اُمتِ مسلمہ کی تاریخ کا جب بھی علم و تحقیق، آزادیٔ اظہار و بیان اور غاصبانہ رویوں سے نجات کے تناظر میں جائزہ لیا جاتا ہے تو ہمیں خواتین کا ایک مضبوط کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام ہی وہ واحد ضابطۂ حیات ہے جس نے خواتین کو ایک باعزت مقام عطا کیا اور اس کے سیاسی، سماجی، اصلاحی، فلاحی، انسانی و دینی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا شعور اجاگر کیا اور پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ خواتین کوئی خرید و فروخت کی چیز نہیں ہیں اور نہ ہی بزور طاقت اسے غلام بنا کر رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے حقوق سلب کئے جاسکتے ہیں، اسلام نے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق و فرائض تفویض کئے۔ خواتین کے انسانی خدمت کے تناظر میں فیصلہ کن کردار سے اسلامی و غیر اسلامی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ خواتین کو عزت و احترام دینے میں اسلام سب سے آگے نظر آتا ہے۔
اسلام نے خواتین کو محض گھریلو ذمہ داریوں تک محدود نہیں کیا بلکہ انہیں حصولِ علم کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کردار ادا کرنے کی تحریک دی، قرآن و حدیث کے فہم، فقہ کی تدوین، روایتِ حدیث اور علم کی مختلف جہتوں کے فروغ میں خواتین اپنا شاندار کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ انسانیت کو ظلم و جبر سے بچانے اور اللہ کے دین کے فروغ و اشاعت میں بھی خواتین کے فیصلہ کن انسانی کردار، تعاون اور جُہدِمسلسل سے تاریخ بھری پڑی ہے، کرہ ارض پر فرعون کے ظلم و جبر کو بطور عبرت پیش کیا جاتا ہے۔ ظلم اور سفاکیت کے اس دور سے نجات دلوانے میں بھی ایک عورت کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر فرعون کی اہلیہ اپنے ظالم خاوند جو شاہ وقت بھی تھا کی سوچ اور منشا کے برعکس نومولود حضرت موسیٰؑ کی حفاظت اور نگہداشت نہ کرتیں تو انسانیت ظالم فرعون سے مزید زخم اٹھاتی۔ اسی طرح زوجۂ رسول مومنین کی ماں حضرت خدیجہؓ کا پیغمبرانہ جدوجہد میں جو کردار ہمیں نظر آتا ہے وہ عورت کے مقام کو عظیم تر بناتا ہے، تاریخ نے نہیں بلکہ خود تاجدارِ کائنات ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی مصاحبت، ان کے ہمدردانہ، مخلصانہ اور رازدارانہ عملی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ آخری سانس تک آپ ﷺ اُن کا بڑی محبت و شفقت کے ساتھ ذکر فرماتے، بعدازاں بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے امہات المومنین اور صحابیات ؓکا علمی اور فکری کردار اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
اگر ہم تحریک پاکستان پر سرسری سی نگاہ دوڑائیں تو یہاں بھی آزادی کی جدوجہدمیں خواتین کا قابل فخر کردار نظر آتا ہے۔ ان میں مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ، بی اماں، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم وقار النساء نون، نشاۃ النساء بیگم حضرت مہانی، نورالصباح بیگم، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم رعنا لیاقت علی خان، لیڈی نصرت عبداللہ ہارون رول ماڈل کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جگہ کی قلت کے باعث یہاں تحریک پاکستان کی تمام خواتین کا ذکر نہیں ہو سکتا تاہم تحریک پاکستان ایسی نامور مجاہدہ خواتین سے بھری ہوئی ہے جو ہم سب کے لئے رول ماڈل ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسلاف کی انہی سُنتوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلام کا یہ ویژن ہے کہ ویمن امپاورمنٹ سے مراد خواتین کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہے اور انہوں نے اس ضمن میں شاندار انسٹی ٹیوشن قائم کئے ہیں جہاں ہزار ہا خواتین زیور علم سے آراستہ ہورہی ہیں۔
(ڈپٹی ایڈیٹر: دختران اسلام)