وہ ذات مقدسِ حضرتِ محمد کریم ﷺ جن کی صبحِ ولادت نسیمِ سحری نے درِ اقدس آمنہ رضی اللہ عنہا پر نہایت ادب سے دستک دی، تو بادِ صبائِ فجری یہ منظر دیکھ کر عجب ورطۂ حیرت میں گم ہوگئی کہ ہزاروں حورانِ جنت نے بیتِ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا اور آسمانِ دنیا کے درمیان ایک نورانی سائبان تان رکھا ہے اور اطراف اکنافِ عالم سے نور کی چادر میں لمحۂ ولادتِ محمدمصطفی ﷺ کو چھپا رکھا ہے۔ درِ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور بیت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا وہ مقامِ تکریم و تعظیم ہے جہاں حضور اقدس کی ولادتِ باسعادت کی صورت میں ایمان کی صبحِ نور طلوع ہوئی اور پورا عالم بقعۂ نور بن گیا۔
قارئین گرامی قدر! آپ کی توجیح ایک لطیف اور قرآنی نقطہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ رب کائنات خالقِ ارض و سماوات نے سورہ التکویر کی آیت نمبر 17 اور آیت نمبر18 میں تواترکے ساتھ دوقسمیں اٹھائی ہیں:
وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ. وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ.
(التکویر، 81: 17-18)
’’اور رات کی قَسم جب اس کی تاریکی جانے لگے۔ اور صبح کی قَسم جب اس کی روشنی آنے لگے۔‘‘
یہ امر قابلِ غور ہے کہ خالقِ عظیم نے کوئی بھی قرآنی قسم کسی خاص اہمیت اور مقصد کے بغیر نہیں کھائی ہے۔ تواتر کے ساتھ مذکورہ بالا دونوں قسمیں کھانے کی وجہ میری وجدانی تفسیر کے مطابق یہ ہے کہ خالقِ ارض و سماوات کا مطمعِ نظر جانے والی رات کی آخری حدود اور آنے والی صبح فجری کی حدودِ آغازی کا درمیانی نقطہ ملاپ ہی وہ لمحہ مبارک ہے جو عین لمحہ ولادتِ مسعود محمد مصطفی ﷺ ہے۔ عین لمحۂ ولادت محمد مصطفی ﷺ رات کا آخری پہر اور صبحِ نور کا پہلا کنارہ آپس میں باہم دامن گیر ہوئے اور دونوں نے ہمہ تن ادب بجا لاتے ہوئے بیک وقت چہرہ والضحیٰ محمدمصطفی ﷺ کریم کا مھدِ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا میں بوسۂ تعظیم لیا۔ ذرا غور کریں کہ کیا منظر دیدنی ہوگا کہ رات اندھیرے سمیٹتی جارہی تھی اور صبحِ نور چار سو اجالے اور خوشبو بکھیرے جارہی تھی، اس ماحول میں آفتابِ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سرزمین عرب میں چھائے کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چیرتا ہوا گودِ خاتونِ کائنات حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے طلوع ہوا اور طلوعِ فجرِ ایمان ہوگئی۔ باد صبا کے ٹھنڈے جھونکے وجود مصطفی ﷺ سے خوشبو مستعار لے کر چار سو اطراف و اکنافِ عالم میں بکھیر رہے تھے اور گلشن حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ میں بہار آگئی تھی۔
میرا وجدان کہتا ہے کہ رب العزت خالقِ کائنات اپنے مقرب ملائکہ کے ساتھ شب ولادت مصطفی ﷺ اپنی شانِ الوہیت کے ساتھ اہلِ زمیں پر اپنے لطف و کرم کی بارش برسا رہے ہوں گے۔
- قارئین گرامی! اسی طرح ملاحظہ ہو کہ قرآن عظیم کی سورۃ اللیل میں فرمایا:
وَ النَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی.
(اللیل، 92: 2)
’’اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے۔‘‘
جس دن کی قسم رب العزت نے کھائی ہے اس سے ولادت کے بعد پہلا دن مراد ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کفرو ظلمت کے اندھیرے طلوعِ فجرِ ایمان سے چھٹ گئے تھے اور نورِ مصطفی ﷺ کی روشنی سے پوری دنیا چمک اٹھی تھی۔ پورے مکہ مکرمہ میں رب العزت نے آمد مصطفی ﷺ کی خوشی میں بیٹے بانٹے اور قیصرو کسریٰ کے محلات کے اونچے مینارے گرگئے اور آتش کدہ فارس بجھ گیا۔
- قرآن عظیم نے سورہ الفجر آیت نمبر1 میں ارشاد فرمایا:
وَالْفَجْرِ.
(الفجر، 89: 1)
’’اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) ۔‘‘
اس سے مراد صبح ولادت مصطفی ﷺ بھی ہے۔
قارئین محتشم! مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عرفان القرآن میں آیت مذکورہ کے عمومی ترجمہ کے ساتھ خصوصی حاشیہ میں فرمایا ہے کہ اس سے مرادمحمدمصطفی ﷺ کی ذاتِ گرامی قدر بھی ہے جن کی بعثت سے شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی، تاہم میرا وجدان غالب ہے کہ یہ فجر ولادتِ مصطفی ﷺ ہی ہے۔
- خالق کائنات نے فرمایا:
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی.
(اللیل، 92: 1)
’’رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)۔‘‘
اس آیت میں خالقِ کائنات نے اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ کی شبِ ہجرت کی اہمیت کے پیش نظر قسم کھائی ہے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کی پہلی رات سفرِ ہجرت پر روانہ ہوئے اور یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے ہمراہ تھے تو تعاقب کرتے ہوئے مشرکینِ مکہ غارِ ثور تک پہنچ گئے۔ منظر دیدنی تھا۔ رات گہری اور گھٹا ٹوپ اندھیری تھی اور ہر چیز کو اندھیرے نے چھپا رکھا تھا حتی کہ غار ثور کا دھانہ (منہ) بھی نظر نہ آرہا تھا۔ پس یہ فیصلہ کیا گیا کہ صبح کی روشنی میں (تلاشِ محمد ﷺ ) کی جائے گی اور واپس چلے گئے۔ جب صبح سورج کی روشنی میں کفار دوبارہ غار ثور پر پہنچے تو وہاں کا منظر ہی تبدیل ہوچکا تھا۔ سرداران مکہ نے دیکھا کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا بُن رکھا تھا اور غار کے دھانے پر کبوتری انڈوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ تعاقب کرنے والے مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔
قارئین گرامی قدر! یہ ہجرت مدینہ عین منشائِ حق اور رضائے خداوندی کے تحت واقع پذیر ہوئی اور آپ ﷺ پوری طرح حفاظتِ خداوندی کے حصار میں محفوظ تھے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ گھبراؤ نہ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس پر بھی میرا غالب گمان ہے کہ خالق عظیم نے یہ قسم بھی حفاظت مصطفی ﷺ کے اہتمام اور تحفظ ہجرت مدینہ کے تناظر میں کھائی ہے۔
قارئین ذی وقار! وابستگی اور اطاعت گزاری میں دہلیز مصطفی ﷺ پر عشقِ محبوبِ خدا میں لاکھوں دھڑکتے تڑپتے اور مچلتے قلوب و اجسام تو سبھی نے دیکھے اور تمام مخلوقاتِ عالم نے محمد مصطفی ﷺ کے آگے سرِ تسلیمِ خم کیا اور اپنی محبت کا ثبوت دیا اور سفر عشق کی منتہا اور منزلِ مقصود خوشنودیِ مصطفی ﷺ ہی کو جانا۔ تمام مخلوقات نے آپ کو رحمۃ للعالمین پایا۔ تاہم محبتِ رسول ﷺ کی ایک عجیب اور انوکھی روح پرور داستان پاپوشِ مصطفی ﷺ نے رقم کی۔ پاپوش سے میری مراد نعلین مبارک محمد مصطفی ﷺ ہے۔ میں نے لفظ پاپوش؛ نعلین مصطفی ﷺ کے لیے دانستہ استعمال کیا ہے اس لیے کہ لفظ پاپوش کا لغوی معنٰی قدم چومنے والا، جھکنے والا اور تسلیم کرنے والا ہیں اور پاپوش کے لغوی معنی پاؤں چومنا، جھکنا اور تواضع و تعظیم ہیں۔
عام الحزن یعنی غمگینی کے سال سن 10 نبوی میں حضرت ابوطالب اور خدیجۃ کبری سلام اللہ علیھما کی رحلت کے بعد ابو لہب قبیلہ بنو ہاشم کا سردار بنایا گیا تو اس نے فوری طور پر حضورِ اقدس ﷺ کی حمایت کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے اور ببانگِ دہل اعلان عام کیا کہ معاذ اللہ اگر کوئی آپ کو شہید کردے تو خاندان بنو ہاشم بدلہ یا انتقام قطعی طور نہ لے گا۔ ابو لہب کی نئی سرداری میں جب حضور ﷺ اور ان کے جانثاروں پر ایذا رسانی اور مظالم کا سلسلہ حد سے بڑھ گیا تو حضور اقدس ﷺ نے وقت کی اہم ضرورت کے پیش نظر تبلیغِ دین کے لیے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ وادی طائف تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا۔
آغاز میں ہی عمرو بن عمیر کے بدمست، فاسق و فاجر تخت نشین بیٹوں عبد یالیل، مسعود اور حبیب کو دعوتِ اسلام دی۔ یہ قدم بظاہر بہت مشکل اور عجب حیرت ناک تھا مگر عالمِ غیب پر نظر رکھنے والے آخرالزماں نبی محمد رسول اللہ ﷺ کی حکمتِ عملی اور حکمتِ نبوی تھی جس پر عملدرآمد کیا۔ تاہم نشہ حکمرانی میں بدمست، بدطینت مجموعہ عیوب حکمرانوں نے حضور ﷺ کی دعوت نہ صرف رد کردی، بلکہ طائف کے چند بدمعاش اوباش نوجوانوں کو حضور انور محمدمصطفی ﷺ کا پوری طرح تعاقب کرنے کے لیے لگادیا۔
حکمران سرداروں کے حکم پر اوباش نوجوانوںنے حضور ﷺ پر ستم گری اور ظلم و بربریت کی انتہا کردی اور پتھروں کی بارش برسائی یہاں تک کہ آقائے دو جہاں محمدمصطفی ﷺ کا جسم مبارک لہولہان ہوگیا۔ حضور ﷺ کا اتنا خون بہا کہ پاپوش مبارک بھرگئے تومیرا وجدان یہ کہتا ہے کہ۔۔۔ خون چکیدہ زخم فگار پاؤں مبارک جب پاپوشِ مصطفی ﷺ نے دیکھے تو کرب و غمِ رحمۃ للعالمین میں بے چین ہوگئے۔۔۔ ساراخون مصطفی کریم ﷺ اپنے دامن میں سمیٹنے لگے۔۔۔ پاپوش مبارک مظالمِ کفار پر تعجب کناں اور حیرت ناک تو تھے مگر اپنی قسمت اور سعادت پر عش عش کر اٹھے کہ خونِ مصطفی ﷺ چوم رہے ہیں۔۔۔ مگر غمِ عشق مصطفی ﷺ میں تلملانے لگے۔۔۔ ان پر عجب کرب و ہیجان کی کیفیت طاری تھی۔۔۔ فرطِ جذبات اور شدت عشقِ محمد رسول اللہ ﷺ کے باعث لہو چکاں تلوؤں سے چپک سے گئے۔۔۔ ایسا لگاکہ وہ سسکیاں بھر رہے ہوں۔۔۔ اور ندا دے رہے ہوں کہ پیارے آقا! نیچے کی فکر نہ کریں۔۔۔ ہم صد چاک تو ہوسکتے ہیں مگر آپ ﷺ کے قدمین کریمین کو گزند نہیں آنے دیں گے۔
اب اس قصہ کو ذرا یہیں روکیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ محبتِ مصطفی ﷺ کا اجر کیا ملتا ہے۔۔۔؟ اس سلسلہ میں اگر فنا فی الرسول عشرہ مبشرہ اصحاب مصطفی ﷺ کو دیکھئے تو وہ اطاعت و فرمانبرداری اور جانثاری و محبت اور اتباع محبوب خدا کی معراج کو پہنچے تو حضور اقدس ﷺ نے انھیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت سنا دی۔ دنیا میں زبانِ مصطفی ﷺ سے جنت کی بشارت پانے والے صرف دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں بلکہ ان کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک نہایت خوبصورت تصنیف خیرالمآب لمن بشر بالجنۃ من الاصحاب رقم فرمائی جس میں آپ نے جنت کی خصوصی بشارت پانے والے 100 صحابہ و صحابیات کے نام مکمل تحقیق اور ان کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے فرامین مصطفی ﷺ کے ساتھ درج کیے ہیں۔ اس تصنیف میں شیخ الاسلام نے یہ وضاحت بھی کردی کہ اس عدد کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ صرف ان مخصوص صحابہ کرام اور صحابیات کو ہی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ علامہ کرمانی کے قول کے مطابق عدد کی تخصیص کرنے سے زائد کی نفی نہیں ہوتی۔ کیونکہ علاوہ ازیں اصحاب بدر، اصحاب احد، اصحاب حنین اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی مجموعی طور پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جنت کی بشارت عطا فرمائی ہے۔
محبتِ رسول ﷺ میں فنا ہونے کا اجر جنت کی صورت میں صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہی حاصل نہیں بلکہ دیگر مخلوقات بھی اس اعزاز سے نوازی گئی۔ اُستنِ حنانہ (کھجور کا کٹا ہوا سوکھا تنا) کا واقعہ بھی محبتِ رسالت مآب ﷺ کی زندہ مثال ہے۔ نئے منبر رسول ﷺ کے بننے پر جدائی اور ہجرِ مصطفی ﷺ میں استنِ حنانہ سسکیاں لے لے کر رونے لگا یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ سرکار دو عالم منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ خطبہ کے دوران ہی منبر رسول ﷺ سے اٹھے، کھجور کے خشک تنے کو اپنے سینہ اقدس سے لگایا اور پوچھا: استن حنانہ تجھے کیا ہوا ہے؟
کھجور کے اس سوکھے تنے کو لَمسِ مصطفی ﷺ نے زندگی عطا کردی۔ قربان جائیں حضور اقدس کی رحمۃ للعالمینی پر کہ آقا ﷺ نے سوکھے لکڑی کے ٹکڑے کو عقلِ سلیم اور قوتِ گویائی بھی عطاکردی۔ سینہ اقدسِ مصطفی ﷺ سے چمٹنے کے بعد استن حنانہ سسکیاں لیتا لیتا چُپ ہوگیا اور عرض کیا: آقا! کیا میری اطاعت، محبت اور فرمانبرداری میں کمی آگئی تھی جو آپ ﷺ نے نظرِ انتخاب بدل کر نئے منبر کو خطبہ جمعہ مبارک کے لیے چن لیا ہے۔ رحمۃ للعالمین آقا ﷺ ! میرے رونے کا سبب فقط آپ ﷺ کی محبت ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حنانہ کیا چاہتے ہو؟ حنانہ دست بستہ عرض کرنے لگا: کریم آقا آپ ﷺ نے خود متعدد مواقع پر واضح فرمایا ہے کہ مجھ سے محبت و اطاعت کا اجر جنت ہے۔ میری التجا فقط یہ ہے کہ مجھے آپ ﷺ سے محبت کے بدلے میں جنت نہیں چاہیے بلکہ فقط یہ گزارش ہے کہ مجھے اپنی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہی رہنے دیجئے۔میری جنت یہی ہے۔ مجھے آپ ﷺ کی جدائی میں جنت قبول نہیں ہے۔ اس پر آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حنانہ دو چیزوں میں سے ایک چن لو اوّل یہ کہ میں اسی دنیا میں تجھے ہرا بھرا اور پھلدار کھجور کا درخت بنادیتا ہوں۔ قیامت تک تمہارے پھل سے میری امت مستفید ہوتی رہے گی۔ دوم یہ کہ حنانہ میں تجھے یہاں سے اکھاڑ کر جنت میں لگادیتا ہوں، تمہارے ہرے بھرے ہونے پر تمہاری کھجوروں سے اہلیان جنت (جنتی لوگ) کھجوریں تو کھائیں گے ہی تاہم تاابد ہمیشگی کے ساتھ میرے قرب اور میری اطاعت میں بھی رہو گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ منظر خود اپنی چشمان سے ملاحظہ کیا کہ استن حنانہ نے دوسرا انعام قبول کیا اور چپکے سے جنت میں منتقل ہوگیا۔
قارئین محتشم! نزہت و لطافت مصطفوی ﷺ کی معراج کی طرف آرہا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت و اطاعتِ مصطفی کریم ﷺ کی تو 100 سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیات کو بھی زندگی میں ہی جنت عطا کردی۔ استنِ حنانہ کو اپنے قرب کے ساتھ جنت میں منتقل کردیا۔
قارئین گرامی قدر! دل تھام لیجئے کہ جب سفرِ طائف میں 20 شوال 10 نبوی ﷺ کو آقا دو جہاں ﷺ سردارانِ طائف کے بدمست نوجوانوں کو دعوتِ اسلام دی تو نہ صرف انھوں نے انکار کیا بلکہ ظلم و ستم کی انتہا کردی تو میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ پاپوش مبارک زور زور سے رونے لگے اور التجا کررہے تھے کہ۔۔۔ آقا! ہمیں اپنے ساتھ رہنے دیں۔۔۔ کسی لمحے بھی اپنے سے جدا نہ فرمائیں۔۔۔ مصطفی کریم ﷺ نے نعلین مبارک کی بھی آواز سن لی ہوگی اور پوچھا ہوگا کہ اے پاپوش کیا چاہتے ہو۔۔۔؟ پاپوش مصطفی ﷺ ادب سے گویا ہوئے: آقا ﷺ ! جب آپ فرمارہے تھے کہ جس نے مجھ سے محبت کی اور میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا تو حضور! گزارش اور التجا اتنی ہے کہ ہمیں جنت نہیں اپنی فرمانبرداری اور اطاعت میں رکھیں۔۔۔ ہمیں آپ ﷺ کے قدمین کے لمس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔ ہمیں آپ ﷺ سے جدائی قبول نہیں ہے۔
عقل والو! عشق بازی لے گیا۔ (سبحان اللہ) فرمانبرداری، محبت اور اطاعتِ مصطفوی ﷺ کا حقیقی مفہوم اور مقام پاپوش مصطفی نے سمجھادیا اور شب معراج پاپوش مبارک کی بھی معراج ہوگئی۔ محمد عربی احمد مجتبیٰ ﷺ نے رحمۃ للعالمینیت کی حد کردی۔ اطاعت اور غلامی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو زندگی میں جنت کی بشارت دی۔۔۔ استن حنانہ کو اطاعت گزاری میں جنت منتقل کردیا۔۔۔ اور سفرِ طائف میں وفاداری، اطاعت گزاری اورمحبت رسول ﷺ میں رونے پر نعلین مبارک کو بھی سفرِ معراج کے دوران جنت جانے کا شرف عطا کردیا۔
شب معراج سدرۃ المنتہیٰ پر جب آقائے مصطفی کریم ﷺ پہنچے تو جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کیا: آقا میری منزل اورمیرا مسکن آگیا ہے،آگے عالمِ ھو اور حدودِ لامکاں اور منزلِ حق تعالیٰ (قاب قوسین) ہے، میں آگے نہیں جاسکتا۔ میرے پَر جل جائیں گے۔
خاکی اور نوری کی گردان الاپنے والو! نوریوں کے سردار جناب جبرائیل علیہ السلام سدرہ پر رک گئے جبکہ پاپوش مبارک کو محبوبِ خدا ﷺ نے دونوں شانیں عطاکردیں۔ پاپوش مبارک کو خون مصطفی کو اپنے اندر جذب کرنے پر اور سفر طائف کی سنگت کے صدقے شب معراج عرش پر ہمراہِ محمد رسول اللہ ﷺ جانا نصیب ہوا اور جب آپ ﷺ نے جنت کی سیر کی اور جنت ملاحظہ کی تو پاپوش مبارک کو بھی جنت نصیب ہوگئی۔ پاپوش مبارک تیری خوش نصیبی کو سلام۔۔۔ تجھے مصطفی ﷺ کے قرب اور جنت دونوں کا شرفِ عظیم ملا۔