کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُه وَعِرْضُه وَمَالُه.
(ترمذی، 2 : 15)
’’ہر مسلمان کی عزت آبرو اور اس کی جان و جائیداد دوسرے مسلمان پر بالکل حرام ہے‘‘۔
غیبت کیا ہے؟
اس ارشاد گرامی کا ماحصل یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے دست و بازو یا زبان و اشارے سے کوئی ایسا تاثر نہ دے جس سے کسی مسلمان کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو یا اسے ذہنی و جسمانی صدمہ پہنچے اور وہ اسے اپنی ذات اور عزت و آبرو پر براہ راست حملہ تصور کرے، ایسی کسی بھی حرکت کو جس سے کسی کا مذاق اڑانا یا اس کی توہین کرنا مقصود ہو، اسے ’’غیبت‘‘ کہتے ہیں :
انسان کے پاس اگر کوئی کام نہ ہو اور چند افراد اکٹھے بیٹھے ہوں اور کہنے کے لئے کوئی بامقصد بات بھی نہ ہو تو وہ وقت گزاری کے لئے کسی موجود یا غیر موجود، زندہ یا مردہ کو ہدف بنا کر اس کے بارے میں رائے زنی شروع کر دیتے ہیں، اس کے ظاہری خد و خال سے لے کر باطنی اوصاف تک کو موضوع بناتے ہیں، جس سے بعض اوقات اس کی پوشیدہ کمزوریاں بھی ظاہر ہو جاتی ہیں اور اگر اسے پتہ چل جائے تو وہ ذہنی کوفت بھی محسوس کرتا ہے اور ایسے فرد یا افراد سے ناراض ہو جاتا ہے۔
ایسی حرکت، گفتگو، عمل یا اشارے کو ’’غیبت‘‘ کہتے ہیں۔ کسی کو زبان سے چبھتی ہوئی، دکھ دینے والی بات کہنا، یا ہاتھ سے اشارہ کرنا یا حقارت سے دیکھنا یا نقل اتارنا یا اسی نوعیت کی آزار پہنچانے والی حرکات، سب اس میں شامل ہیں، اگر صرف چسکا لینا اور وقتی طور پر تفریح طبع کا سامان کرنا مقصود ہو تو اسے ’’غیبت‘‘ یا چغلی کہتے ہیں لیکن اگر اس سے دو دلوں میں نفرت و عداوت پیدا کرنا اور دراڑیں ڈالنا مقصود ہو تو اسے ’’نمیمہ‘‘ کہتے ہیں، یہ غیبت کی بدترین صورت ہے، اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ لَايَدْخُلُ الْجنَّةَ قَتَّاتٌ یعنی چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔
سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا :
اَتَدْرُوْنَ ماالْغِيْبَةُ؟
’’کیا تم جانتے ہو، غیبت کیا ہے‘‘؟
بولے : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں : فرمایا :
ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا يَکْرَهُ.
’’تو اپنے بھائی کا ایسے الفاظ و انداز میں ذکر کرے، جو اسے پسند نہیں‘‘۔
صحابہ نے عرض کی : اگر وہ عیب اس میں موجود ہو تو پھر بھی وہ غیبت ہے؟
فرمایا : یہی تو غیبت ہے، اگر اس میں کوئی عیب ہی نہ ہو اور تم اسے بیان کرو تو اس کا مطلب ہوگا تم نے اس پر بہتان باندھا اور جھوٹ گھڑ کر اس کے سر تھوپ دیا۔ (ابوداؤد، 2 : 320)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے یا سخت جملے سے کسی کی تحقیر کو بھی ’’غیبت‘‘ قرار دیا ہے، وضاحت کے لئے چند مثالیں پیش کرتے ہیں :
1۔ حضرت والا مرتبت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا یہودی مذہب ترک کر کے مسلمان ہوئی تھیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں شرف زوجیت سے نوازا۔ ایک مرتبہ ازواج پاک سفر میں تھیں، راستے میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ تھک گیا یا علیل ہوگیا۔
جناب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک زائد اونٹ تھا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اپنا اونٹ صفیہ کو دے دو۔ وہ چونکہ سوکن تھیں، اس لئے بے ساختہ بول اٹھیں۔ کیا اس یہودیہ کو دے دوں؟
سرکار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نامناسب رویہ اور سخت جملہ بالکل اچھا نہ لگا اور سخت ناراضگی کا اظہار اس طرح فرمایا کہ دو ڈھائی ماہ تک ان کے ساتھ کوئی گفتگو نہ فرمائی۔
2۔ سوکنوں کی رقابت ایک طبعی امر ہے، دل کے اس پیار بھرے جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا، شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہاتھ سے اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا کہ ان کا قد چھوٹا ہے، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی کہ ایسا نہیں کہتے : تو نے اتنی کڑوی بات کہہ دی ہے کہ اگر سمندر میں ڈال دی جائے تو اسے بھی کڑوا کردے۔
3۔ ایک شخص بہت ہی لاغر و ناتواں تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں، کسی نے اس کے بارے میں کہہ دیا : وہ تو نرا کانگڑی پہلوان ہے۔ سرکار نے فرمایا :
اِغْتبْتمْ صَاحِبَکُمْ وَ اَکَلْتُمْ لَحْمَه.
’’تم نے اپنے بھائی کی غیبت کی ہے اور اس کا گوشت کھایا ہے‘‘۔
غیبت کی سزاؤں کا مشاہدہ
شب معراج حضور مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات کو عبور فرماتے ہوئے عرش اعظم اور لامکاں تک تشریف لے گئے اس موقعہ پر جنت و دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا، دوزخ میں چغل خوروں کو جو ہوش ربا اور خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں آپ نے ان کے بھی چند مناظر دیکھے اور دنیا میں آ کر بیان فرمائے۔
1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں :
نَظَرَ فِی النَّارِ فَاِذَا قومٌ يَاکلُونَ الْجِيفَ.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ جہنم میں مردار کھا رہے ہیں‘‘۔
جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا :
هٰوُلَاءِ الَّذِيْنَ يَاکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ.
’’یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے یعنی چغل خور تھے‘‘۔
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَمَّا عُرِجَ بِیْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ اَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمِشُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وصُدُورَهم.
’’ہم شب معراج ایسی قوم کے قریب سے گزرے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ بڑے وحشیانہ انداز سے خود کو چیر پھاڑ رہے تھے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے‘‘۔
جبریل نے بتایا یہ انسانی گوشت کے رسیا یعنی چغل خور ہیں۔
3۔ راشد بن سعد نے بیان فرمایا کہ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں بڑی ہی مکروہ اور قابل نفرت حالت میں پستانوں سے باندھ کر لٹکایا گیا تھا، حضرت جبریل امین نے بتایا :
یہ ’’لَمَّازُوْن‘‘ اور ’’هَمَّازُوْنَ‘‘ ہیں یعنی زبان اور ہاتھوں کے اشاروں سے غیبت کرنے والے ہیں۔
سزاؤں کی متشکل صورتیں
یہ بنی آدم کا پتہ پانی کر دینے والے روح فرسا مناظر تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاحظہ فرمائے۔ داناؤں کی یہ شان ہے کہ وہ ایسے واقعات و مناظر سے عبرت پذیر ہوتے اور سبق سیکھتے ہیں، آنکھیں بند کر کے آگے نہیں بڑھ جاتے۔
دنیا میں امت نے تو یہ مناظر نہیں دیکھے ہوئے تھے جن سے وہ عبرت حاصل کرتے اور اس کام سے بچتے جس کی ان چغل خوروں کو یہ سزا مل رہی تھی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرم فرمایا اور امت کے داناؤں کے لئے یہ مسئلہ حل کر دیا، چغل خوروں کا دوزخ میں جو حشر ہوگا اور وہ مردار کا گوشت کھائیں گے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں وہ کھانا پڑے گا اور جو ان سے تعفن پھوٹے گا اور بدبو کے بھبھاکے آئیں گے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اوقات میں موقع و محل کی مناسبت سے انہیں وہ مناظر دکھائے۔ بدبودار گوشت کھاتے وقت جو ان کا حال ہوگا، اپنی اعجازی شان کے ساتھ وہ انہیں عملی شکل میں دکھایا تاکہ غیبت سے بچیں اور اسے معمولی جرم نہ سمجھیں۔ چند مثالیں یہ ہیں :
1۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنا واقعہ خود بیان فرماتی ہیں کہ میں ایک عورت کے ساتھ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ بے خیالی میں، میں نے عرض کی : اِنَّهَا لَطَوِيْلَةُ الذَيْل یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس کا دامن بہت لمبا ہے، غالباً یہ اس طرف اشارہ تھا کہ یہ بہت لمبی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خاتون تھیں بات بھی کوئی اتنی اہم نہیں تھی لیکن مربی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اصلاح بھی ضروری سمجھی اور نہ صرف آئندہ غیبت سے بچنے کا حکم دیا بلکہ غیبت پیٹ میں جا کر جو حشر برپا کرتی ہے، وہ بھی اعلانیہ طور پر دکھا دیا۔ فرمایا :
اِلْفَظِیْ اِلْفَظِیْ
’’تھوکو، فوراً تھوکو‘‘!۔
فرماتی ہیں میں نے تھوکا تو وہ گوشت کا لوتھڑا تھا۔
2۔ دو عورتوں نے روزہ رکھا، پھر باتوں میں لگ گئیں اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ بے خیالی میں انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ وہ چغلیاں کر رہی ہیں، ہوش اس وقت آیا جب پیٹ میں بگولے کی طرح مروڑ اٹھنے لگے، انہیں سرکار کی بارگاہ میں لے گئے آپ نے برتن منگوا کر فرمایا اس میں قے کرو، جب قے کی تو گوشت کے لوتھڑے برآمد ہوئے۔ غیبت کی متمثل صورت سامنے پڑی تھی۔ (تفصیل آگے آئے گی)
3۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
کُنَّا مَعَ النَّبیْ صلی الله عليه وآله وسلم فَارْتَفَعَتْ رِيْحٌ مُنْتِنَةٌ.
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک بہت ہی بدبودار ہوا کا جھونکا آیا‘‘۔
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَتَدْرُوْنَ مَاهٰذِهِ الرِّيْحُ؟ هٰذه رِيْحُ الَّذِيْنَ يَغْتَابُوْنَ الْمُوْمِنين.
’’کیا تم جانتے ہو یہ کیسی ہوا ہے؟ یہ ان لوگوں کی بدبودار ہوا ہے جو اہل ایمان کی غیبت کرتے ہیں‘‘۔
غیبت سے آبروئے مسلم کی بربادی
چغلی سے دوہرا نقصان ہوتا ہے، چغل خور نے جس شخص کی برائیوں کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا ہو، اگر دوسرے لوگ اس پر اعتبار کر لیں تو اس غریب کا نقصان ہوتا ہے، لوگ اسے خواہ مخواہ برا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور وہ برادری میں معتوب ہو کر رہ جاتا ہے جب تک اس کا بے گناہ اور اس عیب سے پاک ہونا ثابت نہ ہو جائے اور جب اس کا بے گناہ اور سچا ہونا ثابت ہو جائے تو خود چغل خور معاشرے میں بدنام ہو جاتا ہے اور لوگ اسے جھوٹا اور برا سمجھنے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے سائے سے بھی کتراتے ہیں۔
غرض چغل خور کی عزت آبرو خاک میں مل جاتی ہے اور کوئی اسے معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ عام لوگ آخر انسان ہوتے ہیں وہ اتنے حوصلہ مند اور ایسے دل گردے کے مالک نہیں ہوتے کہ کوئی ان پر ناحق تہمتیں لگاتا اور بدنام کرتا پھرے اور وہ اسے معاف کردیں۔
1۔ حضرت جابر اور ابوسعید سے یہ حدیث مروی ہے۔ سرکار والا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَلْغِيْبَةُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا.
غیبت، بدکاری سے بھی بری حرکت ہے کیونکہ ایک شخص یہ بری حرکت کر کے پچھتاتا اور توبہ کرتا ہے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اس کا گناہ معاف کر دیتا ہے لیکن چغل خور کو معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص اسے معاف نہ کردے جس کی چغل خور نے غیبت کی ہے۔
ظاہر ہے جس بھولے انسان کی بے وجہ غیبت کی گئی ہو اس کا دل اتنا دکھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ معاف کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا، اس لئے یہ جرم بدکاری سے بھی بدتر ہے، جس کی معافی بہت مشکل بلکہ محال ہوتی ہے۔
2۔ جو لوگ دنیا میں کسی پر کسی بھی قسم کی زیادتی کرتے ہیں، ناحق ستاتے، گالیاں دیتے یا چغلیاں کر کے بدنام کرتے ہیں، قیامت کے دن ایسے مظلوم لوگ، ہر قسم کے جرائم پیشہ لوگوں، غاصبوں اور چغل خوروں کا راستہ روک لیں گے اور فرشتوں سے کہیں گے : ان ظالموں نے ہم پر زیادتی کی تھی ان سے ہمارے حقوق لے کر دیں۔ مجرم لوگ کہیں گے سب کچھ دنیا میں رہ گیا، اب ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ مظلوم کہیں گے، یہ روزِ محشر ہے، یہاں روپیہ پیسہ نہیں بلکہ نیکیاں چلتی ہیں۔ ان کی نیکیاں ہمیں دیں۔
چنانچہ اگر بالفرض ایک چغل خور کے پاس نیکیوں کا انبار ہوگا تو وہ سب بے گناہ لوگ لے جائیں گے جن کی اس نے چغلیاں کی ہوں گی، وہ حیران پریشان ہو جائے گا کہ اب کیا کرے، دینے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔ جن کی غیبت کی ہوگی، وہ کہیں گے، نیکیاں دے نہیں سکتے تو کیا ہوا، ہماری برائیاں تولے سکتے ہو، چنانچہ وہ اپنے گناہ اس پر لاد کر چلے جائیں گے اور چغل خور ناکردہ گناہوں کے انبار میں دھنس جائے گا۔ وہ جو کچھ دیر پہلے نیکیوں کے انبارکا مالک تھا، اب مفلس ہو جائے گا۔ سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اصل مفلس یہ ہوگا جس کی عزت آبرو، بروز حشر برباد ہوجائے گی، دیگر برائیوں کے ساتھ چغل خوری اسے تباہ و برباد کردے گی۔
3۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا فلاں شخص نے ان کی غیبت کی ہے، آپ نے تحائف سے تھال بھر کر اسے بھیجا اور فرمایا :
میں نے سنا ہے تو نے اپنی نیکیاں میرے نام کی ہیں، اس لئے میں یہ تحائف تیرے پاس بھیج رہا ہوں۔
یہ لطیف اشارہ تھا کہ چغل خور کو بہر صورت اپنی نیکیاں دوسرے کو دینا پڑتی ہیں اور وہ محشر میں قلاش اور بے آبرو ہو جاتا ہے۔
4۔ میل ملاپ، خیر خواہی اور جذبہ خلوص کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت اہمیت دی ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں، سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِاَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ.
’’کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتاؤں جو (اپنی خاص نوعیت کے حوالے سے) نماز، روزہ اور صدقات و خیرات سے بھی افضل ہے‘‘۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ضرور بتائیں۔ فرمایا :
اِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَبْنِ فَاِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِیَ الْحَالِقَة.
’’باہمی پیار و محبت، جذبۂ اخلاص اور تعلقات کو قائم رکھنا کیونکہ ناچاقی، منافقت اور بدگمانی دل سے دین ہی کا صفایا کر دیتی ہے، جس طرح اُسترہ سر سے بالوں کا صفایا کر دیتا ہے‘‘۔
چونکہ غیبت کا بڑا کام ہی یہی ہے کہ وہ دلوں میں بغض و عناد پیدا کر دیتی ہے اور اس سے باہمی تعلقات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں لوگ بدگمانی اور نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لئے احترام آدم کو دل سے کھرچنے والی اس غیبت سے اجتناب ضروری قرار دیا ہے تاکہ دل پاک صاف اور ایک دوسرے کی محبت سے لبریز رہیں اور آبروئے مسلم کی خوشبو سے من مہکتا رہے۔
آبروئے مسلم کی قدر و قیمت
انسانی تربیت کے اس انوکھے واقعہ کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، سرکار اعظم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے ادب و احترام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اسلمی جوان رعنا آیا جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتا تھا، خاموش چہرے اور جھکی ہوئی آنکھوں سے ندامت جھلک رہی تھی۔ اللہ کے نبی کے پاس آکر شرمسار لہجے میں بولا :
’’اس حرام عمل کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں جس سے ’’حد‘‘ لازم ہو جاتی ہے۔ سزا پانے کے لئے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ اس نے چار مرتبہ یہی کہا پیکر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رخ پرنور دوسری طرف پھیر لیا۔
آخر تم چاہتے کیا ہو؟
اُرِيْدُ اَنْ تُطَهِّرْنِیْ آقا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کر دیں۔ خلوص و وفا کا پیکر اللہ کی شریعت کو اپنے جسم و جان پر نافذ کرنے کے لئے پورے عزم و استقلال اور بڑی استقامت کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے ارادے میں کوئی تزلزل نہیں تھا، کسی قسم کی کوئی پشیمانی نہیں تھی کہ وہ از خود جان دینے کے لئے کیوں آیا۔ عدالت عظمیٰ نے ضابطے کی کاروائی مکمل کر کے اسے رجم کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔
وہ اللہ اور رسول کا عاشق، وہ کوہ وقار رضا کار، بڑی عاجزانہ شان کے ساتھ کھڑا رہا، قدموں میں جنبش تک نہ آئی تاکہ جذبہ عشق کی صداقت پر حرف نہ آئے تاآنکہ وہ آسمانی شریعت پر خاموشی سے قربان ہوگیا، ہر طرف سے آنے والے پتھروں کے انبار میں سکون کی نیند سوگیا۔
جو اس کے عشق کے مقام و مرتبہ اور جذبۂ فدا کاری کی عظمت اور معراج سے ناآشنا تھے، وہ پتھروں کے اس ڈھیر کے قریب آئے، ان میں سے ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا :
اُنْظُرْ اِلٰی هٰذَا الَّذِیْ سَتَرَاللّٰهُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَدَعْ نَفْسَه حَتّٰی رُجِمَ رَجمَ الْکَلْبِ.
’’ذرا اس شخص کو دیکھو، جس کی اللہ نے پردہ پوشی کی تھی مگر وہ اصرار کرتا رہا، یہاں تک کہ کتے کی طرح سنگسار کر دیا گیا‘‘۔
پیکر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کانوں تک بھی یہ الفاظ پہنچے، اس وقت تو آپ خاموش رہے، بڑے ضبط سے کام لیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل مبارک کو ان الفاظ سے بے حد دکھ پہنچا تھا۔
خاموشی سے آگے بڑھے، تھوڑی دور ایک مردہ گدھے کا ڈھانچہ پڑا ہوا تھا، وہ اکڑ چکا تھا، ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں پہنچ کر فرمایا : فلاں فلاں دو آدمی کہاں ہیں؟ وہ حاضر ہوگئے۔ اس مردہ گدھے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا :
کُلَا مِنْ جِيْفَةِ هٰذا الْحِمَارِ.
’’اس مردار گدھے کو کھاؤ‘‘۔
عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بھلا اس بدبودار مردار کو کون کھا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا نِلْتُمَا مِنْ عِرْضِ هٰذَا الرَّجُلِ آنِفًا اَشدُّ مِنْ هٰذِهِ الْجِيْفَةِ.
’’ابھی تم نے جو اس مرنے والے کو گالی دے کر اس کی عزت برباد کی ہے، وہ گالی اور غیبت اس بدبودار مردار سے بھی بری ہے‘‘۔
فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِيَدِه اِنَّه اَلْآنَ فِیْ اَنْهَارِ الْجَنَّةِ يَنْغَمِسُ فِيْهَا.
قادر حقیقی کے جاہ و جلال کی قسم! وہ تو جنت میں رحمت کے دریاؤں میں نہارہا ہے اور تم اسے یہاں گالی دے رہے ہو۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی غیبت کر کے تم نے کارکنان قضاء و قدر کی نگاہوں میں اپنی عزت بھی برباد کر لی ہے، آبروئے مسلم نازک آبگینے کی طرح ہے جو چغل خوری سے چور چور ہو جاتی ہے۔
غیبت سے روزے کی بربادی
قرآن پاک اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ایک معاملہ فہم انسان کو بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ’’غیبت‘‘ ایک بدترین، سنگین ترین اور مکروہ ترین جرم ہے، جو نہ صرف ایک وضع دار مسلمان کو بے وقار کر دیتا ہے بلکہ اس کی اخلاقیات اور عبادات کو بھی تباہ کر کے رکھ دیتا ہے، خصوصاً روزے جیسی عبادت کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
کل عمل ابن آدم له الا الصيام. . . والصيام جنة.
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے، مگر اس کا روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ۔ ۔ روزہ ڈھال ہے‘‘۔
2۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا :
الصِّيَامُ جُنَّةٌ مالم يَخْرِقْها.
’’روزہ انسان کے لئے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے‘‘۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پھاڑنے سے کیا مراد ہے؟ یعنی وہ اسے کیسے پھاڑتا اور اس کی برکات سے محروم ہوتا ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بِکَذِبٍ اَوْغيبة.
جھوٹ یا غیبت کے ساتھ۔
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزور وَالْعَمَلَ به فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِیْ اَنْ يَدَعَ طَعَامَه وشرابه.
’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ روزے کے نام پر اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔
غیبت، جھوٹ کی مکروہ ترین قسم ہے، قرآن پاک نے بتایا ہے چغل خور کو یوں سمجھنا چاہئے، جیسے وہ اپنے مسلمان بھائی کی لاش کا گوشت کھا رہا ہے، وہ کسی کو نظر تو نہیں آتا لیکن اسرارِ نہاں سے آگاہ اہل باطن اس لاش کے لوتھڑوں کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور دکھا بھی دیتے ہیں۔
دو چغل خور عورتیں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام عبید بتاتے ہیں کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا مگر دوپہر تک انکی حالت غیر ہوگئی، وہ ہانپتے ہوئے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عورتوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کیا کہ مرنے کے قریب ہیں، پیٹ کے درد نے ان کو نڈھال کر دیا ہے۔
فرمایا : انہیں بلاؤ، جب وہ آگئیں تو برتن منگوا کر ایک سے کہا : اس میں قے کرو، اس نے قے کی تو بدبودار گوشت کے لوتھڑے برآمد ہوئے۔ دوسری سے کہا : تم بھی کرو، خون، پیپ اور لوتھڑوں سے برتن بھرگیا۔ حقیقت شناس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راز کھولا کہ ان دونوں نے حلال رزق کھا کر روزہ رکھا پھر بیٹھ کر چغلیاں کرنے لگیں یعنی لوگوں کا گوشت کھانے لگیں۔ یہ لوتھڑے وہی چغلیاں ہیں جو انہوں نے کھائیں۔
یہی وہ چغل خوری ہے، جو چغل خوروں کو افطار کے وقت تک بے حال اور نڈھال کر دیتی ہے، آخری لمحات میں چند منٹ تک مزید انتظار کرنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور سارا دن بولے گئے جھوٹ اور کی گئی غیبت کے اثرات بے صبری کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جبکہ روزے کو آداب اور احترام کے ساتھ نبھانے والے اطمینان و سکون سے بیٹھے ہوتے ہیں انہیں افطار کی کوئی جلدی نہیں ہوتی، وقت پر سکون سے افطار اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کا روزہ ٹھکانے لگا اور بربادنہ ہوا۔