رمضان المبارک، رحمان کی طرف سے آنے والا معزز مہمان، نور کا آسمان، بے پایاں رحمت کا سائبان اور انسان کی بخشش کا ایسا حیرت انگیز اور قدرتی سامان ہے کہ اگر انسان پر حقیقت کھل جائے اور اس کی باطنی آنکھ وہ عجائبات اور مناظر دیکھنے لگ جائے جو فرشتوں کی آمد و رفت سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ دم بخود رہ جائے اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔
رمضان میں رب تعالیٰ کے حکم سے، روزہ داروں کے لئے، فرشتے رحمتوں کے طباق اور سعادتوں کی سوغات لے کر، آسمان سے اترنا شروع ہو جاتے ہیں اور افطاری کے وقت ان پر یہ رحمتیں انڈیل دیتے ہیں، یہ سعادتوں سے بھرا ایسا بہار آفریں سماں ہوتا ہے جو اگر ان پر منکشف ہوجائے، تو وہ یہ تمنا کرنے لگ جائیں کہ کاش! سارا سال ہی رمضان بن جائے اور انہیں یہ سعادتیں اور برکتیں ہمہ وقت حاصل ہوتی رہیں۔
بخشش و مغفرت کا جو باڑہ بٹتا ہے اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ ہفتے کے چھ دنوں میں افطاری کے وقت روزانہ لاکھوں گناہگاروں کو بخش دیا جاتا ہے اور چھ دنوں میں جتنی تعداد کو بخشا ہوتا ہے، ان کی مجموعی تعداد کے برابر ساتویں دن خطاکاروں کو بخشا جاتا ہے اور گناہ مٹا کر، انہیں مغفور لوگوں کی صف میں شامل کردیا جاتا ہے۔
غرضیکہ رمضان ایک ایسا ملکوتی اور نورانی مہمان ہے جو گناہگار خاکی انسانوں کے پاس آکر انہیں باطنی آلائشوں سے پاک کر دیتا ہے اور گناہوں کی گندگی سے پاک کر کے جنت میں رہنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ یوں تو رمضان کا سارا مہینہ ہی ان صفات و برکات سے معمور ہے مگر آخری دس دن، پہلے بیس دنوں سے بھی زیادہ اہمیت اور انفرادی شان رکھتے ہیں، جن میں اعتکاف ہوتا ہے، شب قدر کو پانے کی کوشش کی جاتی ہے اور آخر میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ دیا، جس میں آپ نے ارشاد فرمایا :
وَهُوَ شَهْرٌ اَوَّلُه رَحْمَةٌ وَ اَوْسَطُه مَغْفِرَةٌ وَآخِرُه عِتْقٌ مِنَّ النَّارِ. (ابن خزيمة)
’’یہ ایک مہینہ ہے، جس کا ابتدائی حصہ رحمت، اور درمیانی حصہ مغفرت کے لئے ہے اور تیسرے حصہ میں دوزخ سے رہائی عطا کر دی جاتی ہے‘‘۔
اختصار کے ساتھ ان اعمال و عبادات کی تفصیل یہ ہے :
آخری تہائی کی عبادات
رمضان المبارک کی آخری تہائی کے نو، دس دن مسلمانوں کے لئے خصوصی جہد و عمل اور توجہ و انہماک کے دن ہیں۔ بیس روز گزر جانے کے بعد یہ ماہ مبارک پابرکابِ مہمان کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، گزرنے والا ایک ایک لمحہ اس کی روانگی و رخصت کی اطلاع دینا شروع کردیتا ہے۔ چونکہ یہ مہینہ برکتوں کا پایاں ناپذیر سمندر ہے، انعامات و سعادت کا کبھی خشک نہ ہونے والا سرچشمہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عطا یائے ربانی کا مظہر ہے، اس لئے اس کی عظمتوں سے کماحقہ آگاہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے شایان شان طریقے سے الوداع کہنے کے طریقے تعلیم کئے گئے ہیں جیسا کہ استقبال کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ ناواقف و غافل بھی اس کی برکات سے محروم نہ رہے اور رمضان کے احترام کے صدقے اس کا بیڑا پار ہوجائے۔ چنانچہ احادیث کے مندر جات سے ثابت ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کی آخری تہائی میں پہلے سے بھی زیادہ پرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جاتے تھے، اس تہائی میں خوب ذوق و انہماک سے عبادت کرنے کے لئے پہلے ہی سے تیاری شروع فرمادیتے تھے اور جب یہ دن آجاتے تو آپ کی عبادت کے اعمال و اشغال میں نمایاں اضافہ ہوجاتا تھا۔
جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے :
کَانَ اِذَا دَخَلَ الْعَشَرُ الْاَخِيْرُ شَدَّ مِنْزَرَه وَاَحْيَا لَيْلَه وَاَيْقَظَ اَهْلَه.
’’جب آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو آپ کمر بستہ ہو جاتے تھے، ساری رات جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے‘‘۔
کَانَ يَجْتَهِدُ فِی الْعَشَرِ الْاَخِيْرِ مَالَا يَجْتَهِدُ فَی غَيْرِه.
’’آخری عشرہ میں جتنی محنت فرماتے، باقی دنوں میں اتنی نہیں فرماتے تھے‘‘۔ (مسلم)
کَانَ يَخُصُّ الْعَشَرَ الْاَوَاخِرَ فِی رَمضانَ بِاَعْمَالِ لَا يَعْمَلُهَا فِی بَقِيَّةِ الشَّهْرِ. (ارشاد العباد)
’’بعض اعمال کے لئے آخری عشرہ کو خاص فرما لیتے تھے اور مہینے کے باقی دنوں میں وہ اعمال نہیں فرماتے تھے‘‘۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خصوصی تیاری اور ذوق و شوق سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے چونکہ آپ حکیم ہیں اور آپ کا کوئی فعل حکمت و بصیرت سے خالی نہیں۔ اس لئے یہ سوچنا بالکل بجا ہے کہ آخری عشرہ میں خصوصی اہتمام سے امت کے افراد کو ہمہ وقت مستعد اور تازہ دم رکھنا مقصود تھا، کیونکہ مسلسل ایک کام کرتے کرتے انسان تھک جاتا ہے اور اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے یا یکساں اور ہموار عمل اس کی طبیعت میں رچ بس جاتا ہے اور اس کے ذہن میں اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ انسان کی فطرت اور طبعی خاصہ ہے۔
بیس دن کے روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے یکساں عمل سے اس بے دلی کا پیدا ہو جانا ممکن تھا۔ اس لئے دانائے فطرت اور نباض حقیقت نے اپنے ذوق عمل اور طرز طریق سے آخری عشرے کو بالکل جدا اور نیا مقام عطا کر دیا۔ گویا اصل ذوق و شوق، ریاضت و عبادت اور یاد و بندگی کا وقت تو اب آیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ عبادت میں تنوع پیدا ہوجائے اور بیس دن کی پیہم مشقت ذوق عمل میں کمی نہ کر دے۔ فطرت شناسی کی یہ اتنی جاندار اور اتنی بڑی مثال ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔
دوسرا عشرہ پہلے عشرہ کے قریب ہی ہوتا ہے اور دس دن کی مدت کچھ اتنی لمبی بھی نہیں، اس لئے دوسرے عشرے کی صرف انفرادیت بیان کرنے پر اکتفا کیا۔ ارشاد فرمایا :
اَوَّلَه رَحْمَةٌ وَاَوْسَطُه مَغْفِرَةٌ وَاَخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ.
’’پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ کی آگ سے خلاصی کا ہے‘‘۔
مگر تیسرے عشرے کی زبانی اور عملی طور پر بے شمار خصوصیات بیان فرمائی ہیں تاکہ امتی کو یہ احساس ہو کہ وہ ایک نیا کام اب ہی شروع کر رہا ہے اور اس طرح سارا رمضان اسی کیف و سرور، ذوق و شوق اور سوز و مستی کے ساتھ گزر جائے۔ اس آخری عشرے کا ایک ممتاز وصف یہ بھی ہے کہ اس میں اعتکاف کیا جاتا ہے، اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے اور دولت مندوں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔
اعتکاف
اللہ کے لئے ضبط نفس، گوشہ تنہائی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ چونکہ سبھی انسان اس مزاج و فطرت کے مالک نہیں ہوتے کہ سب سے ناطہ توڑ کر کسی تنہا کونے میں مالک حقیقی سے لو لگانے کا خیال ان کے دماغ میں آئے بلکہ بعض مخصوص افراد ہی کو یہ سعادت ارزانی ہوتی ہے، اس لئے اعتکاف سب پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ یاران نکتہ داں کے لئے صلائے عام دے دی گئی کہ جو چاہے اس کنج عافیت میں آکر حقائق و معارف کے رنگین انوار و تجلیا ت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو۔ اگر سب پر فرض کردیا جاتا تو شاید اسلام پر رہبانیت کی تعلیم کا دھبہ لگ جاتا اور اگر بالکل اجازت نہ دی جاتی تو کتنی سعید و شاہین صفت روحیں اپنی اصلی پرواز سے محروم رہ جاتیں۔
اب کسی شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ آخری دس دنوں میں اعتکاف کرلے تاکہ حق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کی عملی تربیت حاصل کرسکے۔ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا۔
کَانَ يعْتَکِفُ الْعَشَرَ الْاَخِيْرَ مِنْ رمضان حَتَّی قَبَضَهُ اللّٰهُ.
(ترمذی ص 98)
’’رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ وصال شریف تک یہی معمول رہا‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
کَانَ يُجَاوِرُ فِی الْعَشَرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رمضانَ وَيَقولُ تَحَرَّوْا لَيْلَة الْقَدْرِ فِی الْعَشَرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانِ.
’’آپ آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور حکم دیا کرتے تھے کہ اسی میں شب قدر کو تلاش کرو‘‘۔ (ترمذی)
بیہقی کی روایت ہے۔
مَنِ اعْتَکُفَ عَشَرًا فِی رَمضانَ کَانَ کَحَجَّيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ.
’’جس نے عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا، یہ دو حج اور دو عمروں کی طرح ہوگا‘‘۔
شب قدر
عمل و ریاضت کے شیدائیوں کے لئے شب قدر خاص اہمیت و کشش رکھتی ہے کیونکہ اس میں انتہائی مختصر وقت میں حیرت انگیز حد تک زیادہ سے زیادہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین عمل کے شیدائی تھے، ایک دفعہ ان کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا :
گذشتہ امتوں کے لوگ طویل ترین عمروں کے مالک ہوتے تھے، ان میں سے بعض اپنی ساری عمر عبادت و اطاعت میں کھپا دیتے تھے۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کی : ’’ہماری عمریں تو مختصر ترین ہوتی ہیں ہم کتنی بھی محنت کریں، عمل میں ان خوش قسمت افراد کی برابر نہیں کر سکتے۔ عمر کی طوالت ان کو ہم پر فوقیت بخش دے گی‘‘۔
چونکہ اصحابِ عزیمت و ہمت تھے، خود کو میدان عمل میں بے بس پا کر افسردہ خاطر ہوئے اور اپنی بے بسی اور ساتھ ہی اطاعت و عبادت کے لئے اپنی رغبت کا اظہار کیا۔ قدرت ربانی نے ان کے خلوص و ذوق کو پذیرائی بخشی اور سورۃ القدر نازل فرماکر بتایا۔
شب قدر کی ایک رات کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔ طلوع فجر تک اس میں انوار و ملائک کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ یہ خوشخبری سن کر ان کی رگوں میں مسرت کی لہر کے ساتھ جذبہ عمل کی بجلیاں بھی دوڑ گئیں اور شب قدر کی تعین کے بارے میں استفسار فرمایا : اگر محنت و مشقت پر ابھارنا اور ان کی قوت عمل کو بیدار کرنا مقصود نہ ہوتا تو بتادیا جاتا، فلاں تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے، مگر جذبہ عمل کو مہمیز لگانے کے لئے وہ طریقہ اختیار کیا جس میں مایوسی بھی نہیں اور ہر طبقہ کا شوق بھی برابر رہتا ہے مثلاً یہ کہہ دیا جاتا کہ سارا سال عبادت کرکے شب قدر تلاش کرو تو اکثریت کی ہمتیں پست ہوجاتیں، اس لئے اس پست ہمتی اور مایوسی سے بچانے کے لئے بتادیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ کچھ لوگ ہی اتنے بلند ہمت ہوتے ہیں جو مسلسل دس راتیں بھی جاگنے کے لئے تیار ہوں، اس لئے پانچ راتیں مخصوص فرما دیں کہ وہ آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں۔ کچھ لوگ پانچ راتیں جاگنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرسکتے تھے، انہیں ستائیسویں شب کو جاگنے کا مشورہ دیا۔
اس پردہ پوشی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ہر طبقہ کے افراد کو ان کے درجہ کے مطابق عمل و فعل پر ابھارنا مقصود ہے کہ جتنا کسی سے ہوسکے، ضرور جاگ کر اپنے مالک کی رحمت سے جھولیاں بھرنے کی کوشش کرے اور عمل سے دست کش ہوکر نہ بیٹھ جائے، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
اِنَّهَا فِی رَمَضَانَ وَاِنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعِ وَعِشْرِيْنَ وَلَکِنْ کَرِهَ اَنْ يُخْبِِرَکُمْ فَتَتَکِلُوْا.
(ترمذی)
’’وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے، لیکن تمہیں اس لئے خبر نہ دی کہ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جاؤ‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتانے کے لئے تشریف بھی لائے مگر وہ دو شخصوں کو جھگڑتا دیکھ کر واپس تشریف لے گئے، گویا قدرت کو بھی منظور نہ تھا کہ عام لوگوں میں اس کا چرچا ہو، یہ صرف اسی لئے تاکہ مسلمانوں میں عمل و تجسس اور جدوجہد کا جذبہ قائم رہے۔
بخاری شریف میں ہے :
خَرَجَ لِيُخْبِرَ النَّاسَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَتَلاَحٰی رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَ صلی الله عليه واله وسلم خَرَجْتُ لِاُخْبِرَ. فَتَلاَحٰی فُلاَنٌ وَفَلاَنهُ وَاِنَّهَا رُفِعَتْ وَعَسٰی اَنْ يَکُوْنَ خَيْرًا لَکُمْ فَالْتَمِسُوْهَا فِی التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةُ وَالْخَامِسَةِ.
(صحيح الخباری : 893)
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کا بتانے کے لئے تشریف لائے، اس وقت دو شخص آپس میں جھگڑ پڑے۔ (آپ کی طبع مبارک پر یہ جھگڑا گراں گزرا، لہذا آپ واپس تشریف لے گئے) بعد میں فرمایا ہم باہر آئے تھے تاکہ شب قدر کے بارے میں بتائیں لیکن فلاں فلاں نے جھگڑنا شروع کر دیا اور وہ اٹھالی گئی۔ ممکن ہے یہی تمہارے حق میں بہتر ہو۔ لہذا انتیسویں، ستائیسویں اور پچیسویں میں سے اسے تلاش کرو‘‘۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حدیث پاک میں جو یہ آتا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر ڈھونڈو غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اس طرح پوچھتے تھے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اکیسویں شب میں تلاش کریں؟ آپ فرما دیتے : ہاں۔ دوسرا ستائیسویں کی یقین دہانی کرا لیتا، اسی طرح پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں کے بارے میں پوچھتے اور آپ سب کو وہی جواب دیتے کیونکہ آپ کی عادت مبارکہ تھی۔
کَانَ يُجِيْبُ عَلَی نَحْوِ مَايُسَالُ عَنْهُ يُقَالُ لَه : نَلْتَمِسُهَا فِی لَيْلَةِ کَذَا؟ فَيَقُوْلُ اِلْتَمِسُوْهَا فِی لَيْلَةِ کَذَا. (ترمذی)
’’جیسا سوال ہوتا، ویسا ہی جواب دیا کرتے تھے۔ پوچھا جاتا، فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے : ہاں فلاں رات میں تلاش کرو‘‘۔
شب قدر کی واضح تعیین تو نہ فرمائی گئی مگر ترغیب و شوق کے لئے اس کے بے شمار فضائل بیان فرما دیئے، دیلمی کی روایت ہے :
اِنَّ اللّٰهَ وَهَبَ لِاُمَّتِیْ لَيَلْةَ الْقَدْرِ وَلَمْ يُعْطِهَا لِمَنْ کَانَ قَبْلَهُمْ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے صرف میری امت کو شب قدر دی ہے اور جو لوگ گزر گئے ان کو نہیں دی‘‘۔
طبرانی کی روایت ہے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو۔
فَمَنْ قَامَهَا اِيْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَلَه مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.
’’جس نے ایمان و یقین کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس میں قیام کیا اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : میں اس رات میں کیا دعا کروں؟ فرمایا : پڑھو
اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ.
’’اے اللہ تو معاف فرمانے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھے معاف فرمادے‘‘۔
فطرانہ
اس عشرے کی ایک خصوصی عبادت صدقہ فطر بھی ہے، جو ہر صاحب حیثیت مسلمان پر تقریباً دو سیر گندم یا اس کی قیمت، کے حساب سے واجب ہے، اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہئے تاکہ غربا و نادار اپنی ضروریات خرید کر سب کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
زَکٰوةُ الْفِطْرِ فَرَض عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ حُرِّ وَعَبْدٍ ذَکَرِ وَاُنْثٰی مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. (دار قطنی)
’’صدقہ فطر، مسلمان مردو عورت، آزاد و غلام سب پر فرض ہے‘‘۔
صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت
صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
زَکٰوهُ الْفِطْرِ طهْرَةٌ لِلصَّائِمِ مِنَ الَّلغْوِ وَالرفَثِ وَطُعْمَةٌ لِلْمَسَاکِيْنَ. مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکٰوة مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ. اِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ مُعَلَّقٌ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ. لَايَرْفَعُ اِلَّا بِزَکٰوةِ الْفِطْرِ.
’’روزہ دار سے جو لغویات اور فضول حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ فطرانہ ان سے روزوں کی تطہیر کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے، جو شخص نماز عید سے پہلے ادا کر دے اس کی طرف سے یہ قبول کر لیا جاتا ہے مگر جو بعد نماز ادا کرے، اسے عام دیئے جانے والے صدقہ کا ثواب ملتا ہے، فطرانہ کا نہیں (اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ) روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک فطرانہ کی ادائیگی نہ ہو‘‘۔