23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں ایک آواز گونجی۔ آواز کیا تھی 10 سال قبل لفظوں سے بنائی گئی ایک تصویر کے منہ بولتے خدوخال تھے۔ صرف ایک دہائی قبل خامہ الفاظ سے ایک تصویر کھینچی گئی تھی جو اب بول رہی تھی متحرک بھی نظر آرہی تھی اور دلوں کو گرمارہی تھی جس کی روح جوان تھی وہ تصویر بنارہا تھا۔ جن کے قلب بیدار تھے وہ اسے دیکھ رہے تھے اور جس کا حوصلہ جوان تھا وہ اس تصویر میں رنگ بھرنے کے لئے خالق کائنات کے حکم قم باذن اللہ پر لبیک کہہ رہا تھا۔ یہ ایک سخت اور کٹھن مرحلہ تھا۔ ساری دنیا کی باطل اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے کلمہ توحید بلند کرنے کے عزم کا اظہار ہورہا تھا۔ یہ ایک کھلا چیلنج تھا۔
دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست مدینہ منورہ میں قائم ہوئی تو 360 بتوں کی گردنیں کٹ گئیں۔ سرتن سے جدا ہوکر والی مکہ و مدینہ کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ زمین اللہ کے شیروں کے قدموں تلے سکڑتی چلی گئی۔ اس اسلامی نظریاتی ریاست کی سرحدیں برصغیر پاک و ہند تک پھیل گئیں صرف چند دہائیوں کا فاصلہ طے ہوا اور عقائد و نظریات کی بنیاد پر وجود میں آنے والا دیس مدینہ منورہ کائنات کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ جسم مصطفوی تھے بازو توحیدی تھے پھر کون سی چیز راہ میں حائل ہوسکتی تھی۔ اس کے شاہینوں کی پرواز کو مدتوں کوئی نہ روک سکا۔ رکاوٹوں کے سیلاب آئے، پہاڑوں اور چٹانوں سے ٹکرانا پڑا، زخم بھی کھائے، لہو لہو بھی ہوئے لیکن اختتام ہمیشہ کامیابی کی نوید پر ہوا۔ مسلمان جب بھی اللہ اور اس کے محبوب کا نام لے کر میدان میں ڈٹ گئے پھر کوئی انہیں جھکا سکا نہ ہرا سکا۔ عشق محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ چراغ بن کر رہنمائی کرتا رہا۔ کمزور کو قوی اور پست کو بالا کرتا رہا۔ اسی لئے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سوئی قوم کو جگانے کا عزم کیا تو نسخہ کیمیا تجویز کرتے ہوئے فرمایا:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دھر میں اسم محمد سے اجالا کردے
اسلام برصغیر میں پہنچا تو تقریباً 1100 سال کا زریں دور حکومت دیکھا اور دنیا کو جہانبانی کے گُر سکھادیئے۔ برہمن، راجپوت، اچھوت سب خوش تھے۔ انصاف سب سے اہم اور سب کے لئے میسر تھا۔ ہر ایک کو اپنی حد میں رہتے ہوئے دوسرے کی حدود کا احترام کرتے ہوئے اپنے طور طریقے کے مطابق آزادی سے جینے کا حق حاصل تھا۔ قدروں کا احترام تھا۔ عوام خوش تھے۔ ہر طرف امن و امان تھا۔ آخر کار ایک لمبے عرصے کے بعد شیطان کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ رنگینیوں کی ایک دلکش لہر اٹھی اور دنیا کو فن جہانبانی کے گُر سکھانے والی قوم عیش و عشرت میں ڈوب گئی، امراء و بادشاہ ہاتھ سے تلوار پھینک کر پیروں میں گھنگھرو باندھ کر رقص کرنے لگے۔ شطرنج کی بساط پر ریاستوں کے فیصلے ہونے لگے۔ شراب اور کباب نے عقل و خرد کو مفلوج اور نگاہوں کو مخمور کردیا۔ گھر کی دیواریں کمزور ہوں تو چور نقب لگاہی لیتے ہیں۔ یہی ہوا چوروں کی ایک ٹولی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو روپ دھار کر برصغیر کی مغلیہ حکومت کی کمزور دیوار میں نقب لگائی اور پھر ہر دروازہ آسانی سے کھلتا چلا گیا۔ بے غیرت بادشاہوں، رنگیلوں اور غداروں نے راہ فرار اختیار کی۔ پہلے سر جھکنے لگے پھر کٹنے لگے۔ بادشاہ غلام ہوئے کوئی تختہ دار پر لٹکایا گیا تو کوئی کالا پانی بھجوایا گیا اور آخر کار 1857ء میں برصغیر میں مسلم حکومتوں کا سورج ڈوب گیا۔
پرانی کہانی جہاں ختم ہوئی، نئی وہاں سے ہی شروع ہوگئی۔ مسلمانوں کی حکومت کا سورج جس سرخی میں غروب ہوا ایسٹ انڈیا کمپنی کا سورج اسی خون آلود سرخی سے طلوع ہوگیا۔ ہر روز مسلمانوں کا خون برصغیر کے طول و عرض میں بے دریغ بہایا جانے لگا۔ گلیاں سڑکیں لہو میں ڈوب گئیں، بہنوں بیٹیوں کی عزت نیلام ہونے لگی۔ مسلمان ایسے ذلیل و خوار ہوئے جو انگریز حکومت کے قائم ہوتے ہی غلامی کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ پیروں میں گھنگھرو باندھ کے جس عتاب الہٰی کو دعوت دی تھی دہلی کی سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہوئے اسی سے پناہ مانگنے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا: کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور حکومت ظلم کی بنیاد پر بھی تھا کفر کی بنیاد پر بھی۔ اسی لئے کچھ عجب ہوا مسلمانوں کے ساتھ کہ غلامی کے لئے جھکتے جھکتے زمین سے ہی جالگے۔ ماتھا زمین پہ لگا تو دل سے درد کی ٹیسوں کے ساتھ اللہ بھی نکلا اور یوں سجدہ ندامت اور سجدہ توبہ ادا ہوگیا۔ بہت کچھ ہوا اس دور ذلت میں، لیکن شرمندگی اور ندامت سے بہنے والے شاید چند آنسوئوں کی برکت تھی کہ 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں میں سرزمین برصغیر پاک و ہند پر دو ایسے خوشبودار پھول کھلے کہ جن کی خوشبو سے سار اہندوستان مہک اٹھا۔ یہ ایک خوشگوار حادثہ تھا اور
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے
ایک طرف برصغیر کے مسلمان انگریزوں اور ہندوئوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوکر ذلت کی عمیق گہرائیوں میں گر رہے تھے تو دوسری طرف پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے، کے مصداق وہ رحمن اور رحیم رب اسی سرزمین کفر کے رہنے والوں کو مسلمان کرکے اپنے گنہگار بندوں کو دوبارہ سراٹھا کر جینے کے انتظامات فرمارہا تھا۔ سرزمین ہند پر 19ویں صدی کی آٹھوی دہائی میں نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو دیوانے شمع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو پروانے محمد اقبال اور محمد علی جناح پیدا ہوئے۔ مسلمانان ہند ذلت اور گمراہی کے گڑھوں میں گرے ہوئے ایک طرف اپنے کبیرہ گناہوں کی سزا پارہے تھے اور دوسری طرف رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ان گڑھوں سے نکالنے کے لئے محمد اقبال اور محمد علی کی پرورش اور تربیت فرمارہا تھا، اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ اِلَيْهِ مَنْ يَشَاء کے تحت اللہ نے انہیں اپنی راہ کے لئے چن لیا تھا۔ وہ منتخب بندے تھے۔ درد و کرب میں ڈوبے ہوئے ماہ و سال گزرتے گئے۔ پہلے کانگریس وجود میں آئی پھر آل انڈیا مسلم لیگ بنی۔ مسلمانوں کے جھکے ہوئے سر اٹھنے لگے، سوئی ہوئی غیرت جاگنے لگی۔ احساس غلامی کچوکے لگانے لگا۔ پنجرے میں قید پنچھی تڑپنے لگا جیسے اس کے بال و پر کٹ چکے ہوں۔ اقبال کی شاعری نے پہلے ان کے احساس کو جگایا پھر تڑپایا پھر ان کے جذبات کو گرمایا لیکن سوئی ہوئی قوم جاگ بھی جائے تو شعور بیدار ہونے میں وقت لگتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری مسلمان قوم کے تن مردہ میں روحانی بیداری پیدا کررہی تھی۔ بندے کا خدا اور اسکے محبوب سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہورہا تھا اور محمد علی جناح کی علمی قابلیت اور خداداد بصیرت ان میں سیاسی شعور بیدار کررہی تھی۔ دونوں جہتوں سے بھرپور کام ہورہا تھا۔ آخر قوم انگڑائی لے کر اٹھی اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ کلمہ توحید پھر سے بلند ہونے لگا، اپنی علیحدہ شناخت کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور اپنے ہونے کا احساس ہونے لگا۔ اب پاکستان کی تصویر بننے کا وقت آگیا تھا۔ آخر کار مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کی ضرورت سے آگاہ کیا اور الفاظ کی لکیروں سے اس کی مصوری کی۔ مشیت الہٰی سے محسن پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جو ان کی پکار پر پہلے ہی لبیک کہہ چکے تھے کی سیاسی جدوجہد میں نیا رنگ اور نئی روح بیدار ہوگئی۔ پاکستان کی تصویر بن چکی تھی، خدوخال واضح تھے اسی لئے علامہ اقبال کے انتقال فرما جانے کے کچھ ہی عرصے بعد 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (موجودہ مینار پاکستان) میں محسن پاکستان کی موجودگی میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔ اپنوں پرائیوں سب نے کہا کہ پاکستان کا خواب محض دیوانے کی بڑھ ہے۔ ہاں یہ محسن پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دیوانگی ہی تھی لیکن مبنی برحق تھی۔ تائید الہٰی شامل حال تھی۔ مسلمانان ہند اپنے گناہوں کا مسلسل کفارہ ادا کررہے تھے۔ دریائے رحمت جوش میں آچکا تھا۔ آخر نزول قرآن کے مہینے میں نزول قرآن کی رات میں جب ساری کائنات پر نور کی بارش ہورہی تھی تنزل الملئکۃ والروح کا مژدہ جانفزا سنایا جارہا تھا گنہگاروں کو بے بہا نعمتوں، رحمتوں، برکتوں اور بخشش و مغفرت سے نوازا جارہا تھا۔ مصور پاکستان کی تصویر محسن پاکستان کے ہاتھوں جیتے جاگتے وجود میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آگیا۔
مگر ہم نے کیا کیا؟
ہم نے شاید کچھ عرصہ ہی اس ملک کی قدر کی۔ اللہ رب العزت کا اس نعمت عظمیٰ پر شکر بھی ادا کیا ہوگا پھر آہستہ آہستہ اس کی ناقدری اور ناشکری شروع ہوگئی۔ اس ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی بجائے اس کو اپنے ہاتھوں سے لوٹنا کھسوٹنا شروع کردیا۔ اپنے محسنوں کو قتل کرنے لگے کبھی جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹرشپ نے آکر حقوق کو پامال کیا۔ گردنوں میں طوق ڈالے، جسموں پر کوڑے برسائے اور کبھی جمہوریت کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد فوجی آمریت نے ملک کو مارشل لاء کے اندھیروں میں غرق کردیا۔ اللہ رب العزت نے بار بار موقع دیا اپنی رحمتوں اور نعمتوں کے خزانے ہم پر کھولتا رہا لیکن ہم 200سال غلامی میں گزارنے کے بعد مذہبی اور جغرافیائی طور پر تو آزاد ہوگئے لیکن معاشی، اخلاقی اور ذہنی غلامی سے نہ نکل سکے۔ مال کے فتنے میں مبتلا ہوکر فتنہ پرور ہوگئے۔ اپنی اعلیٰ قدریں چھوڑ کر اغیار کی برائیوں کو اپنالیا۔ زرعی ملک پاکستان میں سب کچھ پیدا کرنے والے خود خوراک کو ترسنے لگے۔ ٹیکسٹائل کا اتنا عظیم مرکز ہونے کے باوجود اغیار کی اترن سے جسم ڈھانپنے لگے۔ اردو جیسی اعلیٰ اور عام فہم زبان رکھنے کے باوجود غیروں کی بولی بولنے لگے۔ آزادی کے نام پر بے غیرتی، فحاشی اور عریانیت سے جسموں کو ڈھانپ لیا۔ ہم گرے اور گرتے ہی چلے گئے۔ آسمان ہماری اس بے حسی، بے ضمیری اور بے غیرتی پر لرزہ براندام ہوگیا اور یہاں تک کہ نعمتوں کی اس ناشکری پر اللہ نے ہم سے آدھا پاکستان چھین لیا۔ ہم پھر بھی نہ جاگے، گمراہی میں بڑھتے ہی چلے گئے، لیکن اس کی رحمتوں کا دروازہ ہم پر بند نہ ہوا۔ جب پاکستان ابھی نوزائیدہ تھا، قدموں پر کھڑا ہونا سیکھ رہا تھا، تب ہی اللہ رب العزت نے اپنے دین کے احیاء، فروغ اور مملکت پاکستان کو بچانے کے لئے نابغہ روزگار محمد طاہرالقادری کو پیدا فرمایا پاکستان اٹھتے بیٹھتے گرتے سنبھلتے اپنی عمر کی منازل طے کررہا تھا اور محمد طاہرالقادری اپنے عظیم والد کی اعلیٰ ترین سرپرستی میں اپنے دینی و دنیوی علوم کے حصول کا سفر طے کررہے تھے۔ تعلیم مکمل ہوئی عملی زندگی کا آغاز ہوا تو انہوں نے دین کی منظم خدمت کرنے اور پاکستانی قوم کو جاہلیت، ذلت، گمراہی اور بے حسی کے جال سے باہر نکالنے کے لئے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک اور قائد تحریک کو ساری امت مسلمہ میں بے حد پذیرائی ملی لیکن جس سرزمین میں یہ بیج بویا گیا جہاں پہلے یہ ننھا پودا پھر درخت اور پھر پورا باغ بنا وہاں کے عوام نے تاحال قدر کرنے کا حق ادا نہ کیا۔ بار بار پاکستان کے وقارکا سودا ہوا اس کا وجود خطرے میں آیا لیکن ہم رضائے الہٰی کو سمجھنے اور اس ربانی پکار پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہی نہیں، وہ کون سی دیمک ہے جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا نہیں کررہی۔ وہ کون سی دہشت گردی ہے جو اس مادر وطن کے گھر گھر کو برباد نہیں کررہی، جہالت کی دہشت گردی، غربت کی دہشت گردی، مہنگائی کی دہشت گردی، بے حسی، بے ضمیری کی دہشت گردی، فحاشی عریانیت کی دہشت گردی، بھوک افلاس کی دہشت گردی اور آخر کار بموں کے دھماکوں اور ڈرون حملوں کی دہشت گردی۔ اپنوں کے ہاتھوں ملک اغیار کی کالونی بن گیا لیکن ہم سورہے ہیں۔ زرعی ملک کے ہر گھر میں بھوک نے ڈیرے ڈال لئے، ہم سورہے ہیں۔ کسی بہن بیٹی حتی کہ 3 سال کی بچی کی بھی عزت محفوظ نہیں، ہم سورہے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر پاکستانی غیر محفوظ ہے، اغیار دندناتے پھرتے ہیں، سیلاب کا عذاب، گیس بجلی پانی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب، لاکھوں مزدوروں کی مستقل بے روزگاری کا عذاب، سروں پر ہر دم منڈلاتے جان و مال اور عزت و آبرو کے لٹنے کے خوف، کچھ پتہ نہیں کس گولی پہ کس کا نام لکھا ہے؟ کون ماں کب بھوک سے بلکتے روتے سسکتے بچوں کو زہر دے کر خود بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔ کب کون باپ بچے کی معمولی خواہشات کو بھی پورا نہ کرسکنے کے جرم میں خود کو زندہ جلالے یا پھانسی لے لے۔ گھر کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ جسم کے اندر آگ لگی ہے لیکن افسوس صد افسوس حکمران طبقے کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ وہ ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کے بھی روادار نہیں، اس بے حسی اور عیش و عشرت میں جکڑی قوم من حیث المجموع پوری دنیا میں تماشا بن گئی ہے۔ لیکن خواہش ہے کہ کوئی مسیحا آئے جو اس قوم کو ظلمت کے اندھیروں سے نکالے۔ معصوم بچوں کی بھوک مٹائے، بیٹیوں کے سروں پر عزت اور تحفظ کی چادر ڈالے۔ بوڑھی لاچار آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرے۔ جوانوں کے جنازوں کو کندھا دینے کی بجائے انہیں اقبال کا شاہین بنائے۔ قوم کے ہاتھوں میں تھمایا گیا کشکول توڑ کر ان کے ہاتھوں میں کتابیں اور کدالیں دے کر کہے کہ ان پہاڑوں کا سینہ چیر کر اپنے لئے خوشی خوشحالی اور علم و فن کے راستے بنائو اور ایک بار پھر عزت و وقار کے ساتھ سر اٹھا کے جیو۔ اپنے دین کی حفاظت کرو، اسلام کے اس قلعے کی حفاظت کرو اور اپنی قوم کی حفاظت کرو۔ اس کانپتی لرزتی قوم کو کروڑہا بار مبارک کہ دل کی گہرائیوں سے اٹھتی درد کی ٹیسوں میں بسی پکار رب کائنات نے سن لی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستانی قوم کے نجات دہندہ اور مسیحائے قوم بن کر تائید ربانی کے ساتھ چار سال بعد پاکستان واپس آرہے ہیں۔ انہوں نے بالآخر قوم کو انتخاب نہیں انقلاب کی کال دے دی ہے وہ آکر اہل پاکستان کو بتائیں گے کہ کشکول توڑ کر کیسے سر اٹھا کر جینا ہے۔ اپنی بے حس زندگی کو کیسے انقلاب آشنا کرنا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے
اب خودی میں انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے یقینا چار سو بدل جائے گا بھوکے پیٹ ہوں گے چہروں کی مسکراہٹ واپس آئے گی۔ اسلام مسلمانوں اور پاکستان کی کھوئی ہوئی عزت و عظمت بحال ہوگی لیکن اس انقلاب کے لئے پہلے قوم کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ کرنا کیا ہے شیخ الاسلام نے اہل پاکستان کو 23دسمبر کو مینار پاکستان پر بلایا ہے منہاج القرآن کا ہر ورکر پچاس لوگوں کو ساتھ لے کر پاکستان کے جھنڈوں کو ہاتھ میں لہراتے ہوئے مینار پاکستان پہنچے گا۔ 8دہائیاں قبل 23 مارچ کو وہاں پاکستان بنانے کی قرار داد منظور ہوئی تھی۔ اب 23 دسمبر کو وہاں 50,40 لاکھ اہل پاکستان کی موجودگی پاکستان بچانے کی خاموش قرار داد منظور کرے گی۔ 23 اور 2012ء ان دونوں اعداد میں بھی پنجتن پاک کا مبارک عدد 5 شامل ہے۔ کل پاکستان بنانے کی قرار داد بھی کلمہ توحید پر رکھی گئی تھی اب پاکستان بچانے کی قرار داد بھی کلمہ توحید پر رکھی جائے گی۔ مصور پاکستان نے تصویر بنائی۔ محسن پاکستان نے اس میں جان ڈالی اور اب مسیحائے پاکستان اسے بچائیں گے۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں پاکستان ہجرت ثانی کا مدینہ ہے۔ یہاں بہت جلد انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا۔ پرامن احتجاج ہوگا حقیقی تبدیلی آئے گی، پرامن بغاوت ہوگی حقیقی جمہوریت آئے گی۔ یہ سب ہوگا اور ان شاء اللہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی اور سربراہی میں ہوگا۔ چشم فلک جلد یہ نظارہ ضرور دیکھے گی۔
کرو نہ غم کہ ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
لہو کا تیل چراغوں میں جلانے کے لئے