پیغمبرانہ جدوجہد میں عورت کا کردار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

مرتبہ: جویریہ افضل

پیغمبرانہ جدوجہد، حضور ﷺ کی بعثت کے بعد مشن مصطفوی اور اسلامی تاریخ میں عورت کا بہت بڑا کردار ہے۔ بات بہت پیچھے سے نہ بھی شروع کی جائے تو قرآن حکیم کے مذکورہ دو واقعات کا ذکر موضوع کی مناسبت سے بہت ضروری ہے۔ ان میں سے ایک سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو اس وقت مصر میں فرعون کی حکومت تھی اور فرعون ظلم و جبر اور کفرو طاغوت کا ایک بہت بڑا نمائندہ تھا۔ اس نے حق کے لیے اٹھنے والی کسی بھی تحریک سے اٹھنے والے خدشات کے لیے ایک قانون وضع کیا تھا کہ کسی گھر میں اگر بیٹا پیدا ہوتا تو اسے قتل کروادیتا اور بیٹوں کو زندہ رکھتا۔ اس کے دو بنیادی اسباب تھے جن میں سے ایک تاریخی اور دوسرا ثقافتی تھا۔ تاریخی سبب یہ تھا کہ اس دور کے پرانی کتابوں کا علم رکھنے والے، دانش مندوں اور قیافہ شناسوں نے اسے بتایا تھا کہ عنقریب ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہارا تخت الٹ دے گا۔ اپنی حکومت بچانے کے لیے اس نے یہ تدبیر کی کہ اس کی پہچان تو ممکن نہیں ہے کہ وہ بچہ کون ہوگا اور کس کے گھر پیدا ہوگا۔ لہذا جس کے گھر بھی جو بچہ پیدا ہو اسے مروادیا جائے تاکہ نہ کوئی بچہ زندہ رہے نہ ہی جوان ہوکر اس کے تخت اور سلطنت کو نقصان پہنچائے۔ دوسرا سبب ثقافتی تھا اور وہ یہ تھا کہ فرعون چاہتا تھا کہ اس قوم کو بے ضمیر اور بے غیرت بنادیا جائے اور قومیں جب بے حمیت اور بے ضمیر ہوجاتی ہیں تو اس وقت ان کو غلام بنائے رکھنا حکمرانوں اور آمروں کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ جیسے علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

قومیں جب بے حس ہوجائیں تو انہیں نیکی و بدی، اچھے یا برے اور اپنے یا پرائے کا فرق نظر نہیں آتا۔ اسی لیے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ لڑکوں کی تعداد کم ہوتی جائے اور لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جائے تاکہ بالآخر بے حسی، بے حیائی اور بے ضمیری کو فروغ ملے۔ اس اثناء میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا وقت آگیا۔ آپؑ پیدا ہوئے تو آپؑ کی والدہ ماجدہ نے ڈر کے باعث آپؑ کی ولادت کو چھپائے رکھا کہ کہیں کسی کو علم ہوجائے تو آپؑ کو شہید نہ کردیا جائے۔ اس صورت حال میں اللہ رب العزت نے آپؑ کی والدہ کو رہنمائی عطا فرمائی کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک صندوق میں بند کرکے سمندر میں پھینک دیں۔ اللہ پاک کے امر کے سامنے آپؑ کی ماں نے اپنی مامتا کو پس پشت رکھ دیا۔ وہ سمجھ گئیں کہ اللہ پاک اپنی قدرت کا کوئی کرشمہ دکھانا چاہتا ہے۔ یہاں سے پیغمبرانہ مشن میں ایک عورت کے کردار کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس سے بڑی قربانی کا تصور کیا ہوگا؟ یہ پیغمبرانہ مشن میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔ صندوق فرعون کے محل تک پہنچا۔ صندوق کو فرعون اور اس کی بیوی نے دیکھا، اٹھا کر کھولا تو اندر موسیٰ علیہ السلام کو پایا۔ آپؑ نہایت خوبصورت تھے اور فرعون اور اس کی بیوی کو بھی بیٹے کی تمنا تھی۔ میاں بیوی نے مذاکرے کے بعد بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس بچے کو پالیں گے۔ اب موسیٰؑ کسی کا دودھ نہ پیتے تھے۔ ان کے لیے بچے سے محبت اور بڑھتی ہوئی چاہت کے باعث پریشانی بن گئی کہ اب بچہ کیسے پلے گا۔

اللہ کی نوازشوں کے لیے مردوعورت کا کوئی فرق نہیں۔ اللہ جب کسی کو عطا کرنا چاہے تو وہ محض خلوص دیکھتا ہے۔ اللہ رب العزت ظاہری اعمال اور شکل و صورت نہیں بلکہ دلوں کے حال اور نیتیں دیکھتا ہے۔ اس سے پیغمبرانہ مشن میں ماؤں کے کردار کے تقاضے ظاہر ہوتے ہیں کہ بچوں کو اللہ کے دین کے لیے وقف کریں، ان کی اچھی تربیت کا اہتمام کریں، بچوں کی نشوونما اچھے طریق پر ہو تو پھر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے

اللہ رب العزت کے امر پر عمل کرتے ہوئے حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے اپنی بیٹی کو صندوق کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ دیکھتی رہیں کہ صندوق کس طرف جارہا ہے۔ اس نے صورت حال کو دیکھ کر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک دودھ پلانے والی کو لے آتی ہوں۔ امید ہے بچہ اس کا دودھ پی لے گا۔ اللہ نے قربانی کا اجر یوں دیا کہ موسیٰؑ کو پلٹا کر آپؑ کی والدہ کی گود میں پھر سے ڈال دیا۔ اس سے پہلا نکتہ یہ معلوم ہوگا کہ یہ عمل ہوتا ہے کہ وہ عظیم مشن کے لیے باقی قربانیاں تو درکنار، اپنی مامتا کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں اور اس پر فوری اجر عطا کیا جاتا ہے۔

پیغمبرانہ مشن میں عورت کے کردار کے متعلق دوسرا واقعہ سورۃ آل عمران میں بیان ہوا ہے۔ عمران نامی ایک بزرگ شخصیت کی زوجہ صالح خاتون تھیں جو کہ سیدنا عیسیٰؑ کی نانی اماں تھیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ.

(آل عمران، 3: 35)

’’ اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرما لے۔ ‘‘

حضرت عمرانؑ کے گھر بچہ ہونے والا تھا تو آپ کی زوجہ نے اس خیال کے ساتھ کہ بیٹا ہوگا منت مانی کہ اے اللہ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے میں اسے تیرے اور تیرے دین کے لیے وقف کرتی ہوں اور ’محررا‘ کہہ کر عرض کردی کہ والدین کے طور پر اپنے حقوق ہم اس سے اٹھا کر اسے معاف کرتے ہیں تاکہ کاملاً وہ بچہ تیری نذر ہوجائے تو تو ہمارے اس ارادے کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صالح عورتیں اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی انہیں اللہ کے دین کے لیے وقف کردیتی تھیں۔ آج اس عمل کو پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ہمارا مقصود دنیا ہوگیا ہے۔

جب حضرت عمران کے گھر بچے کا تولد ہوا تو اللہ نے انہیں بیٹی عطا فرمائی۔

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَاۤ اُنْثٰی ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ؕ وَ لَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰی.

(آل عمران، 3: 36)

’’ پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی: مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہو سکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے۔ ‘‘

اللہ نے فرمایا کہ اے زوجہ عمران جس بیٹے کی آپ طالب تھیں اگر وہ بیٹا بھی پیدا ہوجاتا تو اس بیٹی جیسا نہ ہوتا۔ یہ عام بیٹی نہیں ہے سو اس بیٹی کو ہی اللہ کی راہ میں حسب منت اور حسب وعدہ وقف کردے۔ یہاں سے ایک اور اصول وضع ہوا کہ جس طرح مردوں اور بیٹوں کو جہاں تک ہوسکے اللہ کی راہ میں کام کرنا چاہیے۔ اسی طرح عورتوں اور بیٹیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے وقت کا کچھ حصہ اللہ رب العزت کے دین کے لیے باقاعدگی سے صرف کریں کیونکہ اللہ رب العزت حضرت عمرانؑ کی بیٹی کو محض قبول نہیں کیا بلکہ ’بقبول حسن‘ فرماکر بہترین قبولیت عطا فرمائی۔ پھر فرمایا:

وَّاَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا.

(آل عمران، 3: 37)

’’ اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا اور اس کی نگہبانی زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کر دی۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے ایک عظیم مقصد کے لیے اس کی پرورش کا اہتمام کیا۔ حضرت زکریاؑ نے اس بیٹی کی تربیت کی اور اس کا نام مریمؑ یعنی پاکیزہ بیٹی رکھا گیا۔ مریمؑ، اللہ کی عبادت میں لگ گئیں۔ آپؑ ایک حجرہ میں مقیم تھیں۔ حضرت زکریاؑ بعض اوقات دروازہ باہر سے مقفل کرکے چلے جاتے اور جب واپس آتے تو دیکھتے کہ بند کمرے میں بے موسم پھل اللہ آپؑ کو عطا فرمادیتا۔ ارشاد ربانی ہے:

کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا.

(آل عمران، 3: 37)

’’ جب بھی زکریا (علیہ السلام) اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا: اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟‘‘

اگر کوئی بیٹی اللہ کی راہ میں وقف ہوجائے تو اللہ اسے بے موسم پھل عطا فرماتا ہے اور اس پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں کیونکہ بیٹوں کا دین کے لیے وقف ہونا آسان ہے اور بیٹیوں کے لیے مشکل ہے۔ جو والدین اللہ کی رضا کے لیے مشکل قدم اٹھاتے ہیں، اللہ اسی حساب سے اپنی رحمتیں اور برکتیں بھی زیادہ عطا فرماتا ہے۔ آگے ارشاد ذوالجلال ہے:

اِنَّ اللهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ.

(آل عمران، 3: 37)

’’ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ ‘‘

حضرت عمرانؑ کے گھر بچہ ہونے والا تھا تو آپ کی زوجہ نے اس خیال کے ساتھ کہ بیٹا ہوگا منت مانی کہ اے اللہ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے میں اسے تیرے اور تیرے دین کے لیے وقف کرتی ہوں اور ’محررا‘ کہہ کر عرض کردی کہ والدین کے طور پر اپنے حقوق ہم اس سے اٹھا کر اسے معاف کرتے ہیں تاکہ کاملاً وہ بچہ تیری نذر ہوجائے تو تو ہمارے اس ارادے کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صالح عورتیں اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی انہیں اللہ کے دین کے لیے وقف کردیتی تھیں۔ آج اس عمل کو پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ہمارا مقصود دنیا ہوگیا ہے

اللہ کی نوازشوں کے لیے مردوعورت کا کوئی فرق نہیں۔ اللہ جب کسی کو عطا کرنا چاہے تو وہ محض خلوص دیکھتا ہے۔ اللہ رب العزت ظاہری اعمال اور شکل و صورت نہیں بلکہ دلوں کے حال اور نیتیں دیکھتا ہے۔ اس سے پیغمبرانہ مشن میں ماؤں کے کردار کے تقاضے ظاہر ہوتے ہیں کہ بچوں کو اللہ کے دین کے لیے وقف کریں، ان کی اچھی تربیت کا اہتمام کریں، بچوں کی نشوونما اچھے طریق پر ہو تو پھر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جب زکریاؑ نے آپؑ کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو آپؑ کے دل میں بھی ایک بیٹے کی طلب تھی تاکہ وہ بیٹا نبوت کی نعمت کا وارث بنے جبکہ آپؑ کی عمر نوے سال سے بھی اوپر ہوچکی تھی۔ قرآن حکیم نے بیان کیا:

ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ.

(آل عمران، 3: 38)

’’ اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی۔ ‘‘

زکریاؑ نے عرض کیا کہ اے اللہ! جب تو نے اس نیک بیٹی کو بے موسم پھل عطا کردیے ہیں تو میں اسی جگہ پرکھڑا ہوکر اپنے لیے بے موسم پھل یعنی عمر رسیدگی میں بیٹے جیسی نعمت کی دعا کرتا ہوں۔ اس دعا کی قبولیت پر اللہ رب العزت نے آپؑ کو حضرت یحییٰؑ عطا فرمائے اور پھر حضرت مریمؑ سے بن باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوئی۔ اللہ رب العزت نے پیغمبرانہ مشن جاری کرنے کے لیے ایک عورت کو چنا۔ اس مشن میں عورت کے کردار کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت مریمؑ کے حوالے سے صرف ان کی ماں کا ذکر قرآن حکیم میں کیا گیا، باپ کا محض نام معلوم ہوا ’امراۃ عمران‘ کے الفاظ سے آپؑ کا تعارف دیا گیا کیونکہ ساری قربانی آپؑ کی ماں کی تھی۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت مبارکہ کے وقت میں بھی الوہی منصوبہ کے مطابق عورت کا بڑا کردار ہے۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ ﷺ کے والد گرامی کو اللہ نے اٹھا لیا تاکہ امت غور کرے کہ عورت کا کردار دین کے معاملے میں کتنا اہم ہے۔ حضور ﷺ ، سیدہ آمنہؑ کی گودہ میں آئے اور پھر پرورش کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو چنا گیا۔ چار سال آپؓ نے حضور ﷺ کی پرورش کی اور پھر آپ ﷺ کو آپ کی والدہ ماجدہ کے حوالے کردیا۔ یوں اپنی والدہ ماجدہ کی وفات تک آپ سرورِ کونین ﷺ کی پرورش کی مکمل ذمہ داری عورتوں کو دی گئی۔

پھر آپ ﷺ کی عمر مبارک کے چالیس سال پورے ہوئے تو آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ.

(العلق، 96: 1۔ 5)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘

وحی کے نزول کے بعد آپ ﷺ کے جسم اقدس پر کپکپی طاری ہوئی اور گھر آکر سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ سے فرمایا زملونی، زملونی۔ انھوں نے آپ ﷺ پر کملی اوڑھائی اور آپ ﷺ کی بعثت کا پہلا بیان سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے روایت کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ یتیموں اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے والے ہیں۔ آپ ﷺ مہمانوں کی میزبانی فرمانے والے ہیں۔ آپ ﷺ پریشان حال انسانیت کی چارہ گری کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ اچھا اخلاق رکھنے والے اور قرض داروں کا قرض ادا کرنے والے ہیں۔ عرض کیا کہ آقاؑ! آپ ﷺ کا اتنا بلند کردار اور مطہر سیرت ہے کہ اللہ پاک آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا اور آپ ﷺ کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ پھر جب اعلانِ نبوت ہوگیا تو روئے زمین پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف بھی اللہ پاک نے ایک عورت سیدہ خدیجہؓ کو عطا فرمایا۔

پھر اللہ رب العزت نے اسلام پر سب سے پہلے قربانی دینے کا شرف بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کو نوازا۔ اعلان نبوت کے فوراً بعد آپ ﷺ کو طرح طرح کی مخالفتوں کا سامنا رہا، اس وقت تنہا سیدہ خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی مالی و اخلاقی مدد کا شرف پایا۔ اتنی خدمات کا نتیجہ تھا کہ حضور ﷺ ، مدینہ طیبہ میں، عمر کے آخری حصہ میں بھی حضرت خدیجہؑ کا اسلام پر احسان یاد فرماتے۔ جب حضور ﷺ مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت فرماگئے تو سیدہ عائشہؓ کے زمانہ میں بھی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو آپ ﷺ یاد فرماتے۔ آپ ﷺ جب بھی جانور قربان کرتے تو سیدہ خدیجہؓ کی یاد میں، ان کی سہیلیوں کے گھر گوشت بھجواتے۔ آپ ﷺ انہیں یاد کرتے اور ان کے احسانات کا تذکرہ فرماتے۔ حتی کہ ایک روز سیدہ عائشہؓ کو رشک آگیا اور کہنے لگیں کہ یارسول اللہ ﷺ ! اب میں آپ ﷺ کی زوجہ ہوں، کیا آپ ﷺ ابھی تک اس بوڑھی کو نہیں بھولے؟ حضور ﷺ نے فرمایا، عائشہؓ! میں اسے کیسے بھولوں کہ جب میرا کوئی ساتھ دینےوالا نہ تھا تو خدیجہؓ نے میرا ساتھ دیا اور اپنی ساری دولت میرے دین کے لیے قربان کردی۔

اس کے بعد پیغمبرانہ مشن میں عورت کے کردار کی ذیل میں سیدہ عائشہؓ کا ذکر آتا ہے۔ جس طرح حضرت خدیجہؓ کی تحریکی و مالی خدمات ہیں، اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی علمی خدمات ہیں۔ ہزارہا صحابہ نے سیدہ عائشہؓ سے حدیث مبارکہ سنیں، سیکھیں اور آگے روایت کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں احادیث حضرت عائشہؓ سے مروی ہیں۔

آپ ﷺ نے سیدہ عالم حضرت فاطمہؓ کو امت کے لیے ایک نمونہ بنایا اور پھر آپؑ کو وہ مقام عطا فرمایا کہ جب آپؑ تشریف لائیں تو حضور ﷺ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے اور آپؑ کے لیے اپنی چادر بچھاتے، اس لیے کہ اس بیٹی کو حسنؑ و حسینؑ کے لیے منتخب کیا تھا۔ جن سے اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی لی جانی تھی۔ آقاؑ کی نسل آگے چلانے کےلیے بھی اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی بجائے بیٹی کی ذمہ داری لگائی۔ یہ تمام واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں پیغمبرانہ مشن میں ایک عورت کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ پھر صحابیات نے اپنی قربانیوں کے خون سے اسلام کے پودے کو سیراب کیا۔ کوئی ایک غزوہ بھی ایسا نہ تھا کہ جس میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ صحابیات نے شرکت نہ کی ہو۔ صحابہؓ تلوار تھام کر جنگ لڑتے تو صحابیات اس میں میڈیکل ایڈ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتیں۔

اس کے علاوہ اللہ رب العزت کے عشق کے درجات و کیفیات میں بھی اللہ نے اتنا ہی مقام عطا فرمایا جتنا مردوں کو عطا ہوا تھا۔ حدیث مبارکہ میں ہے حضور ﷺ غزوہ احد سے پلٹے اور ایک افواہ پھیل گئی کہ حضور ﷺ اس غزوہ میں شہید ہوگئے۔ انصاری قبیلہ کی ایک خاتون کا باپ، بھائی اور شوہر اس غزوہ میں شریک تھے۔ جب حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو ہر شخص حضور ﷺ کی خبر گیری کے لیے گھر سے باہر آگیا۔ ان میں وہی انصاری عورت بھی احد سے آنے والے راستے میں کھڑی ہوگئی۔ چونکہ ستر صحابہؓ اس غزوہ میں شہید ہوگئے تھے اور ستر صحابہؓ ہی زخمی ہوگئے تھے۔ جس جس صحابی کی مبارک میت اٹھا کر لاتے اور وہ خاتون اس کو دیکھ لیتی تو پریشانی کے عالم میں پوچھتی کہ یہ کون ہے؟ اسے بتایا جاتا کہ یہ تمھارے باپ کی شہادت ہوگئی۔ وہ کہتی مجھے میرے آقاؑ کا بتاؤ کہ آپ ﷺ کیسے ہیں؟

دوسری میت اس کے پاس سے گزری اور اسے بتایا گیا کہ تمھارے شوہر کی شہادت ہوگئی تو وہ کہنے لگی کہ شوہر کی خبرلینے نہیں آئی، مجھے میرے آقاؑ کا بتاؤ۔ تیسری میت اس کے بھائی کی تھی اور چوتھی میت اس کے جوان بیٹے کی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ ٹھیک ہے، سارا خاندان اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا لیکن مجھے فکر نہیں، مجھے بس یہ بتاؤ کہ میرے آقاؑ کا حال کیا ہے؟ اسے بتایا گیا کہ حضور ﷺ تمھارے آگے تشریف لے جاچکے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ وہ دیوانہ وار دوڑی کہ مجھے حضور ﷺ کی بارگاہ میں لے چلو، میں اپنی آنکھوں سے حضور ﷺ کو سلامت دیکھنا چاہتی ہوں۔ انہیں لایا گیا تو انھوں نےآقا ﷺ کی قمیض کا دامن بے ساختہ پکڑ لیا اور عرض کرنے لگی، حضور ﷺ ! میرا باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر سب شہید ہوگئے، آپ ﷺ سلامت ہیں تو میرے لیے سب خیر ہے۔ عورت جب محبت حقیقی کے اس درجے پر پہنچ جائے تو پھر سب کچھ لٹ جانے پر بھی دکھ نہیں ہوتا کیونکہ سارے دکھ اور سب راحتیں حضور ﷺ سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔

اسی طرح حدیث پاک میں ایک واقعہ آتا ہے کہ جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو سیدہ عائشہؓ کے پاس ایک خاتون آئی اور کہنے لگی کہ اے سیدہ عائشہؓ! خدا کے لیے میرے حضور ﷺ کی قبر انور کا دروازہ کھول دیں تاکہ میں دیدار کرلوں۔ سیدہ عائشہؓ نے دروازہ کھولا، اس عورت نے زیارت کی اور دیر تک روتی رہی حتی کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ عشق کا یہ مرتبہ کہ کوئی قبر انور دیکھ کر رو رو کر وفات پاگیا ہو، ایسا مرتبہ اللہ نے مردوں کو عطانہیں کیا۔

حضرت زید بن اسلمؓ روایت کرتے ہیں حضرت عمر فاروقؓ ایک رات مدینہ پاک کی گلیوں میں خبر گیری کے لیے نکلے۔ آپؓ ایک دروازے پر آئے تو ایک آواز سے یہ گمان کرتے ہوئے کہ کوئی پریشان ہے، آپؓ رک گئے اور سنا تو ایک بوڑھی عورت چرخہ کاٹتے ہوئے کچھ اشعار عشق رسول ﷺ میں گنگنارہی تھی۔ آپؓ نے وہ اشعار سن کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی، کون؟ آپؓ نے فرمایا: عمرؓ۔ اس نے کہا آدھی رات بیت گئی، اس وقت حضرت عمرؓ کو ہم سے کیا کام ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ بی بی! دروازہ کھولیں، میں اندر آنا چاہتا ہوں۔ اس نے دروازہ کھولا تو آپؓ اندر چلے گئے اور فرمایا کہ وہ اشعار مجھے دوبارہ سنادیں۔ اس خاتون نے دوبارہ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ راتوں کو جاگنے والے تھے۔ اللہ پاک اور بعض لوگ آپ ﷺ پر درود کی بارشیں کرتے ہیں۔ موت حق ہے اور اس کے اسباب بہت سے ہیں۔ اس موت نے ہمیں آپ ﷺ سے جدا کردیا۔ کاش! کوئی مجھے آکر یہ یقین دلادے کہ مرنے کے بعد آپ ﷺ سے ملاقات ہوجائے گی۔

اسی طرح حدیث پاک میں ایک واقعہ آتا ہے کہ جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو سیدہ عائشہؓ کے پاس ایک خاتون آئی اور کہنے لگی کہ اے سیدہ عائشہؓ! خدا کے لیے میرے حضور ﷺ کی قبر انور کا دروازہ کھول دیں تاکہ میں دیدار کرلوں۔ سیدہ عائشہؓ نے دروازہ کھولا، اس عورت نے زیارت کی اور دیر تک روتی رہی حتی کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ عشق کا یہ مرتبہ کہ کوئی قبر انور دیکھ کر رو رو کر وفات پاگیا ہو، ایسا مرتبہ اللہ نے مردوں کو عطانہیں کیا

سیدنا عمرؓاس حصے پر تڑپ اٹھے اور کہنے لگے کہ حضور ﷺ سے ملاقات کی بات پر تنہا اپنا نام نہ لیں بلکہ عمرؓ کا بھی نام لیں کیونکہ میں بھی حضور ﷺ کے ہجر میں راتوں کو روتا رہتا ہوں۔ انھوں نے دوبارہ اشعار پڑھ کر سیدنا عمرؓ کا نام لیا تو ایسی کیفیت بنی کہ آپؓ اسی گھر کے صحن میں بیٹھ گئے اور حضور ﷺ کے ہجر میں روتے رہے۔ قاضی سلیمان منصور پوری نے یہاں سے روایت کیا کہ پھر آپؓ گھر گئے اور کئی دن تک بستر پر بیمار پڑے رہے اور صحابہ کرامؓ آپ کی عیادت کو آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ خواتین میں حضور ﷺ سے محبت کے عشقی، حبی اور قلبی درجے کس قدر بلند ہوتے تھے۔

اللہ رب العزت کی طاعت اور عبادت میں سیدہ فاطمۃ الزہراؓ ساری کائنات کی عورتوں کے لیے نمونہ ہیں۔ دن بھر خدمت کرتیں اور رات کو حسنین کریمینؓ کو لٹا کر رات بھر قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ کبھی آپؑ قیام کرتیں تو ہزار ہزارنفل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ادا فرماتیں۔ پھر اللہ نے اس امت کو رابعہ بصریؒ بھی عطا کیں کہ دن بھر مالک کی خدمت کرتیں اور رات کو مصلے پر اللہ کے حضور گڑگڑا کر عبادت کرتیں۔ ایک رات ان کے مالک نے جائزہ لیا کہ آپؒ کہاں ہیں تو دیکھا کہ مصلے پر رو رہی ہیں اور عرض کررہی ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ دن رات تیری عبادت کروں لیکن دن میں تو نے ایک اور مالک مقرر کردیا ہے تو جب وہاں سے فارغ ہوتی ہوں تو تیری بارگاہ میں حاضر ہوجاتی ہوں۔ جب مالک نے یہ باتیں سنیں تو اس نے توبہ کرتے ہوئے کہا کہ آپؒ آزاد ہیں۔ آج سے آپؒ مالک اور میں غلام ہوں۔ اگر آپؒ کا جی چاہے تو یہیں رہ لیں۔ سیدہ رابعہ بصریؒ نے فرمایا کہ اب آپؒ نے آزاد کردیا ہے تو میں تنہا اللہ رب العزت کی غلام رہوں گی۔ حضرت رابعہ بصریؒ جب معرفت پر گفتگو کرتیں تو کہا جاتا کہ آپؒ معرفت کا سمندر ہیں۔ آپؒ نے ایک مرتبہ عبادت کرتے ہوئے سالہا سال مکہ مکرمہ کی جانب سفر طے کیا۔ حج کے موقع پر پہنچ کر عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ! اپنی تجلی عطا کر۔ اوپر دیکھا تو عالم کشف میں کون کا سمندر پایا۔ عرض کیا کہ یہ خون کس کا ہے تو فرمایا گیا کہ یہ مجھ سے محبت رکھنے والوں کی آرزوؤں کا خون ہے۔ انھوں نے اپنی محبتیں اور تمنائیں میرے عشق میں ذبح کردی ہیں۔ عرض کیا کہ مجھے بھی ان عاشقوں میں شامل فرمالے اور اپنی ایک تجلی عطا کر۔ اسی اثناء میں نسوانی کیفیت کے باعث پردہ آگیا اور آپؒ کو تجلی نہ مل سکی۔ عالم غیب سے آواز آئی کہ میرے عاشقوں کا حال یہ ہے کہ سالہا سال عبادت کرتے ہوئے میری تجلی کے لیے سفر طے کرتے ہیں اور ایک معمولی سی رکاوٹ کے باعث محروم رہتے ہیں۔ پھر دل شکستہ نہیں ہوئے بلکہ تازہ دم ہوکر دوبارہ سفر کرتے ہیں۔ یہ معرفت حق میں استقامت کا درجہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہر باب میں عورتوں کے بڑے درجے رکھے ہیں اور اس دور میں تحریک منہاج القرآن خواتین کے اس کردار کی یاد تازہ کروارہی ہے۔