انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی ضرورت
3 روزہ الہدایہ یوتھ کیمپ 2009ء (برطانیہ) میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات
رپورٹ : آفتاب بیگ
دہشت گردی موجودہ صدی کا بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور دنیا کی طاقتور ترین حکومتیں اس پر قابو پانے کے لئے اپنے تمام ذرائع استعمال کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک کی نام نہاد پالیسیوں نے وہاں آباد نوجوان نسل میں بداعتمادی کو جنم دیا ہے۔ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ بحیثیت مسلمان انہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعے نہ صرف بدنام کیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردی کے نام پر انہی معاشرتی ناانصافیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری جانب ان ممالک کی حکومتیں کسی بھی طرح کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں۔ وہ مسلمان قیادت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ مسلم نوجوانوں کو انتہاء پسندی سے دور رکھنے کے لئے تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں۔ مسلمان قیادت سرکاری پالیسی سازوں سے بھی کچھ خوش نہیں ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ پر ان نام نہاد قائدین کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پروموٹ کرتے ہیں جو انتہاء پسندی کو نہ صرف ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں بلکہ کھلے عام اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف عمل پیرا ہو کر دنیا بھر میں اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
ان حالات میں منہاج القرآن انٹرنیشل اور مسلم یوتھ لیگ برطانیہ کے زیر اہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر سرپرستی (8 تا 10 اگست) 3 روزہ سالانہ "الہدایہ یوتھ کیمپ 2009ء" University of Warwick برطانیہ میں منعقد ہوا۔ اس سہ روز کیمپ میں دنیا بھر سے 13 سو سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے خصوصی شرکت کی۔
مہمانان گرامی
اس کیمپ میں ملک شام کے معروف دینی سکالر الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، یورپ اور مغربی دنیا کی مشہور شخصیت محترم الشیخ عبدالحکیم مراد (کیمبرج یونیورسٹی)، مصر کے سابق وزیر محترم پروفیسر یحیٰ جمال، محترم صاحبزادہ حسن محی الدین قادری، مرکزی ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، محترم الشیخ عبدالرحمن (شام)، برطانیہ بھر سے کئی نامور مسلم و غیر مسلم علمی شخصیات اور منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے قائدین و کارکنان نے خصوصی شرکت کی۔
کیمپ کے اغراض و مقاصد اور معمولات
الہدایہ کیمپ کے چیف آرگنائزر محترم ڈاکٹر زاہد اقبال نے کیمپ کے اغراض و مقاصد اور تین روز کے معمولات کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کیمپ کا مقصد نوجوان نسل کی سیرت و کردار کی تعمیر اور اصلاح احوال ہے۔ نوجوان نسل کو انتہاء پسندانہ سوچ کو ختم کرکے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنے اپنے ملک کے قوانین کے احترام کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کو اپناتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر ایک کے لئے سراپا سلامتی بننا ہوگا۔
الہدایہ یوتھ کیمپ میں شریک احباب کے لئے ان تین دنوں میں بھرپور علمی، فکری، نظریاتی اور روحانی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا، جن میں محافل قرات و نعت، تجوید، ابتدائی اسلامی معلومات و عبادات اور آداب زندگی، اصلاح احوال کے لئے تہجد و دیگر نوافل کا اہتمام، مطالعہ کتب اور مختلف علمی شخصیات کے لیکچرز شامل رہے۔
الہدایہ کیمپ میں صاحبزادہ حماد مصطفیٰ القادری نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں پورے کیمپ کے دوران مختلف مواقع پر شام کے الشیخ عبدالرحمان اور ان کے ساتھیوں، حسان منہاج محمد افضل نوشاہی، محترم کبیر حسین، محترم محمد ناصر اور فرانس سے منہاج نعت کونسل کے نعت خواں حضرات نے عربی، اردو اور پنجابی نعتیہ کلام پیش کئے۔
کیمپ میں 1991ء میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے معروف برطانوی فوٹو گرافر پیٹر سینڈرز کی تصویری نمائش بھی جو دنیا کے کئی ممالک میں دینی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے تھی شرکاء کی توجہ کا مرکز رہی۔
شرکاء کیمپ سے شام کے معروف دینی سکالر الاستاذ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی نے "نظم و ضبط اور حسن سلوک" کے موضوع پر گفتگو کی۔۔۔ محترم الشیخ عبدالحکیم مراد (کیمبرج یونیورسٹی) نے غیر مسلم معاشرے میں دیگر مذاہب کے ساتھ رہن سہن کے آداب اور تقاضوں کو اپنا موضوع بنایا۔۔۔ مصر کے سابق وزیر محترم پروفیسر یحیٰ جمال نے حالات حاضرہ پر خصوصی لیکچر دیا۔۔۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے منہاج القرآن کے عالمی تنظیمی نیٹ ورک پر شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے عہدیداران نے دنیا بھر میں جاری اپنی تعلیمی و فلاحی سرگرمیوں بالخصوص یتیم بچوں کے لئے زیر تعمیر پروجیکٹ آغوش کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ دی کہ 34 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اس عمارت کا کام تیزی سے جاری ہے۔ بعد ازاں دیگر قدرتی آفات میں MWF کی سرگرمیوں کو پروجیکٹر اور دستاویزی فلم کے ذریعے شرکاء کو دکھایا گیا۔
نوجوان نسل کو انتہاء پسندانہ اور منفی سوچ سے بچانے کے لئے عملی اقدامات
سوال جواب پر مشتمل ایک نشست
الہدایہ یوتھ کیمپ کا نقطہ عروج سوال و جواب کی ایک نشست تھی۔ اس نشست کا موضوع ’’انتہاء پسندی، دہشت گردی اور مسلم نوجوان نسل کو اس سے بچانے کے عملی اقدامات‘‘ تھا۔ سوالات کرنے والوں میں
Dr Christopher Lamb, Dr Rowan Williams(representative of Archbishop of Canterbury ), Professor Ron Geaves (Professor of the Comparative Study of Religion, Liverpool Hope University) Dr Sophie Gilliat-Ray (Director, Centre for the Study of Islam in the UK, Cardiff University), Phil Rees (prominent journalist and producer), Peter Sanders ( prominent photographer).،
ڈاکٹر طاہر عباس (ڈائریکٹر شعبہ مطالعہ تہذیب و ثقافت برمنگھم یونیورسٹی)، مقصود احمد (سینئر ایڈوائزر ہوم آفس) اور جنگ لندن کے چیف ایڈیٹر ظہور نیازی شامل ہیں۔ شیخ الاسلام نے پینل کے سخت اور ترش سوالات کے نہایت تاریخی، تفصیلی اور مدلل جوابات دیئے۔ ان جوابات پر شرکاء نے شیخ الاسلام کی علمی اور قائدانہ صلاحیتوں کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس سوال و جواب کی نشست کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی، معلومات میں اضافے، مسائل کے حل اور تحریک منہاج القرآن کی انفرادیت کے پیش نظر ذیل میں درج کیا جا رہا ہے :
٭ شیخ الاسلام نے پاکستان اور مسلم امہ کا دہشت گردی سے تعلق، گوجرہ کے واقعات، توہین رسالت کے قانون اور برطانوی مسلمانوں اور حکومت کے درمیان بہتر تعلقات اور اعتمادکی بحالی کے بارے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ روس کے ناجائز قبضے سے افغانستان کو آزاد کرانے والے ممالک نے مجاہدین کو سپانسر کیا اور روس کے جانے کے بعد خود بھی افغانستان میں مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے۔ بعد ازاں ان مجاہدین نے محدود ذہنیت کی بناء پر اسلام کے حوالے سے بھی تنگ نظری کا نظریہ پیش کیا اور طاقت کے زور پر اپنے عقائد کو دنیا پر مسلط کرنا چاہا اور اس مقصد کے لئے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر مسلم تو بڑی دور کی بات اپنے مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنا شروع کر دیئے اور پھر یہی لوگ عالمی امن کے لئے بھی خطرہ بن گئے۔
اگر عالمی طاقتیں ان دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتی ہیں تو دیانتداری سے پتہ چلائیں کہ ان کے پاس وہ اسلحہ کہاں کہاں سے آرہا ہے جو پاکستان آرمی کو بھی میسر نہیں ہے۔ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی نہیں بلکہ ایک سپانسرڈ انٹرنیشنل ایجنڈے کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ پچیس سال قبل تک پاکستان میں نہ دہشت گرد تھے اور نہ ہی خود کش بمبار۔ محض بین الاقوامی غلط پالیسیوں نے دنیا کو بدامنی کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ دنیا کو توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقتوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
٭ شیخ الاسلام نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتیں خلوص نیت سے دہشت گردی کے خاتمے کی خواہاں ہوں تو یہ کام ایک یا دو سال میں ممکن ہے لیکن اگر عالمی طاقتوں کا ایجنڈا توسیع پسندانہ عزائم پر مشتمل ہے تو یہ کام آئندہ کئی صدیوں میں بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
٭ پینل نے سوال کیا کہ جن ممالک میں بھی اتحادی افواج کاروائی کرتی ہیں بیرون ممالک آباد مسلمان حضور علیہ السلام کی اس حدیث کا حوالہ دے کر ان کی امداد شروع کر دیتے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
شیخ الاسلام نے کہا کہ جہاد اور دہشت گردی میں امتیاز کرنا ہوگا، جہاد دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف جنگ کا نام ہے، کمیونٹیز کے اندر توازن کے بگاڑ کو ختم کرنے، عدل و انصاف کی فراوانی کا نام ہے۔ اسلام کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں ہیں کہ اپنے عقائد کو دوسرے لوگوں پر زبردستی مسلط کیا جائے اور جہاد کا نام لے کر غیر مسلموں پر حملے شروع کر دیئے جائیں۔ اسلام انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام کی رو سے وہی عمل جہاد کہلا سکتا ہے جس سے اسلام کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر مزید بہتر ہو اور اسلام فروغ پائے۔ جہاد کے نام پر وہ عمل جس سے بین الاقوامی سطح پر اسلام بدنام ہو، مسلمان مزید تکالیف و مشکلات کا شکار ہوں تو اس عمل کو جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ عمل ایک فتنہ ہے، دہشت گردی اور انتہاء پسندی ہے کیونکہ یہ عمل کرنے والے اپنی اس سوچ کی بناء پر اپنے مسلمان بھائیوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگاتے اور انہیں قتل کرتے ہیں۔ لہذا ایسے احباب کی بیخ کنی کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ جسم مختلف اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اگر ایک عضو کو کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے اور اس کا علاج ممکن نہ ہو سکے تو موذی مرض کو جسم میں پھیلنے سے روکنے کے لئے اس عضو کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
٭ گوجرہ کے حالات پر سوال کے جواب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اس غیر انسانی فعل کی سخت اور پرزور مذمت کرتے ہیں جبکہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قانون اپنی جگہ ایک مکمل اور صحیح قانون ہے صرف اس کا غیر سنجیدہ اور غلط استعمال مشکلات پیدا کر رہا ہے جس میں پاکستان کی کرپٹ پولیس کا بھی اہم کردار ہے۔ بعض اوقات مسلمانوں کو بھی ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے بااثر لوگوں اور پولیس کے میل ملاپ سے پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ایسے کیس کی رجسٹریشن کا حق پولیس سے واپس لے کر علاقہ مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا جائے جو مکمل تفتیش کے بعد مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر کرے۔
٭ ایک اور سوال کے جواب میں شیخ الاسلام نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا کو دوستوں اور دشمنوں میں امتیاز کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے دوستوں کی بجائے امن کے دوستوں کے ہاتھ مضبوط بنانا ہوں گے۔ تاحال مغرب دوست اور دشمن کے انتخاب میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ مسلمان خود کو نظام اور دیگر طبقات سے الگ تھلگ رکھنے کی بجائے ان کے قریب آئیں، اسی سے تعلقات بہتر ہوں گے جبکہ حکومتی اداروں کو بھی مغربی ممالک کے مسلمانوں سے بداعتمادی کو ختم اور دوستی اور قربت کے رشتے کو استوار کرنا ہوگا اور مل جل کر جرائم پیشہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہوگا کیونکہ وہ اسلام اور انسانیت دونوں کے دشمن ہیں۔
سوال و جواب کی اس تاریخی نشست کے موقع پر برطانیہ کے علماء کے علاوہ برطانیہ و یورپ کی سیاسی، سماجی اور نامور مذہبی شخصیات بھی موجود تھیں۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ مغربی میڈیا نے کسی مسلم سکالر کے بارے میں بڑی تفصیل سے مثبت انداز میں رپورٹنگ کی جو کیمپ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تین روزہ خطابات کا خلاصہ
الہدایہ یوتھ کیمپ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’امن و اتحاد‘‘ اور ’’دینی تعلیم و تربیت‘‘ کو موضوع سخن بناتے ہوئے ان تین دنوں میں پندرہ گھنٹوں سے زائد گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے :
’’دنیا سے اپنے تعلق اور محبت کو ایک حد سے زیادہ مضبوط نہ کرو بلکہ اپنا رہن سہن، کردار و اخلاق اور باقی ماندہ زندگی کو ان تین دنوں کی طرح تبدیل کر لو تاکہ بروز قیامت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے ۔ نوجوان اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق زندگی گزارنے کے لئے کمر بستہ کریں‘‘۔
’’دنیاوی امور کی ادائیگی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک، میاں بیوی، عزیز رشتہ داروں کے علاوہ غیر مسلم اور دیگر رنگ و نسل کے لوگوں کے ساتھ اچھا میل جول رکھیں اور ان کے ساتھ مثبت رویے کا اظہار کریں۔ آداب زندگی اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے ہمیں اسلامک لاز (شرعی نظام) سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی‘‘۔
’’دہشت گردی اور جہاد کے درمیان واضح فرق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینی تعلیمات اپنی عملی زندگی میں ہمیں دی ہیں ان کے مطابق ایک چیونٹی، بلی یا کتے تک کو مارنے والے پر جنت حرام ہو جاتی ہے چہ جائیکہ ایک چلتے پھرتے انسان کو خودکش بم سے یا گلے کاٹ کر ہلاک کر دیا جائے ۔ اسلام نے تو جنگ کے زمانے میں بھی بوڑھوں، عورتوں، بچوں، فصلوں اور املاک کو تباہ و برباد کرنے سے روکا ہے۔ معلوم نہیں موجودہ نام نہاد دہشت گرد کس اسلام کے نام پر اسلام دشمنی کر رہے ہیں‘‘۔
’’نوجوان امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ ہیں۔ نوجوانوں پر اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں نے اپنے دین اور قوم کی عزت و عظمت کو بڑھانا ہے تو خود کو علمی اسلحہ سے لیس کر لیں اور اسلام کے نام پر سختی اختیار کرنے والوں کی اصلاح کے لئے معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اسلام کبھی بھی بزور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اعلیٰ عملی کردار نے اسلام اور مسلمان کو عزت و احترام بخشا ہے‘‘۔
’’تحریک منہاج القرآن، اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے گئے حقیقی پیغام امن کو دنیا بھر میں پھیلانے اور اس کی تبلیغ و ترویج اور اشاعت کا کام کر رہی ہے۔ ایک ایسا پیغام جس میں غیر مسلم اقلیت کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک بلکہ انہیں عزت و احترام، ان کی زندگیوں اور عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ پس انتہاء پسندی کے خاتمے اور اس کو رد کرنے کے لئے گھروں سے نکل کر میدان میں آئیں اور حکومتی اداروں سے مل کر اپنی کمیونٹی کے اندر دینی تعلیمات کے عین مطابق انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف شعور پیدا کریں‘‘۔
کیمپ کے آخر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تمام حاضرین کو اس دعا اور پیغام کے ساتھ رخصت کیا کہ وہ ان تین دنوں کی رفاقت کو اپنی زندگیوں میں عملی تبدیلی کا پہلا قدم جان کر آئندہ زندگی ایسی گزاریں کہ زمین پر چلتے پھرتے ان کے کردار سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے کا تاثر نمایاں دکھائی دے ۔
سانحہ ارتحال:
گذشتہ ماہ ملک پاکستان کے نامور نعت گو شاعر پیر ضیاء الحق شاہ المعروف ناصر حسین ناصر شاہ چشتی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انا لله وانا اليه راجعون. مرحوم منہاج القرآن علماء کونسل تحصیل تاندلیانوالہ کے صدر تھے۔ آپ کا ایک صاحبزادہ سید اکرام الحق شاہ منہاج القرآن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے اور آج کل اپنے والد بزرگوار کی جگہ خدمت دین کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تمام قائدین اور وابستگان اس غم کے موقع پر لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین