کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک دوسروںکے لیے بھی وہی پسند نہ کرو جو خود اپنے لیے کرتے ہو۔
قارئین! حضورِ اقدس ﷺ کا یہ طرزِ زندگی ہی بذاتِ خود بہترین مصلحِ اعظم ہے جو معاشرتی توازن کی اصل اور بنیاد ہے۔
4۔ حلم، حکمت اور بردباری
بحیثیتِ مصلحِ امت آپ ﷺ کی ایک مثالی اور کمالی شان حلم و حکمت اور بردباری ہے۔ آپ ﷺ نے کسی سے بھی کوئی انتقام اور بدلہ نہیں لیا ماسوائے خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو تو پھر اس صورت میں آپ ﷺ سختی سے مواخذہ فرماتے اور کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے۔ اصلاحِ معاشرت میں آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ سنہرے اصول و قانونِ نبوی ﷺ کی حیثیت سے موجود ہے کہ طاقت ور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔
5۔ فقیدالمثل عفو و کرم
حضور اقدس ﷺ کی ایک خاص شانِ کریمی اور رحیمی عفو و درگزر ہے۔ آپ ﷺ نے کئی مرتبہ اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کو معاف فرمادیا۔ اس کی عظیم الشان مثال فتح مکہ کے موقع پر خون کے پیاسے دشمنوں کو معاف کرنا ہے۔ ہمہ وقت آپ ﷺ کے خلاف منافقین نے ہر طرح سے سازشیں کیں، مگر آپ ﷺ نے ان کی چابک دستیوں اور ریشہ دوانیوں کا کبھی ذاتی طور پر انتقام نہیں لیا، یہ عفو و درگزر کی شانِ مصطفوی ہے کیونکہ ذاتی یا اجتماعی بغض و کینہ کے تحت منتقم المزاجی بھی اصلاحِ معاشرت اور تبلیغِ دین کے تقاضے پورے کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ایک لطیف ترین نکتہ ملاحظہ ہو جو حضورِ اقدس حبیبِ کبریا ﷺ کی زیست بے مثل و پاکباز کا نقطہ معراج ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو مرنے کے بعد آقائے دو جہاں نے اپنی قمیص پہنائی۔ روئے زمین پر آپ ﷺ کا یہ عمل امت کے لیے طرزِ معاشرت کا عظیم نصابِ ایمان ہے اور ہماری انفرادی، تحریکی اجتماعی زندگیوں میں طوفانِ حق بپا کردینے اور مشعلِ روح و قلب بن کر ہماری متنفر زندگیوں میں سکون و آشتی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
6۔ چشم پوشی اور درگزر
چشم پوشی محمد رسول اللہ ﷺ کی تبلیغی اور اصلاحی جدوجہد میں جزو لاینفک تھی۔ اس کی مثبت اثر انگیزی تبلیغی و اصلاحی عمل میں بھی ممد و معاون ہے اور امتِ محمدیہ ﷺ کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔ چشمِ پوشی اور درگرز کا یہ عمل معاشرتی اصلاح میں خاص فوقیت و اہمیت کا حامل ہے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔
7۔ حسنِ ظن و نیک اندیشی
نیک اندیشی اور کمالِ حسنِ ظن نبوت کی نعمتِ عظمیٰ ہے اور آقائے دو جہاں ﷺ کی جاگیر و وراثت ہے۔ دونوں آپ ﷺ کے اوصافِ کریمانہ وصفِ باری تعالیٰ سے متصل ہیں۔ یہ دونوں کمال اور خصائل اصلاحِ امت اور اصلاحِ معاشرت میں خاص سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ کی سنت کے یہ اوصاف متحرک قوموں کی زندگی کی جِلا ہیں اور تحریکی زندگیوں کے لیے حیاتِ جاودانہ ہیں۔ حسنِ ظن کے مقابل لفظ بدگمانی ہے جو فقط ابلیس کا شیوہ ہے کہ وہ بدگمانی کے باعث راندۂ درگاهِ ایزدی ہوکر قیامت تک کے لیے مردود و بے ثمرہوگیا۔
8۔ پابندیِ عہد
محبوب کبریا ﷺ کی پابندیِٔ عہد ارادۂ خداوندی کا مظہرِ اتم ہے اور فطرتِ نبوی کا آئینہ دار ہے۔ ایفائے عہد میں محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ وعدہ پورا کرو خواہ کتنی دقت اور تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔
روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا فرماتے ہیں کہ میں نے بعثت سے بھی قبل نبی اکرم ﷺ سے ایک معاملہ کیا، میرے ذمہ کچھ دینا باقی تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ ﷺ یہیں ٹھہریں، میں گھر سے لے کر آتا ہوں۔ اتفاقاً گھر جاکر میں اپنا وعدہ بھول گیا، تین روز کے بعد یاد آیا تو میں وعدہ کی جگہ پہنچا تو میں نے آپ ﷺ کو اسی مقام پرکھڑا منتظر پایا۔ آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ آپ نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔ میں نے یہاں تمہارا تین دن انتظار کیا ہے۔
ملاحظہ ہو! اسی زمن میں توجہ طلب واقعہ صلح حدیبہ کا معاہدہ ہے معاہدہ ابھی تحریری صورت میں نہ آیا تھا۔ حضرت ابوجندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے قابلِ رحم اور درد ناک حالت میں اہلِ مکہ کی قید سے بھاگ کر حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ مگر شرط یہ طے تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے مدینہ پہنچے گا تو فوراً واپس کردیا جائے گا۔ آپ ﷺ کے ایفائے عہد پر جان قربان کہ حضور دو عالم ﷺ نے ابوجندل کو صبر کی تلقین کے ساتھ واپس کردیا کہ ہم مسلمان کبھی عہد نہیں توڑتے۔
اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہ قیصر روم نے دربار میں ابو سفیان سے پوچھا کہ کیا محمد ﷺ نے کبھی بدعہدی کی ہے؟ ابو سفیان نہ چاہتے ہوئے بھی بولا: کبھی بدعہدی نہیں کی۔
حضور اقدس ﷺ نے بحیثیتِ مصلحِ امت جو حسنِ معاشرت روا رکھا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مختلف طبقاتِ زندگی سے آپ ﷺ کا حسنِ سلوک الغرض دشمنوں سے رواداری اور حسنِ سلوک، حیوانات سے مہربانی، بیوائوں اور یتیموں پر خصوصی شفقت، بیماروں کی تیمارداری اور غلاموں سے حسنِ سلوک روا رکھ کر اپنے رحمت للعالمین ہونے کا کامل ثبوت عطا فرمایا۔
9۔ قول و عمل میں مطابقت
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا.
(الاحزاب، 33: 70-71)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔ وہ تمہارے لِئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لِئے بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا۔‘‘
یہاں ایک لطیف وجدانی نکتہ منظر عام پر آیا کہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ اس آیت میں خالقِ کائنات نے فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا۔
ثابت ہوا کہ اصلاحِ اعمال سنتِ الہٰیہ اور سنتِ رسالت مآب ﷺ ہے اور ہم بحیثیتِ امتِ محمدیہ ﷺ اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ ملت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو بیک وقت دونوں سنتوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
10۔ امانت و دیانتِ مصطفی ﷺ
مومنین کے آپس کے لین دین کے باہمی معاملات امانت اور دیانت پر مبنی ہوتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس معاشرہ میں امانت اور دیانت ختم ہوجائے وہ بدترین معاشرہ کہلاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: لاایمان لمن لا امانتہ لہ۔
’’جس میں امانت نہیں اس میںایمان نہیں۔‘‘
خاص نکتہ ایمانی ملاحظہ ہو کہ ہمارے سچے نبی آخرالزماں محمد مصطفی کریم ﷺ کو تو بعثتِ محمدیہ ﷺ سے بھی پہلے صادق اور امین کا لقب مل چکا تھا۔ اہلِ مکہ اپنی امانتیں آپ ﷺ کے سپرد کرتے تھے۔ الغرض حضور اقدس ﷺ کی کامل زندگی کا ایک ایک لمحہ اصلاحِ امت کا محافظ اور امین ہے۔
اصلاحِ احوال کیلئے تحریک منہاج القرآن کی کاوشیں
قارئین ذی محتشم! تحریک منہاج القرآن تجدید و احیائے دین کی وہ عظیم عالمگیر تحریک ہے جس کی شرق تا غرب وسعت پذیری اظہر من الشمس ہے۔ میں 1971ء میں ہی شعوری طور پر عظیم المرتبت قائد تحریک داعی انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ اپنے بچپن سے ہی آپ کے زمانہ طالب علمی کے وقت سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہوکر آپ کے دائرہ عقیدت اور انقلابیت میں آچکا تھا۔ اس وقت قائد عظیم نے 1975-76ء میں محاذِ حریت کا باقاعدہ پلیٹ فارم تشکیل دے دیا تھا۔ قائد انقلاب نے پہلے باقاعدہ منعقدہ اجلاس میں عالمگیر سطح پر مستقبل میں ابھرنے والی نظریاتی، انقلابی، تجدیدی تحریک کے اغراض و مقاصد، مسلم معاشرے میں نوجوان خواتین و حضرا ت کو درپیش چیلنجز اور معاشرتی زبوں حالی سے نبرد آزما ہونے والی سعی مشکور پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اس مجلس اول کا میزبان خوش بخت میںبھی تھا۔ نشست اول منعقدہ دارالفرید جھنگ میں تجدید و احیائے دین، فروغِ عشق مصطفی ﷺ ، اتحادِ امت، اصلاحِ احوالِ امت کے موضوعاتِ جلی زیرِ بحث آئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمگیریت کے حامل نظریاتی، انقلابی، تعمیری، اصلاحی، ہمہ جہت مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ مستقبل میں ابھرنے والی عالمی تحریک کے خدوخال، اس کی عالمگیریت، عملی فروغ اور عالمگیر نتائج کی اثر انگیزی کا اتنا خوبصورت نقشہ کھینچا جیسے کوئی کشفی ولی آئندہ رونما ہونے والی جدوجہد اور کاوشوں کو اپنے سامنے روزِ روشن کی طرح دیکھ رہا ہو۔ خالقِ کائنات کی شانِ الوہیت کی قسم! جس کے مظہرِ اتم رسالت مآب ﷺ ٹھہرائے گئے ہیں، اس وقت نشست اول میں شریک فقط دس نوجوان ورطۂ حیرت میں مبتلا آئندہ کی رونما ہونے والی نظریاتی تحریک کی پیشین گوئیوں پر مشتمل اس نظریاتی گفتگو پر متعجب مگر قائدِ تحریک پر ایک انجانے اعتماد کے ساتھ موجود تھے اور مسلسل اثبات میں سر ہلارہے تھے اور پہلی نشست میں ہی قائدِ تحریک سے اپنی وابستگی اور نظریاتی ہم آہنگی کا مکمل اظہار کرچکے تھے۔ آج لاکھوں وابستگانِ تحریک اپنی کھلی آنکھوں سے مطلوبہ تکمیلی مراحل طے ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ اس قلیل عمری میں بھی میں نظریاتی اور شعوری طور پر قائدِ ملت کی ان پیشین گوئیوں کا چشم دید گواہ اور سامع ہوں لیکن اب لاکھوں افراد اس قلزمِ عشق و مستی میں اپنا سفینہ ڈال کر منزل کی جانب گامزن ہیں۔
موضوعِ زیرِ بحث اصلاحِ معاشرہ میں تحریک منہاج القرآن کی علمی و عملی کاوشوں کی طرف لوٹنا ہی تقاضۂ دانش و حکمت ہوگا۔ تاہم قبل ازیں طویل تمہید جو خاص نظریاتی اور روحانی نوعیت کی حامل تھی، بے شک صفحہ قرطاس پر لانا لازم و ملزوم کے درجہ میں تھا۔ وہ شعلہ انگیز نظریاتی تحریک آج شعلہ جوالہ بن کر نظریات و افکار کی روشنی میں آتش فشاں بن کر پوری عالمگیریت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
عملی اور نظریاتی طور پر 1980ء میں تجدید و احیائے دین کی اس عالمی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 41 برس کے قلیل وقت میں اس تحریک کا پوری عالمگیریت اور عظیم عملی کاوشوںکے ساتھ عالمِ اسلام کی نظریاتی تجدیدی تحریک بن کر افقِ اسلام پر ابھرنا دنیائے اسلام میں شیخ الاسلام کی علمی و روحانی و اصلاحی جدوجہد پر نہ صرف مکمل اعتماد ہے بلکہ اپنی نتیجہ خیزی میں قلیل وقت میں اپنی جدوجہد کے اعتبار سے طویل سفر طے کرتی نظر آتی ہے۔
یہ امر یقینی ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا طرۂ امتیاز خصوصاً دعوت، تبلیغ، تجدید و احیائے اسلام اور ترویج و اقامتِ دین ہے۔ درحقیقت یہ بھی مسلمہ فوقیت ہے کہ تحریک منہاج القرآن اپنی افادیت اور نظریاتی ہم آہنگی میں قطعی طور پر اصلاحِ احوالِ امت کی عالمگیر تحریک ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا دعوتی، اصلاحی نیٹ ورک سو سے زائد ممالک میں قائم ہوچکا ہے۔ خیر و شر کی پہچان کے ساتھ مزید اپنی عالمگیریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ جہاں یہ سب کچھ سنتِ الہٰیہ اور سنتِ محمدیہ ﷺ پر عمل پیہم کا نتیجہ ہے، وہاں قائد عظیم المرتبت کی نیت و صداقتِ اعمال اور صحیح و درست سمت ہونے کا اعلان بھی ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے اکتالیس برس کی عظیم اصلاحی جدوجہد میں بحیثیتِ مصلحِ امتِ محمدیہ ﷺ جو نظریاتی اہداف حاصل کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
تحریکِ منہاج القرآن کے نظریاتی اہداف
اصلاحِ معاشرہ اور بیداریِ شعورِ ملی میں شیخ الاسلام کی تصنیف ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ کا علمی و عملی اور کلیدی کردار ہے اور اس کی فکر انگیزی، سحر انگیزی کے تحریک منہاج القرآن پر انقلابی، علمی اور روحانی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ نے تحریک منہاج القرآن کے لیے ہر سطح پر علمی، عملی، نظریاتی، روحانی، تعمیری اور شعوری اعتبار سے مثبت کشف المحجوبی فرمائی ہے۔ میری نظر میں لاکھوں کارکنان تحریک منہاج القرآن کے لیے ایسی علمی، عملی قندیلِ نور ہے جس نے تحریک کے ہر دور اور ہر جدوجہد اور آزمائش کے مواقع پر عملی رہنمائی فرمائی ہے۔
شیخ الاسلام کی جانب سے باقاعدہ مرتب شدہ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ ( دو ضخیم جلد ہائے پر مشتمل) 2000ء میں افقِ منہاج القرآن پر پوری فوقیت کے ساتھ ظاہر ہوچکا تھا۔ تاہم اس کی تیاری شیخ الاسلام کے زمانہ طالب علمی میں باقاعدہ 1973ء میں ہوچکی تھی، جس کا ذکر کتاب مذکورہ (جلد دوم) کے صفحہ نمبر 561تا 669 پر موجود ہے۔ ضخیم دو جلدوں پر مشتمل ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ تحریک منہاج القرآن کی علمی، عملی کاوشوں کے جسمِ متحرک میں روح بن کر جاں گزیں ہے۔
قارئین کرام! میرے چالیس برس کے تاریخی اور تحریکی مشاہدہ کے عین مطابق مذکورہ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ کی ابحاث نے علمی، فکری، نظریاتی اور تحریکی ابتلاء و آزمائش کے سیکڑوں زنگ آلود قفل کھولے ہیں اور آج تقریباً نصف صدی کے بعد بھی شیخ الاسلام کا قرآنی ’’فلسفہ انقلاب‘‘ تحریک منہاج القرآن کے لیے مصلحِ امت کا اہم فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ ہماری تحریکی جدوجہد میں، ہمارے شعوری شب و روز میں ہمہ وقت کارفرما ہے اور اصلاحِ معاشرہ میں کی گئی منجملہ عملی کاوشیں اسی فلسفۂ روح پرور کی مرہونِ منت ہیں۔
جی ہاں قابلِ غور یہ کہ دیگر سیکڑوں وجوہات اور عوامل ایسے ہوں گے جو قائد انقلاب کی جدوجہد پیہم اور عظیم قربانیوں کی مثال ہیں۔ تاہم حکیم الامت شیخ الاسلام کی حکمت و دانائی اور قرآنی دانشمندی نے لاریب طور پر ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ جو کہ نظریات و افکارِ قرآنی کا انسائیکلو پیڈیا ہے، ہمیں نہ صرف عطا کیا بلکہ ہماری بگاڑ شدہ زندگی میں ایمان کی طرح راسخ کرکے ہماری دنیوی اور اخروی اصلاح کا آبِ حیات فراہم کیا اور ہمیں اپنے ہاتھوں سے نوش کروایا۔
یہ ایک قابلِ فخر اعزاز ہے کہ سیکڑوں کتب ہزاروں موضوعات پر مشتمل انقلابی، روحانی، علمی، نظریاتی، تجدیدی، اجتہادی، اقتصادی، معاشرتی، معاشی، ایمانیات و عبادات، اعتقادات، سیرت فضائل نبوی ﷺ ، ختمِ نبوت، تقابلِ ادیان، فقہیات، تصوف، اخلاقِ حسنہ، اسوۂ مصطفی، اوراد و وظائف، فکریات، اقتصادیات، دستوریات، قانونیات، شخصیات، عظمتِ صحابہ کرامؓ، عظمتِ اہلِ بیتِ اطہارؓ، اسلام اور جدید سائنس، امن و محبت اور عدمِ تشدد، حقوقِ انسانی اور عصریاتی خطابات کی CD-DVD اور ویڈیوز نہ صرف تحریک منہاج القرآن بلکہ عالمِ اسلام کی ہمہ جہت اصلاح و تبلیغ کررہی ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں تحریک منہاج القرآن کی بین الاقوامی اصلاحی کامیابیاں اور کامرانیاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں وہاں دیگر مذاہب اور ادیان کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے اور وہ بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔
تحریکی اصلاحی کاوشیں نتیجہ خیز کیونکر ممکن ہوئیں؟
1۔ عملی طور پر رجوع الی اللہ، رجوع الی القرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ سے نسبت کے باعث تحریک کامیابی کی جانب گامزن ہے۔
2۔ مقام و آداب مصطفی ﷺ کا ہمہ جہت تصور اور فروغِ عشقِ مصطفی ﷺ کے باعث تحریک آج دیگر جماعتوں سے ممتاز ہے۔
3۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے باعث تحریک کی کاوشیں معاشرے میں اثرات پیدا کررہی ہیں۔
4۔ تجدیدی، اجتہادی ہم آہنگی کے فروغ کے باعث تحریک ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔
5۔ اتحاد امت مسلمہ میں قائد عظیم المرتبت داعی تحریک کی شب و روز علمی، نظریاتی، عملی روحانی توجہ اور محنتِ شاقہ بھی تحریک کو عروج اور کمال کی جانب گامزن کیے ہوئے ہے۔
6۔ بین المسالک ہم آہنگی اور بین المذاہب رواداری کے فروغ اور ٹھوس حکمتِ عملی تحریک کو معاشرے میں اہم مقام دلوانے کا باعث ہے۔
7۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر موانست، مودّت، مواخات کے فروغ کے باعث بھی تحریک نتیجہ خیزی سے مالا مال ہے۔
8۔ دفاع و فروغِ عقائدِ اہلسنت کو تابعِ قرآن سنت کرنے کے باعث بھی معاشرے میں تحریک نتائج پیدا کررہی ہے۔
9۔ قائد عظیمت المقام کا اسلام کو درپیش جدید دور کے چیلنجز سے تجدیدی، اجتہادی، علمی، روحانی کاوشوں کے ساتھ نبرد آزما ہونا بھی تحریک کا طرۂ امتیاز ہے۔
10۔ فروغِ اسلام میں قرآن فقط نظریہ نہیں بلکہ ایک عملِ پیہم ہے اور مصطفی کریم ﷺ ہی شارحِ قرآن اور شارعِ اسلام ہیں۔ اس نظریہ کو فروغ دینا بھی تحریک کو ممتاز کرتا ہے۔۔
11۔ شیخ الاسلام کا بحیثیت قائدِ تحریک اور مصلحِ امت مصطفوی ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا کی معصوم اور نئی نسل کے اذہان و قلوب پر اثر اندازی کو علمی، روحانی طور پر روکنا، بے راہ روی اور غلط استعمال کے فروغ کو روحانی تعلیمات اور عملی اقدامات کے ذریعے رد کرنا اور سدِّ باب کے طور پر موثر تربیتی و تنظیمی نصاب مرتب کرکے موزوں پلیٹ فارم فراہم کرنا بھی اصلاحِ معاشرہ کا باعث ہے۔
12۔ جدید ترین الیکٹرانک میڈیا سسٹم، ذرائع ابلاغ، CD، DVD، ویڈیوز اور خصوصاً منہاج TV کے ذریعے سے دعوت، تبلیغ اور اصلاح کا باقاعدہ نظام مرتب کرکے مسلسل توجہ مبذول کرنے کے باعث مناسب نتیجہ خیزی میسر ہوئی۔
13۔ تحریک کی طرف سے گلشنِ منہاج کی علمی و عملی اور روحانی آبیاری کے لیے قدیم و جدید لاکھوں کتب پر مشتمل موثر لائبریری نیٹ ورک قائم کرکے نوجوانوں کی شعوری سطح کی بلندی کے باعث تحریک روبہ ترقی ہے۔
14۔ قائد تحریک کے خصوصی حکم پر تحریکی نوجوانوں کی تعمیری، عملی تحریکی میدان میں خدمت کرنے کے لیے تمام تنظیمی نیٹ ورک میں ہر قسم کا جائز و ناجائز اسلحہ اور ذرائع تشدد کو کلیتاً ممنوع قرار دیئے جانے اور پرامن سوسائٹی کے قیام اور تشدد و جارحیت کے مکمل خاتمے کے اعلان کے باعث تحریک اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ قائد کی اس دانشمندانہ سوچ نے تنظیمی سسٹم کے زاویے بدل دیئے دیگر تنظیمات کے قائدین کو بھی مثبت سوچنے پر مجبور کردیا اور اس عمل سے کافی حد تک نوجوانوں کی تعمیری سوچ کے دھارے بدلے اور عدمِ تشدد کا ماحول سازگار ہوا اور ہم آہنگی کا ماحول میسر آیا۔
115۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام سے خواتین کی عظمتِ رفتہ کی بحالی ہوئی۔ توقیر و اکرامِ حوا کو بلندی نصیب ہوئی اور معاشرتی ونظریاتی پس ماندہ سوچ کا دھارا بدل گیا۔ قائد عظیم المرتبت شیخ الاسلام نے منہاج القرآن ویمن لیگ کا باقاعدہ قیام جنوری 1998ء میں ویمن لیگ کے قیام عمل میں لائے اور منہاج القرآن ویمن لیگ کو اپنی بیٹیوں کا درجہ دیتے ہوئے پرامن عوامی جمہوری انقلاب کے حصول میں خواتین کی جدوجہد کو ایک پلیٹ فارم عطا کیا۔ ویمن لیگ کے قیام سے مسلم معاشرے میں خواتین کو درپیش دورِ قدیم اور دورِ جدید کے نت نئے چیلنجز کے پیش نظر انھیںمعاشرے میں حقیقی مقام سے روشناس کروایا اور کھوئی ہوئی توقیرِ حوا کی بحالی کے لیے کاوشیں کیں۔
قارئین کرام! اصلاحِ احوالِ امت کے لیے یہ داعی انقلاب، علمی، عملی نظریاتی روحانی سوچ کے حامل قائد عظیم المرتبت کی جانب سے انتہائی دانشمندانہ نظریاتی اور دلیرانہ اقدام تھے۔ اصلاحِ معاشرہ میں کارفرما اِن جملہ عوامل و اقدامات نے تحریک منہاج القرآن کو تحریکِ مصلحِ امتِ محمدیہ بنادیا۔ تبلیغی و معاشرتی اصلاح میں تحریک منہاج القرآن کے جملہ فورمز اور نظامتوں کی پاکیزہ جدوجہد نے نتیجہ خیزی کو ممکن بنایا اور اس جدوجہد کو چار چاند لگادیے۔