ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت: نازیہ عبدالستار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
(البقرة، 2:228)
اسلامی معاشرہ کی ترقی اور فلاح و بہبود میں خواتین کا کردار اسلامی اور دینی موضوعات میں سے اہم موضوع ہے۔ آج کے دور میں مرد ہو یا عورت ہر ایک کا ذہن اس مسئلہ پر تشویش کا شکار ہے اور صورتحال افراط وتفریط کی نظر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اسلامی معاشرہ میں عورت کے کردار کو امور خانہ داری سے آگے کسی سطح پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو مغربیت زدہ ہوکر اس سطح پر جانا چاہتی ہیں جس سطح پر اسلام انہیں نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بنظر غائر دیکھا جائے کہ اسلام کے زاویہ نگاہ اور قرآن و سنت کے نکتہ نظر سے اسلامی معاشرہ میں فی الواقع عورت کی ذمہ داری کیا ہے؟ اس کا کردار کیا ہے؟ اس کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا؟ معاشرے کے ہیت اجتماعیہ میں اس وقت تک کسی کا مقام اور کردار متعین نہیں ہوتا جب تک وہ معاشرہ میں اپنے حقوق وفرائض کی صحیح طور پر بجا آوری نہیں کرتا۔
قرآن مجید کی آیت مبارکہ کے چند الفاظ میں نے عنوان گفتگو کے طور پر تلاوت کئے جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
(البقرة، 2:228)
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر‘‘۔
اس آیت کریمہ نے اسلامی معاشرہ میں عورت کے کردار کو متعین کردیا ہے۔ کردار دو چیزوں سے عبارت ہوتا ہے۔ حقوق کیا ہیں اور فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ دونوں کو اگر واضح طور پر متعین کرلیا جائے تو کردار ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اگر آپ توجہ کریں تو دو الفاظ بیان ہوئے۔ لَھُنَّ اور عَلَيْھِنَّ یہ دو الفاظ عورتوں کے حقوق و فرائض کو بیان کرتے ہیں۔ ’’بھلائی کے ساتھ معروف طریقے سے‘‘۔ ترجمہ یہ ہے کہ ان کے لئے اسی طرح کے حقوق ہیں جس طرح کے فرائض ان پر ہیں۔ اس آیت کریمہ کو اگر ہم اپنے سامنے رکھیں تو حقوق و فرائض کا ایک پورا فلسفہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ قرآن مجید نے یہ نہیں کہا کہ عورتوںکے لئے وہی حقوق ہیں جو مردوں کے ہیں۔ وہی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ بالفاظ دیگر یہ نہیں کہا کہ عورتوں پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مردوں پر ہیں یا مردوں پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو عورتوں پر ہیں۔
قرآن مجید نے وہی کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ فرمایا: مثل الذی علیہن (اسی طرح کے حقوق ہیں) اب وہی اور اسی طرح، ان دونوں الفاظ میں فرق ہے یہ اسی طرح کا فرق ہے جس طرح انگریزی زبان میں Same اور Similar میں ہے۔ وہی فرق ’’وہی‘‘ اور ’’اسی طرح‘‘ میں ہے۔ Same اور Similar اور وہی اور اسی طرح میں ایک قدر مشترک تو ہے لیکن کئی قدریں مختلف بھی ہوتی ہیں۔ لہذا حقوق و فرائض کا فلسفہ سمجھے بغیر ہم نہ عورت کے کردار کو متعین کرسکتے ہیں نہ مرد کے کردار کو۔ ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ حقوق و فرائض کی یکسانیت سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک کے حقوق ایک جیسے ہوں حالانکہ یہ امر قدرت اور فطرت کے نظام کے خلاف ہے بلکہ قاعدہ یہ ہے کہ حقوق سب کے یکساں ہوں۔ ان میں عدل ہو، فرائض سب کے یکساں ہوں ان میں عدل ہو، اب یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ جو حق باپ کا ہے بطور باپ وہی حق بیٹے کا ہو۔ اسی طرح یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ جو فرض والدین کا بطور والدین ہے وہی فرض اولاد کا ہو بلکہ حقوق و فرائض کے درمیان اسلام نے ایک نسبت قائم کی ہے۔ وہ نسبت کیا ہے یہ سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں دو افراد کو ایک رشتے میں منسلک کرنے کے بعد ان کے حقوق و فرائض کو آپس میں ایسا پیوست کردیا کہ ایک کا حق دوسرے کا فرض بنادیا ہے اور ایک کا فرض دوسرے کا حق بنادیا ہے۔
مثلاً والدین کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے ان کا حکم مانا جائے ان کی تعظیم کی جائے۔ یہی اولاد کا فرض ہے اور اولاد کا حق ہے کہ ان کی اچھی پرورش کی جائے، ان کی دیکھ بھال کی جائے ان کی تعلیم و تربیت کا خیال کیا جائے۔ یہ والدین کا فرض ہے۔ لہذا جسے اللہ نے والدین کا حق قرار دیا اسے دوسری سمت اور جہت سے دیکھیں تو وہ اولاد کا فرض بنتا ہے۔ حاکم کا حق ہے کہ نیک کاموں میں اس کا حکم مانا جائے۔ محکوم کا فرض ہے کہ اس حکم کی اطاعت کرے اور محکوم کا حق ہے کہ اس کے حقوق کی کفالت کی جائے اور حکمران کا فرض ہے کہ اس کے حقوق کی نگہداشت کرے۔ اسلام نے جو حقوق و فرائض کا نظام عطا کیا ہے وہ یہی ہے کہ چھوٹے کا حق بڑے کا فرض۔ بڑے کا حق چھوٹے کا فرض۔ جیسے شوہر کا حق ہے کہ جائز امور میں اس کی تعمیل کی جائے اور اس کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اس کی امانتوں کی حفاظت کی جائے۔ یہی بیوی کے فرائض ہیں اور بیوی کا حق ہے کہ ا سکے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اس کا حق مہر دیا جائے۔ اس کی زندگی کی جملہ ضروریات کی کفالت کی جائے۔ یہی شوہر کا فرض بھی ہے۔
آپ نے دیکھا کہ غریب کے حق کو امیر کا فرض بنایا۔ بیوی کے حق کو شوہر کا فرض بنایا۔ شوہر کے حق کو بیوی کا فرض بنایا۔ اولاد کا حق والدین کے لئے فرض۔ والدین کا حق اولاد کے لئے فرض ہے۔ گویا حقوق و فرائض کا نظام یہ ہے کہ ایک کا حق دوسرے کا فرض۔ جب ہم حقوق و فرائض کے اس باہم پیوست نظام کو دیکھتے ہیں تو پھر پورے معاشرے کے طبقات دوسروں کے ساتھ منسلک نظر آتے ہیں اور فقط حقوق پر نگاہ ڈالی جائے اور فرائض کو نظر انداز کردیا جائے یا فقط فرائض اور ذمہ داریوں کی بات کی جائے اور حقوق کو نظر انداز کردیا جائے تو نظام معاشرت قائم نہیں رہ سکتا۔ نظام معاشرت کی صالحیت، بہتری، کامیابی اور کامرانی اس بات پر منحصر ہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کرتا ہوا نظر آئے اور اس شان سے وہ اپنے فرائض ادا کرے کہ دوسرے کا حق خودبخود ادا ہوجائے۔ اسلامی معاشرت اور دوسری معاشرتوں میں فرق یہ ہے جیسے اشتراکیت اور اسلامی معاشرے کے فرق کو دیکھیں تو وہاں تمام اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنے نجی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ معاشرہ اپنے اجتماعی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔ غریب امیر، سرمایہ دار اور حکمران ہر شخص اپنے اپنے حقوق کا مطالبہ کررہا ہے۔ اس بات کو سمجھ لیں کہ جہاں حقوق کے مطالبے ہی مطالبے ہورہے ہوں وہاں حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس اسلام کا نکتہ نظر حقوق کا مطالبہ کرنا نہیں بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنا ہے۔ اسلام یہ صورتحال گوارا نہیں کرتا ہے کہ کوئی شخص اپنا حق مانگے۔ اسلامی معاشرت میں یہ صورت پیدا ہی کیوں ہو کہ کوئی اپنا حق مانگے۔ مانگنے کی نوبت اس وقت آتی ہے جب دینے والے خود بخود حق نہ دے رہے ہوں۔
حق دار اپنے حق سے محروم ہو تو وہ حق مانگتا ہے۔ اسلام ایسا نظام معاشرت چاہتا ہے کہ حق دار کو اپنا حق مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ حق دار کا دروازہ کھٹکھٹا کر خود حق دیں۔ اس لئے جب آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اول سے آخر تک پورا قرآن کسی غریب سے نہیں کہتا کہ تم اپنا حق مانگو بلکہ ہر جگہ امیر سے کہتا ہے کہ غریب کو اس کا حق دے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهُ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا.
(بنی اسرائيل، 17:26)
’’اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ‘‘۔
لہذا قرآن حق دینے کی بات کرتا ہے لینے کی بات نہیں کرتا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ دین ہے اور بنی اسرائیل میں بھی سنت انبیاء تھی۔ پہلے انبیاء حق دینے کے لئے بلاتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کو پہلے پانی بھردیا جو کنویں پر پانی بھرنے آئی تھیں۔ انہوں نے جاکر اپنے والد گرامی حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ وہاں ایک شخص نے بھیڑ دیکھ کر ہم پر مہربانی کی اور ہمار مشکیزہ پانی سے بھردیا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلا بھیجا کہ آیئے ہمارے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ اجرماسقیت لنا ’’جو پانی آپ نے ہمارے لئے بھرا ہے اس کا اجر دیں‘‘۔
لہذا حضرت شعیب علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ جس کا حق ہے اسے بلا کردیا جائے تاکہ اسے مانگنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ یہ سنت شعیب تھی لیکن سنت مصطفوی یہ ہے کہ جس کا حق ہے اسے بلاکر نہ دیا جائے بلکہ اس کے ہاں جاکر دیا جائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ (سنن ابی ماجہ) یعنی اس کے مانگنے سے پہلے ادا کردو تاکہ اسے مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ گویا مرد کے حقوق ہوں یا عورت کے، امیر کے حقوق ہوں یا غریب کے چھوٹے کے حقوق ہوں یا بڑے کے۔ اسلام نے حقوق و فرائض کا نظام ہی حقوق کی ادائیگی پر رکھا ہے اور جس سوسائٹی میں حقوق کے مطالبہ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ اسلامی سوسائٹی نہیں کہلاتی۔ یہ بات ذہن نشین فرمالیں۔
اب میں عرض کررہا تھا عورتوں کے حقوق وہی ہیں جو مردوں کے فرائض ہیں اور مردوں کے فرائض وہی ہیں جو عورتوں کے حقوق۔ حق اور فرض کے اس باہمی رشتہ کو سامنے رکھ کر اب میں دوسرا نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں تاکہ چند غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ ہماری سوسائٹی حقوق میں مساوات مانگتی ہے۔ یہ مطالبہ سراسر خلاف فطرت ہے۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں یہ تقاضا نہیں کرسکتیں کہ ہماری جسامت ایک جیسی ہو۔ ہر شخص یہ تقاضا نہیں کرسکتا کہ وہ ہر جہت سے دوسرے کے برابر ہے۔ تین الفاظ استعمال ہوتے ہیں انصاف، عدل اور احسان۔ انصاف یہ ہے کہ برابر برابر دیا جائے لیکن اگر سو روپے ہیں اور اس میں سے ایک کو پچھہتر دیئے جائیں اور دوسرے کو پچیس تو یہ انصاف نہیں ہے۔ انصاف یہ ہے کہ پچھہتر اور پچیس نہ دیئے جائیں بلکہ دونوں کو برابر برابر دیئے جائیں۔ اسے کہتے ہیں انصاف۔ یہ باب انفعال میں سے ہے یعنی نصف، نصف کردینا۔ آدھا آدھا کردینا۔ انصاف چاہتا ہے کہ دونوں کو برابر کردیا جائے خواہ ان کی ضروریات کم و بیش کیوں نہ ہوں۔ یہ تصور مغرب کے اشتراکی معاشرے نے دیا ہے، انصاف اسلام میں بھی ہے لیکن وہ اسلام انصاف کی بجائے عدل کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ عدل کیا ہے؟ ضرورتوں کو نظر انداز کرکے برابر نہ دیا جائے بلکہ ہر کسی کو اتنا دیا جائے کہ اس کی ضرورتوں کی کفالت ہوجائے جس کو پچھتر درکار ہیں اس کو پچھتر دیئے جائیں۔ جس کو پچیس درکار ہیں اس کو پچیس دیئے جائیں۔ اگر آپ نے ہر ایک کو 50,50 دے دیئے اور ان کی ضرورت پچھتر اور پچیس کی تھی۔ یہ انصاف تو ہوا لیکن عدل نہ ہوا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
(النحل، 16:90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے ‘‘۔
اسلام میں عمل کا کم تر درجہ یہ ہے کہ عمل کو عدل کے درجہ پر کھڑا کیا جائے جو آپ کا حق ہے وہ آپ کو دیا جائے جو دوسرے کا حق ہے وہ دوسرے کو دیا جائے۔ یہ تو کم کا کم تر درجہ ہے لیکن اسلام اسلامی معاشرے میں مرد اور عورت کے معاملات میں عمل کو عدل کی سطح پر نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ احسان کی سطح پر دیکھنا چاہتا ہے۔ انصاف میں حق تلفی ممکن تھی جبکہ عدل میں حق تلفی ممکن نہیں ہے۔ عدل میں ہر شخص کو اس کے حق کے مطابق مل جائے گا جو میرا حق ہے وہ میں رکھ لوں گا جو آپ کا حق ہے آپ کو دے دوں گا۔ عدل اسلام کے نزدیک ہر عمل اور اخلاق کی کم تر حالت ہے اور اعلیٰ حالت یہ ہے کہ احسان کیا جائے اور احسان کی تعریف یہ ہے کہ جو حق آپ کا بنتا ہے اس سے بڑھ کر آپ کو دیا جائے جو حق میرا بنتا ہے اس سے کم خود کو دیا جائے یعنی اپنے حق سے کم رکھا جائے اور دوسرے کے حق سے زیادہ اسے دیا جائے۔ جب معاشرے میں زاویہ نگاہ عدل کی بجائے احسان کا ہوتو کوئی شخص سڑکوں پر باہر نکلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کوئی حق تلفی کی شکایت کرتا نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ہم اسلام کی اصل تعلیمات سے دور جاچکے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کا ایک طویل زمانہ جو ہندو سوسائٹی میں گزرا وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے اندر بھی گھر کررہا ہے۔ جس میں عورت کو نیچا اور گھٹیا تصور کیا جاتا ہے۔ معاشرے کا ایک دوسرے، تیسرے یا چوتھے درجے کا انسان یا فرد تصور کیا جاتا ہے اور بعض جہالت میں پرورش پانے والے گھرانوں میں تو عورتوں کو عزت کے لائق ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ یہ سب کچھ قدیم عیسائیت یا ہندو دَرش کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے عورت کو اس قدر معزز، محترم، مکرم اور معظم مقام عطا کیا ہے کہ اس مقام کی عظمت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عورت بے شک چار مرحلوں ہی سے گزرتی ہے۔ پہلا درجہ عورت کا بیٹی ہے پھر وہ بہن ہے پھر وہ بیوی ہے پھر وہ ماں ہے۔ اسلام کے زاویہ نگاہ سے عورت کو جس سطح پر بھی دیکھیں وہ ایک عظیم انسان نظر آتی ہے۔
(جاری ہے)