’’تعلیمات تصوف اور اصلاح احوال‘‘ کے عنوان سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السلمی کی تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے اعتکاف 2007ء میں خصوصی دروس ارشاد فرمائے۔ ماہنامہ منہاج القرآن نومبر، دسمبر 07، فروری، مئی، جون 08ء کے شماروں میں حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و اقوال پر مبنی تین دروس شائع کئے جا چکے ہیں۔ شیخ الاسلام کا زیرِ نظر خطاب بھی ’’تعلیمات تصوف اور اصلاح احوال‘‘ کے عنوان سے منعقدہ چوتھا درس ہے جس میں آپ نے اولیاء اور علم الحدیث، اولیاء کی توجہ الی اللہ اور مخلوق کو فیض رسانی اور اصلاح احوال کے لئے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و اقوال بیان فرمائے۔ اس گفتگو کا آخری حصہ جو حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال زریں پر مشتمل ہے اسے نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ اس خطاب کے بقیہ مندرجات ان شاء اللہ آئندہ کبھی پیش کئے جائیں گے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.
(يونس 10 : 62)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
حضرت سلطان العارفین ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا پورا نام ابواسحاق ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ البلخی ہے۔ آپ صوبہ خراسان کے شہر بلخ کے رہنے والے تھے۔ خود بھی بادشاہ تھے اور بادشاہوں کی نسل میں سے تھے۔ آپ نے بادشاہت کو اور دنیاوی زیب و زینت کو ترک کیا اور زہد و ورع کو اختیار کیا اور طریق الی اللہ کے مسافر ہوگئے۔ بادشاہت کو ترک کیا اور سفر کرتے ہوئے مختلف ممالک میں بڑے بڑے اکابر ا ولیاء، صلحاء، تابعین، تبع تابعین کی زیارتیں کرتے مکہ معظمہ پہنچے۔ مکہ معظمہ میں حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ (امیر المومنین فی الحدیث) کی صحبت میں رہے۔ بعد ازاں حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ صرف ترکِ دنیا کرنے والے اولیاء کے امام ہی نہیں بلکہ محدثین کے بھی امام ہیں۔ آپ نے تبع تابعین سے ہی نہیں بلکہ اکابر تابعین سے بھی بے شمار احادیث سماع و روایت کی ہیں۔ المختصر یہ کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ صرف درویش فقیر ہی نہیں بلکہ حدیث کے بھی امام ہیں۔
’’طبقات الصوفیہ‘‘ میں امام سلمی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت سلطان ابراہیم ابن ادھم رضی اللہ عنہ نے ایک وعظ میں چودہ نصیحتیں کیں۔ اصلاح احوال کے لئے یہ چودہ نصیحتیں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ آئیے ان نصیحتوں سے کسبِ فیض کرتے ہوئے اپنے باطن کی اصلاح کا کچھ ساماں کریں :
1۔ بیداری اور قلتِ طعام
لَا تَتْمَعَ فِی السَّحْرِ مَعَ الشِّبن.
اے بندے! اگر تو چاہے کہ تجھے اللہ کے لئے جاگنا نصیب ہو کیونکہ جاگے بغیر کچھ نہیں ملتا، اگر تو چاہے کہ جاگنا نصیب ہو تویاد رکھ پیٹ بھرنے والے کو جاگنا نصیب نہیں ہوتا۔ اس ایک جملہ میں زندگی کا پورا عنوان دے دیا کہ پیٹ بھر کے کھانے والوں کو جاگنا نصیب نہیں ہوتا۔
2۔ غمِ الہٰی اور قلتِ نوم
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْحُزُنِ مَعَ کَثْرَتِ النَّوْم.
اور اگرتو چاہے کہ تجھے اللہ کا غم نصیب ہو اور آخرت کا غم مل جائے تو زیادہ سونے والے کو آخرت اور مولیٰ کا غم نہیں ملتا۔
3۔ رغبتِ دنیا سے اجتناب
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْخَوْفِ لِلّٰهِ مَعَ الرَّغْبَةِ فِی الدُّنْيَا.
اور اگر تو چاہے کہ اللہ کا خوف نصیب ہوجائے تو اللہ کا خوف دنیا کی رغبت، لالچ رکھنے والوں کو نہیں ملا کرتا۔
اللہ کا خوف دنیا کی رغبت اور دنیا کی حرص و طمع رکھنے والوں کو نہیں ملتا، دل کو دنیا کی رغبت سے پاک کرنا ہوگا۔ میں بھی ہمیشہ آپ کو یہی نصیحت کرتا رہتا ہوں کہ دنیا میں رہیں لیکن دنیا آپ میں نہ رہے۔ خود دنیا میں رہیں مگر دنیا کو خود میں نہ رہنے دیں۔ رغبتِ دنیا اگر رکھیں تو خوف الہٰی نہیں ملتا۔
4۔ غیراللہ کی محبت سے اجتناب
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْاُنْسِ بِااللّٰهِ مَعَ الْاُنْسِ بِالْمَخْلُوْقِيْن.
اور اگر مخلوقات اور دنیا والوں کی محبت اور اُنس دل میں ہو تو اللہ کا اُنس دل میں نہیں آتا۔
دو محبتیں یعنی اللہ کی اور اس کے غیر کی محبت ایک دل میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ جیسے ایک کمرے میں دو سوکنیں نہیں رہتیں اس طرح اللہ کی اور غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوتیں۔
5۔ تقویٰ و پرہیزگاری پرکاربندی
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْاَلْهَامِ الْحِکْمَةِ مَعَ تَرَکِ التَّقْوٰی.
اگر تو چاہے تجھ پر الہام ہو، حکمت کا الہام ہو، اسرار کھلیں، اللہ کی طرف سے القاء اور الہام ہو، مالائے اعلیٰ کے راز کھلیں، اوپر سے غیبی باتیں تیرے دل پہ اتریں اور وہ معلومات ملیں اگر تو یہ الہام حکمت چاہے تو تقویٰ، پرہیزگاری ترک کر کے الہام نصیب نہیں ہوتے۔ اس کے لئے تقویٰ، پرہیزگاری کی زندگی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ وہ تقوی اور پرہیزگاری کھانے، پینے، بولنے، دیکھنے، چلنے، معاملہ کرنے اور پوری زندگی کے ہر باطن و ظاہر میں بھی ہو۔
6۔ بُری صحبت سے اجتناب
وَلَا تَتْمَعَ فِی الصِّحَةِ فِی اُمُوْرِک مَعَ مُوَافَقَةَ الظُّلُم.
اگر تو چاہے تیرے امور اللہ کی اطاعت میں، بندگی میں، محنت میں اس کی رضا کے مطابق سیدھے ہو جائیں اور تیرے امور کو صحت و سلامتی نصیب ہو جائے تو پھر جو ظالم لوگ، گنہگار اور نافرمان لوگ ہیں، دنیا پرست لوگ ہیں ان کے ساتھ موافقت نہ رکھ کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ موافقت اور دوستی رکھ کر تیرے امور اللہ کے ساتھ سیدھے نہیں ہو سکتے۔
7۔ دنیا اور مال و دولت کی محبت سے اجتناب
وَلَا تَتْمَعَ فِی حُبُّ اللّٰهِ مَعَ مَحَبَّةِ الْمَالِ وَ الشَّرَف.
اگر تو چاہے اللہ کی محبت مل جائے مگر تو مال و دولت اور عہدہ و منصب اور شرف و عزت کی محبت کا طالب ہے تو اللہ کی محبت نہیں ملے گی۔ شرف و منصب اور مال و دولت کی طلب کی محبت دل میں اگر ہوتو اس دل میں اللہ کی محبت نہیں آئے گی۔
8۔ دل کی نرمی اور مساکین پر رحم
وَلَا تَتْمَعَ فِی لِيْنِ الْقَلْبِ مَعَ الْجَفَاءِ لِلْيَتِيْمِ وَالْاَرْمَلَةِ والمساکين.
اور اگر تو چاہے کہ دل کی نرمی نصیب ہو جائے تیرا دل نرم ہو تو یاد رکھ یتیموں، غریبوں، بے سہاروں، مسکینوں پر بے رحمی کر کے دل کی نرمی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر غرباء، یتاما، مساکین سے جفا کریں، کڑوے ہو جائیں، انہیں کھانے کو دوڑیں اور ان کے ساتھ آپ کا رویہ جفا کا ہو، زیادتی کا ہو، ظلم کا ہو، بے نیازی کا ہو۔ جس کی طرف قرآن میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا :
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِO فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَO وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO
(الماعون : 1 . 3)
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہےo تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o‘‘
دین کو جھٹلانے والا وہ ہے جو یتیموں، مسکینوں کو دھکے دیتا اور ان کے کھانے کی فکر نہیں کرتا۔ اگر غریبوں، مسکینوں کے ساتھ تیری جفا کا طریقہ ہے تو اللہ تعالیٰ تیرے دل کو نرمی کی نعمت عطا نہیں کرے گا۔
9۔ رقتِ قلب اور قلتِ کلام
وَلَا تَتْمَعَ فِی الرِّقَّهِ مَعَ فَضُوْلِ الْکَلَام.
اور اگر چاہے کہ تجھے رقت نصیب ہوجائے، گریہ و زاری نصیب ہو جائے تو لغو اور فضول باتیں کرنے والی عادت سے دل کو رقت نصیب نہیں ہوتی۔ زبان کو بند رکھنا سیکھ، کم بولنا سیکھ، فضول گفتگو نہ کر، پھر تب جا کر دل کو رقت نصیب ہوگی۔
10۔ مخلوقِ خدا کیلئے سراپا رحمت
وَلَا تَتْمَعَ فِی رَحْمَةِ اللّٰهِ مَعَ تَرْک الرَّحْمَةِ لِلْمَخْلُوْقِيْن.
اگر تو چاہے کہ اللہ کی رحمت ملے تو اللہ کی مخلوق پر رحمت نہ کر کے اللہ کی رحمت کا طلب گار نہ بن، اگر اللہ کی رحمت چاہتا ہے تو اللہ کی مخلوق پر خود رحمت کیا کر۔
11۔ ہدایت کیلئے علماء و صلحاء کی ہم نشینی
وَلَا تَتْمَعَ فِی الرُّشْدِ مَعَ تَرْک الْمُجَالَسَةِ الْعُلْمَآء الصُّلَحآء.
اگر تو چاہے کہ تجھے رشد و ہدایت ملے تو علمائے صالحین کی مجلسوں میں بیٹھنا ترک کر کے کبھی رشد و ہدایت نہیں مل سکتی۔ ہدایت پڑھنے سے نہیں ملتی بلکہ صحبت سے ملتی ہے۔ پڑھنے سے علم ملتا ہے، ہدایت نہیں ملتی ہر علم ہدایت نہیں ہوتا ہدایت صحبت سے ملتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پہلی سورہ فاتحہ میں جو پہلا سبق دیا وہ طلب ہدایت کا ہے، اس میں پڑھنے پڑھانے کی بات ہی نہیں کی بلکہ صحبت کی بات کی۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم.
’’باری تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ دکھا‘‘۔
فرمایا : اگر سیدھی راہ کی ہدایت لینی ہے تو صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ. ’’میرے انعام یافتہ بندوں کے راستے پر چلو‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں کی متابعت و صحبت سے ہدایت ملتی ہے، پڑھنے سے علم ملتا ہے۔ علم کبھی باعث ہدایت ہوجاتا ہے اور کبھی باعث ضلالت ہو جاتا ہے، کبھی باعث گمراہی ہو جاتا ہے۔
اسی لئے شیخ اکبر نے فرمایا : ’’العلم حجاب الاکبر‘‘ ’’علم خود بندے اور اللہ کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہے‘‘۔ پس ہدایت کے لئے اچھی صحبت اختیار کر، صالح علماء کی صحبت اختیار کر۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے جلساء کون ہیں؟ کن کی مجلس اختیار کیا کریں؟ کن کی صحبت اور مجلس میں بیٹھا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین باتیں فرمائیں، فرمایا : ان لوگوں کی مجلس اور صحبت میں بیٹھا کرو کہ جن کے چہرے کو دیکھو تو خدا یاد آجائے۔
خَيَارُکُمُ الَّذِيْنَ اِذَا رُؤُوْ ذُکِرَاللّٰه.
(ابن ماجه، ج 2 ص 379، رقم : 46119)
’’اچھے لوگ وہ ہیں جن کو دیکھو خدا یاد آجائے‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : تُذَکِّرُکُمُ اللّٰه.
(مسند ابويعلیٰ، ج : 1، ص : 326، رقم : 2437)
’’ان کو اگر دیکھو تو اللہ یاد آجائے‘‘۔
’’اگر ان کو سنو توعلم و حکمت، بصیرت و معرفت میں اضافہ ہوجائے‘‘۔
اور ’’ان کے اعمال و زندگی کو دیکھو تو آخرت یاد آجائے‘‘ فرمایا : جن میں یہ تین چیزیں دیکھو ان کی صحبت و مجلس میں بیٹھا کرو۔
ان کا نطق (بولنا) آپ کے علم اور معرفت میں اضافہ کرے۔ ۔ ۔ ان کو دیکھنا اللہ کی یاد دلا دے۔ ۔ ۔ اور ان کے اعمال اور زندگی کو دیکھنا آخرت کو یاد کرائے۔ ۔ ۔ یہ اچھے جلساء ہیں۔ ہدایت صحبتوں سے ملتی ہے۔ اس لئے اہل اللہ طویل سفر کرکے صرف صحبت کے لئے جاتے، گھنٹوں مجالس اور صحبتوں میں بیٹھے رہتے۔ نہ سوال کرتے اور نہ بولتے صرف صحبت کے لئے چپ بیٹھے رہتے۔
12۔ خود پسندی اور خود تعریفی سے اجتناب
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْحُبِّ لِلّٰهِ مَعَ حُبِّ الْمِدْحَة.
پہلے تھا اللہ کی محبت، اگر چاہے کہ اللہ کی محبت نصیب ہو جائے تو مال اور شہرت کی محبت چھوڑ دے لیکن اگر تو چاہے اللہ کے لئے تجھے محبت نصیب ہوجائے، کسی اللہ والے کی محبت نصیب ہوجائے تو پھر اپنی تعریف سے محبت چھوڑ دے۔ ہر بندہ چاہتا ہے کہ میری تعریف اور میری واہ واہ کریں۔ فرمایا جو اپنی تعریف اور مدحت سے محبت کرے گا اسے اللہ والوں کی محبت نصیب نہیں ہوگی۔
13۔ دنیا کی حرص کا خاتمہ
وَلَا تَتْمَعَ فِی الْوَرَعَ مَعَ الْحِرْصِ فَی الدُّنْيَا.
اور اگر تو چاہے تجھے زہد و ورع نصیب ہو جائے تو دنیا کا حرص چھوڑ دے۔
14۔ رضاءِ الہٰی اور ورع
وَلَا تَتْمَعَ فِی الرِّضَاءِ وَالْقَنَاعَةِ مَعَ قِلَّةِ الْوَرَع.
اگر تو چاہے اللہ کی رضا اور قناعت نصیب ہوجائے تو ورع ترک کرنے سے یا کم کرنے سے اللہ کی رضا نصیب نہیں ہوسکتی۔
اللہ سے دوستی اور مخلوق سے کنارہ کشی
امام محمد بن اسحاق، حضرت اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ان 14 نصیحتوں پر عمل کیسے نصیب ہو، اس کے لئے کوئی ایک جامع نصیحت کر دیں تاکہ سارے طریقے اس میں آجائیں۔ فرمایا :
اِتَّخِذِ اللّٰه صَاحِبًا وَ زِر النَّاس جَانِبًا.
اللہ کو دوست بنالے اور لوگوں سے کنارہ کش ہو جا۔ اللہ کو دوست بنالیں اور مخلوق کو ایک جانب کرلے۔
کنارہ کشی سے مراد یہ نہیں کہ ترک دنیا کر دیں، ترکِ تعلق کر دیں، بلکہ دل کو ان گورکھ دھندے میں نہ الجھا، کوئی تجھے اچھا جانتا ہے تب بھی پروا نہ کر۔ ۔ ۔ کوئی برا جانتا ہے تب بھی پروا نہ کر۔ ۔ ۔ کوئی دوستی کرتا ہے تو تب بھی خیر خواہی کر۔ ۔ ۔ دشمنی کرتا ہے تو تب بھی خیر خواہی کر۔ ۔ ۔ نیک یا بد ہے تب بھی خیر خواہی کر۔ ۔ ۔ بد سے یہ خیر خواہی کہ اس کے لئے ہدایت کی دعا کر۔ ۔ ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ظالم کی بھی مدد کر اور مظلوم کی بھی مدد کر‘‘۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا مظلوم کی مدد تو ہے مگر ظالم کی مدد کیسے کریں؟ فرمایا : اس کو ظلم سے روکنے کی کوشش کرو۔ بد کو بدی سے روکنے کی کوشش اور اس کے لئے خیر خواہی کی دعا کیا کرو۔ (صحیح بخاری، ج 2 ص، 863 رقم 2312)
ہر ایک سے خیر خواہی کرنے سے دل پریشان نہیں ہوتا۔ جب دل توقع کرتا ہے تو تب پریشانی آتی ہے۔ جب دل دوسرے آدمی کے رد عمل سے امید رکھتا ہے اور دوسرا بندہ امید پر پورا نہیں اترتا تو پریشانی آتی ہے۔ آپ نے کسی کے ساتھ بھلائی کی امید رکھی کہ وہ بھی بھلائی کرے گا، اس نے بھلائی نہ کی تو آپ کو دکھ ہوا کہ میں ساری زندگی اس سے بھلائی کرتا رہا، وہ بڑا احسان فراموش نکلا، اس کو جب موقع ملا تو اس نے میرے ساتھ بھلائی ہی نہیں کی۔ گویا اس سوچ کا مطلب یہ ہوا کہ ہم بھی بھلائی، بھلائی لینے کے لئے کرتے رہے۔ ایسی بھلائی، بھلائی نہیں ہوتی، بھلائی وہ ہے جو اللہ کے لئے کی جائے۔ بھلائی کی جائے اور بھُلا دی جائے۔
وَ زَرِ النَّاسَ جَانِبًا ’’بھلائی کر اور لوگوں کو ایک طرف کردے‘‘۔ وہ آ پ کو گالی دے یا تعریف کرے تو تب بھی پروا نہ کر، دھیان میں ہی نہ رکھ۔
طبقہ ملامتیہ کے ایک صوفی کا واقعہ ہے کہ وہ ایک لمبے سفر سے آیا اور بلخ شہر میں پہنچا، رمضان کے دن تھے، بہت لوگ اسکے استقبال کے لئے جمع ہوئے کہ اللہ کا ولی آیا ہے، جب اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ہجوم کی شکل میں استقبال کے لئے آئے ہیں۔ نعرے لگانے کے لئے کھڑے ہیں اور جوش میں ہیں تو اس نے روٹی کا ٹکڑا نکالا اور کھالیا، ماہ رمضان کے دن تھے۔ اس فقیر کے اس عمل سے وہ سارے استقبال کے لئے آنے والے اس کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے ہوئے واپس چلے گئے اور کہنے لگے یہ کیسا اللہ کا ولی ہے جس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ وہ فقیر لوگوں کے اس طرز عمل سے خوش ہوگیا۔ جب گھر پہنچا کسی مرید نے پوچھا : یہ آپ نے کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا۔ میں نے اسی لئے تو کیا ہے کہ لوگ مجھے برا بھلا کہیں۔ ۔ ۔ اگر وہ میرے نعرے لگاتے، استقبال کرتے۔ ۔ ۔ ہاتھ چومتے تو میرا حال خراب ہو جاتا۔ ۔ ۔ اور نفس بگڑ جاتا۔ ۔ ۔ نفس کی اماریت پلٹ آتی۔ ۔ ۔ نفس کہتا کہ تو تو اعلیٰ چیز ہوگیا۔ ۔ ۔ تیرا یہ درجہ ہے کہ سارا شہر باہر آگیا ہے۔ ۔ ۔ اس سے میری روحانیت کا ستیا ناس ہو جاتا۔ مرید نے کہا کہ یہ بات تو سمجھ آگئی لیکن ماہ رمضان میں جو روٹی کھائی اس کا کیا جواب دیں گے۔ اس نے کہا کہ میں تو مسافر تھا، مجھ پر تو روزہ فرض ہی نہیں تھا، اللہ نے مسافر کو رخصت دی ہے کہ مرضی ہے رکھ لے یا بعد میں رکھے، میں تو مسافر تھا، قرآن پر عمل کیا۔
پس یہ طبقہ ملامتیہ کے صوفیاء ہوتے ہیں۔ ایسے گُر ڈھونڈتے ہیں جو شریعت میں جائز ہوتے ہیں لیکن لوگ اس کو ناجائز سمجھتے ہیں اور ان اعمال کے کرنے والے کو برا بھلا کہتے ہیں، ہر کوئی اپنی سمجھ کے متعلق چلتا ہے، ہر بندہ معتبر اور مفتی اعظم ہے جو اس کی سمجھ میں آتا ہے وہ کہتا ہے یہی صحیح ہے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے طبقہ ملامتیہ میں سے ایک فقیر ملا۔ میں نے اس فقیر (صوفی) سے پوچھا : ظاہری طور پر تم ایسے برے کام کرتے ہو جو شریعت میں تو حرام نہیں ہوتے مگر دیکھنے والا اُسے برا اور حرام کام سمجھتا ہے اور تمہیں برا بھلا کہتے ہیں، تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ لوگوں سے جان چھڑانے کے لئے ایسے کرتے ہیں۔ ۔ ۔ داتا صاحب فرماتے ہیں کہ میں ہنس پڑا۔ ۔ ۔ اس نے کہا آپ ہنستے کیوں ہیں؟۔ ۔ ۔ میں نے کہا کہ تم خود ہی لوگوں کی جان چھوڑ دو۔ ۔ ۔ اس فقیر نے پوچھا کہ کیسے؟۔ ۔ ۔ میں نے کہا : لوگوں کا دھیان ہی چھوڑ دو۔ ۔ ۔ کوئی تمھارے استقبال کے لئے آئے یا نہ آئے، تم ان کی طرف دھیان ہی نہ کرو۔ جب تم لوگوں کا دھیان ہی چھوڑ دو گے تو تمہیں ایسی حرکتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلا درجہ مخلِص ہے اور جب لوگوں کا دھیان ہی چھوڑ دیا تو یہ درجہ مخلَص ہے یعنی نفس سے چھٹکارا پاجائے۔ ۔ ۔ اور لوگوں کا دھیان ہی نہ رہے کہ ہاتھ چوم رہے یا نہیں۔ ۔ ۔ آمد پر اٹھ رہے ہیں یا نہیں، گالی دے رہے ہیں یا تعریف کر رہے ہیں آپ ان کا دھیان ہی چھوڑ دیں۔ اپنے حال میں مست رہو، جو وہ کرتے ہیں کرنے دو۔ جب دھیان چھوڑ دیا تو مخلَصین ہوگئے۔ شیطان کو جب بارگاہِ الہٰیہ سے نکالا گیا تو اس نے انسانوں کو بھٹکانے کی قسم کھائی اور پھر کہا جسے قرآن نے یوں بیان کیا : اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْن. (الحجر 15 : 40)
’’سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘۔
یعنی جو نفس کے چنگل سے نجات پا جاتے ہیں ان کو تو شیطان بھی گمراہ نہیں کر سکتا۔
صالحین میں شمولیت کی شرائط
حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ ایک دفعہ حالت طواف میں تھے کہ ایک شخص نے آپ کو پہچان لیا اور عرض کیا کہ آپ مجھے نصیحت کریں، میں چاہتا ہوں کہ صالحین میں شامل ہو جاؤں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دوران طواف اس کو نصیحت کی کہ اگر تو چاہتا ہے کہ صالحین میں شامل ہو جائے تو چھ گھاٹیاں عبور کئے بغیر کوئی مرد، صالح نہیں بنا کرتا اس کے لئے 6 گھاٹیاں عبور کرنی ہوں گی۔
1۔ راحت کی جگہ تکلیف اپنانا
اَنْ تُغْلِکَ بَابَ النِّعْمَةِ وَتَفْتَحَ بَابَ الشِّدَّة.
پہلی گھاٹی یہ ہے کہ ناز و نعم (نخرے) آرام، راحت کا دروازہ اپنے اوپر بند کردو اور شدت، تکلیف، دکھ، پریشانی اور بے آرامی کا دروازہ کھول دو۔
بے آرامی آئے تو تجھے بے آرام نہ کرے۔ ۔ ۔ تکلیف تمہیں تکلیف نہ دے۔ ۔ ۔ دکھ تمہیں دکھی نہ کرے۔ ۔ ۔ اور پریشانی تمہیں پریشانی نہ کرے۔ ۔ ۔ ان تمام چیزوں کو Welcome کرو کہ اے بیماری تیرے تو انتظار میں بیٹھا ہوں۔ ۔ ۔ ان پریشانیوں، بیماریوں کو خوش آمدید کیوں کہیں۔ ۔ ۔ اس لئے کہ پتہ ہے کس نے یہ بیماری بھیجی ہے۔ ۔ ۔ کون شفا اور کون بیماری بھیجتا ہے۔ ۔ ۔ یہ سب اللہ کی ہی طرف سے آتا ہے۔ ۔ ۔ جب محبوب کوئی ڈش پکائے اور مزیدار بنائے تو انسان کھا جائے اور اگر اس محبوب سے پھیکا یا کڑوا پکے اور اُس وقت پھینک دے تو پھر یہ محبت تو نہ ہوئی۔ محبوب تو جس طرح کا مرضی پکا دے، پھیکا پکادے، کڑوا پکادے، جیسا چاہے پکادے، اگر اس سے واقعی محبت ہے تو پھر اس سے واقعی ہر حال میں واہ واہ ہی ہوتی ہے۔
گھر میں چھوٹے بچوں سے محبت ہوتی ہے، وہ جو بھی کریں اچھے لگتے ہی ہیں، ہر کسی کو اپنی اولاد پیاری لگتی ہے۔ میرے مشاہدہ کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک بچہ تھا، ایک دفعہ اس کی نانی کو کوئی عورت ملنے آئی۔ وہ بچہ شرارتاً اس عورت پہ تھوکتا، کبھی اس کو مارتا اور کبھی برقعہ کھینچتا تھا۔ اس عورت نے بچے کی نانی سے ہماری جھنگ کی زبان میں کہا کہ ’’بہن، من نہ من اس بال نوں کوئی رولا اے‘‘۔ یعنی قابل علاج ہے۔ اس عورت کے اس جملے پر اس بچے کی نانی نے جواب دیا، نہیں، نہیں یہ تو میری بیٹی کا بیٹا ہے، میرا نواسہ ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد بچہ پھر وہی شرارت کرے، کبھی اُسے مارے، کبھی برقعہ کھینچے، اس عورت نے پھر وہی کلمات دہرائے کہ ’’بہن، اس نوں کوئی رولا اے‘‘۔ وہ یہی جواب دے کہ نہیں یہ میری بیٹی کا بیٹا ہے، میرا نواسہ ہے۔ اس عورت نے کہا کہ میں نے یہ کب کہا کہ یہ تیری بیٹی کا بیٹا نہیں، میں تو اس کا عمل دیکھ کر کہتی ہوں کہ ’’اس نوں کوئی رولا اے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ بری حرکات کر رہا ہے۔ تھوک پھینک رہا ہے، مکے مار رہا ہے، اس کا برقعہ اتار رہا ہے لیکن چونکہ وہ اس کی نانی ہے، اس کو اچھا لگ رہا ہے کیونکہ جب پیار ہوتا ہے تو پیارے کی ہر شے پیاری لگتی ہے۔ اب جب رب سے پیار کا دعویٰ کردیا، اللہ سے محبت کا دعویٰ کر دیا اور یہ عقیدہ بھی ہے کہ اگر وہ شفا دیتا ہے تو بیماری بھی وہی دیتا ہے۔ ۔ ۔ اگر کھانا وہ دیتا ہے تو فاقہ بھی وہ دیتا ہے۔ ۔ ۔ اگر ہنساتا وہ ہے تو رلاتا بھی وہی ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح خوشحالی وہ دیتا ہے تو پریشانی بھی وہی دیتا ہے۔
قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدَاللّٰه. (النساء، 4 : 78)
’’آپ فرما دیں (حقیقتاً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے‘‘۔
جب خوشحالی، تندرستی، صحت اور عزت ملی تو خوش ہوگئے اور جب بیماری، فاقہ اور تنگی آئی تو دل تنگ ہوگیا۔ سوچنا یہ چاہئے کہ یہ سب محبوب نے دی ہیں تو محبوب جو شے بھی دے بندہ تو اس سے خوش ہوتا اور اس سے پیار کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ یہی سمجھا رہے ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ صالحین میں شامل ہو جاؤ تو ناز و نعم، نخرے کے دروازے بند کردو۔ ناز نخرے سے اللہ نہیں ملتا۔ ہاں ایک وہ وقت آتا ہے۔ امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایک زمانہ قیام میں گزار لیں، ان کو آخری زمانہ میں بیٹھنا نصیب ہوتا ہے جو قیام میں زمانہ گزار لیں ان کو جلسہ نصیب ہوتا ہے، ان کو بیٹھنے کا موقع دیا جاتا ہے ان کو کہا جاتا ہے۔
طٰهٰ مَااَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْآنِ لَتَشْقٰی. (طہ : 1، 2)
’’طاہا، (اے محبوب مکرم) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں‘‘۔
محبوب بڑی محنتیں کر لی ہیں، دن بھر بڑی کاوشیں کرتے ہو، رات کو کچھ سو بھی جایا کر۔ ۔ ۔ کچھ کو کہتا ہے کہ اٹھا کرو، سوئے کیوں ہو اور کئی کو کہتا ہے اتنا کیوں جاگتے ہو کچھ سویا بھی کرو۔ ۔ ۔ جب وہ محبوب بنا لیتا ہے تو جب چاہے نعمتوں کے دروازے کھول دے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.
(الم نشرح : 5، 6)
’’سو بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے‘‘۔
’’عُسر‘‘ (تنگی) کے رگڑے دینے کے بعد جب چاہتا ہے ’’يُسر‘‘ (آسانی) کا دروازہ کھول دیتا ہے مگر جب بندہ رگڑے پسند کرے گا تو تب آسانیاں ملیں گی۔ جس نے عُسر کو پسند ہی نہیں کیا اس کے لئے ’’يُسر‘‘ کے دروازے کیوں کھولے۔ عُسر کے بغیر ’’يُسر‘‘ چاہنے والی کی مثال چُوری والے مجنوں کی ہے۔ جب چُوری کھانے کا وقت تھا اس وقت سات بندے تھے، ہر بندہ کہتا تھا کہ میں قیس ہوں، میں مجنوں ہوں، ہر روز نئے مجنوں آتے کہ میں حقیقی مجنوں ہوں، لیلیٰ چُوری بھیجتی رہی اس طرح ساتوں مجنوں کو چُوری ملتی رہی۔ چُوری کھانے کے لئے سات مجنوں رہے لیکن جب لیلیٰ بیمار ہوگئی اور خون کی ضرورت ہوئی تو سارے بھاگ گئے، خون دینے کے لئے کوئی مجنوں نہیں، لیکن چُوری کھانے کے لئے سارے ہی مجنوں ہیں۔ راحتوں، نعمتوں کے لئے سارے اللہ کے بندے ہیں کہ مولا ہم خوش ہیں اور تکلیف کے لئے کوئی بندہ نہیں ہے۔
2۔ عزت کی بجائے ذلت
اَنْ تُغْلِکَ بَابَ الْعِزّ وَ تَفْتَحَ بَابَ الذُّل.
عزت کا دروازہ اپنے اوپر بند کر اور عزت افزائی کی امید نہ رکھ اور ذلت کا دروازہ کھول لے یعنی لوگ برا بھلا کہیں تو دل خوش ہو۔ اس کی عادت ڈال کہ بندگی، شرمندگی کا نام ہے۔ جو بندگی، شرمندگی کی وادی میں سے اچھی طرح گزرے اسی کو تابندگی ملتی ہے۔ جو بندگی ذلت کی وادی سے نہیں گذری اس کے لئے تابندگی نہیں ہے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو پتھر لگتے تھے، کیا ان سے بھی مقام و مرتبہ میں بڑے بندے ہوں گے، لوگ ان کو کافر ملحد، زندیق کہتے ہیں، کوڑے مارتے ہیں فتوے لگاتے ہیں، یہ سارے ذلت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ اللہ کے ہاں خوش ہوتے ہیں کہ مولا اس حال میں رکھتا ہے تو یہ مولا کا ہی دیا ہوا حال ہے۔
3۔ سراپا محنت و مشقت ہونا
وَاَنْ تُغْلِکَ بَابَ الرَّاحَةِ تَفْتَحَ بَابَ الْجُحْد.
راحت اور آرام کا دروازہ بند کرے اور جحد، محنت اور مشقت کا دروازہ کھول دے۔
4۔ شب بیداری
وَاَنْ تُغْلِکَ بَابَ النَّوْم وَ تَفْتَحَ بَابَ السَّحْر.
نیند کا دروازہ بند کر لے اور بے خوابی کا دروازہ کھول لے۔
5۔ فقر کو اختیار کرنا
وَاَنْ تُغْلِکَ بَابَ الْغِنَاءِ وَ تَفْتَحَ بَابَ الْفَقْر.
غناء، خوشحالی کا دروازہ بند کر لے اور فقر و فاقہ کا دروازہ کھول لے۔
6۔ لمبی امیدیں نہ باندھنا
وَاَنْ تُغْلِکَ بَابَ الْاَمَل وَ تَفْتَحَ بَابَ الْاِسْتِعْدَادِ الْمَوْت.
اور لمبی لمبی امیدوں کا دروازہ بند کر لے اورموت کی تیاری کا دروازہ کھول لے۔
جب یہ کیفیات اپنے اندر پیدا کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو صالحین میں شامل فرما دے گا۔
اللہ کا مطیع ہونے کا اجر
حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ اپنے سفر کے احوال کے درمیان فرماتے ہیں :
میں سفر کے دوران گذرتے گذرتے ایک بندے کے پاس سے گذرا جو بکریاں چرا رہا تھا، مجھے پیاس لگی، میں نے کہا کہ آپ کے پاس کچھ پینے کو ہے، اس نے کہا کہ آپ کو پانی چاہئے یا دودھ؟ میں نے کہا : مجھے پانی ہی دے دو، اس کے پاس پانی نہیں تھا، اس کے پاس بکریوں کو ہانکنے کے لئے ایک لاٹھی تھی، اس نے وہ لاٹھی پاس پتھر پر ماری، اس میں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ پیالہ بھر کے مجھے دے دیا، ساتھ ہی چشمہ بند ہوگیا، ابراہیم بن ادہم فرماتے ہیں کہ میں یہ دیکھ کر متعجب ہوا، میں نے حیرت کی کہ یہ کیا ہوا؟ اس بندے نے جواب دیا اے مسافرتعجب نہ کر
اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اَطَاعَ مَوْلَاه اَطَاعه کُلُّ شَیءٍ.
’’جب بندہ اللہ کا مطیع ہو جاتا ہے تو کائنات کی ہر شے اس کے تابع ہو جاتی ہے‘‘۔
پتھر ہو، شجر ہو یا جن ہو انسان ہو، بندہ اگر اللہ کا بندہ بن جائے تو ہر شے اس کی بندگی میں آجاتی ہے اور اس کے تابع ہو جاتی ہے۔
اللہ کی اتباع کیسے؟
پوچھا : بندہ اللہ کے تابع کیسے ہوتا ہے؟ فرمایا : بندہ اللہ کے تابع اس طرح ہوتا ہے کہ جان نکلنے سے پہلے اپنی جان نکال لے۔
اَنْ تَخْرُجَ نَفْسَه عَنِ الدُّنْيَا قَبْلَ اَنْ يَخْرُجَ مِنْهَا.
اس دنیا سے جان نکلنے سے پہلے اس دنیا سے نکل جائے یعنی اپنی انا کو فنا کر دے قبل اس کے مولا کی طرف سے فنا آجائے۔ اس کو کہتے ہیں :
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْ.
’’ مرنے سے پہلے مر جاؤ‘‘۔
جب مرنے سے پہلے موت کا راستہ آجائے تو اکڑ پھکڑ ختم ہو جاتی ہے۔ اس سبق پر عمل کر لیں تو تنظیموں کے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ اعتکاف کی دس راتیں آپ کو جگانے، پڑھانے اور سکھانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان اقوال کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرو۔
فرمایا : ’’اگر بندہ خود کو دنیا سے نہ نکالے تو دنیا بندے اور اللہ کے درمیان حجاب بنی رہتی ہے۔ حتی کہ انسان رتبے بھی طلب نہ کرے، جنت کے درجے بھی طلب نہ کرے، آخرت کے نعمتوں اور کسی شے کی طلب و رغبت اور حرص و لالچ سوائے اللہ کے نہ رکھے‘‘۔
ہمارا طرزِ عمل کیا ہے، اس کی وضاحت کے لئے اپنا مشاہدہ بیان کرتا ہوں کہ جب میں نوجوان تھا تو میں نے جھنگ میں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنائی ہوئی تھی، میں ان کو اعتکاف بٹھاتا تھا اور خاص خاص راتوں میں شب بیداریاں کرتے، قبرستان میں جاتے اور اس طرح کے نیک اجتماعی اعمال کرتے۔ ان میں میرا ایک دوست تھا وہ مجھے رمضان کی 27 ویں شب کہنے لگا کہ لیلۃ القدر میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جس میں جو دعا کریں وہ پوری ہوتی ہے۔ اگر وہ گھڑی مل جائے تو میں خود یہ دعا کروں گا اور آپ بھی میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے غوث بنا دے۔
اس طرح اس نے ایک مولانا صاحب سے سن لیا کہ جو چالیس راتوں میں سحری کے وقت اٹھے، غسل کرے پھر وضو کر کے صاف کپڑے پہن کر تہجد پڑھے تو اس کو اللہ مل جاتا ہے۔ دسمبر جنوری کی سردیوں کی سخت راتوں کو لوگ ٹھٹھرتے تھے تو اس بندے نے نہانا شروع کر دیا۔ چالیس رات نہا کر وہ تہجد پڑھتا رہا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کھڑے ہوکر گپیں ہی مارتے ہیں۔ مجھے تو چالیس راتیں نہا کر تہجد پڑھتے گزر گئیں، کچھ نہیں ملا، الٹا بیمار ہوگیا ہوں، آپ کہتے تھے کہ رب مل جاتا ہے مجھے تو کچھ نہیں ملا۔
ہمارا حال بھی کچھ اس طرح کا ہے۔ یاد رکھیں کہ بے صبری سے کچھ نہیں ملتا۔ پہلا سبق ہی صبر ہے۔ تصوف یہ ہے کہ وہ جہاں رکھ دے، وہیں راضی رہیں۔ اولیاء تو یہ بھی فکر نہیں رکھتے کہ ان کا فیصلہ جنت کا ہوگا یا دوزخ کا۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ایک فرشتے سے ملاقات ہوئی، میں نے فرشتے سے پوچھا تو زمین پر کس لئے اترا ہے۔ ۔ ۔ اس نے کہا کہ اللہ نے میری ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو اللہ کے محب اور عاشق ہیں ان کے نام لکھ کر فہرست اللہ کو پیش کروں۔ ۔ ۔ ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پوچھا فہرست میں کن کن لوگوں کے نام آئے ہیں۔ ۔ ۔ فرشتہ نے کہا مالک بن دینار رضی اللہ عنہ، ثابت البنانی، ابو ایوب اور دیگر چند نام ہیں۔ ۔ ۔ قلت انا منهم میں نے پوچھا کہ کیا اس فہرست میں میرا نام بھی ہے‘‘؟۔ ۔ ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ ۔ ۔ میں نے پوچھا کہ جب عاشقوں اور محبین کی فہرست ختم ہوجائے پھر ایک فہرست اور بنا لینا کہ جو ان عاشقوں سے محبت کرتے ہیں، ان میں میرا نام لکھ دینا۔ ۔ ۔ فرشتے نے کہا قال اَصَّاحَ اُمِرْتُ اَنْ اَکَتَبَ فِی اَوّل. ابھی اسی لمحے اللہ کی طرف سے مجھے الہام ہوا ہے کہ میرے عاشقوں کی فہرست میں سب سے پہلے اس کا نام لکھ۔
نکتہ یہی ہے کہ جب انہیں یہ خبر ملی کہ اللہ نے اپنے عاشقوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا تو دل دکھی نہیں ہوا، خوش ہوئے کہ عاشقوں میں نہیں لکھا تو عاشقوں کے عاشقوں میں لکھ لے۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ نے یہی تو امتحان لینا تھا، اس نے فرمایا جو ایسے عاشق ہو جائیں تو ان کا نام سب سے پہلے لکھتے ہیں۔ یعنی وہ کسی شے کا، دنیا و آخرت کا حرص نہیں کرتے، جب یہ کیفیت ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہی تصوف کی تعلیمات ہیں۔ ان کو اپنانے سے ہمارے احوال کی اصلاح ہوگی۔ احوال سنورے گے تو اعمال مقبول ہو جائیں گے اور اللہ کی بارگاہ سے بندوں کو بہت کچھ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے احوال کی اصلاح فرمائے اور گناہوں کو معاف فرمائے۔ آمین