ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ.
(التوبۃ، 9: 128)
بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ﷺ تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
قرآن حکیم نے اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کو ’’مِّنْ اَنْفُسِکُمْ‘‘ کے ساتھ خاص کیا ہے کہ نبی آخرالزماں، سیدالمرسلین، امام الانبیاء خاتم النبیین ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و احسان ہے مگر اس فضل کا انتخاب باری تعالیٰ نے تمہارے لیے مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کی شان کے ساتھ کیا ہے کہ یہ رسول ﷺ تم میں سے ہیں۔
ابواللیث سمرقندی اس آیت کا ایک معنیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک قرأتِ قرآن کے مطابق مِنْ اَنْفُسِکُمْ کو مِنْ اَنْفَسِکُمْ کلمہ ف کی زبر کے ساتھ بھی پڑھا گیاہے۔ اس اعتبار سے اس آیت کا معنی یہ ہوگا:
ہم نے تمہاری طرف اس رسول مکرم و محتشم ﷺ کو بھیجا ہے جو روئے زمین پر موجود مخلوق میں سے اعلیٰ ترین مخلوق اور اللہ کے بندوں میں سے نفیس ترین بندے ہیں۔ گویا ساری کائنات کے اعلیٰ نفوس میں سے اس ارفع و افضل نفس کو تمہاری طرف بھیجا ہے۔ گویا مذکورہ آیت اللہ رب العزت کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی انتہائی مدح و تعریف کو بیان کررہی ہے۔
(تفسیر سمر قندی، ج: 2، ص: 100-101)
ایک اور مقام پر مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کو مِنْ اَنْفُسِھِمْ کی صورت میں بھی قرآن نے بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ.
(آل عمران، 3: 164)
بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ﷺ بھیجا ۔
اس آیت مبارکہ کے پہلے حصے میں حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا احسانِ عظیم قرار دیا کہ اس رسول ﷺ کو میں نے اپنی کل کائنات میں سے منتخب کرکے سیدالمرسلین کا اعزاز عطا کرکے تمہاری طرف مبعوث کیا ہے اور یہ میرا تمہارے اوپر احسانِ عظیم ہے۔ میں رب العالمین ہوکر اپنی شانِ بے نیازی کی وجہ سے کسی احسان کو جتلاتا نہیں مگر میرے خزانہ نعمت میں سے سب سے بڑی نعمت میرا یہ رسول ﷺ ہے، اس رسول ﷺ کو میں نے تمھیں عطا کیا ہے۔
آیتِ مبارکہ میں مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کے الفاظ اس امر کی جانب اشارہ ہیں کہ اہلِ عرب بالخصوص اہلِ مکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنے میں سے ہونے کے سبب اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ اور صدق و امانت سے بھی خوب واقف ہیں۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ ہر طرح کی دشمنی و عداوت کے باوجود آپ ﷺ کے کردار پر کوئی تہمت بھی نہیں لگاسکتے کیونکہ آپ ﷺ ان ہی میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نظروں سے آپ ﷺ کا حسب و نسب اور سیرت و کردار پوشیدہ نہیں ہے۔
مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عرب کا کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں جس میں حضور ﷺ کی قرابت اور رشتہ داری نہ ہو۔ عرب کے ہر قبیلے سے رسول اللہ ﷺ کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ (تفسیر در منشور، 4: 327)
قرآن مجید نے یہود کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی جان پہچان اس حد تک رکھتے تھے جیسے اپنی اولاد کو جانتے اور پہچانتے تھے۔ ان کی یہ جان اور پہچان آپ ﷺ کے منصبِ نبوت و رسالت کے حوالے سے تھی۔ انہوں نے آپ ﷺ کے وجودِ اقدس میں ان تمام علاماتِ نبوت و رسالت کو آفتاب و ماہتاب کی طرح روشن دیکھ اور جان لیا تھا جن کے متعلق انھوں نے اپنی الہامی کتب میں بھی پڑھ رکھا تھا۔
اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَهُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ.
(البقرة، 2: 146)
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد ﷺ اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقینا انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اوّل الذکر آیت (التوبہ:128) میں حضور نبی اکرم ﷺ کے نفیس ترین اور اعلیٰ ترین مخلوق ہونے اور مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کے مصداق آپ ﷺ کی سیرت و کردار کی گواہی اہلِ عرب سے ہی دلواکر پھر آپ ﷺ کے دیگر محامدِ کثیرہ اور اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کیا ہے۔ لوگوں کے اسلام قبول کرنے اور ان کے ہدایت پانے سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی شدید حرص و خواہش کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان سب کو دنیا میں جو تکالیف و پریشانیاں پہنچتی ہیں یا آخرت میں پہنچیں گی، ان تکالیف و مصائب پر رسول اللہ ﷺ کے قلبِ اطہر پر مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کی بنا پر جو تکلیف گزرتی ہے، اس کا تذکرہ کیا ہے اور بطورِ خاص اہلِ ایمان اور اہلِ صدق کے لیے رسول اللہ ﷺ کی لطف و مہربانی، رحمت و کرم نوازی، دلجوئی اور عزت افزائی کا ذکر ’’بالمومنین رؤوف الرحیم‘‘ کے الفاظ میں کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ حسب و نسب میں ممتاز ہیں
حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ ﷺ سے مِنْ اَنْفُسِکُمْ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
نسباً و صهراً وحسباً لیس فی ولا آبائی من لدن ادم سفاح کلها نکاح.
(الدرالمنثور، 6: 327)
آپ ﷺ نے اس حدیث مبارکہ کے ذریعے خود ’’مِّنْ اَنْفُسِکُمْ‘‘ کی وضاحت میں تین صورتیں بیان فرمائی ہیں:
1۔ میرا نسب تمہارے اندر موجود ہے، تم مجھے نسب کے اعتبار سے بھی اچھی طرح جانتے ہو۔
2۔ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کی دوسری صورت صَھْراً ہے۔ یعنی میرے سسرال کے اعتبار سے بھی تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔
3۔ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ کی تیسری صورت میرا حسب ہے یعنی میرا حسب بھی تمہارے سامنے ہے، میرا لڑکپن، میری نوجوانی، میری جوانی، میرے شب و روز، میرا سیرت و کردار، میرے معمولات و معاملات الغرض میری زندگی کا ہر پہلو تم پر عیاں ہے اور پھر فرمایا:
میرے اباء و اجداد میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک زنا نہیں ہوا بلکہ سب کے سب نکاح سے پیدا ہوئے۔
٭ آپ ﷺ نے اپنے اس نسب اور حسب کو اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی بیان فرمایا کہ میں اپنے نسب و حسب کو اپنی نبوت کی علامات میں سے ایک علامت اور ایک شہادت بناتا ہوں:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.
(یونس، 10: 16)
بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
یعنی جس نے میرے نسب و حسب کو اچھی طرح جان لیا، وہ ایمان کی نعمت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ میرا حسب وہ ہے جو انسانی عقل کو اپیل کرتا ہے، میرا حسب ہی انسان کو میرے منصبِ نبوت کی بصیرت اور فراست عطا کرتا ہے۔ میں اپنے حسب میں بھی تم میں سے سب سے بڑھ کر ہوں اور اسی طرح اپنے نسب میں بھی افضل ترین ہوں۔ میرے نسب میں بھی ہر ایک پاک ہی پاک ہے۔ ہر ایک کا تولد نکاح سے ہوا ہے اور میرے کل نسب میں زنا نہیں ہے۔
اللہ رب العزت کے فرمان: وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ. (الشعراء، 26: 219) اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے کے حوالے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
آپ کے نسب میں سارے کے سارے رب کے عبادت گزار اور سجدہ ریزیاں کرنے والے تھے۔ یہ تقلّب کا عمل اس طرح ہوا کہ:
من نبی الی نبی ومن نبی الی نبی حتی اخرجک نبیا.
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 24)
ایک نبی سے دوسرے نبی تک آپ کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک آپ کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا۔
حضور ﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونا، احسانِ الہٰی کا تسلسل ہے
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کو ’’مِّنْ اَنْفُسِکُمْ‘‘ اور ’’مِّنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ کے پیرائے میں بیان فرماکر جہاں ہمارے اوپر احسانِ عظیم فرمایا وہاں اسی سلسلۂ احسان کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ ﷺ کے وجودِ اقدس کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ کل جہاں کے لیے سراپا رحمت بنایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.
(الانبیاء، 21: 107)
اور (اے رسولِ محتشم ﷺ !) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونا آپ ﷺ کی حیاتِ اقدس تک محدود تھا اور آج ہمارے لیے بالخصوص وصال کے بعد کے تمام زمانوں کے لیے (معاذ اللہ) آپ ﷺ رحمت نہیں رہے۔ اس حوالے سے وضاحت بھی رسول اللہ ﷺ نے خود فرمادی اور ارشاد فرمایا:
حیاتی خیرلکم ومماتی خیرلکم.
(کنزالعمال، ج: 12، ص: 189، الرقم: 3547)
میری یہ ظاہری حیات بھی تمہارے لیے رحمت ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے رحمت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حدیث مبارکہ کی تصریح میں مزید ارشاد فرمایا:
ان الله عزوجل اذا اراد رحمة امة من عباده قبض نبیها قبلها فجعله لها فرطا وسلفا بین یدیها.
(مسلم، الصحیح، 4: 1791، الرقم: 2288)
جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر رحم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اس امت کے نبی کی روح قبض کرتا ہے۔ اس کے بعد ان پر حال اور مستقبل میں مہربانی فرماتا ہے۔
گویا اس حدیث مبارکہ نے اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ تمام عالمین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی حیات بھی خیر ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ممات بھی خیر ہے۔ پس اتنی بات ہے کہ ہم ہر حال میں اور ہر زمان و مکان میں اپنے نبی ﷺ سے وابستہ رہیں۔
- فقیہ ابوللیث سمرقندی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ ہر ہر عالم کے لیے رحمت ہیں:
1۔ اہلِ ایمان کے لیے آپ ﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونے کا معنی یہ ہے کہ سب کو آپ ﷺ کی رحمت کے سبب ہی ہدایت ملی ہے۔ گویا اہلِ ایمان کے حق میں آپ ﷺ کی رحمت سے مراد ہدایت ہے کہ انھیں ہدایت رسول اللہ ﷺ کی رحمت سے میسر آئی ہے۔
2۔ منافقین کے لیے آپ ﷺ کے رحمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ منافقین آپ ﷺ کی رحمت کے باعث قتل کیے جانے سے محفوظ ہوگئے۔
3۔ کافروں کے لیے آپ ﷺ کی رحمت کا معنی یہ ہے کہ ان کے عذابِ دنیوی میں تاخیر کردی گئی ۔ اب وہ اس دنیا میں عذابِ دنیوی اور عذابِ عام سے محفوظ کردیئے گئے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس مومنین اور کفار سب کے لیے رحمت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح پچھلی امتوں میں سے جنہوں نے اپنے اپنے نبی کی تکذیب کی، ان پر دنیوی عذاب آیا تھا مگر رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے رحمۃ للعالمین ہونے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اس عذاب کو آپ ﷺ کی امتِ دعوت اور امتِ اجابت سے اٹھا لیا ہے اور یہ لوگ اس عذابِ دنیوی سے آپ ﷺ کی رحمت کے سبب محفوظ کردیئے گئے ہیں۔
اسی لیے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ.
(الانفال، 8: 33)
اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم ﷺ !) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔
- ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ اے جبرائیل! کیا تمھیں بھی میری رحمت سے کچھ حصہ ملا ہے؟ جبرائیل امین نے عرض کی: ہاں، یارسول اللہ ﷺ آپ کی رحمت سے مجھے بھی ایک حصہ ملا ہے:
کنت اخشی العاقبة فامنت لثناء اللہ عزوجل علی فی القرآن بقوله ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ.
(سیرت حلبیه، ج: 1، ص: 372)
میں اپنے انجام آخرت سے ڈرتا تھا یہاں تک اللہ تعالیٰ نے میری مدح میں یہ آیۃ کریمہ (التکویر، 20۔21) آپ ﷺ پر نازل فرمائی: جو قوت والا ہے، مالکِ عرش کے حضور عزت والا ہے، اس کا حکم مانا جاتا ہے، امانت دار ہے۔ جب سے یہ آیۃ کریمہ آپ ﷺ پر اللہ نے نازل فرمائی ہے تو اب میں سکون سے ہوں۔
خلاصۂ کلام
حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق براهِ راست اس کی اطاعت کرنے سے عاجز ہے تو اس نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان ایک واسطہ بنایا اور اس واسطے کو بندوں کی جنس سے بنایا تاکہ ان کی آپس میں مطابقت اور موافقت ہوجائے۔ اس واسطے اور وسیلے کو انبیاء کرام علیہم السلام کا نام دیا۔ یہ انبیاء علیہم السلام کا طبقہ مخلوقِ خدا پر نہایت مہربان ہے، ان پر لطف و کرم کرنے والا ہے، اللہ نے انھیں اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان سفیر بنایا ہے اور انھیں اپنے پیغامات بندوں تک پہنچانے کے لیے پیامبر بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کی فرمانبرداری کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور ان کی پیروی کو اپنی محبت قرار دیاہے۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ.
(النساء، 4: 80)
جس نے رسول ﷺ کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔
مزید فرمایا کہ ان کی اطاعت جہاں میری اطاعت ہے، وہاں ان کی پیروی ہی میری محبت کی نشانی ہے۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
(آل عمران، 3: 31)
(اے حبیب ﷺ !) آپ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔
قرآن حکیم کی متعدد آیات میں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف و کمالات اور آپ ﷺ کے فضائل و مناقب کو بیان کیا گیا ہے، جنھیں پڑھنے اور سمجھنے سے قلب و روح میں آپ ﷺ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور یہی محبت اطاعت کی بنیاد ہے۔ محبت کی حیثیت ایک بیج اور جڑ کی ہے جبکہ اطاعت و اتباع کی حیثیت ایک درخت کے تنے، شاخوں اور پھل کی ہے۔ پس جس قدر اچھا بیج اور مضبوط جڑ ہوگی، اسی قدر ایمان کے درخت کا تنا اور شاخیں مضبوط ہوں گی اور جڑ کا اثر جس قدر پورے درخت میں ہوگا، اسی قدر اس کا اثر اس کے پھل میں نظر آئے گا۔
ایمان کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی محبت جڑ ہے اور درخت کا تنا، شاخیں اور پھل ہمارے اعمال، اقوال، اخلاق اور افعال ہیں۔ ایک مسلمان کا ایمان بالرسالت کا کل اثاثہ محبتِ رسول ﷺ اور اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ ہے۔ باری تعالیٰ ان قرآنی افکار پر ہمیں عمل پیرا ہونے اور ان اعمالِ حسنہ کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ