محبت۔۔۔ خالقِ کائنات کا نور ہے اور پیغمبرِ انسانیت ﷺ کا منشور بھی
محبت۔۔۔ تخلیقِ کائنات کا محرک ہے اور حسنِ کائنات کا جوہر بھی
محبت۔۔۔ نظمِ کائنات کا محور ہے اور شخصیتِ انسانی کا زیور بھی
محبت۔۔۔ کیفیات کا بحرِ بیکراں ہے اور جذبات کا سیلِ رواں بھی
محبت۔۔۔ امنِ عالم کی ضمانت ہے اور ایمان و اسلام کی علامت بھی
محبت۔۔۔ علم و عمل کا مقصود ہے اور عبادت و ریاضت کا نچوڑ بھی
یہ سب کچھ فیضانِ محبت ہے۔ یہ اس کی ہمہ جہت حقیقت کا لفظی اظہار ہے ورنہ لفظِ محبت کی حقیقی اور حتمی تعبیر آج تک بیان نہیں ہوسکی۔ ہر کسی نے اپنی ذہنی بساط اور کیفیات کے مطابق اس کے معانی و معارف بیان کیے ہیں لیکن ہر دانا و بینا شخص اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ چار حروف کا یہ مجموعہ اپنے اندر سمندر سے زیادہ گہرائی، کائنات سے زیادہ وسعت، بھڑکتی آگ کے شعلوں سے زیادہ تپش، آفتاب و ماہتاب سے زیادہ نورانیت، گلاب کی پنکھڑی سے بڑھ کر نزاکت، قطرۂ شبنم سے زیادہ لطافت اور شہد سے زیادہ مٹھاس رکھتا ہے۔ محبت میں بے قراری بھی اگرچہ ایک نعمت ہے مگر اسے جب معراج و کمال حاصل ہوجائے تو تسکینِ روح کا حقیقی سامان میسر آتا ہے۔ جب دل دریائے محبت میں غوطہ زن ہوتا ہے تو اس کے پیشِ نظر یہ آسانیاں اور آسائشیں نہیں ہوتیں بلکہ محبت کی آتشِ شوق کو ہوا دینے کے لیے وہ ابتلا اور مصائب و آلام کے طوفان کو بھی اپنے سینے سے لگانے پر رضا مند ہوجاتا ہے۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے:
غواصِ محبت کا اللہ نگہبان ہو
ہر قطرہ دریا میں، دریا کی ہے گہرائی
حالات اس سے سمجھوتہ کریں نہ کریں یہ انجام و عواقب سے بالاتر ایک ایسا جذبہ ہے جو بغاوت پر اتر آئے تو بپھرے متموج سیلِ رواں سے بڑھ کر طغیانی دکھاتا ہے۔ شاعر فطرت شناس اقبال نے محبت کی درج بالا ہمہ گیریت کو بیان کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے۔
بیابانِ محبت، دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے
یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے
محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے، صحرا بھی
جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے
محبت کی یہ کیفیت اس کا ایک پہلو ہے دوسری طرف اس کی اہمیت پر مختلف زاویوں سے غور کیا جائے تو محبت ہی کارخانۂ قدرت کی جان نظر آتی ہے۔ نفسی کائنات ہو یا آفاقی، اس کے جملہ پہلوئوں کے بغور مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ یہی جوہرِ محبت اس کی تخلیق و ارتقاء میں حسنِ توازن قائم رکھتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی محبت عنقا ہوتی ہے وہاں نفرتوں اور عداوتوں کی آندھیاں خوشحالی کے ہنستے بستے گلستانوں کو ویران کرنے آجاتی ہیں۔ انسانی معاشرہ جب قتل و غارت گری، افراتفری، بدامنی، سیاسی و سماجی انتشار جیسے مہلک امراض کا شکار ہوجائے تو وہاںمحبت کے اکسیر نسخے کے بغیر کوئی دوسرا علاج کارگر ہو ہی نہیں سکتا۔ قوموں اورملّتوں کی زندگی میں محبت کی اس بنیادی اہمیت کو حکیم الامت نے بھی تسلیم کیا اور کہا:
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
یہ ہے محبت کے قومی اور بین الاقوامی اثرات و نتائج کی ایک جھلک۔ اب انفرادی زندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پورے سفرِ زیست میں محبت ہی انسانی شخصیت کی تعمیر و تکمیل اور تزئین کرتی ہے، انسان میں یہ جوہر بالفعل موجود ہو تو وہ فرشتوں سے بہتر، نکل جائے تو درندوں سے زیادہ ظالم، ماں کے دل میں بچے کے لیے محبت کے متلاطم جذبات نہ ہوتے تو انسان ممتا جیسی عظیم اور بے مثال نعمت سے محروم رہتا، باپ کے دل میں اولاد سے محبت کا عنصر نہ ہوتا تو لغت میں ’’شفقتِ پدری‘‘ کا وجود نہ ہوتا، بہن بھائیوں میں باہمی الفت نہ ہوتی تو اخوت اور بھائی چارے کے مفہوم سے کون آشنا ہوتا اور آپس کے دکھ درد کون بانٹتا؟ ایک سوسائٹی کے رہنے والوں کے دلوں میں محبت کا یہ جذبہ نہ ہوتا تو انسانی معاشرہ رواداری، حسنِ سلوک اور ہر دلعزیزی جیسی اعلیٰ صفات سے یقینا محروم رہتا نیز دنیا میں امن و آشتی، صلہ رحمی کا کوئی تصور نہ ہوتا۔
اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو واضح ہوگا کہ نظامِ مناکحت میں جنس مخالف سے طبعی محبت کا قدرتی رجحان کارفرما نہ ہوتا تو کائنات میں عملِ تخلیق کا حسین سفر کب کا رک جاتا اور ہنگامہ ہائے حیات سے وجود میں آنے والی یہ ہنستی مسکراتی بستیاں اور لہلہاتی کھیتیاں ناپید ہوتیں، یہ روش روش پھول اور چمن چمن بہاریں اس انسان ہی کے دم قدم سے تو ہیں، جو (یہ جاننے کے باوجود کہ اس نے ہمیشہ یہاں نہیں رہنا) دنیا میں آرزوئے محبت کے تحت اپنی کاریگری کے رنگا رنگ حسن بکھیر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان سمیت کائنات کی ہر نامیاتی چیز کو جو آرزو زندہ اور اسے ہر لمحے تعمیر و تحسین پر اُبھارتی ہے، یہ وہی آرزوئے محبت ہی تو ہے۔
یہاں تک تو انسان اور معاشرہ کے تناظر میں محبت کا عمل دخل مختصراً بیان ہوا۔ اب ذرا مذہبی اور دینی نقطہ نظر سے دیکھیں تو آپ کو اور بھی خوشگوار حیرت ہوگی کہ ایمان اور اسلام کی ساری پرشکوہ عمارت جذبۂ محبت پر ایستادہ ہے۔ توحید و رسالت جیسے کلیدی عقائد پر ایمان کا معاملہ ہو یا روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے بنیادی فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ ہر ایک کی صحت و قبولیت کے لیے خلوص و محبت ہی بنیادی شرط ہے۔ جس طرح جملہ عقائد و اعمال کی مقبولیت و صحت کا سارا دارومدار نیت پر ہے بعینہ نیت کی درستگی و پاکیزگی جذبۂ محبت کے بغیر بہر صورت ناممکن ہے۔ وہ نماز اور حج کہاں قبول ہوں گے جن کی ادائیگی کے وقت کعبہ کے تصور کے ساتھ ربِ کعبہ کی محبت دل میں موجود نہ ہو اور۔۔۔ وہ روزہ کیسا جس میں خورد و نوش سے پرہیز کے ساتھ ساتھ محبوبِ حقیقی کی رضا اور محبت کارفرما نہ ہو؟ ماحصل یہ کہ دنیا میں مقام و مرتبے کا تعین ہو یا آخرت میں جملہ کامیابیوں سمیت قربِ الہٰی جیسی نعمتِ عظمیٰ کا حصول، سب محبت ہی کے ثمرات و نتائج ہیں۔ الغرض جو موضوع چھیڑیں اور جس طرف نظر دوڑائیں ہر سو محبت ہی کی شاہی نظر آتی ہے اور بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے:
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
محبت کا داعیہ ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتا ہے اور وہ اس قدرتی داعیہ کی تسکین کے لیے کسی نہ کسی طرف جھکائو ضرور رکھتا ہے۔ اب اس بندے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی محبت کو کس طرف لگاتا ہے۔ واضح رہے کہ کائنات ہست و بود میں انسانی محبت کا قبلۂ اولین اور کعبۂ عشق اللہ جل مجدہ کی ذاتِ اقدس ہے۔ وہی ذات محبت کی خالق ہے اور وہی اس کی مستحق ترین بھی۔ پھر وہ ہستیاں جن سے خود اس ذات نے محبت کی اور بندوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم فرمایا، ان میں سرفہرست وجہ تخلیقِ کائنات، صدرِ بزمِ حسینانِ عالم، محبوب کبریا محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ لیکن سلسلۂ تخلیق پھیلنے کے ساتھ ساتھ ہوا یہ کہ نفس و شیطان کے دلفریب پھندوں میں پھنس کر انسان جہالت کی تاریکیوں میں کھوگیا۔ اس نے خدائی ہدایت سے بغاوت کی اور اپنی محبتوں کے لیے کئی ناجائز ’’قبلے‘‘ بھی تلاش کرلیے۔ یہی انسان اگر محبوبِ حقیقی سے محبت کرے تو وہ مومن اور حق پرست ہوگا اور غیر خدا سے (اس کی منشا کے خلاف) محبت کرے تو مشرک و کافر کہلائے گا۔ اسی طرح بت پرستی، آتش پرستی، دنیا پرستی اور دولت پرستی سب شرک کی ہی مختلف شکلیں ہیں جو محبت کے بے محل استعمال کا نتیجہ ہیں۔
تعلقِ بندگی کی تین نوعیتیں
ہر چیز کی اہمیت کا اندازہ اس کے دائرہ عمل سے لگایا جاتا ہے۔ محبت کا بھی یہی حال ہے، اس کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا، اسی قدر مقبولیت اور محبوبیت میں توسیع ہوگی۔ جتنی بڑی ہستی سے محبت ہوگی، اتنی رفعت و بلندی نصیب ہوگی۔ جتنے عظیم مقصد کے لیے محبت کی جائے گی، اتنی عظیم قربانی کی ضرورت ہوگی۔ کائنات میں بلند ترین ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور انسان کا اعلیٰ ترین مقصد اس کی رضا اور محبت کا حصول ہے۔ اس مقامِ رضا کے حصول کے لیے تعلق بندگی ضروری ہے اور اس تعلق بندگی کی تین نوعیتیں ہیں:
1۔ کوئی شخص اللہ کی عبادت یہ سوچ کر بجا لاتا ہے کہ اسے عذابِ جہنم سے چھٹکارہ مل سکے۔
2۔ کسی کا تعلق بندگی اس لیے ہے کہ اسے جنت کی پرکشش نعمتیں حاصل ہوجائیں اور۔۔۔
3۔ ایک وہ بھی ہے جسے کسی سزا و جزا کا خیال نہیں بلکہ وہ اللہ کی عبادت و بندگی محض اس کی رضا کے لیے کرتا ہے۔
پہلی دونوں قسم کی عبادتیں اگرچہ عنداللہ قبول ہوجاتی ہیں مگر چونکہ ان کی عبادت کا محرک خوف یا طلب ہوتا ہے اس لیے ان کو جزاء اجرت کی شکل میں چکا دی جاتی ہے لیکن رضائے الہٰی کے طالبوں کو اُجرت کی طمع ہی نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ اللہ کی عبادت و ریاضت بربنائے محبت صرف اور صرف حصولِ قرب کی خاطر کرتے ہیں۔ ان کے لیے دونوں جہاں کی نعمتیں ایک طرف اور محبوب کے رخِ زیبا کی اک جھلک ایک طرف۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جسے تمام نعمتیں عطا کرنے والا خود مل جائے اسے باقی نعمتوں کی کیا طلب؟ اللہ تعالیٰ کا خوانِ نعمت پوری کائنات کے لیے ہے، ہر دور اور ہر مخلوق کے لیے۔۔۔ اس خزانے کے قاسم سرورِ کائنات ﷺ ہیں۔۔۔ قاسمِ نعمت مہرباں ہو تو نعمتیں عطائیں اور خزانے سب اپنے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں۔ ’’جس کے حضور ﷺ ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا‘‘۔ محبت قربت کا سبب ہے اور جسے اپنی محنتوں کا صلہ قربت کی صورت میں حاصل ہوجائے اس کے سامنے اجرت کی کیا اہمیت؟
حقیقت یہ ہے کہ قربت الہٰی کے ایسے طالبوں کو اللہ تعالیٰ کی اس خالص محبت کے طفیل ایسا باطنی نور عطا ہوتا ہے کہ وہ سراپا محبت ہوجاتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی ہر ایک کا غنچہ دل مہک اٹھتا ہے اور خوش بخت نفوس اس عکسِ جمالِ الوہیت کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ گویا حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق ان کے چہرے دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ اقبال نے محبت کی اسی اثر آفرینی پر کیا خوب کہا:
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے
اور اسی تصور کو انہوں نے مزید خوبصورت پیرائے میں یوں بیان فرمایا:
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے
مرض کہتے ہیں سب اس کو یہ ہے لیکن مرض ایسا
چھپا جس میں علاجِ گردشِ چرخِ کہن بھی ہے
جن خوش نصیبوں کو یہ مرضِ نایاب لگ جائے، ان پر مقربین ملائکہ بھی بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ انہیں دنیوی امارت و ثروت اور جاہ و منصب کی طمع اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی لیکن یہ سب کچھ ان کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ وہ ہر کام محبوبِ حقیقی کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اس کی راہ میں اگر جان بھی دینی پڑے تو ہتھیلی پر رکھ کر زبانِ حال سے کہتے ہیں۔ ؎’’گر قبول افتد زہے عز و شرف‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جنہیں اللہ رب العزت اور اس کے رسولِ معظم ﷺ کی محبت کا ایک قطرہ نصیب ہوگیا، موت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور حوادثِ زمانہ کے ہزاروں دور بھی ان کی عظمت کے نقوش نہ مٹاسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ان دیکھی شخصیت دلوں کو مسخر کرتی چلی گئی۔ وہ لوگ محبتِ الہٰی میں ایسے فنا ہوئے کہ صدیوں بعد بھی ان کے آستانوں سے اُسی ازلی محبت کی دولت بٹ رہی ہے اور ان کے دربارِ گہر بار مرجعِ خلائق بنے ہوئے ہیں۔ انہیں کس چیز نے اتنا بلند کردیا کہ وہ زمانی و مکانی حدود و قیود سے بالاتر ہوگئے؟ کیا وہ صاحبِ دولت و ثروت تھے، دنیوی جاہ و منصب کے مالک تھے؟ نہیں ایسا نہیں تھا وہ خاک نشین کئی کئی روز تک بھوکے پیاسے رہنے والے صحرائوں، بیابانوں میں دیوانہ وار پھرنے والے اور بظاہر مفلوک الحال، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس جن کی کل کائنات معمولی سی کٹیا ہوتی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ لوگ آخر کیوں ایسی عظمت پر فائز ہوگئے کہ آج بھی ان کا نام سنتے ہی دلوں میں عقیدت، نگاہوں میں ادب اور شعور میں پاکیزگی اتر آتی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ سب محبت کا فیضان ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حیاتِ دنیوی و اخروی میں کامیابی کا دارو مدار محبت پر موقوف ہے۔ محبوب جتنا عظیم ہوگا، محب کو اتنا دوام اور عظمت ملے گی۔ محبوب فانی ہوگا تو محبت بھی عارضی اور فانی ہوگی۔ جو لوگ دنیوی جاہ و حشمت، عزت و شہرت، دولت و حکومت اور فانی پیکرانِ حسن سے محبت کرتے ہیں، ان کی محبت بھی ڈھلتی چھائوں ہوتی ہے۔ یہ چار دن کی محبتیں فانی محبوبوں کے ساتھ رخصت ہوجاتی ہیں۔ محبت وہی دائمی اور باعظمت ہے جو غیر فانی اور قائم بالذات ہستی سے ہو اور وہ صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ جس طرح وہ خود عظیم وجلیل ہے اسی طرح اس کا ذکر اور محبت بھی باعظمت ہے۔ اس سے محبت کرنے والے جب اس کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں تو وہ بھی اپنے بندوں سے یوں محبت کرتا ہے کہ ان کا ذکر کائنات کی بلندیوں اور بستیوں میں پھیلا دیتا ہے۔ فرشتے ان بندوں کی محبت کے ڈھنڈورے پیٹتے ہیں۔ خود اندازہ لگائیں کہ جسے وہ ذات یاد رکھے اسے کون بھلا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ عشاق، عرفاء و اولیاء جنہیں ان کی حیاتِ ظاہری میں اگر کوئی نہیں بھی جانتا تھا تو آج سب لوگ ان کے نام سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان کے نام کو وظیفہ جان کر جپتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی لافانی محبت کا کمال ہے جس نے فانی انسان کو بقائے دوام عطا کردی۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
دائمی اور آفاقی محبتوں میں اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت اس فانی دنیا کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ سینے جن میں دھڑکنے والے دل محبتِ مصطفی ﷺ کے امین ہیں۔ خوش بخت ہیں وہ گھرانے جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے تعلقِ محبت کے نغمے گونجتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد کے زیر قیادت تحریک منہاج القرآن اسی فیضانِ محبت کے فروغ میں مصروفِ عمل ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کی دعوت کی بنیاد تعلق باللہ، ربطِ رسالت، رجوع الی القرآن، اتفاق و اتحادِ امت اور فروغِ علم و امن ہے۔ یہ دعوت ایک منفر د دعوت ہے کیونکہ تحریک کے قیام سے قبل اگر معاشرے میں ہمیں عشق ِ رسول ﷺ پر مبنی بیان سننے کو ملتے تھے تو ان میں تعلق باللہ، قرآنی فکر، فروغِ علم و شعور اور وحدتِ امت جیسی خصوصیات نہیں تھیںاور اگر توحید ‘ قرآن یا اتحاد کی بات ہوتی تو محبتِ رسول ﷺ اور ادبِ اہلبیت و صحابہؓ کی چاشنی سے خالی تھی۔ تحریک منہاج القرآن نے فروغِ عشقِ رسول ﷺ اور ربطِ رسالت ﷺ کی طرف توجہ دی اور ایمان کیلئے، محبتِ رسول ﷺ ، ادب و تعظیمِ رسول ﷺ ، نصرتِ رسول ﷺ (دینِ مصطفی کی دعوت) اوراتباع و اطاعتِ رسول ﷺ کو ضروری قرار دیا۔ اس قرآنی ترتیب کی روشنی میں تحریک نے بڑی خوبصورتی سے یہ حقیقت ِ دین سمجھائی کہ تبلیغ و اشاعت ِ دین اور اتباع و اطاعت کا دم بھرنے والوں کے سینے اگر محبت و تعظیمِ رسول ﷺ سے خالی ہوں گے تو یہ نری ’’ بولہبی‘‘ ہوگی، خدمتِ دین ہرگز نہیں۔ جب دل محبت و تعظیم سے خالی ہوں گے تو زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کی عزت و تعظیم کی کیا ضمانت؟
تحریک منہاج القرآن نے شیخ الاسلام کی زیر قیادت دلوں میں جذبۂ عشقِ رسول ﷺ پختہ کرنے اور اسے ایمان و عمل میں اجاگر کرنے کے لیے نوجوانوں کے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کا مشن رکھا اور اتباع کا آفاقی تصور پیش کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی زندگی کے مبارک اسوۂ کو اختیار کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ تحریک کا ہر رکن پہلے عاشقِ رسول ﷺ ہے او ر بعد میں مبلغِ دین۔ اس کے سامنے حضور ﷺ کی دعوتی کاوشیں بھی ہیں اور آپ ﷺ کا پیکرِ جمال بھی۔
عقیدۂ رسالت ﷺ کی ناگزیریت کو تحریک منہاج القرآن نے براہِ راست قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح کیا۔ تحریک نے اپنی ہر سرگرمی کے ذریعے محبتِ رسول ﷺ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ حتیٰ کہ ارکانِ اسلام، اجزائے ایمان سب کی اساس غلامیٔ رسول ﷺ کو قرار دیا۔ تحریک منہاج القرآن نے محبتِ مصطفی ﷺ کے فروغ کے لیے اور فیضانِ محبت کو عام کرنے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات و صفات سے متعلق اٹھنے والے جملہ اعتراضات کا بھی مسکت جواب دیا۔
تحریک کے پلیٹ فارم پر پہلے دن سے آج تک کوئی محفل، کوئی میٹنگ اور کوئی اجتماع خواہ وہ یورپ و امریکہ کے کسی کمیونٹی ہال میں منعقد ہوا ہے یا کسی پسماندہ دیہات کی بستی میں، تلاوت کے ساتھ نعتِ رسول ﷺ اور درود و سلام اس کا لازمی جزو ہے۔ نعتِ رسول دراصل محبتِ رسول ﷺ کا جذباتی اظہار، حبِ رسول ﷺ کے عہد کا تکرار اورمحبت کی خوشبو بانٹنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ شیخ الاسلام خود ایک سچے عاشقِ رسول ﷺ کی حیثیت سے نہ صرف نعت باقاعدہ سنتے ہیں بلکہ آپ کی فکر اور تحریک کا امتیاز بھی ذکرِ رسول ﷺ کی پرسوز محافل ہیں۔ انہوں نے نعت خوانی اور محافلِ میلاد کو روائتی مذہبی رسم سے نکال کر باقاعدہ اور متحرک مشن بنا دیا ہے۔ جگہ جگہ منہاج نعت کونسلز قائم ہیں جو بچے اور بچیوں کو قرآن، حدیث، فقہ اور عقائد کی طرح نعت خوانی کی تربیت دیتی ہیں۔
تحریک منہاج القرآن نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کو ایک بڑے اور موثر مذہبی تہوار کے طور پر منانے کا اہتمام نجی محفل کی بجائے رسولِ کائنات ﷺ کے شایانِ شان بین الاقوامی سطح پر کیا۔ چنانچہ ہر سال ربیع الاول میں ہونے والی محافلِ میلاد النبی ﷺ پوری دنیا کی نمائندہ محفلِ میلادکا روپ دھار چکی ہیں۔ مینارِ پاکستان پر ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس سمیت ملک کے دیگر مقامات پر بڑے بڑے تاریخی اجتماعات اہل پاکستان کی محبتِ رسول ﷺ کا ارمغان ہیں۔ دھر میں اسمِ محمد ﷺ پھیلانے اور اندھیروں کو اجالے میں بدلنے کا یہ کریڈٹ صرف اور صرف تحریکِ منہاج القرآن کا حصہ ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک تجدیدی کارنامہ یہ بھی ہے کہ امت کے دو متنازع دھڑوں کے درمیان تطبیق کرواتے ہوئے ’’سیرت و میلاد النبی ﷺ ‘‘ کی مشترکہ اصطلاح متعارف کروائی اور زور دار دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ ’’ اہلِ سیرت‘‘ اور ’’ اہلِ میلاد‘‘ دونوں حضو ر ﷺ کے مشن پر عمل پیرا ہیں‘ بشرطیکہ دونوں پہلوئوں پر بیک وقت نظررہے۔ ان میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے سے چمٹ جانا محبت و اتباع کا کوئی قابلِ ستائش انداز نہیں۔ میلاد کی خوشی بھی اللہ کی سنت ہے اور سیرت کا ذکر بھی اللہ کی سنت۔۔۔ اور اس دعوے کی دلیل قرآن سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک کارنامہ عشقِ رسول ﷺ کا عالمی سطح پر فروغ و احیاء بھی ہے۔ افریقہ سے لیکر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ‘ اسٹریلیا ‘مشرقِ وسطی اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں تحریک نے محبتِ مصطفی ﷺ کا آفاقی پیغام نہ پہنچا یا ہو۔یورپ کی چکاچوند میں مادیت کے بتوں کے سامنے سربہ سجود لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو تحریک منہاج القرآن نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن دنیا میں احیائے اسلام اور اقامتِ دین کی وہ واحد تحریک ہے جس نے عشق و محبت رسول ﷺ کے ساتھ عملی تصوف اور اعتقادی و فکری اصلاح کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے۔ یہ سہرا بھی تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کے سر ہے کہ یہ سارے امور انتہائی معتدل طریقے سے دوسروں پر تنقید کئے بغیر پوری دنیا میں سرانجام پارہے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن نے عوام و خواص کو کمال حکمت و بصیرت کے ساتھ پوری کامیابی سے رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات سے اور آپ کی سنت و سیرت کی طرف متوجہ کیا ہے اور حقیقی معنی میں فیضانِ محبتِ مصطفی ﷺ کو چہار دانگ عالم میں عام کیا۔