ٹریفک سگنلز پر بھکاریوں کا بڑھتا ہجوم اور کاروں کی ونڈ سکرین پر بلا اجازت جھاگ ملا پانی پھینک کر ننھا وائپر چلانے والے معصوم ہاتھ اور ان کلائیوں کے ساتھ جڑے 4 فٹ کے وجود کی آنکھوں میں موجود حسرت و یاس اور بے بسی ہمارے معاشرے میں تلخیوں، اذیتوں اور استحصال کی بدترین تصویر پیش کرتی ہیں۔ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں پر سوار کروڑوں افراد یہ روح فرسا منظر روزانہ چند فٹ کی دوری سے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اگلے سگنل پر جا رکتے ہیں اور چہروں کے بدلائو کے ساتھ انہیں پھر وہی جھرجھری دلانے والا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیا کریں کوئی آنکھیں بھی تو بند نہیں کرسکتا۔
کراچی، کوئٹہ میں تو ابلیسیت کا ننگا ناچ انسانی لاشوں پر روز ہوتاہے مگر۔ ۔ ۔ عوام ہیں کہ بے کس بے بس۔ بے روزگاری کا عفریت اہلیت، کردار، دیانت اور ذہانت سے مزین نوجوانوں کے حوصلوں کو ہڑپ کئے جارہا ہے۔ مشکل ترین حالات کے باوجود ابھرنے والے حالات سے مجبور ہوکر برین ڈرین کے اندھے کنوئیں کا ایندھن بن رہے ہیں۔ مہنگائی کی اذیت سے دوچار والدین بچوں کی جائز اور بنیادی ضرورتوں تک کو پورا کرنے سے معذور ہیں۔ سینکڑوں افراد کا دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بن جانا بھی ہمارے معاشرے میں معمول کی کارروائی ہے۔ نہ کوئی آنکھ نم ہوتی ہے اور نہ ہی معمولات زندگی میں کوئی بدلائو آتا ہے۔ ملک میں حکومت نام کی کسی شے کا وجود عملاً نہیں، پاکستان کمزور سے ناکام ریاست کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر سیاست کے ’’بڑے‘‘ چین کی بانسری ہی بجائے جارہے ہیں۔ انہیں حالات کی سنگینی کا ادراک ہے نہ ارض وطن اور عوام سے کوئی دلچسپی، کیونکہ پاکستان ان کے لئے وسائل لوٹنے کی آسان سرزمین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ بلوچستان کے نازک حالات، سندھ اور کراچی کا المیہ، خیبر کے پی کے مسائل اور پنجاب کے حکمرانوں کی ترجیحات کہیں بھی عوام اور ملک دکھائی نہیں دیتا۔ ہر طرف مقتدر طبقات کے مفادات کا نوحہ ہے جو کروڑوں عوام کا سینا پیٹے جارہا ہے۔ مقتدر جماعتوں کی جمع تفریق اور جوڑ توڑ عروج پر ہے، عوام کو انتخابات کا چارہ ڈال کر اگلے پانچ سال کے لئے ان کا آقا بننے کا اختیار لینے کے لئے تمام تر دائو پیچ آزمانے کی تیاریوں کا آغاز ہورہا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کے تحت الیکشن کے تسلسل کے ذریعے ہی ملکی استحکام اور عوامی خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کے عزم کا اعادہ آج بھی دانشوروں اور سیاستدانوں کی طرف سے کیا جارہا ہے جس پر تحفظات ہر طبقے میں موجود ہیں۔
سیاست کے بازار میں ریاست کو بیچا جارہا ہے اور اگلے پانچ سال کے لئے اس مکروہ نوکری کو جاری رکھنے کے لئے سیاست کے کوچے کی غالب ترین اکثریت نئے جال لے کر عوام پر جھپٹنے کو بے تاب ہیں۔ عوام کو انصاف دینے کی تحریک گو پہلے جیسا زور تو نہیں رکھتی مگر ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کے ساتھ موجود ضرور ہے اور کرپٹ نظام انتخاب کے تحت ہی الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچنے کا ’’یقین محکم‘‘ رکھتی ہے۔ شائد اسی لئے ’’بڑے‘‘ سیاسی قائدین کا کچھ حصہ عوام کو انصاف دینے کے لئے اس تحریک کا ’’جزو لاینفک‘‘ بن چکا ہے۔ ایک حلقے پر 5 سے 20 کروڑ روپے کے بے تحاشا اخراجات کے ذریعے الیکشن کمیشن کی لگائی حد کا منہ چڑانے والا انتخابی نظام برادری ازم، غنڈہ گردی، وننگ ہارسز اور الیکشن ڈے مینجمنٹ کے تمام تر ’’اوصاف‘‘ بھی رکھتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کچھ لوگ دہائیوں سے پاکستانی عوام کے مقدر پر مسلط مقتدر جماعتوں کے ساتھ ان کی پچ پر لڑ کر کلین سویپ کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں۔
وطن عزیز کی معیشت کو اوپر سے نیچے تک ہر ادارے اور شعبے میں موجود دیمک نے کھوکھلا کردیا ہے، بیرونی قرضوں نے ملک کی خودمختاری تک کو گرہن لگادیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے جونکوں کی طرح جسد پاکستان سے چمٹے اس کا خون چوسے جارہے ہیں۔ اداروں کے مابین غلط فہمیوں نے آئین پاکستان کی موثریت کو سوالیہ نشان بنادیا ہے یہ ایک بیّن اصول ہے کہ جس ملک میں ادارے مضبوط اور آپس میں باہم مربوط اور معاون ہوں اور اپنی اپنی لین میں چل کر سفر جاری رکھیں وہاں کا آئین ہر فرد کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کا ضامن ہوتا ہے مگر معاملہ اس کے الٹ ہوجائے تو آئین کاغذ کے پرزے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ پارلیمنٹ بھی ایک موثر ادارہ ہے، عوام کے حقوق کے لئے قانون سازی کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر پاکستانی پارلیمنٹ کے مکین تو اپنے اپنے حلقوں کے بادشاہ ہیں۔ اربوں کا فنڈ حلقے کے ترقیاتی کاموں کے لئے نکلوا کر گُل چَھرے اڑائے جاتے ہیں۔ ایسی پارلیمنٹ کبھی بھی اداروں پر بالا حیثیت رکھنے کی مجاز نہیں ہوسکتی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں پارلیمنٹ کا کردار ایک قانون ساز ادارے کا ہوتا ہے اور سپریم کورٹ کو قانون کی تشریح کا حق بھی ہوتا ہے اور ملک اور عوام کے مفادات سے متصادم کسی قانون پر اپنی رہنمائی کے ساتھ درستگی اور اسے رد کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ فوج کا ادارہ کسی بھی ملک کی سالمیت اور داخلی استحکام کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے مگر کہیں بھی اسکا سیاسی کردار نہیں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں اس کے منہ کو اقتدار کا خون ابھی تک نہیں لگا مگر پاکستان کی نصف سے زائد تاریخ فوجی آمریت سے آلودہ ہے۔ وطن عزیز کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی آمریت نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر آن کھڑا کیا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات عوام کو شدید ترین کرب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ داخلی استحکام میں دراڑیں اتنی واضح ہیں کہ روح کانپتی ہے۔ بیرونی مداخلت نے خودمختاری کو گرہن لگادیا ہے۔ اداروں کے مابین کھلی اور سرد جنگ نے عوام کے اعتماد کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں نام نہاد جمہوریت کے نام پر 5 سال گزارنے کو اپنا کریڈٹ بنارہی ہیں اور اس ضد پر قائم ہیں کہ ملکی استحکام، حقیقی جمہوریت کی منزل اور عوامی خوشحالی کا چشمہ اسی نظام کے تحت الیکشن کے تسلسل سے ہی نکلے گا۔ موجودہ نظام کے تحت الیکشن میں جانے والی ہر مذہبی اور سیاسی جماعت کی یہ مجبوری ہے کہ اس کی بقا صرف اور صرف اسی نظام کے اندر ہے کیونکہ موجودہ نظام میں عوام کو ووٹ کی رسم ادا کرنے کی آزادی تو ہے مگر اپنے میں سے اپنے جیسے نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچانے کا اختیار ہرگز نہیں۔
عدم تحفظ، بے یقینی اور مایوسی کے قریب ترین لے جانے والے اس ماحول میں موجودہ انتخابی نظام کو اس کی تمام تر قباحتوں کے ساتھ بے نقاب اور مسترد کرنے کے لئے وطن عزیز میں گذشتہ برس ایک آواز شدومد کے ساتھ ابھری، جس نے آغازِ سیاست سے اس نظام انتخاب کے خلاف اپنے پرانے موقف کا اعادہ کیا اور پوری قوم کو یہ باور کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اس ملک کا سب سے بڑا دشمن موجودہ انتخابی نظام ہے۔ ناصر باغ میں طلباء اجتماع اور لیاقت باغ کے تاریخی گرائونڈ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لاکھوں افرادکے سامنے موجودہ نظام کی خرابیوں کو انتہائی ماہرانہ انداز میں واضح کیا۔ اب جبکہ عوام کو الیکشن کے بخار میںمبتلا کرنے کے لئے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔ ان حالات میں تحریک منہاج القرآن کے سربراہ نے 23 دسمبر کو ’’سیاست نہیں ریاست بچانے‘‘ کے ایجنڈے کے ساتھ پاکستان آنے کا کہہ دیا ہے اور تحریک منہاج القرآن نے ملک بھر میں عوام رابطہ مہم کا آغاز بھی کردیا ہے۔ پاکستان کے بڑے ٹی وی چینلز پر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے خصوصی انٹرویوز میں اپنی پاکستان آمد کے حوالے سے 23 دسمبر کا اعلان بھی کردیا ہے وہ اسی دن قومی ایجنڈے کا اعلان بھی کریں گے۔ یہ اجتماع اس لحاظ سے بھی منفرد ہوگا کہ مینار پاکستان کے وسیع گرائونڈ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع میں ہر کوئی پاکستانی پرچم کے ساتھ شرکت کرے گا۔ پاکستان کے حالات یقینا سنگین تر ہیں۔ 19کروڑ عوام تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ خدا کرے 23 دسمبر پاکستان کے لئے ایک تاریخی دن بن جائے اور اس ملک کی تقدیر بدل جائے مگر یہ عوام کے شعور پر منحصر ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی درمند آواز پر لبیک کہہ کر Millions کی تعداد میں مینار پاکستان پہنچیں اور نئے پاکستان کی تشکیل میں ان کا دست و بازو بنیں۔ قوم اگر چاہتی ہے کہ پاکستان کے ٹریفک سگنلز بھکاریوں سے پاک ہوں اور ننھے ہاتھ کاروں کی ونڈ سکرین صاف کرنے کی بجائے اپنی نگاہیں کمپیوٹر سکرین پر اور ننھی انگلیاں Key Board پر چلا کر ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے تیار ہوں تو پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کہہ کر 23 دسمبر کو مینار پاکستان آئیں کیونکہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔