سوال: کیا ماهِ صفر مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا مہینہ ہے؟
جواب: ذاتِ باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ کسی چیز، دن یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابلِ مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع و نقصان کا اختیار سو فیصد اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَـهٗٓ اِلاَّ هُوَ ج وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَـلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ ط یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ط وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.
(یونس، 10: 107)
’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ.
(الشوریٰ، 42: 30)
’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘
اور سورہ النسآء میں فرمان ہے:
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ.
(النساء، 4: 79)
’’(اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابیٔ نفس کی طرف منسوب کر)۔‘‘
درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے۔ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کاسبب ہے تو گناہ فی نفسہ منحوس ہے، کیونکہ گناہ کے سبب گنہگار اللہ تعالیٰ کی امان سے نکل جاتا ہے اور دنیا و آخرت کے مصائب میں گِھر جاتا ہے۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
صفر اسلامی تقویم کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، جس کا لفظی معنیٰ خالی ہونا ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماهِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے صفر المکان یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے، کیونکہ وہ پے در پے تین حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے۔ جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ بیشمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہوجاتیں۔ عربوں نے اس بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے اور جنگ و جدل سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے اس مہینے کو ہی منحوس، بلاؤں اور مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔ حقیقت میں نہ تو اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مصائب و آفات میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے دن، مہینے اور دیگر اسباب کو منحوس تصور کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا هَامَةَ.
’’(اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) چھونے سے بیماری دوسرے کو لگ جانے (کا عقیدہ)، ماهِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور پرندے سے بدشگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔‘‘
(صحیح البخاری، کتابُ الطِّب، بابُ الهامة، رقم الحدیث: 5770)
شاہ عبد الحق محدث ِدہلوی رحمۃ اللہ اس حدیثِ مبارک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا مہینہ قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
(اشعة اللمعات، 3: 664)
اس لیے ماهِ صفر میں بلائیں اور آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں، اس لیے ماهِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔ اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے، ذکر و اذکار کرتا ہے، حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہے، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا ہے تو یقیناً یہ مہینہ اس کے لیے مبارک ہے، اور دوسرا شخص اس مہینے میں گناہ کرتا ہے، جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز مٹاتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لئے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے۔ اپنی شامتِ اعمال کو ماهِ صفر پر ڈالنا نری جہالت ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لاَ عَدْوَی وَلاَ طِیَرَةَ، وَیُعْجِبُنِی الْفَأْلُ، قَالُوا: وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: کَلِمَةٌ طَیِّبَةٌ۔
(صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الطیر: 5776)
’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرامl نے عرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘
اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مُمَانَعَت ہے۔ اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اُس نے اپنے لئے باعثِ خیر سمجھا تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔
سوال: نظرِ بد کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: نظر بد یا نظر لگنا ایک قدیم تصور ہے جو دنیا کی مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے صدرِ اوّل میں دشمنانِ اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے عرب کے ان لوگوں کی خدمات لینے کا ارادہ کیا جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے ہیں، ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور ان بدنیتوں کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔ ان کی اس شرانگیزی کو قرآن مجید میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:
وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ.
(القلم، 68: 51)
’’اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘
اس آیت میں نظرِ بد میں نقصان کی تاثیر ہونے کا اشارہ ہے جو کسی دوسرے انسان کے جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
الْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَیْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا.
’’نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو۔‘‘
(مسلم، الصحیح، 4: 1719، رقم: 2188)
نظرِ بد کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے نظرِ بد سے بچاؤ کے لئے جھاڑ پھونک یعنی دم درود کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دم کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
رُخِّصَ فِی الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَالْعَیْنِ.
رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی: 1۔نظر بد، 2۔بچھو وغیرہ کے کاٹے پر، 3۔پھوڑے پھنسی کے لئے۔
(مسلم، الصحیح، 4: 1725، رقم: 2196)
بلکہ آپ ﷺ نے حکم فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ ﷺ اَوْ اَمَرَ اَنْ یُسْتَرْقَی مِنَ الْعَیْنِ.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا یا حکم دیا کہ نظر بد لگنے کا دم کیا کرو۔
(بخاری، الصحیح، 5: 2166، رقم: 5406)
ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ رَاَی فِی بَیْتِهَا جَارِیَةً فِی وَجْهِهَا سَفْعَةٌ فَقَالَ اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے میرے گھر کے اندر ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر نشانات تھے۔ ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ پڑھ کر دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔
(بخاری، الصحیح، 5: 2167، رقم: 5407)
نظرِ بد سے علاج کے لئے معوذتین پڑھ کر دم کیا جائے اور یہ دعا بھی کی جائے جو حدیثِ مبارک سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ بیمار ہوتے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے:
بِاسْمِ اللهِ یُبْرِیکَ وَمِنْ کُلِّ دَاءٍ یَشْفِیکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِی عَیْنٍ.
اللہ کے نام سے، وہ آپ کو تندرست کرے گا، اور ہر بیماری سے شفا دے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہر شر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا۔
قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کو معوذتین کہتے ہیں، ان میں بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ لہٰذا اُن سے بھی نظربد کا علاج کیا جاتا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ یَنْفُثُ عَلَی نَفْسِهِ فِی الْمَرَضِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ فَلَمَّا ثَقُلَ کُنْتُ اَنْفِثُ عَلَیْهِ بِهِنَّ وَاَمْسَحُ بِیَدِ نَفْسِهِ لِبَرَکَتِهَا.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے اس مرض کے اندر جس میں آپ ﷺ کا وصال ہوا معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں انہیں پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کیا کرتی اور بابرکت ہونے کے باعث آپ ﷺ کے دستِ اقدس کو آپ ﷺ کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔
(بخاری، الصحیح، 5: 2165، رقم: 5403)
درج بالا آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نظرِ بد کوئی وہمہ یا توہم پرستی نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کے اثرات ظاہر ہونے پر دَم کرانا درست ہے۔