سوال: کیا جشنِ میلادالنبی ﷺ منانا بدعت ہے؟
جواب: حضور تاجدارِ کائنات ﷺ روحِ اِیمان ہیں۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے رشتہِ محبت اُستوار کیے بغیر نہ تو لذتِ اِیمان نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے تعلقِ عبودیت قائم ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ خالقِ کائنات تک پہنچنے کا واحد اور لازمی واسطہ ہیں، لہٰذا سینے میں آپ ﷺ کی اُلفت و رحمت کے چراغ فروزاں کیے بغیر جادہِ مستقیم پر گامزن نہیں ہوا جا سکتا۔
یہ ایک اَلمیہ ہے کہ بعض لوگ ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ظاہر پرست علماء محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائلِ اسلام میں منعقد نہیں ہوئیں۔ حالانکہ لغت کی رُو سے نئے اُمورِ خیر کو بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِنہیں ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت و صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہوتے رہتے ہیں مگران کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
بدعت کے حوالے سے یہ امر ذہن میں رہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو) مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اخلاقی اُمور، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنی لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے:
1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔
ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ الله علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں بدعت کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13: 253)
پس معلوم ہوا کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ کی موجودہ صورت اپنی اَصل کے اِعتبار سے حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور ﷺ کے لیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں، آپ ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضورنبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا، عہدِ نبوی ﷺ میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ ﷺ محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے۔ اس سے یہ اَمر پایہِ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ میلاد النبی ﷺ منانا بدعتِ ممنوعہ نہیں بلکہ ایک مباح، مشروع اور قابلِ تحسین اور عملِ خیر ہے۔
سوال: جشنِ عیدمیلادالنبی ﷺ کے منانے کا درست اور جائز طریقہ کیا ہے؟
جواب: جشنِ میلادالنبی ﷺ کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی ﷺ کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ﷺ کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ ﷺ کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔
اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور ﷺ پر درود و سلام کے علاوہ آپ ﷺ کی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی آپ ﷺ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور ﷺ اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور ﷺ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور ﷺ کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب ﷺ کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔
بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے:
1۔ ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی ﷺ کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے۔
2۔ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلّا ماشاءاللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کچھ غیر شرعی اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی ﷺ کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔
اسی طرح ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور ﷺ کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
میلاد النبی ﷺ منانے کے لئے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے درست اور رائج الوقت ہو۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا۔۔۔ درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا۔۔۔ محافل میلاد کا انعقاد کرنا۔۔۔ نعت یا قوالی کی صورت میں آقاe کی شان اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفی ﷺ کے چرچے کرنا۔۔۔ سب قابل تحسین، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُیُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِی الطُّرُقِ یُنَادُون: یَا مُحَمَّدُ! یَا رَسُولَ اللهِ! یَا مُحَمَّدُ! یَا رَسُولَ اللهِ!
(مسلم، الصحیح، 4: 231، رقم: 2009)
مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!
امام رویانی، ابن حبان اور امام حاکم کی روایات کے مطابق اہالیان مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:
جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ﷺ
الله کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ تشریف لے آئے ہیں۔
(رویانی، المسند، 1: 138، رقم: 329)
معصوم بچیاں اور اوس وخزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا ِللهِ دَاعٍ
اَیُهَا الْمَبْعُوْتُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمَطَاعِ
’’ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ الله کو پکارتے رہیں گے، ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔‘‘
(ابن ابی حاتم رازی، الثقات، 1: 131)
حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔
مدینہ طیبہ میں رسول اکرم ﷺ کی آمد کے وقت آپ کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ ﷺ کے سامنے ہوئی مگر آپ ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس لیے آپ ﷺ کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا، آپ کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف میلاد النبی ﷺ ملاحظہ کیجیے۔