تاریخ؛ انسانی کردار کبھی فراموش نہیں کرتی بلکہ اوراقِ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان مرکزِ ہدایت اور راهِ حق سے دور ہوکر سرکشی و نافرمانی کی راہوں پر گامزن ہوجاتا ہے۔ زمانۂ نبوت سے انسان جتنا دور ہوتا جاتا ہے، اُتنا ہی ضلالت و گمراہی کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے، طبیعت میں قساوت و سختی اور دلوں میں کجی پیدا ہوجاتی ہے، جو ہدایت و رہنمائی کی طرف نہیں آنے دیتی، اور یوں انسان روحانیت و نورانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ط وَکَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ.
(الحدید، 57: 16)
’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے، اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی قوم نبی کی صحبت و سنگت اور رفاقت سے محروم ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی اور نبی کو مبعوث فرما دیتا تھا اور اس طرح وہ قوم پھر ہدایت آشنا ہوجاتی تھی۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں، آپ ﷺ کے بعد تاقیامِ قیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ لہٰذا اب رحمتِ ربانی نے اس امت کی ہدایت کے لیے مجددین بھیج کر ایک خصوصی انتظام فرما دیا ہے۔
صراطِ مستقیم سے بار بار انحراف انسانی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ لیکن اللہ رب العزت نے ہر دور میں انسانیت کو جادۂ حق پر واپس لانے کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں کو یہ ذمہ داریاں تفویض کیں، جنہوں نے اپنی پوری صلاحیتیں اس راہ میں صرف کر دیں اور شب وروز جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے تمام سازشوں کا مقابلہ کرکے جملہ فکری ونظریاتی اور عملی و اعتقادی انحرافات اور رویوں کی اصلاح کی۔
اسلامی ہجری صدی کا 43 واں سال سفر میں ہے اور بالعموم زوال کی طرف بڑھتی امت کو مضبوط سہارے کی ضرورت ہے،ایک ایسا سہارا جو یقین و آگہی کے چراغ دلوں میں روشن کرکے تاریخ کا دھارا بدلے، معاشرتی و ثقافتی زندگی کو دلپذیر و حسیں بنائے، نئے ثقافتی رنگوں کووجود بخش کر زندگی کونئے رجحانات سے ہمکنارکرے،ذہنِ انسانی کو نئے عوالم اور نئے جہانوں سے روشناس کرائے، خوابیدہ ضمیرِ ملت کو بیدار و بے قرارکرکے ایک نیاولولہ، جوش، جذبہ، آھنگ اور فکر دے اور مایوسی وناامیدی کے سمندر میں غرق روحوں کو یقین وعمل کے سفینوں پرنیا عزمِ زندگی اور ذوقِ منزل عطاکرے۔ یقینا ایسے سہارے کی حامل شخصیت وہی ہوسکتی ہے جس کا وعدہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے کہ میری امت پر جب زوال کے سائے گہرے ہوجائیں گے توپھرسے زندہ کرنے کے لیے ہرصدی کے اختتام پر ایک مجدد کو بھیجا جائے گا،جوامت کی ہچکولے کھاتی ناؤ کو سہارا دے کر اسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کرے گا اور اس کے مردہ و بے حس جسم میں نئی روح پھونک کرحیاتِ نو اور نشاۃِ ثانیہ کی لہر پیدا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ اِس اُمتِ محمدی ﷺ میں ہر سو سال بعد ایک ایسے شخص کو پیدا فرماتا ہے جو اپنی باکمال شخصیت اور بے مثال صلاحیتوں کے باعث سب میں ممتاز ہوتا ہے اور جوہرِقابل ہونے کے حوالے سے اپنی منفرد استعداد اور خوبیوں کا لوہا منوا لیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان گرامی قدر ہے:
إِنَّ اللهَ یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا. (رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِیُّ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آغاز پر ایک ایسی ہستی بھیجتا ہے کہ جو اِس اُمت کے لیے تجدیدِ دین کا فریضہ انجام دیتی ہے۔‘‘
مذکورہ حدیثِ مبارک سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ صدی کے آغاز پر بڑی آن بان سے طلوع ہونے والے اس روشن ستارے کو مجدد کہتے ہیں، جس کی تربیت ایک خاص علمی و روحانی اور بے مثال ماحول میں ہوتی ہے۔ وہ بڑی شان کے ساتھ تعلیمی منازل طے کرتا ہے۔ اسے تجدید و احیائے دین کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے تمام ضروری علوم و فنون اور غیر معمولی ذہانت و فطانت سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ مجدد غیر معمولی صلاحیت، دل کش شخصیت اور مضبوط علم وکردار کا مالک ہوتا ہے۔ مجدد معاشرے میں پھیلے ہوئے فکری و اعتقادی مغالطوں کاازالہ کرتا ہے اور علمی وعملی بے راہ روی سے لوگوں کو بچاکر انہیں ہدایت کی روشن سبیل پر گامزن کردیتا ہے۔
منہاج القرآن کا قیام اور جدوجہد کا دائرہ کار
جب افق پر 15 ویں صدی ہجری (محرم الحرام 1400ھ بمطابق 21 نومبر 1979ء) کا آفتاب طلوع ہوا تو ہر طرف بے یقینی کی صورتِ حال تھی۔ دین کی حقیقی روح اور اصل تعلیمات سے دوری، عالمی سطح پر فکری و نظریاتی پستی اور واضح مقصد نہ ہونے کے سبب مسلمان بے توقیری کی زندگی گزار رہے تھے۔ مسلمان بحیثیتِ ملت معاشی، سیاسی اور معاشرتی میدان میں بڑی تیزی سے زوال پذیر تھے۔ اِن حالات میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے غلبۂ دینِ حق کی بحالی اور احیائے اسلام کے لیے (17 اکتوبر 1980ء بمطابق 7 ذوالحجہ 1400ھ) بروز جمعۃ المبارک کو تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کی جدو جہد کا دائرہ کار درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
- دعوت و تبلیغِ حق
- اِصلاحِ اَحوالِ اُمت
- تجدید و اِحیائے دین
- ترویج و اِشاعتِ اِسلام
- اُمت میں اِتحاد و یگانگت
- بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور امنِ عالم کا قیام
- اِنتہاپسندی کا اِنسداد اور اَمن و اِعتدال کا فروغ
بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی تحریک یا جماعت نے اپنے وجود کے پہلے 41 سالوں میں نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر اس قدر عظیم کامیابیاں سمیٹی ہوں کہ اللہ رب العزت کے فضل اور حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلینِ پاک کے صدقہ یہ تحریک آج پاکستان سمیت دنیا کے 100 ممالک میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔ تحریک کا پیغام آج نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ عالمِ مغرب میں بھی کروڑہا لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اور دنیا بھر میں قائم اسلامک سنٹر اسلام کی روشنی کو پھیلارہے ہیں اور شمع سے شمع روشن ہورہی ہے۔
منہاج القرآن کی عالمی سطح پر پذیرائی
اللہ رب العزت نے شرق تا غرب تحریک منہاج القرآن کی فکر کو متعارف کرادیا اور آج اسے اسلام کی ایک مثبت علامت اور اچھی شناخت کے طور پر مغربی دنیا میں دیکھا جارہا ہے۔ دنیا میں دہشتگردی اور انتہاء پسندی کو اسلام کے ساتھ منسوب کردیا گیا تھا، اس سوچ نے اسلام کا چہرہ مسخ اور گدلا کردیا۔ اس بگڑے ہوئے تناظر میں جب اسلام کی صحیح، پُرامن اور مثبت شناخت کی تلاش کریں تو عالمِ مغرب، مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا پر منہاج القرآن کا نام سرفہرست نظر آتا ہے اور آج اسلام کی مثبت تعبیر اور اسلام کی پرامن جدید مثبت شناخت کا نام تحریک منہاج القرآن ہے۔
اس سے مراد کسی اور کی نفی کرنا یا کسی پر Comment کرنا نہیں بلکہ یہ سب تحدیثِ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو رحمت تحریک منہاج القرآن پر فرمائی ہے اس پر اس کی بارگاہ میں شکر ادا کرتے ہیں۔
مغربی دنیا میں دیگر جماعتوں اور شخصیات کے تذکرے اسلام کی انتہا پسندی اور تنگ نظری کی تعبیر کے حوالے سے تھے جبکہ آج کے دور کے مطابق اسلام کی جدید تعبیر، متوازن، مثبت، پرامن، جمہوری پیشکش اور شرق و غرب کو ملانے والے زاویہ نگاہ سے مغربی دنیا خوف زدہ نہیں ہوتی بلکہ اسلام کو پڑھنے میں دلچسپی لیتی ہے، جب اس حوالے سے اسلام کی تعبیر کی بات آتی ہے، تو ان تمام جگہوں پر تحریک منہاج القرآن کا نام سرفہرست نظر آتا ہے۔ ان شاء اللہ آنے والے سالوں میں یہ حوالہ مزید معتبر، مضبوط اور ثقہ ہوتا جائے گا اور اگلی کئی صدیوں تک افقِ عالم پر چمکتا رہے گا۔
اصلاحِ احوال، احیائے اسلام اور تجدید دین کے عظیم مشن کی داعی منہاج القرآن انٹرنیشنل نے جب دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو بیرون ملک مقیم مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں میں منہاج القرآن کی پر امن کاوشوں اور بین المذاہب رواداری کی بدولت اس عالمگیر تحریک کو بے حد پذیرائی ملی۔
بیرون ملک دنیا کے پانچ براعظموں سمیت منہاج القرآن انٹرنیشنل کا عظیم پیغام، دعوتی اور تنظیمی نیٹ ورک دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں فروغ پاچکا ہے۔ ان ممالک میں منہاج القرآن انٹرنیشنل نے کمیونٹی، ایجوکیشنل اینڈ کلچرل اسلامک سنٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے ہیں جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ اور ہفتہ وار کلاسز کی شکل میں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ منہاج القرآن نے ہفتہ وار حلقہ درودوفکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپ، سیمینار اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کودینی و اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر ہے۔ منہاج یونیورسٹی کے سیکڑوں اسکالرز دنیا بھر میں یورپ میں مقیم مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور منہاج القرآن کے اسکالرز نے یورپ کے بیسیوں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دئیے، سیکڑوں یونیورسٹیز، کالجز اور اداروں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ رحمت اوراسلام کے تصور ِجہاد پرموثر اور فکر انگیز خطابات کیے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات اور عالمی سطح پر قیامِ امن کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الہدایہ کیمپس کے ذریعے یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بچاتے ہوئے امن و رواداری کا حقیقی درس دے کر یورپ میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کردیا۔ اس انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا اور انہیں عزت و احترام اور جرأت کے ساتھ جینا نصیب ہوا ہے۔
انسدادِ دہشتگردی اور فروغِ امن کیلئے جدوجہد
تحریکِ منہاج القرآن نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر قیامِ اَمن کے لیے فکری، تحریری اور تقریری ہر میدان میں فقید المثال خدمات انجام دی ہیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تصنیفات و تالیفات اور خطابات کے ذریعے دنیا کو باور کروایا ہے کہ اِسلام اِنتہا پسندی کا نہیں بلکہ اَمن و محبت، اِعتدال و میانہ روی اور ہم آہنگی و رواداری کا دین ہے۔ خدمتِ اِنسانیت کے اِس باب میں 6 سو صفحات پر مشتمل اِنسدادِ دہشت گردی کا فتویٰ ایک ایسی علمی و فکری کاوش ہے جسے اپنوں اور پرایوں سبھی نے بے حد سراہا ہے اس فتویٰ کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے 40سے زائد کتب پر مشتمل فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب مرتب کیا گیا ہے جس کا برملا اِعتراف عالمِ اِسلام کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم OIC کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغِ اَمن کی کاوشوں کے نتیجے میں مغربی دنیا میں اِسلام کے اَمن بیانیہ کو پذیرائی ملی ۔
اِس وقت عالمی سطح پر دو متضاد قسموں کی اِنتہاپسندی کا ماحول پر وان چڑھ رہا ہے ۔ ایک طرف مذہبی اِنتہاپسندی ہے تو دُوسری طرف سیکولر اِنتہا پسندی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اِنتہاپسندی کی اِن دونوں اِنتہاؤں کے درمیان عالمی سطح پر پُراَمن بقائے باہمی اور Moderation کا ایجنڈا متاثر کن اور مدلل اَنداز میں دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ عالمی امن کے حوالے سے ان ہی خدمات کے پیشِ نظر سال 2011ء میں اَقوامِ متحدہ (UN) نے تحریکِ منہاج القرآن کو خصوصی مشاورتی درجہ دیا ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام کی طرف سے پیش کردہ اسلامی تعلیمات پر مبنی اَمن بیانیے کو امریکہ میں نصاب میں شامل کیاگیا ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پورے عالم اِسلام کی سعادت و کامرانی ہے۔
اعلامیہ لندن برائے عالمی امن
ستمبر، 2011ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام ویمبلے ایرینا لندن میں عالمی امن برائے انسانیت کانفرنس منعقد کروائی۔ عالمی امن کے قیام، بین المذاہب رواداری کے فروغ اور انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے منعقدہ اس کانفرنس میں 12,000 کے قریب افراد شریک ہوئے۔ کانفرنس میں مسلم، مسیحی، یہودی، ہندو، سکھ اور بدھ مت کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
بین المذاہب رواداری کا فروغ
بین المذاہب رواداری اور امن کے فروغ میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کا کردار مثالی رہا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقوام و مذاہب کے درمیان نفرتوں کے خاتمے کے لیے منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام شعبہ انٹرفیتھ ریلیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے مراکز دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔ اِسی مذہبی رواداری کا نتیجہ ہے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کے دِینی تہواروں کے موقع پر دیگر مذاہب کے نمائندے اور حکومتی عمائدین نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ قیام امن کے لیے کی جانے والی منہاج القرآن کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ اُن کی طرف سے یہ اعتراف اصل میں اسلام کی پرامن تعلیمات کا اعتراف ہے۔
موثر طبقات میں پذیرائی
گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلام کو practice کرنے والے کئی لوگ بالکل انتہا پسند ہوگئے یا بالکل سیکولر ہو گئے۔ درمیان میں ایسیspace ختم ہو گئی تھی یا بہت تھوڑی رہ گئی تھی جس میں لوگ معتدل (moderate) ہوں۔ یعنی اسلام کی اقدار کو رکھنے میں جھجھک و شرم محسوس نہ کریں، ماڈرن بھی رہیں اور commitment بھی دین کے ساتھ رہے۔ نیز اُن کو کوئی moderate vision ملے جو سیکولر مزاج لوگوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہو سکے۔
ان حالات میں تحریک منہاج القرآن نے اسلام کا moderate vision اور version قوت اور طاقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج الحمدللہ نہ نوجوان نسل، پڑھا لکھا طبقہ بلکہ دنیا کی بڑی بڑی نامور شخصیات تحریک منہاج القرآن کی ممبر شپ لیتے ہوئے اعزاز محسوس کرتی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے اسلام کا Moderate vision اس مضبوطی اور دلائل کی قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا کہ نوجوان نسل کو صحیح معنوں میں اسلام کی پرامن تعلیمات کی جانب گامزن کردیا اور اُن کو پھر دینِ اسلام سے ایک رغبت و تعلق حاصل ہوگیا ہے۔ نوجوان نسل اور موثر لوگ؛ دینی حلقے سے دور بھاگ گئے تھے، وہ کسی عالمِ دین یا مذہبی شخصیت کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ تحریک منہاج القرآن نے یورپ کے ماحول میں احیائے اسلام کا یہ کام کیا کہ دین سے بیزار اِن طبقات کے اندر دین سے وابستگی پھر سے زندہ کردی۔
فروغِ تعلیم کے لیے ایجوکیش سنٹرز کا قیام
منہاج القرآن انٹرنیشنل کا ایک اہم ترین فکری ستون اور شیخ الاسلام کی خدمتِ دین کا اہم دائرہ فروغِ تعلیم ہے۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر منہاج القرآن نے ایسا جاندار، ہمہ جہت علمی وفکری اور تحقیقی وتخلیقی کلچر متعارف کروایا ہے جو روحانی الذہن افرادپیدا کررہاہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری مدظلہ العالی کے قائم کردہ اس علمی مشن کو یورپ میں آگے بڑھانے کے لیے منھاج یورپین کونسل (MEC) نے 2014ء میں انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ’’منہاج ایجوکیشن بورڈ یورپ‘‘ (MEBE) تشکیل دیا۔ جس کا مقصدیورپ میں رہنے والے مسلمانوں اور ان کی نسلوں کے لیے ایسے تعلیمی نظام کی تیاری اور نفاذ ہے جو یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی بالخصوص اور امتِ مسلمہ کی بالعموم دینی و مذہبی، علمی وفکری اور معاشرتی وثقافتی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ اس بورڈکے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں:
1۔ یورپ میں مقیم مسلمان نسلوں میں دین کا درد پیداکرکے شریعت کے نظامِ عبادات، لباس وپردہ، حیاء و تقویٰ، اوامر و نواہی، حلال و حرام اور دینی اقدار کی اتباع کا جذبہ پیدا کرنا یعنی انہیں Practicing Muslim بنانا۔
2۔ عصرِ حاضرکے فکری چیلنجزکے مقابلے میں دین کی علمی وعقلی خدمت کا جذبہ بیدار کرنا۔
3۔ اردو زبان کے فروغ کی کوشش کرنا کیونکہ عربی کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ لٹریچر اردو زبان میں ہے۔
یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے بنیادی دینی تعلیم اور اردو زبان دانی ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔ بچوں کے لیے جہاں دین فہمی کے مواقع معدوم ہیں، وہاں اردوزبان وبیان کے سیکھنے کابھی کوئی انتظام نہیں ہے۔چونکہ زبان اظہارکاذریعہ ہے اور اس کے بغیراپنا مافی الضمیردوسرے کے ذہن میں منتقل کرنا کافی مشکل کام ہے۔ اسی طرح کوئی ہمہ جہت، جامع اور جدید نصاب یورپ کے تقاضوں کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی یورپ میں پیدا یا جوان ہونے والی نسلیں دین سے دورہوتی جارہی ہیں۔ ان فوری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے منھاج القرآن تین سطحوں پر کام کر رہا ہے:
1۔ چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے نظامِ تعلیم کا فروغ
2۔ 15 سے 25 سال کے جوانوں کے لیے قرآن وحدیث، فقہ وتصوف اور عربی زبان کی مہارت پر مشتمل کورسز
3۔ بالغ باشعور افراد کے لیے تزکیہ وفہمِ دین کورسز
یہ تمام نصابات قرآن وحدیث، فقہ، روحانیات، اخلاقیات، اردو اور معلوماتِ عامہ پر مشتمل ہیں۔ بیرون ملک منہاج القرآن کے اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے غیرنصابی سرگرمیوں پر بھی توجہ دی جاتی ہے جن میں تقاریر، نعتیں، کوئزپروگرام، ٹیبلوشو اور دیگر مصروفیات شامل ہیں۔ منھاج القرآن کی ان خدمات کی بدولت مسلمانوں کی نسلِ نَو کی اعلٰی اخلاقی وروحانی اور علمی وفکری تربیت ہو رہی ہے۔ شیخ الاسلام آنے والی کم از کم تین نسلوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت کی فکر میں شب وروز کوشاں ہیں۔
عالمی سطح پر فلاحِ انسانیت میں MQI کا کردار
تحریک منہاج القرآن ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فلاحِ انسانیت کا بیڑہ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔ منہاج ویلفیئرفاونڈیشن کے ذریعے دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کاقیام، مستحق طلبہ کو اسکالر شپس، بے سہارا غریب خاندانوں کے لیے اجتماعی شادیوں کابندوبست، زلزلہ اور سیلاب زدگان کی امداد، آغوش (یتیم بچوں کی کفالت کا ادارہ)، بیت الزہراء، فری ایمبولینس سروس، ڈسپینسریز، بلڈ بینک، زچہ بچہ ہسپتال اور خواتین کے لیے دستکاری سینٹرز جیسے سیکڑوں پراجیکٹس گزشتہ کئی عشروں سے کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو عالمی سطح پر انسانی خدمات کی بیسیوں جہات ایسی ہیں جن کا بیان ایک الگ تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے۔ انسانیت کی فلاح کے لئے یہ تمام تر خدمات تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کی شان دار کارکردگی ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے کارکنان نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے حصول کے لیے اپنے قائد کے حکم پر 41 سالوں سے ہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ تحریک ِ منہاج القران انٹرنیشنل کا شاندار ماضی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ آئندہ بھی یہ سفر کامیابی سے جاری و ساری رہے گا۔
منہاج مصالحتی کونسل
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام یورپ میں منہاج مصالحتی کونسل (Minhaj Peace & Integration)قائم ہے۔ اس کونسل کا بنیادی کام دین اسلام کا اصل پیغام متعلقہ ممالک کے اداروں اور لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کونسل کے اغراض و مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ مقامی پاکستانی کمیونٹی کے تنازعات کو احسن انداز میں سلجھانا۔
2۔ پاکستانی اور دیگر کمیونٹیز کے درمیان مختلف تنازعات اور غلط فہمیوں کو دور کرنا۔
3۔ غیر مسلم ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کی مثبت نمائندگی کرنا۔
4۔ بحیثیت مسلمان مقامی، سماجی و معاشرتی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرنا۔
5۔ کسی بھی سطح پر اختلافات میں ثالثی کردار کی ادائیگی۔
6۔ ہر ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ روابط قائم کرنا۔
7۔ نوجوان نسل کو منشیات، بے راہ روی اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے موثر اقدامات کرنا۔
8۔ جبری شادی کی روک تھام کے لئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا۔
9۔ ملکی قوانین کے بارے میں پاکستانی کمیونٹی میں شعور و آگہی (Awareness) پیدا کرنا۔
10۔ متعلقہ ممالک میں لوگوں کو درست اور مخلصانہ مشورے دینا اور خاندانی معاملات کے الجھاؤ کو پر امن طریقے سے حل کروانا۔
11۔ مسلم بچوں اور نوجوانوں کو خصوصی طور پر اور غیر مسلم بچوں اور نوجوانوں کو بالعموم مختلف ٹریننگ ورکشاپس، سیمینارز، ون ٹو ون Sittings کے ذریعے تربیت دینا، تاکہ مجموعی طور پر باہمی محبت، الفت اور بھائی چارے کی فضاء پیدا ہو۔
12۔ اپنے ممالک میں حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر باہمی حسنِ سلوک اور امن کی فضاء کو معاشرے میں پیدا کرنے کے لیے کام کرنا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز کرنا اور حکومتی عہدیداران کی ان پروگرامز میں شرکت یقینی بنانا۔
13۔ مختلف مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانا، غیر مسلموں کو میلاد پاک، رمضان المبارک، عیدین، جشن آزادی و یوم پاکستان جیسے پروگراموں کی Celebration میں مدعو کرنا اور مختلف مذاہب کے مذہبی تہوار مثلاً کرسمس وغیرہ کے موقع پر مشترکہ تقاریب کا انعقاد کرنا۔
14۔ قومی و بین الاقوامی ایشوز پر تحریک کا موقف عوام اور میڈیا کے سامنے پیش کرنا۔
15، مقامی و ملکی Authorities، ادارہ جات، محکموں سے تعلق اور رابطہ قائم رکھنا اور پروگرامز میں شرکت کی دعوت دینا۔
16، دہشت گردی کے خلاف منہاج القرآن انٹرنیشنل کی واضح پالیسی سے میڈیا اور حکومتی نمائندوں کو آگاہ کرنا۔
17، انتہا پسندی اور فرقہ ورایت کے خلاف آواز بلند کرنا اور اسلام کے پیغام امن کو موثر انداز سے اجاگر کرنا۔
18۔ انسانی حقوق (Human Rights) کے حوالہ سے پروگرامز کا انعقاد کرنا۔
19۔ امن، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، دہشت گردی کی مذمت پر شیخ الاسلام کے خطابات اور مضامین کی مقامی زبان میں اشاعت اور Publishing کا اہتمام کرنا۔
خلاصۂ کلام
تحریک کے فکری تشخص اور اس کی نظریاتی اساس کے باعث آج مغربی اور اسلامی دنیا میں تحریک منہاج القرآن اور اس کی کتب اسلام کی حقانیت اور حقیقی تعلیمات پر باقاعدہ عالمی حوالہ بن چکی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی فکر اور آواز اللہ رب العزت نے جتنی تیزی کے ساتھ اسلامی اور مغربی دنیا میں پہنچائی ہے اور جو سفر 41 سال میں طے ہوا، اس کی مثال پیش کرنا نہایت مشکل ہے۔ عالمی سطح پر تحریک منہاج القرآن کو جو پذیرائی حاصل ہے، عصری تحریکوں میں سے کسی کو بھی یہ مقام حاصل نہیں۔