منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کی انفرادیت و اہمیت

سدرہ کرامت علی

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔

(ابن منظور، لسان العرب، 9: 255)

اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر الله کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔

اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘

(ابن ماجہ، السنن، (کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2: 376، رقم: 1781)

2۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ الله عزوجل، جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَـلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ اَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.

(طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 221، رقم: 7326)، (بيهقی، شعب الايمان، 3: 425، رقم: 3965)، (هيثمی، مجمع الزوائد، 8: 192)

’’جو شخص الله کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، الله تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘

اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت

ناموَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال: لا يجوز للمعتکف إلا الصلاة والقراءة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها اجاز له غير ذلک.

(ابن رشد، بداية المجتهد، 1: 312)

’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قرأتِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘

عصرِحاضر اور مقاصدِ اعتکاف

اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیں ہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.

ابو داود، السنن، باب فضل العلمأوالحث علی طلب العلم، 1: 81، رقم: 222

’’ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘

دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔

قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشأہے نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔

ہماری اجتماعی صورتِ حال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ. وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.

(مالک، الموطا، 2: 991، رقم: 23)

’’بے شک الله تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’الله عزوجل نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میں تیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:

اَقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَغَيَّر فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.

(بيهقي، شعب الايمان)، (طبراني، المعجم الاوسط)

’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘

اس حدیث مباکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دلچسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام منعقدہ اعتکاف

تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ کر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے درِ قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہارگانہ فرائض نبوت - تلاوتِ قرآن؛ تزکیہ نفوس؛ تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن رسا میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا عملی اظہار تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں بھی ہوتا رہا۔ اعتکاف تو وہ ہر سال ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی گوشہ نشیں ہوئے۔ اِس سے ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب بغداد ٹاؤن میں موجود جامع المنہاج باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 5000 سے زائد تھی۔ لیکن آج بفضلہ تعالی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں ہر سال معتکف ہونے والے فرزندانِ اِسلام کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اِس میں مرد و زَن ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔

معمولاتِ اِعتکاف کے مطابق اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہائے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں؛ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔

اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات

اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات درج ذیل ہیں:

1۔ اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، اوراد و وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، الله اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔

2۔ علماء، اولیاء، صوفیأاور ائمہ دین کی سنگت و زیارت، ان سے مسلسل فیوض و برکات کا حصول، قرآن و سنت اور فقہ (قانون) کی بیش بہا معلومات اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔

3۔ اجتماعی اعتکاف میں اوراد و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔

4۔ اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہوتا ہے۔

خواتین کا اجتماعی اعتکاف بیٹھنا

اگر ان کے لیے با پردہ اور باحفاظت انتظام ہو اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تصفیہ کا اہتمام ہو تو خواتین اجتماعی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ بعض بڑی مساجد اور مراکز پر الحمد ﷲ ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین الگ الگ باپردہ باحفاظت اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ شب و روز کے معمولات کے لئے ایک نظام الاوقات مہیا کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور تربیت و تزکیہ کا یہ انتظام و اہتمام ہر مسجد میں نہیں ہو سکتا۔

علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ عورت کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

ان إعتکافها فی مسجد الجماعة جائز.

’’بے شک عورت کا جماعت والی مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔‘‘

علامہ کاسانی کی بدائع الصنائع کے حوالہ سے آپ مزید لکھتے ہیں:

ان اعتکافها فی مسجد الجماعة صحيح بلا خلاف بين اصحابنا.

(ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 324)

’’عورت کا مسجدِ جماعت میں اعتکاف بیٹھنا درست ہے۔ اس میں ہمارے ائمہ احناف کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

علامہ ابن عابدین شامی رد المحتار میں عورت کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں ساتھ ہی بدائع الصنائع کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

صرح فی البدائع بأنه خلاف الأفضل.

(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2: 441)

’’البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے۔‘‘

مراد یہ ہے کہ مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے۔

وضاحت

ہر مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ نہ باپردہ الگ تھلگ با عزت طور پر ان کے لئے محفوظ جائے اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہی چیزیں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف پر ممانعت کا شرعی جواز مہیا کرتی ہیں۔ مگر جس مسجد میں وسعت ہو، مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ باپردہ محفوظ جائے اعتکاف ہو، تمام حاضرین کو ایک معقول و مفید نظام الاوقات کی پابندی سے تعلیم و تربیت، تزکیہ و طہارت اور فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل پر بھی عامل بنایا جائے، درود و سلام، ذکر و اذکار، وعظ و نصیحت اور وظائف پڑھنے کی پابندی لگائی جائے تو وہاں اعتکاف بیٹھنے کا فائدہ اور اجر و ثواب انفرادی اعتکاف سے بھی بڑھ جاتا ہے۔

لیلۃ القدر

اعتکاف کی حیثیت اور مقصد کے مطالعہ کے بعد اب آیئے اسی اعتکاف کے دوران اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ملنے والے خاص انعام لیلۃ القدر پر بات کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اعتکاف کا ایک مقصد اس باعظمت رات کی تلاش بھی ہے۔

لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ یہ رات بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل ہے جسے قرآن کریم نے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ جمہور علمأامت کا مؤقف یہ ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے خاص انعام ہے جو اس سے قبل کسی اور امت کو عطا نہیں کی گئی۔ حدیثِ مبارکہ سے بھی اس موقف کی تائیدہوتی ہے۔

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَهَبَ لِأُمَّتِيْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَلَمْ يُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.

(ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 173، رقم: 647)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی اور تم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفراز نہیں کیا۔‘‘

کیونکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ہے، لہٰذا اِسے رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔

الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میں پوری سورت نازل فرمائی۔ ارشاد ہوتا ہے:

’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے‘‘۔

(القدر، 97: 1-5)

لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2: 709، رقم: 1910)

’’جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘

مندرجہ بالا ارشاد نبوی میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدہ مغفرت بن کر آتی ہے لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے۔

  • حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔‘‘

(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جأفی فضل شهر رمضان، 2: 309، رقم: 1644)

ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں!

  • حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔‘‘

(بيهقی، شعب الإيمان، 3: 343، رقم: 3717)

  • حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’وہ (لیلۃ القدر) رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور طلبِ ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

(احمد بن حنبل، المسند، 5: 319، رقم: 22713)

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ہونے والا اجتماعی اعتکاف اسی کی ایک مثال ہے۔ جہاں خواتین دور دراز علاقوں سے آکر اعتکاف کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔ وہ اپنے خاوندوں یا محرموں کے ہمراہ مرکزی اعتکاف گاہ میں آجاتی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کے لئے مسجد سے متصل وسیع و عریض رقبہ پر الگ الگ قیام و طعام اور رہائش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ خواتین سے متعلق اندرونی (indoor) معاملات کے اِنتظام و انصرام کے لئے سینکڑوں نوجوان طالبات اور ویمن لیگ کی ممبرز جبکہ بیرونی (outdoor) حفاظت کے لئے مسلح گارڈز چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ آنے والی خواتین کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ان کی صحت و صفائی، قیام و طعام اور بصورت بیماری و حادثہ طبی ماہرین کی ٹیمیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔ دروسِ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف کے حلقہ جات اور دیگر تعلیمی و تربیتی پروگرام باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہر جگہ نہ میسر ہے اور نہ ممکن ہے، جبکہ اِن امور کی ضرورت و اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔