مقامات طریقت اور حقیقت توبہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

قرآن مجید کا بھی یہ اسلوب ہے کہ وہ اللہ کے دوستوں اور الله کے فقیروں کے مقامات اور احوال کو بیان کرتا ہے۔ اللہ کی دوستی کی راہ میں اللہ کے بندوں کو کئی حال نصیب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اللہ کی راہ کے فقیر وں کے مقامات کا تذکرہ کرتا ہے۔ تاکہ اُن کی شان بیان ہو اور دوسروں کو ترغیب میسر آئے۔ دوسروں کو اس راہ پر چلنے کا شوق پیدا ہو مثلاً ارشاد فرمایا گیا۔

لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰهِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ یَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ.

(البقرة، 2: 273)

’’(خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے۔‘‘

کہ اُن فقیروں کے لیے ہے جنہوں نے خود کو اللہ کی راہ میں قید کر دیا ہے۔ وہ فقیر جو اللہ کی راہ کے اسیر ہو چکے ہیں۔ یعنی جو اس کی محبت کی زنجیروں میں بندھ چکے ہیں۔ اُن کو قرآن فقیر کہہ رہا ہے۔ صوفیائے کرام نے کوئی معنی، کوئی مفہوم اور کوئی اصطلاح اور کوئی تصور قرآن اور سنت سے جدا پیدا نہیں کیا۔ تصوف میں جو کچھ ملتا ہے وہ قرآن وسنت کا نچوڑ ہے۔

اس لیے حضرت مولانا روم جنہوں نے تصوف کی زبان کو مثنوی کے روپ میں بیان کیا وہ فرماتے ہیں میں نے قرآن کا مغز، اپنی مثنوی میں بیان کر دیا ہے اور ہڈیاں سگان دنیا کے سامنے پھینک دیں ہیں۔ یہ اند از تمثیل ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسی بوٹی کھاتے ہیں جس کی ہڈی میں مغز ہوتا ہے۔ جبکہ مغز والی ہڈی میں مغز ہی صرف کھانے کی چیز ہوتی ہے۔ اور ہڈی پھیکنے کی چیز ہوتی ہے یہ تمثیل سے واضح فرما رہے ہیں کہ جو مغر ہے وہ اصل تعلیمات ہیں۔ تو مغز قرآن کا تصوف ہے۔ اس لیے کہ تصوف تربیت نفس کا نام ہے۔ اور تہذیب باطن کا نام ہے۔ فرماتے ہیں کہ مغز میں نے مثنوی میں بیان کر دیا اور ہڈیاں یعنی ظاہری الفاظ کے معانی اور مطالب بیان کرنے میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور نزاعات پیدا ہوتے ہیں اور اُس سے جھگڑے جنم لیتے ہیں اور فرقے جنم لیتے ہیں اور اس سے مناظرے ہوتے ہیں اور کفر کے فتوے لگتے ہیں یہ سارا دھندہ میں نے اُن لوگوں کے آگے پھینک دیا ہے جن کا کام اسی جھگڑے میں ملوث رہنا ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جن کو مغز مل جاتا ہے انھیں جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ خاموش رہتے ہیں وہ مطمئن رہتے ہیں۔ اور نہ کسی کو گالی دیتے ہیں۔ اور کوئی انہیں گالی دے بھی تو جواب میں برا بھلا نہیں کہتے اس ہے کہ ایک دوسرے کو گھورنا اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا اور ایک دوسرے کے گلے پڑنا یہ ہڈیوں کی خاطر ہوتا ہے۔ اگر غور کریں کو دیکھنے میں آتا ہے کہ صوفیا میں سے کبھی کوئی کسی پر لعن طعن، ملامت اور کفر و فسق کے فتوے نہیں لگایا کرتا۔ ہاں جہاں شریعت جس کو ناگزیر قرار دے دے وہ معاملہ جدا ہے۔ یعنی وہ مسلمانوں کے اندر ایک دوسرے پر کفر کی فتویٰ بازی، فسق و فجور کی فتوی بازی، لعنت و ملامت کی فتوی بازی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو یہ صوفیاء کا شیوہ نہیں ہوتا۔ صوفیا کے ہاں جو بھی تصور ہے وہ قرآن وسنت کا مغز ہے۔

یہ وہی شخص ہے جس کو قرآن فقیر کہتا ہے اور یہ منگتا نہیں ہوتا۔ تصوف اور قرآن کی زبان میں فقیر منگتے کو نہیں کہتے اس کو قرآن سائل کہتا ہے۔

وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡهَرۡ.

(الضحیٰ، 93: 10)

اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیں۔

جو سوالی تیرے پاس آئے اسے نہ جھڑک۔ خالی نہ موڑ تو منگتا سائل ہوتا ہے۔ ہلکے منگتے کو محروم بھی کہتے ہیں۔

وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ.

(الذاریات، 51: 19)

’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔‘‘

کہ جو لوگ محروم ہیں تو محرومی کے سبب ہی سے تو مانگتے ہیں چونکہ ان کے پاس کچھ نہیں۔ محروم ہیں۔ اس لیے وہ دامان سوال دراز کرتے ہیں سائل بن گئے ہیں۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ سائل ہے۔ اور فقیر کو منگتا کیوں کہا جائے کہ فقیر تو وہ ہوتا ہے جس کے دامن میں سب کچھ ہوتا ہے۔ فقیر تو محروم ہوتا ہی نہیں بلکہ جو فقیر کی صحبت میں آتا ہے اس کی فقیری بھی دور ہو جاتی ہے۔ اس لیے فقیر کبھی منگتا نہیں ہوتا۔ جو محروم ہیں وہ ان کے پاس آتے ہیں۔اور ان کی صحبت میں بیٹھنے سے محرومیاں دور ہو جاتی ہیں۔

قرآن فقیر کے بارے کہتا ہے:

لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰهِ.

(البقرة، 2: 273)

فقیر وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ کی محبت کی زنجیر میں جکڑے جاچکے ہوں۔

پھر اللہ کی محبت میں اُس کی راہ میں یوں جکڑے جاتے ہیں یوں بندھ جاتے ہیں کہ

لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ.

(البقرة، 2: 273)

پھر اپنا معاش اور اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لیے بھی اُن کے پاس اتنی فرصت اور اتنی کاوش کی مہلت نہیں رہتی کہ زمین میں چلیں پھریں اور اپنے مفاد کو حاصل کریں۔ یعنی وہ اسباب سے کنارہ کش ہو کر مسبب الاسباب کے ہو جاتے ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں کو اسباب سے کنارہ کش ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ مقامات کی بات ہے۔

عام مسلمانوں کے لیے شریعت کا حکم ہے کہ وہ اسباب کو اپنائیں، تدبیر اور اسباب کو اپنائیں اور حضور نبی اکرم نے خود اسباب کو امت کے لیے سنت بنانے کے لیے خاطر اپنا کر دکھایا اور اس لیے کی کہ عام مومن اور عام انسان اگر اسباب چھوڑ دے تو وہ پھر محرومی کا شکار ہوتا ہے۔ اور اس محرومی کی حالت میں اُس کا اللہ پر توکل ٹوٹ جاتا ہے۔ اللہ پر بھروسا ٹوٹ جاتا ہے۔ اور وہ فقر کی حالت میں افلاس و غربت کی حالت میں کبھی شکوہ کرنے لگتا ہے کبھی نا شکرہ ہو جاتا ہے. اور اسباب کے ذریعے چونکہ اسے دنیا کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔ اِس لیے اُسے کہا جاتا ہے کہ تو اسباب کو اپنا۔ تو اسباب کے اپنانے کے حکم کی حکمت یہ ہے اور وہ لوگ جو اسباب کے بغیر بھی استقامت کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اور جن کی نظر اسباب کی بجائے مسبب پر ہو اور نعمتوں کی بجائے منعم پر ہو یعنی نعمتیں وہ شے ہیں جو دنیا کی صورت میں دی جاتی ہیں۔ اور منعم وہ ہے جو خود نعمتوں کا خالق ہے، نعمت مخلوق ہے اور منعم نعمت کا خالق ہے۔ سبب مخلوق ہے اور اُس کا سبب اللہ پاک ہے۔ یہ سبب کا خالق ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سبب کی طرف جانے کی بجائے صرف مسبب کی طرف جاتے ہیں۔ اور نعمت پر جو نظر رکھنے کی بجائے مُنعم پر نظر رکھتے ہیں۔ جو اس مقام پر ہوں ان کے لیے حکم نہیں دیا جاتا کہ وہ اسباب کے پیچھے بھاگیں وہ پھر مقام فقر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور اُن کی بھی تعریف کرتا ہے قرآن

لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ

کہ جو پھر اس منعم اور مسبب پر بھروسا کامل کر لیتے ہیں۔ اور اس کی محبت میں طاق ہو جاتے ہیں اور تام ہو جاتے ہیں۔ تو وہ پھر اسباب سے ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں۔ اور جو نادان لوگ ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چونکہ کسی سے مانگتے نہیں اور کسی کے سامنے سوال نہیں کرتے ہاتھ نہیں پھیلاتے تو وہ ان کے نہ سوال کرنے سے اور ان کے استغنا سے، ان کے نہ مانگنے کو خیال کیا جاتا ہے کہ شاید یہ لوگ بہت مالدار ہوں گے۔ حالانکہ دنیا کی دولت تو اُن کے پاس شاید کم ہو اُن کے پاس ایک ایسی دولت ہے جو ہر مالدار سے بھی بہتر مال ہے۔ ان لوگوں کو قرآن فقیر کہتا ہے۔ یہ فقر کے مقامات بیان کیے گئے۔

اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰهِ

اللہ کی راہ میں بندھ جانا یہ بھی ایک مقام ہے۔

لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ

ماسوا اللہ سے مستغنی ہو جانا بھی اُن کا مقام ہے اور آپس کے سبب سے یعنی کسی سے نہ مانگنے کے سبب سے لوگوں کی نظر میں اُن کی غنا کا آنا یہ بھی ایک مقام ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے اُن کے لیے لوگوں کے دلوں پر ایک رعب جما دیا جاتا ہے۔ ایک ہیبت طاری کر دی جاتی ہے۔ ایک تاثر قائم کر دیا جاتا ہے۔ جن کے پاس دنیوی مال اور وسیلہ نبیؐ ہو تو دنیا پھر بھی دیکھ کر یہ سمجھتی ہے کہ شاید یہ شخص بہت طاقت والا ہے بہت وسیلے والا ہے۔ بہت مال و دولت والا ہے تو یہ تو ان دیکھنے والوں کی نادانی ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان کے یہ مقامات قرآن بیان کرتا ہے۔

اِس طرح قرآن مجید اور بھی کئی مقامات پر اللہ والوں کے مقامات کو بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا۔

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُهُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ.

(السجدة، 32: 16)

ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔

یہ بھی اِن لوگوں کے مقام ہیں کہ ان کے پہلو ان کی خواب گاؤں سے جدا رہتے ہیں یعنی کہ ان کے جسم بستر سے جدا رہتے ہیں۔ کم ہی لمحے ایسے ملتے ہیں کہ ان کا جسم اور بستر اکھٹا ہو سکے۔ ورنہ دور رہتے ہیں۔ اور اللہ کو ہر وقت پکارتے رہتے ہیں خوف اور اُمید کے ساتھ یعنی اُس کے ناراض ہونے کا خوف رکھتے ہیں، اور اُس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں. تو خوف و رجا کی ملی جلی کیفیت ان کے ایمان کی حالت ہے۔ یہ بھی ایک مقام ہے خوف و رجا کاورنہ قرآن مجید کے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ کے بندوں کے احوال کا ذکر ہے۔

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا. وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّهِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا.

(الفرقان، 25: 63-64)

’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں.اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔‘‘

یہ اللہ کے بندے ایسے ہیں جو زمین پر پھونک پھونک کر احتیاط سے قدم رکھتے ہیں۔ اور کوئی اُن سے زیادتی اور تلخی سے پیش آجائے تو پھر بھی اس کی سلامتی چاہتے ہیں۔ درگزر فرما لیتے ہیں. اور رات آجائے تو اکثر حصہ رات کا یا سارا حصہ اس کی بارگاہ میں سجود اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ اسی طرح ارشاد فرمایا گیا قرآن مجید میں

الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِهِمۡ.

(آل عمران، 3: 191)

یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں.

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِیۡهِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰهِ.

(النور، 24: 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے.‘‘

یہ کاروبار کریں یا تجارت کریں یا خرید و فروخت کریں جو کچھ بھی کریں دنیا کی مصروفیت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتی. ہر حال میں اللہ کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔ اللہ کی یاد میں مگن رہے ہیں۔

یَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ.

(الکھف، 18: 28)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں یہ مقام حاصل ہے کہ وہ صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں)۔

یہ ساری آیتیں

لَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَ لَا هُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

گویا یہ بات واضح ہو گئی کہ تصوف کا موضوع، آیات کریمہ کے مضامین پر مبنی ہے۔

تو تصوف میں طریقت کا سب سے پہلے مقام اور سب سے پہلا ادب اور سب سے پہلا قدم توبہ ہے۔

  • دوسرا مقام حُسن خلق
  • تیسرا مجاھدہ اور تقوی
  • چوتھا خوف و رجا

جو کچھ قرآن کے حوالے سے بیان کیا وہ سب کچھ مقامات طریقت ہے۔ اور صوفیاء نے اس کے سوا کچھ بیان نہیں کیا۔ اب کتنا ظلم ہے یہ کہنا کہ تصوف کو قرآن وسنت کے خلاف تصور کیا جائے۔ صوفیا نے دین اسلام سے ہٹ کر ہر گز کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔اود تصوف نے ہر گز قرآن اور سنت سے ہٹ کر کسی نئے مضمون کی تعلیم نہیں دی۔ بس قرآن میں سے جنہوں نے مسائل کو چنا۔اور طہارت کے مسائل کو چنا اور حلت و حرمت کے مسائل کو چنا اور مکروہ مستحب کے مسائل کو چنا اور امرونہی کے مسائل کو چنا اور جزا و سزا کے مسائل کو دنیاوی اعتبار سے چنا جب ان مسائل کو جمع کیا تو اس کا نام علما نے فقہ رکھ دیا۔

جنہوں نے قرآن سے توحید کے مسائل کو چنا۔ رسالت کے ثبوت کے مسائل کو چنا۔ جزا اور سزا کے مسائل کو چنا۔ حشر و نشر کے مسائل کو چنا۔ جنہوں نے وحی کے معاملات اور ماہیت اور نوعیت کو چنا۔ جب ان مسائل کو چن کر ایک مضمون کی صورت میں مرتب کیا گیا تو علماء نے اس کا نام عقائد رکھ دیا۔

اور جب لوگوں نے اللہ کی یاد کو، اس کے ذکر و فکر، کو اس پر توکل کو، توبہ کو، حسن خلق کو مجاھده و تقوی کو خوف و رجا کو، ترک شہوات کو، ترک شبہات کو اور الله کی بارگاہ میں تواضع و انکساری کو اور رضا کو الغرض ترک ماسواللہ جیسے ان مسائل کو جب جمع کیا اور ایک مضمون کی شکل دی تو اس کا نام تصوف رکھ دیا۔

اس کے سوا تصوف کوئی شے نہیں۔اگر تصوف دین کے خلاف کوئی نئی راہ ہے۔ عقید ہ بھی دین کے خلاف کوئی نئی شے ہے۔ فقہ بھی دین کے خلاف کوئی نئی شے ہے۔ تاریخ بھی دین کے خلاف نئی شے ہے۔ اصول ہر علم کا بھی دین کے خلاف کوئی نئی شے ہے۔ اور اگر ہر علم دین کے خلاف نئی راہ ہے تو پھر دین نام کی کوئی شے کائنات میں موجود ہی نہیں اور یہی تو دین اور قرآن و سنت ہے جس میں سے مختلف علوم و فنون کو چن کر ایک مضمون اور ایک فن کی شکل دی گئی ہے تو اس کو سمجھانے کے لیے اہل علم نے ایک نیا نام رکھا تو یہ نام جتنے ہیں سارے کے سارے قرآن سے لیے گئے ہیں سنت رسول سے لیے گئے ہیں۔

ان کے مضامین بھی وہیں سے لئے گئے۔ ان کے موضوعات بھی وہیں سے لئے گئے۔ ان کے اسانید بھی وہیں سے لئے گئے۔ ان کی تفاسیر بھی وہیں سے لی گئیں۔ ان کی جزیات بھی وہیں سے لی گئیں۔

الغرض تصوف طریقت، حقیقت اور معرفت کے اجزاء میں سے کوئی معمولی سے معمولی سا جز بھی ایسا نہیں جو کتاب اور سنت سے ماخود نہ ہو۔

  • چوتھا خوف اور رجا ہے۔
  • پانچواں ترک شہوات و خواہشات ہے۔
  • چھٹا شبہات سے پرہیز ہے۔
  • ساتواں تذر الی الله ( اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری ہے)
  • آٹھواں رضائے شیخ ہے۔
  • نواں سمائے موغوت ہے۔
  • دسواں ترک ماسوا اللہ ہے۔

یہ دس عنوانات ہیں، جن کو ہم مقامات طریقیت کا نام دیتے ہیں۔

صوفیاء کرام اس امر پر متفق ہیں کہ راہ حق میں چلنے والوں کا پہلا قدم توبہ ہے۔

یہ بات ذہن نشین فرمالیں۔ کوئی قدم اللہ کی راہ میں جس کو سلوک اور طریقت کا نام دیا جاتا ہے۔ بغیر توبہ کے ایک قدم بھی اس راہ میں نہیں اُٹھ سکتا گویا اللہ کی راہ میں اور سلوک اور تصوف میں سب سے پہلا مرحلہ، سب سے پہلا مرتبہ، سب سے پہلا مقام اور سب سے پہلا قدم توبہ ہے۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں۔ دل کا دنیا کی محبت طلب چاہت سے بے نیاز ہونا، پھر عبادت یا اللہ کی بندگی ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور بندگی کو بجا لانا۔ یہ تین تقاضے ہیں ایمان کے بعد اگر یہ پورے ہو گئے تو انسان راہ حق کا سالک ہو گیا اور بعض صوفیاء کرام نے یہ فرمایا کہ جس طرح طالبان عبادت کے لیے سب سے پہلی شرط طہارت ہے۔ جو شحض عبادت کرنا چاہے۔ پہلا درجہ سب سے پہلی شرط جسم کا پاک ہونا ہے۔ اس کے بعد پھر وضو کی طہارت تو عبادت جس طرح عبادت میں بغیر طہارت کے داخل نہیں ہو سکتا تو طالبان عبادت کے لیے جس طرح پہلا قدم طہارت ہے اسی طرح طالبان حق کے لیے پہلا قدم توبہ ہے۔

عبادت چاہنے والے طہارت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتے اور اللہ کو چاہنے والے توبہ کے بغیر ایک قدم آگے نہیں رکھ سکتے تو توبہ اللہ کی راہ کے لیے پہلا قدم ہے۔ اس لئے قرآن مجید نے بڑی لطیف بات کی اور سچ بات یہ ہے کہ صوفیاء کی صحبت میں بیٹھا جائے وہ صحبت خواہ ظاہری ہو اور خواہ روحانی ہو۔ اور خواہ وہ صحبت کتابی ہو اور خواہ وہ علمی ہو اور خواہ وه صحبت مجلسی صحبت ہو۔ یعنی صوفیاء کے اقوال اور ان کے فرمودات کو سمجھا جائے تو سچ بات ہے پھر قرآنی فرمودات کی روح کی بھی سمجھ آتی ہے اور پھر اہمیت سمجھ آتی ہے۔ اللہ پاک کا یہ فرمانا اس امر کی طرف اشارہ ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَهِرِیۡنَ.

(البقرة، 2: 222)

بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور قرآن پاک نے توبہ اور طہارت کو اکٹھا کیا ہے اور توبہ اور طہارت کو اکٹھا بیان کرنے میں چاہیے تو یہ تھا کہ طہارت کا ذکر پہلے آتا اور توبہ کا بعد میں اس لئے کہ طہارت کے بغیر عبادت نہیں ہوتی۔ طہارت کا ذکر رجوع الی اللہ پہلے آنا چاہیے تھا۔ لیکن حفظ مراتب کا خیال رکھا کہ توبہ چونکہ اللہ سے ملنے کی راہ ہے اور طہارت عبادت کی راہ ہے اور اللہ سے ملنا یہ عبادت کا مقصود ہے۔ یعنی وصال حق یہ مقصود عبادت۔

عبادت ذریعہ ہے اور اللہ کا وصال مقصود ہے اور مقصود کا درجہ ذریعہ سے بلند ہوتا ہے اس لیے وصال حق کا درجہ عبادت حق سے بلند ہوا۔تو چونکہ طہارت عبادت کا قدم ہے۔ یعنی ذریعے کا قدم ہے۔اس لیے اس کا ذکر بعد میں کیا۔اور توبہ وصال حق تک کے لیے پہلا قدم ہے۔ تو اس لیے اس کا ذکر پہلے کیا۔۔ تو توبہ کا درجہ چونکہ طہارت سے بلند تھا۔ اس لیے توابین کا ذکر پہلے فرمایا۔اور متطہرین کا ذکر بعد میں کیا۔ یہ حفظ مراتب کے لیے ہے۔ لیکن توبہ اور طہارت کو یکجا کیا۔ اور پھر اس میں یہ بھی ہے کہ طہارت جسم کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے اور توبہ روح کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ طہارت سے جسم پاک ہوتا ہے۔ آلائشوں سے جسم پاک ہوتا ہے۔ اور توبہ سے روح آلائشوں سے پاک ہوتی ہے۔ اور صاف ظاہر ہے کہ جسم کا پاک ہونا بھی بڑی شے ہے لیکن روح کا آلائشوں سے پاک ہونا جسم کی طہارت سے کہیں بلند ہے۔ اس لیے توبہ کو مقدم ٹھرایا اور طہارت کو موخر کیا۔عرض کر رہا تھا کہ اللہ کی راہ میں چلنے والوں کے لیے پہلا قدم توبہ ہے۔ اور توبہ کا معنی رجوع الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کی طرف راغب اور متوجہ ہونا۔ اس کو توبہ کہتے ہیں۔ اللہ کی طرف راغب ہونا۔ راغب اور متوجہ ہونا اس کو توبہ کہتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو تائب نہیں وہ اللہ کی طرف متوجہ نہیں اور اللہ سے بے رغبت ہے ؟ اور اگر الله کی طرف اگر دل راغب ہو جائے تو روح متوجہ ہو جائے تو ایسے عمل کو توبہ کہتے ہیں۔ تو جب تک روح اللہ کی طرف راغب نہیں تھی اور دل کا منہ اللہ کی طرف نہ تھا۔ تب تک بندہ تائب نہ تھا۔ اور جب اس نے توبہ کرلی یعنی توبہ سے مراد دل کا چہرہ اللہ کی طرف کر لیا۔ جسم کا چہرہ تو ہر وقت اللہ اور اُس کے گھر کی طرف ہوتا ہی ہے۔ لیکن اس جسم کے چہرے کو ادھر کرنے سے توبہ نہیں ہوتی۔ہم نماز پڑھتے ہیں عبادات کرتے ہیں اور چہرہ کعبے کی طرف ہوتا ہے۔ چہرہ کعبے کی طرف رہے اس کو توبہ نہیں کہتے اور اگر دل رب کعبہ طرف ہو جائے تو اس کو توبہ کہتے ہیں۔

توبہ روح ہے اور عبادت ظاہر ہے۔ عبادت جسم ہے اور توبہ اس کی روح ہے اس لیے کہ جو عبادت کا فرض ہے۔ شریعت کی رو سے وہ چہرہ کا اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے بھی پورا ہو جاتا ہے۔ بے شک دل اور روح کا ملا اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو سکی لیکن پھر بھی اللہ فرض کے درجے میں اُس نماز اور عبادت کو قبول فرما لیتا ہے۔ گو اہل کمال کے لیے وہ ناقص رہتی ہے۔ لیکن عبادت کے درجے میں اُسے بطور فرض قبول فرما لیتا ہے۔

قرآن مجید اور سنت نبوی کا مطالعہ کریں۔ تو اُس سے یہ پتا چلتا ہے کہ توبہ اسلام نے ندامت کو قرار دیا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ان ندموا توبہ کہ نادم اور شرمندہ ہو جانا اسی کا نام توبہ ہے۔ یعنی دل اور روح اللہ کی طرف کس طرح متوجہ ہو گی اگر بندہ نادم ہو جائے۔بندہ شرمندہ ہو جائے اپنی غلطیوں پر خطاکاریوں پر اور برے کیے پر نادم اور شرمندہ ہو جائے۔تو اس کا نادم ہونا ہی توبہ ہے۔ اور اللہ پاک کا کتنا کرم ہے اپنے بندوں پر کہ وہ گناہ کو ظلم کہتا ہے۔ وہ گناہ کو ظلم کہتا ہے لیکن محض گنہگار کو ظالم نہیں کہتا۔ اس کی رحمتوں کی کس کس شان کا تذکرہ کیا جائے اور اس کی بخششوں کے کس کس حال کو بیان کیا جائے۔وہ گناہ کو ظلم کہتا ہے لیکن گنہگار کو ظالم نہیں کہتا اس لیے کہ گناہ گار تائب ہو سکتا ہے۔ گناہ گار کو وہ گناہ گار اس وقت کہتے ہے کہ جب وہ توبہ سے انکار کر دیتا ہے۔

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور علیہ الصلاة والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے فرمایا اگر ساری کی ساری زمین پر رہنے والے بندے نیک ہو جائیں اور ان میں کوئی بھی گناہ کرنے والا باقی نہ رہے اور سب سجدہ گزار ہو جائیں اور عبادت گزار ہو جائیں اور زمین کے اطراف و اکناف اور کسی بھی گوشے میں کوئی شخص ایسا نہ رہے جو گناہ کر رہا ہو تو میں ساری کی ساری مخلوق کو ختم کر دوں۔ اور اس کی جگہ ایک ایسی مخلوق کو لے آؤں جو گناہ کرے اور پھر نادم ہو کر مجھ سے معافی مانگ لے جو گناہ کرے اور پھر شرمندہ ہو کر مجھ سے معافی مانگے۔ اس لیے کہ اُس عزت والے رب کی عزت کی قسم اُس کی رحمت اور بخشش کو اتنا مزہ عبادت گزاروں کی عبادت پر نہیں آتا جتنا مزہ گناہ گاروں کی توبہ پر آتا ہے۔

اس لیے کہ عبادت گزار جب عبادت کرتے ہیں تو اُس عبادت کے نتیجے میں شیطان اگر اپنا دخل کرے حملہ کر لے تو اس عبادت کے نتیجے میں اُس کے اندر کبر پیدا ہو سکتا ہے۔ عبادت گزار الله اسے محفوظ رکھے۔ وہ تکبر کی راہ پر جا سکتا ہے۔ اُس کے اندر کبر آسکتا ہے اپنی عبادت کا گھمنڈ آسکتا ہے۔اپنی کثرت طاعت کا خیال آسکتا ہے اور جونہی اپنی کثرت طاعت کا خیال اس کے میں دل میں آیا۔ عبادت کا گھمنڈ آیا تو اُس کی عبادت بھی گئی اُس کی طاعت بھی گئی۔ تو عبادت کے رائیگاں جانے سے اللہ پاک محفوظ رکھے۔ لیکن اُس کے رائیگاں جانے کا مسبب کبر امکان ہے۔

جو شرمسار ہے گناہ پر جو نادم ہے گناہ پر اُس کے پاس تو سوائے عاجزی کے تواضع کے سوائے رونے کے سوائے اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کے سوائے ندامت کے آنسو گرانے کے معافی مانگنے کے ڈرنے کے کوئی شے نہیں۔ وہ تو پہلے ہی گناہ پر ڈر رہا ہے۔ وہ تو پہلے ہی نادم و شرمندہ ہے اُس کے من پر تو پہلے ہی رقت طاری ہے۔ وہ تو پہلے ہی رو رہا ہے کہ باری تعالیٰ میں نے گناہ کیا تو مجھے معاف کر دے۔

فرمایا کہ میں پھر اس ساری کی ساری نیکو کار مخلوق کی جگہ ایسے گناہ گار لے آؤں جو کبھی گناہ کریں اور پھر گناہ پر نادم ہو کر مجھ سے معافی مانگ لے اس لیے کہ سارے اگر نیکیاں کرنے والے ہوں تو پھر ہر کوئی اُس سے اجر مانگے گا۔ گناہوں کی معافی کون مانگے گا تو وہ تو معاف بھی کرنا چاہتا ہے وہ غفور رحیم بھی ہے۔ رحم تو کرتا بھی ہے لیکن جو رحم مغفرت کی صورت میں ہے اس کی شان ہی کچھ اور ہے۔ اس لیے اللہ پاک کو یہ پسند ہے کہ گناہ کو ظلم کہا جائے لیکن گناہ گار کو ظالم نہیں کہتا۔ اب دیکھئے کہ قرآن گواہ ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا کہ اس لئے ظالم نہیں کہتا کہ گناہ گار کے تائب ہوئے کا امکان موجود ہے۔ گناہ گار کے توبہ کر لینے کا امکان موجود ہے۔

اور اس کو ظالم کیوں کہا جائے کہ جس نے اگر ایک لمحے میں ندامت کے ساتھ آنسو گرا کے معافی مانگ لی تو وہ اتنا پاک ہو گیا جس طرح ماں کے پیٹ سے اب پید ہوا۔ التَّابُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَا لا ذنبلہ۔ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے۔ حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ توبہ کرنے والا گناہ گار ایسے ہے کہ جس طرح اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ تو جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اُسے رب کی رحمت ظالم نہیں کہتی۔ لیکن گناہ کو ظلم کہتی ہے۔ کتنا فرق ہے۔ ارشاد فرمایا گیا۔

وَ لَوۡ اَنَّهُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡکَ.

(النساء، 4: 64)

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے‘‘

میرے محبوب، اگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو تیری بارگاہ میں آجائیں۔ حتی کہ شرک کو بھی ظلم کہا۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہر گناہ کو ظلم کہا اور شرک کوبھی ظلم عظیم کہا اور گناہ کرنے والوں کو یہ بھی کہا:

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰهِ.

(الزمر، 39: 53)

’’آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘

میرے محبوب تو ان سے فرما دے کہ میرے بندو وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہو تو گناہ کرنے کو کیا کہا

الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِهِمۡ

جو جانوں پر ظلم کر بیٹھیں زیادتی کر بیٹھیں۔ قرآن پاک نے کیا عجب بیان کیا ہے اس مضمون کو کہ وہ بندو جو ظلم کر بیٹھے ہو جانوں پر ظلم تو کر چکے ہو لیکن ہماری نظر میں ظالم پھر بھی نہیں۔ چونکہ لا تقْنَطُوا مِنْ رَحمت اللہ تمہیں یہ مزده جان فزا سنایا ہے کہ ظلم کر کے بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔

اِنَّ اللّٰهَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ

(الزمر، 39: 53)

’’بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے‘‘

اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو سارے کے سارے گناہ معاف کر دینے والا ہے۔ اس کی بارگاہ میں وہ گناہوں کے معاف کرنے پر آجائے تو کوئی کمی نہیں۔ وہ سارے کے سارے گناہ بے حساب و بے کتاب کیوں نہ ہوں۔ وہ تو اتنا رحیم و کریم ہے وہ سارے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ جب وہ سارے گناہ معاف کرتا ہے تو اُس کی رحمت سے مایوس کیوں ہو۔ اب یہاں دیکھئے گناہ کے ساتھ گناہ کو جانوں پر ظلم قرار دیا۔ لیکن رحمت سے مایوس نہ کیا۔ جن کو الله ظالم قرار دے دے اُن کے بارے میں حکم ہے کہ اللہ ان کو ہدایت نہیں کر دیتا۔

وَ اللّٰهُ لَایَهۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ.

(آل عمران، 3: 86)

’’اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘

یعنی ظالموں کو رحمت سے دور کر دیا۔ جو ظالم ہوگئے ان کا اللہ کی رحمت میں کوئی حصہ نہیں۔ ظالموں کے لیے ہدایت میں کوئی حصّہ نہیں۔ تو ظالموں کو دور کیا جا رہا ہے۔ جو ظالم ہیں۔ وہ ہدایت سے محروم ہیں۔ ہدایت اللہ کی رحمت ہے۔جو ہدایت سے محروم ہوئے اس کا مطلب ہے کہ جو ظالم ہیں وہ رحمت سے محروم ہیں۔ اور ادھر گنہگار کو کہا کہ تو نے ظلم تو کیا لیکن تجھے میں ظالم نہیں کہتا کہ رحمت تیرے پھر بھی قریب ہے۔ رحمت پھر بھی قریب ہے۔ اور گنہگار ظالم کب بنتا ہے۔محض گنہگار ہو کر ظالم نہیں بنتا۔ چونکہ رحمت کی خوشخبری قائم ہے۔ وہ ظالم اُس وقت بنتا ہے جب قرآن نے کہا۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ.

(الحجرات، 49: 11)

’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

جو گناہ کرتا ہے اور رب کی رحمت دیکھتی رہتی ہے کہ اب نادم ہو جائے گا۔اب شرمندہ ہو جائے گا۔ اب معافی مانگ لے گا۔ اب توبہ کرلے گا۔ رب کی رحمت دیکھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ توبہ کا زمانہ گزر جاتا ہے۔ ومَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ اور گناہ کرتا چلا جاتا ہے ظلم کرتا چلا جاتا ہے اور توبہ کا زمانہ گزر جاتا ہے۔ جب وہ توبہ نہیں کرتا تو پھر وہ تائب ہو جاتا ہے۔

مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ.

ظالم وہ ہے جو توبہ نہیں کرتا۔

قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ظالم وہ ہے جو گناہ کرتا ہے۔ کتنا فرق ہے دو باتوں میں۔ یہ اُس کی رحمت کے فیصلے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ پھر بھی ظلم پر ظلم کیئے جا رہے ہیں۔ اُس کی رحمت کے بیان کو سنیے۔ فرمایا کہ ظالم وہ نہیں جو گناہ کرتا ہے باوجود اس کے کہ گناہ ظلم ہے۔ لیکن ظالم وہ نہیں جو گناہ کرتا ہے۔ ظالم وہ ہے جو توبہ نہیں کرتا۔ تو قرآن مجید نے گناہ کے لیے مغفرت بیان کی۔ لیکن جو توبہ سے بھی گزر جائے نہ کرے۔ اُس کو ظالم کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ توبہ ایسی شئے ہے جو گناہوں کے انبار کو بھی میٹا دیتی ہے۔ گناہوں کے ڈھیروں کے ڈھیر بھی مٹا دیتی ہے۔