سوچ، فکر اور عمل کا وہ کون سالائحہ عمل ہے جسے اپنا کر انسان فکری لغزشوں اور عملی
گمراہیوں سے بچ سکتا ہے اور زندگی کے زاویوں کو درست کر سکتا ہے؟ وہ کون سے اصول ہیں جن
کو اپنانے سے انسان صحیح روش کو اپنا کر اپنی زندگی کو کامیابی و کامرانی کی شاہراہ
پر چلا سکتا ہے؟ یہ صرف ایک نظریہ (تھیوری) ہی نہیں ہے بلکہ ایک عملی طریقہ بھی ہے جو
انسانی زندگی کونئی راہوں اور نئی منزلوں سے آشنا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس پرسنجیدگی
سے غور و فکر کر کے اسے اپنانے اوراس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس مضمون
میں اسلامی تعلیمات اورعلمِ نفسیات کی جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں 4 اصول بیان
کئے جا رہے ہیں۔ (1) مثبت سوچ (2) حقیقت پسندی (3) خودشناسی (4) نصب العین
مضمون کے گذشتہ حصہ (ماہ اگست09ء) میں مثبت سوچ کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا کہ
مثبت سوچ انسانی زندگی کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات
کاجائزہ لیں تو وہاں ہمیں قدم قدم پر مثبت سوچ کو اپنانے اور منفی سوچ سے سختی سے پرہیز
کرنے کی تلقین ملتی ہے۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اپنے عقائد سے لے کر جملہ
تعلیمات تک ہر جگہ اور ہر معاملے میں مثبت سوچ کا دوسرا نام ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے
چند مزید آیات و احادیث پیش کی جا رہی ہیں۔
ارشاد رب العزت ہے :
٭ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.
’’سو بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے۔ یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے‘‘۔ (الانشراح : 5، 6)
علمِ نفسیات اور روز مرہ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اگر انسان کسی معاملے کو مشکل سمجھ لے تو اُس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ یہاں اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں کو بتایا جا رہا ہے کہ جہاں مشکل ہے وہاں اللہ رب العزت نے آسانی بھی ساتھ ہی لگا رکھی ہے لہٰذا تم مشکل کو دیکھ کر پست ہمت نہ ہو جایا کرو بلکہ آسانی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے حوصلے کو برقرار رکھا کرو۔ کسی معاملے میں حوصلہ مند رہنا مثبت سوچ ہے اور بے حوصلہ ہو جانا منفی سوچ۔ گویا یہاں بھی بالواسطہ طور پر مثبت سوچ کو اپنانے کی تلقین کی گئی۔
٭ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کی طرف سے جابجا اپنی نعمتوں کی یاد دھانی کرائی گئی اور اُنہیں یاد کرنے اور اُن پر شکر بجا لانے کاحکم دیاگیا، مثلاً سورۃ الرحمن میں مختلف نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بار بار فرمایا گیا :
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِO
(الرحمن : 16)
’’پس تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔
وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ.
(النحل : 114)
’’اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو‘‘۔
جبکہ تیسرے مقام پر شکر کی طرف باقاعدہ ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِيْدَنَّکُمْ.
(ابراهيم : 7)
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا‘‘۔
نعمتوں کو بار بار یاد دلانے اور اُن پر شکر بجا لانے کی تاکید کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے تصور سے لبریز رہیں اور وہ جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔ اس کے برعکس محرومی کااحساس جو کہ سراسر منفی جذبہ ہے اورانسان کی صلاحیتوں کا قاتل ہے، وہ اُس کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے۔
٭ انسان کے لیے سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب اُس پر کوئی دُکھ، تکلیف یا بلائے ناگہانی آجاتی ہے۔ ایسے موقع پر انسان کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ ہتھیار پھینک دینا چاہتا ہے۔ اسلام ایسے موقع پر انسان کوصبر کا دامن مضبوطی سے تھام لینے کی تلقین کرتا ہے جو کہ سراسر مثبت جذبہ ہے اور اس کے مقابلے میں بے صبری منفی سوچ ہے۔ چناچہ قرآنِ مجید جابجا صبر کی تلقین کرتے ہوئے ساتھ اُن انعامات کا تذکرہ بھی کرتا ہے جو صبر کے نتیجے میں انسان کومل سکتے ہیں تاکہ اُس کے لیے صبر کرنا آسان ہو جائے۔ ایک جگہ یہاں تک ارشاد فرمایا :
اِنَّمَا يُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍ.
’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا‘‘۔ (الزمر : 10)
ایک اور مقام پرصبرکرنے والوں کو اپنی خصوصی معیت کامژدۂ جانفزا سناتے ہوئے فرمایا
اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ.
(البقرة : 153)
’’یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے ‘‘۔
اب جس انسان کے دل میں صبر سے حاصل ہونے والے یہ ثمرات ہوں گے اُس کے لیے ہر قسم کی مصیبت میں صبر کے دامن کو تھامنا آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ مایوسی اور پست ہمتی کا شکار ہونے اور اسکے نتیجے میں کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے محفوظ رہے گا۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت جو قیمتی نصیحتیں ارشاد فرمائی تھیں اُن میں سے ایک یہ تھی
بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا.
(صحيح مسلم، باب فی الامر بالتيسير و ترک التنفير، ج 3، ص 1358، رقم 1732)
’’لوگوں کوخوشخبری دیا کرو اور اُنہیں (خواہ مخواہ ڈرا دھمکا کر) متنفر نہ کیا کرو اور (اُن کے لیے معاملات میں حتی الوسع)آسانی پیدا کیا کر اور (خواہ مخواہ بے جا پابندیاں لگا کر یا احکامِ شرع کو انتہائی صورتوں میں بیان کر کے اُن کے لیے) تنگی پیدا نہ کیا کرو‘‘
خوشخبری دینا مثبت فکر ہے اور آسانی پیدا کرنا مثبت عمل ہے۔ اسکے برعکس نفرت پیدا کرنا منفی سوچ ہے اور مشکلات پیدا کرنا منفی عمل۔ یہاں حضور علیہ السلام نے مثبت سوچ اور مثبت عمل کو اُبھارنے کے ساتھ ساتھ منفی سوچ اور منفی عمل سے گریز کی تلقین فرمائی ہے۔
٭ اِذَا نَظَرَ اَحَدُکُمْ اِلیٰ مَنْ فَضْلَ عليه فِی الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ مَنْ هُوْ اَسْفَلُ مِنْهُ ذٰلِکَ اَدْنیٰ اَلاَّ تَزْدَرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْکُمْ.
(فضائل الاعمال، فضل الخلق الحسن، ج 1، ص 142، رقم : 620)
’’جب تم میں سے کسی شخص کی نظر کسی ایسے شخص کی طرف پڑے جواُس سے مال یا جسمانی بناوٹ میں افضل ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس کی طرف دیکھے جواُس سے (اِن معاملات میں) کمتر ہے۔ یہ بات اِس کے زیادہ قریب ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کوحقیر نہ سمجھو‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں جو سبق دیا گیا ہے وہ مثبت سوچ کو برقرار رکھنے اور منفی سوچ سے بچنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ جب بھی کوئی شخص اپنے سے برتر کی طرف دیکھے گا تو لازماً وہ اُس کے ساتھ اپنا موازنہ کرے گا جس کے نتیجے میں اُسے اپنے پاس موجود نعمتیں حقیر اور کمتر دکھائی دیں گی جس سے اُس کے دل میں تنگی اور شکوہ پیدا ہوگا اور کئی دوسرے منفی رجحانات جنم لیں گے جو بالآخر اُسے عمل کی منفی سمتوں کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنے سے کمتر کی طرف دیکھنے کی صورت میں اپنے پاس موجود نعمتیں زیادہ دکھائی دیں گی جس کے نتیجے میں دل و دماغ میں خوشی و مسرت کے جذبات پیدا ہوںگے جواُس کی شخصیت پر کئی قسم کے مثبت اور خوشگوار اثرات پیدا کریں گے۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا يَفْرُقُ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً اِنْ کَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْهَا اٰخَر.
(رياض الصالحين، باب الوصية بالنسآء، رقم : 90)
’’کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت (جس سے اُس کا نکاح ہوا ہو) سے جدائی اختیار نہ کرے اگر اُسے اُس کی کوئی ایک عادت ناپسند ہو تو کوئی دوسری پسند بھی ہوگی‘‘
حدیثِ مبارکہ کامطلب یہ ہے کہ کسی آدمی کے لیے اپنے جیون ساتھی کو کسی خامی کی بنا پر چھوڑنا مناسب نہیں ہے، اس کی بجائے وہ اُس کی کسی دوسری خوبی پر نظر رکھتے ہوئے اُس کے ساتھ نباہ کرتا چلاجائے۔ یہ اُصول صرف میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ خاندانی، سماجی اورمعاشرتی زندگی کے ہرشعبے میں لاگو ہوتا ہے کہ انسان نے جن لوگوں کے درمیان رہنا ہو محض اُن کی خامیوں کی طرف دیکھتے رہنے (جوکہ ایک منفی اندازِفکر ہے اور نفرت پیداکرتاہے) کی بجائے اُن کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے (جوکہ مثبت سوچ ہے اور باہمی محبت پیدا کرتی ہے) اُن کے ساتھ اچھی طرح گذر بسر کرناچاہیے اورخوشگوار تعلقات کو قائم رکھنا چاہیے۔
٭ حضور علیہ السلام نے دعا کاایک اہم ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اُدْعُوْا اللّٰهَ وَاَنْتُمْ مُّوْقِنُوْنَ بِالْاِجَابَة.
(سنن ترمذی، باب 66، ج 5، ص 517، رقم : 3479)
’’اللہ کو پکارا کرو اس حال میں کہ تمہیں دعا کی قبولیت کا یقین ہو‘‘
دعا کی قبولیت کی اُمید اور یقین رکھنا مثبت سوچ ہے جب کہ قبولیت کے حوالے سے شک اور تردّدکا ہونامنفی سوچ ہے۔
٭ حضور علیہ السلام کامعمول تھا کہ جب کسی بیمار کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو اُس کے سرہانے بیٹھ کر عموماً یہ کلمات فرماتے :
لَابَاْسَ عليک طُهُوْرًا اِنْ شَآءَ اللّٰهُ تَعَالیٰ.
(السنن الکبریٰ، عيادة الاعراب ج 4، ص 356، رقم : 7499)
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ (یہ بیماری تمہیں گناہوں سے) پاک کر دے گی‘‘
بیمار آدمی کی ہمت عموماً شکسۃ ہو چکی ہوتی ہے اور کئی قسم کے خدشے، وسوسے اُسے دامن گیر ہوتے ہیں۔ تمام منفی سوچوں سے نجات دلانے اور اُس کی ہارتی ہوئی ہمت کو بحال کرنے کے لیے اُسے بتایا جا رہا ہے کہ بیماری کی طرف دیکھنے کی بجائے اُس پر ملنے والے اجر اور نتیجے کی طرف دیکھو۔ منفی میں سے مثبت کو نکالنے کی یہ کیسی خوبصورت مثال ہے!
٭ حضور علیہ السلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیساتھ ایک تنگ گھاٹی سے گزر رہے ہیں۔ پوچھا اسکا نام کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ’’الضیقہ‘‘(تنگی والی جگہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، آج سے اسکا نام ہے ’’الیسریٰ ‘‘(آسانی والی جگہ)
سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہاں نام کے تبدیل ہو جانے سے وہ جگہ کشادہ تو نہیں ہو سکتی لیکن یہاں ایک نفسیاتی قاعدہ استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ انسان کی سوچ رائی کوپہاڑ اورپہاڑکو رائی بنا سکتی ہے۔ ’’الضیقہ‘‘ کانام سنتے ہی ذہن تنگی کی طرف جاتا ہے اور ’’الیسریٰ‘‘کانام سن کر ذہن آسانی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ تویہاں نام کو تبدیل کرنے کا فلسفہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ انسان اسکے نام کی طرف دیکھتے ہوئے ذہن کی سطح پراُسے مشکل سمجھ کرخواہ مخواہ اپنے لیے مسئلہ نہ بنا لے۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ظَنُّوالْمُؤْمِنِيْنَ خَيْرًا.
’’مومنوں کے متعلق اچھاگمان رکھو‘‘
یہاں دوسروں کے متعلق اچھا گمان رکھنے کاحکم دیا جا رہا ہے جو کہ مثبت سوچ ہے جبکہ دوسروں کے متعلق خواہ مخواہ بد گمانی میں مبتلا ہونا سراسر منفی سوچ ہے۔ حضور علیہ السلام نے حسنِ ظن کی تلقین فرمائی اور ایک مقام پراسے عبادت قرار دیتے ہوئے فرمایا :
حُسْنُ الظَّنِ مِنْ حسن الْعِبَادَة.
(سنن ابی داؤد، باب فی حسن الظن ج 4، ص 298، رقم : 4993)
’’حُسنِ ظن (یعنی دوسروں کے متعلق حتی الوسع اچھاگمان رکھنا) عبادت ہے‘‘
٭ غصہ، نفرت، کینہ، حسد، بغض، عداوت، تعصب وغیرہ وغیرہ سب منفی احساسات ہیں جو اسلام میں قطعی حرام ہیں اور ان کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرے سے پیار و محبت اور صلح و صفائی سے رہنا، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا، دوسروں کی خیر خواہی چاہنا، ہر ممکن طریقے سے دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ مثبت جذبات ہیں جن کو اسلام میں پسند کیا گیا ہے اور ان کی تلقین کی گئی ہے۔
اس ساری گفتگو کاخلاصہ یہ ہے کہ اسلام سوچ، فکر اور عمل کے ہر سطح پر مثبت رُجحانات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور منفی جذبات و احساسات اور منفی اعمال و عادات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہی بات علمِ نفسیات کی سمجھ میں مدتوں بعد جا کر آئی ہے اور آج یہ علم بھی تعمیرِ شخصیت کے اندر مثبت سوچ کے کردار کو زبردست اہمیت دے رہا ہے۔ انسان کی عملی زندگی اُسکی سوچوں کی ہی آئینہ دار ہوتی ہے۔ سوچ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے اگر اسے مثبت استعمال کر لیا جائے تو ہم بہت کچھ شکار کر سکتے ہیں اور اگر اسے منفی استعمال کیا جائے تو ہم خود شکار جاتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی ہمارے ذہن میں گھر، مدرسہ اور ماحول کے اثرات میں سے بہت سی منفی چیزیں داخل ہو جاتی ہیں۔ نیز ہمارے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات اور تلخ حاثات و سانحات بھی کئی قسم کی منفی سوچیں اور منفی رجحانات ہمارے ذہن میں منتقل کرتے جاتے ہیں۔ بلوغت تک پہنچتے ہوئے ہم بہت سی منفی سوچوں کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور منفی سوچ گویا ہماری عادت اور ذہنی رویہ بن چکی ہوتی ہے اور پھر اُس کے زیرِ اثر ذہن خود بخود کام کرتا رہتا ہے۔ بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان کوشش کے ذریعے اپنی عادتوں کو تبدیل کر سکتا ہے اور جیسے دوسری عادتوں کو بدلا جا سکتا ہے اسی طرح منفی سوچ کی عادت کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ ابتداء میں ذہن کو منفی سوچ کی ڈگر سے ہٹا کر مثبت سوچ کی ڈگر پر لانے کے لیے کچھ محنت تو کرنا پڑے گی لیکن ایک بار اگرمحنت کر کے ذہن کو ہر معاملے میں مثبت سوچ کی عادت ڈال دی جائے تو پھر اس عادت کے اثرات و ثمرات ہماری ساری عملی زندگی کے اندر شامل ہو کر اُسے خوشگوار اور حسین تر بنا دیں گے۔
2- حقیقت پسندی
حقیقت پسندی کامطلب یہ ہے کہ انسان ہر معاملے میں حقیقت کا متلاشی اور اپنے امکان کی حد تک حقیقت پر چلنے والا بن جائے۔ وہ کسی بھی معاملے کو محض سطحی طور پر دیکھ کر کوئی فیصلہ نہ کر لے بلکہ ہر معاملے کی گہرائی میں اُتر کر، اُس کا ہر پہلو سے جائزہ لے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھے کہ اُس میں سچ کیاہے اور جھوٹ کیا ہے؟ حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے؟ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ اور پھر دیانتدارانہ اور حقیقت پسندانہ نیز منصفانہ غور و فکر کے نتیجے میں جو چیز اُسے مبنی برحق اور ’’اقرب الی الصواب‘‘ دکھائی دے اُسے قبول کر لے اوراُسی کے مطابق اپنے طرزِ عمل کو متعین کر لے خواہ اُسے اپنانے میں کوئی ظاہری فائدہ دکھائی دے یا نہ دے اور اس کے برعکس جو چیز حقیقت سے بعید دکھائی دے، اُسے چھوڑ دے، چاہے بظاہراُسے اپنانے میں کوئی فائدہ اور مصلحت ہی کیوں نہ دکھائی دے رہی ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ حقیقت پسندی کاجمع ہونا بہت ضروری ہے ورنہ محض مثبت سوچ انسان کو کبھی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ مثلاً انسان مثبت سوچ کو استعمال کرتے ہوئے شفا کی اُمید پر زہر کھا لے تو یہ طرزِ عمل یقیناً غلط ہوگا اس لیے کہ زہر کا نقصان دہ ہونا ایک حقیقت ہے، اس کی ماہیت صرف انسان کی مثبت سوچ سے تو تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح انسان منزل کی سمت جانے والے راستے کی بجائے کسی غلط سمت چل پڑے اور مثبت سوچ کے ذریعے یہ توقع رکھے کہ میں یقینا منزل پر پہنچ جاؤں گا تو یہ محض اُس کی خام خیالی ہو گی جوحقیقت کا بدل نہیں بن سکے گی۔ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآنِ مجید میں بتایاگیا
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّج وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا.
(النجم : 28)
’’وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، اور بے شک گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا‘‘۔
لہٰذا مثبت سوچ اپنی جگہ پر بہت اچھی چیز ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی کو بھی ضرور شامل رکھنا چاہیے۔ جب یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو جائیں تو پھر گمراہی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں کسی طرزِ عمل کو اپنانے کے لیے پہلے حقیقت پسندی کا فارمولہ استعمال کرتے ہوئے درست روش کو دریافت کرنا چاہیے پھر اُس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مثبت سوچ رکھنی چاہیے اور نتائج کے حوالے سے پُر اُمید رہنا چاہیے۔
مثبت سوچ کیساتھ جب تک حقیقت پسندی کو شامل نہ کیا جائے اسکی حیثیت خوش گمانی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی جو انسان کو کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض اوقات تو غلط فہمی یا گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ تاریخ کی بہت ساری گمراہیاں اُس مثبت سوچ سے ہی پیدا ہوئیں جن کے ساتھ حقیقت پسندی شامل نہیں تھی۔ مثلاً یہود و نصارٰی نے بذعمِ خویش یہ سمجھ لیا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے لاڈلے ہیں لہٰذا ہم جہنم میں نہیں جائیں گے ۔
وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً.
(البقرة : 80)
’’اور وہ (یہود) یہ (بھی) کہتے ہیں کہ ہمیں (دوزخ کی) آگ ہرگز نہیں چھوئے گی سوائے گنتی کے چند دنوں کے‘‘۔
جب یہ سوچ بن گئی تو پھر اُنہوں نے ہر قسم کی جسارتوں، دیدہ دلیریوں اور دوسروں پر ہر قسم کے ظلم و ستم اور زیادتی کو اپنے لیے جائز قرار دے لیا۔ اب یہاں سوچ تو اُن کی مثبت ہی تھی کہ وہ ایک اچھی اُمید لگائے ہوئے تھے لیکن اسکی تہہ میں حقیقت کوئی نہیں تھی۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ حقیقت پسندی کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔
غور کیا جائے تو اسلام اور ایمان کا سارا سفر ہی حقیقت پسندی ہے۔ ایک انسان سب سے پہلے جب کلمہ پڑھتا ہے تو یہ اُس کا اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اقرار کرنا ہوتا ہے۔ اس ایمان کا اقرار کرنے کے بعد بھی اُسے عمل کی جہتوں کو درست رکھنے کے لیے قدم قدم پر حقیقت پسند بننا ہوتا ہے۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی پہلی سورت، سورۂ فاتحہ ہے جسے ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اللہ رب العزت کی چند نمایاں صفات کا تذکرہ کرنے کے بعد جو اہم ترین دعا سکھائی گئی ہے، وہ یہ ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.
(البقرة : 5)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔
یہاں سیدھے راستے سے مراد حقیقت پسندی والا راستہ ہے جو ہر قسم کی افراط و تفریط اورگمراہیوں سے پاک ہو۔ (جیساکہ اگلی آیات میں اُس کی وضاحت کی گئی) دوسری طرف سورۂ بقرہ کے آغاز میں قرآنِ مجید کا تعارف کراتے ہوئے جو اہم بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے۔
هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ.
(البقرة : 2)
’’(یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
بعض اھلِ علم کے بقول تو سارا قرآن ہی بندے کی اُس طلب ہدایت کاجواب ہے جو اُس نے سورۃ فاتحہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بصورتِ دُعا پیش کی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے اندر ہدایت یعنی حقیقت پسندی کی اہمیت کیاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جسے کسی بھی معاملے میں صحیح راستے کی پہچان مل گئی اور وہ اُس پر چل پڑا تو وہ جلد یا بدیر کبھی نہ کبھی منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے لیکن جو چل ہی غلط راستے پر رہا ہو اُس نے منزل پر کیسے پہنچنا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا.
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ‘‘۔ (الحجرات : 6)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُس کی اچھی طرح چھان بین کر لیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے! پھرجب شرح صدر سے کسی نتیجے پر پہنچیں تو پھرعملی قدم اُٹھانا چاہیے۔ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
(رياض الصالحين، جلد 2، ص 270)
’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر اُس بات کو (بلاتحقیق) بیان کر دے جو وہ سنے‘‘
گویا یہاں مومنوں سے کہاجا رہا ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے نہ مانیں، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونا یقینی ہو جائے تو پھر ہی اُسے تسلیم کریں اور آگے کسی سے بیان کریں۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے وہ اُتنی ہی نایاب بھی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ ہدایت کا راستہ ایک ہے توگمراہی کے راستے ہزار ہیں، جن میں وہ چھپا ہوا ہے۔ حقیقت ایک ہے تو فسانے سوہیں۔ اس کی طرف اشارہ ہمیں اُس حدیث میں ملتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو تمثیل کی زبان میں سمجھانے کے لیے زمین پر ایک سیدھی لائن کھینچی اور پھر اسکے دائیں بائیں چند چھوٹی چھوٹی لائنیں کھنچ کر بتایا کہ یہ (درمیان والی لائن) خدا کا راستہ ہے اور یہ (بقیہ لائنیں) گمراہی کے راستے ہیں جو خدا کے راستے سے ملے ہوئے ہیں۔
مطلب یہ تھا کہ ہدایت (حقیقت)کا راستہ ایک ہی ہے لیکن گمراہی کے راستے بہت سے ہیں اور یہ صورتِ حال زندگی کے تقریباً تمام معاملات میں ہے۔ اب یہ انسان کی طلب، ہمت، جستجو اور جذبے کی صداقت پر منحصر ہے کہ وہ ہر معاملے میں گہرے غور و فکر کے ذریعے سو پردوں کے اندر چھپی ہوئی حقیقت کو تلاش کر لے اور پھر اُسے اپنی زندگی میں شامل کر لے اور حقیقت سے کمتر درجے کی کسی چیز کو قبول کرنے پر مطمئن اورآمادہ نہ ہو سکے۔
کسی بھی چیز اور کسی بھی معاملے کو دیکھنے کی کئی جہتیں ہوتی ہیں جب تک انسان صحیح جہت سے نہ دیکھے تب تک وہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا اور اُس چیز یا معاملے کی اصلیت کو نہیں جان سکتا۔ اس کی مثال کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ہم اپنی آنکھوں پر کسی خاص رنگ کی عینک لگا لیتے ہیں تو پھر وہ چیز ہمیں اپنے اصلی رنگ کی بجائے اُسی رنگ میں دکھائی دیتی ہے جس رنگ کی عینک لگائی گئی ہو، یہی حال ذہن کا ہے جب ہم کسی معاملے میں اپنے ذہن میں پہلے سے کچھ نظریات قائم کر لیتے ہیں اور پھر متاثر ذہن کیساتھ اُسے دیکھتے ہیں، تو پھر ضروری نہیں ہے کہ اُس کے متعلق ہماری رائے صحیح ہو، وہ غلط بھی ہو سکتی ہے پھر غلط رائے سے غلط عمل جنم لیتاہے اور زندگی گمراہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ (جاری ہے)