اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور نعلین پاک کے تصدق سے تحریک منہاج القرآن اپنا 41 واں یوم تاسیس منارہی ہے۔ اس تاریخی، تجدیدی، تعلیمی، تربیتی، فلاحی، اصلاحی سفر کے جملہ شرکاء، ذمہ داران، عہدیداران، وابستگان، رفقائے کار اور کارکنان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس مصطفوی مشن کی خدمت کے لیے ہماری توفیقات میں اضافہ فرمائے اور اس مشن کو تاقیامت قائم و دائم رکھے۔
تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی، فکری اور نظریاتی تحریک ہے۔ تجدید و احیائے اسلام کی اس تحریک کو ہم آج کے جدید عہد میں کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور منہاج القرآن کس طرح ہمارے لیے اِس دور کی ایک نعمت عظمیٰ ہے؟ اس کے لئے ہمیں انسان کو اللہ کی بارگاہ سے عطا ہونے والے اوصاف کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo
(التین، 95: 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کی جو تخلیق کی ہے اور اُسے کمال کے ساتھ مزین و آراستہ کیا ہے، وہ ایک خاص مقصد کے لیے ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ایک نمونۂ حیات بنانا چاہا ہے۔ اسے رشد وہدایت کا پیکر، پیشوا، مربیّ اور ایک قدوہ بنانا چاہا ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ نے واضح فرمادیا کہ perfectionکے ساتھ پیدا کیا اور اس کے اجزائے ترکیبی، body structure، اُس کے تشخص، شخصیت میں ہم نےbalanced approach کو رکھا۔ ہم نے کوئی بھی ایسا پہلو انسان میں نہیں رکھا کہ کوئی کبھی یہ کہہ سکے کہ وہ انسان جسے اللہ رب العزت نے نمونۂ حیات بنایا، کاش یہ ایسے ہوتا، کاش یہ ویسے ہوتا،کاش اِس طرح کا نظر آتا، کاش اُس کا حُسن و جمال اور اس کا ظاہر و باطن فلاں فلاں اوصاف سے بھی آراستہ ہوتا۔ بنانے والے نے سارا کمال اور جمال اُس انسان کے اندر چھپا دیا۔ جو کچھ انسانی عقل سوچ سکتی تھی، نہ صرف وہ بلکہ اُس سے بھی کئی گنا بڑھ کر اللہ رب العزت نے اُس انسان کو خوبیاں عطا فرمائی ہیں۔
اللہ رب العزت نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب ہمیں درج ذیل حدیث قدسی سے میسر آتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرِفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا.
(عجلونی، کشف الخفاء، 2: 173، الرقم: 2016)
’’میں درحقیقت ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہنچانا جائوں (اُس خزانے کی معرفت نصیب ہوجائے، تو اُس چھپے ہوئے خزانے کی معرفت عطا کرنے کے لیے) میں نے انسان کو پیدا کر دیا۔‘‘
معلوم ہوا کہ یہ سارے حُسن خدا کے تھے، یہ ساری صفات، خزانے، کمالات خدا کے تھے اور خدا چاہتا تھا کہ یہ سب کسی مخلوق میں منتقل کرکے اُسے زمین پر بھیج دوں اور لوگ دیکھنے میں تو اُس مخلوق کی تعریف کریں مگر حقیقت میں اُس مخلوق کو بنانے والے کی تعریف ہو۔
اللہ رب العزت نے اس انسان میں وہ وہ خوبیاں ودیعت کی ہیں جو مخلوق اور انسانیت کی ضرورت تھیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہر دور میں اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ جس طرح کی ضرورت ہوتی اور جو معاشرہ کی requirement ہوتی، اللہ اپنے نبی کو اُس دور کی ضروریات کو پورا کرنے والا اور اُن اوصاف کا مالک بناکر مبعوث فرماتا۔
پھر وہ پیکر انسان مختلف علاقوں اور اقوام میں انسانیت کی خدمت کے لیے آتی چلی گئیں۔ کبھی اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کو بھیجا تو انھیں اُس دور کے مطابق خوبیاں عطا کر دیں، نوح علیہ السلام کو چُن لیا تو انھیں اُن کے زمانے کی ضرورت کے مطابق خوبیاں عطا کر دیں۔
ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰـلَمِیْنَo
(آل عمران، 3: 33)
’’بے شک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔‘‘
یعنی اللہ رب العزت نے چننا شروع کر دیا۔ معلوم ہوا کہ جس طرح کا زمانہ تھا اور جس طرح کی ضرورت تھی، اُس ضرورت کو پورا کرنے والا نبی اس نے مبعوث فرمایا۔ کہیں پر اللہ رب العزت کو دعوت میں طوالت، استقامت، صبر اور تحمل کی ضرورت تھی، لوگ سرکش اور باغی ہو گئے تھے، ایسے حالات میں تحمل والے نبی کی ضرورت تھی تو 950 سال کے لیے نوح علیہ السلام کو بھیج دیا۔
پھر ابراہیم علیہ السلام کا وقت آیا تو یہ نمرود کا دور تھا۔ یہاں سرکشی کسی اور نوعیت میں سامنے آنے لگی اور کفر کسی اور انداز میں بولنے لگا۔ اب یہاں حکمت اور دانائی کی ضرورت تھی۔ یہاں logical اور scientific دعوت کی ضرورت تھی۔ یہاں تلوار کے ساتھ للکارنے کی نہیں بلکہ حکمت، دانائی، تحمل، برداشت، wisdom اور scientific example کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت تھی۔ لہذا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے وہی خوبیاں عطا کیں جو اُس دور کی ضرورت تھیں۔
پھر موسوی دور آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام میں کچھ اور خوبیاں رکھ دیں۔ اُنہیں کلیم اللہ بنایا اور اُنہیں اُس دور کی دو ایسی خوبیاں دے دیں جو اس زمانے میں کام آنے والی تھیں:
یدبیضا دیا اور عصائے موسیٰ۔ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ یہ جادوگروں کا دور ہوگا، لہذا آپ کو یدِ بیضا اور عصا کی صورت میں معجزات دے کر مبعوث فرمایا۔ یہ فرعون کا دور تھا۔ یہاں جرأت، انقلابیت اور جوش وخروش کے ساتھ اُس کے دربار میں کھڑا ہونا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا دور آتا ہے تو آپ کو تعبیر الرؤیا عطا کیا، پیکر حسن وجمال بنایا اور پھر دو مزید خوبیاں بھی عطا کیں جو حضرت یوسف نے خود اس طرح بیان کیں:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo
(یوسف، 12: 55)
’’یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بے شک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔‘‘
یعنی اللہ نے آپ کو امین اور حفیظ بنایا۔ اُس کے ساتھ ساتھ پھر مینجمنٹ، agriculture industry اور irrigation technology کا فن عطا فرمایا۔ Good governance کا فن بھی آپ کو دیا، financial management بھی آپ کو دی اور سب سے پہلے mortgageکا قانون (گروی رکھوانے کا نظام) وضع کرنے والی ہستی بھی یوسف علیہ السلام ہیں۔ اِس کو ایک آسان طریقے سے انسانیت کی مدد کا tool بنانے کے لیے سب سے پہلے یوسف علیہ السلام نے وضع فرمایا۔ گویا آپ کو بے پناہ حکمت، دانائی اور management کا فن دیا۔
پھر داؤد علیہ السلام کا دور آتا ہے تو انھیں حکمرانی، سلطنت اور حکمت عطا کی۔ فرمایا:
وَشَدَدْنَا مُلْکَهٗ وَاٰتَیْنٰـهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِo
(ص، 38: 20)
’’اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھا۔‘‘
آپ کو تین خوبیاں عطا کر دیں:
1۔ آپ کو خطابت، زبان میں سلاست، تاثیر اور وہ مؤثریت دی کہ آپ جب کلام فرماتے تو وہ دلوں میں جگہ بناتا چلاجاتا تھا یعنی فصل الکلام کی خوبی عطا کی۔
2۔ آپ کو وہ سلطنت دی کہ جس جیسی سلطنت کسی کے پاس نہیں۔
3۔ سلطنت کو سنبھالنے کے لیے کثیر حکمت اور دانائی بھی دی۔
پھر اُس کے بعد سلیمان علیہ السلام کا دور آتا ہے۔ آپ کو تسخیر کی نعمت عطا کر دی۔ وہ قوت دے دی کہ ہر شے کو آپ کے لیے مسخر کر دیا۔ ہوائیں بھی آپ کے اِذن سے چلتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے تابع ہوگئے۔ جن، انس، پرند، چرند، حیوانات، انسان اور شیاطین تک آپ کے تابع کر دیئے اور آپ کو اِتنی بڑی سلطنت دے دی کہ ملکہ صبا جیسی بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئی۔
اللہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق شاہکار بھیجتاہے
اس تمہید سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ رب العزت کی سنت اور ایک خوب صورت managements اور administration ہے کہ وہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق شاہکار چن کر بھیجتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حالات کے تقاضے کچھ اور تھے، معاشرہ کسی اور نوعیت کی خرابیوں میں مبتلا تھا اور اللہ نے اس دور کی ضروریات اور تقاضوں کے برعکس خوبیوں والا نبی مبعوث فرمادیا ہو۔ ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ اللہ رب العزت کا ایک سسٹم اور management ہے، ایک ڈسپلن ہے کہ وہ misfit نہیں کرتا۔ جس نبی کی جو خوبی ہوتی ہے، اُسے اسی زمانے کے مطابق اُس دور میں بھیجتا ہے۔
اللہ کا یہ نظام دو طریقوں سے چلتا ہے: کبھی وہ کسی ایک نبی کو اُس دور کے وہ سارے کمال دے کر بھیجتا ہے، جس کی زمانے کو ضرورت ہے اور کبھی وہ دو، دو انبیاء کے اشتراک کے ساتھ اس زمانے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ کبھی موسیٰ علیہ السلام تنہا جا رہے ہوتے ہیں تو وہ خود کہتے ہیں کہ مولا میرے ساتھ میرے بھائی ہارون کو بھی بھیج دے کیونکہ:
اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا.
(القصص، 28: 34)
’’وہ مجھ سے زیادہ فصیح ہیں۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی کی عظمت یہ ہوتی ہے کہ اگر معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران انھیں کس چیز کی ضرورت محسوس ہو توخود خدا سے بلا جھجک مانگ لیتے ہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو جاننے والا ہوتا ہے بلکہ اس معاشرے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو بھی جاننے والا ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: مولا اِتنا بڑا انقلاب مجھے دے رہا ہے کہ اِتنے بڑے فرعون کو للکاروں، اُس کو تیری ربوبیت کی طرف قائل کروں تو مجھے اس مقصد کے لیے ایک فصیح چاہیے اور میرے خاندان میں سے ایک وزیر مجھے عطا کردے۔ گویا اللہ کبھی اس معاشرے کی ضرورت وحدت کے ساتھ پوری کرتاہے، کبھی اجتماعیت کے ساتھ پوری کرتاہے، کبھی تنہا پوری کرتا ہے، کبھی اِشتراک کے ساتھ پورا کرتا ہے اور کبھی تقاضے بڑھ جائیں تو پھر نبی ابن نبی کے ساتھ پورا کرتا ہے۔ یعقوب علیہ السلام آئے تو اُن کے مشن کو یوسف علیہ السلام کے ساتھ مکمل کیا۔ شروع نبی والد کر رہے ہیں اور اختتام نبی کا بیٹا کررہا ہے۔ کبھی زکریا علیہ السلام آئے تو یحییٰ علیہ السلام بھی آئے اور دونوں نے اُس دور کی ضرورت کو مکمل کیا۔
آقا علیہ السلام میں ہر نبی اور رسول کا حُسن موجود ہے
اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء کے اندر اپنے حُسن اور صفات و کمالات کے پرتو رکھ دیے اور فرمایا: کہ ابھی میں ’’انسان‘‘ کی بات کررہا ہوں اور ’’الانسان‘‘ (اَلْ شروع میں آئے تو اسم معرفہ بن جاتا ہے) میرا وہ محبوب ہوگا جس میں تمھیں میرے تمام انبیاء کی خوبیوں کی جھلک دکھائی دے گی۔ میں اس پیکر انسان کو جامعیت کے ساتھ بھیجوں گا۔ ایک دور آنے والا ہے جب ساری ضروریات اکٹھی ہونے والی ہیں۔ سارے ظلم، معاشرے کی خرابیاں، مضلات ایک جگہ مجتمع ہونے والی ہیں۔ ہر طرح کا کفر ایک جگہ جمع ہونے والا ہے، ہر طرح کی طغیانی ایک طرف جمع ہونے والی ہے، ہر طرح کی سرکشی ایک جگہ جمع ہونے والی ہے اور ہر طرح کا بطلانِ حق ایک طرف جمع ہونے والا ہے اور ہر طرح کی بُرائی اور گندگی ایک جگہ جمع ہونے والی ہے۔ جب کائنات میں باطل کو ایک جگہ جمع ہوجائے گا تو پھر حق کو بھی ایک جگہ جمع کردوں گا۔ پس جب باطل طاقتور ہوگیا تو خاتم الانبیاء اپنے محبوب ﷺ کی صورت میں اللہ نے مبعوث فرمایا۔
آقا علیہ السلام کو بھیج کر فرمایا: اب میرے محبوب محمد مصطفی کو دیکھتے جاؤ، میرے محبوب کی ذات میں یوسف بھی ہے، عیسیٰ بھی ہے، موسیٰ بھی ہے، ابراہیم بھی ہے،آدم کا حُسن بھی ہے، شیث بھی ہے، ادریس بھی ہے، یونس بھی ہے، یوسف بھی ہے اِنہیں کی ذات میں داؤد بھی ہے، سلیمان بھی ہے، یعقوب بھی ہے، اب جو جو رنگ دیکھنا چاہو، میرے مصطفی میں نظر آرہا ہے۔
حضور ﷺ کی جامعیت اور اکملیت کے اندر سب کچھ جمع کر دیا اور محمد مصطفی ﷺ کو جامع الاوصاف والکمالات بنا دیا۔ جوامع الکلم عطا کیے، کتاب بھی وہ دی جو جامع الکتب ہو گئی، ذات وہ دی جو جامع الصفات ہو گئی، نور بھی وہ دیا جو جامع الانوار ہوگیا۔
آقا علیہ السلام نے اپنے اِس کرم کو پھر آگے امت میں تقسیم کر دیا۔ آپ ﷺ کے بعد نبوت نہیں ہوگی مگر نبوت کے فیض کو تقسیم کرنے والے ہوں گے۔ خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو وہاں پر چار رنگ عطا کر دئیے: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں حلیمیت، بردباری، برداشت اور تحمل کا ایک جداگانہ رنگ ہے۔ یہ رنگ بھی رنگِ مصطفی ہے۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اندر ہیبت، رعب، انقلابیت اور جرأت کا رنگ دے دیا اور واضح کردیا کہ اگر کوئی موسوی رنگ دیکھناچاہے تو میرے مصطفی کا ایک رنگ عمر میں دیکھ لو۔ پھر سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایک الگ رنگ دے دیا۔ فرمایا: اگر کبھی یحییٰ علیہ السلام و زکریا علیہ السلام والا رنگ دیکھنا چاہو تو میرے مصطفی کے عثمان کو دیکھ لو، انھیں شرم وحیاء کا پیکر بنا دیا۔
پھر اُس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دور ہے۔ اس دور میں خوارج کا فتنہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: علی مجھ سے ہے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں۔ جس کا میں مولیٰ ہوں، علی رضی اللہ عنہ اس کا مولیٰ ہے۔ اِس لیے مولیٰ بنایا کہ اُس دور کو سنبھالنے کے لیے جس جرأت، شجاعت اور قوت کی ضرورت تھی وہ ضرورت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی پوری کر سکتے تھے۔
کوئی دور میرے خاص بندوں کے بغیر نہیں ہو گا
خلفاء راشدین کے زمانے کی نشاندہی حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے فرامین میں خود فرمادی تھی۔ پوچھا گیا: یارسول اللہ! خلفاء راشدین کے زمانے کے بعد کیا ہوگا؟ امت کا سلسلہ کیسے چلے گا، تجدید کیسے ہوگی، احیا کیسے ممکن ہوگا؟ نظامِ اسلام کیسے چلے گا، اجتہاد کیسے ہوگا؟ سسٹم کیسے develope ہوگا؟ دین کی عمارت جب زبوں حالی کا شکار ہوگی تو اُس وقت سنبھالنے والے کون ہوں گے؟ فرمایا: میرے بعد نبی نہیں بلکہ مجدد آئے گا۔ اِس لیے فرمایا:
إِنَّ اللهَ یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا.
(ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، 4: 109، الرقم: 4291)
’’اللہ تعالیٰ اِس امت کے لیے ہر صدی کے آغاز میں کسی ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اِس (اُمت) کے لیے اُس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
کہ ہردور کے ابتداء میں جب بھی میری امت کے نقوش کو مٹایا جارہا ہوگا، کہیں عقائد کے پہلو کی اصلاح کی ضرورت ہوگی کہیں اِصلاحِ احوالِ امت کی ضرورت ہوگی، کہیں تربیت، اخلاق، معاملات میں بگاڑ آرہا ہوگا، کہیں قرآن کی روح پھیکی پڑ رہی ہوگی، کہیں حدیث کے فہم میں کمزوری آرہی ہوگی، کہیں تحقیق کی ضرورت ہو گی، کہیں تربیت کی ضرورت ہو گی، کہیں توضیحات کی ضرورت ہوگی، کہیں تشریحات کی ضرورت ہوگی، کہیں انقلابیت کی ضرورت ہوگی، تو ہر دور کے مطابق وقت کا مجدّد آ رہا ہوگا۔
گویا واضح فرمادیا کہ کوئی دور، کوئی زمانہ میرے بندۂ خاص کے بغیر نہیں ہوگا۔ اگر ظلم ہوگا تو ظلم کو ختم کرنے والا بھی ضرور ہوگا اور وہ میرے اور خلفاء راشدین کے فیوضات کو امت میں تقسیم کر رہا ہوگا۔ میرے بعد نبی نہیں آئے گا مگر میرے بعد مجدد ضرور آئے گا۔ وہ مجدد غلامی مصطفی ﷺ اور عشقِ مصطفی ﷺ کا پیکر ہوگا، وہ در مصطفی ﷺ کی عطا سے معمور ہوگا۔ وہ عطائے مصطفی ﷺ ہوگا، وہ مظہرِ صفاتِ مصطفی ﷺ ہوگا، وہ مظہرِ علمِ مصطفی ﷺ ہوگا، وہ مظہرِ نورِ مصطفی ﷺ ہوگا، وہ مظہرِ علم و عرفانِ مصطفی ﷺ ہوگا۔
ہردور کی ضرورت مجدد پوری کرے گا
ہر دور میں جس جس جہت کی ضرورت ہوگی، وہ مجدد اسے پوری کر رہا ہوگا۔ اگر ہم سابقہ ادوار کا جائزہ لیں تو کہیں امام شافعی کا دور آتاہے، امام احمد بن حنبل کا دور آتا ہے، امام نسائی آتے ہیں، کہیں امام اشعری آتے ہیں۔ اسی طرح امام بیہقی، امام غزالی، فخر الدین رازی، ابن حجر عسقلانی، جلال الدین سیوطی، مجدد الف ثانی ہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ شوکانی، بدر الدین عینی، قسطلانی، امام احمد رضا خاں بریلوی نظر آتے ہیں اور پھر آج کا دور دیکھیں تو مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نظر آتے ہیں جو تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ایک تجدیدی تحریک کے بانی و سرپرست ہیں۔
مجدد کو بھیجا جاتا ہے
یہ امر ذہن میں رہے کہ مجدد خود نہیں آتا بلکہ اللہ تعالی مبعوث کرتا ہے۔ اب نبی مبعوث نہیں ہوگا مگر مجدد مبعوث ہوگا۔ مجدد بنا کر بھیجے جاتے ہیں۔ مجدد بھی چنے جاتے ہیں اور پھر اُس دور کی خوبیوں کے مطابق تیار کرکے بھیجا جاتا ہے۔
آج اللہ رب العزت کا اِس دور، زمانے اور قوم پر فضل ہے کہ حضور ﷺ کی امت میں وہ مجدد بھیج دئیے جو اِسی دور کی ضرورت تھے۔آج وہ مجدد بھیج دئیے جو آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہی بنائے گئے تھے۔ جب challenges اپنے کمال کو پہنچے تو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ کے پیغام کو فروغ دینے والا بھی اُسی طرح طاقتور ہے جس قدر باطل مضبوط ہے۔ اس لیے کہ مجدد حضور کی بارگاہ کا مظہر ہوتا ہے اور حضور علیہ السلام سے اللہ رب العزت نے وعدہ کیا ہے کہ
وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo
’’محبوب آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی سے بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے کی۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا یہ وعدہ صرف حضور ﷺ کی حیات ظاہری تک محدود ہے۔ فرمایا: نہیں کرم حضور کا ہوگا مگر نظر کسی اور شکل میں آرہا ہوگا۔۔۔ کرم حضور ﷺ کا ہوگا، نظر مجدد آ رہا ہوگا۔۔۔ بھرم حضور ﷺ کا ہو گا، شکل کسی اور کی ہوگی۔۔۔ جرأت کسی اور کی ہو گی، کلام کسی اور کا ہوگا، پیچھے سے عطا، خیرات اور خوراک حضور ﷺ کی ہوگی۔
تحریک منہاج القرآن اللہ کی نعمت ہے
تحریک منہاج القرآن اللہ کی نعمت ہے۔ تجدید و اِحیاء دین کی یہ ایک ایسی تحریک ہے جو عزت و ناموسِ مصطفی ﷺ کا پرچم اُٹھا کر چل رہی ہے۔ اِس کے ذمے اللہ تعالیٰ نے چھے گوشے لگائے ہیں:
- اِس تحریک میں اللہ رب العزت نے تفکر بھی رکھا ہے
- تحقق بھی رکھا ہے۔
- تحرک بھی رکھا ہے۔
- تفقہ بھی رکھا ہے
- تصوف بھی رکھا ہے۔
- تحسن بھی رکھا ہے۔
یعنی سب کچھ دے کر حُسن و جمال اور کمال بھی دیا ہے، توازن اور تواضع و انکساری بھی دی ہے۔ الغرض ہرہر اُس گوشے میں کمال دیا ہے جو ہمارے ذہن میں آسکتا ہے۔
مختلف مجددین اور شیوخ الاسلام کے ادوار
جس طرح اسلام کا ارتقائی دور تھا، ایک طرف فتوحات ہو رہی تھیں، ایک طرف قرآن مجید کی compilation ہو رہی تھی، پھر حدیث کی compilation ہو رہی تھی۔ پھر ایک دور آیا کہ اُن روایات کو authenticate کرنے کے لیے، جرح وتعدیل کا دور آیا۔ اُس دور کے ساتھ ہی پھر شروحات کا دور آیا، پھر درایت کا دور آیا، پھر استدلال کادور آیا، پھر استنباط، اِستخراج، توضیحات و تشریحات کا دور آیا۔ پہلے بیان کرنے کا دور تھا پھر سمجھانے کا دور آیا۔ پہلے نازل ہو رہا تھا، اب لوگوں کے دل میں اُتارنے کا دور آیا۔ پہلے سمجھ رہے تھے، اب اُس میں سے استنباط ہو رہا ہے۔ پھر علوم و فنون اور علم الکلام و علم الفقہ والے آئے۔ پھرفلسفی آئے اور سائنسدان آئے، پھر comparative study کرنے والے آئے۔ الغرض ہر دور کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ رب العزت کسی نہ کسی ہستی کو مبعوث کرتا رہا۔
اپنے اپنے ادوار میں آنے والے مجددین اور شیوخ الاسلام میں سے ہر ایک عظیم تھا۔ اُصول یہ ہوتا ہے آنے والا پچھلوں کا فیض لے کر آتا ہے، آنے والا پچھلوں کی عطا لے کر آتا ہے، آنے والا پچھلوں کی خیرات لے کر آتا ہے اور پچھلے اگلے کو تیار کرکے بھیجتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جو مجھے ملا ہے، آنے والے مجدد، اب تجھے بھی وہ دیتا ہوںکیونکہ یہ نہ تیرے دور کی بات ہے اور نہ میرے دور کی بات ہے بلکہ یہ تومصطفی ﷺ کے دور کی بات ہے۔
اِن آنے والے مجددین و شیوخ الاسلام میں سے کون افضل ہے اور کون مفضول، اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، اس لیے کہ بھیجنے والے کو معلوم ہے کہ اُس نے کس کو کب بھیجنا ہے؟ کیا لباس پہنا کے بھیجنا ہے؟ کیا صفات چڑھا کے بھیجنا ہے؟ کس رنگ میں بھیجنا ہے؟ کس مہک میں بھیجناہے؟ یہ تو بھیجنے والے کا کمال ہے اور یہ تو حضور ﷺ کی عطا ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ 1982میں بھی ٹیوٹا کرولا کا ایک ماڈل ہوتا تھا جب ٹیوٹا کا ماڈل 1982 میں آیا تھا تو وہ سب سے اعلیٰ ترین تھا، جو بھی دیکھتا، کہتا تھا کہ اِس سے بہتر اور کوئی کار ہو نہیں سکتی۔ اس وقت بھی بنانے والے ٹیوٹا کی کمپنی تھی manufacturing plant بھی ان ہی کا تھا، آج بھی سب ان ہی کا ہے مگر آج وہی ٹیوٹا کا ماڈل جو 2021ء میں آیا تو وہ آج کی ضرورت کے مطابق آیا اور جو اُس وقت آیا تھا، وہ اُس دور کی ضرورت کے مطابق تھا۔ 2021میں جو چاہیے آج اس میںinbuilt کر دیا۔ جو اُس وقت کی ضرورت تھی، وہ اُس وقت پوری ہو رہی تھی، جو آج کی ضرورت ہے وہ آج پوری ہو رہی تھی۔
کوئی کہے کہ وہ 1982ء کی کار عظیم تھی یا آج کی کار؟ نہیں،اُس دور میں وہ شہنشاہ تھی اور اِس دورمیں یہ شہنشاہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ اگر مجدد تیرہویں صدی کے تھے تو وہ بھی عظیم تھے، گیارہویں کے بھی عظیم تھے، چودہویں کے بھی عظیم تھے، دسویں، نویں، آٹھویں، ساتویں سب عظیم ہیں۔ وہ اُس دور کی ضرورت کے مطابق آئے تھے۔ شیخ الاسلام آج کی ضرورت کے مطابق آئے ہیں۔
فرق اِتنا ہے کہ کبھی تحرک و انقلاب کا دور ہوتا ہے، کبھی تفقہ کا دور ہوتا ہے۔ جب تحرک کا دور ہوتا ہے تو اُس وقت تحرک کے لیے کچھ زیادہ دے دیا جاتا ہے، جب تفقہ کا دور ہوتا ہے تو تفقہ فی الدین کا مواد زیادہ دے دیا جاتا ہے، کبھی تحقق کا دور ہوتا ہے تو اسلام، قرآن، حدیث، فقہ، اُصول، معانی، علم الکلام پر تحقیق زیادہ کر دی جاتی ہے۔ کبھی تصوف کا دور ہوتا ہے توپھر اُس پر زیادہ وقت صرف کر دیا جاتا ہے۔ آج اللہ رب العزت نے ہم پر اور اِس دور پر حضور ﷺ کی امت پر کرم یہ کیا کہ وہ مجدد اور غوث چن لیا جن کی ذات میں تفکر بھی ہے، تحقق بھی ہے، تحرک بھی ہے، تفقہ بھی ہے، تصوف بھی ہے اور تحسن و جمال بھی ہے۔
مجددین اور شیوخ الاسلام کے مابین موازانہ کی بحث چھوڑ دیں، وہ بھی شانوں والے ہیں، یہ بھی شانوں والے ہیں، یہ سب اُسی در کی خیرات تقسیم کرنے والے ہیں۔
اِنما انا قاسم والله یعطی
(بخاری، الصحیح، کتاب العلم، 1: 39، الرقم: 71)
’’تقسیم حضور کر رہے ہیں عطا خدا کر رہا ہے۔‘‘
پس حضور جانتے ہیں کہ کس کو کتنی خیرات تقسیم کرنی ہے۔
چند مجددین کے ادوار کا مطالعہ
امام احمد بن حنبل
امام احمد بن حنبل کے دور کی بات کرتے ہیں تو امام احمد بن حنبل کو اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ کے صدقہ سے بے پناہ فیض عطا فرمایا۔ وہ مفسر قرآن بھی تھے، دس لاکھ احادیث مبارکہ کے حافظ بھی تھے۔ علم الجرح والتعدیل (سائنس آف حدیث) کے بھی بہت بڑے امام تھے، فقہ حنبلی کے بانی تھے، مسنداحمد بن حنبل کے بھی مصنف تھے، عربی لغت کے بھی امام تھے، عابد و زاہد بھی تھے،مالی سخاوت اور فیاضی والے بھی تھے۔ عقیدہ خلق قرآن پر کھڑے ہوگئے تو جان تو دے دی مگر جھک نہ سکے۔
امام بخاری
امام محمد بن اسماعیل بخاری کا دور آتا ہے۔ آپ امیرالمومنین فی الحدیث بھی ہیں۔علم الجرح والتعدیل (سائنس آف حدیث) کے بھی امام اور کامل ماہر ہیں۔ وہ محقق بھی تھے، مصنف بھی تھے، عربی لغت میں بھی کمال تھا، رمضان شریف میں 41 ختم قرآن کا معمول تھا۔ جتنی جتنی خوبیاں اُن کے لیے ضرورت تھیں، اللہ نے اُنہیں عطا کر دیں۔
امام احمدبن شعیب النسائی
امام احمد بن شعیب النسائی کا دور آتاہے۔ تفسیر پر ان کا اُتنا کام نہیں ملتا مگر حدیث، فن حدیث، علل، رجال کی معرفت، سائنس آف حدیث میں اُن کو کمال دیا۔ کچھ خوبیاں اُس دور کے مطابق اُنہیں دے دیں۔
امام بیہقی
امام بیہقی کا دور آتاہے۔ آپ جلیل القدر حافظ حدیث ہیں، پھر علوم الحدیث کے عالم بھی تھے، مگر ساتھ سیرت پر بھی کام کیا مگر دیگر ائمہ کی طرح علم الکلام اور فلسفے پر specialty نہیں تھی۔ لیکن کثیر التحقیق اور کثیر التصانیف تھے۔ تیس سال تک روزے کے ساتھ رہے۔ الغرض ہر ایک کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں۔
امام ابو حامد محمد الغزالی
امام ابو حامد محمد الغزالی کا دور آتا ہے۔ یہ فلسفے اور اجتہاد کا دور تھا۔ امام غزالی کو اللہ رب العزت نے اُس دور کی وہ خوبیاں دیں جس کی اُس دور میں ضرورت تھی، آپ اپنے وقت کے مجدد تھے۔ امام غزالی تفسیر قرآن اور علوم قرآن پر بھی تصانیف ہیں مگر آپ کا محدثانہ طرز پر اُتنا بڑا کام نہیں ہے۔ وہ دور اجتہاد اور فقہ کا تھا اور آپ اپنے دور کے مجتہد و فقیہ تھے، اُصول پر کام تھا، اختلاف ِ فقہاء میں مہارت تأمہ اُن کے پاس تھی، اپنے زمانے کے مایہ ناز مفکر و فلسفی بھی تھے۔ احیاء علوم الدین کے مصنف ہیں۔ فصیح بھی تھے، بلیغ بھی تھے، مناظرہ بھی کرتے، قلم بھی چلتا تھا، عبادت گزاری بھی تھی مگر اُس طرح کا تحرک، انقلابیت اور پھر وقت کے طاغوت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جانا، ان کے مشن کا حصہ نہیں تھا۔ بڑی خوبیاں تھیں مگر وہ تمام جو اُس زمانے کی مطابق تھیں۔
امام فخر الدین رازی
امام فخر الدین رازی التفسیر الکبیر کے مفسر ہیں، قرآنی علوم پر آپ کا کام ہے مگر حدیث اور علم الجرح والتعدیل پر اُس طرح کا کام نہیں تھا۔ آپ شافعی فقہ کے بلند پایہ امام تھے۔ مجتہد اور فقیہ تھے، متکلم تھے، حکمت اور معقولات کے ماہر تھے، فصیح بھی تھے، بلیغ بھی تھے، مناظر بھی تھے۔ مگر سیاسی خدمات اور دیگر تحرک و انقلابیت کی چیزیں ان میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے کہ یہ اس دور کی ضرورت نہ تھیں۔
امام ابن حجر عسقلانی
امام ابن حجر عسقلانی کے دور کو دیکھیں تو آپ نے قرآنی علوم پر بھی کام کیا، حدیث شریف پر بھی کام کیا، فتح الباری کے بغیر کوئی عالم، عالم بن نہیں سکتا، رجال اور علل پر بھی آپ کا کام ہے، کئی کتابیں بھی لکھی ہیں، فقہ الحدیث میں بھی مہارت رکھی، تحرک، تصوف اور باقی میادین آپ کے دور کی ضرورت نہیں تھے، اس لیے وہاں آپ کا کام موجود نہیں۔
امام جلال الدین سیوطی
امام جلال الدین سیوطی جامع العلوم شخصیت تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو کئی علوم عطا کیے۔ امام جلال الدین سیوطی کو تفسیر قرآن میں بھی ملکہ تھا، ممتاز محدث بھی تھے، فن حدیث کے بھی ماہر تھے، بلند پایا فقیہ بھی تھے۔ عقائداہل سنت کی ترویج کے لیے بھی کام کیا۔ چھ سو کتابوں کے مصنف تھے، بلاغت کے بھی ماہر تھے، عابد بھی تھے، مگر میدان میں اُتر کر طاغوت کو للکارا نہیں۔ سب کچھ تھا مگر اللہ نے تحرک کو اُس وقت کی ضرورت نہیں بنایا اس لیے آپ نے وہ کردار ادا نہ کیا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ
جب ہم اعلیٰ حضرت کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے دور کی ضرورت کے مطابق کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت عقائد کے میدان میں اور عشق و محبت رسول ﷺ کے میدان میں کام کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے جو کام اعلیٰ حضرت کر گئے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس طرح آپ فقہ پر جو کام کر گئے وہ اُس دور کی ضرورت تھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دور کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو یہاں پر زبوں حالی کسی اور انداز میں نظر آتی ہے۔ قوم کی علمی، سیاسی، فکری، نظریاتی گراوٹ کسی اور انداز میں نظر آئی۔ پھر عقائد، سیرت، تصوف، روایت و درایت، فلسفے، نظریے، اعتدال پسندی کے میدان میں ضرورت کی نوعیت کچھ اور تھی۔ قرآن کو نئے اندار اور فکر سے آج کے دور کے انداز کے مطابق سائنٹیفک توجیہات کے ساتھ پیش کرنے کا دور تھا۔ منطق کا دور ختم ہو گیا، سائنس کا دور آگیا، لاعلمی، جہالت، بے راہ روی اور بدعقیدگی کی انتہا ہوگئی۔
آج کے دور میں کسی ایک یا چند تنہا خوبیوں کا حامل والا مجدد نہیں بلکہ جامع خوبیوں والا مجدد چاہیے تھا تو اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی جامعیت کے فیض کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں عطا کردیا۔
اب شیخ الاسلام کی ذات میں سابقہ تمام مجددین، مفکرین اور محدثین کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔
آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے 100 ممالک میں تحریک منہاج القرآن کی صورت میں جامعیت کا یہ فیض رواں دواں ہے۔ مفکر ڈھونڈنا ہو تو شیخ الاسلام، محدث ڈھونڈنا ہو تو شیخ الاسلام، جدیدیت کے ساتھ لبریز دیکھنا ہو تو شیخ الاسلام، قدیمیت کے ساتھ دیکھنا ہو تو شیخ الاسلام، وقت کی ضرورت کے مطابق خوارج اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو شیخ الاسلام اور منہاج القرآن ہر میدان میں نظر آتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن نے ہر تشنگی کو دور کیا
قارئین محترم! یہ وہ تحریک ہے جس نے اِس دور کی ہر تشنگی کو پورا کیا۔ تنظیم کی کمی تھی وہ بھی آپ کو عطا کی، ایڈمنسٹریشن کی کمی تھی وہ دی، organization network بھی دیا۔ کہیں عقیدے کی کمی تھی تو اُس کی اصلاح بھی کی، خانقاہی نظام کمزور ہوگیا تو اسے بھی مضبوط کیا، تصوف کے مفہوم کو لوگ غلط سمجھنے لگ گئے تو درجنوں خطابات کی سیریز میں اصل تصوف بھی سمجھایا۔ عقیدے کھو گئے تو عقیدہ صحیحہ بھی سکھایا۔ نوجوان دہشت گرد ہونے لگے تو اُن کو دہشت گردانہ خیالات سے نکال کر حضور ﷺ کا غلام بنادیا اور معتدل و متوازن سوچ کو فروغ دیا۔ Balanced approach سکھا دی، لوگ دین سے بیزار ہو رہے تھے تو دین کو خوبصورت انداز سے پیش کر دیا اور منہاج القرآن کو peace، امن، آشتی اور محبت کا گہوارہ بنا کر پیش کر دیا۔ لوگ انقلاب نہیں سمجھتے تھے تو لوگوں کو جرأت اور تحرک دیا۔ لوگ عملی میدان میں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے کردار ادا کرنے کو اچھا تصور نہ کرتے تھے۔ شیخ الاسلام نے عورت کے اصل کردار سے معاشرے کو روشناس کردیا کہ اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے وہ میدان عمل میں نکل کر قوم کے تحفظ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہ تجدیدی تحریک کا کام ہے کہ آج خواتین گھروں میں وہ آغوش بن گئیں ہیں کہ جن میں پروردہ بچے مصطفوی انقلاب کے پروانے بن رہے ہیں، یہاں بیٹی کو سیدہ عائشہ صدیقہj کی غلام بنایا جارہا ہے، یہاں بیٹی کو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی باندی بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح عشقِ رسول ﷺ کو فروغ دیا اور اصل روحانیت کا سبق بھی امت کو سکھادیا۔
تحریک منہاج القرآن نے آج چلنے پھرنے کا ڈھنگ بھی سکھا دیا۔ ایک نیا کلچر دے دیا، ایک نئی سوسائٹی میں اپنا آپ منوانا سکھا دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج تحریک کا ہر رفیق اور کارکن شیخ الاسلام کے کردار، اعمال، گفتار، جدوجہد اور اخلاق کے رنگ میں رنگا جائے۔
یہ تجدیدی تحریک ہے، اس نے رکنا نہیں ہے۔ اِس نے نسلوں تک چلنا ہے، آپ کی اولادوں تک آگے بڑھنا ہے، اِس فکر کو روکنا نہیں ہے۔ لہذا شب و روز اس مصطفوی مشن کے پیغام کے فروغ میں مصروفِ عمل رہیں اور مرکز کی طرف سے جو بھی سرگرمی اور اہداف دیئے جائیں اُن کو مکمل کرنے میں دن رات ایک کردیں۔
آج شیخ الاسلام نے ہمیں جو دیا ہے اگرہم اِس تجدید، اِس فکر کو سمجھتے ہیں تو پھر اِس کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔ اپنے تک نہیں بلکہ اگلوں کو سمجھانا ہے، اگلے خاندانوں تک اِس کی دعوت دینی ہے۔ دعوت دیں، پیغام دیں، عمل کریں اور اپنی زندگیوں سے انقلاب کو شروع کریں اور معاشرے تک پہنچائیں۔اپنے اوڑھنے بچھونے کو ویسے کر دیں جیسے شیخ الاسلام نے ہمیں سکھایاہے، اپنی ذات کو بدلنا ہوگا، اپنی صفات کو بدلنا ہوگا اور شیخ الاسلام کے اِس انقلاب اِس فکر، اِس تجدید اور احیا کی اِس تحریک کی فکر کو اپنی نسلوں تک منتقل کرنا ہو گا۔
اللہ رب العزت ہم پر فضل و کرم فرمائے اور اِس فکر کو سمجھنے، اِس پر عمل پیرا ہونے اور اسے اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ)