بیسویں صدی عیسوی کے نصفِ آخر کو اگر سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باب میں انقلاب کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے عقلِ انسانی کو ایسے نئے آلات و وسائل ایجاد کرنے کی رہنمائی فرمائی جن کا کچھ سالوں پہلے تک تصور بھی ممکن نہ تھا۔ یوں تو اس انقلابی ترقی کے دور میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہر قسم اور ہر طرح کے چھوٹے بڑے آلات ظہور پذیر ہو ئے لیکن ذرائعِ ابلاغ، مواصلاتی نظام، آپسی روابط اور پیغام رسانی کے عمل و تبادلے کے شعبے میں بلاشبہ حیرت انگیز ایجادات ہوئیں، جنہوں انسانی سماج اور تہذیب و تمدن پر اَنمٹ نقوش چھوڑے، جیسے انٹرنیٹ، سیٹلائٹ ٹی وی چینلز، سوشل ایپس، موبائل ایپس، پیغام رسانی کی ایپس وغیرہ۔ ان ایجادات کے ذریعے معلومات، خیالات اور افکار کی تخلیق و اشاعت اور اشتراک و تبادلہ ناصرف سہل بلکہ سرعت رفتار ہوگیا۔
جدید ذرائع ابلاغ نے اگرچہ ثقافتوں پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کی ایجاد نے سماجی تعلقات اور اظہارِ جذبات کے نفیس اور شائستہ طریقوں کو فراموش کر دیا ہے تاہم ان ترقی یافتہ ذرائع و وسائل کی اہمیت تسلیم شدہ ہے، جس سے کوئی بھی سلیم العقل شخص انکار نہیں کر سکتا۔ دورِ حاضر میں ریاستی عہدیداروں سے لے کر عام آدمی، حتیٰ کہ کسان، مزدور اور ریڑھی بان تک ہر شخص ان ذرائع ابلاغ سے جڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی و حکومتی پالیسیوں کا اعلان کرنا ہو یا کسی کے لیے جذبات کا اظہار مقصود ہو، ان وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ دعوتی نقطہ نظر سے بھی یہ آلات و وسائل نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور دورِ حاضر میں اس مقصد کے لیے بڑے پیمانہ پر ان کا استعمال ہو بھی رہا ہے۔ اسی لئے عصرِ حاضر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ، خاص طور پر سوشل میڈیا عصر حاضر کی وہ عظیم قوت ہے جس سے زندگی کا کوئی شعبہ بچا ہوا نہیں ہے۔ سیاست، معاشرت، مذہب، تعلیم، کاروبار سمیت یہ روزمرہ کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ یہ معاملات کو سدھارنے میں معاون بھی ہے اور بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک طرف سہولت ہے تو دوسری طرف ضرورت بھی ہے۔ اس پر سلیقہ شعار اہلِ علم جلوہ افروز ہیں تو جذباتی اَن پڑھ لوگوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ دانشمندوں کی موجودگی ہے تو سیاسی و مذہبی امور کے دلدادوں کا ہجوم بھی، الغرض آوازوں کا ایک اژدھام ہے، جس میں مہذب و شائستہ اور سماعت کو لبھانے والی صدائیں بھی ہیں اور صوت الحمار کی مانند لعن طعن، گالم گلوچ سے بھرا شور و غوغا بھی ہے۔ یہاں ہر قسم اور ہر فکر کے لوگوں کا انبوہ ہے جو تقریر و تحریر کے ایک ایک لفظ اور مقرر و محرر کے انداز کو بغور دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہے اور اس کا مثبت یا منفی اثر بھی قبول کرتا ہے۔
اس صورتحال میں ایک لمحہ کے لیے رُک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال منفیّت، شیطانی افکار و نظریات اور فحاشی و عریانی کو فروغ دینے کے لیے ہو رہا ہو (بدقسمتی سے فی الواقع کم و بیش ایسا ہو بھی رہا ہے اور اس کے اثرات بھی ہمیں ہر دوسرے تیسرے دن خبروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں) تو انسانی سماج اور اعلیٰ انسانی اقدار کا کیا حشر ہوگا؟
جدید ذرائع ابلاغ کی صورت میں میسر سہولت کسی خاص طبقہ کی جاگیر نہیں بلکہ اس میں ساری انسانیت کا آزادانہ حصہ ہے، خیر و شر کے لشکروں میں سے جو جتنا چاہے اس سے حاصل کرلے۔ ایک ایسے وقت میں جب ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے سماج کو اعلیٰ اقدار سے محروم کر کے انسانیت کا وجود خطرے میں ڈالا جا رہا ہے اور اسے خوشنما ناموں کے ساتھ زہرِ ہلاہل پلائی جا رہی ہے، بحیثیتِ مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم انسانیت کو ساحلِ نجات بخشنے کا سبب بنیں اور اسے تمدن کی وادیوں میں تہذیب و شائستگی کے جام پلانے کا جدید انداز اختیار کریں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
فَوَاللهِ لَأَنْ یَّهْدِیَ اللّٰهُ بِکَ رَجُلاً وَاحِداً خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَن یَکونَ لک حُمْرُ النَّعَمِ.
(صحیح بخاری: 4210، مسلم: 2406)
’’الله کی قسم! اگر ایک آدمی بھی تمہارے ذریعہ راہِ ہدایت پا جائے، یہ چیز تمہارے لئے سرخ اونٹ سے بہتر ہے۔‘‘
جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کو صہیونی سازش، مغربی تہذیب کے فروغ کے آلات اور شیطانی کھلونے قرار دے کر ان سے فرار اختیار کرنا، دراصل اس پورے میدان کو خالی اور نوجوان نسل کو بے یارو مددگار چھوڑنے کے مترادف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے اعلان اور دعوتِ اسلام کے لئے خاص طور پر صفا کی چوٹی کا انتخاب فرمایا۔ آپ ﷺ کا یہ انتخاب محض اتفاق نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ نے اہلِ مکہ کے اُسی پلیٹ فارم کو استعمال کیا جو ان کے ہاں رائج اور مؤثر تھا۔ اہلِ مکہ کا رواج تھا کہ انہیں جب بھی کسی نہایت اہم بات کی خبر دینی ہوتی تو صفا کی چوٹی پر چڑھ کر آواز لگاتے۔ صفا کی چوٹی پر ہونے والا اعلان اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے جس کی خبر دینا مقصود ہے۔ تمام اہلِ مکہ اہتمام کے ساتھ جمع ہوتے اور ہمہ تن گوش اعلان سنتے۔ گویا اہلِ مکّہ کے ہاں اخبار و واقعات اور افکار و خیالات کے ابلاغ کا یہ سب سے اہم، مؤثر، تیز اور سہل ذریعہ تھا۔
رسالتمآب ﷺ نے اپنے دور کے اس ذریعۂ ابلاغ کو کفار و مشرکین کا پلیٹ فارم قرار دے کر ترک نہیں فرمایا بلکہ اسی پلیٹ فارم کو استعمال میں لاتے ہوئے اسے دعوتِ دین کا ذریعہ بنایا۔ وہی پلیٹ فارم جس سے کفارِ مکہ شرک کی تبلیغ کرتے تھے، رسالتمآب ﷺ نے اسی پلیٹ فارم سے صدائے توحید بلند کی، جس پلیٹ فارم پر جنگ و جدل کے منصوبے بنائے جاتے تھے، رسالتمآب ﷺ نے اسی پلیٹ فارم پر ندائے امن لگائی۔ اس پلیٹ فارم کی اہمیت اور سرعت کے سبب یہ نداء مہینوں اور سالوں کی بجائے ہفتوں میں ہی مکہ کے ہر فرد اور گھر تک پہنچ چکی تھی۔ پھر تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا جب اس آواز پر لبیک کہنے والے فوج در فوج امڈ آئے۔ تصور کریں کہ رسول اللہ ﷺ اس پلیٹ فارم کو مشرکین کا مخصوص پلیٹ فارم قرار دے کر ترک فرما دیتے تو کیا آپ کی دعوت اس قدر جلد مکہ اور اس کے مضافات میں پہنچ پاتی؟
رسالتمآب ﷺ حج کے موقع پر بھی دعوت و تبلیغ فرماتے، حالاںکہ اس زمانے میں حج میں بہت سی منکرات اور برائیاں اہلِ مکہ نے اپنی طرف سے شامل کرلی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ احترام کے نام پر کعبہ کی بے حرمتی کرتے تھے، خانہ خدا، مورتیوں اور بتوں کی پرستش گاہ بنا دیا گیا تھا۔ منیٰ اور عرفات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی بجائے اپنے آباء و اجداد کی تعریفوں کے نغمے گاتے اور قصائد پڑھے جاتے تھے۔ عکاظ کا میلہ تو خالص تجارتی میلہ تھا، جس میں شراب و کباب کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں جو عیش کوشیوں اور سرمستیوں بلکہ بدمستیوں کے لوازمات میں سے ہیں۔ ان تمام منکرات کے باوجود رسالت مآب ﷺ حج کے اجتماع اور عکاظ کے میلے میں پہنچتے اور پورے وقار و تمکنت کے ساتھ دعوتِ حق فرماتے۔ اہلِ مدینہ حج کے اجتماعات کی ہی برکت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور پھر ایسے جاں نثار ہوئے کہ تاریخِ عالم میں ایسی جاں نثاری اور خودسپردگی کی مثال نہیں ملتی۔
رسالت مآب ﷺ کا ان اجتماعات میں جانا اور وہاں دعوتِ حق پہنچانا، دعوت و تبلیغ کے لئے زبان و بیان کے وہ سارے ذرائع استعمال کرنا جو جاہلی معاشرے میں رائج تھے، اس زمانے کے طاقتور ترین اور وسیع الاثر ذرائع ابلاغ سے استفادہ کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس لئے اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا اور ان تک رسائی حاصل کرنا صرف مصلحت کا تقاضا نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات اور رسالت مآب ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہے۔
تحریک منہاج القرآن کی دعوت کے چار نکات
چار دہائیاں قبل جب تحریک منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا تو اس کا اولین فریضہ دعوتِ دینِ حق قرار پایا۔ تحریک کے عناصرِ خمسہ کی روشنی میں تحریک منہاج القرآن کا عملِ دعوت چار نکات پر مشتمل تھا:
1۔ فکرِ آخرت، اصلاحِ احوال اور رضائے الہٰی
2۔ ایمان و عقیدہ کا تحفظ اور عشقِ رسالت مآب ﷺ کا فروغ
3۔ اسلامی کی روایتی تعبیر کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگی
4۔ اقامتِ دین کی دعوت و سعی
اکتوبر 1980ء میں تحریکِ منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا۔ یہ وہ دور تھا جب عالمی اور اندرونی محرکات کے باعث تقریباً تمام اسلامی ممالک میں بیداری کی ایک لہر چل رہی تھی، جس کی کوکھ سے اقامتِ دین، انقلاب اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نعروں کے ساتھ مذہبی تحریکیں اور تنظیمیں ظہور پذیر ہوئیں۔ اس سے قطع نظر کہ استعماری قوتوں نے امتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والی بیداری کی اس لہر کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، لیکن دردِ دل رکھنے والا پڑھا لکھا مسلمان طبقہ امتِ مسلمہ کو درپیش ہمہ گیر زوال سے نکالنے کے لیے ان نعروں پر لبیک کہنے کو تیار بھی تھا اور پرجوش بھی۔ لیکن دوسری طرف ان تحریکوں اور تنظیموں کے عمائدین کا جوش و ولولہ محض خوش کن نعروں تک ہی محدود تھا۔ بجائے یہ کہ ٹھوس نظریات اور قرآن و سنت کے قوی دلائل پر قوم کی تربیت کی جاتی، ان کا سارا زور ترنم و تغنم، شاعری اور خوش آوازی پر تھا۔ دعوتِ دین کے لیے وہ نہ صرف روایتی طریقوں پر مُصر تھے بلکہ اپنے مذہبی فہم کی بناء پر جدید ذرائع ابلاغ کو کفریہ قرار دے رہے تھے۔ ان کی پیش کردہ دینی تعبیر اس قدر غیرجاذب اور روکھی تھی کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان دین سے ہی بیزار ہو رہے تھے۔
ان حالات میں قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی دعوت کا آغاز دروسِ قرآن کے ایسے سلسلہ سے کیا جو عام روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر تھا۔ آپ کے دروس علمی اعتبار سے قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین اور روحانی چاشنی سے بھرپور ہوتے تھے۔ جدید سائنسی حوالے سے دین کی تشریح و تعبیر اور دل میں اتر جانے والے اندازِ بیان نے پڑھے لکھے احباب کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصہ میں یہ دعوت کُو بہ کُو پھیلنے لگی اور لوگ جوق در جوق تحریک میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔
قائد تحریک منہاج القرآن نے اپنی ہمہ جہت مساعی کے روزِ اولین سے ہی احیائے اسلام، تجدید دین، دعوت و تبلیغ اور مصطفوی مشن کے فروغ کے لیے دستیاب جملہ ذرائع ابلاغ کو نہایت مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کا بندوبست کیا۔ آپ نے روایتی اور دقیانوسی سوچ و فکر کے حاملین کی طرح سائنسی ایجادات کو دین کے پیغام کے فروغ کے منافی تصور نہیں کیا بلکہ آپ نے ان جملہ ایجادات کو ایسے آلات قرار دیا جو بذاتِ خود اچھے یا برے نہیں بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔
ذیل میں ہم اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے حوالے سے تحریک منہاج القرآن کی فکر اور دوراندیشی کے چند گوشے نذرِ قارئین کررہے ہیں:
1۔ ویڈیو ریکارڈنگ
80ء کی دہائی تک برصغیر اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں روایتی مذہبی طبقے کے ہاں ویڈیو اور کیمرے کی حرمت کے فتوے عام تھے۔ کیمرے، ٹیلی وژن اور ویڈیوز کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دے کر دنیوی و اخروی عذاب کا باعث بتایا جاتا تھا۔ اس صورتحال میں بانی تحریک منہاج القرآن کا مؤقف یہ تھا کہ ویڈیو، کیمرا اور ٹیلی وژن محض آلات ہیں، یہ بذاتِ خود اچھائی یا برائی نہیں ہیں۔ جب طاغوت کے لشکر انہیں برائی اور فحاشی و عریانی کے لیے استعمال میں لا رہے ہیں تو اہلِ مذہب کو یہ آلات نیکی کے فروغ کا ذیعہ بنانا چاہئیں۔ شیخ الاسلام کا یہ مؤقف معقول تھا مگر صدیوں کے جمود کا شکار روایتی مذہبی طبقہ اپنے مؤقف سے ہٹ کر کوئی بات سننے کیلئے کہاں تیار تھا! چنانچہ انہوں نے تحریک منہاج القرآن کی قبولیت سے خائف ہو کر اپنے ہی جاری کردہ ویڈیو اور کیمرے کی حرمت کے فتووں کے پردے میں عوام کو آپ سے بدظن کرنے کی کوششیں کیں تو ساتھ ہی ساتھ آپ کی کردارکشی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ان علماء کو تحریک منہاج القرآن کے پروگرامز میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو ان کی شرط ہوتی تھی کہ پروگرام میں ویڈیو کیمرا نہ لایا جائے۔ اس شدید مخالفت اور دقیانوسیت کے باوجود شیخ الاسلام نے خطابات کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ جاری رکھی۔
شیخ الاسلام کے خطابات کی ریکارڈنگ کا باقاعدہ آغاز 1982ء میں ہوا اور منہاج پروڈکشنز کے نام سے مرکز پر نظامت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ منہاج پروڈکشنز کی ذمہ داری شیخ الاسلام کے خطابات کی آڈیو ریکارڈنگ، ویڈیو ریکارڈنگ، ایڈیٹنگ، تمام خطابات کی ماسٹر کاپیز کی تیاری، حفاظت اور خطابات ریلیز کرنا تھا۔ اس شعبے نے قائدِ تحریک کی ماہ و سال کی کاوشوں اور خطابات کا ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا اور آج الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کے سیکڑوں مختلف پروگرامز سمیت شیخ الاسلام کے 7000 سے زائد خطابات کا ریکارڈ موجود ہے۔ اسی ریکارڈ کی بدولت شیخ الاسلام کے خطابات اور ان کے مختصر کلپس آپ کے آفیشل یوٹیوب چینل (youtube.com/DrQadri) اور تحریک کے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر روزانہ کی بنیاد پر نشر ہوتے رہتے ہیں۔
2۔ پی ٹی وی پر فہم القرآن پروگرام
جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا ہے کہ 80ء کی دہائی تک پاکستانی معاشرے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں گھر پر ٹی وی ہونا غیرمعمولی بات تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں: پہلی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ٹی وی ایک آسائش اور سٹیٹس سمبل تھا جو ہر ایک کو میسر نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کسی گھر میں ٹی وی موجود ہونے کا تاثر سماجی معنوں میں بہت منفی تھا۔ یہ تاثر بڑی حد تک اس سوچ کے باعث پیدا ہوا تھا جو علماء کے خطابات، رسالوں اور فتاویٰ میں نمایاں تھی۔ علماء تمام برائیوں کی جڑ ٹی وی کو ہی مانتے تھے اور ٹی وی کے کسی مثبت استعمال کے امکان کو بھی خارج از قیاس قرار دیتے تھے۔ وقت گزرا، دنیا بدلی، حالات بدلتے چلے گئے، وہی ٹی وی جسے یار لوگ عذابِ قبر کا باعث ثابت کرنے کے لیے گھنٹوں دلائل اور بیسیوں واقعات بیان کرتے ہوتے تھے، اب تقدیس کا رتبہ پاگیا، جو تھا ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا۔
بانی تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دعوتِ دین کے لیے اس پلیٹ فارم کا بھی بھرپور استعمال کیا اور اس سلسلے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ 11 اپریل 1983ء کو پاکستان ٹیلی ویژن پر فہم القرآن کے نام سے شیخ الاسلام کا پروگرام شروع ہوا۔ اس پروگرام کو عوام و خواص میں اتنی مقبولیت ملی کہ لوگ ہفتہ بھر اس پروگرام کا انتظار کرتے اور پروگرام آن ایئر ہوتے ہی اپنی جملہ مصروفیات چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو کر TV کے آگے بیٹھ جاتے۔ یہ پروگرام لاکھوں کروڑوں افراد تک دعوتِ دین کو پہنچانے کا باعث بنا۔
3۔ آن لائن اسلامک لائبریری
تحریک منہاج القرآن نے دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لیے جہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے بھرپور استفادہ کیا وہاں تحقیق و تصنیف کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا اور اس ضمن میں ہر قدم پر جدت کو مدنظر رکھا۔
80ء کی دہائی میں ہی اندرون و بیرونِ ملک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خطابات، دروس اور لیکچرز کا سلسلہ کافی بڑھ چکا تھا۔ اس علمی و تحقیقی اور فکری مواد کی مستقل بنیادوں پر مطبوعہ صورت میں اشاعت کے لیے7 دسمبر 1987ء کو منہاج القرآن رائٹرز پینل کی بنیاد رکھی گئی اور بعد ازاں اس علمی و تحقیقی مرکز کو بانی تحریک کے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ سے منسوب کرتے ہوئے فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ (FMRi) کا نام دیا گیا۔
فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اسلام کے حقیقی پیغام کی تبلیغ و اشاعت اور تحریک منہاج القرآن کے فکر کی ترویج کے لیے جدید اندازِ تحقیق اپنایا اور نئی نسل کو بے یقینی، اخلاقی زوال اور ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے دورِ جدید کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی تدوین و اشاعت کو اپنا اولین مقصد بنایا۔
فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ (FMRi) کے مرکزی شعبہ جات میں شعبہ تحقیق و تدوین، ریسرچ ریویو کمیٹی، مرکزی لائبریری، شعبہ ترجمہ، شعبہ کمپوزنگ، شعبہ خطاطی، شعبہ مسودات و مقالہ جات، شعبہ ادبیات، دار الافتاء اور شعبہ تحقیقی تربیت شامل ہیں۔ ان شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرز نے نہ صرف کئی اہم موضوعات پر تحقیقی مواد تیار کیا ہے بلکہ قائد تحریک کے مختلف دینی، سماجی، اقتصادی، سیاسی و سائنسی، اور اخلاقی و روحانی موضوعات پر فکر انگیز ایمان افروز خطابات کو کتابی صورت میں مرتب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جدید اسلوبِ تحقیق اور عصری تقاضوں کے عین مطابق اس شعبے کی وساطت سے اب تک 600 سے زائد علمی، تحقیقی اور فکری کتب شائع ہوچکی ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کی آن لائن اسلامک لائبریری منہاج بکس www.minhajbooks.com کے نام سے ہے، جس میں کتب پی ڈی ایف، تصویری، تحریری اور زِپ فارمیٹ میں استفادہ عام کے لیے مفت دستیاب ہیں۔ حال ہی میں کتابوں کو صوتی (audio) روپ میں مہیا کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ منہاج بکس کے نام سے ہی اس لائبریری کی موبائل ایپ بھی دستیاب ہے۔ منہاج بکس ایک جامع لائبریری ہے، جس میں شیخ الاسلام اور دیگر مصنفین کی 600 سے زائد کتب الگ الگ زمرہ جات کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تلاش کی سہولت بھی ہے، جہاں کوئی ایک لفظ یا عنوان لکھ کر اس سے متعلقہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دورِ حاضر میں تحقیق کا نہ صرف انداز بدل دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام و انتظام قائم فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اِن جدید سہولیات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ہزارہا کتب کے مسودات کو ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کیا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق کے لیے آن لان؍آف لائن ڈیجیٹل لائبریریوں سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے، جس کے لیے ریسرچ اسکالرز کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں شیخ الاسلام بھی ریسرچ اسکالرز کی مسلسل رہنمائی کرتے ہیں اور اس طرح تحریک منہاج القرآن نے تحقیق و تصنیف کے معاملے میں اول دن سے ہی جدید ذرائع سے استفادہ جاری رکھا ہوا ہے۔
4۔ انٹرنیٹ سے استفادہ
بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے ہی جدید ذرائع ابلاغ میں انٹرنیٹ کی اہمیت مسلّم ہوچکی تھی۔ انٹرنیٹ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر 1994ء میں تحریک منہاج القرآن کی مرکزی آرگنائزیشنل ویب سائٹ www.minhaj.org کے نام سے منظر عام پر آئی۔ یہ وقت تھا جب پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ بھی انٹرنیٹ سے شناسا نہیں تھا۔ 1996ء میں اشاعتِ اسلام کی غرض سے کی جانے والی تحریک منہاج القرآن کی جملہ مساعی کو سائبر سپیس پر پیش کرنے کے لئے پاکستان میں واقع تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں باقاعدہ ایک شعبہ وجود میں آیا، جسے منہاج انٹرنیٹ بیورو کے نام سے موسوم کیا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کی مرکزی آرگنائزیشنل ویب سائٹ www.minhaj.org کو کسی بھی آرگنائزیشن کی پہلی پاکستانی ویب سائٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
منہاج انٹرنیٹ بیورو نے اس ویب سائٹ کو نئے تکنیکی تقاضوں کے مطابق از سر نو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی ویب سائٹس بھی لانچ کیں، جن میں ویب صارفین کے لئے بیش بہا نئی سروسز شروع کی گئیں۔ اس لائحہ عمل سے جہاں عوام الناس کو تحریک کے پلیٹ فارم سے اسلام سے شناسائی کے گوناگوں مواقع ملے، وہاں ماہانہ لاکھوں کی تعداد میں نئے ویب صارفین کا اضافہ بھی ہوا، جو کسی بھی پاکستانی نژاد ویب سائٹ کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں۔
تحریک کا پیغام عالمی سطح پر عام کرنے کے لئے جہاں انگریزی ویب سائٹس بنائی گئیں، وہیں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے اردو دان طبقے کو تحریک سے روشناس کرانے کے لئے ہر ویب سائٹ کا اردو ورژن بھی تیار کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آن لائن دنیا میں یونیکوڈ اردو کے فروغ میں منہاج انٹرنیٹ بیورو کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح عرفان القرآن کی ویب سائٹ www.irfan-ul-quran.com کو یونیکوڈ اردو ترجمہ قرآن کی پہلی ویب سائٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اس شعبے نے تحریک منہاج القرآن کی تنظیمی، تعلیمی و ادبی اور ادارہ جاتی ویب سائٹس کو نہ صرف ڈیویلپ کیا ہے بلکہ ان کی اپ ڈیٹنگ کا فریضہ بھی یہی شعبہ سرانجام دیتا ہے۔
5۔ ویب ٹی وی کا قیام
فروری 2003ء میں قائد ڈے کے مبارک موقع پر تحریک منہاج القرآن کی ملٹی میڈیا ویب سائٹ www.minhaj.tv کا قیام عمل میں آیا۔ اس ویب سائٹ پر شیخ الاسلام کے ہزاروں خطابات کی موجودگی اور ان کے لاکھوں ناظرین نے قائدینِ تحریک کی توجہ ایسا ویب ٹی وی چینل لانچ کرنے کی طرف دلائی جس پر شیخ الاسلام کے خطابات اور تحریکی سرگرمیاں نہ صرف براہ راست نشر کی جاسکیں بلکہ اس کی نشریات 24 گھنٹے جاری رکھی جائیں۔ چنانچہ 30 اپریل 2011ء کو تحریک منہاج القرآن کے ٹیلی ویژن چینل منہاج ٹی وی www.minhaj.tv کا قیام عمل میں لایا گیا۔ منہاج ٹی وی کا افتتاح منہاج اسلامک سنٹر پیرس (فرانس) میں منعقدہ تقریب میں ہوا، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے براہ راست خطاب کیا۔ اس ویب ٹی وی کی نشریات 24گھنٹے چلتی ہیں اور شیخ الاسلام کے خطابات و تحریک منہاج القرآن کے پروگرامز براہ راست نشر کیے جاتے ہیں۔ ہر سال جامع المنہاج سے اعتکاف اور مینارِ پاکستان سے عالمی میلاد کانفرنس منہاج ٹی وی کے ذریعے ہی پوری دنیا میں نشر کی جاتی ہیں۔
6۔ ای لرننگ (e-Learning)
بیرون ملک مقیم مسلمانوں اور ان کے بچوں کو اسلامی علوم سے آراستہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام کی رہنمائی میں فاصلاتی تدریسی پروگرام کا آغاز دسمبر2009ء میں www.equranclass.com کی ویب سائٹ سے کیا گیا۔ اس شعبہ کے ذریعے بیرونِ ملک طلبہ و طالبات تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر موجود ماہر اساتذہ سے آن لائن منسلک ہو کر علم و آگہی کا نور حاصل کرتے ہیں۔ 2017ء میں طالبات کے لیے www.femaletutor.com کے نام سے الگ کیمپس قائم کیا گیا، جس میں منہاج کالج برائے خواتین کی فاضلات تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔ اس تدریسی پروگرام کے ذریعے ہونے والے کورسز میں ناظرہ قرآن کورس، تجوید و قرات کورس، عرفان القرآن کورس، ترجمہ قرآن کورس، حدیث لرننگ کورس، سیرت الرسول کورس، عقائد کورس، فقہ کورس، عربی قواعد کورس اور اردو زبان و ادب کورس شامل ہیں۔
7۔ سوشل میڈیا
تحریک منہاج القرآن نے دورِ جدید کے تیز ترین سمجھے جانے والے ذرائع یعنی سوشل میڈیا کو دعوتِ دین اور فروغِ تحریک کے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ مرکزی سوشل میڈیا ٹیم فیس بک، یوٹیوب، ٹوِٹر، ساونڈ کلاوڈ، وٹس ایپ، انسٹاگرام، پِنٹرسٹ، ویمیو، ڈیلی موشن اور فلِکر سمیت ہمہ قسم سوشل میڈیا پر بنے تحریک اور قائدین تحریک کے آفیشل اکاونٹس پر باقاعدہ اپ ڈیٹس دیتی ہے۔ ماضی میں یہ شعبہ رضاکاران کو سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کی اخلاقیات سے متعلق تربیت دینے کے لئے ورکشاپس کا انعقاد بھی کرتا رہا ہے۔
مرکزی سوشل میڈیا میں سے چند پیجز کے روابط درج ذیل ہیں:
Youtube:
www.youtube.com/DrHussainQadri
www.youtube.com/MinhajTVOfficial
Facebook:
www.facebook.com/DrHassanQadri
www.facebook.com/DrHussainQadri
www.facebook.com/MinhajulQuran
www.facebook.com/PakistanAwamiTehreek
www.facebook.com/BooksbyDrQadri
Twitter:
www.twitter.com/DrHussainQadri
www.twitter.com/BooksbyDrQadri
خلاصۂ کلام
بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بلاشبہ نابغہء روزگار اور مجددِ دین و ملت ہیں، جنہوں نے اپنی دعوتی و تنظیمی مساعی کی بنیاد روایتی فکر کی بجائے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید اسلوب پر رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ جدتِ فکر و نظر تحریک منہاج القرآن کے خمیر میں شامل ہے۔ 80ء کی دہائی میں ہی شیخ الاسلام نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا جدید ذرائع سے منہ موڑنے کی بجائے اسلام کی ترویج و اشاعت اور دعوتِ دین کے لیے ان ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسلام دشمن قوتیں اس محاذ پر حملہ آور تھیں اور اہلِ مذہب اسے شجرِ ممنوعہ قرار دے کر اس سے گریزاں تھے۔ اسی احساس کے پیشِ نظر آپ نے تبلیغِ دین اور فروغِ تحریک کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا۔ بانی تحریک کی اسی جدت پسندی اور جدید سہولیات سے استفادہ نے تحریک منہاج القرآن کو عصری تحریکوں میں منفرد مقام دیا ہے۔
فہرست مرکزی ویب سائٹس
تحریک منہاج القرآن کی مرکزی ویب سائٹس منہاج انٹرنیٹ بیورو کے زیرانتظام ڈویلپ اور اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔ چند اہم ویب سائٹس کے روابط درج ذیل ہیں:
Minhaj-ul-Quran International MQI
Irfan-ul-Quran
Islamic Library
The Official IP-TV & Islamic Multimedia
Minhaj-ul-Quran Women League MWL
Pakistan Awami Tehreek PAT
Monthly Minhaj-ul-Quran/Dukhtaran-e-Islam
Fatwa Online