عربی لغت کی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ کے مطابق تبلیغ کا لغوی معنی پہنچانا ہے اور اصطلاح میں اس کے معانی یہ ہیں کہ کسی اچھائی اور خوبی بالخصوص دینی امور (اسلام) کو دوسرے افراد و اقوام تک پہنچایا جائے اور قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ تبلیغ کا صیغہ باب ’’تفعیل‘‘ سے ہے جس کا ایک خاصہ ’’مبالغہ‘‘ بھی ہے۔ لہذا اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مخاطب تک دین کی بات ایسے انتہائی عمدہ اور دلنشین طریقے سے پہنچانا کہ اس کے دل و دماغ میں اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ تبلیغ یا دینِ اسلام کی دعوت رسول اکرم ﷺ کا فرضِ منصبی تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ط وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.
(المائدة، 5: 67)
’’اے (برگزیدہ) رسول ﷺ ! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘
رسولِ مقبول ﷺ نے اپنے اس فرضِ منصبی یعنی فریضۂ تبلیغ و رسالت کو 23 سال تک جس بے نظیر ثابت قدمی، جانفشانی، بلند ہمتی، تسلسل اور دن رات کی انتھک محنت، درد مندی، صبرو برداشت اور استقلال سے ادا فرمایا، اس کی مثال پیغمبرانہ اور مذہبی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اعلانِ نبوت کے پہلے دن سے لے کر وصال تک آپ ﷺ کو جس چیز کا سب سے زیادہ احساس رہا اور جس چیز نے آپ ﷺ کو دن رات بے قرار کیے رکھا اور جس غم نے آپ ﷺ کو ہمیشہ پریشان کیے رکھا وہ یہی دعوت و تبلیغِ رسالت کا فریضہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس ہدایتِ ربانی اور آئینِ آسمانی کے موافق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ حکومت اور حکمرانی کے امور سے لے کر عام جسمانی غسل و طہارت تک کے آداب اپنی امت کو سکھائے۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی رحمتِ عالم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
انما انا لکم مثل الوالد اعلمکم اذا ذهب احدکم الی الخلاء فلا یستقبل القبلة ولا یستدبرها ولا یستجی بیمینه وکان یامر بثلثة احجار وینهی عن الروث والرمة.
(سنن نسائی، کتاب الطهارة باب النهی عن الاستطابة بالروث، 1: 27، رقم: 40)
’’بے شک میں تمہارے لیے باپ کی مانند تمہیں تعلیم دیتا (ہر چیز سکھاتا) ہوں۔ تو جب تم میں سے کوئی ایک بیت الخلاء میں جائے تو اسے چاہیے کہ وہ نہ قبلہ کی طرف منہ کرے اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرے، نہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔ آپ ﷺ استنجا کے لیے تین پتھر/ ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے اور استنجا میں گوبر اور بوسیدہ ہڈیوں کے استعمال سے منع فرماتے تھے۔‘‘
اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مشرک آدمی نے ان سے استہزاء ٹھٹھا کرتے ہوئے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا صاحب (پیغمبر) تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کرنے کی بھی۔ تو میں نے (بڑے فخر سے) کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کریں، اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجا نہ کریں اور استنجا کے لیے تین پتھروں/ڈھیلوں سے کم پر اکتفا نہ کریں جس میں گوبر ہو اور نہ ہڈی۔
(سنن نسائی، کتاب الطهارة باب النهی عن الاکتفاء فی الاستطابة باقل من ثلثه احجار، 1: 27، رقم الحدیث: 41)
الغرض نوعِ انسانی کے عوام و خواص میں سے جو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی، آپ ﷺ نے بلاکم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت اس کے بندوں پر تمام کردی۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق وصال سے دو اڑھائی مہینے پہلے حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدانِ عرفات میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جمِ غفیر سے اپنے تاریخی اور یادگار خطبے میں تبلیغِ رسالت کا حق ادا کرنے کی چشم دید شہادت اور اقرار لیتے ہوئے آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور بارگاہ الہٰی میں تین مرتبہ عرض کیا:
اللهم اشهد.
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبیؐ، 1: 397)
اے اللہ گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا اندازِ تبلیغ
آپ ﷺ نے فریضۂ نبوت کی ادائیگی کے دوران کس طرح کا انداز اور طرز اختیار فرمایا۔ ذیل میں اس حوالے سے کچھ مظاہر درج کیے جاتے ہیں:
1۔ حکمت، موعظہ حسنہ اور احسن طریق سے بحث
حضور نبی اکرم ﷺ کے اندازِ تبلیغ کی بابت خود باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یوں اصولی اور بنیادی ہدایت فرمائی کہ:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
(النحل، 16: 125)
’’(اے رسولِ معظّم ﷺ !) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو دعوت کے تین طریقوں کی تعلیم دی ہے:
1۔ حکمت
2۔ موعظہ حسنہ
3۔ احسن طریقے سے بحث
1۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین؛ مضبوط دلائل اور براہین کی روشنی میں ایسے حکیمانہ انداز میں پیش کیے جائیں کہ انھیں سن کرفہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا حقیقت پسند اور منصف مزاج طبقہ، اگر اس نے کانوں میں ضد اور ہٹ دھرمی کی روئی نہیں ٹھونس رکھی تو اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ دنیا کے سارے خیال اور فلسفے ان دلائل کے سامنے ماند پڑجائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات پیغمبرِ الہٰی کے بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تک تبدیل نہ کرسکیں۔
2۔ موعظہ حسنہ سے مراد ہے مؤثر اور رقت انگیز نصیحت جس میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہو۔ عام مشاہدہ ہے کہ اخلاص، ہمدردی، شفقت اور حسنِ اخلاق سے خوبصورت معتدل اور دلنشین پیرائے میں جو نصیحت کی جاتی ہے، اس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں، مردوں میں جانیں پڑ جاتی ہیں اور لوگ مبلغ کی زبان سے خوبصورت باتیں سن کر منزلِ مقصود کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ بالخصوص جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے، عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے مگر طلبِ حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، ان میں مؤثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جاسکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعے سے ممکن نہیں۔
2۔ مخاطبین کی ذہنی استعداد کا لحاظ
تبلیغ و دعوت دین کے سلسلے میں اس اصولی ہدایتِ ربانی کی روشنی میں حضور اکرم ﷺ نے جو اندازِ تبلیغ اختیار فرمایا، اس کے خدوخال کچھ اس طرح تھے کہ آپ بوقتِ دعوت؛ مخاطب یا مخاطبین کی ذہنی و عقلی استعداد، ان کی فطری صلاحیت اور ان کے طبعی مزاج کو بھی مدنظر رکھتے تھے۔
آپ ﷺ چشم دید مشاہدے کے لیے کسی چیز کی ظاہری ہیئت کی طرف اشارہ کرتے یا اس کی اصلیت و حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس کھڑے ہوجاتے اور پھر اس سے اپنی بات یوں نکالتے کہ غبی سے غبی آدمی کے ذہن میں بھی بیٹھ جاتی۔ مثلاً: ایک سفر کے رستے میں ایک بکری کے مردہ بچے کو دیکھا تو اس کے کان پکڑ کر لوگوں سے پوچھا: ہے کوئی آدمی جو اس کو صرف ایک درہم پرخریدنے کے لیے تیار ہو؟ جب سب نے انکار کردیا تو اس سے لوگوں پر دنیا کی حقیقت واضح کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ مردار بچہ تمہاری نظر میں جتنا بے وقعت ہے، دنیا؛ اللہ کی نظر میں اس سے زیادہ بے وقعت ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقاق، ص: 439)
اسی طرح سیرت اور حدیث کی کتابوں میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سائل کی ذہنی کیفیت، روحانی و فکری بیماری، رجحان، حالات یا ضرورت کے مدنظر آپ نے ماہر طبیب اور نبض شناس کی طرف سے ایک ہی سوال کا جواب ہر آدمی کو الگ الگ دیا۔مثلاً:
کئی لوگوں نے پوچھا کہ: یارسول اللہ ﷺ ! ای الاعمال افضل؟ (اے اللہ کے رسول ﷺ کونسا عمل سب سے افضل ہے؟) تو آپ ﷺ نے ایک آدمی کو فرمایا کہ جہاد سب سے افضل عمل ہے۔ دوسرے سے فرمایا: ماں کی خدمت سب سے افضل عمل ہے۔ تیسرے سے فرمایا: نماز سب سے افضل عمل ہے اور چوتھے سے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر ملنے والے کو سلام کرنا افضل عمل ہے۔
3۔ بات کا تکرار کرنا
علاوہ ازیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ کریم نے اگرچہ آپ ﷺ کو اوّلین و آخرین کے علوم سے نواز رکھا تھا اور امام بوصیری کے بقول لوح و قلم کا علم آپ ﷺ کے خداداد علوم کا ایک ادنیٰ جزو تھا:
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
اس کے باوجود سمجھانے اور بات کو ذہن نشین کرانے کے لیے اپنی بات کو انتہائی آسان پیرائے میں تین تین دفعہ دھراتے اور بعض اوقات مثالوں کا بھی سہارا لیتے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔
عام دنیا دار اور پیشہ ور واعظوں، خطیبوں، شعلہ بیان اور شیریں بیان مقررین کی طرح فن خطابت، جوش بیان اور شعلہ بیانی کے جوہر دکھانا یا اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنا آپ ﷺ کی پیغمبرانہ شان و عظمت اور منصب کے خلاف تھا، ورنہ دنیا میں آپ سے بڑا خطیب کون ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ کسی مسئلہ کو سمجھانے، کسی بات پر زور دینے یا اس کی غیر معمولی اہمیت واضح کرنے کے لیے بات کو تین دفعہ دہرانا آپ ﷺ کا معمول اور عادتِ کریمہ تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ کا یہ معمول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آنجناب ﷺ جب کوئی بات ارشاد فرماتے تو اس کا تین مرتبہ اعادہ فرماتے حتی کہ وہ بات آپ ﷺ سے سمجھ لی جاتی اور (اسی طرح) جب آپ ﷺ کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتے تو انھیں سلام فرماتے اور (اجازت کی خاطر) انھیں تین مرتبہ سلام کہتے۔‘‘
(بخاری الصحیح، کتاب العلم باب من اعاد الحدیث ثلثا یعفهم الخ، 1: 20)
مخاطبین کے معیار کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ بدوی اور شہری، پڑھا لکھا اور ان پڑھ یعنی عقل و تجربہ کے مختلف مدارج رکھنے و الے انسانوں کو مختلف طریقوں سے دعوت دیتے تھے۔
4۔ مخاطبین کی نفسیات اور مزاج کا لحاظ
آپ ﷺ کے انداز تبلیغ میں ایک چیز یہ بھی نظر آتی ہے کہ آپ ﷺ اپنے مخاطبین کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے جذبات و احساسات کا بھی پورا پورا خیال فرماتے تھے۔ اگر جذبات میں سردمہری ہوتی تو آپ ﷺ حکمت کے ساتھ ان میں حرارت پیدا کردیتے۔ اگر مخاطبین کے جذبات میں اشتعال محسوس کرتے تو کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالتے اور نہ عملاً کوئی ایسی روش اختیار کرتے جس سے جذبات بے قابو ہوجائیں۔
انسانی نفسیات ہے کہ انسان طبعی طور پر مشکل چیزوں کو قبول کرنے کے لیے فوری طور پر تیار نہیں ہوتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسی انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی نومسلم لوگوں پر مشکل اور بظاہر نفس پر بھاری احکامِ شریعت لاگونہ فرمائے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعریk کو دعوت و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا تو انھیں ہدایت فرمائی:
یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا.
تم دونوں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ کہ مشکلات، اورلوگوں کو خوشخبری سنانا نہ کہ انہیں دین سے متنفر کردینا۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب باب قول النبی ﷺ یسروا ولا تعسروا۔ 2: 904)
5۔ مخاطبین کی عزتِ نفس کا تحفظ
علاوہ ازیں آپ ﷺ اپنی دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، اصلاح دین اور لوگوں کی عزت نفس کو بھی ملحوظ رکھتے۔ اگر کسی آدمی سے کوئی خلافِ شرع حرکت یا غلطی سرزد ہوجاتی تو نام لے کر لوگوں کے سامنے اس کو شرمسار نہ فرماتے بلکہ فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ اس انداز سے اس کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہوتی اور اس کی اصلاح بھی ہوجاتی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انسان تھے، بتقاضائے بشریت ان سے خلافِ ادب چیزیں یا چھوٹی موٹی غلطیاں بھی ہوجاتی تھیں، ایسی صورت میں نبی رحمت ﷺ کا معمول تھا کہ برسرِ عام ان کا نام لے کر انھیں شرمندہ نہ فرماتے، نہ براہ راست ٹوکتے تاکہ انھیں مجلس میں کسی قسم کی خفّت کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ نام لیے بغیر اشارے کنایے میں اِن کی اصلاح فرمادیتے کیونکہ مقصود متعلقہ آدمی کی اصلاح ہوتی تھی نہ کہ لوگوں کے سامنے اسے خواہ مخواہ شرمندہ کرنا۔ اس حکمت بھرے اندازمیں نصیحت سے اُس مخصوص آدمی کی اصلاح بھی ہوجاتی، اس کی عزت نفس بھی محفوظ رہتی اور بقیہ لوگ بھی خبردار ہوجاتے۔ یوں متعلقہ آدمی کو سب لوگوں کے سامنے شرمندہ یا ہلکا نہیں ہونا پڑتا تھا۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہj کا بیان ہے:
کان النبی ﷺ اذا بلغه عن الرجل شیء لم یقل ما بال فلان یقول ولکن یقول ما بال اقوام یقولون کذا وکذا.
(ابوداؤد، السنن کتاب الادب، باب حسن العشرة، 2: 317، رقم: 4788)
نبی رحمت ﷺ کو جب کسی آدمی کے متعلق کوئی چیز (کوئی غلط بات) پہنچتی تو آپ ﷺ یوں نہ فرماتے کہ فلاں (نام لے کر) کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یوں کہتا ہے بلکہ فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہی ایک اور عینی گواہی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے (بدن یا کپڑوں) پر زردی کا نشان تھا اور اللہ کے رسول ﷺ بہت کم ہی کسی آدمی کو اس کے منہ پر کسی ایسی چیز کی طرف توجہ دلاتے تھے جسے آپ ﷺ ناپسند کرتے ہوں۔ جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے (حاضرین سے) فرمایا: کاش تم اس آدمی کو کہہ دیتے کہ وہ اس زردی کے نشان کو دھولے۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الادب، باب حسن العشرۃ، رقم: 4789)
علی ہذا القیاس ایک آدمی کو نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دیکھا تو فرمایا:
مابال اقوام یرفعون ابصارهم الی السماء فی صلاتهم فاشتد قوله فی ذالک حتی قال لینتهین عن ذالک اولتخطفن ابصارهم.
(بخاری، الصحیح کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلوة، 1: 104، رقم: 750)
لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی نماز کے دوران اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: لوگوں کو ایسا کرنے سے باز آجانا چاہیے، ورنہ ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔
6۔ مخاطبین کی خیر خواہی اور غمخواری کا جذبہ
حضور نبی اکرم ﷺ کی تبلیغ میں سب سے اہم، ممتاز و منفرد اور نمایاں چیز جس نے بڑے بڑے مخالفین اور دشمنوں کو آستانہ محمدی ﷺ پر جھکنے کے لیے مجبور کردیا تھا، وہ مخاطبین و سامعین اور ساری انسانیت کی سچی خیر خواہی، ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ تھا۔ یہی خیر خواہی کا جذبہ آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ کے ایک ایک فرد کے پیچھے لے گیا۔۔۔ اسی انسانی ہمدردی و خیر خواہی کے جذبہ نے آپ ﷺ کو مکہ کے بازاروں، میلوں اور موسم حج میں عرب کے ایک ایک قبیلے کے پاس جانے پر مجبور کیا۔۔۔ اسی خیر خواہی کے جذبہ نے آپ ﷺ کو طائف کے بازاروں میں لہولہان کرایا۔ علاوہ ازیں اہلِ علم جانتے ہیں کہ وہ کون سی ذہنی کوفت اور جسمانی اذیت ہے جو اس معصوم، پاکباز اور رحمۃ للعالمین ذات کو اس میدان میں برداشت نہیں کرنا پڑی مگر قربان جائیں! اس سراپا شفقت و رحمت اور اپنی قوم و انسانیت کے حقیقی خیر خواہ پر جو اپنی قوم کے اس معاندانہ بلکہ شرمناک، اذیت ناک اورننگِ انسانیت رویہ کے باوجود راتوںکو اٹھ اٹھ کر ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتے رہے۔
لوگ اپنی ناسمجھی اور عاقبت نااندیشی سے کفرو شرک اور معاصی کے باعث کس طرح جہنم کی آگ میں گر کر ہلاک ہونا چاہتے تھے اور نبی رحمت ﷺ کو ان ناسمجھوں اور عاقبت نااندیشوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کتنی فکر تھی؟ اس فکر مندی، ہمدردی اور غمخواری کو آپ ﷺ نے ایک مثال دے کر یوں واضح فرمایا ہے کہ
’’میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی، جب آگ نے اپنے ماحول/ اردگرد کو روشن کردیا تو پتنگے اور کیڑے مکوڑے جو عموماً آگ میں گرا کرتے ہیں (بلا سوچے سمجھے) اُس آگ میں گرنے لگے۔ اب آدمی ان کو روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود۔ اس کے روکنے کے باوجود وہ اس پر غالب آجاتے ہیں اور یوں آگ میں گھسے چلے جاتے ہیں۔ بالکل یہی مثال میری اور تمہاری ہے۔ میں تمھیں آگ (دوزخ کی آگ) میں گرنے سے بچانے کے لیے تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ آگ سے نکل آؤ۔ آگ سے نکل آؤ مگر تم ہو کہ اس معاملے میں میرے اوپر آئے جارہے ہو اور اپنے نفع نقصان کو سمجھے بغیر میرے ہاتھوں سے نکل کر آگ میں گھسے جارہے ہو۔‘‘
(بخاری الصحیح کتاب الرقائق، باب الانتھاء عن المعاصی، 2: 96)
المختصر یہ کہ!
جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
آپ ﷺ کی مخلصانہ دعوت و تبلیغ، قوم کے لیے رو رو کر کی ہوئی دعائیں، دلسوزی اور خیر خواہی آخر کیسے رائیگاں جاسکتی تھی۔۔۔؟ بالآخر یہ چیزیں رنگ لائیں اور ایک وقت آیا کہ بیت اللہ پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔۔۔ سارا عرب سرنگوں ہوگیا۔۔۔ دنیا پر حق آشکارا ہوگیا۔۔۔ اور فرمانِ الہٰی: وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ اَفْوَاجًا کے مصداق لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونے لگے:
معروف اسلامی محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ کی تبلیغ سے تقریباً پانچ لاکھ آدمی آپ ﷺ کے وصال تک دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ اس لیے آج بھی اگر حضور اکرم ﷺ کے درج بالا اندازِ تبلیغ کو اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلیں۔