حضرتِ اقبال کا فلسفہ خودی و عشق

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو بہترین انداز اور نمونے پر بنایا ہے۔ دین اسلام کا جو تصور ’’انسان‘‘ سے متعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت، ترکیب، اپنے کردار اپنے مقصدِ وجود اور اپنے انجام کے لحاظ سے اس ساری کائنات میں منفرد ہے۔ دنیاوی زندگی اس کے لیے امتحان گاہ ہے جس کے ذریعے اس کے اعمال کا حساب ہوگا اور یہی اعمال اس کا انجام متعین کریں گے۔ قرآن مجید فرقان حمید (الحجر: 28، 29)میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کی اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔ ‘‘

پھر سورۃ (التین: 4) میں فرمایا:

’’ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘

اسلام نے انسان کو جو عظمت عطا کی ہے یا اس کی بحیثیت اشرف المخلوقات جو خوبیاں بیان کی ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے حضرت اقبال کہتے ہیں:

تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کا حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا

علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کے تمام بنیادی مضامین درحقیقت قرآن مجید سے ماخوذ ہیں اور قرآن مجید میں فضیلتِ انسان، تسخیرِ فطرت، عزم و استقلال، جرات و شجاعت، حمیت و غیرت اور قدرت و اختیار پر بکثرت آیات موجود ہیں۔

حضرت اقبال اپنی مشہور عالم تصنیف ’’اسرارِ خودی‘‘ کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:

خودی سے میری مراد غرور یا تکبر نہیں ہے بلکہ ا سے مراد ہے من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

اقبال نہایت بلند فہمی سے واضح کرتے ہیں کہ خودی کو پالینے کے بعد اس معرفت ذات کو قوم و ملت کے لیے وقف کردینا ہی انسان کی معراج ہے۔ علامہ اقبال نے اسی بناء پر اسرار خودی کے بعد رموز بے خودی لکھ کر اس کی تکمیل کی اور فرد کا رشتہ ملت کے ساتھ قائم کیا۔ گویا پہلے فرد اپنی ذات میں موجود صفات عالیہ کو پہچانے ان کو نکھارے اور پھر ان تمام مہارتوں کو قومی مفاد میں پیش کردے

خودی اس قدر طاقت ور شے ہے کہ اگر اس خودی کو بالکل مطلق العنان چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک شیطانی قوت بن جاتی ہے۔ لہذا اس میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے اس کو کسی آئین کا پابند بنانا ضروری ہے۔ اسی لیے اقبال اپنے خطوط میں لکھتے ہیں کہ

دین اسلام جو ہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے ہر شے پر مقدم ہے، نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہٰی ہے۔ خودی خواہ مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی، قانون الہٰی کی پابند ہوجائے تو مسلمان ہوجاتی ہے۔

گویا حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت کو اپنے قبل کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ علامہ اقبال نہایت بلند فہمی سے واضح کرتے ہیں کہ خودی کو پالینے کے بعد اس معرفت ذات کو قوم و ملت کے لیے وقف کردینا ہی انسان کی معراج ہے۔ علامہ اقبال نے اسی بناء پر اسرار خودی کے بعد رموز بے خودی لکھ کر اس کی تکمیل کی اور فرد کا رشتہ ملت کے ساتھ قائم کیا۔ گویا پہلے فرد اپنی ذات میں موجود صفات عالیہ کو پہچانے ان کو نکھارے اور پھر ان تمام مہارتوں کو قومی مفاد میں پیش کردے۔ اقبال نے نزدیک انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا حقیقی ربط صرف اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ اتحاد نسل یا وطن کا محدود تصور نہیں بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ ہے۔

تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کا حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا

بنی نوع انسان اپنے ارادے اور عمل کے ذریعے اپنے آپ کو جس سانچے میں چاہے ڈھال سکتا ہے۔ اسی تخلیقی آزادی کی بنا پر انسان کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ اس بنا پر انسان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ نہ مجبور ہے نہ مختار بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک متحرک زندہ طاقت ہے۔ اسی متحرک اور زندہ طاقت ہونے کی وجہ سے انسان اپنے اعمال و افعال میں آزاد اور اس کا ذمہ دار ہے اور اسی عمل آزادی کی بنا پر انسانی خودی کی نشوونما ہوتی ہے۔ شاعر مشرق بیان کرتے ہیں:

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
ناچیز جہانِ مہہ و پروین ترے آگے
وہ عالم محدود ہے تو عالم آزاد

حضرت اقبال یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے مقابلے میں انسان ایک بے بس و مجبور اور عاجز درماندہ ہستی ہے لیکن خدا کی پیداہ کردہ کائنات کے مقابلے میں انسان کو فوقیت حاصل ہے۔ گویا انسان اپنی عقل اور ایجاد و اختراع کی اہلیت کو بروئے کار لاکر جب مظاہر قدرت کو اپنی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے تو اشرف المخلوقات ہونے اور نیابت الہٰی کا حق ادا کرتاہے۔ اس ضمن میں حکیم الامت نہایت دلکش اندازمیں انسان کی ان صلاحیتوں کو یوں سراہتے ہیں:

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

شاعر مشرق کا تمام کلام بنی نوع انسان کی اصلاح اور عملِ پیہم کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے۔ بے شک انسان کو جو اختیار ملا ہے وہ لامحدود نہیں ہے بلکہ ایک حد کے اندر ہے۔ لیکن اقبال اسی محدود اختیار سے عشق جیسے جذبہ کو وابستہ کرکے ان کمالات تک پہنچنے کا راستہ دکھاتے ہیں کہ جو مرد مومن کی شان ہیں۔ بقول اقبال:

عشق کی مغرب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات

عشق وہ جذبہ کہ جو مومن کے اعمال سے وابستہ ہوجائے تو انسان اپنے محدود اختیار کے دائرے سے نکل کر وہ کارہائے نمایاں کر دکھاتاہے جو عقل کے دامن محدود میں نہیں آتے۔ حضرت ابراہم کا نمرود فرعون کی دہکی ہوئی آگ میں کود جانا ہو یا حضرت اسماعیل کے گلے پر باپ کی محبت کا اللہ کی محبت میں ڈوب کر چھری چلانا ہو۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہ طور پر اللہ رب العزت سے کلام کرنا ہو یا حضرت عیسیٰؑ کا مسیحائی کا اعجاز تخت سلیمانی اور ہیکل سلیمانی کا ذکر ہو یا سرور کونین محمد مصطفیﷺ کا سفر معراج، بیت اللہ شریف کی حفاظت کے لیے مٹھی بھر مسلمانوں کا ابرہہ کے ہزاروں پر مشتمل لشکر کے سامنے ڈٹ جانا اور ان کی مدد کے لیے مکہ کی فضاؤں میں ابابیل کے لشکر منہ میں کنکریاں لیے یوں نمودار ہونا کہ کنکریوں کی بارش سے ابرہہ کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور چھوٹے سے پرندوں ابابیلوں کے جھنڈ نے ہاتھیوں کے ایک عظیم لشکر کو شکست دے دی۔ تپتے ہوئے صحرا کی گرم ریت پر گھیسٹے جانے کے دوران بھی بلال حبشیؓ کے لبوں پر احد احد کی صدائیں ہوں یا کربلا کے میدان میں پیاسے نواسہ رسولؑ کی شہادت الغرض خلافتِ الہٰیہ کے منصب پر فائض ہونا ممکن ہی اس وقت ہے جب مردمومن کے عمل کے ساتھ عشق پیہم ہوجائے۔

بنی نوع انسان اپنے ارادے اور عمل کے ذریعے اپنے آپ کو جس سانچے میں چاہے ڈھال سکتا ہے۔ اسی تخلیقی آزادی کی بنا پر انسان کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ اس بنا پر انسان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ نہ مجبور ہے نہ مختار بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک متحرک زندہ طاقت ہے۔ اسی متحرک اور زندہ طاقت ہونے کی وجہ سے انسان اپنے اعمال و افعال میں آزاد اور اس کا ذمہ دار ہے اور اسی عمل آزادی کی بنا پر انسانی خودی کی نشوونما ہوتی ہے

حکیم الامت کہتے ہیں:

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

گویا ارتقاء خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیرو بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم
آدمی کے یشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کانم
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ صفات

یہی وہ عشق کا جذبہ ہے جو انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں برصغیر پاک وہند کے ایک متوسط گھرانے میں پرورش پاتے نوجوان کو حصول علم و معرفت میں اس قدر مشغول کرتا ہے کہ شب و روز کی محنتِ شاقہ رنگ لاتی ہے اور گمنام سے گھرانے کا یہ چشم و چراغ افق عالم پر سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال بن کر چمکنے لگتا ہے۔ وہ اقبال جو وکالت کرتا ہے تو ایک یا دو افراد کا نہیں بلکہ پوری امت کا مقدمہ لڑتا ہے اور کہتا نظر آتا ہے:

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ سے سودائے خام خون۔۔۔۔

یہ وہ خون جگر ہے جو عصر حاضر میں موجود فرزندان شوق کو نصیب ہوتاہے تو وہ ڈاکٹر حسن محی الدین کی صورت میں وکالت پڑھ کر دستور مدینہ جیسی عظیم تصانیف رقم کرتے ہیں کہ جو امتِ محمدیﷺ کو دنیا کے تمام دیگر دساتیر سے بہترین و افضل دستور کی حامل ثابت کرتی ہیں۔ یہی وہ شوق عمل ہے جو عشق کا روپ اختیار کرلیتا ہے تو لافانی نصب العین کی محبت فانی انسان کی خودی کی تکمیل کرکے اسے بھی لازوال بنادیتی ہے۔

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام