شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری، بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریکِ منہاج القرآن انٹرنیشنل، عہدِ حاضر کے عظیم اسلامی مفکر، محدّث، مفسر اور نابغۂ عصر ہیں۔ آپ علم و حکمت میں بلند مرتبے کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر موضوع پر گفتگو کرنے، پیچیدہ مسائل کو منطقی انداز میں حل کرنے، اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کی بے مثال صلاحتیں عطا فرمائی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب فلسفہ معراج النبی ﷺ میں آپ نے واقعۂ معراج کے مختلف پہلوؤں کو نہ صرف تاریخی اور نصوصی اعتبار سے واضح کیا ہے بلکہ روحانی، علمی اور سائنسی زاویوں سے بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے خطبات اور تحریروں پر مبنی ہے، جن میں انہوں نے شب معراج کے واقعے کی حقیقت، فلسفہ اور کائناتی وسعت کو آسان اور فہم عام کے انداز میں بیان کیا ہے۔ کتاب میں قرآن حکیم کی سورۃ الاسراء اور سورۃ النجم کے حوالے سے معراج کے واقعے کے تفصیلی جائزے شامل ہیں، اور ہر موضوع کو علمی، فکری اور روحانی پہلو سے واضح کیا گیا ہے۔
ذیل میں اس کتاب کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس جائزے میں کتاب کے ہر باب اور فصل کو علیحدہ علیحدہ مطالعہ کر کے ہر فصل کے اہم نکات اور موضوعات کو خلاصہ کے طور پر پیش کیا گیا، اور فصل کے اختتام پر تجزیاتی جائزہ شامل کیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف کتاب کے مواد کا مفصل ادراک ممکن ہوا بلکہ ہر فصل کے اختتام پر قارئین کے لیے عملی اور فکری اثرات بھی واضح ہوئے۔
باب 1: حقیقتِ معجزہ
فصل اوّل: تفہیمِ معجزہ
1۔ تعارف: کائنات اور معجزہ
اس فصل کا آغاز کائنات کی وسعت اور اس میں موجود عجائبات کی تشریح سے ہوتا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ کائنات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے اور اس میں رونما ہونے والے غیرمعمولی واقعات انسانی عقل سے ماورا ہیں۔ ایسے ماورائے عقل واقعات کو معجزہ کہا جاتا ہے جو صرف ایمان، یقین اور وجدانی شعور کے ذریعے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔
2۔ معجزہ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
"معجزہ" عربی لفظ عَجَزَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی "کسی کام سے عاجز آ جانا" کے ہیں۔ اصطلاحاً معجزہ اُس خارقِ عادت فعل کو کہتے ہیں جو نبی یا رسول کے ہاتھ پر اللہ کے اِذن سے ظاہر ہو اور جس کی مثل کوئی بشر نہ لا سکے۔
3۔ قرآن میں معجزے کا مفہوم
اگرچہ لفظِ “معجزہ” قرآن میں براہِ راست استعمال نہیں ہوا، لیکن قرآن نے اس کے لیے مختلف الفاظ جیسے آیت، مبصرۃ، بینۃ اور برہان استعمال کیے ہیں۔
• آیت کبھی قرآن کی آیت، کبھی نشانی، اور کبھی خارقِ عادت واقعہ کے معنی میں آتی ہے، جیسے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی۔
• بینۃ واضح دلیل کے لیے استعمال ہوا، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نو روشن نشانیاں۔
• برہان ایسی ناقابلِ تردید دلیل کے لیے آیا جو باطل کو ختم کر دے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات۔
4۔ حقیقت معجزہ
معجزہ عقل کے دائرہ سے باہر ہوتا ہے اور اللہ کی قدرت اور جلالت کا مظہر ہے۔ اس میں کوئی ظاہری سبب یا علّت نظر نہیں آتی، اور انسانی عقل اسے مکمل طور پر سمجھنے سے عاجز رہتی ہے۔ مصنف نے متعدد مثالیں پیش کی ہیں، جیسے: نبیوں کے معجزات جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں سلامت رہنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا لوٹ آنا، اور حضور ﷺ کا چاند کے دو ٹکڑے کرنا یہ مثالیں معجزہ کی خارق العادت نوعیت اور ایمان پر مبنی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
فصل دوم: ضرورتِ معجزہ
1۔ قبولِ حق اور انسانی فطرت
فصل دوم میں مصنف نے انسانی فطرت اور حق کے قبولیت کے تعلق کو واضح کیا ہے۔ انسانی ذہن و دل ہمیشہ دو طریقوں سے حق کو تسلیم کرنے کے لئے متحرک ہوتے ہیں:
1. عقلی و فکری دلائل کے ذریعے: انسان دلیل و برہان کے ذریعے حق کو سمجھ کر دل و جان سے قبول کرتا ہے۔
2. معجزات کے ذریعے: غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعات جو قوانینِ قدرت کے تابع نہیں، اور انسان کی استطاعت سے بالاتر ہیں، دلائل کے ساتھ پیش کیے جائیں تو عوام و خواص دونوں پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
2۔ دعوت و تبلیغ میں معجزہ کی اہمیت
نبی اور رسول کا بنیادی مقصد انسانیت کی ہدایت اور معاشرتی فلاح ہے۔ معجزے اس ہدایت کے فروغ، نبی کی صداقت کے اظہار اور دلوں میں ایمان کے اجاگر ہونے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ معجزات انسان کے شک و تعصب کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ظالم و کافر قوتوں کے مقابلے میں نبی کی حکمت و جلال کو واضح کرتے ہیں۔ مزید براںدلائل اور علمی ثبوت کے ساتھ معجزہ لوگوں کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ مصنف نے انسانی رویوں کی دو جہتی فطرت کو بھی بیان کیا: کچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور معجزے کو دل سے قبول کرتے ہیں، جبکہ کچھ تعصب، حسد یا بغض کے باعث معجزے کو بھی جھٹلاتے ہیں۔
3۔ دعویٰ نبوت اور معجزہ کا تعلق
معجزہ اور نبوت کے تعلق کو مصنف ایک واضح مثال کے ذریعے بیان کرتے ہیں کہ جیسے بادشاہ کا نمائندہ اپنی نیابت کے ثبوت میں شاہی مہر پیش کرتا ہے، ویسے ہی نبی اپنی صداقت کے ثبوت میں معجزہ دکھاتا ہے۔ معجزہ اللہ کی جانب سے نبی کی نیابت اور صداقت کی تصدیق ہوتا ہے۔ اس لیے معجزہ صرف نبی یا رسول کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے، کسی غیرنبی کے بس کی بات نہیں۔
ایمان لانے والے اس معجزے کو دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں:
اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی.
(طٰہٰ، 20: 70)
جبکہ ضدی اور متکبر دل اسے “جادو” کہہ کر ردّ کر دیتے ہیں۔
فصلِ سوم: معجزہ اور عالمِ اسباب
1۔ معجزہ اور نظام اسباب
فَصل 3 میں مصنف نے معجزہ اور عالم اسباب کے تعلق کو گہرائی سے بیان کیا ہے۔ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ معجزہ کبھی بھی عادتِ جاریہ یا طبیعی قوانین کے تحت وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہوتا ہے، جو اسباب و علل کے نظام کے مقابلے میں اپنی مشیت کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مصنف نے یہ واضح کیا کہ اسباب و علل کوئی لازم و ملزوم یا اٹل قانون نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عادتِ جاریہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔
یہاں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ سائنس اور انسانی تجربہ عموماً اس نظام کے تابع مشاہدات پر مبنی ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی حکمت کے تحت نظام اسباب سے ہٹ کر کچھ ظہور فرماتا ہے تو یہ معجزہ کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر، پانی کے نقطۂ انجماد پر پھیلنے کا واقعہ، جس کے بغیر سمندری حیاتیات کے لیے زندگی کے امکانات خطرے میں آ جاتے، قدرتی قوانین کی خلاف ورزی کے بغیر زندگی کو قائم رکھنے کا ایک حکیمانہ مظاہرہ ہے۔
2 ۔ نظام اسباب اور معجزہ: علمی اور سائنسی زاویہ
مصنف نے قرآن کی آیات کے ذریعے یہ بھی واضح کیا کہ نظام اسباب پوری کائنات پر محیط ہے۔ پانی، آگ، شہد، نباتات اور دیگر عناصر کے طبیعی خواص اللہ کی حکمت اور ربوبیت کے مظہر ہیں۔ لیکن جب اللہ چاہتا ہے تو وہ اس نظام میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، تاکہ انسان معجزات کے ذریعہ اس کی قدرت مطلقہ اور مشیتِ الٰہی کو پہچان سکے۔ یہاں ایک گہرا نقطہ یہ ہے کہ معجزات اور نظام اسباب دراصل ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حکمت، مشیت اور قدرت کے مظاہر ہیں۔ جبکہ اسباب و علل روزمرہ کے معمولات کے مطابق کام کرتے ہیں، معجزات اسی قدرت کی غیر معمولی نمائش ہیں۔
فَصل 3 کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ معجزہ صرف تاریخی یا مذہبی واقعہ نہیں بلکہ انسانی ذہن کے لیے فکری اور اعتقادی سبق بھی ہے۔ یہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ تمام عناصر، اسباب، اور قوانین اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اور جب چاہے، وہ اپنے ارادے سے ان میں غیر معمولی تبدیلی کر سکتا ہے۔ معجزہ ایمان کو مستحکم کرتا ہے، انسانی شک و شبہات کو دور کرتا ہے، اور عقل و شعور کو اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ہر چیز پر غالب ہے۔
فصل 4: معجزہ: لازمۂ نبوت
معجزات کا ظہور بنیادی طور پر انبیاء کی حاکمیت و کردار کی تصدیق اور شکوک و شبہات میں مبتلا انسانی ذہنوں کو نورِ ایمان سے منور کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا عکاس ہیں اور انسانوں کو ہدایتِ آسمانی کے مطابق صراطِ مستقیم پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ نبی کو حقانیت ثابت کرنے کے لیے محیرالعقول واقعات کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اہلِ ایمان کے ایمان کی پختگی کے لیے معجزات کا صدور ضروری ہے تاکہ ایمان کے چراغ روشن رہیں اور شک و تشکیک کی گرد میں گم نہ ہوں۔
1۔ معجزات کی اقسام
1. ظاہری معجزات: یہ وہ واقعات ہیں جو خرقِ عادت کی صورت میں رونما ہوتے ہیں، جیسے قدرتی قوانین کی معکوس صورت یا غیر معمولی کرامات۔
2. باطنی معجزات: یہ نبی کے اخلاق، کردار اور انسانی رہنمائی کے جمیل طریقوں میں ظاہر ہوتے ہیں، یعنی نبی کی شخصیت اور سیرت ہی ایک زندہ معجزہ ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کو سب کے لیے بہترین نمونہ (أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) قرار دیا گیا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
(الأحزاب: 33: 21)
2۔ معروف انبیاء اور ان کے معجزات
قرآن و حدیث میں بعض انبیاء و رسل کے معجزات درج ہیں، جن میں شامل ہیں:
1. حضرت نوح علیہ السلام: کشتی کی تعمیر اور ظالم قوم کی غرقابی (هود: 11: 37)
2. حضرت صالح علیہ السلام: اللہ کی اونٹنی کی نشانی (الأعراف، 7: 73)
3. حضرت ابراہیم علیہ السلام: پرندوں کو ذبح کر کے دوبارہ زندگی دینا (البقره، 2: 260)
4. حضرت یوسف علیہ السلام: یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹانا (يوسف، 12: 96)
5. حضرت موسیٰ علیہ السلام: عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ سفید ہونا (الأعراف، 7: 107، 108)
6. حضرت داود علیہ السلام: پہاڑوں اور پرندوں کو تسبیح پڑھنے پر مسخر کرنا (الأنبياء، 21: 79)
7. حضرت زکریا علیہ السلام: بڑھاپے میں اولاد (مريم، 19: 8، 9)
8. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: معراج، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر (الإسراء، 17: 1)
باب 2: اثبات معجزہ اور جدید سائنسی تحقیقات
فصل اول: اثبات معجزہ اور عقل ناقص کا کردار
1۔ تاریخی پس منظر اور انسانی شعور
ابتدائے آفرینش سے انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان نے مادّی اور روحانی دونوں جہتوں میں تحقیق و جستجو کا سفر جاری رکھا۔ ہر دور کی اپنی ایک سچائی ہوتی ہے، اور انسانی ذہن ہر واقعہ یا نظریے کو اس دور کے تقاضوں کے مطابق پرکھتا ہے۔ ابتدائی ادوار میں انسانی شعور فلسفیانہ پیچیدگیوں اور عقلِ انسانی کی محدودیت کی گرد میں محصور تھا، جس کی وجہ سے زندگی کے حقائق سے انسان اکثر محروم رہا۔ ظہور اسلام سے پہلے دنیا سائنسی علوم سے نابلد تھی اور یونانی فلسفہ ہی عقل کا معیار سمجھا جاتا تھا۔ ابتدائی اسلامی علوم میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کو فلسفے کے زاوئیے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر دور کے انسان کی سوچ و فہم اپنے تاریخی و معاشرتی تناظر سے جڑی ہوتی ہے۔
2۔ عصرِ جدید اور سائنسی نقطۂ نظر
آج کا دور سائنس کا دور ہے۔ جدید انسان سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرتا بلکہ سائنسی طریقۂ کار اور تجربہ و مشاہدے پر انحصار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے جدید علمِ کلام کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی عقائد اور معجزات کو آج کے ذہن کے مطابق، فکری اور تجرباتی بنیادوں پر پیش کیا جا سکے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی یہی تجویز کرتا ہے کہ ہر نسل کی تعلیمات اس کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہئیں۔ جدید سائنسی نقطۂ نظر یہ تسلیم کرتا ہے کہ عقل اور حواسِ خمسہ کی محدودیت کے باوجود ہم کائنات میں بے شمار حقائق کو جزوی طور پر سمجھ سکتے ہیں، مگر بعض حقائق ہمیشہ عقل اور حواس سے ماورا رہیں گے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات۔
3۔ جدید سائنس اور معجزات کی مطابقت
جدید سائنس نے انسانی حواس سے ماورا حقائق کی دریافت ممکن بنائی، جیسے:
• خوردبین اور دوربین سے نہ دیکھی جانے والی مخلوقات کا مشاہدہ
• سیاہ شگاف (Black Holes) اور دیگر کائناتی مظاہر
یہ سائنسی انکشافات قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق کی تصدیق کرتے ہیں، اور ثابت کرتے ہیں کہ معجزات اور اسلامی عقائد محض تاریخی یا جذباتی نہیں بلکہ فطری اور سائنسی بنیادوں پر بھی قابلِ یقین ہیں۔
4۔ عادتِ الٰہیہ اور قدرتِ خداوندی
کائنات میں دو بنیادی مظاہر ہیں:
1. اللہ کی عادت: تخلیق کا فطری نظام، جو مسلسل حرکت پذیر ہے۔
2. اللہ کی قدرت: وہ اعمال جو معمول کے نظام سے ہٹ کر واقع ہوتے ہیں، مثلاً معجزات۔
عقل عادت کو سمجھ سکتی ہے، لیکن قدرتِ الٰہیہ کے مظاہر جیسے معجزات عقل کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اس کے نتیجے میں معجزہ ہمیشہ عقل کی حدود سے ماورا اور معجزاتی اثرات کا حامل رہتا ہے۔
اس فصل میں مصنف معجزات کی حقیقت کی صداقت کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہین کہ معجزات انسانی عقل کی تمام تر صلاحیتوں سے بالا ہیں۔ ہر دور میں پیش آنے والے معجزات اسی دور کی علمی، فکری اور تمدنی سطح کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں، تاکہ انسان اپنی پہچانی ہوئی دنیا کے تناظر میں ان سے ہدایت حاصل کر سکے۔
فصل دوم: جدید سائنس اور معجزۂ معراج
1۔ معجزات نبوی اور جدید سائنس
جدید سائنسی علوم، جو کائنات کی حقیقتوں پر پردہ اٹھا رہے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو سائنسی اعتبار سے تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ آج کا سائنسدان، اپنی تحقیقی بنیادوں پر، قرآن کو الہامی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے آخری پیغمبر تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ عہدِ رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان انتہائی مستحکم تھا اور وہ معجزات کو دیکھ کر کسی فکری شک یا تذبذب کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ آج کے مسلمان دانشور، نوجوان نسل کے ایمان کو تحفظ دینے اور غیر مسلموں کو دعوتِ حق دینے کے لیے جدید سائنسی تناظر میں معجزات نبوی کی توضیح کر سکتے ہیں۔
2۔ معراج: کمالِ معجزات
معراج، معجزاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلند ترین واقعہ ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر تمام کائنات کی وسعتوں کے اُس پار بلند مقامات تک لے جایا گیا۔ یہ واقعہ اُس زمانے میں انسانی فہم سے بالاتر تھا، جب جدید علوم کی بنیادیں بھی موجود نہیں تھیں۔
آج انسانی عقل کائنات کی مختلف صداقتوں کو تسلیم کرتی ہے، لیکن روشنی کی رفتار سے تیز حرکت اور خلا کی بلندیوں میں طویل مسافت کا تصور اب بھی ناممکن ہے۔ معراج کے دوران، طئی زمانی (Time Compression) اور طئی مکانی (Space Compression) کے مظاہر پیش آئے، جو سائنسی لحاظ سے آج بھی ناقابلِ تصور ہیں۔
3۔ خلائی سفر اور معراج کا موازنہ
انسان نے بیسویں صدی میں خلائی سفر کی جدوجہد کی اور 1969ء میں اپالو-11 کے ذریعے چاند کی سطح پر پہنچا۔ تاہم، معراجِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برّاق کی رفتار (Multiple Speed of Light) سے کائنات کے محدود اور لامحدود مقامات کا سفر کیا، جس میں وقت نہ صرف تھم گیا بلکہ جسمانی اثرات بھی معمول کے مطابق رہے۔
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق مادّی جسم کے لیے روشنی کی رفتار حاصل کرنا ناممکن ہے، لیکن معراج میں یہ معجزہ ممکن ہوا، جو قدرتِ مطلق کی نشانی ہے۔
4۔ طئی زمانی اور طئی مکانی کے مظاہر
طئی مکانی
لاکھوں کروڑوں کلومیٹرز کی وُسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کو اِصطلاحاً ’طئ مکانی‘ کہتے ہیں۔ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور تختِ بلقیس کی مثال سے طئی مکانی کی وضاحت کی گئی ہے، جہاں فاصلے ایک لمحے میں سمٹ جاتے ہیں۔ یہ معجزہ ثابت کرتا ہے کہ انسانی شعور کے محدود ہونے کے باوجود، خدا کی قدرت فاصلے کو کسی بھی لمحے میں ختم کر سکتی ہے۔
طئی زمانی
صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو اِصطلاحاًً ’طئ زمانی‘ کہتے ہیں۔ اصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات طئی زمانی کی واضح مثالیں ہیں۔
• اصحابِ کہف 309 سال تک غار میں لیٹے رہے، لیکن انہیں محسوس ہوا کہ محض ایک دن گزرا ہے، اور جسمانی تروتازگی برقرار رہی۔
• حضرت عزیر علیہ السلام 100 سال تک موت کی حالت میں رہنے کے باوجود ان کا جسم محفوظ رہا، کھانے پینے کی اشیاء خراب نہ ہوئیں، اور وقت کا اثر یک دم معجزانہ طور پر موقوف رہا۔
یہ دونوں واقعات سائنسی اعتبار سے وقت کے سمٹنے اور مادّی اشیاء کے محفوظ رہنے کی مثال ہیں، جو معراج کے مظاہر کی مانند ہیں۔
5۔ معراج: طئی زمانی و مکانی کا جامع مظہر
معراج میں حضور ﷺ نے طئی زمانی اور طئی مکانی دونوں کمالات کو تجربہ کیا۔ ایک طرف وقت سمٹ گیا، دوسری طرف لاکھوں میل کی مسافتیں ایک لمحے میں طے ہوئیں۔ اس معجزے میں نماز، کھانے پینے اور تمام معمولات جاری رہے، جبکہ کائنات بھی ایک لمحے کے لیے ساکت ہوگئی۔
یہ مظاہر انسانی فہم سے بالاتر ہیں اور جدید سائنس کے محدود اصولوں سے آزاد ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نبوت کے معجزاتی اصولوں کا عین ثبوت ہے۔
6۔ سائنسی توجیہ اور تاریخی اہمیت
جدید سائنسی ترقی کی روشنی میں معراجِ نبوی ﷺ کے معجزات کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار اور آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے اصول طَیِّ زمانی و مکانی جیسے مظاہر کی سائنسی وضاحت پیش کرتے ہیں، جو اس حقیقت کو تقویت دیتے ہیں کہ کائنات میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جو عام انسانی تجربے سے بالاتر ہیں۔ اسی طرح خلائی تحقیقات اور تسخیرِ کائنات کے تجربات معراج کے وقوع پذیر ہونے کی سائنسی سطح پر جزوی تصدیق مہیا کرتے ہیں، اگرچہ معراج کے وہ کمالات جو براہِ راست قدرتِ الٰہیہ کے مظاہر ہیں، انسانی حدِ ادراک سے ماورا رہتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ معجزات) جن میں زمان و مکاں کی تبدیلی، جسمِ اطہر کی حفاظت اور انتہائی کم وقت میں بعید مقامات تک رسائی جیسے امور شامل ہیں (سائنس، تاریخ اور ایمان تینوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں اور معراج کی صداقت کو مزید واضح کرتے ہیں۔
باب 3: معجزۂ معراج النبی ﷺ
1۔ معجزات انبیاء اور مخصوصیت معجزۂ معراج
تاریخ انبیاء بتاتی ہے کہ ہر نبی کو اپنے عہد و زمانے کے لحاظ سے مخصوص معجزات دیے گئے، مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے عصا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے طب و شفا کی قدرت۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معجزۂ معراج عطا کیا گیا جو تمام زمانوں اور تمام انبیاء کے معجزات سے بلند و برتر ہے۔ یہ معجزہ نہ صرف عالمگیریت رکھتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
2۔ سفرِ معراج کی حقیقت
قرآن و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سفر خواب میں نہیں بلکہ عالمِ بیداری میں ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جسم اور لطائف کے تمام مراحل سے اللہ کی بارگاہ تک رسائی حاصل کی۔ اس دوران قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی لطائف کو بھی معراج نصیب ہوئی۔ قرآن میں اس کا ذکر ارشادِ باری تعالیٰ سے ملتا ہے:
وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.
(بنی اسرائیل، 17: 60)
’’ اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لیے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج ایمان والوں کے ایمان کی آزمائش تھی، جبکہ کفار و مشرکین اسے نہیں مان سکے۔
باب 4: مراحلِ معراج
فصل اول: مراحل معراج کی تحقیق
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فوائد الفوائد میں سفر معراج کے تین مرحلوں کی وضاحت فرمائی ہے:
1. اسراء: مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر
2. معراج: بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہی تک کا سفر
3. اعراج: سدرۃ المنتہی سے مقام قاب قوسین تک عروج
یہ تینوں مراحل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین شانوں — بشریت، نورانیت اور حقیقت — کے اظہار کا مظہر ہیں۔ ہر شان اپنی جگہ غالب تھی جبکہ باقی شانیں مغلوب رہیں۔ اس ترتیب اور غالب و مغلوب ہونے کے اصول سے حقیقت و فلسفہ معراج کی بہتر تفہیم ممکن ہوتی ہے۔
1۔ پیکر مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جامع صفات و کمالات
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانیں مرحلہ وار معراج کے دوران مختلف اوقات میں غالب ہوئیں:
• بشریت کی معراج: بشری کمالات غالب تھے، نورانیت اور حقیقت مغلوب
• نورانیت کی معراج: روحانی اوصاف غالب، بشریت اور حقیقت مغلوب
• حقیقت و مظہریت کی معراج: حقیقت و محمدیت غالب، باقی شانیں مغلوب
یہ مثال انسانی روزمرہ کے تجربات سے سمجھائی جا سکتی ہے: جیسے غصے میں محبت مغلوب، بات کرتے وقت سکوت بالقوۃ موجود، وغیرہ۔ نتیجہ یہ کہ معراج کے ذریعے تمام اوصاف بدرجہ اتم مکمل ہوئے، مگر مقام عبدیت و معبودیت برقرار رہا۔ شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات، جنت و دوزخ، اور عالم اخروی کے حقائق کا مشاہدہ عطا ہوا۔ سدرۃ المنتہی سے آگے جبرئیل علیہ السلام رک گئے، اور اللہ رب العزت کی طرف تنہا معراج نصیب ہوئی۔
2۔ قربِ صفات و ذات: ثمّ دنی فتدلّٰی
آیت ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى میں دو مرتبہ قرب کا ذکر ہے، جو معراج میں حضور ﷺ کو عطا ہونے والے دو اقسام کے قرب کی نمائندگی کرتا ہے: قربِ صفات اور قربِ ذات۔ دنی اور تدلی کے الفاظ میں فرق لغوی اور معنوی دونوں ہے؛ دنی (کم حروف) مخلوق کے محدود قرب کی علامت جبکہ تدلی (زیادہ حروف) خالق کے لامحدود قرب کی نشاندہی کرتا ہے۔ حدیث قدسی "من تقرب منی شبراً..." بھی اسی اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ قربِ صفات میں حضور ﷺ صفاتِ الٰہیہ کے مظہرِ اتم بن گئے، اور قربِ ذات میں آپ ﷺ کو ذاتِ حق کا دیدار چشمِ سر و دل سے حاصل ہوا، جو انسانی تصور سے بالاتر مقام ہے۔
3۔ مقامِ قاب قوسین اور او ادنیٰ
قرآن نے قرب کی حد بیان کرنے کے لیے قاب قوسین اور او ادنیٰ کی بلیغ تمثیل استعمال کی۔ قدیم عربی رسم و رواج میں یہ علامتی طور پر قرب اور یکجائی کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ معراج میں اس مقام پر عبد و معبود کے درمیان صرف فرقِ عبدیت باقی رہ گیا، باقی تمام فاصلے اور امتیازات مٹ گئے۔ او ادنیٰ قرب کی انتہائی حد کو ظاہر کرتا ہے، لیکن کوئی مقررہ فاصلہ یا حد نہیں رکھی گئی تاکہ قرب کی وسعت اور لامحدودیت واضح رہے۔
4۔ عبدیت، توحید اور عشقِ رسول ﷺ
تمام مراتبِ قرب کے باوجود عبدیت برقرار رہی، جس سے انسان کے لیے بندگی سب سے عظیم شرف اور اللہ کی عطا کی گئی بلند ترین نعمت ثابت ہوتی ہے۔ قرآن نے وحی کے بیان میں بار بار حضور ﷺ کو عبد کہا تاکہ توحید کی حقیقت اور معبود و عبد کے فرق کی ضرورت واضح ہو۔ احدیت و احمدیت کی قوسین یہ سکھاتی ہیں کہ توحید اور رسالت ایک دوسرے سے جدا نہیں، اور عشقِ رسول ﷺ کے بغیر تقربِ الٰہی ممکن نہیں۔
فصل دوم: معراج کیوں؟
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک روشن اور بلند مقام رکھتا ہے۔ یہ معجزہ نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور انسانیت کے کمالات کا مظہر ہے بلکہ نسل انسانی کے لیے رہنمائی اور مشاہدہ فطرت کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ معراج میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن میں خصوصاً دو اہم پہلو قابل ذکر ہیں:
پہلا یہ کہ اعلان نبوت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شدید مصائب اور اذیتیں طاری ہوئیں۔ کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ پر معاشرتی اور جسمانی طور پر بائیکاٹ اور اذیتیں ڈالی۔ اس عرصے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر دکھ اور رنج کی کیفیت طاری رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دکھ اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج پر اپنی قربت اور دیدار عطا فرمایا تاکہ آپ کے دل کی تسلی اور مسرت ممکن ہو۔ قرآن میں اس کیفیت کی تصدیق یوں کی گئی:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.
(الطور، 52: 48)
معراج کا دوسرا مقصد امت کے لیے ہمدردی اور نجات کی بشارت دینا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات بھر جاگتے اور امت کے لیے دعا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا تاکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں امت کی بخشش اور نجات کی خوشخبری پہنچائی جائے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.
(الفتح، 48: 1)
باب 5: قرآن اور معجزۂ معراجِ مصطفیٰ
فصل اول: سورۂ اسراء کی روشنی میں واقعۂ معراج
باب پنجم کی فصلِ اول میں مصنف نے معجزۂ معراجِ مصطفی ﷺ کے باہمی تعلق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت کی تفصیل پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآنِ حکیم نہ صرف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بلکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور شان کا مسلسل آئینہ بھی ہے، جہاں ہر آیت اور ہر لفظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات، اخلاق، جود و سخا، شفاعت اور ہدایت کے اصولوں کو واضح کرتا ہے۔ قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مختلف القابات، محبت بھرے خطاب، اور ان کی عظمت و رسالت کی نصیحتیں موجود ہیں، جو مؤمنین کو اطاعت اور عشقِ رسول کی تربیت دیتے ہیں۔ ساتھ ہی قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزاتِ جلیلہ جیسے شق صدر، اُمیّت، کفار و مشرکین سے پناہ، جنات کا اسلام قبول کرنا، غزوۂ بدر میں فرشتوں کی امداد، اور معجزۂ معراج کے تذکرے سے بھی بھرپور ہے، جو آپ کی قربِ الٰہی، رُشد و ہدایت، اور امت کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہیں۔
1۔ سورۂ اسراء میں معراج کا ذکر
معراج مصطفی ﷺ تاریخِ انسانی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ سفر ہے جو انسان کی عقل کے لیے حیران کن ہے، کیونکہ اس میں حضور ﷺ نے ایک قلیل رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سفر کیا۔ قرآن میں ارشاد ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا.
(بنی اسرائیل، 17: 1)
یہ آیت عقلی و نقلی شبہات کو ختم کر دیتی ہے اور ایمان کو مضبوط کرتی ہے۔ اس کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ یہ سفر اللہ کی قدرت سے ممکن ہوا، اور انسان کی عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔
2۔ لفظِ ’’سُبْحَان‘‘ کی حکمت
لفظِ ’’سُبْحَان‘‘ کا آغاز قرآن میں معراج کے واقعہ کے بیان میں اس عظیم حکمت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک اور ہر قسم کی کائناتی حدود سے ماورا ہے۔ آیتِ کریمہ میں یہ لفظ استعمال کر کے انسانوں کو یہ سبق دیا گیا کہ سفرِ معراج، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک بے مثال معجزہ تھا، عقل انسانی کے دائرے سے بالاتر ہے اور اس کی حقیقت کو صرف دل کی بصیرت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو نہ صرف جسم و روح کے ساتھ آسمانوں کی سیر عطا فرمائی بلکہ اس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور رسالت کی مراتب کو بھی ظاہر کیا، جبکہ کفار و حاسدین کے اعتراضات کو بے اثر بنایا۔ لفظ ’’سُبْحَان‘‘ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ معراج نہ صرف ایک کرم و عنایت کا واقعہ تھا بلکہ بندگی اور محبوبیت کے اعلیٰ درجات کی نشانی بھی ہے، اور یہ اللہ کی طرف سے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تحسین و تعظیم کا اظہار ہے۔
3۔ الَّذِي" اور "بِعَبْدِه" کے اسرار
الفاظ ’’الَّذِی‘‘ اور ’’بِعَبْدِہِ‘‘ کے استعمال میں بھی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ’’الَّذِی‘‘ خالق کائنات کی تمام صفات و قدرت پر محیطیت اور پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ ’’عبد‘‘ سے مراد وہ خاص بندہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نعمتوں، رسالت اور معراج کے سفر سے نوازا، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہ دونوں الفاظ کائنات کی ہر شے میں اللہ اور اس کے رسول کی ذات اقدس کی موجودگی اور کامل جمال و کمال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ معراج کا شبانہ وقت میں ہونا بھی حکمت بھرا انتخاب تھا کیونکہ رات عبادت، تزکیہ نفس اور قرب الٰہی کے لمحات کے لیے افضل ہے۔
فصلِ دوم: سورۃ النجم میں معراج کا واقعہ
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج کے عظیم واقعے کی قسم اٹھا کر بیان فرمائی ہے:
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰیۙ۔۔۔ فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی
یہ آیات معراج کے پورے سفر—عروج، قربِ الٰہی، اور امت کے لیے واپسی—کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اللہ نے ستارے کی قسم اٹھا کر اس معجزے کی غیر معمولیت اور حضور ﷺ کے مقام کو واضح کیا، تاکہ انسان اس روحانی اور کائناتی واقعے کی اہمیت کو سمجھ سکے۔
1۔ لفظ "نجم" اور حضور ﷺ کی مظہر حیثیت
لفظ "نجم" کے متعدد معنی ہیں، جن میں اصل و منبع، قلبِ مقدس، اور حضرت محمد ﷺ کی ذات شامل ہیں۔ حضور ﷺ کو کائنات کا مرکز اور سب مخلوقات کی اصل قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے ظہور کے تین مراحل ہیں: تخلیق، ولادت، اور بعثت، اور آپ اول و آخر ہیں، یعنی کائنات میں سب سے پہلے اور آخری نبی۔ نجم کا دوسرا مفہوم ظاہری و باطنی کمالات ہے، جو شبِ معراج میں مکمل طور پر جلوہ گر ہوئے، اور اس کے ذریعے انسانوں کے لیے رہنمائی اور کمالات کے نمونے پیش کیے گئے۔
2۔ معراج کا آغاز اور مراحل
معراج کا آغاز حطیم کعبہ سے ہوا، جہاں حضور ﷺ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور تمام انبیاء نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ ساتوں آسمانوں کی سیر فرماتے ہوئے حضرت آدمؑ، یحییٰؑ و عیسیٰؑ، یوسف، ادریسؑ، ہارونؑ، موسیٰؑ اور ابراہیم ؑ سے ملاقاتیں کیں۔ اس سفر کا اختتام سدرۃ المنتہی تک ہوا، جہاں مقامِ قابَ قوسین او أدنیٰ میں اللہ کے قرب کا حصول نصیب ہوا۔ یہ سفر نہ صرف جسمانی تھا بلکہ روحانی کمالات کا اعلیٰ مقام بھی تھا۔
3۔ واپسی اور امت کے لیے احسان
معراج کا دوسرا اہم پہلو واپسی ہے، تاکہ امت تک نورِ ہدایت پہنچ سکے۔ صوفیاء کے نزدیک بلند مقام پر جانا معمولی نہیں، بلکہ اصل کمال زمین پر واپس آنا اور دوسروں کی رہنمائی کرنا ہے۔ حضور ﷺ کی یہ واپسی قیامت تک امت کے لیے رہنمائی اور فیض کا ذریعہ بنی، جس سے ہر دور میں انسانیت کو روشنی اور ہدایت ملتی رہی۔
4۔ معجزۂ براق اور روحانی سرعت
حضور ﷺ نے بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک لمحوں میں سفر کیا، جس سے معجزۂ براق کا روحانی اور جسمانی کمال ظاہر ہوتا ہے۔ اس دوران آپ ﷺ نے جنت، دوزخ اور دیگر عجائبات دیکھے، اور روحانی کمالات کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔ یہ سفر انسانی عقل سے ماورا تھا اور اللہ کی قدرت کا روشن مظہر تھا۔
5۔ قلبِ مقدس اور انوارِ محمدی
قلبِ اقدس میں انوارِ الٰہی پھوٹنے لگے، اور حضور ﷺ غیر اللہ سے منقطع ہو کر عشقِ الٰہی میں غرق ہو گئے۔ آپ ﷺ کی تین حیثیتیں نمایاں ہوئیں: اپنا سراپا، اللہ سے واصل، اور مخلوق میں شامل۔ حضور ﷺ اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں، اور تمام کائنات آپ کے فیضان رحمت سے مستفید ہے۔ معراج کے دوران تین اہم مراحل نظر آتے ہیں: پہلا، ابتدائی انوار اور تاریکی کا خاتمہ؛ دوسرا، عالمِ ملکوت میں کمالات کا ظہور اور فرشتوں کی پذیرائی؛ اور تیسرا، قلبِ اقدس میں انوارِ الٰہی کا پھوٹنا اور کائنات میں رحمتِ محمدی کا پھیلاؤ۔ یہ تمام مراحل انسانیت کے لیے روشنی، ہدایت اور روحانی فیض کا سبب بنے۔
فصل سوم: روئیت باری تعالیٰ کی تحقیق
برصغیر میں بعض دانشور اور مستشرقین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور معجزات پر شکوک و شبہات کی بنیاد رکھی۔ آیہ معراج کی تشریح کرتے ہوئے بعض علماء نے رؤیت باری تعالیٰ کو خارج از امکان قرار دیا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کے قرب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا متبادل سمجھا۔ اس موقف کی منطقی خامی یہ ہے کہ اگر معراج میں جبرئیل علیہ السلام کی قربت مقصود ہوتی، تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے بجائے جبرئیل کی عظمت ظاہر کرتی، حالانکہ معراج کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرف و قربِ الٰہی تھا۔
1۔ انکارِ رؤیت کے دلائل اور ان کا جائزہ
علماء میں دو طرح کے موقف پائے جاتے ہیں:
1. اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہی نہیں۔
2. دیدار ممکن ہے مگر شب معراج میں ایسا واقعہ نہیں ہوا۔
آیات کی تشریح
• الانعام 6: 103: " لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَار ُ" عام فہم میں رؤیت کی نفی کے طور پر پیش کی جاتی ہے، لیکن لفظ "ادراک" استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب کسی چیز کو احاطہ کرنا ہے، دیکھنا نہیں۔ محدود آنکھیں غیر محدود ذات کو احاطہ نہیں کر سکتیں، لیکن یہ دیدار کی نفی نہیں۔
• الشوریٰ 42: 51: یہاں بھی انسان کی طاقت سے اللہ سے ہمکلامی کی نفی کی گئی، نہ کہ رؤیت کی۔
حدیث و روایات
• "نوراً أَنّٰی أَرَاَه" (صحیح مسلم) کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دیکھا وہ نورانی جلوہ تھا، نہ کہ وہ دیکھنا ناممکن تھا۔
• اللہ تعالیٰ کو "نور" کہنا اس کی تجلی اور صفات کے لحاظ سے ہے، مخلوق کی طرح حقیقی نور سے تشبیہ ہے، نہ کہ ذات باری تعالیٰ کی ماہیت۔
2۔ امکان رؤیت باری تعالیٰ
• حضرت موسیٰ علیہ السلام کا استدعا: " ربّ أرنِی " (الاعراف 7: 143) سے معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت باری تعالیٰ دنیا میں ممکن ہے، البتہ معراج کی رات یہ شرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاص طور پر عطا ہوا۔
• اہل جنت کا دیدار: قیامت میں اللہ تعالیٰ کے بے حجاب جلوہ سے نوازا جائے گا (القیامة، 75: 22-23)
متفق علیہ حدیث
• " انکم سترون ربکم عیانا " (صحیح بخاری و دیگر) سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو آنکھ اور دل دونوں سے دیکھا۔
• امام حسن بصری اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے اقوال بھی رؤیت کی تصدیق کرتے ہیں۔
3۔ شب معراج اور دیدارِ الٰہی
• قرآن میں معراج کی تفصیل: "ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى" (النجم، 53: 8، 9) اور "مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی" (53: 11) سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار الٰہی کی تصدیق ہوتی ہے۔ معراج کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متعدد مرتبہ رب تعالیٰ کے جلوے کا مشاہدہ نصیب ہوا۔ واپسی کے بعد امت کے لیے پانچ نمازیں اور ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی استفسار اور دوبارہ تخفیف کی وجہ سے مقرر ہوئے۔
4۔ بصارت اور قلب مصطفوی ﷺ
• قرآن میں واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں نہ مائل ہوئیں اور نہ حد سے بڑھی (النجم، 53: 17)۔
• قلب انور نے بھی مشاہدہ اور تصدیق کی، جو ذات باری تعالیٰ کے دیدار کا عینی شہادت ہے۔
فصل چہارم: ازالہ شبہات
واقعہ معراج، جو سرے سے محیر العقول معجزہ ہے، انسانی عقل کے ادراک سے باہر ہے۔ اس معجزے کے مختلف پہلو ہزاروں کتب حدیث و سیر میں بکھرے ہوئے ہیں، اور ان کا جائزہ لینے کے بغیر معراج کی حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں۔ یہاں ایسے شبہات کا جائزہ لیا جائے گا جو کم علمی یا قلت مطالعہ کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان شبہات کا عملی جائزہ ضروری ہے تاکہ ایمان و یقین کی روشنی میں شکوک و شبہات دور رہیں۔
1۔ پہلا شبہ: جسمانی یا روحانی معراج
بیشتر لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہوا کہ معراج جسمانی تھی یا روحانی۔ بعض لوگوں نے سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جسم کے ساتھ عالم افلاک کا سفر کیا، جبکہ بعض نے اسے محض خواب یا روحانی حالت سمجھا۔ اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی تفصیلات کو اپنی محدود عقل سے پرکھنے کی کوشش کی گئی، جس سے جسمانی معراج کو سمجھنا مشکل لگتا ہے۔
دلیل جسمانی معراج: اگر یہ صرف خوابی کیفیت ہوتی، تو کفار مکہ اسے انکار نہ کرتے۔ ان کا انکار اس لیے تھا کہ جسمانی سفر ان کی عقل سے بالاتر تھا، نہ کہ خواب کی صورت میں۔
2۔ دوسرا شبہ: انتہائے سفر معراج
ایک اور شبہ یہ پیدا ہوا کہ معراج کا منتہا کہاں تھا؟ بعض نے کہا آسمان تک، بعض نے سدرۃ المنتہیٰ تک، اور کچھ نے عرش اعلیٰ یا حتیٰ کہ ذات خداوندی کے دیدار تک۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بعض جگہ واقعہ اجمالی اور بعض جگہ تفصیلی بیان ہوا ہے۔ تفسیر کی تفصیلات تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس لیے شبہات پیدا ہونا فطری ہے۔
3۔ تیسرا شبہ: معراج کی غرض و غایت
کچھ اہل علم نے یہ سوال اٹھایا کہ معراج کی غرض و غایت کیا تھی؟ بعض کے نزدیک سدرۃ المنتہیٰ پر جبرئیل کی اصل صورت دیکھنا مقصد تھا، اور بعض کے نزدیک ذات باری تعالیٰ کا بے حجاب دیدار۔ ان اختلافات کو سمجھنے کے لیے تفصیلی مطالعہ اور تفسیر و حدیث کی روشنی ضروری ہے۔
4۔ احادیث معراج اور اختلاف
واقعہ معراج کی تفصیلات ہزاروں احادیث میں موجود ہیں، اور اختلاف کی بظاہر صورت ہمارے محدود علم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت میں کوئی روایت دوسری سے متعارض نہیں۔ تقریباً 28 سے 34 صحابہ کرام نے اس واقعے کو روایت کیا، اور ان کے بیان کا دائرہ ان کی ذہنی استعداد اور موقع محل کے مطابق بدلتا رہا۔
اختلاف کی مثال: ایک سیاح کے مختلف ملاقاتوں میں بیان کردہ تجربات کے مختلف پہلو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ راوی کی تفصیل ہر ایک کے فہم اور توجہ کے مطابق بیان ہوتی ہے۔ اسی طرح معراج کے مختلف پہلو بھی راوی کے ظرف اور سوال کرنے والے کے علم کے مطابق بیان کیے گئے۔
واقعہ معراج کی تفصیلات کی کمیابی اور اختلافات کو دیکھ کر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ اختلاف ہماری محدود فہم کی وجہ سے ہے، نہ کہ حقیقت میں تضاد یا تعارض۔ ہر روایت اپنے سیاق و سباق میں قابل اعتماد ہے اور معراج کی عظمت اور حقیقت کو مجروح نہیں کرتی۔