حضرت مولانا عبدالرحمن جامی اپنے شیخ حضرت ابو اسماعیل عبداللہ بن ابی منصور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اپنے وقت کے مردِ کامل حضرت شیخ ابوللیث اوائل عمر میں ایسے مردِ درویش نہ تھے، عام لوگوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے تاہم اولیائے کرام سے محبت ضرور رکھتے تھے۔ایک بار کسی ضروری کام کی غرض سے آبادی سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ لمبی مسافت سے بچتے ہوئے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جو ایک قبرستان میں سے ہو کر جاتا تھا، جسے عموماً استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ جب وہ قبرستان کے درمیان پہنچے تو دیکھا کہ ایک تازہ قبر کے قریب ایک خاتون بیٹھی اہلِ قبر کو پکار رہی ہے کہ اے ماں کی جاں! اے ماں کے اکلوتے! اے میرے لال! وہ بیوہ خاتون اپنے جواں سال بیٹے کی ناگہانی موت پر اپنے غم کا اظہار کچھ ایسے درد بھرے لہجے میں کررہی تھی کہ جس میں دکھ اور کرب کاایک سمندر پنہاں تھا۔ اُن سے اس ماں کا یہ دکھ برداشت نہ ہو سکا اور ایسا گریہ طاری ہوا کہ ان پر ایک حال وارد ہو گیا۔ بڑی دیر تک ایک بیوہ ماں کے درد بھرے کلمات نے انہیں بے قرار اور دل گیر کئے رکھا۔ رات جب سوئے تو خواب میں ہاتفِ غیبی نے آواز دی کہ جو اللہ کی مخلوق کا درد اپنے دل میں رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اپنا درد ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ اللہ کے حضور ان کی توبہ کا باعث بنا۔
حضرت شیخ الاسلام ابواسماعیل اس پرفرماتے ہیں کہ اخلاص کے مقام پر رونے میں لذت پانا دراصل رونے کی قیمت اور نفع ہے۔ حضور نبی اکرم رئوف و رحیم ﷺ کی امت کے درد کو دل میں محسوس کرنا، آپ ﷺ کی امت کے رنج و الم پر دل گیر ہونا اور ان کی مشکلات کے حل میں کوشاں ہونا اتنی بڑی نعمت ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے تائب بیٹے کی داستانِ حیات
ہارون الرشید خاندان بنوعباس کا ایک نامور حکمران ہو گزرا ہے۔ اس کا سترہ سالہ بیٹا درویشوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اللہ کے عاشقوں اور دیوانوں کی صحبت کے زیر اثر تائب ہو کر شاہانہ بود و باش سے کنارہ کش ہو گیا۔ دنیا کی حقیقت اس پر بے نقاب ہو گئی تھی۔ وہ اہل قبور سے خطاب کرتا کہ اے اہلِ قبور! اس دنیا کے دھوکے نے تمہارے ساتھ کیا کیا عیاری کی؟ اب یہی عیاری دنیا ہمارے ساتھ کررہی ہے! اور یوں وہ خطاب کرتا کرتا بے ہوش ہو جاتا۔
اسی کیفیت میں ایک دن وہ اپنے والد کے دربار میں چلا گیا۔ بادشاہ نے کہا: بیٹے تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ کیوں دیوانوں کی طرح پھرتا ہے اور مجھے ذلیل کرتا ہے۔ اس پر بیٹے نے باپ کے شاہی محل کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہا اور خود بصرہ کے جنگلوں میں چلا گیا۔ وہیں پہاڑوں اور جنگلوں میں روتا پھرتا اور اللہ کے حضور مجسمِ مناجات بنا رہتا۔ گزر اوقات کے لئے جہاں مزدور بیٹھتے وہاں کبھی کبھی چلا جاتا تاکہ محنت کر کے کھانا کھا سکے۔ اپنے وقت کا خوب صورت جوان تھا۔ چنانچہ اس کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر ہر کوئی اسے مزدوری کے لئے پسند کرتا۔
ایک بار حضرت شیخ ابو طاہر کو مکان کی دیوار کی تعمیر کے سلسلے میں مزدور کی ضرورت تھی۔ شیخ نے اس کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر اسے مزدوری کے لئے پسند کر لیا۔ شام کو جب انہوں نے دیکھا کہ اکیلے اس ایک مزدور کا کام دس مزدوروں کے برابر ہے تو باقی تعمیر بھی اس سے کروانے کا ارادہ کر لیا اور خوش ہو کر مزدوری ایک درہم کی بجائے دو درہم دینے چاہے تو اس نے صرف ایک درہم ہی لیا کیونکہ یہی اس کے ساتھ طے ہوا تھا۔ اس ایمان داری پر وہ اس سے بہت متاثر ہوئے۔
اگلے روز دوبارہ اسے لینے کو پہنچے تو اسے غیر حاضر پایا۔ مزدوروں نے بتایا کہ اب وہ ہفتہ کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ چنانچہ شیخ ابو طاہر اسی کے منتظر رہے۔ ایک ہفتہ بعد جب وہ جوان مزدوری کے لئے آیا تو یہ اسے اپنے گھر لے گئے اور چھپ کر دیکھنے لگے کہ اس قدر تیزی سے یہ کیسے کام کرتا ہے؟ وہ یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کہ نوجوان نے ابھی ایک اینٹ ہاتھ میں پکڑی ہی تھی کہ ساری دیوار خودبخود بننے لگی۔ ساری بات سمجھ گئے۔ اس سے کہنے لگے: اے مردِ حق! تم ہم سب پر بازی لے گئے اور اس کی خدمت میں تین درہم پیش کئے لیکن اس نے ایک درہم ہی لیا اور چلا گیا۔
ہفتہ بعد جب دوبارہ اس کی تلاش میں نکلے تو اس کو کہیں نہ پایا۔ شیخ ابو طاہر سمجھ گئے کہ کسی ویرانے میں ہو گا۔ بالآخر اس کو بڑی تلاش کے بعد پا لیا۔ آپ نے پوچھا: آج مزدوری پر کیوں نہیں آئے تو نوجوان نے کہا: اب راز کھل گیا ہے، مزدوری کے قابل نہیں رہا۔ نوجوان کی خشیتِ الٰہی میں آہ و بکا کرتے سانس اکھڑ چکی تھی۔ چہرے پر نور کا ہالہ موجزن تھا۔ یہ سمجھ گئے کہ عاشقِ صادق اب اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے والا ہے۔ اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ نوجوان نے کہا: میری دو باتیں سن لیں: ایک یہ قرآن ہے اور ایک انگوٹھی۔ یہ دونوں میں گھر سے اللہ کی راہ میں چلتے ہوئے لے آیا تھا۔ یہ دونوں خلیفہ ہارون الرشید کو دے دینا اور کہنا کہ ایک مرتے ہوئے مسکین نے انہیں آپ کے لئے بھیجا ہے۔ یہ کہہ کر اس نوجوان نے شیخ ابوطاہر سے کہا کہ اے دوست! اس چار روزہ عیش و آرام کی زندگی کے دھوکے میں نہ آنا۔ لوگ اصل زندگی کو بھول گئے ہیں۔ ہم سب نے رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، جب بھی کسی جنازہ کو لے کر قبرستان جائو تو سمجھ لو کہ اس سے اگلا جنازہ تمہارا ہی اٹھنے والا ہے۔ تیرا یہ ساتھی اب اس دنیا سے جارہا ہے۔ یہ کہا اور روح پرواز کر گئی۔ اسے اس کی نصیحت کے مطابق انہی کپڑوں میں دفن کرنے کے بعد شیخ ابو طاہر بادشاہ کے دربارہ میں پہنچ گئے تاکہ دونوں چیزیں حسبِ نصیحت اس کے سپرد کر دی جائیں۔
خلیفہ ہارون الرشید نے جونہی دونوں چیزیں اس سے وصول کیں تو رونے لگا۔ شیخ ابو طاہر کو تنہائی میں لے جا کہنے لگا کہ مجھے سارا واقعہ بیان کر۔ انہوں نے مزدوری سے لے کر وصال تک کا ساراحال بیان کیا۔ ہارون الرشید نے پوچھا: کیا تم نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا؟ شیخ نے کہا: ہاں، تو بادشاہ نے جھک کر اس کے دونوں ہاتھوں کو چوما اور زار و قطار روتا ہوا گرپڑا۔ رات کو خواب میں بیٹے کو دیکھا کہ نور کے قبہ پر بیٹھا ہے۔ پوچھا: بیٹا تجھ پر کیا بیتی؟ کہاں رہتے ہو؟ کہنے لگا: ابا جان! اچھا وقت گزررہا ہے۔ باری تعالیٰ نے اپنے قرب میں ٹھہرا رکھا ہے۔ ہر روز مجھے فرماتا ہے: جوان میں تجھ سے راضی ہوں۔ میری قربت میں آجا۔