پاکستانی قوم اس وقت آزمائش کی گھڑیوں سے گزر رہی ہے اور مصائب و مشکلات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سرگرداں ہے۔ زندہ اور بیدار مغز قوم وہ ہوتی ہے جو خود احتسابی کے ذریعے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے کر ان کی تلافی کا سامان کرتی ہے اور اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام بحال کرلیتی ہے جبکہ ناکام اور مردہ قوم وہ ہوتی ہے جو اپنی ناکامیوں، نامرادیوں اور مصائب و آلام کا الزام دوسروں پر لگاکر خود رونا دھونا شروع کردے اور بے بس، مجبور اور مظلوم بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے ایسی بے حس قوم کو زمانہ اپنے پائوں تلے روند ڈالتا ہے اور انہیں غلامی اور ذلت کی زنجیریں پہنادیتا ہے جبکہ زندہ و جاوید قوم ان غلامی کی زنجیروں کو توڑنے، قعر مذلت سے نکلنے اور کامیابی و کامرانی کے زینے پر چڑھنے کے لئے کمربستہ ہوکر میدان عمل میں اتر آتی ہے۔
قرآن حکیم کی سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 میں بھی اللہ رب العزت نے ایسی ہی قوم کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرڈالیں‘‘۔
یہ شعر اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
پاکستانی قوم اس وقت جن دگرگوں حالات سے دوچار ہے اس کی ہلکی سی تصویر اس طرح دیکھی جاسکتی ہے :
- پاکستان میں دینی و اخلاقی اقدار کی پامالی، عریانی و فحاشی، بے راہ روی، بے شرمی و بے حیائی اور بے ہودگی ہمارے گھروں تک پہنچ چکی ہے جس سے ہمارا دینی و مذہبی اور اسلامی و نظریاتی تشخص مجروح ہوچکا ہے۔
- پاکستان کے نوے فیصد لوگ اپنے بنیادی حقوق اور غذائی ضروریات سے محروم ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنی اولاد کو بیچنے کے علاوہ اپنے جسم کے حصے اور گردے تک فروخت کئے جارہے ہیں اور جن کے پاس کچھ نہ بچا ہو وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
- روز افزوں کمر توڑ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے، لوڈشیڈنگ نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔
- دہشت گردی اور بدامنی کا راج ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت پورا پاکستان اس آگ میں جل رہا ہے۔
- کرپشن، لوٹ مار، رشوت ستانی، راہ زنی، بنک ڈکیتی، چوری، بھتہ خوری ملک کا نظام بن گیا ہے۔
- لاقانونیت، جبر و استحصال، ظلم و بربریت، گولی و بندوق اور قتل و غارت ملک کا دستور ہے۔
- عزت و حرمت کی پامالی، مفاد پرستی، باہمی محاذ آرائی، چھینا جھپٹی ملک کا منشور بن چکا ہے۔
- حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کی نااہلی، غفلت شعاری، عاقبت نااندیشی، اقرباء پروری اور لوٹ مار سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔
- خوف، دہشت اور وحشت کا راج ہے۔
- اندرونی طور پر پاکستان کی سلامتی اور بقاء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
- عالمی سطح پر بے وقعت ہونے کی وجہ سے پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔
- نام نہاد جمہوریت، مفاد پرست سیاستدانوں اور ملٹری و سول بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ اور ملی بھگت نے اخلاص، وفا اور دیانت و امانت کا جنازہ نکال دیا ہے۔
- اقتدار میں آکر دھوکہ دہی، لوٹ مار اور غنڈہ گردی ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔
- ہر بار یہ مفاد پرست سیاسی طبقات، جماعتیں اور گروہ اقتدار میں آکر اپنی ذاتی تجوریوں کو بھرتے ہیں اور عوام کا خون چوستے ہیں۔
- آج عوام کی غالب اکثریت صحت کی بنیادی سہولیات اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔
- امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
- ملک کے 95% وسائل پر 5% لوگ قابض ہیں اور 95% لوگ 5% وسائل پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
- فرقہ واریت، صوبائی و لسانی تعصبات، مذہبی فسادات اور مسالک کے درمیان جنگ نے قوم کو گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔
- اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام جو حرمت اور احترام والا مہینہ تھا جس میں دور جاہلیت میں بھی قتل و غارت اور خونریزی بند ہوجاتی تھی مگر اب اس مقدس مہینہ میں فرقہ وارانہ فسادات اور بم بلاسٹ میں کئی بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں۔
- پاکستانی اہم اداروں کے مابین باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے نہ صرف اندرونی وجود خطرے میں ہے بلکہ بیرونی سازشوں، ڈرون حملوں اور سپر پاور کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہمارا ایٹمی ملک خطرے میں ہے۔
ان تمام امور کا اگر ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو یوں کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستانی سیاست کو بچانے اور ریاست کے وجود کو ختم کرنے کی گھنائونی سازش تیار ہورہی ہے۔ وہ ریاست جو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر حاصل کی گئی۔ وہ ریاست جو ہمارے آبائو اجداد نے بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دے کر حاصل کی۔ وہ ریاست جس کے لئے ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عزت و ناموس کی قربانیاں دیں۔ وہ ریاست جس کے لئے مشائخ و علماء نے خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کا فریضہ ادا کیا۔ وہ ریاست جس کے لئے نوجوانوں نے اپنی جوانی کو دائو پر لگایا۔ وہ ریاست جس کا خواب علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور جس ریاست کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔ وہ ریاست جو عطیہ الہٰی ہے۔ وہ ریاست جو رمضان المبارک کے مہینے میں نزول قرآن کی رات معرض وجود میں آئی۔ وہ ریاست جسے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی فلاحی ریاست گردانا گیا۔ وہ ریاست جس کا منشور اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور اقتصادی و معاشی استحکام قرار دیا گیا۔
آج اس ریاست کو کرپٹ انتخابی نظام نے ظلم و ناانصافی، دہشت گردی، انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ جس نظام میں دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اپنی دولت اور سرمائے کے بل بوتے پر منتخب ہوکر 19 کروڑ عوام کی تقدیر اور سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔
یہ ملک 19 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے جبکہ جو اس میں آباد ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ان جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے اور اپنی ریاست کو بچانے کے لئے اس کرپٹ سیاست اور کرپٹ سیاسی انتخابی نظام سے بغاوت کا اعلان کریں۔ جس سیاست میں غریب اور متوسط درجے کے مخلص، دیانت دار، باصلاحیت اور ملک و ملت کے جذبے سے سرشار کسی شہری کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی کیونکہ اس کے پاس حرام کی کمائی کے کروڑوں روپے نہیں، اسے ایجنسیوں، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا تعاون حاصل نہیں۔ اسے بیرونی طاقتوں کی اشیر باد حاصل نہیں۔ لہذا اگر قوم حقیقی طور پر تبدیلی اور انقلاب چاہتی ہے اور ریاست کو بچانا چاہتی ہے جس میں ان کی اپنی بقا بھی مضمر ہے تو پھر اسے موجودہ ظالمانہ، جابرانہ اور استحصالی طاغوتی نظام کو سمندر برد کرکے اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا اور پوری قوم کو انتخابات نہیں انقلاب کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔
اگر ماضی بعید میں ایران کی سرزمین انقلاب آشنا ہوسکتی ہے اور ماضی قریب میں اگر مصری قوم اپنا مستقبل بچانے کے لئے سڑکوں پر آکر انقلاب برپا کرسکتی ہے، اگر تیونس کی قوم اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے ٹریفک جام کرکے ملک کا نظام بدل سکتی ہے، اگر لیبیا کے عوام ظلم و ستم سے تنگ آکر اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکتے ہیں اور چالیس سالہ آمریت کے دور کو الوداع کہہ سکتے ہیں تو اے پاکستانی قوم تم کیوں خواب غفلت میں پڑی ہو؟ اٹھو، جاگو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لئے کمر بستہ ہوجائو۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جیسے قائداعظم نے دیار غیر سے دوبارہ واپس آکر قوم کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچادیا تھا۔ آج پھر ایک مسیحا دیار غیر سے اپنے ملک اور ریاست کو بچانے کے لئے 23 دسمبر 2012ء کو پاکستان کی سرزمین پر مینار پاکستان کے سائے تلے ’’حقیقی تبدیلی‘‘ کا لائحہ عمل دینے والا ہے۔ جس نے انتخابات نہیں انقلاب کا نعرہ دیا ہے کیونکہ انقلاب کے ذریعے اسلام آئے گا، جمہوریت آئے گی، دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، عزت و حرمت ملے گی، ملک کی سا لمیت کا تحفظ ہوگا، آزادی و خودمختاری کا تحفظ ہوگا، پاکستان، پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کا تحفظ ہوگا۔
اس مسیحائے قوم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نہ تو کوئی سیاسی عزائم ہیں اور نہ کسی سے دشمنی اور عداوت ہے نہ تو انتخابات میں حصہ لینا مقصود ہے اور نہ اس کھیل تماشے کا حصہ بننا مقصود ہے بلکہ 19 کروڑ عوام کو اس فرسودہ، بیہودہ اور کرپٹ انتخابی نظام جس نے ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا مقصود ہے تاکہ عوام موجودہ نام نہاد جمہوری نظام کی بجائے اسلام کے اصل جمہوریت کے نظام کا نظارہ دیکھے جس میں راتوں کو کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ ہوگی۔ ہر ایک کو بنیادی ضروریات میسر آئیں گی، پاکستان کا نام روشن ہوگا اور دنیا کے نقشے پر سپر پاور بن کر ابھرے گا۔