الحدیث : رمضان المبارک میں نبوت کا فیضان

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں :

کَانَ رَسولُ اللّٰهِ صلی الله عليه وأله وسلم اَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ اَجْوَدَ مَايَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ، حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ وَکَانَ يَلْقَاهُ فِیْ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقرْآنَ. فَلَرَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وأله وسلم اَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.

(بخاری)

’’حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان کی راتوں میں پہلے سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے جبکہ آپ سے جبریل امین آ کر ملاقات کرتے تھے اور یہ ملاقات رمضان کے مہینے کی ہر رات میں ہوتی تھی۔ پس وہ آ کر، بلاناغہ آپ کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دنوں میں خیرو برکت کے ساتھ بھیجی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ کریم و سخی ہوتے تھے‘‘۔

روایت حدیث سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد

یہ روایت بڑی ہی معنی خیز، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاکیزہ جذبات کی ترجمان اور حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ جود و سخا کے بارے میں ان کے لطیف احساسات کی عکاس ہے۔ جن سے آگاہ ہو کر انسان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور روح کیف و سرور سے جھوم اٹھتی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دعائیں دیتی ہے جنہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ جود و سخا اور مقامِ نوازش و عطا سے پردہ اٹھاکر انہیں مسرت سے جھومنے اور ایمان کو تازگی بخشنے کا موقع فراہم کیا۔

اس بیان سے ان حیرت انگیز مشاہدات اور زندگی بھر کے تجربات سے حاصل ہونے والے تاثرات کا اظہار مقصود ہے۔ جو عطا و نوازش کے لافانی اور حیران کن مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابن عباس پر طاری ہوئے اور آپ کو یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کوئی سخی نہیں۔ مثال کے طور پر ایک حدیث کا ذکر بے نہیں ہوگا۔

ان کے کرم کی بات نہ پوچھو

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

مَاسُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْاِسْلَامِ شَيْئًا اِلَّا اَعْطَاهُ وَلَقَدْ جَائَ رَجُلٌ فَاَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ. فَرَجَعَ اِلٰی قَوْمِه فَقَالَ : يَاقَوْمِ اَسْلِمُوْا فَاِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِیْ عَطَاءَ مَنْ لَا يَخْشَی الْفَقْرَ.

 (رياض الصالحين : 360)

’’اسلام کے نام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس چیز کا سوال کیا جاتا تھا، وہ آپ عطا فرما دیتے تھے ایک آدمی آیا، آپ نے اسے بکریوں سے بھری ہوئی وادی بخش دی۔ وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور بولا : اے لوگو! مسلمان ہو جاؤ! محمد، اس شخص کی طرح عطا کرتے ہیں جو تنگدستی سے بالکل نہیں ڈرتا‘‘۔

شب و روز پیش آنے والے، اسی قسم کے محیرالعقول واقعات کی روشنی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شک و شبہ کے بغیر سب سے زیادہ جواد و کریم، لکھ بخش، داتا، غریب نواز تھے اور آپ کی اس بے نظیر اور منفرد خوبی کو، اپنے پرائے سب تسلیم کرتے تھے۔ مگر ابن عباس یہاں اپنے تاثرات کے ذریعے ایک اور چیز بیان کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ کے کرم و سخاوت کی کیفیت یکساں نوعیت کی نہیں تھی اگرچہ جود و عطا کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا تھا، مگر کبھی اس میں سمندر کی طرح تموج پیدا ہو جاتا تھا اور سائل و گداگر اس طرح جھولیاں بھرتے تھے کہ تنگی داماں کا گلہ پیدا ہوجاتا تھا اور علم و عرفان کے پیاسے اس طرح سیراب ہوتے تھے کہ تشنگی کا احساس مٹ جاتا تھا۔ ہر طبقہ، ہر طرح سے مطمئن اور لبریز ہوکر لوٹتا تھا۔ نور و عطا کا ایسا باڑہ بٹتا تھا کہ لینے والے اور دیکھنے والے سب حیران رہ جاتے تھے۔

چنانچہ دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں، ماہ رمضان میں دریائے سخاوت جوش پر ہوتا تھا اور سخاوت اس حد تک بڑھ جاتی تھی کہ بادلوں سے لدی ہوئی ہواؤں کی خیر و برکت بھی اس کے سامنے ماند پڑ جاتی تھی۔

تلاوت اور قُربِ اہل اللہ کی روحانی تاثیر

اپنے اس بیان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دوسری بات یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رمضان کے مہینوں میں ایسی کیفیت کیوں پیدا ہوجاتی تھی اور اس کے اسباب کیا تھے؟ اس راز سے آپ نے اس طرح پردہ اٹھایا ہے کہ اس مہینے میں جبریل امین آپ کے پاس آتے تھے اور قرآن پاک کا دور کرتے تھے، اس ملاقات اور دور سے جو انکشافِ تام، روحانی ارتقا اور عروج و حضور حاصل ہوتا تھا وہ آپ کو نعمت گراں مایہ، عام کرنے پر مجبور کردیتا تھا۔ اس لئے آپ فیض لٹاتے تھے اور اس طرح لٹاتے تھے کہ تند و تیز ہوائیں بھی پیچھے رہ جاتی تھیں، یا دامن طلب پھیلا کر کھڑی ہوجاتی تھیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ان تاثرات کے اظہار کے لئے یہاں چار جملے ذکر فرمائے ہیں :

1. کَانَ اَجْوَدَ النّاسِ.

 ’’حضور تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھی‘‘۔

2. کَانَ اَجْوَدَ مَايَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ.

’’اور ماہ رمضان میں پہلے سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔ جبکہ حضرت جبریل امین آپ سے ملاقات فرماتے تھے‘‘۔

3. فَلَرَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه واله وسلم اَجْوَدُ بِالْخَيْرِ من الرِّيْح الْمُرْسَلَةِ.

’’پس حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خیر کے ساتھ بھیجی گئی ہو اسے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے‘‘۔

4. وَکَانَ يَلْقَاهُ فِی کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ.

’’اور جبریل امین، رمضان کے مہینے کی ہر رات میں ملاقات کے لئے آتے تھے اور قرآن پاک کا دور کرتے تھے‘‘۔

پہلے تین جملے، معنوی لحاظ سے مربوط ہیں۔ ان میں سخاوت و عطا کے مختلف درجات بیان کئے گئے ہیں۔ چوتھے جملے میں اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ سخاوت میں تموج کیوں پیدا ہو جاتا تھا اور دریائے کرم میں اتنی تیزی اور روانی کیوں آ جاتی تھی، وجہ یہ بتائی ہے کہ اس میں جبریل امین کی معیت زیادہ نصیب ہوتی تھی اور قرآن پاک کی تلاوت اور دور کا موقعہ ملتا تھا۔

ایک سطح بین انسان کو تو بے شک اس ملاقات اور دور قرآن میں کوئی، خاص بات نظر نہ آتی ہو، مگر اہلِ نظر اور صاحبِ روحانیت جانتے ہیں کہ اہلِ روحانیت کے قرب میں قرآن پاک کی تلاوت، کیسی کیسی فتوحات عطا کرتی ہے اور رحمت و برکت کے بند دروازوں کو کس طرح کھولتی ہے۔ ان ہی حاصل ہونے والی نعمتوں کے شکرانے کے طور پر، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خزانوں کے منہ کھول دیتے تھے اور جو کچھ ہوتا تھا خیرات کردیتے تھے۔

اس سے یہ بھی تعلیم ملتی ہے کہ اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے سے دل کو کشادگی نصیب ہوتی ہے۔ لہذا ان کی سنگت کو غنیمت جاننا چاہئے اور جب فتوحات نصیب ہوں تو بخل کرنے کی بجائے، اپنے بھائیوں کو بھی اس میں شریک کرنا چاہئے۔ ہر نعمت پر شکر واجب ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں بھی شکر سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور سخاوت و خیرات کے دروازے کھول دینے چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید ظاہری اور باطنی نعمتیں نصیب ہوں۔

جود و عطا کا غریب نواز مفہوم

عام خیال یہ ہے کہ صرف مال و دولت اور وہ بھی کثیر مقدار میں خرچ کرنے کو ’’جود‘‘ کہتے ہیں حالانکہ یہ خیال غلط ہے۔ ’’جود‘‘ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان صرف رضائے الہٰی کے لئے خرچ کرے۔ اس کے علاوہ ’’جود‘‘ مال و دولت کے ساتھ بھی خاص نہیں بلکہ علوم و معارف عام کرنے اور حکمت و بصیرت کی معنوی دولت لٹانے کا نام بھی جود ہے۔

’’جود‘‘ کے لئے مال و دولت کی کثیر مقدار بھی شرط نہیں بلکہ انسان کے پاس موجود کل مال کا اعتبار ہے، اگر ایک کروڑ پتی ایک لاکھ روپیہ خیرات کرتا ہے اور دوسری طرف ایک غریب آدمی ایک روپیہ دیتا ہے تو یہ افضل ہو گا کیونکہ اس کے پاس ایک روپیہ ہی تھا جو اس نے دے دیا۔ گویا کل مال خیرات کردیا۔

ایک شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ تھا۔ اس نے دس ہزار روپیہ خرچ کیا۔ دوسرے کے پاس دس ہزار تھا اس نے کل مال میں سے ایک ہزار خرچ کیا اور تیسرے کے پاس صرف دس روپے تھے اس نے اس میں سے ایک روپیہ خرچ کیا۔ تو ان تینوں کو دسواں حصہ مال خرچ کرنے کا مساوی ثواب ملے گا کیونکہ مال کی مقدار اور کثرت کا اعتبار نہیں، کل مال کا اعتبار ہے۔

’’جود‘‘ کا ایک اور مفہوم بھی ہے، جسے انسانوں کے تقابلی مطالعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔

انسانوں کا تقابلی مطالعہ

خِست و سخاوت کے حوالے سے انسانوں کی چار قسمیں ہیں۔

1۔ ممسک :

اس شخص کو کہتے ہیں جو اس حد تک کنجوس مکھی چوس ہو کہ اپنی دولت کو ہوا تک نہ لگوائے، نہ خود کھائے نہ دوسروں کو کھلائے۔

2۔ بخیل :

اس شخص کو کہتے ہیں جسے اپنی ذات عزیز ہو، اپنے آپ پر تو خرچ کرے، مگر دوسروں پر خرچ کرتے ہوئے اسے تکلیف ہو۔

کنجوسی، کمینگی اور خِست کی ان دونوں قسموں کے برعکس :

3۔ سخی :

اس شخص کو کہتے ہیں جو دریا دل، کشادہ دست اور فیاض ہو، اپنی کمائی میں ناداروں، غریبوں اور ضرورت مندوں کو حصہ دار سمجھتا ہو اور کھلے دل سے ان کی امداد کرتا ہو۔ اس کے علاوہ اپنی ذات پر بھی خرچ کرتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں، سخی وہ ہوتا ہے جو خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔

4۔ جواد یا اجود :

اس عالی پایہ انسان اور بے مثل سخی کو کہتے ہیں جو سخاوت کرتے ہوئے اپنی ذات کو بھول جائے، دوسروں کو کھلا دے اور عطا کردے اور خود نہ کھائے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ہی اجود اور بے مثل سخی تھے، دیکھتے ہی دیکھتے انبار لٹا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا : اگر احد پہاڑ سونا بن جائے تو ہم وہ بھی سب راہ خدا میں لٹا دیں اور غروب آفتاب سے پہلے اہل استحقاق میں تقسیم کر دیں۔

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دیگر دوستوں کے ہمراہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دید اور نوازش و عطا کے مزے لوٹ رہے تھے، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غرباء میں سب کچھ تقسیم فرما دیا۔ دولت کے ڈھیر، لوگوں کے گھروں میں چلے گئے۔ ایک آدمی دیر سے پہنچا، سب کچھ تقسیم ہو چکا تھا۔ گویا ہوا : آقا! غلام در پر حاضر ہے اسے نوازا جائے۔ شان کریمی نے گوارا نہ فرمایا کہ اسے مایوس کریں۔

حکم ہوا فلاں دکان پر چلے جاؤ، جو کچھ لینا ہو، وہاں سے ادھار لو، بعد میں ادائیگی ہم کر دیں گے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بڑی عجیب سی لگی :

بولے! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! خدا تعالیٰ نے آپ کو مکلف نہیں فرمایا کہ لوگوں کو ادھار پر چیزیں لے کر دیں۔ ٹھیک ہے، اگر کچھ موجود نہیں ہے تو معذرت کر لیں، جب کچھ آئے گا تو پہلے انہیں دے دیں گے۔

طبعِ سخا پیشہ اور مزاج کریمانہ پر یہ بات بہت گراں گذری، ناراضگی کے آثار چہرہ انور سے نمایاں ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر ایک صحابی بہت خوف زدہ ہوئے اور سہم گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے نتائج سے وہ بخوبی آگاہ تھے۔ حالات کو قابو میں لانے کے لئے بڑے ادب سے فوراً عرض گزار ہوئے :

يَارَسولَ اللّٰهِ اَنْفِقْ وَلَا تَخَفْ مِنْ ذِی الْعَرْشِ اِقْلاَلاً.

’’میرے آقا! خوب خرچ کیجئے اور قلت کا بالکل اندیشہ نہ کیجئے۔ عرش والا خود بندوبست فرما دے گا‘‘۔

حسب حال مزاج کے مطابق یہ بات سن کر حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہو گئے اور ارشاد فرمایا :

’’اسی انداز کی سخاوت کا مجھے حکم دیا گیا ہے‘‘۔

زندگی میں کسی سائل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’نہیں ہے‘‘۔ بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرما دیتے تھے۔

اک لفظ ’’نہیں‘‘ ہے جو تیرے لب پہ نہیں ہے

امام احمد رضا قدس سرہ نے اس حقیقت کبریٰ کو یوں بیان فرمایا ہے :

سرکار میں نہ ’’لا‘‘ ہے، نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے

ایک عربی شاعر کہتا ہے :

مَا قَال ’’لَا‘‘ قَطُّ اِلَّا فِیْ تَشَهُّدِه
لَو لَا التَّشَهُّدُ کَانَتْ لَائُه نَعَمْ

آپ نے تشہد کے سوا کبھی ’’لا‘‘ نہیں کہا۔ اگر تشہد نہ ہوتا تو یقینا ’’لا‘‘ کی جگہ ’’نعم‘‘ فرماتے۔

ایک فارسی شاعر نے اسے یوں نظم کیا ہے۔ :

نرفت ’’لا‘‘ بزبان مبارکش ہرگز
مگر باشہد ان لا الہ الا اللّٰہ