علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کی اساس تحرک،تغیر،تسلسل اور ارتقاء ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کائناتی مقصود و مدعا میں معاون ہو جائے اور یوں وہ لافانی ہوجائے۔ کوئی بھی ایسی قدر جو آفاقی ہے (جیسا کہ حق کا سا تھ دینا ،باطل کا رد،مظلوم کی مدد،ظالم کے خلاف قیام، بنیادی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کی فراہمی) اس کے احیاء کی جدوجہد صحیح معنوں میں کائناتی مقصود کی تائید و نصرت ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اسلام کی ہیتِ اجتماعیہ کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی زندگی کا مقصود اسی ہیتِ اجتماعیہ کا قیام ہے نہ کہ کسی کونے میں بیٹھ کر عضوِ معطل بن کر محض عبادت کرنا۔اس عمل کو اقبالؒ گوسفندی کہتے ہیں۔
امام حسینؑ کی فکر،عمل ،جدوجہدمیں مذکورہ حیات بخش عناصر کثر ت سے پائے جاتے ہیں اور اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی ساری جدوجہد انہی آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کر دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ اما م حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک اما حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں:
- وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔
- کبھی وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
- کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
- کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
- کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
- کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت کا نمائندہ قرارد یتے ہیں۔
- کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
- کبھی حسین علیہ السلام کو خلافتِ راشدہ کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔
- کبھی غمِ حسین علیہ السلام میں روتے ہیں اور رلاتے ہیں۔
- کبھی حسین علیہ السلام کی فکری بلندی کی بات کرتے ہیں۔
- کبھی حسین علیہ السلام کو بنائے لاالہ قرار دیتے ہیں۔
- کبھی حسین علیہ السلام کے پیرو کاروں کی عظمت کا بیان کرتے ہیں۔
- کبھی موت کو حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑا دیکھتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال کی کتبِ شاعری (رموزِ بے خودی، بالِ جبریل، ارمغانِ حجاز، اسرارِ خودی، جاوید نامہ، ضربِ کلیم اور پیامِ مشرق) سے امامِ عالی مقام علیہ السلام کی ان حیثیتوں کا تفصیلی بیان ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
1۔ داستانِ کربلا کا مقدمہ: بیانِ عشق
علامہ محمد اقبالؒ نے داستانِ کربلا کے بیان کا مقدمہ عشق کے عنوان سے قائم کیا۔ اس باب میں انھوں نے عشق کے تقاضے، واردات، لوازمات پر بات کی اور عشق اور عقل کے تقابل پربات کی۔ اس لیے کہ وہ واقعہ کربلا کو سرتا سرمظہرِ عشق سمجھتے تھے۔
مومن از عشق است و عشق از مومنست
عشق را ناممکن ما ممکن است
مومن اللہ تعالیٰ کے عشق سے قائم ہے اور عشق کا وجود مومن سے ہے؛ وہ چیزیں جو ہمارے لیے ناممکن ہیں وہ عشق کے نزدیک ممکن ہیں۔
عقل سفاک است و او سفاک تر
پاک تر چالاک تر بیباک تر
عقل اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسروں کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتی اور عشق اللہ تعالے کی خاطر اپنی جان دینے میں اس سے بڑھ کر ہے۔عشق کے مقاصد عقل سے زیادہ پاکیزہ اور عشق اپنے عمل میں زیادہ تیز رو اور بیباک ہے۔
عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق گوید امتحان خویش کن
عقل کہتی ہے کہ اپنا مفاد پیش نظر رکھ؛ عشق کہتا ہے کہ اپنی آزمائش کر۔
عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب
عقل استحصال کی خاطر دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے؛ عشق کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے اور وہ اپنا احتساب کرتا ہے۔
آن امامِ عاشقان پور بتول
سرو آزادے ز بستانِ رسول
وہ عاشقوں کے امام سیدہ فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کے فرزند اور حضور اکرم (ﷺ) کے باغ کے سرو آزاد تھے۔
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او
عشقِ غیّور ان کے خون سے سرخرو ہوا؛ مصرعۂ عشق کی شوخی اسی مضمون (واقعۂ کربلا) سے ہے۔
2۔ امامِ حسین علیہ السلام : ذبحِ عظیم کی عملی تفسیر
سر ابراہیم و اسمعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود
آپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام ) کے واقعہ کے سرّ اور اس اجمال کی تفصیل ثابت ہوئے۔ (رموزِ بے خودی)
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبحِ عظیم آمد پسر
ان کے والد کا مرتبہ بائے بسم اللہ کا سا تھا اور سیدنا حسین ذبحِ عظیم کی تعبیر ہیں۔ (رموزِ بے خودی)
3۔ راکبِ دوشِ رسول ﷺ
بہر آن شہزادۂ خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
بہترین امت (امتِ مسلمہ) کے اس شہزادے (حسین علیہ السلام )کے لیے حضور (ﷺ) ختم المرسلین کا دوش مبارک سواری تھی، اور کیا اچھی سواری تھی۔ (رموزِ بے خودی)
4۔حسین علیہ السلام مثلِ قرآن
درمیان امت ان کیواں جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب
یہ بلند مرتبت شخصیت امت کے درمیان یوں ہے جیسے قرآن پاک میں سورۃ الاخلاص۔ (رموزِ بے خودی)
5۔ فکرِ حسین علیہ السلام ایمان کو زندہ کرنے کا موجب
امامِ حسین علیہ السلام قلوب و اذہان پر ہمیشہ سے نقش ہیں اور رہیں گے۔
شوکتِ شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
شام و بغداد کی شان و شوکت جاتی رہی؛ سطوتِ غرناطہ کی یاد بھی ذہنوں سے محو ہوئی۔
تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز
لیکن ہماری زندگی کے تار ابھی تک سید نا ( علیہ السلام ) کے زخمہ (تار کو بجانے والا آلہ) سے لرزاں ہیں؛ انہوں نے میدانِ کربلا میں جو تکبیر بلند کی تھی وہ ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے۔ (رموزِ بے خودی)
6۔ امام حسین علیہ السلام کی یا د میں گریہ
امامِ حسین علیہ السلام کا یہ مقام ہے کہ ان کی یا د میں اشک بہائے جائیں اور جو رونا حرام سمجھتے ہیں وہ سن لیں:
اے صبا اے پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاک او رسان
اے صبا! اے دور بسنے والوں کی پیغام رساں؛ ان کی خاک پاک پر ہمارے آنسوؤں کا تحفہ پہنچا دے۔ (رموزِ بے خودی)
7۔ حق و باطل کا ابدی معیار
امام حسین علیہ السلام رب کائنات کی طرف سے حق و باطل میں امتیاز کے لیے ابدی معیار ہیں۔ بالِ جبریل میں ہے کہ:
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
8۔ فقرِ حسینی علیہ السلام کی میراث
ہر نوعیت کے فقر کی کرامات مختلف ہیں لیکن فقرِ حسینی ؑ کی میراث مسلمانی ہے۔ بالِ جبریل میں ہے کہ:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی، سرمایہء شبیری
9۔ رسمِ شبیری کی ادائیگی: دین کی بقاء
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
رسم شبیری، وہ رسم ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ادا کی یعنی حق کا ساتھ اور باطل کی مخالفت،باطل کے خلاف آواز بلند کرنا اور سب کچھ لٹانا۔ فقر خانقاہی مراد موجودہ پیری مریدی ہے اور فقط اندوہ و دلگیری سے مراد صرف رنج و ملال ہے۔
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
بوئے رہبانی سے مراد ترکِ دنیا کی بو ہے۔ جو رسمِ شبیری ؑ ادا نہیں کرتے تو وہ بستی تباہ ہو جاتی ہے۔
قلندر میل تقریری ندارد
بجز این نکتہ اکسیری ندارد
از آن کشت خرابی حاصلی نیست
کہ آب از خون شبیری ندارد
قلندر لمبی تقریروں کا میلان نہیں رکھتا ، اسے ایک ہی نکتہ معلوم ہے، جو اکسیر کا کام کرتا ہے۔ ایسی ویران کھیتی سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ، جس کی آبیاری خون حسین ( علیہ السلام ) سے نہ کی گئی ہو۔ (ارمغانِ حجاز)
10۔ حسین علیہ السلام امت کی وحدت کے محافظ ہیں
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیرالامم
آپ (سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ) سیدنا حسین ( علیہ السلام ) کی والدہ تھیں جو شبستانِ حرم کی شمع تھے، اور جنہوں نے خیر الامم (امت مسلمہ) کے اتحاد کی حفاظت فرمائی۔ (رموزِ بے خودی)
11۔ امام حسین علیہ السلام کا اصولی مؤقف
امام حسین علیہ السلام کا اصولی مؤقف ہی آپ علیہ السلام کے مقام کا آئینہ دار ہے، اس کی قبولیت دنیا میں ہوئی۔
تا نشیند آتش پیکار و کین
پشت پا زد بر سر تاج و نگین
انہوں نے حکومت کو ٹھکرا دیا تاکہ امت مسلمہ کے اندر سے خانہ جنگی اور دشمنی کی آگ ختم ہو جائے۔ (رموزِ بے خودی)
12۔ امام حسین علیہ السلام کا اسوۂ، اسوۂ حسنہ ہے
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین
سیدنا حسین ( علیہ السلام ) کے اسوہ سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہلِ حق نے آپ سے حریّت کا درس لیا۔(رموزِ بے خودی)
13۔ امام حسین علیہ السلام کا مقام فقرہے
فقر عریاں گرمی بدر و حنین
فقر عریاں بانگ تکبیر حسین
فقر عریاں غزوات بدر و حنین کی گرمی ہے؛ فقر عریاں حضرت حسین ( علیہ السلام ) کی تکبیر کی آواز ہے۔ (پس چہ بائد کرد)
14۔ امام حسین علیہ السلام کا گھر کائنات کا رہنما ہے
قوت دین مبین فرمودہ اش
کائنات آئین پذیر از دودہ اش
حضور اکرم (ﷺ) نے انہیں دین مبین کی قوّت فرمایا ہے؛ ان کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے۔ (اسرارِخودی)
15۔ کائنات میں حسین علیہ السلام جیسا اور کوئی نہیں
قافلۂ حجاز میں ایک حسین علیہ السلام بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
16۔ امام حسین علیہ السلام نمائندہ حق ہیں
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
موسی و فرعون اور شبیر و یزید؛ یہ دونوں قوتیں حیات ہی کا اظہار ہیں۔
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
حق قوّتِ شبیری سے زندہ ہے؛ اور باطل کا انجام حسرت کی موت ہے۔ (رموزِ بے خودی)
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہل حق حریت آموز از حسین
سیدنا حسین ( علیہ السلام ) کے اسوہ سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہلِ حق نے آپ سے حریّت کا درس لیا۔ (رموزِ بے خودی)
17۔ امامِ حسین علیہ السلام خلافتِ راشدہ کی اقدار کے محافظ
امام حسین علیہ السلام خلافتِ راشدہ کی حقیقی قدروں کے محافظ ہیں۔
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن پاک سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے حریت کے حلق کے اندر زہر انڈیل دیا۔
خاست آن سر جلوۂ خیرالامم
چون سحاب قبلہ باران در قدم
یہ حالت دیکھ کر بہترین امت کا وہ جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلہ کی جانب سے بارش سے بھرپور بادل۔
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا ؛ اس نے ویرانے میں گل ہائے لالہ اگائے اور آگے بڑھ گیا۔
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
اس نے قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی؛ اس کی موج سے ایک نیا چمن پیدا ہوا۔ (رموزِ بے خودی)
18۔ امام حسین علیہ السلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
بہر حق در خاک و خون غلتیدہ است
پس بنائے لاالہ گردیدہ است
سید نا حسین ( علیہ السلام ) حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹے؛ اس لیے وہ لاالہ کی بنیاد بن گئے۔
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامانِ سفر
اگر ان کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے۔
دشمنان چون ریگ صحرا لاتعد
دوستان او بہ یزدان ہم عدد
دشمن ریگ صحرا کے ذرّوں کی مانند لا تعداد تھے اور ان کے دوست لفظ یزداں کے ہم عدد 72 تھے۔ (رموزِ بے خودی)
19۔ امام حسین علیہ السلام کے عزم کی بلندی اور فکر کی پختگی
عزم او چون کوہساران استوار
پایدار و تند سیر و کامگار
ان کا عزم پہاڑوں کی مانند محکم، پائیدار ، آمادہ بہ عمل اور کامیاب تھا۔ (رموزِ بے خودی)
ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام
خون حسین بزدہ کوفہ و شام خویش را
ریگِ عراق منتظر ہے، حجاز کی سر زمین پیاسی ہے؛ اپنے کوفہ و شام کو پھر حسین ( علیہ السلام ) سے شاداب کیجیے۔ (زبورِ عجم)
20۔ محافظِ دین و شریعت
امام حسین علیہ السلام محافظِ دین و شریعت اور محافظ لا الہ الاللہ ہیں۔
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
تیغ صرف عزتِ دین کے لیے ہے؛ اس کا مقصد صرف شریعت کی حفاظت ہے۔
ماسوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونی سرش افگندہ نیست
مسلمان غیر اللہ کا بندہ نہیں ؛ وہ کسی فرعون کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا۔
خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
سید نا حسین ( علیہ السلام ) کے خون نے اس راز کی تفسیر پیش کی: اور (اپنے عمل سے) ملّت خوابیدہ کو بیدار کر دیا۔ (رموزِ بے خودی)
تیغِ لا چون از میان بیرون کشید
از رگ ارباب باطل خون کشید
جب آپ نے ’’لا‘‘ کی تلوار میان سے باہر نکالی تو اہلِ باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا۔
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
انہوں نے صحرا کی سرزمین پر ’’الا اللہ‘‘ کا نقش رقم کیا؛ اور ان کی لکھی ہوئی سطر ہماری نجات کا عنوان بنی۔ (رموزِ بے خودی)
21۔ امام حسین علیہ السلام قرآن کے رموز کے وارث ہیں
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
ہم نے قرآن پاک کے رموز سید نا حسین ( علیہ السلام ) سے سیکھے ہیں؛ ان کی روشن کی ہوئی آگ سے ہم نے آزادی کے شعلے اکٹھے کیے ہیں۔ (رموزِ بے خودی)
22۔ امام حسین علیہ السلام کی تربیت کس نے کی؟
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہ کامل بتول
سیدنا فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور ماؤں کے لیے اسوہ کاملہ ہیں۔
آن ادب پروردہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
آپ ( سلام اللہ علیہا ) نے صبر و رضا کی ادب گاہ میں پرورش پائی تھی؛ ہاتھ چکّی پیستے اور لبوں پر قرآن پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔
گریہ ہائے او ز بالین بے نیاز
گوہر افشاندی بدامان نماز
آپ ( سلام اللہ علیہا ) کے آنسو تکیے پر کبھی نہ گرے (آپ ( سلام اللہ علیہا ) نے تنگیٔ حالات پر کبھی آنسو نہ بہائے) البتہ نماز کے دوران آپ ( سلام اللہ علیہا ) کے آنسو موتیوں کی طرح ٹپکتے تھے۔
اشک او بر چید جبریل از زمین
ہمچو شبنم ریخت بر عرش برین
جبریل امین ( علیہ السلام ) آپ ( سلام اللہ علیہا ) کے آنسو سمیٹ لیتے اور انہیں عرش بریں پر شبنم کی طرح ٹپکاتے۔
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
شریعت حقہ کے احکام میرے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں ؛ مجھے جناب مصطفی (ﷺ) کے فرمان کا پاس ہے۔
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی
ورنہ میں سیدہ فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کی تربت کے گرد طواف کرتا اور ان کی قبر پر سجدہ ریز ہوتا۔ (رموزِ بے خودی)
- دخترن ملت کو نصیحت کرتے ہوئے اور اسوۂ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اسوہ کاملہ قرار دیتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
اگر پندی ز درویشی پذیری
ہزار امت بمیرد تونمیری
بتول باش وپنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیری بگیری
اگر تو اس درویش کی نصیحت پلے باندھ لے،تو ہزار قومیں مر جائیں مگر تو نہیں مرے گا۔سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اسوہ اپنا اور اس دور سے پنہاں رہ، تاکہ تو کسی شبیر کو جنم دے سکے۔ (ارمغان حجاز)
23۔ اقبالؒ کا تصورِ موت اور مقام امام حسین علیہ السلام
ہر زمان میرد غلام از بیم مرگ
زندگی او را حرام از بیم مرگ
(نفس کا) غلام ہر لمحہ موت کے خوف سے مرتا ہے؛ موت کے ڈر سے اس کی زندگی حرام ہو جاتی ہے۔
بندہ آزاد را شانے دگر
مرگ او را می دہد جانے دگر
مگر اللہ تعالے کے بندے کی شان یہ ہے کہ موت اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے۔
او خود اندیش است مرگ اندیش نیست
مرگ آزادان ز آنی بیش نیست
اللہ تعالیٰ کے بندے کو اپنی فکر رہتی ہے ( میں احکام الہی کا پابند ہوں یا نہیں) اسے موت کی فکر نہیں : اللہ والوں کی موت ایک لمحے سے زیادہ نہیں۔
بگذر از مرگی کہ سازد با لحد
زانکہ این مرگست مرگ دام و دد
چھوڑ اس موت کو جو قبر سے موافقت اختیار کر لیتی ہے، کیونکہ وہ موت چوپایوں کی موت ہے۔
مرد مومن خواہد از یزدان پاک
آن دگر مرگی کہ بر گیرد ز خاک
مرد مومن اللہ تعالیٰ سے اس موت کا طالب رہتا ہے جو اسے خاک سے اوپر اٹھا دیتی ہے۔
آن دگر مرگ انتہائے راہ شوق
آخرین تکبیر در جنگاہ شوق
وہ موت جو راہِ شوق کی انتہا ہے؛ جو میدانِ شوق میں بلند کیا جانے والا آخری نعرۂ تکبیر ہے۔
گرچہ ہر مرگ است بر مومن شکر
مرگ پور مرتضی چیزی دگر
اگرچہ مومن ہر موت کو شکر سے قبول کرتا ہے مگر سیدنا حسین ( علیہ السلام ) کی موت اور چیز ہے۔
آنکہ حرف شوق با اقوام گفت
جنگ را رہبانی اسلام گفت
وہ ذات (ﷺ) جنہوں نے قوموں کو عشق کی بات بتائی، انہوں نے جہاد کو اسلام کی رہبانیت فرمایا۔
کس نداند جز شہید این نکتہ را
کو بخون خود خرید این نکتہ را
مگر اس نکتے کو شہید کے سوا اور کوئی نہیں سمجھتا کیونکہ وہ اس کو اپنا خون دے کر پاتا ہے۔ (جاوید نامہ)
علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں ذکرِ امام حسین علیہ السلام کا حق ادا کر دیا۔ اقبالؒ نے امامِ عالی مقام علیہ السلام کی شخصیت کے بے شمار پہلوؤں کا احاطہ کیا، لیکن مرکزی نکتہ جس پر اقبال کی ساری فکر کا ارتکازہے وہ پیغامِ حسین علیہ السلام سے ملنے والی حیاتِ نو ہے۔ اقبال ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ذکرِ حسین علیہ السلام محض اجر و ثواب کی نیت سے نہ کرو، وہ تو ملے گا ہی، ذکرِ حسین علیہ السلام کا اصل جوہر تحرک، باطل سے عدمِ سمجھوتہ، دانش و بینش، دور اندیشی ہیں۔ ذکرِ حسین علیہ السلام سے یہ جواہر حاصل کرو۔ پیغامِ حسین علیہ السلام میں حیاتِ نو ہے، اسے حاصل کرو۔۔۔ پیغامِ حسین علیہ السلام میں انقلاب ہے، اسے حاصل کرو۔۔۔ پیغامِ حسین علیہ السلام میں جہدِ مسلسل ہے، اسے حاصل کرو۔۔۔ پیغامِ حسین علیہ السلام میں جذبۂ ایثار و قربانی ہے، اسے حاصل کرو۔۔۔ پیغامِ حسین علیہ السلام میں روحِ اسلام ہے، اسے حاصل کرو۔