فکرِ اقبالؒ اور تصورِ پاکستان

ڈاکٹر انیلہ مبشر

حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنھوں نے اسلامیانِ ہند میں جداگانہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور ان کی منزلِ مراد کو متعین کیا۔ شاہ ولی اللہؒ کے بعد برصغیر پاک وہند میں اقبال وہ شخصیت ہیں جنھوں نے تہذیبی سطح پر وہ شعور دیا جو قوموں کی زندگی، بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ تیرھویں صدی میں جو کام مولانا روم نے اپنی مثنوی کے ذریعے انجام دیا۔ آپ نے اسے بیسویں صدی میں اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے آگے بڑھایا۔ آپ کا فکری انقلاب تصور پاکستان کی تشکیل پر منتج ہوا۔ اقبال پاکستان کے فکری بانی ہیں تو قائداعظم محمد علی جناحؒ اس فکر اور تصور کے عملی معمار ہیں۔ تحریک پاکستان کے کٹھن اور پُرآشوب دور میں ان دونوں عظیم شخصیات نے عملی، نظریاتی اور فکری ہم آہنگی کے ذریعے شکست خوردہ قوم میں ایک نیا جذبہ و جنون بیدارکیا اور ملتِ اسلامیہ کو منزلِ مقصود تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال جو علامہ محمد اقبال کے فرزندِ محترم ہیں آپ کی جدوجہدِ حیات کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں کہ آپ کی شخصیت کا سب سے مشہور پہلو شاعری ہے۔ آپ کی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو ادبی وفکری نثر ہے جس میں آپ کی تحریریں مثلاً ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘، ’’اسلام اور قومیت‘‘ اور ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید‘‘ شامل ہیں۔ تیسرا پہلو اقبال کی عملی سیاست ہے۔ آپ نے اس حیثیت سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پنجاب کی سیاست میں حصہ لیا۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ مسلم لیگ ایک عام آدمی کی جماعت بنے۔ چوتھا پہلو نظریاتی طور پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور تھا جس کی تفصیل خطبہ الہ آباد میں موجود ہے۔

مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد 1930ء میں علامہ محمد اقبال نے ایک تاریخ ساز خطبہ صدارت دیا۔ اس فاضلانہ خطبہ میں مسلمانانِ برصغیر کی منزلِ مقصود کی رہنمائی فرمائی، دین و سیاست اور اسلامی تہذیب و تمدن پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر بحث کی اور ان کا حل تجویز کیا۔ آپ نے تصورِ پاکستان کے علاقائی حصے کا تذکرہ کرنے سے پہلے اس سے منسلک فکری اور نظریاتی پہلوؤں کا مدلل جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا:

’’اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہنِ انسانی کو وطن اور نسل کی قید سے آزاد کرسکتی ہے۔ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے ور مجھے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

آپ نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کا تصور ترک کرکے اسلامی قومیت کو اپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ آپ نے صدارتی خطبے میں اسلام کے عظیم احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی دولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منتشر افراد متحد ہوکر ایک معین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہوتا ہے۔‘‘

علامہ محمد اقبال کے نزدیک قومیت کے جدید تصور نے بین الاقوامی سطح پر قوموں میں ایسی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں کہ پوری دنیا سیاسی سازشوں اور باہمی نفرتوں کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ آپ نے اپنی تحریر ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں قومیت کے اسلامی تصور کی وضاحت کی ہے کہ اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ مسلم قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے، نہ اشتراک وطن اور نہ اشتراک اغراض اقتصادی بلکہ تمام مسلمان اُس برادری کا حصہ ہیں جو جناب رسالتمآب ﷺ  نے قائم فرمائی۔ اس طرح ایک ایسا اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں اسلامی تمدن کی یک رنگی اور یکسانیت قومی آرزوؤں کی تکمیل کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ آپ ہندوستان کے مخصوص سیاسی و معروضی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہماری قوم کا شیرازہ اسی وقت بندھا رہ سکتا ہے جب تک کہ ہم مذہبِ اسلام اور تہذیبِ کے ساتھ منسلک ہیں۔‘‘

علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کے وہ عظیم مسلم مفکر ہیں جنھوں نے اسلامی فکر و فلسفہ کی تشکیل نو کی کوشش میں فاضلانہ خطبات دیے۔ آپ دورِ جدید میں مسلم تہذیب کا احیاء اور اس کی تقدیر کو ایک آزاد اور الگ مسلم ریاست کے قیام سے منسلک فرماتے ہیں۔ جہاں نبی پاک ﷺ  انسانِ کامل اور مرکز ملت کی حیثیت رکھتے ہوں تو قرآن پاک کتابِ زندہ اور مشور حیات قرار پائے۔ مگر اسلامی قوانین و احکامات کو نافذ العمل بنانے کے لیے ایک مسلم اکثریتی خطہ ارض کی ضرورت تھی جہاں شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ ممکن ہوسکے۔ چنانچہ آپ نے خطبہ الہ آباد میں فرمایا۔

’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام ایک مذہب اور ایک روایت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں۔‘‘

اسی پس منظر میں علامہ محمد اقبالؒ کا استدلال تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا مقدر ایک اسلامی ریاست میں مضمر ہے۔

’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملادیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خود اختیاری حاصل کرلے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔‘‘

آپ کے خطبہ نے چودھری رحمت علی جیسے نوجوانوں میں ایک نیا عزم پیدا کیا اور انھوں نے 1933ء میں برصغیر میں آزاد اسلامی ریاست کے لیے ’’پاکستان‘‘ کا نام تجویز کیا۔ ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم فکری قائد نے مسلمانوں کے لیے جس منزل کا تعین کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سیاسی تدبر اور دور اندیشی کی بدولت 23 مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں ایک قرار داد کے ذریعے آزاد مسلم مملکت کے قیام کو مسلمانانِ ہند کی آخری منزل قرار دیا اور بلند حوصلے و آہنی قوت کی بدولت سات سال کے مختصر عرصے میں اس منزل مراد کو حاصل کرلیا۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ 21 اپریل 1938ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے مگردو سال بعد ہی ان کے تصور پاکستان کو قرار داد کے ذریعے ملک گیر سطح پر اپنالیا گیا۔ آپ کی اس فکری رہنمائی کا اعتراف قائداعظم بانی پاکستان نے قرار داد کی منظوری کے اگلے روز اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں ہیں اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے۔‘‘

علامہ محمد اقبالؒ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بہت سے خطوط لکھے جس میں آزاد مسلم ریاست کے سیاسی و مذہبی نظام قانون اور معاشی و سماجی مسائل پر بحث کی ہے۔ یہ خطوط 1943ء میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ قائداعظمؒ نے مفکرِ پاکستان کی خدمات کے اعتراف میں خود اس کا دیباچہ تحریر کیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اقبال نے مسلم ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں کیا ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے تصورات سے ہم آہنگ تھے۔ ہندوستان کو جو آئینی مسائل درپیش تھے ان کے گہرے مطالعہ اور غوروخوض کے بعد میں بھی آخر انہی نتائج پر پہنچا جن تک سرا قبال پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور یہ خیالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ ہند کے متحد عزم کی شکل میں ظاہر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی اس قرار داد کی صورت میں ڈھل گئے جو 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی اور جسے اب قرار دادِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘

علامہ اقبالؒ برصغیر کے اس عظیم الشان انقلاب کے داعی تھے جو تقسیمِ ہند کی صورت میں رونما ہوا۔ مارچ 1941ء کو پنجاب یونیورسٹی ہال میں ’’یوم اقبال‘‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آپ کی سیاسی بصیرت، اسلامی شعور اور علمی و ادبی عظمت کو ان الفاظ میں خراج عقید پیش کیا۔

’’اقبال کی ادبی شہرت عالم گیر ہے ۔ وہ مشرق کے بہت بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے لیکن اس حقیقت کومیں سمجھتا ہوں کہ اقبال ہمارے دور کے بہت بڑے سیاستدان تھے۔ انھوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ دکھ دیا ہے جس سے بہتردوسرا رستہ نہیں ہوسکتا۔ مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی شخص نے نہیں سمجھا۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔ جس بات کو وہ صحیح خیال کرتے تھے یقیناً وہ صحیح ہوتی تھی۔ وہ اس پر مضبوط چٹان کی طرح قائم رہتے تھے۔ ان کی علمی و ادبی گلکاریوں کی وجہ سے ان کا نام جریدہ عالم پر ثبت ہوچکا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا کیونکہ اسلام کے سچے شیدائیوں کا نام ابد تک زندہ رہتا ہے۔‘‘

دراصل علامہ محمد اقبالؒ نے تصور پاکستان کی بنیاد نہ یورپ کے مادی، خودغرضانہ اورلادینی (سیکولر) نظام پر رکھی، نہ لسانی قومیت و فرقہ وارانہ مذہبی جنونیت سے متاثر ہوئے اور نہ طبقاتی تقسیم کے اُن رجحانات کو اپنا مطمع نظر بنایا جو معاشرے میں معاشی ناہمواریوں کا باعث بنتے ہیں بلکہ آپ نے ایک ایسی ریاست کا تصور دیا جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور پر تشکیل پائے۔ ریاست کے رہنما اصول، اللہ کی کتاب جو منشورِ حیات ہے اور سیرت و سنتِ نبوی ﷺ  سے اخذ کیے جائیں۔ مسلمانوں کی قیادت کا اختیار اہل علم طبقے کے پاس ہو جو ایک طرف کتاب و سنت سے ہدایات حاصل کرے تو دوسری طرف اجتہاد اور عصر حاضر کے تقاضوں سے علمی و عملی سطح پر نبرد آزما ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔ جہاں کے اربابِ اختیار قدیم و جدید علوم کی روشنی میں خلوصِ نیت سے نسل نو کو خودی، خود انحصاری اور جہد مسلسل کی منزلوں سے آشنا کرتے ہوئے ان کے تازہ جذبوں، عزم و حوصلہ کو نئی جہد و سمت عطاکریں ۔

بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے بے لوث، بے پایاں اور اتحادِ ملی کے جذبے کے تحت اسلامیانِ برصغیر کے لیے الگ ارضِ وطن کے تخیل کو حقیقت سے ہمکنار تو کردیا مگر بدقسمتی سے ان کے جانشین اس نوزائیدہ مملکتِ خداداد کو سنبھال نہ سکے نہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کو الگ خطہ ارض کی ضرورت محسوس ہوئی، نہ مملکتِ خداداد ترقی و استحکام کی بلندیوں کو چھو پائی اور نہ عوام اقتصادی و معاشی خوشحالی کی طمانیت حاصل کرسکے۔ ملک میں اشرافیہ، سرمایہ کار، صنعت کار اور جاگیردار طبقے نے ملک و ملت کے وسائل کو بری طرح پامال کیا جس سے ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اقبال اور قائد کا وہ تصور جو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست سے ہم آہنگ تھا۔ آج کے پاکستان میں مفقود نظر آتا ہے۔ اسی لیے اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا تھا کہ اقبال اگر آج کے پاکستان کو دیکھتے تو انھیں یقیناً بہت مایوسی ہوتی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مایوسیوں اورمحرومیوں کی اس فضامیں اقبال کی رجائیت پسندی ہمارے شکستہ دلوں کو جینے کا نیا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی