نظام المدارس پاکستان و منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِاہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیرِ قرآن، حدیثِ نبوی ﷺ اور سیرتِ طیبہ پر تصنیف کردہ 5 نئی کتب؛ الفتح الکبیر فی علوم التفسیر،تفسیر سورۃ الفاتحہ، القول المبین فی تفسیر ایاک نعبد و ایاک نستعین، الروض الباسم من خلق النبی الخاتم ﷺ اور الانوار من سیرۃ سید الابرار ﷺ کی رونمائی کی عظیم الشان تقریب ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہوئی۔ یہ تقریب عشقِ رسول ﷺ اور علمی تجلیات کا ایک حسین امتزاج بن گئی اور ایک روحانی اور فکری محفل کا روپ اختیار کر گئی۔ 8 ستمبر 2025 ءکو منعقد ہونے والی یہ تقریب سعیداپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد اور یادگار اجتماع تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی یہ نئی علمی و فکری تصانیف حضور نبی اکرم ﷺ کی 1500 سالہ میلاد کی نسبت سے پیش کی گئیں، جو درحقیقت علم و حکمت اور عشق و محبت کا ایسا حسین سنگم ہیں جس کی مثال عصرِ حاضر میں شاید ہی ملتی ہو۔
چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، علماء، مشائخ، وکلاء، اساتذہ، طلبہ، جملہ مرکزی قائدین اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے نمایاں خواتین و حضرات نے اس اجتماع میں شرکت کی، جس سے یہ محفل ایک علمی و فکری گلدستے کی صورت اختیار کر گئی۔ اس محفل کا آغاز کلامِ الٰہی کی پاکیزہ تلاوت اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ کی روح پرور صداؤں سے ہوا، جس نے ہر دل کو محبتِ مصطفیٰ میں سرشار کر دیا۔ تقریب میں نقابت کے فرائض محترم عین الحق بغدادی، محترم علامہ اشفاق چشتی اورمحترم ڈاکٹر محمد فاروق رانا نے انجام دیے۔ دورانِ پروگرام ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی نے علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام "ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان" پیش کیا، جس نے ماحول کو مزید باوقار بنا دیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس تقریب میں ویڈیو لنک کے ذریعے براہِ راست شرکت کی۔ انہوں نے ہر مقرر کے دلنشین اور علمی بیان پر تحسینی کلمات اور دعاؤں سے نوازا، جو ان کے وسیع الظرف اور بلند اخلاق کی عکاسی تھی۔ اس تقریب میں مختلف مسالک کے نامور اہلِ علم و دانش نے جس طرح شیخ الاسلام کے علمی اور فکری مقام و مرتبہ کا اعتراف کیا، وہ نہ صرف ان کی عظیم شخصیت کا ثبوت ہے بلکہ معاشرے میں باہمی احترام اور ہم آہنگی کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی امید بھی جگاتا ہے۔ یہ تقریب محض کتب کی رونمائی نہیں تھی بلکہ یہ ایک پیغام تھی کہ علم، محبت اور تحقیق کے ذریعے ہی امت میں اتحاد اور امت کو درپیش مسائل کا حل ممکن ہے۔
اس تقریب میں شریک مہمانانِ گرامی کےخطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:
1۔ محترم علامہ میر آصف اکبر قادری (ناظم اعلی نظام المدارس) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصانیف فکری بیداری، علمی رہنمائی اور عملی زندگی کے لیے ایک چراغ راہ ہیں۔ یہ کتب نہ صرف ایک علمی کاوش ہیں، بلکہ امت مسلمہ کے فکری، روحانی اور عملی مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں فکری انتشار، دینی کم فہمی اور شدت پسندی نے دین کے چہرے کو دھندلا دیا ہے، ایسے میں شیخ الاسلام کی یہ کتب روشنی کا مینار ہیں۔
آج کے دور میں دین کی خدمت کے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو سمجھنا اور ان کا مؤثر جواب دینا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں نظام المدارس پاکستان کا قیام اور اس کا مربوط، جامع، مدلل اور متوازن نصاب دین اسلام کی علمی، روحانی اور فکری ترویج کے لیے ایک مبارک قدم ہے۔ نظام المدارس پاکستان، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر سرپرستی قائم ہونے والا ایک تعلیمی بورڈ ہے جس کا مقصد دینی تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، روایتی علوم کے ساتھ عصری فہم فراہم کرنا اور متوازن مذہبی قیادت پیدا کرنا ہے۔
شیخ الاسلام کی تصانیف کا دائرہ کار محض ایک یا دو علوم تک محدود نہیں۔ آپ کی کتب تفاسیر، اصولِ تفاسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تصوف، سیرت، علم الکلام، بین المذاہب مکالمہ، دہشت گردی کے خلاف فکری بیانیہ اور عصرِ حاضر کے چیلنجز جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہی تنوع مدارسِ دینیہ کے طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہے، کیونکہ یہ کتب انہیں محدود نہیں کرتیں، بلکہ ان کے علم کو عصری افق تک وسعت دیتی ہیں۔ شیخ الاسلام کی تحریریں اسلام کے روحانی، اعتقادی اور فکری پہلوؤں کو نہایت معتدل انداز میں پیش کرتی ہیں۔ آج کے دور میں جب انتہا پسندی اور فکری انحراف دین کے چہرے کو مسخ کر رہا ہے، ایسے میں شیخ الاسلام کی کتب طلبہ کو ایک متوازن، مدلل اور باعمل سوچ فراہم کرتی ہیں۔
شیخ الاسلام کی علمِ تفسیر، علمِ حدیث، سیرت اور اخلاقِ حسنہ پر آنے والی یہ کتب ان شاء اللہ نظام المدارس پاکستان کے نصاب کا حصہ بنیں گی اور نظام المدارس پاکستان میں زیر تعلیم ہزاروں طلبہ اور طالبات شیخ الاسلام کی اس علمی خدمت کے وارث ہیں جو مدارس دینیہ کے اندر دین اسلام کی ترویج، اشاعت اور فروغ کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز یہ مدارس جس طرح شیخ الاسلام کی کتابیں پڑھ رہے ہیں، ایسے ہی شیخ الاسلام کے نظر، سوچ اورمتوازن فکر کو معاشرے کے ہر فرد تک پہنچائیں گے۔
2۔ محترم خرم نواز گنڈا پور ( ناظم اعلی منہاج القرآن انٹرنیشنل) نے استقبالیہ کلمات میں تمام مہمانانِ گرامی، مشائخ عظام، علمائے کرام، مختلف دینی مدارس کے سربراہان، ریسرچ سکالرز، اساتذہ اور حاضرینِ مجلس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام کے ہمہ جہتی کام کو دیکھتے ہوئے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام کس طرح دنیا بھر میں تنظیمات کو بھی دیکھتے ہیں، مسلسل سفر میں بھی رہتے ہیں، تصنیف و تالیف اور خطابات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور تعلیمی اداروں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔ یہ اللہ کی طرف سے عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ سعادت اپنے چنیدہ بندوں کو دیتا ہے۔ یہ سب اللہ کی توفیق کی بدولت ممکن ہے کہ وہ اللہ کے قرآن حکیم اور تاجدارِ کائنات ﷺ کے عشق کا پیغام گلی گلی، نگر نگر اور ملک ملک پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
نظام المدارس پاکستان کے قیام کے وقت ہماری فکر اور سوچ یہ تھی کہ دینی تعلیمات زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں، لیکن دورِ حاضر کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جو ہر دور میں مختلف ہوتے ہیں، اگر ان کا احترام نہ کیا جائے اور ان سے استفادہ نہ کیا جائے تو شاید آپ کا پیغام اتنا مؤثر نہ ہو۔ چنانچہ اس نصاب کی تبدیلی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا۔ الحمدللہ، اس کارِ خیر کا سہرا بھی شیخ الاسلام کے سر ہے کہ نظام المدارس کے مکمل نصاب کا جائزہ لیتے ہوئے اسے از سر نو مرتب کیا گیا۔ ہمیں امید ہے کہ تمام دینی مدارس اس جدید نصاب سے فائدہ بھی اٹھائیں گے اور دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کریں گے۔ آج کی مغربی تہذیب کی یلغار کا تدارک کرنا ہمارے سکالرز، مدارسِ دینیہ کے اساتذہ اور آج کے محققین کی ذمہ داری ہے۔ ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس مملکتِ خداداد میں اسلام کی ترویج کریں اور اپنی اولاد کو بھی تلقین کریں کہ وہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہوں، استفادہ کریں اور اس کے نفاذ کا باعث بنیں۔
3۔ محترم مولانا امیر حمزہ (سربر تحریک حرمت رسول) نے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آج شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی کتب اور منہاج القرآن کے تعارف کے سلسلے میں اتنی شاندار تقریب میں گفتگو کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ جب میں موجودہ دور کے فتنوں اور اپنے پاکستان کو دیکھتا ہوں، تو مجھے یاد آتا ہے کہ کچھ سال پہلے یہاں فتنۂ خوارج نمودار ہوا۔ یقین جانیے، پہلی بار علماء کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ خارجی کون ہوتے ہیں۔ پوری دنیا پریشان تھی کہ یہ لوگ لمبی داڑھیاں رکھے، نعرہ تکبیر بلند کرتے اور جہاد کے نعرے لگاتے ہوئے پولیس پر حملہ کر رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ پاکستان کے اندر سب سے پہلے اگر کسی نے خارجیت کے بارے میں کتابیں لکھیں تو وہ حضرت شیخ الاسلام تھے۔ باقی لوگوں اور دیگر مسالک نے، حتیٰ کہ میں نے خود بھی کتاب لکھی، لیکن اس کا آغاز کرنے والے، رہنمائی دینے والے اور نور پھیلانے والے حضرت شیخ الاسلام ہی تھے۔
منہاج القرآن کے مدارس کا سلسلہ بھی باکمال ہے اور ان کی یونیورسٹی بھی باکمال ہے۔ مزید یہ کہ نوے ممالک میں اسلام کی دعوت کے لیے منہاج القرآن کے دفاتر قائم ہیں، یہ سب سے بڑا کمال ہے۔ ہم مغربی تہذیب کے سامنے بند باندھنے کی بات کرتےہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم تو صرف سوچتے ہی رہے کہ مغربی تہذیب کے سامنے بند کیسے باندھیں؟ یہ کریں، وہ کریں، فلاں کریں اور تقریریں کرتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرمضبوط بند بندھے گا تو یہ نوے ممالک میں موجود منہاج القرآن کے مراکز اور شیخ الاسلام کے وجود کے ذریعے بندھے گا۔
یاد رکھیں کہ جب بھی سیلاب آتے ہیں اور خطرات لاحق ہوتے ہیں تو ان دریاؤں اور خطرات کے سامنے بند باندھنے کے لیے اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ بند باندھنے میں صرف مسلمانوں کو بلایا جائے، صرف بریلویوں کو بلایا جائے، صرف وہابیوں کو بلایا جائے، صرف شیعہ کو بلایا جائے، یا صرف دیوبندیوں کو بلایا جائے یا صرف غیر مسلموں کو بلایا جائے۔ بند باندھنے کے لیے سب کو بلایا جاتا ہے۔ اسی طرح جب حضور کی حرمت کے لیے، قرآن کی عزت کے لیے، اسلام کے پھیلاؤ کے لیے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اور اسلام کے پیغامِ امن کے لیے بند باندھا جائے گا تو پھر سب کو بلانا ہو گا۔ ، جس طرح شیخ الاسلام نے آج بھی اور پہلے بھی اپنے ہر پروگرام کے اندر بلا تفریق مسلک و مذہب ہر ایک کو دعوت دی۔ آج بھی ہمیں اسلام کی بقا کے لئے شیخ الاسلام کی قیادت میں اکٹھا ہونا پڑے گا۔
حجرِ اسود کی تنصیب کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے تمام قبائل کو کمال بصیرت کے ساتھ موقع فراہم کیا۔ حجر اسود کو اپنی کملی مبارک پر رکھا، تمام قبائل نے اس چادر مبارک کو تھاما اور آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے نصب فرما دیا۔ آج بھی سب قائدین کو ایسا کرنا ہوگا۔ شیخ الاسلام کو موقع ملا ہے، وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ امت کے اتحاد اور اسلام کے پیغام ِ امن کے فروغ کے اس بھاری پتھر کو اٹھائیں اور ہم سب چادر کے کونے پکڑنے والے بن جائیں۔ شیخ الاسلام آج اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں اور ہم ایسی ہر دعوت میں حاضری کو اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔
4۔ محترم علامہ پیر سید شمس الرحمان شاہ مشہدی (سجادہ نشین عالیہ حسین آباد شریف و ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان) نے تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری گفتگو کا موضوع شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصنیف القول المبین فی تفسیر ایاک نعبد و ایاک نستعین کا تعارف ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہ نے اس خوبصورت تصنیف میں اس حقیقت کو بڑی بخوبی واضح کیا ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی جامع ترین صورت سورۂ فاتحہ ہے، اسی طرح سورۂ فاتحہ کی جامع ترین آیتِ مبارکہ ایاک نعبد و ایاک نستعین ہے۔ جس طرح قرآن مجید کا سر اور لب لباب سورۂ فاتحہ ہے، اسی طرح سورۂ فاتحہ کا سر اور لب لباب یہ آیتِ مبارکہ ہے۔ ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت تصنیف اس آیتِ مبارکہ کے حوالے سے کم و بیش سات خوبصورت موضوعات اور پہلوؤں پر گفتگو کرتی ہے:
سب سے پہلے اس میں آیتِ مبارکہ کے سیاق و سباق کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح الحمدللہ رب العالمین سے لے کر تدریجاً یہ ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچی اور کس طرح اگلی آیات کے ساتھ اس کا خوبصورت تعلق بندھا ہوا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا خوبصورت موضوع حقیقتِ عبادت اور عبودیت ہے۔ تیسرا خوبصورت موضوع عبادت کرنے والوں کے طبقات کا بیان ہے۔ چوتھا خوبصورت موضوع اس خوبصورت تصنیف میں محبت اور "بر" کا آپس میں تعلق ہے۔ پانچواں خوبصورت ترین پہلو جو اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، وہ تعظیم اور عبادت میں فرق ہے۔ چھٹا خوبصورت موضوع اس بے مثل و بے مثال تصنیف کا حقیقتِ استعانت کی تفسیر ہے۔ ساتواں اور بے مثل موضوع اور خوبصورت پہلو اس تصنیفِ لطیف کا یہ ہے کہ توسل، توکل اور شفاعت کے حوالے سے جو شبہات آج کل پیدا کیے جا رہے ہیں،ان شبہات کا ازالہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے بے مثل اسلوب کے ساتھ کیا ہے۔
بلاشبہ، یہ خوبصورت تصنیف اس لحاظ سے حسن کا کمال ہے کہ یہ تحقیق کے ساتھ ساتھ ادبی بلاغت کا رنگ بھی رکھتی ہے۔ یہ فکری حسن کے ساتھ ساتھ عشق اور روحانیت کا خوبصورت رنگ بھی رکھتی ہے اور کیوں نہ رکھے، اس لیے کہ اسے پنجتنِ پاک کے سچے اور سُچے غلام نے لکھا ہے۔
علم کا شعار 'القول المبین عشق کا معیار 'القول المبین
علم اور روحانیت کا امتزاج، مخزنِ اسرار 'القول المبین
مشہدی، طاہر پیا ہیں بے مثال اس کا ایک اظہار 'القول المبین
5۔ محترم سید ارشاد عارف (سینئر صحافی و کالم نگار)نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا علم و فضل، ان کی تصانیف اور ان کی روحانی و دینی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کی کتاب ’’الانوار من سیرت سید الابرار ﷺ ‘‘ میں اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ، آپ کی سیرت اور آپ کے اخلاق سے عوام، لوگوں اور انسانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ ان شاہانہ طریقوں کو جو تعلیماتِ اسلام سے انحراف کے باعث مسلمانوں میں رواج پا گئے، انہیں اسلام، اسلامی تعلیمات یا حضور ﷺ کی تعلیمات کا ماخذ یا نتیجہ نہ سمجھیں۔ "انوار السیرت" کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ ایک عادل، ایک استاد، ایک معلم، ایک سپہ سالار، ایک والد، ایک شوہر اور ایک قائد کے طور پر حضور ﷺ کا اندازِ فکر کیسا تھا۔
اس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاق عالیہ کے حوالے ایسی باتیں میرے علم میں آئی ہیں جو عام طور پر ہمارے بہت سے مبلغین بیان نہیں کرتے اور نہ ہی بیان کرنا انہیں گوارا ہے۔ ہم نے کچھ اور ہی طرح کا دین لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس لیے قابلِ صد مبارک باد اور قابلِ داد ہیں کہ انہوں نے دین کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی اور حضور ﷺ کی اصل سیرت کو لوگوں کے سامنے رکھا۔ آج ہم حضور ﷺ کی سیرت کو چھوڑنے، اسے چھپانے اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے باہم دست و گریباں ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا جنازہ پڑھنے اور ایک دوسرے سے سلام کرنے یا سلام کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں، نماز ایک دوسرے کے پیچھے پڑھنا تو بعد کی بات ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے "انوار السیرت" کے ذریعے ہمیں حضور ﷺ کی تعلیماتِ مبارکہ سے دوبارہ آگاہ کیا۔ اب یہ ہمارا فرض اور ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نہ صرف ان کی کتابوں اور تعلیمات کو پڑھیں اور ان سے سبق حاصل کریں، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنواریں۔
6۔ محترم ڈاکٹر معین نظامی (ممتاز دانشور ومفکر) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے تو یہ شرف اور سعادت کافی ہے کہ میں آج کے اس باوقار مجمع میں حاضر ہوا ہوں۔ آج بنیادی طور پر عالمِ اسلام کی ایک عظیم الشان شخصیت کی پانچ تصانیف کی رونمائی ہے اور پانچ کا عدد بذاتِ خود بہت معنویت کا حامل ہے۔ تمام ادیان اور بالخصوص اسلام میں اس کی جو فضیلت ہے اور اس سے ہماری جو دل بستگی ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ ادبی دنیا میں بھی ہماری مشرقی روایت میں پانچ کتابوں کا ایک مجموعہ بہت ہی معروف ہے، جسے "خمسہ نظامی گنجوی" یا "پنج گنج" بھی کہتے ہیں۔ جب فارسی دینی مدارس میں رائج تھی، تو اس کی کچھ کتابیں طلبہ کو پڑھنی پڑتی تھیں۔ آج جو پانچ تصانیف آپ کے سامنے موجود ہیں، اگر انہیں "خمسہ قادری" یا "پنج گنج طاہری" کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ یہ اللہ کی طرف سے توفیق اور تائید ہے کہ اس گئے گزرے زمانے میں جس قدر فضائل، مکارم، صلاحیتوں اور استعداد کا اجتماع ان کی ذات میں ہے، یہ بہت کم ہوتا ہے۔ بہت خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جنہیں جتنی صلاحیتیں عطا کی جائیں، وہ ان کا بھرپور اور بہتر استعمال کر سکیں اور ان کا استعمال اثر انداز بھی ہو اور اس میں رجحان سازی کے پہلو بھی موجود ہوں۔ ایک شخص جس نے پچاس سال سے زیادہ عرصے تک معارفِ الٰہیہ، فیضانِ مصطفویہ اور عرفانِ مرتضوی کو ہر سطح پر پہنچایا اور پھیلایا ہو، اس سے بڑا خوش نصیب کون ہوگا؟
کچھ صفات اور صلاحیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اجتماع کسی ایک ذات میں بالعموم نوادرات میں سے ہوتا ہے۔ یہ صلاحیتیں بہت شاذ و نادر ہی ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہیں۔ بطور مثال، اگر ہم اپنی پوری اسلامی تاریخ یا جنوبی ایشیا کی تاریخ دیکھیں تو اس میں اگر کوئی عظیم الشان شعلہ بیان خطیب ہے تو اس کا تصنیفی پہلو اتنا بلند و بالا نہیں ہو گا، یا اگر اس کے ہاں تصانیف موجود ہیں تو ان کا معیارِ تحقیق یا اندازِ پیشکش وہ نہیں ہوگا۔ کوئی بہت عظیم الشان مدرس ہے اور اس سے خلقِ خدا نے فیض پایا ہے، لیکن اس کے ہاں تصانیف نہیں ہوں گی یا بہت کم ہوں گی۔ کیونکہ یہ مختلف استعدادات ہیں، جو بظاہر جڑی ہوئی نظر آتی ہیں، مگر یہاں ہمیں ایک استثنائی صورت نظر آتی ہے۔ وہ استثنائی صورت ہمیں بہت قدیم زمانوں میں اپنے اکابر میں نظر آتی تھی یا آج ان کے ہاں نظر آتی ہے۔ اگر شیخ الاسلام کی خطابت دیکھیں، علمِ تصنیف دیکھیں، تدریس دیکھیں تو اگر ان کی گزشتہ پچاس ساٹھ سال پر مبنی علوم و معارفِ اسلامی پر گفتگو دیکھیں اور آپ کو وہاں تکرار نہ ملے، سامع آپ کی بات سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے تو آپ اسے کرامت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔
ہم لوگ بدقسمتی سے اس خطے کے لوگ، خصوصاً مسلمان، اپنے اکابر کی قدر شناسی میں یا ان کے اعترافِ عظمت میں تاخیر کرتے ہیں۔ کوئی پیکرِ عظمت ہمارے دل میں جلدی نہیں اترتا۔ ہمیں ایسی ہستی کو غنیمت جاننا چاہیے جس سے اللہ اور اس کا رسول ﷺ اپنے دین کی خدمت کا کام لے رہے ہیں۔ ؎ مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم نے
ہمارے تو گھر میں سورج اور چاند ہیں اور ہم ان مٹی کے دیوں کی دریوزہ گری کر رہے ہیں جو جلنے کا ہنر بھی نہیں جانتے۔ پھر ان تمام صفات کا حامل ایک شخص اگر ادارے قائم کرتا چلا جائے اور پھر ان اداروں کو مستحکم بنائے تو یہ بھی حیران کن عمل ہے۔ یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ آپ کا پچاس ساٹھ سال کا جو سفر ہے، اس میں آپ کا تسلسل اور تواتر بھی برقرار رہے اور وہ سفر مسلسل ترقی کی طرف گامزن رہے۔ جیسے آپ زینہ بہ زینہ اوپر جا رہے ہوں۔
میرے لیے حضرت والا کی تصانیف سے استفادہ سعادت ہے۔ شیخ الاسلام کی تصنیفات رسولِ معظم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ان پہلوؤں کے بیان سے متعلق ہیں،جن میں سماجیات، معاشرت اور ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن رہن سہن کی تعلیم دی گئی ہے۔ ان کتب کی زبان بہت آسان، قابلِ فہم اور عالمانہ وقار کی حامل ہے۔ حضرت کی جتنی بھی کثیر تصانیف ہیں، ان تصانیف کی ایک معجم تیار ہونی چاہیئے۔ ان میں جو اسلوب کی روانی اور بیان کی دل پذیری ہے، وہ بھی بہت دلکش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کی قدر کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں برکات عطا فرمائے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم ان کی تحریروں اور تقاریر سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو سکیں۔
7۔ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤوف رفیقی (ماہراقبالیات و ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان) نے تقریب کے شرکاء سے مخاطب ہوئے ماضی کی حسین یادوں کا تذکرہ کیا کہ حضرت کی تصنیفات، تالیفات اور خطابات سے ہم گزشتہ تین دہائیوں سے مستفید ہوتے آ رہے ہیں۔ آج سے چالیس سال میں سائنس کالج کوئٹہ کے آڈیٹوریم میں حضرت شیخ الاسلام کے درسِ قرآن میں شریک ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کے خطاب کے بعد حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا کہ جب قرآن ایک ہے، پیغمبر ﷺ ایک ہیں، حرم ایک ہے اور خدا ایک ہے، تو یہ فرقے اور مسالک کا کیا مطلب؟ کوئی ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتا ہے، کوئی زیرِ ناف، کسی کی پگڑی سبز ہے، کسی کی سفید ہے۔ یہ ایک عجیب سوال تھا، خصوصاً ایک ایسے دور میں جب کفر، الحاد اور مادیت کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہو۔ حضرت شیخ الاسلام نے جس بصیرت افروزی کے ساتھ اس سوال کا جواب دیا، یقیناً میرے لیے کئی ابہامات کے ختم ہونے کا باعث بنا۔ ان کے جواب کے کچھ الفاظ ملاحظہ ہوں جو چالیس سال بعد بھی میرے حافظہ میں نقش ہیں۔ حضرت نے جواب دیا: " یہ فرقے اور مسالک اختلاف کی بات نہیں ہے۔ یہ فلسفۂ رمزِ عشق ہے۔ محبوب (پیغمبر ﷺ ) نے کبھی سبز عمامہ پہنا تو عاشقوں نے ان کی اس ادا کو روزِ حشر تک محفوظ کرنے کے لیے ایک مکمل طبقہ پیدا کیا جو سبز عمامہ پہنتا چلا جا رہا ہے۔ محبوب نے کبھی ہاتھ باندھ کر نماز ادا کی تو عاشقوں نے اس ادا کو کرنے کے لیے ایک مکمل فرقہ تشکیل دیا۔ محبوب نے کبھی زلفیں رکھیں تو ایک مکمل طبقہ زلفیں رکھتا نظر آتاہے۔ "
آج میں حضرت کی تصنیفات کو دیکھا، ان میں جس ترتیب اور تزئین سے یہ چیزیں پیش کی گئی ہیں،مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی۔ بالخصوص ایسے دور میں جب مادیت غالب ہوتی جا رہی ہو، جب آپ کی علمی درس گاہوں سے ایسے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہوں جو اپنا "سی وی" لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے "ایچ آر" کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں، جو مادیت کے غلبے سے مغلوب ہوتے جا رہے ہیں، ان کو رمزِ عشق کی معنویت سے آگاہ اور آشنا کرنے کے لیے جدید سائنسی اور تحقیقی انداز میں سیرت کو زمینی حقائق سے جوڑ کر الٰہیات تک پہنچانے کی جو کوشش کی گئی ہے، وہ بہت عمدہ کاوش ہے۔ خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر شیخ الاسلام کی نذر ہے:
ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
جس کا دل عشق کی وجہ سے زندہ ہو گیا، وہ کبھی نہیں مرتا۔ ہماری ہمیشگی دنیا کی تاریخ میں ثبت ہو چکی ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
ہر کہ عشقِ مصطفیٰ سامانِ اوست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست
جس کسی نے آقا علیہ السلام کے عشق کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنا لیا تو خشکی و تری تمام چیزیں اس کے گوشۂ داماں میں سمٹ آتی ہیں۔
8۔ محترم صاحبزادہ پیر سید عتیق الرحمان شاہ بخاری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بوکن شریف گجرات و ممبر اسلامی نظریاتی کونسل) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پہلے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ "چالیس سال پہلے میں نے آپ کا یہ درس اور یہ سبق سنا۔ " میری تو ابھی اتنی عمر نہیں ہے، لیکن میں یہ بتا سکتا ہوں کہ میرے جیسے نوجوانوں کو، جن کا تعلق میرے زمانے سے ہے، اگر صحیح معنوں میں عشقِ رسول کی تفہیم ملی ہے تو وہ شیخ الاسلام ہی سے ملی ہے۔ کامیاب ترین انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے بیٹے کو بھی اتنا ہی کامیاب بناتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے بہت کچھ کر کے جاتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ بڑا انسان وہ ہے جو جتنا کامیاب اپنی جسمانی اولاد کو بنائے، اتنا ہی کامیاب اپنی روحانی اولاد کو بھی بناتا ہے۔ آج سے 74 سال پہلے جھنگ کی وادی میں اللہ کی رحمت سے تشریف لانے والے شخص کو ان کے والدین نے صرف نام کا طاہر نہیں بنایا بلکہ کام کا بھی طاہر بنایا ہے۔ یہ ماں کی پاکیزگی، یہ باپ کی طہارت ہے جو چہرے کی شرافت اور پیشانی کی چمک بن کر چمکتی ہے۔ ایک ہی ذات میں اتنے فضائل کا جمع ہونا اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ فضائل اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ گود بھی پاکیزہ ملی ہے، رزق بھی پاکیزہ ملا ہے اور پھر سیرتِ رسول کے بعد منہاج القرآن کا علم بھی پاکیزہ ملا ہے۔ وہ خود بھی طاہر ہیں اور ان کے مرشد گرامی بھی طاہر ہیں۔ جہاں دو طہارتیں مل جاتی ہیں، وہاں فیضانِ سیدہ زہرا کی چادرِ تطہیر شروع ہو جاتی ہے۔ حضور سیدِ عالم ﷺ کی والدۂ ماجدہ حضرت آمنہj نے وقتِ وصال وصیت فرمائی تھی، ان کا ایک جملہ آج بھی صادق آتا ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا: و ذکری باق و قد ترکت خیرا و ولدت طہرا میں ظاہراً تو دنیا سے چلی جاؤں گی، لیکن جب تک آپ ( ﷺ ) کا ذکر زندہ رہے گا تب تک میرا ذکر بھی زندہ رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بیٹا پیدا نہیں کیا، میں نے خیر کو چھوڑا ہے۔ میں نے جسم اور وجود پیدا نہیں کیا، بلکہ میں نے طہارت کے مرکز کو پیدا کیا ہے۔
میرے جیسے کتنے نوجوان اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام کے زمانے میں رہ کر رمزِ عشق ہمارے سینوں میں بھڑکی ہے۔ آپ کا نام اور آپ کا مقام آپ کے جسم اور وجود کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کی تدریس، اور تقریر قیامت تک بولے گی اور لوگوں کو بتایا جائے گا کہ ایک ایسا بھی آیا تھا جو جہان دانش بن کر گیا۔ شیخ الاسلام نے فاذکرونی کا حق ادا کیا ہے، اس لئے اب جب اذکرکم ہو گا تو زمانہ بولتا رہے گا مگر پھر بھی کہے گا:
ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے
ابھی میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے
9۔ محترمہ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین (ڈائریکٹر ادارہ زبان و ادبیات اردو) نے اس تقریب میں لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے 1500 سالہ جشنِ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کی مناسبت سے اپنی پانچ کتابیں پیش کیں۔ میری دانست میں یہ نبی مکرم ﷺ کے حوالے سے ایک ایسا علمی تحفہ ہے جس پر جتنی بھی ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کی جائے وہ کم ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب کا ایک بہت بلند مقام ہے، خاص طور پر قرآن و سنت اور نبی پاک ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی روشنی میں تربیت دینے کے حوالے سے۔ ان کی تمام کتب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ما قبل کی تمام تحقیقات کو سامنے رکھ کر آج کے دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ ہم اکثر مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کے حل کو بھول جاتے ہیں مگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اس لحاظ سے نہایت محترم ہیں کہ انہوں نے ہر دور کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنی تحریریں پیش کیں۔ یہ پانچ تصانیف ہماری اکیسویں صدی کے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے حل کرتی ہیں۔ انہوں نے ان مسائل کا براہِ راست ذکر نہیں کیا، لیکن ان کا علاج ان میں موجود ہے۔
میں نے ان کی کتابوں کا خلاصہ اور تعارف دیکھا تو میں حیران رہ گئی کہ عربی اور اردو دو زبانوں کی لسانی مطابقت یا تاثیر کی حامل یہ کتب ایسی ہیں کہ یوں سمجھ لیں کہ مصنف نے قاری کی انگلی پکڑ کر چلایا ہے۔ عام طور پر اسلامی کتابوں میں مصادر کا ذکر اتنا نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر واقعات، کہانیاں اور قصے جمع کر دیے جاتے ہیں جن کے حوالے ہمیں معلوم نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی یہ کتاب، جو عبادت اور استعانت کا احاطہ کرتی ہے، اس میں سو سے زائد حوالے دیے گئے ہیں۔ یہ سو سے زائد حوالے کسی بھی ایک موضوع پر بہترین کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ ایک اچھا لکھنے والا ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے کہ جو اس کا بہترین ماخذ ہے، صرف اسی کو حوالے میں شامل کرتا ہے۔ یہ کتب روانی اور تسلسل کی مثال ہیں اور ان میں کہیں ابہام یا مشکل نہیں۔
ذاتی طور پر مجھے ان کتب سے بہت فائدہ ہوا اور مجھے بہت لطف آیا۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایسی کتب لکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کتب کے مطالعے سے ہماری نئی نسل پر علم و فکر کانیا دریچہ کھلے گا۔ اتنی تفصیل اور تمام حوالوں کے ساتھ بات کرنا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔ ہمیشہ ایسی باتیں اور ایسے کام زندہ رہتے ہیں جو اخلاص سے کیے گئے ہوں اور کرنے والا ایک مخلص شخص ہو۔ کیونکہ اخلاص اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور جو اسے پا جاتا ہے اس کا کام بھی قبول ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے یقیناً اس راز کو پا لیا ہے۔
10۔ محترم اوریا مقبول جان (سینئر صحافی و کالم نگار) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "ام الکتاب" پڑھی جو سورۃ فاتحہ کی تفسیر تھی اور تقریباً سو صفحات پر مشتمل تھی۔ کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد بعض دفعہ انسان سیر ہو جاتا ہے کہ اب شاید کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں رہی لیکن بعض اوقات آپ کتاب پڑھتے ہیں تو آپ کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ چالیس سال پہلے اس کتاب نے جو تشنگی پیدا کی تھی، آج چالیس سال بعد سورۃ فاتحہ پر لکھی گئی شیخ الاسلام کی کتاب کو دیکھ کر وہ تشنگی مکمل ہوئی۔ جو سوالات میں سمجھتا تھا کہ وضاحت طلب ہیں، جن پر ابھی قلم نہیں اٹھایا گیا، وہ شیخ الاسلام نے اس کتاب کے اندر پورے کیے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ جب مجھے شیخ الاسلام کی یہ کتابیں ملیں تو میرے لیے خوشی کا سب سے پہلا لمحہ یہ تھا کہ میرے جیسے کم علم شخص کے جو سوالات چالیس سال پہلے پیدا ہوئے تھے، جن کا جواب صاحبانِ علم دیا کرتے ہیں، وہ جوابات مجھے میسر آ گئے۔ آج میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت کو پیدا کیا ہے جو اپنے عہد کے اندر بھی اور اس سے پہلے کے عہد کے اندر بھی جو سوالات تشنہ رہ گئے تھے ان کا جواب دے رہے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ عموماً دو طرح کے ادیب اور علمائے کرام ہمارے درمیان ملتے ہیں:ایک وہ جو اپنے عہد کے سوالات کو چنتے ہیں اور پھر ان کا جواب دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو پچھلی تشنہ باتوں کی کہیں نہ کہیں خانہ پُری کرتے ہیں۔ لیکن یہ کمال صرف اور صرف میں نے شیخ الاسلام میں دیکھا ہے کہ وہ گزرے ہوئے اور آج کے عہد کے درمیان موجود سوالات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کا کام بہت ضخیم اور بڑا ہو جاتا ہے، لیکن کام کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کی تسلی اور تشفی کرے۔
شیخ الاسلام کا کمال یہ ہے، جو میں نے ان کی تمام کتابوں میں دیکھا ہے کہ ان کی کتابیں انسائیکلوپیڈیا کی طرح تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب ایک شخص عبادات کو صرف ایک "ورزش" کے طور پر نہیں لیتا بلکہ اس کے اندر شعور کے ساتھ ساتھ روح پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے یہ سب نصیب ہوتا ہے او ر یہ صرف اسی شخص کو نصیب ہوتا ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بصیرت، بصارت اور علم اپنی بارگاہ سے عطا کیا ہو۔
11۔ محترم علامہ ڈاکٹر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ جمیعت الحدیث پاکستان) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ربیع الاول کی مناسبت سے ہمارا یہ اجتماع نہایت مبارک اور روح پرور ہے۔ اس کی خوشبو میں اس لحاظ سے اور بھی اضافہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کامل رحمت اور خاص توفیق کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کو مزید عظمتوں اور عزتوں سے سرفراز کیا گیا ہے کہ ان کے قلمِ مبارک سے آج پھر الحمدللہ پانچ بہت ہی روح پرور اور بصیرت آمیز کتابوں کی رونمائی ہو رہی ہے۔ ایں سعادت بہ زور بازو نیست۔ انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ کی رحمت، اس کی پسند اور اس کا انتخاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی کو، جو ہمارے بزرگ اور رہنما ہیں، انہیں یہ شرف بخشا۔ اللہ ان کا سایہ ہم پر دیر تک سلامت رکھے۔
میں اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی نے قرآنِ مجید کی تدریسی یا تحریری طور پر خدمت انجام دی تو ہم نے محبت کے ساتھ ان کے نام کے ساتھ "شیخ القرآن" یا "شیخ التفسیر" لکھا۔ اگر کسی کو اللہ نے یہ سعادت بخشی کہ انہوں نے حدیثِ نبوی کی تدریس، تبلیغ، تحریر اور شرح کے ذریعے خدمت کی تو ہم نے انہیں "شیخ الحدیث" کا لقب دیا۔ اگر کسی نے سیرتِ مبارکہ پر لکھا تو ہم نے انھیں"سیرت سکالر" بلکہ "شیخ السیرۃ" کا لقب دے دیا۔ لیکن جس شخصیت کو اللہ نے یہ توفیق اور شرف بخشا کہ وہ جب لکھنے اور بولنے پر آئے تو انھوں نے قرآن کی تفسیر پر لکھا علومِ قرآن پر لکھا، نبی پاک علیہ السلام کی احادیث پر جلدوں پر جلدیں اردو، انگلش اور عربی میں لکھیں، سیرت کی بات آئی تو اس پر لکھتے اور بولتے چلے گئے تو کیوں نہ ہم انھیں شیخ الاسلام کہیں۔
سیرت و اخلاق نبوی پر شیخ الاسلام کی ان تصنیفات کے نام بھی اللہ کی توفیق کے ساتھ الہامی محسوس ہوتے ہیں اور ان کے مشمولات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ شیخ الاسلام کی ان کتابوں کے اندرمیں نے جو نظم و ضبط اور علمی اسلوب دیکھا ہے، جو ترتیب دیکھی ہے، میں حیران ہوتا ہوں کہ مصادر اور مراجع سے سارا نچوڑ اور مکھن نکال کر اس قدر ترتیب اور اتنے شگفتہ اور مبارک الفاظ کا چناؤ کر کے بیان کر دیا ہے کہ قاری جب پڑھتا ہے تو اس کی روح تازہ ہو جاتی ہے۔ شیخ الاسلام کی کتب کے ابواب و فصول کے عنوانات میں سے ہر عنوان نبی پاک ﷺ کی محبت اور عقیدت سے لبریز نظر آتا ہے۔ ایک ایک لفظ سے رسول اللہ ﷺ کی محبت ٹپک رہی ہے اور میں جب ان کتب کا مطالعہ کر رہا تھا تو میری محبت میں اور اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور یہ شعر بار بار میری زبان پر آ رہا تھا:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
رسول اللہ ﷺ کی آلِ اطہار اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے محبت رکھنا ہی ہمارا معتدل موقف اور مسلک ہے۔ میں شیخ الاسلام سے جو محبت کرتا ہوں، اس کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے کہ انہوں نے اپنی ان کتب میں ان دونوں مقدس طبقات کی محبت کو بھی بیان کیا ہے۔ ان کتب کے اندر شیخ الاسلام نے رسول اللہ ﷺ کے اسوہ، آپ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے اچھے اخلاق کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ اگر کوئی شخص ان کتب کو پڑھ لے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو وہ دنیا کے بہترین مسلمانوں اور کائنات کے بہترین انسانوں میں شمار ہو گا۔
’’تفسیر سورۃ فاتحہ‘‘ اور ’’القول المبین فی تفسیر ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ بھی اپنے اندر علوم و معارف کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ اسی طرح حضرت شیخ الاسلام کو رب نے یہ سعادت بخشی کہ انہوں نے اصولِ تفسیر پر الفتح الکبیر کے نام سے کتاب لکھی اور اس کا نام بھی بڑا بصیرت آمیز رکھا۔ ایک فتنہ اٹھ رہا ہے جو کہتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کی تشریح اور ترجمہ، یعنی متن کی تشریح، ادب کے خلاف ہے اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رکھیے! اس فتنے کے سدباب کے لیے اس دور میں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو ایک منظم، مربوط اور مدون انداز سے، ہمارے اسلاف اور آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرے۔ اللہ نے شیخ الاسلام کو یہ توفیق دی کہ انہوں نے "الفتح الکبیر" جیسی عظیم کتاب کو مدون انداز سے پیش کیا۔ ان کتب کے مطالعے سے انسان اپنی روح میں ایک عجیب بلندی محسوس کرتا ہے اور انسان پکار اٹھتا ہے:
نگاہ بلند، سخنِ دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
ان کتب کے مطالعہ کرنے کے بعد انسان کے دل سے بے ساختہ یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کی عمر میں برکت دے، ان کا سایہ سلامت رکھے اور تحریکِ منہاج القرآن کو اسی قوت اور طاقت کے ساتھ جاری و ساری رکھے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ان شاءاللہ ہم آپ کی اس علمی تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ جو کتاب و سنت کی خدمت اور اللہ و رسول کی محبت کے فروغ کا مشن لے کر نکلے ہیں، نبی پاک کی حرمت کے تحفظ کے لیے جو آپ کاوشیں کرتے ہیں، ہم ان شاءاللہ اس میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ کے معاون اور رفقا ہیں، ان شاءاللہ آپ کا یہ مشن ضرور کامیابیوں سے ہمکنار ہو گا اور اللہ کی نصرت کا حقدار بنے گا۔
12۔ محترم آصف نسوانہ ( صدر لاہورر ہائیکورٹ بار) نے تقریب کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 1500 سالہ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے اس مبارک موقع پر شیخ الاسلام کی ان تصانیف سے بڑھ کر کوئی اور انمول اور بیش قیمت تحفہ نہیں ہو سکتا۔ شیخ الاسلام کی تصانیف اور خطابات ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا علمی ذخیرہ ہیں جس سے ہم قیامت تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی میں شیخ الاسلام کی آواز سب سے زیادہ توانا اور مؤثر ہے۔ ہمیں ان تمام تصانیف سے نہ صرف علمی فائدہ اٹھانا ہے، بلکہ ان کو اپنی عملی زندگی میں بھی شامل کرنا ہے۔ آج اگر ہم اقوامِ عالم میں ذلیل ہو رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم تفسیرِ قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر لکھی گئی اس طرح کی کتب سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں اپنے آپ سے یہ وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم ان تصانیف اور سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے نہ صرف خود فائدہ اٹھائیں گے، بلکہ سیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر آنے والی نسلوں تک بھی منتقل کریں گے۔
13۔ محترم علامہ سید جواد نقوی (مہتمم جامعہ عروۃ الوثقی، صدر مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ تقریبِ سعید جو حضرت شیخ الاسلام کی نئی تحقیق کی رونمائی کے لیے منعقد کی گئی ہے اور ان کے علم کے گلستان سے ایک نیا پھل اس امت کو عطا کیا گیا ہے، اس پر میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس تقریب میں شرکت ہمارے لیے ایک اعزاز اور سعادت ہے۔ جو فیض اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شیخ الاسلام کے وجود سے جاری رکھا ہوا ہے، یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ جو شخص چالیس دن اللہ کے لیے اخلاص اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے دل سے علم و حکمت کے چشمے جاری کر دیتا ہے۔ وہ چشمے کبھی خشک نہیں ہوتے اور وہ فیض اس شخصیت کے ذریعے خلقِ خدا تک پہنچتا رہتا ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کلمۂ طیبہ کی مثال شجرۂ طیبہ کی ہے جس کی جڑیں راسخ ہیں اور جس کی شاخیں آسمان میں بلند ہیں اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنا پھل دے رہا ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی ادیب نے یوں کیا ہے :
ہر روز از یں باغ بری می رسد
تازہ تر از تازہ تری می رسد
’’اس گلستان سے ہر دن ایک نیا اور تازہ پھل نکل رہا ہے جو پہلے سے بھی زیادہ تازہ ہے۔ ‘‘ ابھی شاید ایک سال بھی نہیں گزرا کہ شیخ الاسلام کی سابقہ تحقیقات کی رونمائی ہوئی تھی اور امت اس خوشبو سے ابھی معطر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے کے 1500 سالہ جشن کے موقع پر جناب شیخ الاسلام کے قلم اور ان کے فکر سے ایک نیا پھل امت کو عطا کر دیا ہے۔ آپ پاکستان پر اور ملتِ اسلامیہ پر، خصوصاً ان لوگوں پر جنہوں نے حضرت شیخ الاسلام سے بلاواسطہ استفادہ کیا ہے اور جو بالواسطہ کر رہے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا بڑا لطف و احسان ہیں۔ آپ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے تحقیق کے میدان میں جب اپنا کمال دکھایا تو سیکڑوں کتب منظر عام پر آ گئیں جو ایک بہت عظیم ذخیرہ ہیں۔ ان شاءاللہ یہ فیض جاری رہے گا اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا سایہ دیر تک امت پر قائم فرمائے اور ہر روز یہ فیض امت کو پہنچتا رہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ شخصیت جو ایک تحفے کے طور پر دی ہے،ان کے آثارِ علمی و عملی بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ عموماًہم پاکستانی علمی مراحل طے کرتے ہوئے جلدی تھک جاتے ہیں اور ابتدائی تعلیمی مراحل میں ہی یہ احساس آ جاتا ہے کہ جب پڑھے بغیر ہی قوم ہمیں علامہ اور عالم مان لیتی ہے تو مزید پڑھ کر عمر ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے قوم کے اس رویے کو اہمیت نہیں دی اور الحمدللہ ملک کے اندر اور باہر تعلیمی اور عصری تعلیم اپنے اعلیٰ ترین درجے تک مکمل کی اور پھر عمل کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ انہوں نے جب ادارہ سازی کا عمل کیا تو اللہ نے انہیں جو قابلیت دی، وہ عظیم ادارہ "منہاج القرآن" کی صورت میں، یونیورسٹی کی صورت میں اور اس سے ملحقہ ہزاروں گلستانوں کی صورت میں ملک بھر میں آباد ہے۔ یہ بھی ان کی ایک علمی اور قائدانہ قابلیت کا فیض تھا جو اللہ نے ان کے توسط سے اس ملت کو عطا کیا۔
منہاج القرآن کے قیام سے پہلے لوگوں کی مذہبی عقیدت اور جذباتیت کسی اور نوعیت کی تھی مگر منہاج القرآن کے قیام کے بعد ان کی علمی و عملی خدمات کے باعث قوم اور ملت پر اس حوالے سے واضح فرق نظر آئے۔ جنہوں نے دونوں ادوار دیکھے ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ منہاج القرآن اور حضرت شیخ الاسلام کے افکار نے ملت کے اندر ایک نمایاں فرق ڈالا ہے۔ پہلے جو تشدد، جنونیت، بے فکری اور لاعلمی تھی، خطابت کے ذریعے جو شور شرابہ تھا، اس کے اندر جناب شیخ الاسلام کی شخصیت اور فکر نے ایک ٹھہراؤ، ایک نئی جہت، ایک سنجیدگی اور جدت پیدا کی ہے۔ آج الحمدللہ ہمیں ملک میں جہاں بھی جائیں، ان کی اس علمی کاوش کے نتائج نظر آتے ہیں۔
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے فکری آزادی کا دروازہ کھولا۔ ہم نے اپنے مسلک، یعنی تشیع میں بھی اور دوسروں نے بھی اپنے مسالک میں وہ خطوط اور لکیریں کھینچ دی ہیں کہ انسان علم حاصل کرنے کے بعد بھی فکری طور پر پابند ہی رہتا ہے اور اس فکری لکیر سے آگے پیچھے نہیں جاتا۔ جو کچھ کسی بزرگ نے ماضی میں کہہ دیا ہے، ہم نے اسی کو دین سمجھ لیا ہے۔ شیخ الاسلام صاحب نے ان تمام فکری خطوط کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور قرآن و سنت کی روشنی میں حقیقت کو جرأت سے بیان بھی کر دیا اور ہر طبقہ کو فکری آزادی دی۔
علامہ اقبال نے اپنی قوم کو جو بنیادی ٹرننگ پوائنٹ دیا، وہ "دین کی شناختِ نو" ہے۔ نئے سرے سے دین کی پہچان۔ دین نیا نہیں بنانا، لیکن شناخت نئی ہونی چاہیے، ہر دور کو ایک نئی شناخت کی ضرورت ہے۔ یہ جرأت اگر ہم علامہ اقبال کے اس ٹرننگ پوائنٹ کے بعد دیکھیں تو وہ ہمیں شیخ الاسلام صاحب کی شخصیت میں نظر آتی ہے جنہوں نے یہ فکری جرأت کی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے تحریک شروع کی اور ایک جامد اور منجمد قوم میں حرکت پیدا کی، جو دنیا کو دور تک نظر آئی اور ان شاءاللہ وہ حرکت جاری ہے۔ یاد رکھیں! حرکت ہی اپنے مقصد تک پہنچتی ہے۔ جامد چیز کبھی اپنے مقصد تک نہیں پہنچتی۔
شیخ الاسلام کی جرأت اور شجاعت بھی قابلِ تقلید ہے۔ اس کی ایک مثال سیلاب زدگان کی خاطر مینارِ پاکستان میں اپنی عالمی تقریب کو محدود کرکے اس پر آنے والے اخراجات کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ہر مذہبی رہنما نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں مذہبی قیادت اپنے ہی متشدد طبقے کے سامنے مغلوب ہے، دبی ہوئی ہےلیکن حضرت شیخ الاسلام نے یہ بتا دیا ہے کہ اللہ قیادت جس کو دیتا ہے، اسی کام کے لیے دیتا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف آج ریاست نے جو جرأت حاصل کی ہے کہ دہشت گردی کو خوارج کا فتنہ قرار دیا ہے، یہ جرأت شیخ الاسلام صاحب کی دی ہوئی ہے۔ جب کوئی جرأت نہیں کرتا تھا، اس وقت حضرت شیخ الاسلام نے ایک تاریخی فتویٰ دیا اور پھر اس کے کئی سالوں بعد ریاست کو یہ مؤقف سمجھنے کی جرأت ہوئی کہ یہ خوارج کا فتنہ ہے اور اس سے خوارج کی طرح ہی نمٹنا ہو گا۔
آج حضرت شیخ الاسلام پاکستان اور اسلام کی پہچان کا عالمی چہرہ ہیں۔ اس وقت ایک ہی شخصیت ہیں جن کے ذریعے سے ملک اور دین پہچانا جاتا ہے۔ جب جہاد کے نام پر دہشت گردی پھیلائی جارہی تھی، حضرت شیخ الاسلام نے اسلام کا ایک معتدل اور درست چہرہ دنیا کو بتایا۔ انہوں نے جرأت سے اور علمی و فکری دلائل کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کی ایک پہچان پیش کی ہے۔
آج پاکستان میں قیادت کی کمی ہے۔ یاد رکھیں ! مغلوب قیادت قوم کی رہنمائی نہیں کر سکتی۔ جو خاموشی آج پاکستان اور امتِ اسلامیہ میں ہے، وہ شیخ الاسلام جیسے جری اور بہادر رہنما ہی توڑ سکتے ہیں اورقوم کو لائحہ عمل دے سکتے ہیں۔ مغلوب قیادت قوم کو جرأت نہیں دے سکتی جو اپنے متشدد پیروکاروں کے تابع ہو۔ آج شیخ الاسلام نے تمام مسالک کے اکابرین کو ایک جگہ لا کر بٹھا کر ایک گلدستہ بنایا اور ایامِ میلاد میں رسول اللہ ﷺ کو ایک ہدیہ پیش کیا کہ: "یارسول اللہ، ہماری طرف سے یہ تحفہ قبول فرمائیں کہ ہم نے بکھری ہوئی امت کو ایک جگہ بٹھا دیا ہے۔ " اللہ نے آپ کو ملتِ پاکستان کے لیے واسطۂ فیض بنا دیا ہے اور آپ اللہ اور نبی کا علمی، معنوی اور روحانی فیض پہنچا رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ دراز فرمائے اور یہ فیض اسی طرح جاری رہے۔
14۔ محترم علامہ ڈاکٹرمحمد شہزاد مجددی (سربر ادارۃ الاخلاص) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس مجلس میں بیٹھنے کے بعد جو فیضان میں نے محسوس کیا، میں اسی کو پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کا تھوڑا بہت ذوق رکھتے ہیں، وہ اس چیز کو محسوس کرتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص سے ملتے ہیں یا کسی مجلس میں جاتے ہیں، تو وہاں موجود اثر بھی ہمیں کچھ نہ کچھ پیغام دے رہا ہوتا ہے۔ علم و ادب سے حضرت شیخ الاسلام کا باطنی تعلق اور فکری مناسبت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اگر اس کا کوئی باقاعدہ نفسیاتی تجزیہ کیا جائے، تو اس پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میں حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ اس سال جو پانچ کتابیں آئی ہیں، اگر علم و فضل کا کوئی مسافر ان کے صرف نام ہی سن لے— متن تو بہت دور کی بات ہے— جس نے امام سیوطی، ابن حجر عسقلانی، رازی کو پڑھا ہو، تو وہ ان ناموں پر ہی آپ کو سلام پیش کرے گا۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ جس طرح کا اس وقت علم کا قحط ہے، ایسا شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو حالانکہ یہ آئی ٹی، اے آئی اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آپ جیسی شخصیت ہی اس کا جواب دے سکتی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟آج علم سے دوری نہیں بلکہ ہم نے اب علم دشمنی دیکھی ہے۔ کشف المحجوب میں داتا گنج بخش علی ہجویری نے لکھا ہے کہ انسانی نفس "by default" علم دشمن اور جہل پسند ہے۔ اس وجہ سے اس دور میں، جہاں لوگ زندگی میں چار یا پانچ کتابیں لکھ کر ہی کافی سمجھتے ہیں، اس عہدِ جہل میں علم کی ایسی بہتات اور فکر کی ایسی فراوانی کوئی شیخ الاسلام ہی عطا کر سکتا ہے۔
جب میں یہاں مختلف مسالک کے علماء کو اظہار خیال کرتے سنا تو ایک اور ہی کیفیت ہوتی ہے۔ اخبار الاخیار میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے استاد حضرت شیخ شمس الدین یحییٰ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلفاء میں سے تھے، لیکن صرف صوفی نہیں تھے، بلکہ بہت بڑے علامہ بھی تھے۔ وہ فرماتے ہیں:
سألت العلم من احیاک حقا
فقال العلم شمس الدین یحیٰ
’’میں نے علم سے پوچھا کہ اے علم! تجھے حقیقت میں کس نے زندگی عطا کی؟ تو علم نے مجھے جواب دیا کہ شمس الدین یحییٰ نے۔ ‘‘ یعنی، مجھے پڑھنے پڑھانے والے تو بہت تھے، لیکن میرا احیاء کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صرف عالم یا علم پرور نہیں ہیں، بلکہ ہماری علمی روایت میں اس دور میں ہمارے خطے پر جس نے علم کا احیا کر کے دکھایا ہے، وہ ہستی ہیں۔ اس میں ایک خوشگوار حیرت یہ بھی ہے کہ ہم نے خطابت کے جس دور میں شعور کی آنکھ کھولی، وہاں جوش و خروش اور جذبہ تو تھا، لیکن اس میں علمیت اور حوالہ جاتی رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔ ڈاکٹر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایک بہت بڑا کمال بطور خطیب یہ ہے، جس کو میں نے بہت شروع میں ایک طالب علم کی حیثیت سے محسوس کیا کہ آپ نے پہلی بار خطابت کو تحقیق کا "touch" دیا۔ ان سے پہلے خطیب کا دورانِ خطاب حوالہ دینے کا تصور نہ تھا۔ اس کا رجحان جس ہستی نے ہمارے ماحول میں پیدا کیا،جن کی خطابت کی برکت اور ذوقِ خطابت کی تاثیر سے ایسا ہوا، وہ بھی ڈاکٹر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ اعزاز بھی ہے کہ آج جب لوگ کاغذ کا لمس بھی بھولتے جا رہے ہیں اور پی ڈی ایف کی دنیا میں جی رہے ہیں، ایسے دور میں کتاب کو زندہ کرنا ایک بہت بڑا کمال ہے۔ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، بلکہ امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التاریخ التاریخ میں لکھا ہے کہ جس شخص نے کسی امام کی کتاب کو زندہ کیا ہو، وہ ایسے ہے جیسے اس نے اس امام کو قبر سے نکال کر زندہ کھڑا کر دیا ہو۔ اس کا انعام روزِ محشر اللہ رب العزت اس عالم، محقق، مصنف، مؤلف یا مترجم کو یہ دے گا کہ حشر کے میدان میں اس امام کے ساتھ کھڑا کرے گا۔ پس جو شخص سیرت پر کام کرے، ہو سکتا ہے اللہ اپنے فضل سے اسے رحمت للعالمین کے ساتھ کھڑا کر دے۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ کے قرآن کی خدمت کا شرف مل جائے تو وہ کس کے ساتھ کھڑا ہو گا؟ یقینااللہ اس کو اپنی معیتِ خاصہ عطا فرمائے گا۔
حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علم سے مناسبت اور محبت ان کا کمال تو ہے ہی، لیکن یہ ربِ علیم کا ہم پر بھی بہت بڑا احسان ہے کہ ہمارے اندر ایک ایسا شخص موجود ہے جو علماء کو بھی جگاتا رہتا ہے اور محققین کو بھی مہمیز لگاتا رہتا ہے۔ جس ایک کتاب کی برکت سے نہ جانے کتنی کتابیں دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ ہر ایک کے پاس علم ہوتا ہے، مگر ایسا علم کسی کسی کے پاس ہوتا ہے۔ میں اس علم کا عینی شاہد ہوں؛ میں نے علم کو صرف پڑھا یا دیکھا نہیں ہے، بلکہ الحمدللہ، چکھا ہے۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جن کے پاس بیٹھنے سے علم کا فیض منتقل ہونا شروع ہو جاتا تھا۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ ہے کہ یہ کینیڈا اور لندن میں بیٹھ کر بھی وہی فیض منتقل کر رہے ہیں، یعنی وہ شخص جو ان کی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتا یا صحبت کا شرف نہیں پا سکتا، تو کتاب کے ذریعے اسے معنوی مجالس اور صحبت کا موقع اور شرف بھی عطا ہوجاتا ہے۔
یاد رکھیں! ڈاکٹر طاہرالقادری ایک شخص یا فرد نہیں ہیں، یہ ہماری چودہ سو سالہ علمی روایت کا زندہ مجسم نمونہ ہیں۔ میں یہ بات بغیر کسی مبالغے کے کہہ رہا ہوں۔ بلکہ جو کہنا چاہتا ہوں، رک جاتا ہوں کہ ماحول ایسا ہے، حالات ایسے ہیں کہ ہمارے ہاں عیب ڈھونڈے جاتے ہیں اور خوبیاں چھپائی جاتی ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ اعلیٰ ظرف انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے مخالف کی خوبی پر بھی نظر رکھتا ہو۔ صوفیوں کاتو یہ منشور ہوتا ہے کہ وہ اپنی خوبی نہیں دیکھتے اور دوسروں کا عیب نہیں دیکھتے۔
ڈاکٹر صاحب، آپ کے ظرف کی وسعت کو سلام ہے کہ آپ نے جس دور اور عہد میں زندگی گزاری ہے، اس کے لیے بہت بڑا ظرف درکار ہے۔ ایسے عہد نا پرساں میں جہاں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ہزار سال پہلے کہتے ہیں: مَن كه علی بن عثمان الجلابیم، در بلدهٔ لاهور كه از مضافاتِ مُلتان است، میان نا جنساں گرفتار بودم۔ میں علی بن عثمان الجلابی لاہور شہر میں مقیم ہوں جو کہ ملتان کے مضافات میں ہے اور نا ہموار طبیعت والے لوگوں میں گھرا ہوا ہوں۔ ہزار سال پہلے کا یہ آشوب، یہ قحط، یہ زوال ہے۔ اس دور میں آپ جیسی کسی ایسی ہستی کا موجود ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ایسے شخص کا کھڑا ہو کر علم، عمل اور اخلاص کی بات کرنا، اس کے لیے ظاہری اسباب نہیں، بلکہ تائیدِ ربانی چاہیے۔ یاد رکھیے!علم کی خدمت تائیدِ ربانی کے بغیر نہیں ہوتی۔
دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا سایۂ علم، سایۂ برکت اور سایۂ فیض و روحانیت عالمِ اسلام پر قائم و دائم رکھے اور یہ فیضانِ علمی اسی تحریک کی شکل میں آگے بڑھتا رہے۔
15۔ محترمہ صوفیہ بیدار (ادیبہ،مصنفہ، کالم نگار) نے شرکاء تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ واحد "intellectual religious scholar" ہیں جنہوں نے خواتین کو ہمیشہ بھرپور نمائندگی دی ہے۔ چاہے وہ میدانِ سیاست ہو، معاشرت ہو، تعلیم ہو یا مردوں کے شانہ بشانہ با پردہ زندگی گزارنے کا شعبہ ہو، آپ نے خواتین کو کہیں بھی نظر انداز نہیں کیا۔ وہ شخص کتنا محترم ہے جو اس آج قرآن و سنت کے حقیقی پیغام کو لے کر چل رہا ہے اور مذہب و معاشرت کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ یہ لوگ چند سالوں کی زندگی لے کر نہیں آتے، یہ صدیوں کی زندگی لے کر آتے ہیں۔ ان کی کتب پانچ ہزار سال تک زندہ رہیں گی، ان کا کلام چلتا رہے گا اور آنے والے "scholars" اور لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں گے۔
میں جب مذہبی موضوعات پر کتابیں پڑھتی ہوں تو اس میں سچائی کی خاطر تحریر بعض مرتبہ بالکل "straightforward" اور سیدھی ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ اس میں رنگینی، تنوع یا ہلکی سی خشکی آ جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو ایک اور نعمت بھی دی ہے کہ وہ مذہبی "scholar" ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر میں ایک چاشنی ہے، ان کی تقریر میں ایک رنگ ہے۔ وہ رنگ یہ ہے کہ جیسے ایک چڑھتا ہوا دریا سمندر بن جاتا ہے۔ مذہب کی وہ باتیں جن پر ہمیں خاموشی ملتی ہے، وہ اس کی گرہیں پانیوں پر لگی ہوئی گرہوں کی طرح کھولتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے مذہب میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ نوجوانوں کو ایک صراط مستقیم پر چلا رہے ہیں۔ اتنی بڑی طاقت کسی مذہبی "scholar" کے پاس نہیں جتنی ان کے پاس ہے، اس کے باوجود، انہوں نے ظلم کے جواب میں اپنے کارکنوں کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ ان کے ایک اشارہ ابرو پر کیا سے کیا ہو جاتا، لیکن انہوں نے ان کو منفی طور پر استعمال نہیں ہونے دیا اور انھیں محبت اور عشق کی مہار کے ساتھ اپنے ساتھ لگائے رکھا۔
16۔ محترم علامہ مفتی زبیر فہیم (اتحاد مدارس العربیہ پاکستان) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بڑی شخصیات اور بڑے لوگ بڑا کام کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنی اولاد کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔ بہت بڑے بڑے نام ہیں، جن کی اولاد اپنے والدین کے لیے نالائق ثابت ہوئی اور ان کے راستے، ان کی فکر اور ان کی وراثت سے ہٹ گئی۔ لیکن میں قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ان کی اولاد بھی ان کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ ان کےعلمی کام اور ان کا فیضان ان شاء اللہ امت کے لیے جاری رہے گا۔ ان کے بیٹے اور پھر ان کے پوتے بھی اس فیضان کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یقیناً یہ اللہ رب العزت کے ہاں قبولیت کی دلیل ہے۔ ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں انہوں نے جن پانچ کتابوں کا تحفہ امت کو دیا ہے، اللہ کریم امت کو ان سے پورا پورا نفع اٹھانے کی توفیق نصیب فرمائے:
کچھ نہ کچھ لکھتے رہو ورق کے صفحات پر
یہی ایک رابطہ رہ جائے گا نسلِ نو سے
اس پرورقار اور خوبصورت تقریب کے اختتام پر فضيلة الشيخ الأستاذ الدكتور أحمد بدرة نے خصوصی دعا کروائی اور یہ پروقار علمی، فکری اور روحانی تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔