حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
دیارِ ہجر میں شمعیں جلا رہا ہے وہی
مجھے وصال کا مژدہ سنا رہا ہے وہی
وہ بے نشاں ہے مگر پھر بھی اپنی قدرت کے
نشاں ہزارہا ہر سُو دِکھا رہا ہے وہی
اُسی کی ذات مِری دستگیر ہے ہمہ حال
ہر ابتلا میں مِرا آسرا رہا ہے وہی
ہزار ماؤں کی ممتا سے بھی وہ بڑھ کر ہے
کہ دے کے تھپکیاں ہر شب سلا رہا ہے وہی
نویدِ وصل وہی دیتا ہے فراق کے بعد
بچھڑنے والوں کو پھر سے ملا رہا ہے وہی
سمایا ہے میری رگ رگ میں وہ لہو کی طرح
مِری تمنا مِرا مدعا رہا ہے وہی
قریب تر ہے رگِ جاں سے ذاتِ پاک اُسکی
حریمِ ذات سے مجھ کو بلا رہا ہے وہی
وہ اپنے ذکر سے مہکائے جان و دل میرے
مِرا خرابہ گلستاں بنا رہا ہے وہی
پکارتا ہے مجھے دھیان کے دریچوں سے
مِرے شعور کو نیّر جگا رہا ہے وہی
(ضیاء نیّر)
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ذکر کرتا ہی رہوں گا سید ابرار(ص) کا
آفتابِ نور ہیں وہ (ص) عظمتِ کردار کا
میرے لفظوں کی تپش ہر لفظ میں مذکور ہے
نام ہے اُن (ص) کا ہی موجبِ گرمی افکار کا
گونجتے رہتے ہیں نغماتِ ثنا شام و سحر
کیا مقدر ہے مرے گھر کے در و دیوار کا
چند لمحے قبل گذری تھی مدینے کی ہوا
رنگ ہی بدلا ہوا ہے کوچہ و بازار کا
کس طرف افلاس کی گٹھر ی اٹھا کر جائے گا
کون ہے آقا (ص) سوائے آپ (ص) کے نادار کا
کب تلک شب کی گرفتِ ناروا میں روشنی
کب تلک موسم رہے گا جبہ و دستار کا
نسل آدم قتل کا ہوں میں کھڑی ہے ہر طرف
خوں میں تر چہرہ ہے آقا (ص) آج کے اخبار کا
اجتماعی خودکشی کا ہے دہانہ سامنے
رخ کدھر کو ہوگیا ہے قافلہ سالار کا
پرچمِ ارضِ وطن پر اے مرے خدا
چاند تارا جگمگائے دین کی اقدار کا
یارسول اللہ (ص) ہماری رہنمائی کیجئے
جو سفر درپیش ہے، ہے وادی پرخار کا
منظر دلکش ہے کیا چشمِ تخیل میں ریاض
والی کونین (ص) کے صد محتشم دربار کا
سایہ دیوار جب ڈھونڈے گا سورج بھی ریاض
سر پہ ہوگا خیمہ ابرِ خنک سرکار (ص) کا
(ریاض حسین چودھری)