یہ دنیا خوشی و مسرت، رنج و آلام کے لمحات اور راحت و آسائش اور آفات و مصائب کی کیفیات کے مدوجزر میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں انسان کو جو رنج و غم اور تکلیف پہنچتی ہے، تو دراصل یہ بیماریاں ہماری اپنی ہی خرید کردہ ہیں۔ جب انسان الوہی احکام اور نبوی ہدایات سے منہ موڑ کر امورِ حیات کو سرانجام دیتا ہے تو پھر وہ کسی بھی طرح ان کے بڑے نتائج سے نہیں بچ سکتا۔ یہ انسان کی نادانی اور کج فہمی ہے کہ وہ اپنی بداعمالیوں، گناہوں اور نافرمانیوں کی شامت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتا ہے حالانکہ اس کی تو شان یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی قوت و طاقت، اقتدار و اختیار، ملک و ملکیت رکھنے کے باوجود اپنے کمزور و ناتواں بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اسی لیے وہ لوگوں کی کوتاہ فکری اور کم عقلی کی اصلاح کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ.
(آل عمران، 3: 182)
’’یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھ خود آگے بھیج چکے ہیں اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
قرآن مجید میں یہ بات چار مرتبہ فرمائی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگو! تم اس دنیا میں جن مصائب و مشکلات، رنج و الم کا سامنا کرتے ہو، یہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ وہ تو رحمن و رحیم ہے جو ہر وقت اپنی رحمتوںکا سائبان تم پر تانے ہوئے ہے۔ اس لیے اس دنیا میں انسان کو جن آفات و بلیات، مصائب، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آلارم اور تنبیہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی بداعتقادیوں اور بداعمالیوں سے صدقِ دل کے ساتھ توبہ کرکے راہِ راست کی طرف آجائے اور اپنی اصلاح کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جائے۔
سو سرکشی و نافرمانی کی تمام حدوں کو پھلانگ جانے والی قوم کو اللہ جل جلالہ اپنی اس حکمتِ بالغہ کے ساتھ تنبیہ کی غرض سے کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے پیمانے پر مختلف شکلوں اور صورتوں میں جھٹکے دے کر جھنجھوڑتا رہتا ہے تاکہ لوگ راہِ ہدایت کی طرف گامزن ہوکر اس کی بندگی کا قلادہ اپنے گلے میں ڈال کر اس کے حضور جھک جائیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جانے والی تنبیہات کبھی زلزلوں، کبھی سیلاب، کبھی بارشوں، کبھی بیماری، کبھی باہمی تنازعات، کبھی دشمن کے خوف، کبھی خشک سالی اور کبھی باغات اور کھیتوں کے اجڑ جانے کی صورت میں ہوتی ہیں۔ ان تنبیہات کا مقصد چونکہ غفلت سے بیدار کرنا ہوتا ہے، اس لیے معاشرے کے تمام طبقات حتی کہ نیک و صالح لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور فساق و فجار بچ بھی جاتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں پہنچنے والی ان تکالیف و مشکلات یا ایسی آزمائشوں اور آفات سے بچ جانے اور محفوظ رہنے کو حقیقی کامیابی یا ناکامی قرارنہیں دیا گیا۔ ایسی اذیت ناک آزمائش کے دوران جو موت کی آغوش میں چلے گئے، اُن کا معاملہ تو احکم الحاکمین کے دستِ قدرت میں ہے مگر جو بچ گئے اگر انھوںنے اللہ تعالیٰ کی قدرت و گرفت سے بچ جانے پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے عقیدہ و اعمال کی اصلاح کرلی، آئندہ اس کی نافرمانی سے باز رہنے کا عہد کیا اور پھر اس پر ثابت قدم رہے تو وہ باقی ماندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ. وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا ط اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ.
(السجدة، 32: 21-22)
’’اور ہم ان کو یقینا (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے قریب تر (دنیوی) عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے تاکہ وہ (کفر سے) باز آجائیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ اُن سے منہ پھیرلے، بے شک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘
مذکورہ آیت کی تفسیر میں پیر محمدکرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابدی عذاب میں گرفتار ہونے سے پہلے ان غافلوں اور سرکشوں کو ہم طرح طرح کی مصیبتوں اور رنج والم میں مبتلا کردیتے ہیں تاکہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر اپنی اصلاح کرلیں اور عذاب جہنم سے بچنے کی تدبیر سوچ لیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ کسی تکلیف اور مصیبت کو انسان کی اصلاح کا ذریعہ بنادیتا ہے۔وہ نعمت و راحت جو انسان کو غافل اور سرکش بنادے، اس سے وہ مصیبت ہزار درجہ بہتر ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھنے کا سبب بن جائے۔ لعلہم یرجعون میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن، 3: 636)
آیات مذکورہ السجدہ میں عذابِ اکبر کے مقابلہ میں عذابِ ادنیٰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ عذابِ اکبر تو وقوعِ قیامت کے بعد ہوگا جس میں کفار و مشرکین ہمیشہ مبتلا رہیں گے مگر عذابِ ادنیٰ سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اس دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً بیماریاں، المناک حادثے،مالی نقصانات، کوشش کے باوجود ناکامیاں، اجتماعی زندگی میں قحط و خشک سالی، زلزلے، وبائی امراض، باہمی لڑائی جھگڑے، معاشرتی فسادات، گھریلو ناچاقی، خاندانی و قبائلی تنازعات اور دیگر بہت سی آفات و بلیات ہیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں اور بستیوں، شہروں بلکہ ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان تمام کے نازل کرنے کا مقصد اور حکمت یہ ہوتی ہے کہ کفار و مشرکین اور فساق و فجار ان چھوٹے چھوٹے عذابوں کو دیکھ کر اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کرلیں تاکہ وہ قیامت کے بڑے عذاب سے بچ جائیں۔
اسی تصور کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید فرماتا ہے:
وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةً ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
(الانفال، 8: 25)
’’اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں (بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لیے جائیں گے) اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فرمانے والا ہے۔‘‘
جب معاشرے میں اخلاقی نجاستیں اور معاشرتی برائیاں اس قدر عام ہوجائیں کہ ہر طرف ان کا تعفن اور اثراتِ بد پھیل جائیں تو پھر اس کی لپیٹ میں صرف گندے اور بُرے اخلاق والے لوگ ہی نہیں آتے بلکہ اخلاقی تعفن میں رہنے والا ہر انسان خواہ وہ خوش خلق ہے یا بدخلق، وہ اس تعفن سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ اخلاقی امراض اور برائیاں جب تک بعض افراد تک محدود رہتی ہیں، وہ معاشرے کے صالح افراد کے اثرو رسوخ کی وجہ سے دبی رہتی ہیں اور معاشرے اور سماج پر ان کے اثرات محدود ہونے کی وجہ سے نقصانات بھی کم ہوتے ہیں لیکن اگر اُن کی اصلاح کرنے کی تمام آوازیں خاموش اور کوششیں بند کردی جائیں تو اخلاقی بیماریوں کے مہلک جراثیم اور زہریلے اثرات افرادِ معاشرہ کی اکثریت یا تمام افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اس سے اجتماعی ضمیر مردہ ہوجاتاہے اور معاشرے میں اخلاقی برائیوں کو دبانے اور ختم کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ جب معاشرے میں برے اور بے حیا لوگ اپنی نفسانی بداخلاقی کی گندگی کو اعلانیہ کرنے لگ جاتے ہیں اور اسی معاشرے میں موجود اچھے لوگ بے عملی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے اور زبانوں کو تالے لگا کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور اپنی انفرادی نیکی و صالحیت پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں تو پھر پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتا ہے اور اس کی طرف سے وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے کہ خشک کے ساتھ تر بھی جل جاتا ہے اور چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتاہے۔
مذکورہ آیت میں بیان کردہ حکمت و فلسفہ کو اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان کیا ہے:
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایھا الناس مروا بالمعروف وانھوا عن المنکر قبل ان تدعوا اللہ فلا یستجیب لکم وقبل ان تستغفروا افلا یغفرلکم۔
’’اے لوگو! نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو، ایسا نہ ہو کہ اللہ ناراض ہوجائے، پھر تم دعائیں مانگو اور وہ قبول ہی نہ فرمائے اور تم استغفار کرو اور وہ تمہیں بخشے ہی نہیں۔‘‘
قرآن مجید، ارشادِ نبوی اور عقلِ صحیحہ سے یہ امر واضح ہوا کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم جن مشکلات و مصائب کا سامنا کرتے ہیں یا جن آفات و بلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ ہمارے ہاتھوں کی کمائی اور شامتِ اعمال ہوتی ہے۔ بلاسبب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو رنج و غم میں مبتلا نہیں کرتا۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ذاتِ کریم ایک انسان کی غلطی و خطاء اور گناہ کی وجہ سے پوری قوم کو مبتلائِ عذاب نہیں کرتی اور یہ بھی کہ بالعموم انفرادی غلطی کرنے والے کو بھی فوری طور پر اس کے کئے کی سزا نہیں دیتی۔ (الا ماشاء اللہ) بلکہ اس کے عیب کو چھپا کر اس کو توبہ و اصلاح کی مہلت دیتی ہے تاکہ وہ نافرمانی و سرکشی سے باز آجائے۔ دراصل قوموں پر عذاب اور تباہ کن آفات اُن کی اجتماعی بداعمالیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتا ہے جو ان کو نشانِ عبرت بناکر رکھ دیتا ہے۔
اس وقت جب کہ یہ سطور لکھی جارہی ہیں، پورا پاکستان اور پاکستانی قوم گذشتہ دو ماہ کی طوفانی بارشوں کے باعث سیلاب کی تباہ کن آفات سے گزر رہی ہے۔ سیکڑوں انسانی جانیں جن میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب شامل ہیں، لقمہ اجل بن چکی ہیں، ہزاروں مویشی موت کے منہ میں جاچکے ہیں، فصلیں اور باغات تباہ ہوچکے ہیں، کتنی ہی مساجد اور مزارات شہید ہوچکے، پُل، بند اور سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، وبائی امراض پھیل چکی ہیں، کاروبار تباہ اور صنعتیں برباد ہوچکی ہیں، عیش و تنعم میں زندگی بسر کرنے والے ایک ایک لقمہ کو ترس رہے ہیں، تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہیں اور سر چھپانے کو چھت کا سایہ موجودنہیں ہے، دن سورج کی تپتی دھوپ میں اور رات کھلے آسمان کے نیچے کیڑوں، مکوڑوں، مچھر اور دیگر پتنگوں کے جھلمٹ میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنے ہاتھ سے خرچ کرنے والے آج سیلابی طوفان کی وجہ سے صدقہ و خیرات لینے والے بن چکے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا سلسلہ تنفس برقراررکھ سکیں۔
ان حالات میں پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔؟ ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔۔۔؟ ہم اپنے اللہ کو کیسے راضی اور اپنے محبوب ﷺ کو کیسے خوش کرسکتے ہیں۔۔۔؟ کہ وہ تواب الرحیم ہماری بداعمالیوں کو معاف کرکے ہماری ساری قوم اور ہمارے وطنِ عزیز کو اس آزمائش اور آفت سے نجات عطاکردے۔
آیئے! سیلاب کی موجودہ تباہ کاریوں سے نجات پانے اور پھر متاثرین سیلاب کی زندگیوں کی باعزت بحالی کے لیے خلوصِ دل اور پورے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے قومی بہن بھائیوں کے دکھوں کو بانٹنے کا سامان کریں۔ اسی صورت ہم موجودہ مشکل حالات سے بھی نجات پالیں گے اور اللہ اور رسول ﷺ کو بھی راضی کرلیں گے۔ گویا کہ خالق و مخلوق دونوں کی رضا و خوشنودی حاصل کرلیں گے۔
رحمتِ حق کو متوجہ کرنے کے ذرائع
مصیبت کی اس گھڑی میں ہم پوری قوم درج ذیل ذرائع پر عمل پیرا ہوکر اس مشکل سے نجات حاصل کرسکتی ہے:
1۔ انفرادی و اجتماعی توبہ
قرآن و سنت کی تعلیمات پر غورکرنے سے مشکلات و مصائب سے خلاصی پانے کا سب سے پہلا ذریعہ جس کو اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے بتایا ہے، وہ تمام افرادِ معاشرہ کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے ظاہری اور باطنی، چھوٹے اور بڑے گناہوں سے توبہ کریں اور آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کریں۔ یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم گناہگاروں اور خستہ حال لوگوں کی طرف متوجہ ہوگی اور وہ اپنی رحمت کے دروازے کھول کر موجودہ مشکلات سے نجات عطا فرمائے گا۔
2۔ صدقات و خیرات کی کثرت
جس دور میں ہم زندگی بسرکررہے ہیں، یہ مادیت زدہ دور ہے، یہاں ہر معاملے کو مادیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر عمل کا فوری مادی نتیجہ و فائدہ مدنظر رکھا جاتاہے۔ راہِ حق میں مال خرچ کرتے ہوئے غریبوں، محتاجوں، ضرورت مندوں، مفلوک الحال اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والے بے بس اور مجبور لوگوں کی بحالی پر خرچ کرنے سے بظاہر فوری طور پر کوئی مادی و مالی مفاد نہیں ملتا اس لیے نفس و شیطان طرح طرح کے وسوسے دلوں میں ڈال کر اہلِ ثروت کو کارِ خیر سے باز رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ ج وَاللهُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.
(البقرة، 2: 268)
’’شیطان تمہیں (الله کی راہ میں خرچ کرنے سے روکنے کے لیے) تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور الله تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے، اور الله بہت وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
جان لیجئے! کہ مصیبت کی اس گھڑی میں دکھی انسانیت اور اپنے بے گھر ہوجانے والے بہن بھائیوں کا ہاتھ تھام کر اُن کی زندگی کی خوشیاں فراہم کرنے کے لیے جو مال و اسباب خرچ کیے جائیں گے، وہ ضائع نہیں جائیں گے۔ اس لیے کہ صدقہ و خیرات اصل دینداری اور رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے۔ صدقہ و خیرات گناہوں سے نجات، تزکیہ نفس اور قبولیتِ دعاکا وسیلہ اور ذریعہ ہے، مہلک بیماریوں سے شفایابی ہے اور بری موت سے بچانے والا بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صدقہ کا مال اللہ تعالیٰ اپنی شایانِ شان اپنے ہاتھ سے وصول کرتا اور اس کو قرضِ حسنہ قرار دے کر دوگنا اور چوگنا کرکے سخی کو واپس کرتا ہے۔
اے برادرانِ وطن! آگے بڑھیے اور اپنے بھائیوں کی خدمت کا جذبہ لے کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور مال میں سے دل کھول کر ان پر خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان مجبور اور بے بس لوگوں، معصوم بچوں اور بے زبان جانوروں کی مشکلات کو دور کرنے کے سبب ضرور کرم فرماتے ہوئے ہمیں بھی دنیاوی و اُخروی مشکلات سے نجات عطاکرے گا۔
3۔ تعلیمی اداروں اور درسگاہوں کی بحالی
پسماندہ معاشروں کو عروج کی طرف لے جانے اور غریب قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تعلیم بنیاد سے لے کر تکمیلِ عمارت تک مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ وہ لوگ اورمعاشرہ جو تعلیم سے پہلو تہی کرتا ہے، وہ زندگی کے ہر میدان میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی بے بسی کے عالم میں پیوندِ خاک ہوجاتا ہے۔ اس لیے قومی معاشرتی ترقی کے لیے تعلیم کا فروغ اور علمی ماحول کا پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
موجودہ سیلاب نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے، وہاں تعلیمی اداروں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں کو بھی زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ کتنے ہی تعلیمی ادارے سیلاب کی نذر ہو گئے یا پھر پانی کی وجہ سے خستہ حال اور ناقابلِ استعمال ہوگئے ہیں۔ تعلیمی ادارے خواہ وہ جدید عصری تعلیم کے مراکز ہیں یا وہ علومِ اسلامیہ کے مراکز ہیں جہاں صبح و شام قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ جہاں چٹائیوں پر بیٹھ کر ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے اپنے سینوں میں کلام مجید قرآن کو محفوظ کرنے اور تلاوت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ملائکہ رحمت زمین پر اتر کر اُن کی ہمنشینی اختیار کرتے ہیں۔
آیئے! ان درسگاہوں اور تعلیمی مراکز کو پھر سے بحال کرکے یہاں علمِ نافع کا شغل دوبارہ شروع کیا جائے تو یہ صدقہ جاریہ بھی ہوگا اور مشکل کے ان لمحات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوگا اورمعلم اعظم نبی رحمت ﷺ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کا باعث بھی بنے گا۔
4۔ طلبہ کی بلا امتیاز اعانت
سیلاب کی تباہ کاریوں میں جہاں تعلیمی مراکز اور درسگاہیں تباہ ہوگئیں، وہاں ان میں موجود علمی جواہر پر مشتمل لائبریریاں، سائنسی تجربہ گاہیں اور انفارمیشن کے جدید ذرائع پر مشتمل تربیت گاہیں بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئی ہیں۔ ذاتی لابئریریاں محفوظ رہیں نہ گھروں میں طلبہ کے سکول و کالج کی نصابی کتب محفوظ رہیں۔ قوی اندیشہ ہے کہ سیلاب کی زد میں آنے والے علاقہ جات کے ہزاروں بچے اپنی کتب اور تعلیم کے دیگر ذرائع اور سہولیات کھو جانے کے باعث علم کے زیور سے محروم رہ سکتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں سیلاب زدہ تمام علاقہ جات میں فوری طور پر تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کا ہنگامی اور عارضی بندوبست کرنے کے ساتھ تعلیمی اداروں کی مستقل طور پر بحالی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت اور معاشرے کے تمام لوگوں خواہ وہ اہلِ ثروت، صاحبِ حیثیت ہیں یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آگے بڑھیں اور اہم قومی و ملی فریضہ ادا کرتے ہوئے نصابی کتب، فیس اور دیگر ذرائع تعلیم کی صورت میں طلبہ کی مدد کریں۔ یہ اُن کی طرف سے صدقہ جاریہ بھی ہوگا اور نہ ختم ہونے والا ایک ایسا عمل ہوگا جس کا انھیں ہمیشہ ثواب ملتا رہے گا۔ نبی رحمت ﷺ نے اپنی زبان حق ترجمان سے ارشاد فرمایا ہے:
’’جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے۔ سوائے تین اعمال کے جو باقی رہتے ہیں: نیک اولاد جو مرحوم والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہتی ہے۔ وہ علمِ نافع جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور صدقۂ جاریہ۔‘‘
موجودہ حالات میں جس کے لیے جتنا ممکن ہو وہ فروغِ علم میں اپنا کردار اداکرے۔
5۔ مساجد اور خانقاہوں کی بحالی
مسجدیں فلک نیلگوں کے نیچے وہ قطعاتِ ارضی ہیں کہ جن کو صاحب قبلتین ﷺ نے اپنی زبان رسالت مآب ﷺ سے خود ارشاد فرمایا:
احب البلاد الی الله مساجدها.
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب ترین مقامات مساجد ہیں۔‘‘
اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ روئے زمین کا سب سے بہترین حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے اس کے بندے مسجد سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے دل مسجد میں لگے رہتے ہیں، قیامت کے روز جب عرشِ الہٰی کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ عطا فرمائے گا۔ مسجد کی خدمت کرنا اور اسے آبادکرنا ایمان کی علامت ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ.
’’اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا۔ ‘‘
(التوبة، 9: 18)
اسی طرح خانقاہیں ذکرِ الہٰی، تزکیۂ نفس اور خدمتِ خلق کے مراکز ہوتی ہیں جہاں اہلُ اللہ حق ھو کی ضربوں سے زنگ آلودہ دلوں کو صیقل کرتے اور نورِ توحید سے منور کرتے ہیں۔ جہاں سنتِ الہٰیہ پر عمل کرتے ہوئے ہرکس و ناکس، امیر وغریب، اپنے اور پرائے یہاں تک کہ مسلم و غیر مسلم سب کو بلاامتیاز لنگر کھلایا جاتاہے اور یہ ساری خدمات محض رضائے الہٰی کی خاطر سرانجام دی جاتی ہیں۔
مساجد اور خانقاہیں بھی سیلاب کی غضبناک لہروں اور بے رحم تھپیڑوں کی زد میں ہیں۔ مساجد کے فلک بوس مینار جہاں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی صورت میں اذان کے نغمۂ سرمدی کی روح پرور اور کیف آور صدائیں بلند ہوتی تھیں، منہ زور سیلاب کی وجہ سے کئی ہفتوں سے وہ فضائیں شہادتِ توحید و رسالت کی وجد آفریں آوازیں سننے کو ترس گئی ہیں۔ گویا کہ سیلاب نے ہمارا صرف معاشرتی و معاشی نقصان ہی نہیں کیا بلکہ ناقابلِ تلافی ہمارا دینی و روحانی نقصان بھی کیا ہے۔ یہ ہم سب کی من حیث القوم اجتماعی ذمہ داری بھی ہے اور ملی فریضہ بھی ہے کہ ہم ان مساجد اور خانقاہوں کی تعمیرِ نو اور مرمت کے کام ترجیحی بنیادوں پر کریں تاکہ ذکرِ الہٰی اور خدمتِ خلق کے یہ دونوں مراکز بحال ہوکر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
6۔ پلوں اور گزر گاہوں کی تعمیر
ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے پل اور گزرگاہیں واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو لوگ اپنے اپنے موضعوں، قصبات اور شہروں تک محدود ہوکر رہ جائیں۔ موجودہ سیلاب کی تندو تیز لہروں اور شدت کی وجہ سے مختلف علاقوںمیں موجود درجنوں کے حساب سے پل ٹوٹ گئے، راستے مٹ گئے اور دریاؤں اور نہروں کے بند کھل گئے جن کی وجہ سے پانی نے آبادیوں کا رخ کیا۔ اس طوفانی صورت حال کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں، اپنے علاقوں میں محصور ہوکر رہ گئے۔
آج کے اس دور میں اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش مختلف صنعتوں، فیکٹریوں اورمنڈیوں میں موجود دیگر تجارتی و معاشرتی مراکز کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایسے میں جب تک مختلف علاقوں کو ملانے والے پلوں اور موضعات و قصبات سے شہری منڈیوں اور تجارتی مراکز کوملانے والے راستے اور گزرگاہیں دوبارہ تعمیر نہیں کیے جاتے، اس وقت تک پسماندہ حال لوگوں کو رزقِ حلال کمانے کے مواقع میسر نہیں آسکتے۔
اس لیے حکمرانوں اور ہر سطح کے حکومتی نمائندوں، سیاسی و سماجی عہدیداران اور کارکنوں، اہلِ ثروت اور ہر پاکستانی جو اس سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہے، اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مصیبت کے اس موقع پر ان لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور اُن کو زندگی کی خوشیاں لوٹانے کے عملی اقدامات کریں۔
7۔ بیماروں کا علاج معالجہ
سیلاب کے منہ زور گھوڑے نے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی چھتیں توچھین ہی لی تھیں مگر جب اس سیلابی پانی کے اندر آبادیوں میں بہنے والے گندے پانی کے نالوں کا زہریلے جراثیموں ملا پانی بھی شامل ہوگیا تو طرح طرح کی وبائی امراض سر اٹھانے لگیں اور مختلف قسم کی جلدی امراض نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ ان پریشان کن حالات میں کون ہے جو ان کے دکھ بانٹے، ان کے زخموں پر مرھم رکھے اور ان کے درد کا درماں بنے۔
اے اہلِ وطن! یہ مجبور و بے بس ہمارے بھائی جو اس وقت سخت کرب میں مبتلا ہیں، ان کی آنکھیں آس و امید لگائے ہماری راہیں تک رہی ہیں۔ آگے بڑھیئے! ان خستہ حال، بیمار و لاچار اور شدتِ غم میں کڑھتے ہوئے، بے سہارا لوگوں کا سہارا بن کر ان کے علاج معالجہ کی عملی تدبیر کریں۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف، حکماء و اطباء باہر نکلیں اور ان مجبور انسانوںتک پہنچ کر اُن کی خدمت اور علاج کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا سامان کریں۔ یہ اُن کی دعائیں لے کر اپنے رزق میں اضافہ اور غلطیوں کومعاف کرواسکتے ہیں۔کسی مسلمان کی عیادت کرنا، اسے تکلیف میں راحت پہنچانا یہ مخلوق کی خدمت ہے تو اس کے خالق کی عبادت بھی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کا یہ موقعہ بیماروں کے علاج معالجہ، ان کی خدمت اور اُن کی عیادت کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت کا مستحق قرارپانے کا بہترین موقع ہے۔ آگے بڑھئے! رحمت اپنے دامن میں پناہ دینے کو تیار ہے۔
سرمایہ داروں اور صنعت کاروں سے گزارش
وہ سرمایہ دار اور صنعت کار جن کی فیکٹریوںمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے رہنے والے مزدوری کرتے تھے اور اپنا خون پسینہ ایک کرکے مل اور فیکٹری کا پہیہ چلا رہے تھے، اُن پر اخلاقی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان کارکنان کو تنہا اور بے آسرا نہ چھوڑیں بلکہ ان ہی مزدوروں کے ہاتھ کی کمائی ہوئی دولت سے ان کی احتیاج کو دور کرکے اُن کی دعائیں لیں اور اپنے خالق و مالک جس نے ان کو رزق کی فراوانی سے بہرہ یاب کیا ہے، اس کی رحمت ومغفرت طلب کریں۔ اس کی مخلوق جس کی شبانہ روز کی محنت سے اُن کو یہ آسودگی نصیب ہوئی ہے، ان پر مال خرچ کرکے انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں عبادت کرتے ہوئے رحمتِ حق کو اپنی طرف متوجہ کرکے اس کا شکر ادا کریں اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمھیں اپنی مزید نعمتیں عطا کروں گا۔
ان حالات میں کیا ان کو تنہا چھوڑ دیا جائے اور ہم خوش رہیں کہ ہمیں تو کچھ نہیں ہوا۔ نہیں ایسا نہیں، یہ تو خودغرضی ہے۔ یہ وقت خود غرضی کا نہیں بلکہ اپنے خالق و مالک کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر و استقامت اور جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا تن من دھن لگاکر ان کی ہر قسم کی مدد کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو طلب کرنے کا ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا کردار
منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کے زیر اہتمام سیلاب زدگان کی مدد کیلئے پورے پاکستان میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن پہلے دن سے ہی اپنے غم زدہ پاکستانی بہن بھائیوں کی مدد کیلئے میدانِ عمل میں موجود ہے۔ ڈیرہ غازی خان، روجھان، فاضل پور، راجن پور، جام پور، کروڑ لعل عیسن، جیکب آباد، شکار پور، ڈیرہ اللہ یارسمیت سندھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی مدد کیلئے ہمارے رضا کار موجود ہیں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن سیلاب زدگان کی امدداد اور بحالی کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ غذائی اجناس، خیمے، پانی، ادویات، مچھر دانیاں، چارپائیاں، بستر، برتن سمیت دیگر ضروری اشیاء کا متاثرہ علاقوں کیلئے روزانہ روانگی کا سلسلہ جاری ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کے ساتھ ساتھ متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خیمہ بستیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ خیمہ بستیوں میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی جانب سے پکا پکایا کھانا، پانی، بجلی و دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ متاثرین کے علاج معالجے کیلئے میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے ہیں، بچوں کی تعلیم کیلئے عارضی سکول اور مساجد بھی بنائی گئی ہیں۔ منہاج ویلفیئر کے رضاکار متاثرہ علاقوں میں مچھر مار سپرے بھی کروا رہے ہیں۔ موبائل ہسپتال اور کیمپس کلینک کے ذریعے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تیس سے زائد مقامات پر میڈیکل کیمپس لگائے جا چکے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مریضوں کی بڑی تعداد ملیریا، ڈائریا، سانس کے انفیکشن، بخار، جلد کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ سانپ کے کاٹے اور معدے کی خرابی کے مریضوں کو بھی فوری طبی امداد دی جا رہی ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی میڈیکل ٹیمیں ڈینگی، تیز بخار اور خون کی کمی کے مریضوں کو بھی علاج فراہم کر رہی ہیں۔
آگے بڑھیے اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے دکھی اور مشکلات میں گھری انسانیت کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کا سبب بنیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر ہم خلوصِ نیت اور قومی ہمدردی کے مخلصانہ جذبے کے ساتھ دکھی مخلوق کے دکھوں کا مداوا کریں گے تو خالقِ کائنات ہم سے ضرور خوش ہوگا اور ہماری چھوٹی چھوٹی خطاؤں (گناہِ صغیرہ) کو معاف کردے گا۔ نہ جانے کس مفلوک الحال اور غریب الدیار کے منہ سے نکلنے والی دعاء عرشِ الہٰی تک پہنچ کر شرفِ قبولیت پاجائے اور خدمتِ خلق کرنے والوں کی بخشش کا ساماں بن جائے۔