قرآن وسنت کے تناظر میں قدرتی مناظر کی اہمیت

شہناز بیگم

تعارف

انسان اور فطرت کا تعلق ازل سے ہے۔ انسان فطرت کا حصہ ہے۔ قدرتی مناظر انسان کے اندر سکون، توازن، ایمان، شکرگزاری، صحت مندی اور روحانی بیداری پیدا کرتے ہیں۔ جدید دور کی مصروفیات، مشینی زندگی، اسکرین ٹائم اور ذہنی دباؤ نے انسان کو فطرت سے دور کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرتی ماحول کے ساتھ وقت گزارنا انسان کی جسمانی، ذہنی، روحانی، علمی اور اخلاقی نشوونما کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوری کے نتیجے میں جسمانی، ذہنی، روحانی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

قدرتی مناظر انسان کی زندگی میں محض دلکشی کا سامان نہیں، بلکہ روح کی تہوں تک اُتر جانے والی وہ لطیف تاثیر رکھتے ہیں جو کسی اور ذریعے سے میسر نہیں آتی۔ پہاڑوں کی بلندیاں، دریاؤں کی روانی، جنگلوں کی خنک فضا اور صحرا کی خاموش وسعتیں انسان کو اس کے اصل سے جوڑتی ہیں۔ یہی مناظر زندگی کے بے ہنگم شور میں ایک ایسا ٹھہراؤ پیدا کرتے ہیں جو ذہنی صحت اور فکری مرکزیت کے لیے ناگزیر ہے۔ فطرت کا قرب انسان کے اندر جمالیاتی حس پیدا کرتا ہے اور سوچ کو نئی جہتیں عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مہذب معاشرہ قدرتی فضا کے تحفظ کو اپنی تہذیبی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

قدرتی مناظر کا دوسرا پہلو معاشی و ماحولیاتی حیثیت سے انتہائی اہم ہے۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے ملک اپنے قدرتی سرمایہ—جنگلات، دریاؤں، چراگاہوں، ساحلی پٹیوں اور حیاتیاتی تنوع—کو ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے ہیں۔ یہی قدرتی وسائل موسموں کے توازن، صاف پانی کی فراہمی، زرخیز مٹی، آکسیجن، بارش اور نکاسی آب کے نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔ اگر فطرت کی یہ نعمتیں ضائع ہوں تو شہروں کی چمک دمک بھی بے معنی اور ساری تکنیک بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ اس لیے فطرت کی حفاظت دراصل انسان کی اپنی زندگی، صحت اور آنے والی نسلوں کی بقا کی ضمانت ہے۔

آج کے دور میں جب انسان بے تحاشا شہری توسیع، صنعتی آلودگی اور بے رحمانہ درخت بُرادری کے باعث فطرت سے دور ہوتا جا رہا ہے، تو قدرتی مناظر کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ جو قومیں فطرت کو اپنے شہروں، تعلیمی اداروں، رہائشی منصوبوں اور عوامی مقامات کا لازمی حصہ بناتی ہیں، وہ زیادہ خوش، صحت مند اور پُرسکون زندگی گزارتی ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات، مذہبی تعلیمات اور فکری مطالعے اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی مناظر کے ساتھ وقت گزارنا انسان کی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اسلام نے بھی باربار انسان کو فطرت، پہاڑوں، درختوں، آسمان، زمین، بادلوں، بارش، جانوروں اور قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کا حکم دیا ہے۔

قرآنی آیات میں فطرت کی اہمیت

قرآنِ مجید میں بارہا انسان کو زمین و آسمان، پہاڑوں، درختوں، دریاؤں اور دیگر قدرتی مظاہر میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً 750 آیات قدرت، فطرت، کائنات اور مظاہرِ فطرت کے ذکر پر مشتمل ہیں۔ جن میں سےچند ایک درج ذیل ہیں۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَاب.

(آلِ عمران، 3: 190)

"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءَ لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ.

(النحل، 16: 10)

"وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایاجس سے تم پیتے ہو اور اسی سے درخت اگتے ہیں جن میں تم اپنے جانور چراتے ہو۔ "

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ.

(الروم، 30: 41)

"خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے لوگوں کے اعمال کے سبب سے، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید وہ باز آ جائیں۔ "

یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ فطرت میں غور و فکر انسان کو خالق کی معرفت، شکرگزاری اور توازن کی طرف لے جاتا ہے۔

وَ الْجِبَالَ اَرْسٰىهَاۙ.

(النازعات، 79: 32)

اور پہاڑوں کو مضبوط گاڑ دیا۔

پہاڑ انسان کے لیے استحکام، طاقت اور اللہ کی عظمت کی علامت ہیں۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ.

(آل عمران، 3: 190)

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ ‘‘

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیْئٍ.

(الأنعام، 6: 99)

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا.

(العنكبوت، 29: 20)

زمین کی سیر انسان میں فکر، علم، تجربہ اور شعور پیدا کرتی ہے۔

احادیثِ نبوی ﷺ میں فطرت کی اہمیت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

زمین تمہارے لیے مسجد اور پاکیزہ بنائی گئی ہے۔ (صحیح بخاری)

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین اور فطرت انسان کے لیے عبادت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا۔ کہ

اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے۔

(مسند احمد)

یہ حدیث فطرت سے محبت، درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کی ترغیب دیتی ہے۔

رسول ﷺ نےیہ بھی فرمایا:

’’ایک ساعت کا تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ ‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح)

قدرتی مناظر میں تفکر اس حدیث کا بہترین عملی راستہ ہے۔ نبی ﷺ نے غارِ حرا میں تنہائی اختیار کی۔ یہ خود فطرت میں عبادت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ صفائی، حفاظت اور درخت لگانا سنت ہے۔ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ

"جو مسلمان درخت لگاتا ہے، اس کا پھل صدقہ ہے۔ "

روحانی و مذہبی فوائد

آیاتِ فطرت انسان کو خالق کے قریب کرتی ہیں۔ قدرتی مناظر انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دیتے ہیں۔ قدرتی مناظر میں غور و فکر ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ فطرت میں تنہائی اختیار کرنا مراقبہ، دعا اور عبادت کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ فطرت انسان کو عاجزی، شکرگزاری اور قناعت سکھاتی ہے۔ پہاڑوں، سمندر اور آسمان کے مشاہدے سے انسان اپنی حقیقت پہچانتا ہے۔ اسلام میں تدبر اور غور و فکر عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔

سیر و سیاحت میں تدبر و عبرت مقصود ہونے کے ساتھ ساتھ یقین کی پختگی کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ کائنات بہت خوب صورت اور رنگین ہے اس میں بڑے دلکش نظارے اور مناظر ہیں کہیں صحراو میدان ہیں تو کہیں دلکش پہاڑ اور وادیاں اور کہیں بہتے دریاو سمندر یہ تمام چیزیں اِس کائنات کے خالق و مالک اور اُس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں تو جب انسان سیر و سیاحت کے ذریعے ان پُر کیف نظاروں کو دیکھتا ہے اور کائنات کے عجائب و غرائب اور زمین کے نشیب و فراز دیکھتا ہے تو اُس آدمی کا یقین اللہ تعالیٰ کی ذات پر مزید پختہ ہوجاتا ہے اور وہ بے اختیا رپکار اُٹھتا ہے کہ اےاللہ تو ہی اس کائنات کا خالق ومالک اور تیری ذات ہی ان دلفریب نظاروں کو پیدا کرنے پر قادر ہے کسی اور کے بس کی بات نہیں-

سماجی فوائد

فطرت میں اجتماعی سرگرمیاں (جیسے پکنک، کیمپنگ، باغبانی) خاندانی تعلقات کو مضبوط کرتی ہیں۔ فطرت کے قریب رہنے والے افراد میں ہمدردی، تعاون اور سماجی ہم آہنگی زیادہ پائی جاتی ہے۔ فطرت انسان کو معاشرتی توازن اور دوسروں کے حقوق کا احساس دلاتی ہے۔ سیر و سیاحت سے انسان اپنے اندرفرحت و خوشی محسوس کرتاہے بوریت ختم ہوجاتی ہے تو دل بہتر طریقے سے کام کرنے لگ جاتاہے جسمانی اور دماغی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو اپنے دینی اور دنیاوی کام بہتر طریقے سے کرنے کی ہمت پیداہوتی ہے سیروسیاحت آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے اور آپ کی تخلیقی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے ہر روز نئے لوگوں سے ملنا اُن کی گفتگو اور کلام سننا، اُن کے کلچر کا مشاہدہ کرنا اور اُن کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے سے آپ کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتاہے اور دنیا کوسمجھنے کا موقع ملتاہے۔

قدرتی مناظر کے سائنسی فوائد

جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ فطرت کے قریب رہنا جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ بلڈ پریشر متوازن ہوتا ہے۔ دل کے امراض میں کمی ہوتی ہے۔ نیند بہتر ہوتی ہے۔ قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔ سانس کی بیماریوں میں بہتری آتی ہے۔ صاف ہوا پھیپھڑوں کو مضبوط کرتی ہے۔ موٹاپا کم ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق جنگل میں وقت گزارنے سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے۔ (Shinrin-Yoku Forest University (2015)

دل کی دھڑکن متوازن رہتی ہے۔ اور مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

قدرتی ماحول میں چہل قدمی کرنے والے افراد میں کی ایک ریسرچ کے مطابق

منفی خیالات اور ڈپریشن کی شرح کم پائی گئی۔ فطرت میں ورزش کرنے سے ذہنی دباؤ 70 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

University of Essex (UK) 2015

cortisol (stress hormone) 25% روزانہ 20–30 منٹ فطرت میں گزارنے س کی تحقیق کے مطابق کم ہو جاتا ہے۔ (Harvard Medical School 2019) میں 20% اضافہ دیکھا گیا۔

تحقیق کے مطابق سبزہ میں وقت گزارنے والے افراد کی memory retention میں 20% اضافہ دیکھا گیا۔ (University of Michigan 2012)

10 منٹ نیچر واک سے موڈ 60% تک بہتر ہوجاتا ہے۔ (British Journal of Sports Medicine 2020)

قدرتی روشنی کا سامنا نزدیک بینی کے خطرے کہ کم کرتا ہے۔ قدرت میں واک، ٹریکنگ، ہائیکنگ صحت مند سرگرمیاں ہیں۔ (American Academy of Ophthalmology 2021)

قدرتی مناظر کے ساتھ وقت نہ گزارنے کے نقصانات

قدرتی مناظر انسان کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ جب انسان فطرت سے دور رہتا ہے تو اس کے جسم اور دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ قدرتی ماحول سے دوری انسان کی صحت، رویے اور زندگی کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔ شہری زندگی میں فطرت سے دوری ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ کرتی ہے۔ مصنوعی ماحول میں رہنے سے جسمانی سرگرمی کم ہوتی ہے، جس سے موٹاپا اور دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں۔ فطرت سے کٹاؤ انسان کو خود غرض، بے حس اور غیر متوازن بنا دیتا ہے۔ بچوں میں فطرت سے دوری توجہ کی کمی، تخلیقی صلاحیت میں کمی اور سوشل اسکلز کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔

جسمانی صحت پر اثرات

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش کی ایک رپورٹ کے مطابق، قدرتی ماحول میں جسمانی سرگرمی جیسے چہل قدمی یا سائیکل چلانا دل کی بیماریوں، ذیابطیس اور موٹاپے کے خطرات کو کم کرتا ہے۔ قدرت سے دوری جسمانی سستی اور کمزوری کا باعث بنتی ہے۔

روحانی سکون کی کمی

اسلامی تعلیمات میں بھی قدرت کے مشاہدے کو غور و فکر کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر انسان کو فطرت میں موجود نشانیوں پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جدید تحقیق بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ قدرتی مناظر روحانی سکون اور شکرگزاری کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔

ذہنی دباؤ میں اضافہ

یونیورسٹی آف مشی گن (2015) کی تحقیق کے مطابق، جو لوگ فطرت سے دور رہتے ہیں ان میں ذہنی دباؤ کی سطح زیادہ پائی جاتی ہے۔ قدرتی مناظر ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں۔

ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ

اسٹینفورڈ یونیورسٹی (2015) کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ شہری علاقوں میں رہتے ہیں اور قدرتی مناظر سے دور ہیں، ان میں ڈپریشن اور بے چینی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

نیند کے مسائل

قدرتی روشنی اور تازہ ہوا نیند کے نظام کو بہتر بناتی ہے۔ فطرت سے دوری نیند کے معیار کو متاثر کرتی ہے، جیسا کہ نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن (2018) کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔

جسمانی سرگرمی میں کمی

قدرتی ماحول جسمانی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ فطرت سے دور رہنے والے افراد میں جسمانی سستی اور موٹاپے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

قوتِ مدافعت میں کمی

یونیورسٹی آف ٹوکیو (2010) کی تحقیق کے مطابق، قدرتی ماحول میں وقت گزارنے سے جسم کے مدافعتی خلیات فعال ہوتے ہیں۔

قوتِ مدافعت کو فطرت سے دوری کمزور کرتی ہے۔

توجہ اور یادداشت میں کمی

یونیورسٹی آف الینوائے (2008) کی تحقیق کے مطابق، قدرتی مناظر دماغی توجہ اور یادداشت کو بہتر بناتے ہیں۔ فطرت سے دوری توجہ کی کمی اور ذہنی تھکن کا باعث بنتی ہے۔

تخلیقی صلاحیت میں کمی

قدرتی ماحول تخلیقی سوچ کو بڑھاتا ہے۔ جرنل آف انوائرنمنٹل سائیکالوجی (2012) کے مطابق، فطرت سے دور رہنے والے افراد میں تخلیقی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

دل کی بیماریوں کا خطرہ

ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ (2016) کی تحقیق کے مطابق، جو لوگ سبز علاقوں سے دور رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

بچوں کی نشوونما پر منفی اثر

امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (2019) کے مطابق، جو بچے قدرتی ماحول سے دور رہتے ہیں ان میں توجہ، سیکھنے اور جسمانی نشوونما کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔

ذہنی تھکن اور برن آؤٹ

انوائرنمنٹل ہیلتھ پرسپیکٹیوز (2017) کی تحقیق کے مطابق، فطرت سے دور رہنے والے افراد میں ذہنی تھکن اور برن آؤٹ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

عملی تجاویز

اسکولوں میں روزانہ کم از کم 40 منٹ باقاعدہ آؤٹ ڈور وقت شامل کریں۔ شہری منصوبہ بندی میں سبز جگہوں کا تناسب بڑھائیں۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو روزانہ اسکول اورگھر کے بعد باہر کھیلنے کی ترغیب دیں اوراسکرین ٹائم محدود کریں۔ طبی رہنماؤں کو ذہنی صحت کی ہدایات میں "قدرتی مناظر تک رسائی" کو شامل کرنا چاہیے۔ روزانہ کم از کم 30 منٹ فطرت میں گزارنے کی عادت اپنائی جائے۔ شہری علاقوں میں درخت لگانے، پارکوں اور باغات کے قیام کو فروغ دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں فطرت سے متعلق سرگرمیوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ مراقبہ، یوگا یا دعا کے لیے قدرتی ماحول کا انتخاب کیا جائے۔ چھٹی کے دنوں میں پہاڑوں، دریا کنارے یا باغات میں وقت گزارا جائے۔

حاصل کلام

قدرتی مناظر میں وقت گزارنا صرف سیر و تفریح نہیں بلکہ دین، سائنس، صحت اور نفسیات کے اعتبار سے زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے روحانی، ذہنی اور جسمانی فوائد انسان کو ایک متوازن، پر سکون، اور اللہ کے قریب زندگی عطا کرتے ہیں۔ اسلام نے فطرت میں غور و تدبر کو عبادت قرار دیا ہے۔ قدرتی مناظر کے ساتھ وقت گزارنا انسانی جسم، ذہن اور روح کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ فطرت انسان کو توازن، سکون، ایمان اور زندگی کی اصل معنویت سے روشناس کراتی ہے۔ قرآن و سنت، سائنسی تحقیق اور انسانی تجربہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ فطرت کے قریب رہنا ایک صحت مند، پُرسکون اور بامقصد زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدرت سے دوری انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔