ایک متوازن اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانیت کی طرف آخری الوہی ضابطۂ حیات قرآن مجید کے آغاز ہی میں خلاّقِ عالم نے لاتعداد صفات سے متصف ہونے کے باوجود اپنا تعارف اپنی جس صفت سے کائناتِ انسانی کو کروایا، وہ صفت تربیت ہی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
(الفاتحة: 1)
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘
جب ہم اپنی اردگرد پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات اور اس کی بوقلمونیوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو اس کی ہر ہر اکائی میں ترقی و ارتقاء اور اس مسحور کن اعتدال و توازن میں خالقِ کائنات کی اس صفتِ تربیت و ربوبیت کا علی وجہ الکمال مشاہدہ کرتے ہیں اور اس کائنات کا ہر وجود ہمیں اس کی صفتِ ربوبیت پر ناطق گواہ نظر آتا ہے۔
تربیت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
’’تربیت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مادہ ’’ربّ‘‘ ہے اس کا معنی ’’اصلاح کرنا‘‘ اور ’’پالنا‘‘ کے آتے ہیں۔ اسی طرح اس میں ’’کسی کام کو درست کرنے‘‘ کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔
امام راغب اصفہانی لفظ ’’ربّ‘‘ کا معنی لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
رب الرب فی الاصل التربیة وهو انشاء الشی حالا فعالا الی حدالتمام.
’’ربّ کا معنی ہے پالنے والا اور پروردگار جو کسی چیز کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ حدِ کمال کو پہنچ جائے۔‘‘
(الراغب الاصفهانی، الامام المفردات فی غریب القرآن کتاب الراء، بذیل مادہ ر، ب)
- تربیت کا اصطلاحی مفہوم مختلف فلاسفہ اور ماہرین نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ چند ماہرین کی آراء ملاحظہ ہوں:
افلاطون تربیت کا معنی یوں واضح کرتا ہے:
’’تربیت جسم و روح کو سراپا جمال بناتی ہے اور ان دونوں کو درجہ کمال تک پہنچاتی ہے۔‘‘
ارسطو کے الفاظ میں:
’’تربیت عقل کو حصولِ علم کے لیے تیار کرتی ہے جس طرح زمین کھیتی باڑی کے لیے تیار کی جاتی ہے۔‘‘
ملٹن کے نزدیک تربیت کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’تربیت وہ جوہر ہے جو انسانوں کو ہر کام کا اہل بنادیتا ہے خواہ وہ کام کسی نوعیت کا کیوں نہ ہو، یہ طبیعت میں گہرائی، سوجھ بوجھ اورمہارت پیدا کرتی ہے خواہ امن کا زمانہ ہو یا جنگ کا۔‘‘
(شهباز خان، ڈاکٹر، اسلامی نقطه نظر سے تربیت اساتذه، ص: 119 )
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نزدیک تربیت کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’جب فرد نخوت اور ھوٰی و ہوس سے پاک اور جذباتِ خیرو احسان سے مملو ہوگا تو وہ اعضا کے افعال کے خطوط مدارج کی طرف متعین کرے گا اور شخصیتِ انسان مرتضیٰ کے مرتبے پر فائز ہوگی جس سے اجتماع یعنی معاشرہ میں خیرات و حسنات کی بہار آئے گی۔‘‘
(منهاج الافکار، جلد سوم، ص: 56)
مسلم و غیر مسلم مفکرین کی پیش کردہ تربیت کی تعریفات و مفاہیم کا خلاصہ یہ ہے کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل اور معاشرتی اعتبار سے فیض رساں اور مفید انسان کی تیاری کے لیے اس کی اخلاقی و روحانی تربیت کا عمل انتہائی ناگزیر ہے جس کو کسی بھی سطح اور کسی بھی لمحے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اخلاقی و روحانی تربیت کا الوہی انتظام
ایک انسان کی تربیت اور اسے روحانی اعتبار سے درجۂ کمال تک پہنچانے کا عمل اس ذاتِ حق کو اس قدر محبوب ہے کہ اس نے انسان کو پیدا فرماکر اسے ’’احسن التقویم‘‘ کے ممتاز ترین لقب سے نوازنے کے باوجود اس کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے نبوت و رسالت کا ایک مستقل سلسلہ شروع فرمایا۔ ان حاملینِ نبوت و رسالت کا وظیفہ ہی یہ قرار پایا کہ وہ اخلاق رذیلہ کی جگہ اخلاقِ عالیہ اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے انسان کے قلب و روح اور اس کے ظاہر و باطن کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا فریضہ سرانجام دیں۔ چنانچہ اس سلسلہ نور ونگہت کے آخری آفتاب و ماہتاب حضور سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے فرائضِ نبوت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.
(البقرة، 2: 151)
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ کی روشنی میں گویا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا محبوب و مطلوب وظیفہ قعرِ مذلت میں گری ہوئی انسانیت کی ظاہری و باطنی تربیت و اصلاح ہی ہے اور پھر آپ ﷺ نے اپنے اس منصبی فریضہ کو بتمام و کمال اس طرح ادا فرمایا کہ جس طرح اس کا حق تھا۔ وہ معاشرہ جس میں رہنے والا انسان از سر تاپا کفر و شرک، ضلالت و گمراہی اور رذائلِ اخلاق کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا تھا، جہاں انسانیت عملی طور پر بہیمیت کا روپ دھار چکی تھی، شرافت و نجابت نام کی کوئی چیز اس معاشرے میں دور دور تک کہیں نظر نہ آتی تھی اور وہ معاشرہ جو اس دھرتی پر انسانیت کے لیے آزار بن چکا تھا، ایسا معاشرہ مزکی اعظم نبی محتشم ﷺ کی نگاهِ ناز اور فیضِ تربیت سے اس طرح تشکیل پاتا ہے کہ وہ ہمدوشِ ثریا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس معاشرے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص رشکِ ملائکہ قرار پاتا ہے۔ اس نبوی مرکزِ تربیت کے فیض یافتگان میں سے صرف ایک رجلِ عظیم کی مثال ملاحظہ ہو:
’’حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضور ﷺ کی مجلس میں تھے۔ آپ ﷺ نے وعظ فرمایا جس سے دل نرم ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اپنی حقیقت ہم پر ظاہر ہوگئی۔ حضور ﷺ کی مجلس اٹھ کر میں گھر آیا، بیوی بچے پاس آگئے اور کچھ دنیا کا ذکر شروع ہوگیا اور بیوی بچوں کے ساتھ ہنسنا، بولنا اور مذاق شروع ہوگیا اور وہ حالت جاتی رہی جو حضور ﷺ کی مجلس میںتھی۔ دفعتاً خیال آیا کہ میں پہلے کس حال میں تھا اور اب کیا ہوگیا ہوں؟ میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو منافق ہوگیا کہ ظاہر میں حضور ﷺ کے سامنے وہ حال تھا اور اب گھر میں آکر یہ حالت ہوگئی۔ میں اس حالت پر افسوس کرتا ہوا گھر سے باہر نکلا کہ حنظلہ آج تو منافق ہوگیا ہے۔
سامنے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لارہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ وہ سن کر فرمانے لگے کہ سبحان اللہ! کیا کہہ رہے ہو؟ ہر گز نہیں۔ میں نے صورت بیان کی کہ ہم لوگ جب حضور ﷺ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہم لوگ ایسے ہوجاتے ہیں، گویا جنت اور دوزخ ہمارے سامنے ہیں؛ اور جب حضور ﷺ کے پاس سے آجاتے ہیں؛ تو بیوی بچوں اور جائیداد وغیرہ کے دھندوں میں پھنس کر ہم اس کو بھول جاتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات تو ہمیں بھی پیش آتی ہے۔ اس لیے دونوں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حنظلہ نے جاکر عرض کی یارسول اللہ ﷺ میں تو منافق ہوگیا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا ہوا؟ حنظلہ نے عرض کی کہ جب ہم لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ ﷺ جنت و دوزخ کا بیان فرماتے ہیں، تب تو ہم ایسے ہوجاتے ہیں گویا وہ ہمارے سامنے ہیں، لیکن جب خدمتِ اقدس سے اٹھ کر واپس جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور دنیا کے دھندوں میں لگ کر ان کو بھول جاتے ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تمہارا ہر وقت یہی حال رہے جیسا میرے سامنے ہوتا ہے تو فرشتے تمہارے ساتھ تمہارے بستروں اور راستہ میں مصافحہ کریں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب التوبہ)
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ تو اس معاشرہ کے فرد تھے، جس کا حال آپ پڑھ چکے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے فکرو نظر اور قلب وباطن میں یہ تبدیلی کیوں کر اورکیسے پیدا ہوگئی؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ یہ سب اس مربی عظیم کی صحبت و تربیت کا کرشمہ تھا کہ انسان ظاہراً اور باطناً پورے کا پورا بدل گیا۔ اس موقع پر مجھے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؒ کا ہم زبان ہوکر کہنے دیجئے کہ:
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاهِ عنایت پہ لاکھوں سلام
انسانی تزکیہ و اصلاح اور تربیت کا یہ الوہی سلسلہ وجودِ محمدی ﷺ کی صورت میں اپنے منتہائے کمال کو پہنچ کر ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا اور دنیائے انسانی کو آئندہ کسی نئی نبوت و رسالت اور وحی سے ہمیشہ کے لیے بے نیاز کردیا گیا ہے، اب قیامت تک نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی وحی و کتاب اتاری جائے گی۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ
پس خدا بر ما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالتؐ ختم کرد
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم و ما اقوام را
لا نبی بعدی ز احسان خدا است
پردہ ناموس دین مصطفیؐ است
حضور نبی اکرم ﷺ کے اپنے رفیق اعلیٰ سے مل جانے کے بعد تزکیہ نفوس اور اصلاحِ احوال کی ذمہ داری امتِ محمدیہ ﷺ کے علاوہ مشائخ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ چنانچہ عہد صحابہ سے لے کر آج کے اس دور تک ملتِ اسلامیہ کے صنادید تصوف و طریقت اور علماء شریعت نے جس خوش اسلوبی سے اس فریضہ کو نبھایا ہے،وہ تاریخِ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخِ انسانی کا بھی ایک سنہری باب ہے۔ ایسے داعیانِ حق اور مربیان کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ اگر صرف ان کے اسماء گرامی ہی لکھے جائیں تو بھی ایک دفتر تیار ہوجائے۔
دعوت و تربیت اور افلاکِ اصلاح و ارشاد کے جملہ نیّرِ تاباں کے فیضِ تربیت سے بادیۂ ضلالت میں سرگرداں لاکھوں انسان اکتسابِ فیض کرکے آسمانِ رشد و ہدایت پر جگمگا اٹھے۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ملتِ اسلامیہ کے اس اعزاز و شرف کا یوں اظہار کیا ہے:
خدمت ساقی گری با ما گذاشت
داد ما را آخرین جامی کہ داشت
دینی نقطۂ نظر سے تربیت کی اہمیت
ایک اچھے انسان کی تیاری اور اس کی سیرت و کردار کی تخم ریزی کا اصل مقام دل ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوتی، اس وقت تک ایک پاکیزہ خصلت اور روحانی الطبع انسان وجود میں نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حیاتِ انسانی کی روحانی تشکیل اور اس کی اخلاقی اور اصلاحی تربیت کے سرچشمے قرآن مجید اور سنتِ نبوی ﷺ دونوں قلبِ انسانی کی روحانی تربیت پر زور دیتے ہیں۔چنانچہ کفار مکہ کی طرف انکارِ حق پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا:
خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ز وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.
(البقرة، 2: 7)
’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔‘‘
گویا جب کفار نے حق کا انکار کردیا تو اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی مہر لگ گئی۔ اب تو وہ سماعِ حق اور بصیرت کی دولت سے محروم ہوگئے۔ یوں ان کے کان سننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اس وقت سے محروم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ان کی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ.
(البقرة، 2: 18)
’’یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راهِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے‘‘۔
جب کفار، حق دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے ہیں تو وہ اس کو اپنی زبان سے کیوں کر بیان کرسکتے ہیں؟ یہ کمال درجہ کی بدبختی ہے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے:
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا ج فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.
(الحج، 22: 64)
’’تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے بھی انسانی سیرت و کردار و اصلاح و حفاظت کا خصوصی حکم دیا ہے۔ ارشاداتِ قرآنی اور فرامینِ نبوی ﷺ کے مطابق جب دل کی یہ اہمیت ہے کہ اگر بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے تو اس سے مفہوم مخالف کے طور پر بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر یہ درست ہو تو انسان کے تمام اعضا کے احوال کو بھی حسنِ فعل کے اعتبار سے نقطہ کمال تک پہنچادیتا ہے۔ بدنِ انسانی کے اندر دل کی اس اہمیت اور قرآنی حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے مربی اعظم ﷺ نے اپنی زبان فیض ترجمان سے فرمایا:
الا ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کله واذا فسدت فسد الجسد کله الا وهی القلب.
’’خبردار! بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اور جب اس میں فساد واقع ہوجائے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے اور خبردار رہو کہ وہ لوتھڑا یہ دل ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ آج ہماری معاشرتی و سماجی زندگی کے تمام تر بگاڑ کی واحد اور سب سے بڑی وجہ دلوں کا بگاڑ ہی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے الفاظ میں:
’’اگر قلب فساد کا شکار ہوجائے گا تو رذائلِ نفس اس کے جوہر آئینہ پر پردہ ڈال دیں گے تو شخصیت تباہ ہوکر رہ جائے گی اور احسن التقویم کی باعظمت و رفیع منزل سے گر جائے گا اور اپنی بداعمالیوں کے سبب دل کے روحانی امراض میں مبتلا ہوکر اسفل السافلین کے قعرِ مذلت میں غرق ہوجائے گا اور پھر اچھوت کی بیماری کی طرح فسادِ قلب اور فسادِ شخصیت کی حدیں عبور کرکے فساد فی الارض کا سبب بن جائیں گے۔‘‘
(منهاج الافکار، جلد سوم، ص: 56)
اس ساری بحث کے نتیجہ میں یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ ہماری آج کی نجی و سماجی اور سیاسی و مذہبی زندگی کے اندر جو خرابیاں در آئی ہیں، ان سب سے نجات اور خلاصی پانے کے لیے آج ملتِ اسلامیہ کو اشد ضرورت ہے کہ تعمیرِ سیرت اور تربیتِ اخلاق کی طرف توجہ دیں۔ جب تک مادیت زدہ معاشرے میں روحانی الذہن، روحانی الطبع اور روحانی الفطرت انسان تشکیل نہیں پائے گا، اس وقت تک درماندہ راہ انسان نہ تو تشکیک سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی مادیت کی گمراہی سے نکل کر نورِ ہدایت کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔