جنرل پرویز مشرف بالآخر چشم نم کے ساتھ قوم کو ’’خدا حافظ‘‘ کہنے پر مجبورہوئے۔ اقتدار کی پُرکشش مسند سے اترنے کا پہلا مرحلہ گذشتہ سال اس وقت طے ہواتھا جب انہوں نے فوجی وردی اتارنے کا اعلان کرتے ہوئے جرنیلی چھڑی جنرل کیانی کے ہاتھوں میں تھمائی تھی۔ اس وقت بھی وہ اسی طرح جذباتی ہوئے تھے۔ فرق یہ تھاکہ فوج سے علیحدگی کے وقت انہوں نے جنرل کیانی کی تعریف کی تھی لیکن 18 اگست کی تقریر میں صدارت کا عہدہ چھوڑتے ہوئے انہوں نے موجودہ سیاسی قیادت اور حکمران اتحاد پر گہرے افسوس اورناراضگی کا اظہار کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ آخری تقریر کے آخری لمحات تک بھی انہوں نے استعفیٰ دینے کا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان کے قریبی ساتھیوں نے اس قسم کے کسی امکان کو تسلیم کیا۔ حالانکہ ایوان صدر کے علاوہ پاکستان سمیت پوری دنیا ان کی رخصتی کو نوشتۂ دیوار سمجھ چکی تھی۔ خطاب میں انہوں نے دوسری حیرت انگیز بات یہ کہی کہ ’’86 فیصد عوام میرے اقتدار میں رہنے کی خواہاں ہے مگر میں قومی مفاد میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کر رہا ہوں‘‘ نہ جانے وہ اپنے ہاتھوں سے آزاد کئے ہوئے میڈیا پر نشر ہونیوالی خبروں اور تند و تیز تبصروں سے بے خبر تھے یا پھر ان کے خوشامدی حواریوں نے ان کے گرد اتنا مضبوط حصار بنا رکھا تھا کہ انہیں حقیقت حال کا علم نہیں ہو سکا۔ بہر حال پرویز مشرف اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ ان کا دورِ حکمرانی ملکی تاریخ میں بعض بدترین واقعات اور غیر ملکی مداخلت پر مبنی اقدامات کے سبب ہمیشہ متنازع رہے گا۔
شدید دباؤ کے باعث کمانڈو صدر کا استعفیٰ قوم کے لئے خوشی کی خبر تھی۔ ملک کے طول و عرض میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور سٹاک ایکسچینج میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ ۔ ۔ لیکن حکمران اتحادکے اس ’’مشترکہ دشمن‘‘ کے منظر سے رخصت ہوتے ہی سیاستدانوں کا وہی روائتی دنگل شروع ہوچکا ہے۔ نواز زرداری اتحاد ٹوٹنے کے بعد ہارس ٹریڈنگ کا بازار لگنے والا ہے اور صدارتی الیکشن میں ووٹ کے لئے بولیوں کا درپردہ آغاز ہو چکا ہے۔ سیاست برائے اقتدار کا نظریہ رکھنے والے چھوٹے اتحادی گروپ زرداری صاحب کے اردگرد جمع ہو رہے ہیں اور مخصوص مفادات کے عوض انہیں آئندہ صدر کے طور پر منتخب کرنے کا عندیہ ظاہر کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر قوم کو زرداری صاحب کی قیادت اور صدارت سے خیر کی توقعات اس لئے زیادہ نہیں کیونکہ انہیں اقتدار، شہرت اور حکومت اہلیت کی بنیاد پر نہیں حادثاتی طور پر حاصل ہوئے ہیں۔ جن درپردہ قوتوں نے مشرف کو رخصت پر مجبور کیا انہوں نے ہی ’’نعم البدل‘‘ کے طور پر ان کا انتخاب کیا ہے۔
یہ کس قدر بد قسمت قوم ہے جس نے لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد ایک استعمار سے آزادی حاصل کی اور آج یہی قوم اپنے ہزاروں بیٹوں کا خون بہا کر دوسرے استعمار کو اپنی وفاداری اور غلامی کا یقین دلا رہی ہے۔ قدرت نے تمام وسائل اسے مہیا کئے تھے مگر اس ملک کے کروڑوں تنگ دست مرد اور عورتیں خطِ غربت سے نیچے بے بسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ملک جس دین کی سربلندی کے لئے وجود میں آیا تھا آج اسی دین کے فرزندوں نے درجنوں محاذ کھول رکھے ہیں اور ہر گروہ دوسرے کو کافر قرار دے کر اس کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ خود کش بم دھماکوں میں آئے روزسینکڑوں جانیں تلف ہو رہی ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں لیکن ہر حملے کے بعد میڈیا پر کوئی پراسرار آواز بلند ہوتی ہے اور ’’طالبان‘‘ کی ترجمانی کرتے ہوئے معصوم لوگوں کے قتل پر مبنی ہر خون خرابے کو اپنا ’’کارنامہ‘‘ قرار دیکر خاموش ہوجاتی ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ سٹیلائٹ کے اس برق رفتار دور میں یہ لوگ کہاں روپوش ہیں؟ اتنے وسیع و عریض علاقے میں اعلانیہ جہادی سرگرمیوں کی قیادت کیسے کرتے ہیں؟ اتحادی فوجوں سمیت پاکستانی آرمی کے حملے بھی جاری ہیں اور پھر بھی ان کا نیٹ ورک پھیلتا جا رہا ہے۔ فاٹا وزیرستان اور سوات جیسے پُرامن علاقوں میں محب وطن اور محنت مزدوری کرنے والے سیدھے سادے لوگوں کے درمیان اچانک خانہ جنگی کا میدان کیسے لگ گیا ہے؟ کچھ ایسے فرضی کردار قیادت کے منصب پر فائز کردیئے گئے ہیں جو کل تک گوشہ گمنامی میں معمولی ملازمتیں کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر راتوں رات ان نیم خواندہ غریب لوگوں کے پاس جدید اسلحہ مال و دولت اور ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں جان نثاروں کے جتھے کہاں سے آگئے؟ فرض کریں اگر یہ لوگ اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ کے خلاف جہاد کے لئے کمربستہ ہیں توانہیں سینکڑوں قومی تعلیمی ادارے خاکستر کرنے، پُل اڑانے اور اپنے مسلمان اہل کاروں کو ہلاک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
الغرض ایک گتھی ہے جو بڑی الجھ چکی ہے اور ایک آگ ہے جو پورے علاقے میں بری طرح پھیل رہی ہے۔ ایسی آگ جس سے ہزاروں بستیاں اجڑ چکی ہیں، آرام و سکون ختم ہوگیا ہے، کاروبار تباہ ہو رہے ہیں اورلاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھری کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اس آگ کو بجھانے کے لئے ہمارے ’’سرپرستوں‘‘ نے ہمیں حکم دے رکھا ہے کہ خبردار اسے بات چیت یا امن سمجھوتوں کے ذریعے نہیں بلکہ آگ برساتے جنگی طیاروں اور بارود اگلتی توپوں کی گھن گرج سے ٹھنڈا کیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں ہمارے حکمرانوں کی حکمت و دانش جواب دے چکی ہے۔ وہ باہر کی اس آگ کو پہلے اپنے گھر کے آنگن میں لے کر آئے اور اب اس لڑائی کو اپنی لڑائی قرار دے کر خانہ جنگی کو منطقی نتائج (قومی بربادی) کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
قارئین! یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں نئی جمہوری حکومت کا تانا بانا تیار ہو رہا ہے۔ چند وفاقی وزیر اور مشیر ایسے پراسرار کردار ادا کر رہے ہیں جن کی ’’حکمت‘‘ بعض اوقات خود وزیراعظم اور زرداری صاحب کی سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ اس غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورت حال میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رحمت کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ ان شہیدوں کی مقدس ارواح کو متوجہ کیا جاسکتا ہے جن کی نسلیں موجودہ پاکستان میں حالات کے تھپیڑوں کی زد میں ہیں۔ ایسے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہات کریمانہ درکار ہیں جن کی محبتوں کے نغمات سے وطن عزیز کے کوہ و دمن معمور رہتے ہیں۔ اللہ پاک اس کوچہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروبام سلامت رکھے اور اس کے رکھوالوں کو غیرت اور سمجھ عطا فرمائے تاکہ شہیدوں کی امانت یہ خطۂ پاک، دین دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ رہے۔