سمیہ اسلام

مطالعہ روح کی غذا ہے، جیسے جسم کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح روح کو سیر کرنے کے لیے، اس کے علاج کا مفید مطالعہ اہم کردار ادا کرتا ہے،جن انبیائے کرام پر کتابیں نازل ہوئیں ان کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پیغام الٰہی کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے طریقہ کار بھی سکھایا گیا اور جن انبیائے پر کتابیں نازل نہیں ہوئیں انھیں اپنے پیش رو انبیائے اکرام کی کتابوں کے فہم و ابلاغ کا حکم دیا گیا۔

خاتم الانبیا حضرت محمد ﷺ کی دُعا قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔ رَب زدنی علما (اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما) یہ دعا ہمیں اس فکر و تدبر کی طرف بلاتی ہے کہ اگر آپ ﷺ نے علم کے اضافے کی دعا فرمائی ہے تو ہمیں بھی اس اضافہ کے لیے کچھ کرنا پڑے گا، جس کے لیے مطالعہ اور جنھیں علم پر دسترس ہے۔ ان کی صحبت اختیار کرنی پڑے گی۔ قرآن حکیم کی یہ آیت و یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ (وہ انھیں کتاب کا علم سکھائے) واضح کرتی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے بغیر کتاب کو نہیں سمجھ پائے. حالانکہ وہ عربی دان تھے۔

اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن علوم کا مطالعہ کیا جائے؟ جس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو ہم درسی کتب کا مطالعہ کریں، پھر جو ہمارا ذوق ہے، اس کے مطابق مفید علوم پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ہم قرآن مجید اور سیرت رسول ﷺ کے مطالعے کو اپنی عادت بنائیں، آپ ﷺ اور آپ کی جماعت کے اُسوہ کو آج کے دور میں راہ نمائی کا ذریعہ سمجھ کر قوم کی ترقی کا سبب بنیں۔ پھر اس کے علاوہ جو بھی مطالعہ کریں اس میں مثبت سوچ کو اپنائیں، تاکہ ہمارے ذہن میں وُسعت نظری پیدا ہو،قوت برداشت اور گفتگو میں شائستگی آئے۔ قوموں پر آنے والے عروج و زوال کے اسباب اور وجوہات تلاش ہوسکیں اور ہم دلیل کے ساتھ گفتگو کرنے کے قابل ہوسکیں۔

علم ایک گوہر نایاب ہے جس کے حصول سے ایک انسان کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتا ہے۔ تحصیل علم کے لیے مختلف ذرائع و اسباب ہیں جیسے سماعت بصارت و قرات۔ قرات کے مختلف انواع ہیں۔ انھی انواع میں سے ایک نوع مطالعہ ہے۔جسے کتب بینی بھی کہتے ہیں۔

مطالعہ کے لیے چنی جانے والی کتابوں کا معیار

مطالعہ کے لیے چنی جانے والی کتابوں کا معیار ایسا ہو کہ:

1۔ جس سے ہماری تربیت ہو۔

2۔ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکیں۔

3۔ نظام ظلم کا شعور آئے۔

4۔ اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت سمجھ سکیں۔

5۔ قومی آزادی اور ترقی کا ذہن بنے۔

6۔ ایسی کتب جن سے ہم اولیاء اللہ اور علمائے ربانیین کی جدوجہد اور مساعی سے آشنا ہو سکیں۔

7۔ دین اسلام کے غلبے کی تاریخ اور اس مخلص قیادت سے واقفیت ہوسکے، جنھوں نے قوم کی آزادی اور ترقی کے لیے کردار ادا کیا۔صراط مستقیم کے مطابق راہ نمائی کی اور عملی جدو جہد سے اپنے سچا ہونے کو ثابت کیا۔

مطالعہ سے پہلے ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہم اس سے کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیشہ یاد رکھیں پہلے موضوع کا انتحاب کریں، اس پر محققین کی کتابوں کی فہرست بنائیں اور پھر ان کا مطالعہ کریں۔

ایک طالب علم کو انھی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جو اس کی مثبت ذہن سازی کرسکیں۔ جذباتیت کو مثبت سمت دے سکیں، تاکہ نوجوان معاشرے میں مفید کردار ادا کر سکیں۔ آج ہمارا ملک مصائب سے دوچار ہے، جن سے نجات کے لیے راہ نمائی کا کوئی سازگار ماحول میسر نہیں۔

افسوس! اس بات کا ہے کہ یہاں علما اور مشائخ بھی موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ آج نوجوان کا مسئلہ سائنسی ذہنیت کا ہے جو بغیر دلیل و ثبوت کے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ آج نوجوانوں کی اس پہلو سے درست راہ نمائی کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ان جماعتوں کا حصہ نہ بنیں جو اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر کے ضائع کر دیں۔

ایسا علم جو کسی کو فائدہ نہ دے سکے، اس علم سے آپﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ ایسا علم شیطانی وسوسوں کا باعث بنتا ہے اور حق کی پہچان میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ آج مایوسی کی بڑی وَجہ یہی ہے کہ ہمیں حق کے راستہ کی پہچان کا طریقہ کار معلوم نہیں۔

ہم ایک ایسے دور کا حصہ ہیں، جہاں ہم بدلتے حالات کو اپنے اردگرد میں دیکھ رہے ہیں، لیکن ہماری بے بسی کا یہ حال ہے کہ ہم وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنے میں اہم پہلوؤں سے نظریں دور کیے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور کا تقاضا جدید لوازمات زندگی ہیں، لیکن علم کی طلب کے تناظر میں ہمارا تعلق تو کتابوں کے ساتھ تھا، جو اَب ناپید ہورہا ہے۔ان کی جگہ آج سمارٹ فون نے لے لی ہے، جس میں ایک بے ہنگم ٹریفک کی طرح معلومات کا انبار ہمارے ذہنوں میں ڈالا جا رہا ہے، جس کا ہمیں صحبت صالح اور درست نظریہ نہ ہونے کے سبب سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ اور پھر کتاب تو ہمیں ایک حوالہ مہیا کرتی ہے جو ہم اپنی گفتگو میں کسی کے سامنے رکھ سکتے ہیں، جب کہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کسی وقت بھی ڈیلیٹ یا تبدیل کی جاسکتی ہیں۔

اچھی کتابوں کا مطالعہ نہ صرف انسان کے ذہن و شعور کو جلا بخشتا ہے بلکہ انسان کو مہذب بھی بناتا ہے۔ بہترین کتب انسانی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے الغرض کتاب ہی انسان کی بہترین مونس اور رفیق ہے

بقول اقبال

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

مطالعہ کے لیے ہمارے پاس درسی کتب ہوتی ہیں جو دورانِ تعلیم طالب علم اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور انھیں یادداشت کا حصہ بنا کر امتحان میں اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں۔غیرتدریسی قسم کی کتب کا مطالعہ ہم عقل میں وُسعت پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اپنے شوق سے کتابوں کا چناؤ کرتے ہیں۔ان کتابوں میں کچھ لوگ افسانوں کو پسند کرتے ہیں،کچھ تاریخ کو مطمع نظر بناتے ہیں اور کچھ کو شعر و شاعری میں شغف ہوتا ہے۔دینی شغف والے لوگ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کی سیرت اور دین پر مبنی کتب پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ جدید علوم کے ماہر بنتے ہیں اور دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو کتابوں اور ریسرچ پیپرز میں لکھنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب لائبریریاں کتب اور انھیں پڑھنے والوں سے بھری ہوتی تھیں،لوگ تدریسی اور غیرتدریسی کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ ہمارا یہ کلچر تھا کہ ہم ایک دوسرے کو تحفہ میں کتاب پیش کرتے تھے۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا تھا، جس میں کتابوں کی الماری نہ ہو، لیکن وقت نے ایسی کایا پلٹی کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام نے ہماری ذہنیت کو پست کردیا۔ جدید آلات نے کتابوں کی جگہ قبضہ جما لیا اور ہمیں کتاب سے دور کر کے ذہنی غلامی کا شکار کر دیا۔

اچھی کتابوں کا مطالعہ نہ صرف انسان کے ذہن و شعور کو جلا بخشتا ہے بلکہ انسان کو مہذب بھی بناتا ہے۔ بہترین کتب انسانی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے الغرض کتاب ہی انسان کی بہترین مونس اور رفیق ہے۔

ایسا علم جو کسی کو فائدہ نہ دے سکے، اس علم سے آپﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ ایسا علم شیطانی وسوسوں کا باعث بنتا ہے اور حق کی پہچان میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ آج مایوسی کی بڑی وَجہ یہی ہے کہ ہمیں حق کے راستہ کی پہچان کا طریقہ کار معلوم نہیں

زمانہ عباسی کے مشہور شاعر متنبی کا شعر بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے:

أَعَزُّ مَکَانٍ فی الدُّنَی سَرْجُ سَابِحٍ

وَخَیْرُ جَلِیْسٍ فی الزَّمانِ کِتابُ

’’ایک مسافر کے لیے دنیا کا بہترین مقام گھوڑے کی پشت ہے اور زمانہ میں بہترین ہمنشین کتاب ہے۔ ‘‘

اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ ۔ ۔ ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔کتب کے مطالعہ سے انسان کے اندر دلیل کے ساتھ بات کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔آج ہم سنی سنائی باتوں کی بجائے مطالعہ کے ذریعے اپنے اندر تحقیق کا رجحان پیدا کریں تو بہت سے مسائل اور جھگڑوں سے چھٹکا را حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیا میں عزت اور عروج حاصل کرنا چاہتی ہے توہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاعِ گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کی فکر کریں کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیر کامیابی کی بلندی تک پہنچنا نہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے۔

مطالعہ وہی بہتر ہے، جس سے آپ کی اصلاح ہو اور اپنے تعلق والوں کی راہ نمائی کر سکیں۔مطالعہ کا حاصل پہلے درجے میں آپ کی اپنی شخصیت کا نکھار ہے۔ آپ کے اخلاق میں ترقی آپ کے کردار سے ظاہر ہو۔آج بھی ایک علمی طبقہ اپنے علم کی وَجہ سے خود کو بہترین تصور کرتا ہے اور اسی علم کی بنیاد پر دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ ایسی تکبر کی سوچ کو اللہ تعالیٰ سخت نا پسند کرتا ہے۔ علم کا اصل منبع تو اللہ پاک کی ذات ہے۔ ہم اس کے علم سے کچھ حصہ سیکھ جائیں تو انسانیت کو اس سے فائدہ پہنچنا چاہیے تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں علمی تکبر سے بچائے اور غیر نافع علم سے دور رکھے۔ آمین!