قدوۃ الاولیاء حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف حضور داتا گنج بخشؒ عالمِ اسلام کی وہ نامور ہستی ہیں جنہوں نے برصغیر میں تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دیا اور اِس ضلالت و گمراہی کے اندھیرے میں دینِ اسلام کی شمع فروزاں کی۔ اس علاقے کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سوئے منزل گامزن کیا۔ آپ انسانی ہمدردی اور غریب نوازی و سخاوت کی وجہ سے ’’داتا گنج بخش‘‘ کے لقب سے مشہور و معروف ہوئے۔ آپ نے اپنے علم و عمل اور معرفت سے لوگوں کو فیض یاب فرمایا۔ اسی وجہ سے آپ کا شمار برصغیر کے ممتاز اور جید صوفیاء کرام میں ہوتا ہے بلکہ آپ اس طبقۂ اولیاء و صوفیاء کے سرخیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرجعِ خلائق بنایا اور آج بھی آپ کی درگاہ سے آپ کے فیوضات چار دانگِ عالم میں پھیل رہے ہیں۔ دانائے راز حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ (اسرار و رموز، ص: 51) آپ کی خدمت میں یوں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں:
سیدِ ہجویر مخدومِ اُمم
مرقدِ اُو پیرِ سنجر را حرم
پاسبانِ عزتِ اُمُّ الکتاب
از نگاہش خانۂ باطل خراب
خاکِ پنجاب از دمِ اُو زندہ گشت
صبح ما از مہرِ اُو تابندہ گشت
حضرت سید علی بن عثمان الہجویریؒ علم و عمل، تقویٰ و پرہیزگاری اور اخلاص و احسان سے مرقع ہیں، آپ کی ساری زندگی تعلیم و تربیت اور تصفیہ و تزکیہ کرتے ہوئے گزری۔ حکیم محمد موسیٰ امرسری آپؒ کا تعارف یوں پیش کرتے ہیں:
’’مخدومِ اولیاء سلطان الاصفیا حضرت شیخ علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ قدس سرہ العزیز اسی قدسی گروہ کے سرخیل ہیں جو امام الرسل، ہادیٔ سبل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی کمال محبت و متابعت سے ولایت کے ارفع و اعلیٰ مقام اور بلند مراتب پر فائز ہوکر خلافتِ الہٰیہ اور حضرت سیدالانبیاء ﷺ کی نیابتِ کبریٰ کے منصبِ جلیلہ پر متمکن ہوتے ہیں اور چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو محبوبِ خدا کی محبت میں فنا کردیا ہوتا ہے، انہیں بھی مقامِ محبوبیت عطا ہوجاتا ہے اور وہ زمین پر خلیفۃ اللہ اور مظہرِ انوارِ خدا اور نائبِ محبوبِ خدا ہوتے ہیں۔‘‘ (مقدمہ کشف المحجوب، مترجم: ابوالحسنات سید محمد احمد شاہ قادری، ص: 5)
حضرت سید علی ہجویریؒ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ تصوف کی بنیادی کتب میں شمار ہوتی ہے اور خواص و عام میں بہت مقبول ہے، اگرچہ یہ فارسی زبان میں لکھی گئی ہے مگر دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ اردو زبان میں بھی اس کے بے شمار تراجم ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک ترجمہ علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادریؒ نے کیا، جو خاصا مقبول ہے۔ اس کے مقدمہ میں حکیم محمد موسیٰ امرتسریؒ کشف المحجوب کا تعارف کرواتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’داتا گنج بخشؒ کی تصنیفِ منیف کشف المحجوب جو انہوں نے آغوشِ رحمتِ خداوندی میں بیٹھ کر لکھی ہے۔ مسائلِ شریعت، طریقت اور معرفت کا ایک بیش بہا خزانہ ہے اور اولیائِ متقدمین کے حالاتِ بابرکات اور ان کی مقدس تعلیمات کا بہترین خزینہ ہے، نیز فارسی زبان میں تصوف اور احسان پر لکھی جانے والی یہ سب سے پہلی کتاب ہے اور اسے ہر دور کے اولیاء اور صوفیاء کرام نے تصوف کی بہترین کتاب قرار دیا ہے۔ کشف المحجوب کاملین کے لیے رہنما ہے تو عوام کے لیے پیرِ کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ عوام میں سے اس کا مطالعہ کرنے والوں کو دولتِ عرفان و ایقان حاصل ہوتی ہے اور شکوک و شبہات کی وادی میں بھٹکنے والے یقین کی دنیا میں آباد ہوجاتے ہیں اور اس کے بار بار مطالعہ سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔‘‘
آپ اپنی اس شہرہ آفاق تصنیفِ لطیف کے نام کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’میں نے اس کتاب کا نام ’’کشف المحجوب‘‘ رکھا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ کتاب کا عنوان ہی اس کے اندر ذکر کیے گئے مضامین کی نشاندہی کردے۔ اہلِ بصیرت جب اس نام کو سنیں گے تو جان لیں گے کہ اس میں کیا کچھ ہے۔‘‘ (ایضاً، مقدمہ)
اس ضمن میں آپؒ نے حجاب کی دو قسمیں ’’رینی‘‘ اور غینی‘‘ ذکر فرمائی ہیں اور فرمایا کہ ’’رینی‘‘ حجاب تو ان لوگوں کا ہے جن کے بارے میں قرآن مجید نے یہ خبر دی ہے کہ ’’خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ‘‘ (اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے)۔ (البقرہ: 7) پھر آپؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے اس کتاب کو اس لیے لکھا کہ یہ ان دلوں کے زنگ کو دور کرے جو حجاباتِ غینی میں مبتلا ہوں مگر نورِ حق کی جھلک ان کے اندر موجود ہو، اس کتاب کو پڑھنے کی برکت سے حجابِ غینی اٹھ جائے اور حقیقت کی راہ روشن ہوجائے۔ جن لوگوں کی سرشت انکارِ حق اور اختیارِ باطل ہے، وہ اس کی مدد سے راستہ نہیں پائیں گے اور ان کو مشاہداتِ حق نصیب نہیں ہوں گے۔‘‘ (کشف المحجوب، مقدمہ)
کشف المحجوب کے ابواب کی تعداد چالیس ہے اور فصول کی تعداد بھی چالیس ہے۔ اور اس کے علاوہ گیارہ کشف الحجاب ہیں۔ آپؒ نے اس کتاب میں 284 سے زائد آیاتِ قرآنی، 172 احادیثِ طیبات سے استدلال کیا ہے اور اس میں تقریباً 76 عربی اشعار بطورِ استشھاد ذکر کیے ہیں۔ یہ کتاب فارسی زبان کا ایک ادبی شاہکار ہے۔ یہ بات اس امر کی غماز ہے کہ متقدمین صوفیاء کس قدر اعلیٰ درجے کا علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے۔
حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے اپنی اس زندہ و جاوید تصنیفِ لطیف کا آغاز ’’کتاب العلم‘‘ سے کیا۔ یہ بات اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں کردیتی ہے کہ حصولِ علم اہلِ تصوف کے لیے کس قدر اہم اور ضروری ہے اور کسبِ علم کے ساتھ اس پر عمل کرنا اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جملہ صوفیاء کرام نے ہمیشہ ان دونوں چیزوں پر زور دیا ہے کہ علم بھی ہو اور پوری طرح اس علم پر عمل بھی ہو۔ موجودہ دور میں بھی پچھلے ادوار کی طرح اعتراض کیا جاتا ہے کہ صوفیا کا طبقہ علم سے دور ہوتا ہے اور عمل سے عاری ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جو حقیقی سالکِ راہِ تصوف ہوتا ہے وہ علم و عمل کی سیڑھی کے ذریعے ہی مقاماتِ رفیعہ پر پہنچتا ہے۔
صوفیاء کرام اس علمی ذوق کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ عمل پر توجہ دیتے ہیں۔ حضرت شیخ سید علی بن عثمان الہجویریؒ نے بھی اپنی کتب کے پہلے باب کا نام ’’اثباتِ علم‘‘ درج فرماکر یہ واضح کردیا کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا اپنے ذہن میں یہ بات راسخ کرلے کہ علم کے بغیر اگلی کوئی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔
رسولِ اکرم نورِ مجسم رحمتِ عالم ﷺ کی بعثت کے بنیادی چار مقاصد قرآن مجید میں ذکر کیے گئے ہیں:
- تلاوتِ قرآن مجید
- تعلیمِ کتاب
- تعلیمِ حکمت
- تزکیۂ نفس
(البقرة: 129، 151۔ آل عمران: 164۔ الجمعه: 2)
ان چار بنیادی مقاصد میں تعلیمِ کتاب و حکمت کو اہمیت حاصل ہے۔ تعلیم کے بعد اس پر عمل کرنے کا نام تزکیہ ہے۔ طبقۂ صوفیاء بھی تبلیغِ دین کا کام انہی چار مقاصد کی بنیاد پر ہی کرتے ہیں اور تعلیمِ دنیا اور تزکیۂ نفس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حضرت امام مالکؒ کا مشہور قول ہے:
من تفقه ولم یتصوف فقد تفسق و من تصوف ولم تفقه فقد تزندق ومن جمع بینهما فقد تحقق.
(ملا علی القاری، شرح عین العلم و زین الحلم، ج: 1، ص: 33)
’’جس نے علمِ فقہ میں مہارت حاصل کی لیکن تصوف سے نابلد رہا وہ فاسق ہوگیا اور جس نے تصوف میں کمال حاصل کیا لیکن فقہ سے ناآشنا رہا وہ زندیق ہوگیا اور جس نے ان دونوں کو جمع کیا اس نے حقیقت کو پالیا۔‘‘
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی غوث اعظمؒ فرماتے ہیں:
درست العلم حتی صرت قطبا ونلت السعد من مولی الموالی.
(صحیفه غوثیه شرح قصیده غوثیه، شارح مولانا قلندر علی، ص: 193)
’’میں نے علم پڑھا حتی کہ قطب ہوگیا اور میں نے خدا تعالیٰ کی مدد سے سعادت کو پالیا۔‘‘
حضرت محبوبِ الہٰی نظام الدین اولیاءؒ فوائد الفواد میں فرماتے ہیں:
پیرآں چناں باید کہ در احکامِ شریعت و طریقت و حقیقت عالم باشد وچوں ایں چنیں باشد از خود ہیچ نامشروع نفر مائید.
’’پیر ایسا ہونا چاہیے جو شریعت، طریقت اور حقیقت کے احکام کا علم رکھتا ہو اگر ایسا ہوگا تو وہ کسی ناجائز بات کے لیے نہ کہے گا۔‘‘
علم اور عمل دونوں کی اہمیت کے پیشِ نظر حضرت داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب کے پہلے باب ’’اثبات العلم‘‘ میں واضح طور پر روشنی ڈالی ہے۔ آپؒ نے اس باب کی پہلی فصل میں علم اور عمل کی فضیلت اور بے علمی و بدعملی کی مذمت فرمائی ہے۔
علمِ ضروری کیا ہے؟
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
’’واضح رہے کہ اقسامِ علم بے حد ہیں اور عمرِ انسانی نہایت قلیل ہے۔ اس لیے تمام علوم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض نہیں مثلاً: علمِ نجوم، علمِ حساب، علمِ صنائع و بدائع وغیرہ۔ مگر ان علوم میں سے اتنا حاصل کرنا لازمی اور ضروری ہے جس کی شریعتِ مطہرہ میں ضرورت ہے۔جیسے علمِ نجوم تو اس کا اتنا جاننا ضروری ہے جس سے رات دن کے اوقات، صوم و صلوٰۃ کے اوقات جانے جاسکیں۔ علمِ طب اس قدر ضرور پڑھا جائے جس سے انسان صحت کی حفاظت، عوارضاتِ مرض سے کرسکے۔ اسی طرح علمِ ریاضی اس قدر پڑھنا ضروری ہے جس سے علمِ فرائض آسانی سے سمجھ سکے۔ غرضیکہ علم اس قدر حاصل کرنا ضروری ہے جس سے حوائجِ شرعیہ پورے ہوسکیں۔(کشف المحجوب، ص: 84)
علم اور عمل میں افضلیت
حضرت داتا گنج بخشؒ نے علم اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے اور ایسے علوم کو بے منفعت قرار دیا ہے جو علم والے کو عمل سے دور رکھے۔ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
’’میں نے عوام میں ایک گروہ دیکھا کہ وہ علم پر عمل کو فضیلت دیتا ہے اور ایک جماعت دیکھی ہے جو عمل پر علم کو مقدم رکھتی ہے اور درحقیقت یہ دونوں باطل پر تھے۔ کیونکہ علم کے بغیر عمل، درحقیقت عمل نہیں ہوتا۔ عمل اسی وقت عمل شمار ہوگا جب اس کے ساتھ علم بھی موجود ہو۔ جس کی بدولت انسان ثواب کا کا مستحق بنتا ہے۔ جیسے نماز کے حوالے سے انسان کو طہارت کے احکام اور پانی کے پاک ہونے کا علم نہ ہو تو وضو صحیح نہیں ہوسکتا۔ قبلہ کی سمت کا اگر علم نہیں تو نماز درست نہیں۔ اسی طرح جب تک نیت کے معنی اور اس کی حقیقت کا علم نہ ہو تو نماز بے کار ہے۔ اسی طرح اگر ارکانِ نماز نہیں جانتا تو پھر نماز کیسے صحیح ہوسکتی ہے۔ تو ثابت ہوا کہ عمل، علم سے قریب ہوتا ہے۔ وہ جاہل جو علم کو عمل سے علیحدہ کررہا ہے اور عمل کو علم پر فضیلت دے رہا ہے، محض لغو اور بناء علی الباطل ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم کا وجود بغیر عمل نہیں۔‘‘ (ایضاً، ص:86)
بے عمل عالم کی مذمت
حضرت داتا گنج بخشؒ نے علم کے ساتھ ساتھ عمل پر زور دیا ہے۔ اگر کوئی عالم ہو اور وہ عمل سے عاری ہے تو اس کے بارے میں آپؒ نے فرمایا: ’’اس مسئلہ میں دو فرقے ہیں: ایک وہ ہے جو لوگوں کو علم کے باعث بلند مرتبے کا حامل سمجھتا ہے اور اعمال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ لوگ علم کی تہہ تک پہنچے بغیر عمل کو اس سے الگ تصور کرتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جاہل کہتا ہے ’’قال نہیں ہونا چاہیے بلکہ حال ہونا چاہیے‘‘۔ اور دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ ’’عمل ہونا چاہیے، علم کی کوئی بات نہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم ادہمؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک پتھر پڑا دیکھا جس پر یہ تحریر تھا ’’مجھے پلٹ اور پڑھ‘‘ میں نے الٹا کر دیکھا تو اس پر یہ لکھا تھا:
انت لا تعمل بما تعلم فکیف تطلب عملا مالا تعلم.
’’تم جس چیز کا علم رکھتے ہو اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر جس چیز کے بارے میں علم نہیں ہے تو اس عمل کی طلب کیوں کرتے ہو۔‘‘
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے علم پر عمل نہیں کرتے تو یہ بات ناممکن ہے تم ایسی چیز کا عمل طلب کرو جس سے تم واقف نہیں ہو۔ یعنی سب سے پہلے تمہیں جس چیز کا علم ہے تم اس پر عمل کرو تاکہ اس کی برکت کی وجہ سے اس چیز کا بھی علم حاصل کرلو جو ابھی تمہاری معلومات کے دائرے سے باہر ہے۔‘‘ (ایضاً، ص: 87)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے حاملینِ قرآن! قرآن مجید پر عمل کرو، کیونکہ عالم وہ شخص ہے جو اپنے علم پر عمل کرے اور اس کا عمل اس کے علم کے موافق ہو۔ عنقریب کچھ لوگ علم حاصل کریں گے لیکن وہ علم ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا، ان کی خلوت ان کی جلوت کے خلاف ہوگی اور ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہوگا۔ وہ حلقوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر فخر کریں گے حتی کہ اگر ایک عالم کا حلقہ بگوش اس کو چھوڑ کر دوسرے عالم کے حلقہ میں بیٹھ جائے تو وہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس کو چھوڑ دے گا، ان حلقوں سے ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچیں گے۔
(هندی، کنزالعمال، ج: 1، ص: 272)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جنت کے بعض لوگوں نے جہنم میں کچھ لوگوں کو دیکھا، انہوں نے کہا: تم جہنم میں کیسے چلے گئے؟ حالانکہ ہم تمہاری تعلیم کی وجہ سے جنت میں گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہم لوگوں کو حکم دیتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔ (ایضاً، ج:10، ص: 272)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس عالم کو ہوگا جس کو اللہ نے اس کے علم سے نفع اندوز نہیں کیا۔ (ایضاً، ج:10، ص: 208)
حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عمل کے عالم اس چراغ کی طرح ہے جو اپنے آپ کو جلاکر لوگوں کے لیے روشنی کرتا ہے۔ (اور اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے)۔ (ایضاً، ج: 10، ص: 210)
خلاصۂ کلام
حضرت داتا گنج بخشؒ جو بذاتِ خود ایک عالمِ دین، عمل کے پیکر، تقویٰ و پرہیزگاری میں اعلیٰ درجے پر فائز، صوفیٔ باصفا اور ولیٔ کامل تھے۔ آپ نے علم اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے اور تھوڑے علم کے ساتھ زیادہ عمل کی تلقین فرمائی ہے۔ نافع اور غیر نافع علم کی وضاحت فرمائی ہے اور ایسے علماء جو اپنے علم پر عمل پیرا نہیں ہوتے ان کی مذمت فرمائی ہے اور آخرت میں جو ان کے لیے وعید اور عذاب ہے اس کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ موجودہ دور میں سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اُس پر پوری طرح عمل کیا جائے اور جاہلوں والی سفلی حرکات سے پوری طرح اجتناب کیا جائے۔ یہی عمل دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا باعث ہے۔