وطن عزیز کی فضائیں آج کل سابق صدر کی رخصتی کے بعد نئے صدر کے انتخاب، ججز کی بحالی، حکمران اتحاد کو لاحق خطرات، فاٹا میں امریکی مداخلت اور سوات میں خانہ جنگی جیسے حساس واقعات کے ساتھ مہنگائی کے ہاتھوں جان بہ لب قوم کی چیخوں سے گونج رہی ہیں۔ ان سارے مسائل اور حوادث کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی مشرقی سرحدوں پر بھی چند سالہ خاموشی کے بعد دوبارہ چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ پاکستان کی شہ رگ جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ اڑھائی ماہ سے عوامی غیض و غضب کے حیران کن تازہ مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں تحریک حریت اپنی تاریخ کے نئے موڑ پر رواں دواں ہوچکی ہے۔ پچاس سے زائد افراد کی شہادت ہو چکی ہے جن میں تحریک حریت کے نامور رہنما شیخ عبدالعزیز کا نام بھی شامل ہے۔ ان تازہ شہادتوں نے وادی اور جموں کے مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ شہیدوں کے شہر سری نگر سمیت ریاست کے بارہ اضلاع میں کرفیو نافذ رہا ہے اور پچھلے کئی دنوں سے وہاں کاروبارِ زندگی معطل ہے۔ بھارت کو براستہ جموں وادئ کشمیر سے ملانے والی واحد شاہراہ پر متعصب ہندو بلوائیوں کی طرف سے معاشی ناکہ بندی اور انتظامیہ کی طرف سے ملنے والی ڈھیل بھارت کے لیے پوری دنیا میں شرمندگی کا باعث بن گئی ہے۔ ان واقعات کے بعد کشمیر کے بھارت نواز سیاسی دھڑوں کو بھی حقیقی صورت حال سمجھنے میں مدد ملی ہے اور دو قومی نظریے کی حقانیت روزِ روشن کی طرح ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے آگئی ہے۔ شرائن بورڈ کے فیصلے کے خلاف لوگوں کے بھرپور احتجاج کی گونج ابھی فضاؤں میں موجود تھی کہ معاشی ناکہ بندی کے خلاف ’’مظفر آباد چلو‘‘ مارچ میں پوری وادی کے لوگوں نے حیران کن جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا اور پھلوں سے لدے ہوئے ہزاروں ٹرکوں کا رخ مظفر آباد آنے والے راستوں پر موڑ دیا۔
گیارہ اگست کا دن اس تحریک حریت کا اہم سنگ میل بن گیا ہے جب 56 سالہ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز کو بھارتی فوج نے گولیوں سے کئی ساتھیوں سمیت چھلنی کر دیا۔ اگلے دن شدید کرفیو کے باوجود ان کی نماز جنازہ میں 4 لاکھ افراد کی شرکت بھارتی حکومت کے لیے ایک اور ڈراؤنا خواب بن گیا۔ اسی طرح گذشتہ روز سرینگر میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کے باہر 5 لاکھ نفوس کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جب اقوام متحدہ سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت کے خلاف سراپا احتجاج تھا اور فضائیں نعرہ ہائے تکبیر سے معمور تھیں تو سی این این اور بی بی سی سمیت تمام بھارتی اور عالمی خبر رساں اداروں نے معاملے کی حساس نوعیت کو پہلے مرتبہ سنجیدگی سے نوٹ کیا، اوربرملا اعتراف کیا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے سرک رہا ہے۔
حادثات کا تسلسل جاری ہے اور نہیں معلوم کہ اس کے بعد کس قسم کے حالات سامنے آتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر خصوصاً وادی میں تحریک آزادی نے یہ تازہ انگڑائی اچانک کیوں لی؟
نیز اس کے قدرتی اسباب کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کیا ہیں؟
اور یہ موڑ سابق ادوار سے کن اعتبارات سے مختلف ہے؟
ذیل میں ہم نہایت اختصار سے ان مضمرات کا جائزہ لیں گے۔
ہندو سازش کی ناکامی
سب سے پہلے ان واقعات کے پس منظر میں کار فرما اس ہندو سازش سے پردہ اُٹھانا ضروری ہے جو خود ان کے گلے کا پھندہ بن گئی ہے اور بھارتی ’’جمہوریت‘‘ اور ’’سیکولر ازم‘‘ کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوٹ گیا ہے۔ گویا صیاد اپنے پھینکے ہوئے جال میں خود ہی پھنس گیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں وہ کونسی سازش تھی جو جرات مند کشمیری قیادت اور غیور مسلمانوں نے بری طرح ناکام بنا دی۔
جنوبی کشمیر کے ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں ’’بال تل‘‘ نامی مقام پر 14 ہزار میٹر بلندی پر واقع ایک غار ہے جہاں ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ان کے ایک دیوتا ’’بگھوان شیو‘‘ کا مندر ہے یہاں ’’دیوتا کے روحانی تصرف‘‘ سے ہر سال ایک برفانی مجسمہ ’’شیولنگم‘‘ تیار ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس غار کے دھانے میں جمع ہونے والا پانی سخت سردی کے باعث منجمد ہو کر مخصوص شکل اختیار لیتا ہے۔ اس برفانی مجسمے کی تیاری میں بعض اوقات عالمی موسمی تغیرات کی وجہ سے رکاوٹ بھی آ جاتی ہے جیسا کہ گزشتہ سال اس کی شکل مکمل ہی نہیں ہوسکی تھی اور شرائن بورڈ نے اس کی تحقیقات کے لیے ایک حفاظتی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ توہم پرست ہندو غار میں واقع اس مستطیل شکل کے برفانی ڈھیر کو دیکھنے اور اس کی پوجا کے لیے پورے بھارت سے یہاں آتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں اس مذہبی رسم کو ’’امرناتھ یاترا‘‘ کے نام سے کافی شہرت حاصل ہے۔ مذاہب کے درمیان پر امن ادوار کی ہم آہنگی، قوتِ برداشت اور انسانی مروت کے پیش نظر مقامی کشمیری مسلمانوں نے حسب روایت ہندو یاتریوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا اور انہیں ممکنہ سہولتیں فراہم کیں۔ 1990ء میں جب وادی میں تحریک آزادی نے زور پکڑ لیا اور وہاں عسکری کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا تو کشمیر میں دنیا بھر سے آنے والے زائرین کی طرح ان ہندو یاتریوں کی تعداد بھی خاصی کم ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد جب مجاہدین نے بھارت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے مشروط فائر بندی کی اور آہستہ آہستہ امن کی فاختائیں اڑنا شروع ہو گئیں تو اس خاموش عرصے میں بھارت نے جہاں دیگر سازشوں کے تانے بانے بنے وہاں ’’امرناتھ یاترا‘‘ کو بھی یہاں کے مسلمانوں کے خلاف ایک حربے اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔
یہ منصوبہ مسلم کش اسرائیلی پالیسیوں کی روشنی میں تیار ہوا۔ قبل ازیں وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے کئی منصوبے چونکہ ناکام ہو چکے تھے اس لیے اسے مذہبی آڑ میں مرحلہ وار نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔
سازش کا پہلا مرحلہ
اس سازش کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ آٹھ سال قبل کشمیری قانون ساز اسمبلی میں ایک بل پاس کروایا گیا جس کے تحت گورنر کی سرپرستی میں ’’امرناتھ شرائن بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جسے یاتریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ داری سرکاری سطح پر سونپی گئی۔ اس دوران باقاعدہ منصوبے کے تحت پورے بھارت اور جموں کے ہندوؤں کو اس ’’یاترا‘‘ کی ترغیب دلائی گئی۔ پانچ سال قبل جب بھارتی فوج کے سابق نائب سربراہ جنرل ایس کے سہنا کو ان کی مخصوص مسلم کش سرگرمیوں کے طفیل کشمیر کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بدنیتی پر مبنی چند فوری اقدامات کیے۔ اس نے یاترا کی مدت 15 دنوں سے بڑھا کر پہلے ایک ماہ اور پھر ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کر دی۔ اس پر اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید اور چند ممبرانِ اسمبلی نے مخالفت بھی کی مگر گورنر نے ان کی ایک نہ سنی۔ شرائن بورڈ گویا خود مختار ادارہ بنتا چلا گیا اور اس نے ریاست کے اندر ایک متوازی حیثیت سے اپنے فیصلے کرنے شروع کردیے جس پر مسلمان کشمیری قیادت کا ماتھا ٹھنکا۔
اس سلسلے میں دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ جویاتری (زائرین) قبل ازیں ہزاروں میں آیا کرتے تھے اب ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی۔ چنانچہ گزشتہ سال امرناتھ پاترا پر آنے والے ہندوؤں کی تعداد 4لاکھ سے زیادہ تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں زائرین کی دو ماہ تک آمد و رفت کا سلسلہ سازش کو عملی رنگ دینے کا کامیاب حربہ تھا۔
سازش کا دوسرا مرحلہ
اس تعداد کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت نے گورنر (جوشرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے) کے ذریعے اگلا قدم یہ اُٹھایا کہ امرناتھ یاترا کے راستے میں پہل گام سے بال تل کے درمیان پہاڑی جنگلات پر مشتمل 100 ایکڑ زمین ریاست کی طرف سے شرائن بورد کو منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کروا دیا۔ اس پر ماحولیات کے کارکنوں سے لے کر بھارت نواز سیاستدانوں تک سب نے احتجاج کیا مگر گورنر کی زیرنگرانی شرائن بورڈ اپنی من مانی کرتا چلا گیا۔ اس نے یہ پروپیگنڈا بھی شروع کر دیا کہ زائرین کی کثرت اور مدتِ قیام کی طوالت سے یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع میسر ہوں گے۔ سیاحت کی انڈسٹری فروغ پائے گی اور ریاست میں باہر سے انوسٹ منٹ آئے گی جس سے ترقی کے راستے ہموار ہوں گے۔ چنانچہ گورنر نے خود ہی زائرین کے قیام و طعام کی سہولیات اور بیت الخلاء تعمیر کرنے کے لیے ’’امرناتھ ڈیوپلمنٹ اتھارٹی‘‘ قائم کر کے یہ پورا علاقہ اس کے انتظامی کنٹرول میں دینے کی تجویز پیش کر دی۔ ریاستی کابینہ نے بھارتی دباؤ میں گزشتہ 28 مئی کے اجلاس میں مطلوبہ زمین شرائن بورڈ کو دینے کی منظوری دے دی۔ ماحولیات کے کارکنوں نے ایک مرتبہ پھر فطری حسن برباد کرنے کی اس کاوش پر سخت احتجاج کیا۔ لیکن جنگل میں طوطی کی آواز کس نے سننی تھی۔
معاملے پر جب سنجیدہ حلقوں میں سوچ بچار شروع ہوئی تو اس کے خطرناک پہلوؤں سے پردے سرکتے گئے۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کی کشمیری قیادت نے بیدار مغزی اور جرات سے کام لیتے ہوئے وسیع پیمانے پر احتجاج کا بروقت فیصلہ کیا اور اگلے ہی روز پورے کشمیر میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔ ان رہنماؤں میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یسین ملک، شبیر شاہ اور مرحوم شیخ عبدالعزیز نے نہایت جواں مردی کے ساتھ حریت پسند غیور قوم کی قیادت کا حق ادا کیا۔ انہوں نے وادی کے مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات منعقد کیے۔ عوام و خواص کو دلائل کے ساتھ سمجھایا کہ بھارت، اسرائیل کی طرح کشمیر کی سر زمین پر باہر سے ہندوؤں کو لاکر آباد کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہا ہے۔ آج 100 ایکڑ رقبہ منظور کروایا ہے کل ہزار ایکڑ پر ہندو بستیاں آباد کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔ یوں جب ایک بار اس کام کا آغاز ہوگیا تو پھر یہ سلسلہ آسانی کے ساتھ رکنے والا نہیں۔ یوں مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی دیرینہ بھارتی سازش کامیاب ہوجائے گی اور ہم اپنی ہی دھرتی پر فلسطینی مسلمانوں کی طرح بیگانے ہوجائیں گے۔
جون کا پورا مہینہ بالخصوص آخری ہفتہ یہ احتجاج اس قدر بڑھا کہ اس میں پہلی مرتبہ ہندو نواز سیاسی جماعتیں خواہ وہ حکومت میں تھیں یا اپوزیشن میں اپنی ماں دھرتی کی حرمت کے لیے حریت کانفرنس کی قیادت کی ہمنوا بن گئیں۔ وادی کا بچہ بچہ مرد عورتیں اور بوڑھے جوان سب سڑکوں پر آگئے۔ سری نگر کے گلی کوچے بھارت مردہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھے۔ لوگوں نے کرفیو توڑ کر تاریخی احتجاجی جلوس نکالے جن سے حریت قیادت نے جان ہتھیلی پر رکھ کر خطابات کیے۔ یسین ملک نے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے حسب معمول اپنے بازو تڑوائے اور کئی روز تک زیر علاج بھی رہے۔ 22 جون تا 30 جون یہ 9 دن مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں قومی یکجہتی کے مثالی دن تھے۔ حریت کانفرنس کے ناراض دھڑوں نے انہی دنوں میں باہمی رنجشیں بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کا خوش آئند فیصلہ کیا۔ ثانیاً حالات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ حکومتی اتحاد بھی ٹوٹ گیا حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کو اپنے عہدے سے مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ عوامی دباؤ کے سامنے بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے خاموشی اختیار نہ کی بلکہ احتجاجی تحریک میں خلاف توقع اور خلافِ معمول بھرپور کردار بھی ادا کیا۔
مختلف سیاسی اور مذہبی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی کشمیری قوم کا یہ ایک تاریخی ردعمل تھا جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور بالآخر گورنر نے بے بس ہوکر شرائن بورڈ کو الاٹ کی گئی زمین کا فیصلہ واپس لے لیا۔ وادی کے اندر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ احتجاج اس قدر زور دار تھا کہ آج تک بھارت نواز جماعتوں کو الیکشن کمپین کیلئے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا حالانکہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ زیادہ دور نہیں۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کا اہتمام قدرت نے خود کیا ہے۔ گذشتہ 13 سالہ دور میں پہلی بار محبوبہ مفتی اور عمر فاروق (ممبران بھارتی پارلیمنٹ) پر مقامی لوگوں نے پتھراؤ بھی کیا۔
دوسری طرف سے رہی سہی کسر جموں میں جاری ہندوؤں کی ’’سنگھرش سمیتی‘‘ تنظیم کی جانبدارانہ کارروائیوں نے پوری کردی۔ یہ نئی تنظیم دراصل شیوسینا، وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی درجنوں انتہا پسند ہندو تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل ہے جو گزشتہ چالیس روز سے شرائن بورڈ کے (زمین سے دستبردار ہونے سے متعلق) فیصلے کو واپس لینے کیلئے اولاً جموں میں اور ثانیاً پورے بھارت میں مسلمان کش عزائم کے ساتھ منظم ہو رہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کے خلاف وجود میں آنے والی اس تنظیم نے وادی کی ناکہ بندی کا شرمناک اقدام اُٹھایا ہے اور وادی کے لوگوں کو مجبوراً ضروریات زندگی کے لیے براستہ چکوٹھی مظفر آباد کے راستے پاکستان کی منڈیوں تک رسائی کا سوچنا پڑا۔
شرائن بورڈ کی شرارت کے بعد ناکہ بندی اور پھر جموں سے ہٹ کر وادی میں انتظامیہ کی متعصبانہ کارروائیوں میں درجنوں افراد کی شہادت ایسے شواہد ہیں جن کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر میں نیا جوش ولولہ اور تحرک پیدا ہوچکا ہے۔ پاکستان اپنے خطرناک داخلی سیاسی اور معاشی بحران کے سبب سفارتی اور سیاسی سطح پر پہلے جیسی تائیدی قوت سے اگرچہ محروم ہے مگر دنیا کے سامنے بھارتی جارحیت اور بدنیتی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس اچانک اور غضبناک کشمیری ردعمل پر بھارتی ’’نیتا‘‘ سکتے میں آچکے ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ کشمیری قیادت اپنے زور بازو سے تحریک آزادی کو منظم کر رہی ہے۔ تحریک آزادی کے اس نئے جوش اور ولولے کے پیچھے دراصل کشمیری قوم کا یہی احساس اور شعور ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی اپنی شناخت اور زمین کھونا نہیں چاہتے۔ وہ دنیا میں موجود دیگر اقوام کے برعکس معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع بھی اسی شناخت کی حفاظت کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال ریاستی حکومت نے جب سیاحتی مرکز گلمرگ میں ہوٹلوں کی تعمیر کے لیے غیر ریاستی سرمایہ کاروں کو زمین لیز پر فراہم کرنے کی بات کی تھی تو اس وقت بھی اسے شدید مخالفت کے باعث یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ یاد رہے کہ ریاست میں مستقل باشندگی کا قانون نافذ ہے جس کی رو سے غیر ریاستی باشندہ یہاں زمین نہیں خرید سکتا۔ کشمیری اپنی اسی شناخت اور خود مختاری کو بحال رکھنے کی خاطر خون کا نذرانہ دیتے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھیے دنیا کی اس مظلوم اور غیور قوم کا خون کب رنگ لاتا ہے؟