اسلام اپنی اساس میں ایک ایسا دین ہے جس نے انسانی اخلاق کو نئی زندگی عطا کی۔ اسلام صرف عبادات اور شرعی فرائض کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک کامل اخلاقی نظام ہے جس نے انسان کی باطنی اور ظاہری زندگی دونوں کو سنوارنے کی تعلیم دی۔ اسلام کی بنیاد جس نورانی حقیقت پر قائم ہے وہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اخلاق کی تکمیل ہے اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں خاندان اور گھریلو زندگی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں معاشرت کے وسیع میدانوں میں حسنِ اخلاق کی تلقین فرمائی، وہیں گھر کے دائرے کو اخلاق کا سب سے پہلا اور سب سے اہم میدان قرار دیا عرب معاشرہ جہاں طاقت، قبائلیت اور انتقام کو فضیلت سمجھتا تھا، وہاں رسول اکرم ﷺ نے اخلاقِ حسنہ کو معیارِ برتری قرار دیا۔ قرآن نے بارہا اس امت کی ذمہ داری بیان کی کہ وہ نہ صرف اپنے اجتماعی معاملات میں پاکیزگی اختیار کرے بلکہ گھر کے اندر بھی ایسی تہذیب رائج کرے جس میں محبت، شفقت اور حسنِ معاملہ بنیادی قدر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے بلند درجے پر ہیں۔
اور اسی طرح رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
إنما بعثت لأتمم صالح الأخلاق.
(الأدب المفرد: 273)
’’میں صالح اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ ‘‘
یہ اعلان اُس دور میں ہوا جب انسان اپنی داخلی دنیا میں بکھرا ہوا تھا۔ طاقت، انتقام، مردانگی اور جاہلیت کی اقدار اس کے فیصلوں پر غالب تھیں۔ ایسے ماحول میں رسولِ رحمت ﷺ نے انسان کی بیرونی زندگی کو نہیں بلکہ اس کے باطن کو بدلنے کا آغاز کیا۔ اسلام نے تہذیبِ نفس، تطہیرِ قلب اور حسنِ معاملہ کو کامیابی کا معیار ٹھہرایا۔ اسی اخلاقی انقلاب میں نبی کریم ﷺ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جس نے خاندان، تربیت، محبت، احترام اور انسانی تعلقات کی پوری بنیاد کو نئی سمت عطا کی:
خيركم خيركم لاهله، وأنا خيركم لأهلی.
تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے سب سے بہتر ہو، اور میں تم سب میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
(صحیح الترمذی: 3895)
یہ الفاظ گویا اخلاق کی پوری عمارت کا دروازہ ہیں یہ مختصر سا جملہ مصطفوی اخلاق کا ایسا اصول ہے جو ہر مسلمان کو یہ سمجھا دیتا ہے کہ اخلاق کا معیار بازار، مسجد، جلسات یا دوستوں کی محفل نہیں بلکہ ان لوگوں کے درمیان ہے جو ہمارے سب سے قریب ہوں، جن کے ساتھ ہم رہتے ہوں، اور جن پر ہمارا روزانہ کا حقیقی اثر پڑتا ہو۔ ۔ یہ حدیث مبارکہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین کا فلسفہ، عبادات کی روح، تقویٰ کی اصل، روحانیت اور اخلاق کا حقیقی معیار سب سے پہلے گھر میں ظاہر ہونا چاہیے۔ اسلام نے انسان کو یہ سبق دیا کہ اچھائی کی سب سے پہلی کرن گھر سے پھوٹتی ہے۔ جس دل میں گھر والوں کے لیے محبت، نرمی اور خیر ہو وہی معاشرے میں روشنی پھیلا سکتا ہے۔ یہ جملہ صرف ایک اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ مصطفوی اخلاق کا مرکزی ستون ہے۔ یہ حدیث انسانی کردار کا وہ پہلو نمایاں کرتی ہے جو اکثر نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے کہ انسان کی اصل شخصیت وہاں سامنے آتی ہے جہاں کوئی رسمی دکھاوا نہیں یعنی گھر کے دروازوں کے اندر۔
قرآن کا تصورِ اخلاق اور گھر کی اصل ذمہ داری
قرآنِ مجید نے بار بار انسان کو گھر والوں کے حقوق ادا کرنے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کی جذباتی و عملی ضرورتوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
(النساء، 4: 19)
اور ان کے (اپنی بیویوں) ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ صرف بیرونی دنیا میں اچھا ہونا کافی نہیں، بلکہ اپنے گھر کے اندر بیوی کے ساتھ نرمی، محبت اور احترام اختیار کرنا ضروری ہے۔ گھر کے اندر تعلقات کی نوعیت معاشرت کی بنیاد ہے، اور اچھا سلوک نہ صرف روحانی ضرورت بلکہ سماجی فلاح کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہ حکم صرف اچھے سلوک یا کسی وقتی نرمی تک محدود نہیں بلکہ ایک ایسا جامع لفظ ہے جو محبت، عزت، نرمی، عدل، معافی، برداشت، مالی کفالت اور جذباتی سہاراسب کو شامل کرتا ہے۔
اسی طرح قرآن نے فرمایا:
وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً.
(الروم، 30: 21)
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔
یہ آیت گھر کو سکون، محبت اور رحمت کی جگہ قرار دیتی ہے۔ یعنی انسان کی شخصیت کا کامل اظہار گھر کے ماحول میں ہونا چاہیے۔ اگر محبت اور سکون گھر سے شروع ہوگا تو انسان معاشرتی تعلقات میں بھی نرمی اور رحمت کا پھیلاؤ کرے گا۔
وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
(لبقرۃ، 2: 83)
’’لوگوں سے اچھی بات کہو۔ ‘‘
یہ آیت اخلاق کی جامع ہدایت ہےاگر انسان گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کرے تو وہ باہر کے تعلقات میں بھی حسنِ اخلاق کے قابلِ تقلید بنے گا۔ گھر کے اندر حسنِ سلوک بیرونی معاشرت میں روشنی پیدا کرتا ہے۔
حدیث میں مصۭطفوی اخلاق کا عملی مظاہرہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
خيركم خيركم لاهله، وأنا خيركم لأهلي.
اس حدیث میں ’’أهله‘‘ کا لفظ گھر کے تمام افراد پر مشتمل ہے: بیوی، بچے، والدین، بہن بھائی، اور وہ تمام لوگ جو انسان کے گھریلو نظام کا حصہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا کہ شخص کی اصل نیکی، اصل خوبی اور اصل عظمت اس کے خاندان کے ساتھ اس کے رویے سے پہچانی جاتی ہے۔ معاشرے میں بعض لوگ باہر خوش اخلاق ہوتے ہیں لیکن گھر والوں کے ساتھ سخت مزاجی، غصہ، اور بے توجہی سے پیش آتے ہیں۔ حضور ﷺ نے اس رویے کی تردید کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اللہ کے نزدیک بہترین وہ ہے جو اپنی سب سے قریبی ذمہ داری یعنی گھر والوں کے ساتھ اخلاقی طور پر بلند ہو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ گھر والوں کے ساتھ نرمی، شفقت اور محبت سب سے بڑی نیکی ہے۔ نبی ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے یہ ثابت کیا کہ گھر میں حسنِ سلوک ہی انسان کی اصل پہچان ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان رسول الله في مهنة أهله فإذا حضرت الصلاة خرج الى الصلاة.
(صحیح البخاری: 6039)
’’رسول اللہ ﷺ گھر کے کاموں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ ‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ نہ صرف اخلاقی تعلیم دیتے بلکہ اسے عملی طور پر بھی دکھاتے تھے۔ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، بچوں کے ساتھ شفقت کرنا اور بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا نبی ﷺ کی روزمرہ سنت تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مزید فرمایا:
ما ضرب رسول الله ﷺ امرأة قط ولا خادما.
(صحیح مسلم: 2328)
’’نبی ﷺ نے کبھی کسی عورت یا خادم کو نہیں مارا۔ ‘‘
یہ حدیث بتاتی ہے کہ مصطفوی اخلاق میں نرمی، صبر اور محبت بنیادی اصول ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی مثالیں
1۔ نرمی، محبت اور مسکراہٹ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ما ضرب رسول الله ﷺ شيئا قط بيده، لا امرأة ولا خادما، إلا أن يجاهد في سبيل الله، وما نيل منه شيء فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شيء من محارم الله فينتقم لله تعالى.
(صحیح مسلم: 2328)
’’رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنی زندگی میں نہ کسی عورت کو ہاتھ سے مارا، نہ کسی خادم کو، سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں۔ اور اگر آپ ﷺ کی ذات پر کوئی زیادتی کی جاتی تو آپ بدلہ نہ لیتے، مگر جب اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی خلاف ورزی ہوتی تو آپ اللہ کے لیے انتقام لیتے۔ ‘‘
یہ حدیث نبی ﷺ کے گھر میں نرمی، محبت اور مسکراہٹ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ ﷺ کبھی تلخ کلام یا سخت رویہ نہیں اختیار فرماتے تھے اور ہر اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے۔
2۔ گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان في مهنة اهله، فإذا حضرت الصلاة خرج الى الصلاة.
(صحیح البخاري: 6039)
رسول اللہ ﷺ گھر والوں کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے، اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
یہ حدیث سکھاتی ہے کہ گھر کے کام میں شریک ہونا سنت نبوی ہے۔ نبی ﷺ خود گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، جوتا مرمت کرتے، کپڑا سی لیتے، اور اہلِ خانہ کی مدد فرماتے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گھر کے کام مردانہ یا خواتین کا معاملہ نہیں، بلکہ محبت، تعاون اور برابری کے عملی مظاہر ہیں جو گھر کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ مرد کا گھریلو معاملات میں شریک ہونا محبت، تکبر سے پاک شخصیت اور بہترین اخلاق کا اظہار ہے۔
3۔ بیویوں کے ساتھ عدل و احترام
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان رسول الله ﷺ يقسم فيعدل، ويقول: اللهم هذا قسمي فيما املك فلا تلمني فيما تملك ولا املك.
(سنن أبي داود: 2134)
’’رسول اللہ ﷺ تقسیمِ وقت اور محبت میں عدل فرماتے تھے اور دعا کرتے تھے: اے اللہ! یہ میرا حصہ ہے جو میرے اختیار میں ہے، مجھے اس پر ملامت نہ کرنا جو تیرے اختیار میں ہے۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ عدل و انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتے تھے۔ نہ کسی کی حق تلفی کی، نہ کسی کے جذبات کو مجروح ہونے دیا۔
4۔ بچوں کے ساتھ محبت اور تربیت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان رسول الله ﷺ يدعو الحسن والحسين فيضمهما اليه ويقول: انما هما ريحانتاي من الدنيا.
(سنن الترمذي: 3770)
رسول اللہ ﷺ حسن اور حسین کو بلاتے، انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیتے اور فرماتے: یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں۔
یہ حدیث بچوں کے ساتھ نبی ﷺ کی بے پناہ محبت اور شفقت کو ظاہر کرتی ہے۔ نبی ﷺ بچوں کے ساتھ نہایت محبت، شفقت اور دلجوئی سے پیش آتے۔ آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے، انہیں بوسہ دیتے، اور غلطیوں پر سختی کے بجائے حکمت اور نرمی سے اصلاح کرتے۔ بچوں کی تربیت میں محبت، وقت اور توجہ ضروری ہے، اور یہی مصطفوی طرزِ تربیت ہے جو آج کے والدین کے لیے بہترین عملی نمونہ ہے۔ کہ تربیت محبت، وقت اور شفقت مانگتی ہے۔
عصرِ حاضر میں اس حدیث کی اہمیت
آج کے دور میں خاندانوں میں بے سکونی، میاں بیوی کے تنازعات، اولاد کی تربیت کے مسائل اور گھریلو سرد مہری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، اور گھروں میں جھگڑے، طلاقیں، عدم برداشت اور ذہنی دباؤ عام ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سب سے مؤثر حل یہی مصطفوی اصول ہیں کہ انسان سب سے پہلے اپنے گھر والوں کے لیے بہتر بنے۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کریں، بچوں کی تربیت محبت اور حکمت کے ساتھ کریں، والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اختیار کریں، تو گھر میں سکون، محبت اور ہم آہنگی قائم ہو سکتی ہے۔ یہ حدیث صرف فرد کے اخلاق تک محدود نہیں بلکہ پورے خاندان کے ماحول کو سنوار دیتی ہے، اور نتیجتاً گھر کی بہتری معاشرے کی بہتری کا باعث بنتی ہے۔ اس کے عملی اثرات واضح ہیں: میاں بیوی کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، بچوں کی تربیت بہتر ہوتی ہے، خاندانوں میں امن، محبت اور احترام پیدا ہوتا ہے، اور معاشرے کا مجموعی اخلاق بہتر ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ حدیث ہمارے ٹوٹتے ہوئے نظامِ خاندان کے لیے ایک مکمل منشور کی حیثیت رکھتی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ گھر کی تباہی معاشرے کی تباہی ہے اور گھر کی بہتری معاشرے کی بہتری کا ضامن ہے۔
مصطفوی اخلاق کی روشنی میں عملی تجاویز
اگر اس حدیث کا پیغام عملی زندگی میں شامل کیا جائے تو گھر کے روزمرہ معاملات آسان اور خوشگوار ہو جاتے ہیں۔ گھر میں نرم لہجہ اختیار کرنا، چھوٹی باتوں پر غصہ نہ کرنا، اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنا، ایک دوسرے کی تعریف کرنا، غلطیوں پر درگزر کرنا اور ہر معاملے میں برداشت دکھانا بنیادی اصول ہیں۔ گھر کے کاموں میں اعتدال کے ساتھ حصہ لینا بھی سنت اور ذمہ داری ہے، اور روزانہ مسکرا کر بات کرنا، شکایت کا موقع نہ دینا، فون یا مصروفیات سے وقت نکال کر توجہ دینا، جھگڑوں میں تحمل اختیار کرنا اور ہر رات اہلِ خانہ کے لیے دعا کرنا، یہ سب نبی ﷺ کے عملی نمونہ کی پیروی ہیں۔ جب گھر میں یہ بنیاد مضبوط ہوگی تو ساری معاشرتی عمارت بھی مستحکم رہے گی، اور گھر واقعی محبت، عدل اور احترام کی جگہ بن جائے گا۔
نتیجہ: مصطفوی اخلاق اور گھر کی بنیاد
حدیث خيركم خيركم لأهله مصطفوی اخلاق کا جامع درس ہے جو انسان کی اصل نیکی اور عظمت کو گھر کے اندر ظاہر کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے واضح کر دیا کہ حقیقی اخلاق، حسنِ سلوک اور عظمت وہ ہے جو گھر والوں کے دل جیتے اور جس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے۔ جب گھر میں روشنی، محبت اور سکون قائم ہوں، تو یہ بیرونی دنیا میں بھی امن اور نیکی پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل مصطفوی اخلاق گھر سے شروع ہوتا ہے اور یہی معاشرتی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ حدیث ہمیں انسان کے اخلاق کا مکمل معیار بھی فراہم کرتی ہے جو شخص اپنے گھر میں نرمی، محبت، عدل اور خدمت کے ساتھ اچھا ہے، وہی حقیقی معنوں میں اچھا انسان، بہتر مومن اور مثالی معاشرتی فرد ہے۔ مصطفوی اخلاق کا جوہر یہی ہے کہ انسان اپنے اہلِ خانہ کے دل جیتے، کیونکہ گھر میں اچھا ہونا ہی اصل کامیابی ہے اور گھر کی فلاح پورے معاشرے کی فلاح کا ضامن ہے۔